خطبات جمعہسلائیڈر

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:146)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 29 اپریل 2022ء بمطابق 27 رمضان المبارک 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔جی۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
ہم سب آہستہ آہستہ ماہ مبارک رمضان کے اختتام کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں اور ماہ مبارک کے اس تیسرے عشرہ میں ہم ماہ مبارک کے وداع کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ ہمارے پاس کچھ ہی دن ماہ مبارک رمضان کو رخصت کرنے کے لئے ،وہ ماہ مبارک ہم سے جدا ہوا چاہتا ہے جس میں اللہ نے اپنے سفرہ رحمت پر ہمیں بلایا تھا ۔ہم اس مہینہ کو وداع کر رہے ہیں جس نے ہمارے گناہوں کو جلا کر اس طرح ختم کر دیا ہے کہ اب بار گناہ ہمارے دوش پر نہیں اور اسی لئے ہمیں عید کی آمادگی کرنا ہے تاکہ بندگی کا انعام حاصل کر سکیں۔ہم مہینہ اس کو وداع کر رہے ہیں جسے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے "شہرالاسلام” یعنی اسلام کا مہینہ قرار دیا ہے اور شہر طہارت قرار دیا ۔تمام مومنین کو چاہیے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا وداع رمضان کا ترجمہ کے ساتھ مطالعہ کریں، یہ دعا صحیفہ سجادیہ میں دعا وداع رمضان کے نام سے موجود ہے۔
امام سجاد علیہ السلام کا اس مہینہ سے اتنا لگاؤ تھا کہ صحیفہ سجادیہ کی دعا وداع رمضان میں ماہ رمضان کو وداع کرتے ہوئے عجیب انداز اپناتے ہیں آپ فرماتے ہیں:
ثُمَّ قَدْ فَارَقَنَا عِنْدَ تَمَامِ‏ وَقْتِهِ‏، وَ انْقِطَاعِ مُدَّتِهِ، وَ وَفَاءِ عَدَدِه‏ فَنَحْنُ مُوَدِّعُوهُ وِدَاعَ مَنْ عَزَّ فِرَاقُهُ عَلَيْنَا، وَ غَمَّنَا وَ أَوْحَشَنَا انْصِرَافُهُ عَنَّا
یہ مہینہ ختم ہوا اور اپنی انقطاع مدت اور اپنے دن پورے کرنے کے بعد ہمیں داغ جدائی دے گیا اور اب ہم اسے وداع کررہے ہیں۔
رمضان المبارک آتا ہے اورآ کر چلا جاتا ہے مگر رمضان المبارک کا اختتام عید کی خوشی پر ہو تا ہے بس اسی سے یہ سبق سیکھیں کہ ہم بھی دنیا میں آئے اور ایک دن ضرور یہاں سے چلے جائیں گے کیا ہمارا اختتام بھی عید جیسی خوشی پر ہو گا؟ جی ہاں!اگر ہم اپنی پوری زندگی رمضان المبارک کی ترتیب پر گزاریں خوشی خوشی شریعت کی پابندی برداشت کریںاور ان پابندیوں کو اپنے لئے نعمت سمجھیں کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا؟ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا؟ ہر وقت نفس کی خواہشات پوری نہیں کرنی ہروقت لذتوں کی فکر میں نہیں رہنا پس جو اس طرح پابندی والی زندگی گزارے گااس کی موت کا دن،رمضان المبارک کے بعد والے دن کی طرح ہو گا یعنی عید کا دن خوشی کا دن پابندیاں اٹھ جانے اور عیش و عشرت ملنے کا دن تب اس کی روح اس دن خوشیاں مناتی ہوئی تکبیر پڑھتی ہوئی مقام عِلِّیِّیْن کی طرف لے جائی جائے گی یہ مقام آسمانوں کے اوپر ہے وہاں ایک کتاب رکھی ہوئی ہے ہر مومن کی روح کو وہاں لے جا کراس کتاب میں اس کا نام لکھ دیا جائے گا اور پھر قیامت تک اس کے درجے کے مطابق کسی اچھی جگہ قیام کی ترتیب بن جائے گی۔
وداع رمضان کے پیغامات:
امام سجاد علیہ السلام کی دعا وداع ماہ مبارک رمضان کے سلسلہ سے چند نکات قابل غور ہیں:
1۔ امام علیہ السلام جس انداز سے اس مہینہ کو وداع کر رہے ہیں اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس مہینہ کو اس طرح وداع کرنا چاہیئے جیسے ایک حبیب اپنے محبوب کو وداع کرتا ہے، اس طرح وداع کرنا چاہیئے جیسے کوئی ایسی چیز ہاتھ سے نکل رہی ہو جو انسیت و دل کے سکون کا سبب ہو اس لئے کہ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے اور جب اس کی رخصت کی باری آتی ہے تو ہر ایک کے وداع کرنے کا انداز الگ الگ ہوتا ہے کوئی بہت زیادہ غمگین ہو کر گریہ کرتا ہے تو کوئی آنکھوں میں آئے آنسووں کو روکنے کی ناکام کوشش، تو کوئی سپاٹ کھڑا رہتا ہے یہ طرز عمل کا اختلاف مہمان سے اس کے تعلق کو بیان کرتا ہے، جسکا تعلق جتنا گہرا ہوتا ہے اس کی جدائی بھی اتنی ہی شاق گزرتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہر ایک وداع کے لئے باہر بھی نہیں نکلتا وداع کے لئے وہی آتا جس کو مہمان سے محبت و رغبت ہوتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ علماء بیان کرتے ہیں، وداع تو اسی شخص کے لئے ہے جو ماہ مبارک رمضان سے مانوس رہا ہو اور یہ مہینہ اس کا دوست رہا ہو ورنہ جو شخص اس مہینہ کے ساتھ نہیں تھا اس کا اس مہینہ سے وداع اور حداحافظی کا کوئی معنی نہیں ہے، آدمی اپنے دوست سے یا جس سے کچھ عرصہ مانوس رہا ہو اس سے خداحافظی کرتا ہے، لیکن جسے بالکل یہ معلوم ہی نہیں کہ ماہ مبارک رمضان کب آیا اور کب گزر گیا، کیوں آیا اور کیوں گزر گیا، اس کا ماہ رمضان کو وداع کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔

2۔ اس دعا میں بارہا اس مہینہ کو سلام کرنا اس مہینہ کی معنوی حیات کی دلیل ہے، شاید یہی وجہ ہے حضرت امام سیدالساجدین علیہ السلام ماہ رمضان کو کئی بار سلام یعنی خداحافظ اور الوداع کہتے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر ماہ رمضان میں کوئی باطن، و راز نہ ہوتا تو زین العابدین علیہ السلام جیسی شخصیت اسے سلام نہ کرتی۔
3۔ اس مہینہ کو شھر الاسلام(اسلام کا مہینہ) اور ماہ طہور(طہارت و پاکیزگی کا مہینہ) اور اس کی خدا سے نسبت کے ذریعہ امام علیہ السلام نے اس کی اہمیت کو واضح کرنا چاہا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی عظمت کو اس مہینہ کی آمد سے پہلےخطبہ شعبانیہ میں بیان کیا تھا کہ:
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ‏ إِلَيْكُمْ‏ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَكَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ وَ أَيَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَيَّامِ وَ لَيَالِيهِ أَفْضَلُ اللَّيَالِي وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَات
اے لوگو! یقیناً اللہ کے مہینہ نے برکت، رحمت اور مغفرت کے ساتھ تمہاری طرف رخ کیا ہے، ایسا مہینہ جو اللہ کے نزدیک (دیگر) مہینوں سے افضل ہے اور اس کے دن (دیگر) دنوں سے افضل ہیں اور اس کی راتیں (دیگر) راتوں سے افضل ہیں اور اس کی گھڑیاں (دیگر) گھڑیوں سے افضل ہیں۔
4۔ اس مہینہ کو امام علیہ السلام نے خدا کا سب سے بڑا مہینہ قرار دیتے ہوئے اسے اولیاء خدا کی عید قرار دیتے ہوئے فرمایا:
السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا شَهْرَ اللَّهِ الْأَكْبَرَ، وَ يَا عِيدَ أَوْلِيَائِهِ
اے اللہ کے سب سے بڑے مہینہ، اور اے اولیائ خدا کی عید تجھ پر سلام
اب یہاں پر دو باتیں قابل غور ہیں ایک تو یہ کہ ہم اس مہینہ کو الوداع کہہ رہے ہیں جو خدا کے نزدیک سب سے بڑا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جس کے لئے کہا گیا ہے کہ اسکا نام یوں ہی مت لو بلکہ اس کی عظمت کے پیش نظر اس کے نام کے ساتھ کچھ جوڑ دو، جیسا کہ روایت میں ہے:
لَا تَقُولُوا هَذَا رَمَضَانُ وَ لَا ذَهَبَ‏ رَمَضَانُ‏ وَ لَا جَاءَ رَمَضَانُ فَإِنَّ رَمَضَانَ اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ لَا يَجِي‏ءُ وَ لَا يَذْهَبُ ۔۔۔وَ لَكِنْ قُولُوا شَهْرُ رَمَضان‏
یہ نہ کہا کرو کہ یہ رمضان ہے اور رمضان گیا اور رمضان آیا۔ اس لئے کہ رمضان اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور خداوند عالم کہیں آتا جاتا نہیں ہے لہذا صرف رمضان نہ کہو بلکہ اسے ماہ رمضان کہا کرو ۔
وہ مہینہ کہ جس کی دیگر مہینوں پر فضیلت آشکار و واضح ہے اور بعض روایتوں کے مطابق تو یہ فضیلت ایسے ہی ہے جیسے اہلبیت اطہار علیھم السلام کی دیگر لوگوں پر فضیلت ہےجیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے: أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ شَهْرٌ فَضَّلَهُ‏ اللَّهُ عَلَى سَائِرِ الشُّهُورِ كَفَضْلِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ عَلَى‏ سَائِرِ النَّاس
اے لوگو! بیشک یہ مہینہ ایسا مہینہ ہے جسے اللہ نے دیگر مہینوں پر ویسے ہی فضیلت دی ہے جیسے ہم اہل بیتؑ کو باقی سب لوگوں پر فضیلت دی ہے۔( فضائل الأشهر الثلاثة، ص: 108)
ہم اس عظیم مہینہ کو وداع کر رہے ہیں جس کا اتنا احترام ہے کہ روایتوں میں اس کا خالی نام تک لینے کے لئے منع کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کے نام کے ساتھ کچھ نہ کچھ جوڑ دو تاکہ اس کا احترام رہےیعنی ماہ رمضان کہا کرو۔۔
دوسری بات اس مہینہ کو اولیاء خدا کی عید کہا گیا ہے اور عید وہ لفظ ہے جو عود سے ماخوذ ہے اس کے معنی پلٹنے کے ہیں، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس مہینہ میں انسان اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کے ذریعہ پلٹ جاتا ہے اور الٰہی ہو جاتا ہے البتہ جیسا کہ امام علیہ السلام کے انداز گفتگو سے واضح ہے ہر ایک اس مہینہ میں اللہ کی بارگاہ میں نہیں پلٹتا اور یہ مہینہ سب کے لئے عید نہیں ہے بلکہ صرف اولیائے خدا کے لئے عید ہے، یعنی وہی لوگ اس مہینہ میں اللہ کی طرف پلٹ پاتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کی محبت ہوتی ہے اور اس دسترخوان کرم پر اپنی غلطیوں کی معافی مانگ کر اپنے رب کی رضا حاصل کرتے ہیں۔
5۔ یہ مہینہ ہمارا بہترین دوست و ساتھی تھا جو اب جا رہا ہے اسی لئے امام علیہ السلام نے اس تمام گھڑیوں میں بہتر لمحات کو حامل قرار دیا اور اسے اپنے بہترین ساتھی کے طور پر بیان کیا ہے۔ امام فرماتے ہیں: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَكْرَمَ مَصْحُوبٍ مِنَ الْأَوْقَاتِ، وَ يَا خَيْرَ شَهْرٍ فِي الْأَيَّامِ وَ السَّاعَاتِ
اے اوقات میں بہترین رفیق و ساتھی اور دنوں اور ساعتوں میں بہترین مہینے تجھ پر سلام
اب یہ ایک واضح سی بات ہے کہ جب انسان کسی قیمتی چیز کی قیمت اور اس کی حقیقت کو پہچان لیتا ہے تو اس کی حفاظت اور قدر کرنے میں کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتا ہے، اب سوچنے کی بات ہے کہ اس کی کس قدر حفاظت کی ضرورت ہے تاکہ ان قیمتی لمحات سے قرب الٰہی کا حصول کیا جائے، ایک دوست کے رشتہ کی سلامتی کے لئے کیا کچھ نہیں کرتا ہے؟ ایسا عمل انجام نہیں دیتا کہ اس کا دوست ناراض ہو تو اب سوچنے کی بات ہے کہ یہ مہینہ نہ صرف دوست بلکہ ہمارا ایک اچھا دوست تھا جس کے گزارے لمحات سب سے اچھے لمحات تھے تو ہمیں اس کے جانے پر کس قدر ملال اور افسوس ہونا چاہیئے، یقینا ایک اچھے دوست کی دوستی جہاں یاد رہتی ہے وہاں اس کے ساتھ بتایا ہوا اچھا وقت بھی انسان ہمیشہ یاد رکھتا ہے اور یہ ساتھی اتنا ہی اچھا ہے کہ انسان کے تمام گناہوں کو دھو دیتا ہے اور جب جاتا ہے تو انسان کے گناہ اس سے دور ہو چکے ہوتے ہیں۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہےکہ آپ نے جابر سے فرمایا:
يَا جَابِرُ هَذَا شَهْرُ رَمَضَانَ مَنْ صَامَ‏ نَهَارَهُ‏ وَ قَامَ‏ وِرْداً مِنْ لَيْلِهِ‏ وَ عَفَّ بَطْنُهُ وَ فَرْجُهُ وَ كَفَّ لِسَانَهُ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَخُرُوجِهِ مِنَ الشَّهْرِ فَقَالَ جَابِرٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَحْسَنَ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَا جَابِرُ وَ مَا أَشَدَّ هَذِهِ الشُّرُوطَ.
اے جابر، یہ ماہ رمضان کا مہینہ ہے، جس نے اس ماہ میں روزہ رکھا، رات دعا اور عبادت میں گزاری، اپنی شرم گاہ اور پیٹ کو با عفت اور پاک رکھا،زبان کو قابو میں رکھا وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل گیا جیسے ماہ رمضان سے نکل گیا۔ جابر نے عرض کی یا رسول اللہ یہ حدیث کس قدر اچھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے جابر ان شروط پر عمل کرن اور انکی رعایت کرنا بھی کس قدر مشکل ہے۔۔ (الكافي ، ج‏4، ص: 87)
6۔ اس مہینہ کو امام نے امیدوں کے بر آنے والے مہینہ اور تہذیب نفس و اصلاح کے ساتھ حاجتوں کے پورا ہونے والے مہینہ کے طور پر وداع کیا ہے، فرمایا: السَّلَامُ عَلَيْكَ مِنْ شَهْرٍ قَرُبَتْ فِيهِ الْآمَالُ، وَ نُشِرَتْ فِيهِ الْأَعْمَالُ
اے وہ مہینے جس میں امیدیں برآتی ہیں اور اعمال سج جاتے ہیں، تجھ پر سلام
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر اہم مہینہ ہم سے جدا ہو رہا ہے وہ مہینہ جو تہذیب نفس کا مہینہ تھا وہ مہینہ جو تعمیر ذات کا مہینہ تھا وہ مہینہ جو تطہیر روح کا مہینہ تھا یقینا اگر ابھی تک ہم غفلت کا شکار رہے تو آئیں اب اس مہینہ کے باقی ماندہ دو چار دنوں میں ہی ایسی پروگرامنگ کر یں کہ اپنی ذات کو روحانی طور پر ایک مقام دے سکیں اپنے نفس کی تہذیب و تطہیر کر سکیں اپنی زندگی کا انداز ذرا بدلیں اور مادیت سے نکل کر معنوی چیزوں کا خدا سے مطالبہ کریں تاکہ ہماری حیات اخروی کا سرمایہ قرار پائے۔ اس لئے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہمیں کیا اجر دیا جائے گا اس کا اندازہ بھی ہم نہیں لگا سکتے ہیں اور خدا نے یہ معاملہ اپنے اور اپنے بندہ کے درمیان رکھا ہے،روایت ہے: الصوم عبادۃ بین العبد و خالقہ لا یطلع علیھا غیرہ و کذلک لا یجاری عنھا غیرہ
روزہ خدا اور انسان کے درمیان ایک ایسی عبادت ہے جس سے خدا کے سوا کوئی آگاہ نہیں ہوتا لہذا خدا کے علاوہ کوئی اور اس کا اجر ادا نہیں کر سکتا۔( شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد، ج‏20، ص: 296)
اور یہی وجہ ہے کہ اس کی جزا بھی اللہ نے خود پر ہی رکھی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےروایت ہے کہ اللہ فرماتا ہے:
يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ الصَّوْمُ‏ لِي‏ وَ أَنَا أَجْزِي بِهِ وَ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ وَ فَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَى رَبَّه‏
اللہ فرماتا ہےروزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر و ثواب دوں گا، اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک اس وقت جب وہ افطار کرتا ہے اور ایک اس وقت ہوگی جب وہ(وفات کے بعد) اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔( دعائم الإسلام، ج‏1، ص: 270)
ماہ مبارک رمضان کے دن کتنی تیزی سے گذر گئے، ایسا لگ رہا ہے جیسے کل ہی افق آسمان پر ہم نے اس کا چاند دیکھا ہو لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سب چلا گیا، ایسے میں جس نے جتنا اس مہینہ سے فائدہ اٹھایا وہ کامیاب اور جو اس کی برکت سے محروم رہ گیا یقینا وہ نقصان اٹھانے والا ہے، ایسا نقصان جسے پورا کرنا کبھی بھی ممکن نہیں ہے اسی لئے دعا کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر اب تک ہم اس کی برکتوں کے حصول سے محروم ہیں تو اس کے جاتے جاتے ہی کچھ حاصل کر لیں۔ اس لئے کہ اگر کوئی چلتے چلتے دوڑتے دوڑتے ہی سہی لیکن ٹرین پکڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ٹھییک ہے، ممکن ہے اسے بیٹھنے کی آرام دہ جگہ نہ ملے لیکن وہ منزل تک کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتا ہے لیکن جو آخر وقت میں بھی یہ سوچ کر نہیں دوڑتا کہ ٹرین تو اب چلی ہی جائے گی اس نے حرکت کرنا شروع کر دی ہے تو وہ بیٹھا رہ جاتا ہے اور منزل پر نہیں پہنچ پاتا ۔لہٰذا کوشش کرنی چاہیئے کہ اس کی باقی ماندہ برکتوں کو حاصل کیا جا سکے کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ مہینہ نکل جائے لیکن گناہوں کی بخشش کا سامان نہ ہو یہ وہ صورتحال ہے جس کے سلسلہ سے ہمارے معصومین علیھم السلام نے خدا کی بارگاہ میں پناہ طلب کی ہے، جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: أَعُوذُ بِجَلَالِ وَجْهِكَ الْكَرِيمِ أَنْ يَنْقَضِيَ‏ عَنِّي‏ شَهْرُ رَمَضَانَ أَوْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ مِنْ لَيْلَتِي هَذِهِ وَ لَكَ قِبَلِي ذَنْبٌ أَوْ تَبِعَةٌ تُعَذِّبُنِي عَلَيْهِ؛
میں پناہ مانگتا ہوں تیری کریم ذات کے جلال سے کہ ماہ رمضان مجھ سے ختم ہو یا میری اس رات کی فجر طلوع ہو اور میں تیری بارگاہ میں کوئی گناہ یا ذمہ داری رکھتا ہوں جس پر تو مجھ کو عذاب کرے۔
تو آئیں مل کر دعا کریں کہ پروردگار ہماری عبادت و بندگی کو اس مہینہ میں قبول فرمائے۔اور ماہ رمضان کے بعد بھی اسی طرح اپنی بندگی پر قائم و دائم رکھے۔۔۔۔
ماہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ جسے عام زبان میں جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ جمعہ کا دن ہفتہ کے تمام ایام میں سردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ پھر رمضان المبارک جیسے متبرک اور روحانی مہینہ میں آنے والا آخری جمعہ مسلمانوں کے درمیان زیادہ فضیلت اور با برکت تصور کیا جاتا ہے۔ یہ جمعہ ہمیشہ ایسے ایام میں آتا ہے کہ جب رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی شب ہائے قدر کا سلسلہ جاری ہوتا ہے اور اس کے اختتام یا درمیان میں جمعۃ الوداع آتا ہے. یوم القدس سے مراد یقینا مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس اور انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین ہی ہے۔ جی ہاں وہی فلسطین کہ جہاں ہزاروں انبیاء علیہم السلام کی آمد رہی اور پھر معراج کے لئے سفر مبارک کے وقت پہلے آپ (ص) کو بھی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ جو کہ سر زمین فلسطین پر واقع ہے یہاں لایا گیا تھا ۔سرزمین مقدس فلسطین اور اس کے باسی سنہ 1948ء سے عالمی سامراج کی شیطانی چالوں کا نشانہ بن کر یہاں قائم کی جانے والی ایک یہودیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے شکنجہ میں ہیں۔ یہاں کے باسی گذشتہ ایک سو برس سے اس زمین پر صہیونیوں کی مکاریوں اور فریب کاریوں کا سامنا کرتے آئے ہیں. فلسطین موجودہ حالات میں طول تاریخ کے اعتبار سے سنگین ترین دور سے گزر رہا ہے ۔ فلسطین کا سودا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ قبلہ اول بیت المقدس پرمغربی سربراہی میں عرب حکمرانوں کے تعاون سے سودے بازی کی کوشش بھی جاری ہے.ایسے حالات میں فلسطینی عوام نے تمام سازشوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے ۔ ماہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ یعنی یوم القدس جو نہ صرف فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کا دن ہے بلکہ قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کی تحریک میں ایک کلیدی حیثیت کا حامل بھی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یوم القدس ایک ایسا دن ہے جس کو علماء اور فقہا ء نے اسلام اور مسلمین کا دن قرار دیا ہے۔

تمت بالخیر

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button