سلائیڈرمکتوب مجالس

مجلس بعنوان: فضائل و مناقب سید الشھداء امام حسین علیہ السلام

حسین علیہ السلام پیکر نفس مطمئنہ

یہاں ہم الکوثر فی تفسیر القرآن کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام سے متعلق قرآنی آیات کا جائزہ لیں گے۔ کچھ آیات ایسی ہیں جن میں امام حسین ؑ پنجتن پاک کے ضمن میں شامل ہیں اور کچھ آیات ایسی ہیں جن کا مصداق کامل خود حسین ؑ کی ذات گرامی ہے۔ ہم عمومی آیات کا صرف حوالہ دینے پر اکتفاء کرینگے اورخصوصی آیات کو تفصیل کے ساتھ یہاں بیان کرینگے۔ ویسے تو اہل ایمان کی جتنی خصوصیات بیان ہوئی ہیں ان کا کامل ترین مصداق ائمہ اہل بیت علیھم السلام ہیں۔ تاہم چند آیات بطور خاص انہی ہستیوں کی مدح سرائی اور مناقب کو بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہیں۔ وہ چند عمومی آیات جن میں پنجتن پاک سمیت امام حسین علیہ السلام شامل ہیں درج ذیل ہیں۔

آیہ تطہیر

اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا (احزاب:33)

"اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔”

آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں:( الکوثر فی تفسیر القرآن؛ جلد؛7 ص؛46)

2۔ آیہ ِ مباہلہ

"فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ” (آل عمران:61)

"آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔”

آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں:( الکوثر فی تفسیر القرآن؛ جلد؛2 ص؛87)

3۔ آیہ قربیٰ

قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی مَنۡ یَّقۡتَرِفۡ حَسَنَۃً نَّزِدۡ لَہٗ فِیۡہَا حُسۡنًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ ( شوری:23)

"کہدیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے اور جو کوئی نیکی کمائے ہم اس کے لیے اس نیکی میں اچھا اضافہ کرتے ہیں، اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، قدردان ہے”

تفسیر ملاحظہ فرمائیں؛( الکوثر فی تفسیر القرآن؛ جلد؛8 ص؛71)

4۔ سورہ دھر معراج سخاوت اہل بیت کا قصیدہ

"اِنَّ الۡاَبۡرَارَ یَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ کَاۡسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوۡرًا ۚ۔۔۔۔۔وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا” ( سورہ دھر؛05 تا 08)

"نیکی کے مرتبے پر فائز لوگ ایسا مشروب پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہو گی۔۔ اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔”

تفسیر کے لئے ملاحظہ کیجیے ۔( الکوثر فی تفسیر القرآن؛ جلد؛9 ص؛412)

5۔ کلمات سے مراد اہل البیت

فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ (بقرہ؛37)

"پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے تو اللہ نے آدم کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔”

آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں:( الکوثر فی تفسیر القرآن؛ جلد؛1 ص؛277)

6۔ عظیم المرتبت گھرانہ

"فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَ یُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ۙ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیۡہَا بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ” ( النور:36)

(ہدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کی تعظیم کا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے کا بھی، وہ ان گھروں میں صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔

تفسیر ملاحظہ کیجیے۔( الکوثر فی تفسیر القرآن؛ جلد؛5 ص؛465)

وہ آیات جن کا مصداق کامل حسین علیہ السلام ہیں۔

1۔ حسین علیہ السلام پیکر نفس مطمئنہ

یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ۔ ( الفجر 27 تا 30)

” اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو۔ پھر میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔”

تفسیر آیات

۱۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا ہے اس نفس کے لیے جو ایمان و ایقان کی اس منزل پر فائز ہے جہاں دنیا میں شک کے اضطراب سے محفوظ اور مطمئن اور آخرت میں خوف و حزن سے محفوظ اور مطمئن ہے۔ جس نے عبودیت کا راز سمجھ لیا اور نفس کی معرفت حاصل کی تو اسے رب کی معرفت حاصل ہوئی۔ پھر نفس مطمئن ہو گیا۔ جس نے راز خلقت سمجھ لیا، پھر خالق کی رضا جوئی کے لیے تڑپ گیا، اسے رضائے رب ملنے پر اطمینان حاصل ہو گیا:

اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ (۱۳ رعد: ۲۸)

"اور یاد رکھو! یاد خداسے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔”

۲۔ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ: یہاں حکم ہے رب کی طرف رجوع کرنے کا۔ یعنی دنیا کی زندگی ترک کر کے اللہ کی بارگاہ کی طرف رجوع کرنے اور اللہ کی ضیافت میں آنے کا۔ رجوع کی دو قسمیں ہیں: رجوع اضطراری اور رجوع اختیاری۔ رجوع اضطراری کے تحت کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ۔ (۲۱ انبیاء: ۳۵) ہر شخص کو قہراً اللہ کی بارگاہ میں جانا ہے۔

رجوع اختیاری شہداء کی موت ہے جو اپنے اختیار سے جان، جان آفرین کے سپرد کرتے ہیں۔

آیت میں ارۡجِعِیۡۤ پلٹ آ کا حکم تکوینی ہے۔ یہ حکم موت کے وقت سے لے کر جنت میں داخل ہونے تک پر محیط ہے۔ چونکہ اِلٰی رَبِّکِ سے مراد الی رحمۃ ربک ہے اور ہر مرحلے میں رحمت الٰہی اس کے شامل ہو گی۔

۳۔ رَاضِیَۃً: وہ دنیا میں اللہ کے ہر فیصلے پر راضی تھا۔ اس کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع تھی۔ عندالموت اللہ کی طرف جانے پر راضی ہے۔ بعد الموت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں پر راضی ہے۔

۴۔ مَّرۡضِیَّۃً: اللہ اس سے راضی ہے۔ اللہ کی رضایت کا حصول اس کا بنیادی سرمایہ ہو گا۔ چنانچہ فرمایا: وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۷۲) اللہ کی خوشنودی ایسی نعمت ہے جو وصف و بیان سے بڑھ کر ہے۔

۵۔ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ: جن لوگوں نے بندگی کا حق ادا کیا ہے اور عبودیت کی معراج پر فائز ہوئے ہیں ان میں شامل ہو جا۔ سیاق آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہاں عِبٰدِيْسے مراد عباد صالحین ہیں۔

۶۔ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ: ’’میری جنت‘‘ فرما کر اس جنت کی شان واضح فرمائی جس میں داخل ہونے کا حکم ہے۔

مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا:کیا مومن قبض روح کو ناپسند کرتا ہے؟

فرمایا: قسم بخدا! نہیں۔ جب ملک الموت قبض روح کے لیے آتا ہے تو مومن پریشان ہو جاتا ہے۔ ملک الموت اس سے کہیں گا: اے ولی خدا! گھبراؤ نہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا ہے میں تجھ پر احسان اور شفقت میں مہربان باپ سے زیادہ ہوں۔ اپنی آنکھیں کھول کر دیکھ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امیرالمومنین فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام اور ان کی اولاد میں سے ائمہ علیہم السلام کو حاضر دیکھے گا۔ اس سے کہا جائے گا: یہ پاکیزہ ہستیاں تیری رفیق ہوں گی۔ جب آنکھیں کھول کر ان کو دیکھ لیتا ہے تو اس وقت منادی اس کی روح کو پکارے گا: یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ اے محمد و علی پر اطمینان حاصل کرنے والے ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً ولایت پر راضی ہو کر اور مَّرۡضِیَّۃً ثواب سے پسندیدہ ہو کر فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ میرے بندوں محمد و اہل بیتؑ میں شامل ہو جا وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ تو اس وقت اس کے لیے قبض روح سے زیادہ پسندیدہ چیز نہ ہو گی۔

(الکافی۳: ۱۲۷)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ اس آیت سے حضرت امام حسین علیہ السلام کو مراد لیا ہے۔ (بحار الانوار ۲۴: ۳۵۰)

واضح رہے اس قسم کی روایات کا مطلب اس آیت کے مصادیق میں سے صریح ترین مصداق کا تعین ہے۔ چنانچہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اس آیت کے صریح ترین مصداق ہیں۔

(الکوثر فی تفسیر القران جلد 10 صفحہ 165)

2۔ حسین علیہ السلام ذبح عظیم کا کامل مصداق

"وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ” ” اور ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا۔” (الصافات:107)

تفسیر آیات

ہم نے ایک عظیم ذبیحہ سے ابراہیم کے فرزند کا فدیہ دیا۔ بظاہر عظیم تو وہ فرزند تھے جن کا فدیہ دیا گیاہے۔لیکن قرآن اس ذبیحہ کو عظیم قرار دے رہا ہے۔

خصال صدوق میں روایت ہے کہ قیامت تک ہونے والی منیٰ کی قربانیاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ ہیں۔

بحارالانوار اور عیون اخبار الرضا میں آیا ہے: حج کے علاوہ ہر قربانی بھی اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ ہے۔ حضرت سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کا ذبح عظیم کے مصداق ہونے پر متعدد روایات موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو تاویل الایات الظاھرۃ صفحہ ۴۸۷ کہ ان تمام قربانیوں سے سبط رسولؐ کی قربانی عظیم ہونے میں کسے تأمل ہو سکتا ہے۔

(الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 329)

3۔ حضرت یحییٰ سے امام حسین علیہ السلام کی مشابہت

"یٰیَحۡیٰی خُذِ الۡکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ ؕ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحُکۡمَ صَبِیًّا” ( مریم:12)

” اے یحییٰ!کتاب (خدا)کو محکم تھام لو اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت عطا کی تھی۔”

تفسیر آیت: بچپن میں ان کو حکمت عنایت ہوئی سے مراد عقل و فہم بھی ہو سکتے ہیں اور نبوت بھی۔ یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے منتخب بندوں کو ابتدائے طفولیت ہی میں الہی منصب سے نوازے۔ اس کے دیگر شواہد اور نظیریں بھی موجود ہیں۔

٭حضرت یحییٰ کے(ع) کے عہد کا بادشاہ ہیرود اپنے بھائی کی بیوی پر فریفتہ ہو گیا تھا۔ حضرت یحیٰ اس بات پر ہیرود کی ملامت کرتے تھے۔ اس پر ہیرود نے ان کو گرفتار کیا۔ بعد میں اس فاحشہ عورت کی خواہش پر حضرت یحییٰ (ع) کا سرقلم کر کے ایک تھال میں رکھ کر اس کو نذر کیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک بھی تھال میں رکھ کر یزید کو پیش کیا جانا تھا۔ اس شباہت کی بنا پر امام حسین علیہ السلام حضرت یحییٰ کو یاد کرکے گریہ فرمایا کرتے تھے۔(بلاغ القرآن ؛ ذیل آیت)

4۔ امامت نسل امام حسین علیہ السلام میں

"وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ” (سوره زخرف ، آيه٢٨)

"اور اللہ نے اس (توحید پرستی) کو ابراہیم کی نسل میں کلمہ باقیہ قرارد یا تاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کریں۔”

تفسیر آیت:

۱۔اللہ تعالیٰ نے کلمۂ توحید کو دوام بخشا۔ جعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کے فاعل حقیقی نہیں ہیں۔ کلمۃ سے مراد کلمہ لا الٰہ الا اللہ ہے۔ اسے اللہ نے دوام بخشا۔

دوسری تفسیر یہ ہے جعلھا میں ضمیر برائت کی طرف جاتی ہے جو اِنَّنِیۡ بَرَآءٌ میں ضمناً مذکور ہے۔ یہ تفسیر پہلی تفسیر سے مختلف نہیں ہے چونکہ کلمہ لا الٰہ الا اللہ میں پہلے برائت ہے اور اس کا بھی نتیجہ توحید ہے چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعبیر میں ایک برائت ہے لا الٰہ اور اِلَّا الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ میں الا اللہ ہے۔

۲۔ فِیۡ عَقِبِہٖ: ان کی اولاد میں کلمۂ توحید یا برائت از مشرکین کو دوام بخشا۔ عَقِبِہٖ سے مراد تقریباً سب کے نزدیک اولاد ابراہیم ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا تھی: وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ۔ (۲ بقرہ: ۱۲۸)

چنانچہ برائت از مشرکین اور کلمۂ توحید کے روئے زمین پر دوام حاصل کرنے میں آلِ ابراہیم ہی کا کردار ہے۔ ان میں سے تین اولوالعزم ہیں: موسیٰ، عیسیٰ علیہما السلام اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ آج روئے زمین پر اہم ادیان کی بانی، آپ اور انہیں دوام دینے والی آپ علیہ السلام کی آل ہے: جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ۔ (۲۹ عنکبوت: ۲۷) اور دعائے ابراہیم بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی: وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ۔ (۲۶ شعراء: ۸۴) چنانچہ ہر امت ان کی آل کی تعظیم و توقیر کرتی ہے۔

عَقِبِہٖ کے مصداق اس امت میں آل محمد علیہم السلام ہیں۔

۱۔ حضرت حذیفہ بن یمان راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان اللّٰہ تبارک و تعالیٰ جعل الامامۃ فی عقب الحسین و ذلک قولہ تعالیٰ وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ۔۔۔۔ (ملاحظہ ہو کفایۃ الاثر صفحہ ۱۳۶ تالیف علی بن محمد الخزار کان حیا فی القرن الرابع )

اللہ تعالیٰ نے امامت کو حسین ؑ کی نسل میں رکھا ہے۔ چنانچہ اللہ کا فرمان ہے: وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ۔

۲۔ ابو ھریرہ: الاعرج ، ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:

جعل الامامۃ فی عقب الحسین ع یخرج من صلبہ تسعۃ من الائمۃ منہم مہدی ھذہ الامۃ۔۔۔۔ ( کفایۃ الاثر ص۸۶)

اللہ نے امامت حسین علیہ السلام کی اولاد میں رکھی ہے۔ آپؑ کی پشت سے نو اماموں کی ولادت ہو گی۔ ان میں ایک اس امت کے مہدی ہیں۔

۳۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے آیۂ وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ کی تلاوت فرما کر فرمایا:

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عقب ابراہیم و نحن اہل البیت عقب ابراہیم و عقب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ( تاویل الایات ص ۵۴۰)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابراہیم کی نسل اور ہم اہل بیت ابراہیم کی نسل اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل ہیں۔

۴۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ عَقِبِہٖ حضرت امام حسین کی اولاد کے بارے میں ہے۔ ( بحار الانوار ۲۴: ۱۷۹۔ کمال الدین ۲: ۴۱۵)

۵۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ سے مراد امامت ہے جو قیامت تک اولاد حسین علیہ السلام میں رکھی گئی ہے۔ ( مجمع البیان )

۶۔ امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے:

وفینا نزلت وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ۔ ( بحار الانوار ۵۱: ۱۳۴)

فرمایا: یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

اہم نکات

۱۔ قیامت تک توحید کے علمبردار ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم ہیں۔

(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 126)

مقام و منزلت امام حسینؑ بزبان رسول خاتمؐ

حضرت رسول خدا ﷺ امام حسین علیہ السلام سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی شان و منزلت اور مقام کیا تھا اس سلسلہ میں آپ کی بعض احادیث درج ذیل ہیں:

1۔”حُسَينٌ مِنِّي وأنا مِن حُسين، أحَبَّ اللهُ مَن أحبَّ حُسَيناً والحسين سبط من الأسباط

"حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں ، اللہ ہر اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین ؑسے محبت کرتا ہے۔”

(الجامع الصحيح سنن الترمذي الجزء 5 الصفحة 658۔ / المعجم الكبير ج3 ح2586 ص32)

2۔ "الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ

"حسن اور حسین علیھما السلام جوانان جنت کے سردار ہیں۔”(سنن الترمذي ،ج5/ص 656 )

3۔ "أن الحسين باب من أبواب الجنة من عاداه حرّم الله عليه ريح الجنة

"بے شک حسین ؑ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہیں جو کوئی بھی حسین ؑ سے دشمنی رکھے اللہ نے اس پر جنت کی خوشبو حرام کردی ہے۔”

)مائة منقبة: ص22 المنقبة الرابعة/بحار الانوار، ج؛35، ص:405(

4۔ "من أحب الحسن و الحسين فقد أحبني ، و من أبغضهما فقد أبغضني

"جو حسن اور حسین علیھما السلام سے محبت کرتا ہے پس وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو ان دونوں سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے۔”

(و رَواه أحمد بن حنبل في مسنده : 2 / 288 )

5۔ "من اراد ان ینظر الی سید شباب اھل الجنۃ فلینظر الی حسین ابن علی ۔”

"جو کوئی بھی چاہتا ہے کہ جنت کے جوان کی جانب دیکھے اسے چاہئیے کہ حسین بن علی علیہ السلام کو دیکھ لے ۔”

(سیراعلام النبلاء ، ج۳ ، ص ۱۹۰)

6۔ "انی حرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم۔”

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب علی ؑ فاطمۃ ؑ حسین اور حسین ؑ کی جانب دیکھ کر فرمایا) میری ہر اس سے جنگ ہے جس کی آپ سے جنگ ہے اور اس سے سلامتی ہے جس کی آپ کے ساتھ سلامتی ہے۔”

(فرائد السمطين: ج2 ص83)

7۔ "الحسن والحسين ابناي، من أحبَّهما أحبَّني، ومن أحبَّني أحبَّه اللهُ

"حسن اور حسین علیھما السلام میری دو بیٹے ہیں جو ان دونوں سے محبت رکھے اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی۔”

(المستدرك على الصحيحين رقم الحديث: 4719 )

عن البَرَّاء بن عازب، قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله حاملاً الحسين بن علي عليهما السلام على عاتقه وهو يقول: اللَّهُمَّ إِنِّي أُحبُّهُ فَأحِبَّه۔”

براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ص کو دیکھا کہ آپ ص نے حسین بن علیؑ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے یہ فرما رہے تھے” خداوندا! میں حسین ؑ سے محبت کرتا ہوں تو بھی حسین ؑ سے محبت کرے”

(مسند امام احمد، باب فضائل الحسن و الحسین علیھما السلام، ج۔3، ص؛192)

عن الرضا عن آبائه عليهم السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : "من أحب أن ينظر إلى أحب أهل الأرض إلى أهل السماء فلينظر إلى الحسين عليه السلام.”

امام رضا علیہ السلام اپنے آباء و اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: ” جو شخص زمین والوں سے لیکر آسمان والوں تک کی نگاہ میں محبوب ترین شخص کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ حسین علیہ السلام کو دیکھے۔”

(مناقب ابن شھر آشوب، ج؛3، س؛229/ بحار، ج:43، ص؛298)

10۔ روى الخطيب باسناده عن ابن عباس قال: «كنت عند النبي صلّى الله عليه وآله وسلّم وعلى فخذه الايسر ابنه إبراهيم، وعلى فخذه الأيمن الحسين بن علي، تارةً يقبّل هذا، وتارةً يقبّل هذا، إذ هبط عليه جبريل بوحي من رب العالمين. فلما سرى عنه قال: أتاني جبريل من ربي، فقال لي: يا محمّد ان ربك يقرأ عليك السلام ويقول لك: لست أجمعهما لك فافد أحدهما بصاحبه، فنظر النبي صلّى الله عليه وآله وسلّم إلى إبراهيم فبكى، ونظر إلى الحسين فبكى، ثم قال: ان إبراهيم أمّه أمة، ومتى مات لم يحزن عليه غيري، وأم الحسين فاطمة وأبوه علي ابن عمي لحمي ودمي، ومتى مات حزنت ابنتي وحزن ابن عمي، وحزنت أنا عليه وأنا أوثر حزني على حزنهما، يا جبريل تقبض إبراهيم فديته بإبراهيم، قال: فقبض بعد ثلاث، فكان النبي صلّى الله عليه وآله وسلّم إذا رأى الحسين مقبلا قبّله وضمه إلى صدره ورشف ثناياه، وقال: فديت من فديته بابني إبراهيم»۔

ﺧﻄﻴﺐ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﻛﺘﺎﺏ ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﻧﻘﻞ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﺧﺪﺍ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﮐﮧ آﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺯﺍﻧﻮ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻰ علیہ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺯﺍﻧﻮ ﭘﺮ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ آﭖ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺴﻴﻦ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺟﺒﺮﺋﻴﻞ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺣﺎﻣﻞ ﻭﺣﻰ الٰہی ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﭘﻴﻐﻤﺒﺮ ﺍﻛﺮﻡ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺟﺒﺮﺋﻴﻞ آﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﺒﺮ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪ ﻧﮯ آﭖ ﭘﺮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ آﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺯﺍﻧﻮ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺩﻭ ﺑﭽﮯ ﺑﭩﮭﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ آﭖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﻮﮞ ﮔﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔ ﺭﺳﻮﻝ ﺧﺪﺍ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﻮ آﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ آﻧﺴﻮ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺣﺴﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﻮ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ۔ ﭘﮭﺮ آﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﯿﺰ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺣﺴﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻓﺎﻃﻤﻪ ﻋﻠﻴﮩﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﻭﺭ اس ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﭼﭽﺎ ﺯﺍﺩ ﻋﻠﻰ علیہ السلام ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﮔﻮﺷﺖ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻥ ہیں، ﺟﺐ ﺣﺴﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﺱ ﺩﻧﻴﺎ ﺳﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻏﻢ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻏﻢ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻏﻢ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻢ ﮐﻮ ﺗﺮﺟﯿﺢ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔

ﺍﮮ ﺟﺒﺮﺋﻴﻞ ! ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﻮ ﻣﺠھ ﺳﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺴﻴﻦ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺣﺴﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ آﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ آﺗﮯ ﺗﻮ آپﭖ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﻣﺘﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺒﻮﮞ، ﮔﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ؛

"ﻓﺪﻳﺖ ﻣﻦ ﻓﺪﻳﺘﻪ ﺑﺈﺑﻨﻲ ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ”

"ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﻮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔”

(تاريخ بغداد ج2، ص204)

11۔ عن ابن عباس فقال: "حضرت رسول الله صلّى الله عليه وآله وسلّم عند وفاته وهو يجود بنفسه، وقد ضم الحسين الى صدره وهو يقول: هذا من اطائب أرومتي وأبرار عترتي وخيار ذريتي، لا بارك الله فيمن لم يحفظه من بعدي. قال ابن عباس: ثم أغمي على رسول الله ساعة، ثم أفاق، فقال: يا حسين، ان لي ولقاتلك يوم القيامة مقاماً بين يدي ربي وخصومة، وقد طابت نفسي إذ جعلني الله خصماً لمن قاتلك يوم القيامة۔”

ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوا درحا لنکہ آپ ؐ جان کنی کی حالت میں تھے۔ اور آپ ؐ حسین ؑ کو اپنے سینے سے لگا کر ارشاد فرما رہے تھے: یہ میرے خاندان کا صالح ترین، میری عترت کا باشرف ترین اور میری ذریت کا نیک ترین فرد ہیں۔ خدا اس شخص کو سعادت نصیب نہ کرے جو میرے بعد ان کی حفاظت نہ کرے۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ساعت کے لئے غشی کی حالت میں چلے گئے اور پھر دوبارہ افاقہ ہوا اور فرمایا: اے حسین ؑ! قیامت کے دن میرے پروردگار کی بارگاہ میں میرے اور تیرے قاتل کے مابین مقدمہ ہوگا۔ اور میرے لئے کتنا اچھا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھے تیرے قاتل کا حریف بنا دے گا۔”

(إحقاق الحق: ١١ / ٣٢٩ و ٣٦٥ إلى ٣٦٨)

12۔ عن الامام الحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام قال : دخلت على رسول الله صلى الله عليه وآله وعنده أبي بن كعب فقال لي رسول الله : مرحبا بك يا أبا عبد الله يا زين السماوات والأرضين . قال له أبي : وكيف يكون يا رسول الله زين السماوات والأرضين أحد غيرك ؟ قال: يا أبي: والذي بعثني بالحق نبيا , ان الحسين بن علي في السماء أكبر منه في الأرض , وانه لمكتوب عن يمين عرش الله عز وجل :انہ مصباح هدى وسفينة نجاة وامام خير ويمن وعز وفخر وعلم وذخر وان الله عز وجل ركب في صلبه نطفة طيبة مباركة زكية ۔۔۔”

” امام حسین ابن علی علیھما السلام روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ابی ابن کعب آپ کے پاس بیٹھے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: خوش آمدید اے ابا عبد اللہ، اے آسمانوں اور زمینوں کی زینت۔ ابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ، آپ کے علاوہ کوئی اور آسمانوں اور زمینوں کی زینت کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: اے ابی ! اس ذات کی قسم جس نے مجھے نبی بنا کر مبعوث کیا بے شک حسین ابن علی ؑ آسمان میں زمین سے بھی زیادہ عظیم ہیں۔ اور بتحقیق عرش الٰہی کے دائیں جانب لکھا ہوا ہے : کہ بے شک (حسین ؑ) چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہیں۔ اور آپ خیر، برکت، عزت، فخر ، علم اور شرف کے امام ہیں۔ اور بتحقیق خداوند متعال نے ان کے صلب میں ایک پاک و پاکیزہ اور مبارک نطفہ قرار دیا ہے۔۔۔۔۔”

(عيون أخبار الرضا عليه السلام: 2/62، بحار الانوار، ج،91، ص:187)

13۔ عن أنس بن مالك قال:سمعت رسول الله يقول نحن ولد عبد المطلب سادة أهل الجنة، أنا وحمزة وعلي وجعفر والحسن والحسين والمهدي۔”

انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ص کو یہ فرماتے ہوئے سنا "ہم عبد المطلب کی اولاد اہل جنت کے سردار ہونگے: میں، حمزہ،علی ؑ،جعفرِ حسن اور حسین ؑ”

(مناقب الإمام علي من الرياض النضرة ح268 ص202)

14۔ "عن أبي أيّوب الأنصاري قال : دخلت على رسول الله (صلّى الله عليه وآله) والحَسَن والحُسَيْن يلعبان بين يديه في حجره ، فقلت : يا رسول الله , أتحبّهما ؟ قال : (( وكيف لا أُحبّهما وهما ريحانتاي من الدنيا أشمّهما ؟

جناب ایوب انصاری روایت کرتے ہیں کہ میں رسول خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپؐ اپنے حجرے میں تشریف فرما ہیں اور حسن و حسین علیھما السلام آپ ؐ کے دست مبارک سے کھیل رہے ہیں۔ میں نے پوچھا! یا رسول اللہ ﷺ! کیا آپ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں؟ تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ” میں کیسے ان دونوں سے محبت نہ کروں درحالنکہ یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں جن کی میں خوشبو سونگھتا ہوں۔

(تاريخ مدينة دمشق 14 / 130 ح 3422 ، سير أعلام النبلاء 4 / 403 رقم 270 ، كفاية الطالب / 379)

15۔ عن علي (عليه السّلام) : ( إنَّ النبي (صلّى الله عليه وآله) أخذ بيد الحسن والحسين فقال : مَنْ أحبّني وأحبّ هذين وأباهما وأُمّهما كان معي في درجتي يوم القيامة )

امام علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے حسن و حسین علیھما السلام کے ہاتھوں کو پکڑ کر فرمایا ” جو مجھ سے محبت کرے اور ان دونوں سے، ان کے پدر بزگوار سے اور ان کی مادر گرامی سے محبت کرے تو قیامت کے دن وہ میرے درجے میں میرے ہمراہ ہونگے۔”

(الرياض النضرة في مناقب العشرة 2 / 189 ، كنز العمال 12 / 96 رقم 34161 ، ص 103 ح 34196 ، ينابيع المودة / 192)۔

16۔عن أبي هريرة قال : خرج علينا رسول الله (صلّى الله عليه وآله) ومعه الحسن والحسين , هذا على عاتقه وهذا على عاتقه ، وهو يلثم ـ أي يقبّل ـ هذا مرةً وهذا مرّة حتّى انتهى إلينا ، فقال له رجل : يا رسول الله ، إنّك تحبّهما ؟ فقال : ( نعم ، مَنْ أحبّهما فقد أحبّني ، ومَنْ أبغضهما فقد أبغضني )

ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ ہمارے پاس تشریف لا رہے تھے اور حسن و حسین علیھما السلام بھی آپ ؐ کے ہمراہ تھے۔ ایک آپ ؐ (دائیں) کندھے پر اور ایک (بائیں) کندھے پر تشریف فرما تھے اور آپ باری باری دونوں کے بوسے لے رہے تھے یہاں تک کہ آپ ؐ ہمارے پاس پہنچ گئے تو ایک شخص نے آپ ؐ سے استفسار کیا یا رسول اللہ ﷺ! کیا آپ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ہاں، جو ان دونوں سے محبت کرے اس نے مجھ سے محبت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے اس نے مجھ سے بغض رکھا۔”

17۔ قال رسول الله لعلي بن ابي طالب: إن أول أربعة يدخلون الجنة أنا وأنت والحسن والحسين

رسول اکرم ص نے امام علی ؑ سے فرمایا” بتحقیق سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے چار افراد میں،آپ،حسن اور حسین ع ہونگے”

(نور الأبصار ص123)

18۔ ابو ہریرہ سے روایت ہے :میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺامام حسین کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے یہ فرما رہے تھے :”اللھم انی احِبُّه فاحبّه،””پروردگار میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ‘خدایا میں اس کو دوست رکھتا اور جو اس کو دوست رکھتا ہے اس کوبھی دوست رکھتاہوں” ”(مستدرک حاکم ،جلد ٣،صفحہ ١٧٧)”۔ اسی طرح ارشاد فرمایا” اللھم انی اُ حِبُّہ وَ أُحِبَّ کُلَّ مَنْ یُحِبُّہُ” (نور الابصار، صفحہ ١٢٩)

19۔یعلی بن مرہ سے روایت ہے :ہم نبی اکرم ﷺکے ساتھ ایک دعوت میں جا رہے تھے تو آنحضرت نے دیکھا کہ حسین سکوں سے کھیل رہے ہیں تو آپ نے کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھ امام کی طرف پھیلادئے ،آپ مسکرارہے تھے اور کہتے جا رہے تھے، بیٹا ادھر آئو ادھرآئویہاں تک کہ آپ نے امام حسین کو اپنی آغوش میں لئے ، ان کے بوسے لئے اور فرمایا:”حسين منی وانامن حسين،احب اللّٰه من احب حسينا،حسين سبط من الاسباط‘حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں خدایاجو حسین سے محبت کرے تو اس سے محبت کر ، حسین بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے۔”

”(سنن ابن ماجہ ،جلد ١،صفحہ ٥٦)

20۔سلمان فا رسی سے روایت ہے :جب میں نبی کی خدمت میں حا ضر ہوا تو امام حسین علیہ السلام آپ کی ران پر بیٹھے ہوئے تھے اور نبی اکرم ص آپ کے رخسار پربوسہ دیتے ہوئے فر ما رہے تھے :

انت سيد ُبْنُ سَيد،انت امام بن امام،وَاَخُوْااِمَامٍ،وَاَبُوالاَئِمَةِ،وَاَنْتَ حُجَّةُ اللّٰه وَابْنُ حُجَّتِه،وَاَبُوْحُجَجٍ تِسْعَةٍ مِنْ صُلْبِکَ،تَاسِعُهمْ قَائِمُهمْ”۔

”آپ سید بن سید،امام بن امام ،امام کے بھا ئی،ائمہ کے پدر ،آپ اللہ کی حجت اور اس کی حجت کے فرزند،اور اپنے صلب سے نو حجتوں کے پدر ہیں جن کا نواں قا ئم ہوگا ”۔

(حیاةالامام حسین ، جلد ١،صفحہ ٩٥)

21۔ابن عباس سے مروی ہے :رسول اسلام اپنے کا ندھے پر حسین کو بٹھا ئے لئے جا رہے تھے تو ایک شخص نے کہا : ”نِعم المرکب رکبت ياغلام ،فاجا به الرسول :”ونعم الراکب هوَ”۔

(تاجِ جامع للاصول ،جلد ٣،صفحہ ٢١٨)

”کتنا اچھا مرکب (سواری )ہے جو اس بچہ کو اٹھا ئے ہوئے ہے، رسول اللہ ﷺنے جواب میں فرمایا:”یہ سوار بہت اچھا ہے ”۔

22رسول اللہ کا فرمان ہے :”ھذا(يعنی :الحسين )امام بن امام ابوائمةٍ تسعةٍ”۔

”یہ یعنی امام حسین امام بن امام اور نو اماموں کے باپ ہیں”۔

(منہاج السنة، جلد ٤،صفحہ ٢١٠)

23۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہماسے مروی حدیث شریف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے متعلق ارشادفرمایا:

ھذَانِ ابْنَایَ وَابْنَا ابْنَتِی اللَّھمَّ إِنِّی أُحِبُّھمَا فَأَحِبَّھمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّھمَا .

فرمایا:”یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں ائے اللہ !تو ان دونوں سے محبت فرما اور جو ان سے محبت رکھے اسکو اپنا محبوب بنالے۔”

(جامع ترمذی، حدیث 4138 )

24۔ عَنْ فَاطِمَۃَ بنتِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ و آلہ َسَلَّمَ: أَنَّہَا أَتَتْ بِالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی شَکْوَاہُ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیہِ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّہِ ! ہَذَانِ ابْنَاکَ فَوَرِّثْہُمَا شَیْئًا، فَقَالَ:أَمَّا الْحَسَنُ فَلَہُ ہَیْبَتِی وَسُؤْدُدِی، وَأَمَّا حُسَیْنٌ فَلَہُ جُرْأَتِی وَجُودِی۔”

خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا سے روایت ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران حضرت حسن وحسین رضی اللہ تعالی عنہما کو آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض کیا : یا رسول اﷲ ﷺ!یہ آپ کے شہزادے ہیں، انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں! تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حسن’ میرے جاہ وجلال اور سرداری کا وارث ہے اور حسین’ میری جرات و سخاوت کا وارث ہے۔”

(معجم کبیر طبرانی، حدیث 18474)

25۔ سنن نسائی، مسند امام أحمد، مصنف ابن أبی شیبۃ، مستدرک علی الصحیحین، معجم کبیرطبرانی، مجمع الزوائد، سنن الکبری للبیہقی، سنن کبری للنسائی، المطالب العالیۃ ، مسند أبی یعلی اور کنز العمال وغیرہ میں حدیث مبارک ہے :

عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی إِحْدَی صَلَاتَیْ الْعِشَاءِ وَہُوَ حَامِلٌ حَسَنًا أَوْ حُسَیْنًا فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَہُ ثُمَّ کَبَّرَ لِلصَّلَاۃِ فَصَلَّی فَسَجَدَ بَیْنَ ظَہْرَانَیْ صَلَاتِہِ سَجْدَۃً أَطَالَہَا قَالَ أَبِی فَرَفَعْتُ رَأْسِی وَإِذَا الصَّبِیُّ عَلَی ظَہْرِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ سَاجِدٌ فَرَجَعْتُ إِلَی سُجُودِی فَلَمَّا قَضَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلَاۃَ قَالَ النَّاسُ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّکَ سَجَدْتَ بَیْنَ ظَہْرَانَیْ صَلَاتِکَ سَجْدَۃً أَطَلْتَہَا حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ أَوْ أَنَّہُ یُوحَی إِلَیْکَ قَالَ کُلُّ ذَلِکَ لَمْ یَکُنْ وَلَکِنَّ ابْنِی ارْتَحَلَنِی فَکَرِہْتُ أَنْ أُعَجِّلَہُ حَتَّی یَقْضِیَ حَاجَتَہ۔

حضرت عبد اللہ بن شداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ،انہوں نے فرمایاکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عشاء کی نمازکیلئے ہمارے پاس تشریف لائے،اس حال میں کہ آپ حضرت حسن یا حضرت حسین علیھما السلام کواٹھائے ہوئے تھے ،پھرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے تشریف لے گئے اور انہیں بٹھادیا،پھرآپ نے نمازکیلئے تکبیرفرمائی اور نمازادافرمانے لگے ،اثناء نماز آپ نے طویل سجدہ فرمایا، میرے والد کہتے ہیں :میں نے سر اٹھاکر دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں ہیں اور شہزادے رضی اللہ عنہ آپ کی پشت انور پر ہیں ، تو میں پھر سجدہ میں چلاگیا، جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازسے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! آپ نے نمازمیں سجدہ اتنا دراز فرمایا کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی واقعہ پیش تو نہیں آیا، یا آپ پروحی الہی کا نزول ہورہا ہے ،تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی سوائے یہ کہ میرا بیٹا مجھ پرسوار ہوگیا تھا،اور جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترتے مجھے عجلت کرنا ناپسند ہوا۔”

(سنن نسائی ،حدیث نمبر-1129مسند امام أحمد، حدیث نمبر-15456مصنف ابن أبی شیبۃ،ج7،ص514۔مستدرک علی الصحیحین ، حدیث نمبر-4759/6707معجم کبیرطبرانی، حدیث نمبر-6963مجمع الزوائد،ج9،ص-181سنن الکبری للبیہقی،حدیث نمبر-3558سنن کبری للنسائی،ج1،ص243، حدیث نمبر-727المطالب العالیۃ ، حدیث نمبر-4069مسند أبی یعلی، حدیث نمبر-3334)۔

26۔ جیسا کہ جامع ترمذی شریف سنن ابوداؤدشریف ،سنن نسائی شریف میں حدیث مبارک ہے۔

"حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا حبیب اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سرخ دھاری دار قمیص مبارک زیب تن کئے لڑکھڑاتے ہوئے آرہے تھے توحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر شریف سے نیچے تشریف لائے امام حسن وامام حسین رضی ا للہ عنہما کوگود میں اٹھالیاپھر(منبر مقدس پر رونق افروز ہوکر)ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا،تمہارے مال اورتمہاری اولادایک امتحان ہے میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا سنبھل سنبھل کرچلتے ہوئے آرہے تھے لڑکھڑارہے تھے مجھ سے صبر نہ ہوسکا یہاں تک کہ میں نے اپنے خطبہ کو موقوف کرکے انہیں اٹھالیا ہے ۔

(جا مع ترمذی شریف ج2،ابواب المناقب ص 218حدیث نمبر3707:۔سنن ابوداؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر935:۔سنن نسائی کتاب الجمعۃحدیث نمبر:1396 زجاجۃ المصابیح ج 5ص333)

27۔یزید بن ابو زیاد سے روایت ہے :نبی اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عا ئشہ کے گھر سے نکل کر حضرت فاطمہ زہرا کے بیت الشرف کی طرف سے گزرے تو آپ کے کانوں میں امام حسین ؑ کے گریہ کرنے کی آواز آ ئی، آپ بے چین ہوگئے اور جناب فاطمہ ؑ سے فر مایا:

اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَائَه يوْذِينِیْ؟”۔

”کیا تمھیں نہیں معلوم حسین کے رونے سے مجھ کو تکلیف ہو تی ہے ”۔

(مجمع الزوائد، جلد ٩،صفحہ ٢٠١)

28۔ ابو ہریرہ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیۂ کریمہ ﴿وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ) (سوره زخرف ، آيه٢٨) کے بارے میں سوال ہوا تو آپ ؐ نے فرمایا: ”جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي عَقِبِ الْحُسَيْنِ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ تِسْعَةٌ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَ مِنْهُمْ مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ ثُمَّ قَالَ : لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ مُبْغِضاً لِأَهلِ بَيْتِي دَخَلَ النَّارَ“۔

” پروردگار نے حسین ؑ کی نسل میں امامت کو قرار دیا ہے اور ان کے صلب سے نو امام آئیں گے جن میں آخری مہدی (عج) ہوں گے۔

پھر فرمایا: اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان خدا کی عبادت کرتا ہوا مرجائے اور اس کے دل میں بغض اہل بیت(ع) ہو تو یقینا جہنم واصل ہوگا۔”

(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ٧٦؛ علامہ مجلسی، بحار، ٣٦، ص٣١٥، ح١٦٠؛ بحرانی، البرهان، ج٤، ص١٤٠، )

مفکرین کی آراء

نواسہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حسین علیہ السلام کی ذات گرامی ایک عالمی و آفاقی شخصیت ہیں۔ آپ کی شخصیت کی جامعیت و جاذبیت اور آفاقی پیغام نے دنیا کے ہر بالغ نظر اشخاص کو اپنی جانب متوجہ کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں ہر قوم و مذہب کی نابغہ روزگار شخصیات نے اپنی بساط کے مطابق آپ ؑ کی شخصیت ،آپ کی قربانی اور آپ کے پیغام کے بارے قلم اٹھانے کی کوشش کی اور کر رہے ہیں۔ جس شخص نے آپ ؑ کی زندگی کو جس جہت سے مطالعہ کیا اس میں آپ ؑ کی ذات کو با کمال پایا۔ البتہ یہ بات توجہ کے قابل ہے کہ آج تک کسی انسان نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس نے کتابت و خطابت کے اعتبار سے امام حسین علیہ السلام کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے ۔ اگر ان سب آراء کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔ لہذا یہاں ہم اختصار کے ساتھ ادیان عالم کے چند ایک مشاہیر افراد کی باتوں کو نقل کریں گے۔ فی الحال ہمارے پیش نظر اہل سنت کے کچھ مشہور اکابرین اور غیر مسلم بعض مفکرین کے امام حسین ع کے بارے میں اظہار عقیدت کو بیان کرنا ہے۔

1۔مسلمان مفکرین

1۔ جلال الدین سیوطی( وفات 911ھ)

اصل نام عبد الرحمان ، لقب جلال الدین اور عرف ابن کتب تھا۔اہل سنت کے ایک مشہورمفسر، محدث،فقیہ اور مورخ تھے۔ آپ کی کثیر تصانیف ہیں، آپ کی کتب کی تعداد 500 سے زائد ہے۔تفسیر جلالین اور تفسیر درمنثور کے علاوہ قرآنیات پر الاتقان فی علوم القرآن علما ءمیں کافی مقبول ہے ۔ آپ نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ا ندوہناک واقعے کو اس طرح بیان کیا۔

"امام حسین علیہ السلام کو روز عاشوراء قتل کیا گیا مگر اس دن کے بعد افق آسمان سرخ ہوگیا اور چھے ماہ تک ایسے محسوس ہوتا تھا کہ آسمان پر خون ہی خون ہے جو کہ قتل امام حسین علیہ السلام سے پہلے نہ تھا اور کہا جاتا ہے کہ بیت المقدس کے جس پتھر کو اٹھا کر دیکھتے خون ظاہر ہوتا تھا”

2۔ ابن خلدون (پیدائش: 1332ء -وفات: 1406ء)

ابن خلدون عالم اسلام کے مشہور و معروف مورخ،فقیہ، فلسفی اور سیاستدان تھے۔ ان کا اصل نام عبد الرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون المالکی تھا۔ آپ امام حسین ؑ کے قیام کے بارے لکھتے ہیں:

” ظالم اور ستمگروں سے لڑنے کے لیے عادل امام کا ہونا شرط ہے اور حسینؑ اپنے زمانے کے عادل ترین فرد تھے اور اس جنگ کرنے کے حق دار تھے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: جب یزید کا فسق سب پر آشکار ہوا تو حسینؑ نے اس کے خلاف قیام کرنے کو اپنے او پر واجب سمجھا کیونکہ خود کو اس کام کا اہل سمجھتے تھے”۔( تاریخ ابن خلدون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص217).

3۔ڈاکٹرطہٰ حسین:( جامعہ قاہرہ مصر)

اہل سنت کے مصنف ڈاکٹر طہ حسین بیسویں صدی کے موثر مصری ادبا اور دانشوروں میں سے ایک تھے۔ امام حسین ؑ کے قیام کے بارے ان کا کہنا تھا کہ "حسینؑ کا بیعت نہ کرنا ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر یزید کی بیعت کرلیتے تو اپنے وجدان سے خیانت کا ارتکاب کرتےاور دین کی مخالفت کرتے، کیونکہ یزید کی بیعت ان کی نظر میں گناہ تھا۔امام حسین ؑ حق کے مقابلے میں چشم پوشی کو قطعاً پسند نہیں فرماتے تھے ۔آپ تمام امور اسلامی میں انتہائی زیرک اور مدبرانہ فکر رکھتے تھے”۔(طہ حسین، علی و بنوہ، دارالمعارف، ص239)

4۔ عباس محمود عقاد( بیسویں صدی کے ایک مایہ نازمصری مفکر و ادیب اور شاعر تھے)

عباس محمود عقاد نے مستقلاً امام حسینؑ کی شخصیت پرکتابیں لکھی ہیں جن میں سے سب سے زیادہ مشہور کتاب ” ابو الشھداء الحسین ابن علی علیہما السلام "ہے۔

اپنی کتاب «ابوالشهداء، الحسین بن علیؑ» میں لکھتے ہیں ” یزید کے دور میں حالات اس نہج پر پہنچے تھے کہ شہادت کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ اور اس کا کہنا تھا کہ ایسے قیام بہت کم لوگ کی طرف سے واقع ہوتے ہیں جو اسی کام کے لیے ہی خلق ہوئے ہیں ان کی تحریک کو دوسروں کی تحریک سے مقایسہ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ کچھ اور طرح سے سمجھتے ہیں اور کچھ اور چاہتے ہیں”۔ وہ مزید لکھتے ہیں،

"انقلاب حسینیؑ تاریخ میں رونما ہونے والی انقلابی تحریکوں میں اپنی مثال نہیں رکھتے، چاہے اب تک انجام پانے والے دینی انقلاب ہوں یا سیاسی انقلاب۔ اس انقلاب کے بعد اموی حکومت ایک عام انسان کی عمر تک بھی قائم نہ رہ سکی، کیونکہ انقلاب حسینیؑ اور اموی حکومت کےسقوط کے دوران کم و بیش ساٹھ سال کی مدت ہے”( عقاد، ابوالشهداء، 1429ق، ص207.)

5۔عمر بن عبد اللہ فروخ ، (مشہور عمر فروخ):( لبنان سے تعلق رکھنے والا اہل سنت ادیب و مفکر)

موجودہ دور میں مسلمانوں کے لئے قیام امام حسین ؑ کو مشعل راہ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ”ظلم کے بارے میں سکوت کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، اور آج کے مسلمانوں کے لیے ضرورت اسی بات کی ہے کہ ہمارے درمیان ایک حسینی قیام کرے اور ہمیں سیدھے راستے میں حق کے دفاع کرنے کی رہنمائی کرے۔”( فروخ، تجدید فی المسلمین فی الإسلام، دار الكتاب العربی، ص152)

6۔ خواجہ معین الدین چشتی : ( ہندوستان میں سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ ہیں،)

"حسین(ع)، صرف ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظریے کا نام ہے‘ ایک اصول اور ایک نظامِ حیات کا نام ہے۔ حسینیت امن و سلامتی اور حق کی علامت ہے۔ حسینیت دینِ فطرت اور انسانیت کی اساس ہے‘ بقول خواجہ معین الدین چشتیؒ: شاہ است حسین(ع) بادشاہ است حسین(ع) دین است حسین(ع) دین پناہ است حسین(ع) سرداد نہ داد دست در دست یزید حقا کہ بنائے لا الہ است حسین(ع)۔

7۔ڈاکٹر محمد طاہر القادری:( سربراہ منھاج القران پاکستان)

منہاج القرآن کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کہتے ہیں کہ "شہادت امام حسین (ع) سیرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ایک باب ہے۔ امت کو جو فیض حضور اکرم ص کی سیرت سے ملتا ہے، وہی فیض امام حسین (ع) کی سیرت سے ملتا ہے۔ضروری ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ ذکر امام حسین علیہ السلام کیوں ضروری ہے؟ اگر ذکر امام حسین علیہ السلام ضروری نہیں اور شہادت امام حسین علیہ السلام کا تذکرہ اور ذکر اہل بیت ضروری نہیں تو پھر آقا علیہ السلام کی امت میں کسی کا ذکر بھی ضروری نہیں ہے کیونکہ ذکر حسین علیہ السلام حقیقت میں خود ذکر مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ شہادت امام حسین علیہ السلام حقیقت میں سیرت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک باب ہے۔ یہ واحد ایک ایسی شہادت ہے جس کا تفصیلی ذکر خود آقا علیہ السلام نے اپنے صحابہ کرام کے سامنے فرمایا۔اس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک اور صلحاء بندوں کا ذکر کرنا سنت الہٰیہ ہے۔ ذکر حسین علیہ السلام کرکے درحقیقت ہم سنت الہٰیہ پر عمل پیرا ہیں”۔( تحریک منھاج القرآن کی آفیشل ویب سائٹ)۔(www.minhag.org

2۔غیر مسلم مفکرین

1۔ جارج جرداق –( مسیحی مصنف و شاعر، لبنان)

حضرت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہتا ہے :

وہ پیکر غیرت کہ جسے اپنی و اہل و عیال کی عزت و ناموس کا اتنا خیال تھا کہ جب میدان میں تن تنہا رہ گیا تھا اور ہر سمت سے تیر و تلوار سے حملے کئے جارہے تھے اس وقت نظر پڑی کہ اہل کوفہ خیام پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو اپنا ہاتھ بلند کر کے فرماتے ہیں؛

"اے آل ابی سفیان کے ماننے والو! اگر تم لوگ دین محمدی سے بالکل ہی کنارہ کشی اختیار کرچکے ہو تب بھی دنیاوی اخلاقیات کا لحاظ رکھو”( العتبہ الحسینیہ المقدسہ،آفیشل ویب سائٹ۔((www.imamhussain.org

.2 چارلس ڈیکنز: عصر ملکہ برطانیہ "وکٹوریہ "کے بے نظیر مصنف

امام حسین ؑ کی قربانی کے بارے لکھتے ہیں؛

"میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر حسین علیہ السلام نے دنیاوی اہداف کی خاطر جنگ کی تو اپنے ساتھ بہنوں عورتوں اور بچوں کو میدان کربلا میں کیوں لائے؟اور اگر ایسا نہیں تو عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ آپ علیہ السلام نے اسلام کی خاطر قربانی دی”

3۔ فریا اسٹارک: معروف برطانوی ادیب فریا اسٹارک، کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ 1934ء میں عراق کے بارے میں انہوں نے ایک سفر نامہ ’’دی ویلی آف حسینؑ‘‘ لکھا کہ امام حسینؑ نے جہاں خیمے لگائے وہاں دشمنوں نے محاصرہ کر لیا اور پانی بند کر دیا۔ یہ کہانی آج بھی اتنی ہی دلگیر ہے جتنی 1275 برس پہلے تھی۔ کربلا ان واقعات میں سے ایک ہے جس کو پڑھ کر کوئی روئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

4۔ انتونی بارا (Antoine Bara) لبنان کے ایک مشہور عیسائی مصنف

انہوں نے امام حسین ع کے بارے ایک کتاب بنامHussain in Christian Idealogy, 2008] ) لکھی جس میں وہ لکھتا ہے

"میں نہیں مانتا کہ امام حسین صرف شیعوں یا صرف مسلمانوں کے امام ہیں، میرا ماننا ہے کہ وہ تمام عالم کے امام ہیں کیونکہ وہ تمام مذاہب کا ضمیر ہیں۔مزید لکھتے ہیں کہ امام حسین ع کا یہ انقلاب دنیا کے تمام انقلابات سے عظیم تھا آپ کی شہادت تمام قربانیوں اور شہادتوں کو کامل کرنے والی ہے۔ اگر ہمارے ساتھ حسین ؑجیسی ہستی ہوتی تو ہم دنیا کے مختلف حصوں میں امام حسینؑ کے نام کا پرچم لے کر مینار تعمیر کرکے لوگوں کو عیسائیت کی طرف بلاتے، لیکن افسوس عیسائیت کے پاس حسین ؑ نہیں”

5۔ تھامس کارلائل ( برطانوی مستشرق)

"کربلا کے بارے میں ان کا کہنا تھا”واقعہ کربلا نے حق و باطل کے مقابلے میں عددی برتری کی اہمیت کو ختم کر دیا معرکہ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ امام حسینؓ اور ان کے رفقاء خدا کے سچے پیروکار تھے۔ قلیل ہونے کے باوجود امام کی فتح متاثر کرتی ہے۔”

6۔ برطانیہ کےWilliam Muir نے اپنی کتاب( Annals of the Early Caliphate ,1883میں لکھا ہے کہ کربلا کے حادثے نے تاریخِ محمد میں خلافت کے خاتمے کے بعد بھی اسلام کو انسانی ذہنوں میں زندہ رکھا ہے۔ واقعہ کربلا نے نہ صرف استبدادی خلافت کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا بلکہ محمدیؐ ریاست کے اصول و معیار بھی متعین کر دیئے، جو ابتدائی خلافتوں کے بعد کہیں کھو گئے تھے۔

7۔ فارسی ادب کی تاریخ پر کتاب (Literary History of Persia) کے مصنفEdward Granville Brown نے لکھا ہے کہ کربلا کا خون آلود میدان یاد دلاتا ہے کہ وہاں اللہ کے پیغمبر کا نواسہ اس حال میں شہید کیا گیا کہ بھوک اور پیاس کا عالم تھا اور اس کے ارد گرد لواحقین کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ یہ بات نا قابل برداشت اور دل سوز صدمے کا باعث ہے، جہاں درد، خطرہ اور موت تینوں چیزیں ایک ساتھ رونما ہو رہی ہیں۔

8۔ ڈاکٹر راجندر پرساد بیدی(۱۸۸۴-۱۹۶۳ء): بھارت کے اولین صدر نے کہا کہ امام حسینؑ کی قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم میراث ہے۔

9۔ City Sikh Progressive Organization London کے بانی ممبر جسویر سنگھ کہتے ہیں کہ اس بات سے قطع نظر کہ ہم کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، ہم امام حسین ؑسے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا ڈھنگ۔ امام حسین ؑعدل و انصاف کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے جس بات کو حق سمجھا اس کے لئے اپنی جان بھی دے دی۔

10۔ جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے’’تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے،آپؑ کو حسینؑ جاتا ہے۔ آپؑ حضرت محمدؐ کے نواسے‘حضرت علیؑ و حضرت فاطمہؑ کے بیٹے‘ لاتعداد صفات و اوصاف کے مالک ہیں۔ آپؑ کے عظیم واعلیٰ کردار نے اسلا م کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام کے یہ بہادر میدانِ کربلا میں شجاعت کے جوہر نہ دکھاتے تو آج حضرت محمدؐ کے دین کا نقشہ کچھ اور نظر آتا، یوں کہنا چاہیے کہ انسانیت کا نشان تک دکھائی نہ دیتا۔ ہر جگہ وحشت و بربریت اور درندگی نظر آتی۔‘‘

 

 

 

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button