خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:202)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک26مئی2023ء بمطابق 05ذیقعدہ1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: ادب و آداب
انبیاء اور اولیاء الہی نے ھمیشہ ادب اور احترام کی تاکید ہے ، قران کریم نے صدر اسلام کے مسلمانوں کو ادب اور احترام کا سبق دیتے ہوئے کہا " يَا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لاتُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَىِ اللّهِ وَرَسُولِه وَاتَّقُوااللّهَ إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ يَا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لاتَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِىِّ وَلاتَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمالُكُمْ وَأَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُونَ »(سسورہ حجرات آیۃ2)
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔
یہ صرف آداب کا حصہ ہی نہیں بلکہ ایک طرز عمل ہے جس کا سرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان کی نوعیت سے ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والوں کو گفتگو کے بارے میں دو باتوں کی تنبیہ کی ہے: پہلی بات یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو۔ دوسری بات یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باتیں کرتے ہوئے اونچی آواز میں بات نہ کرو۔ ایک رفع الصوت منع ہے اور دوسرے جہر قول کی ممانعت ہے۔
۱۔ رفع الصوت کی صورت یہ ہو گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں سے گفتگو فرما رہے ہیں، اس وقت رسول اللہؐ کی آواز سے دیگر لوگوں کی آواز اونچی ہو۔ اس طرح آواز بلند کی جائے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز دب جائے۔
۲۔جہر قول کی صورت یہ ہو گی کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل میں بیٹھ کر جب آپ سے کوئی بات کرے تو معمول سے زیادہ بلند آواز میں بات کرے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس کا ایمان مخدوش ہے ورنہ رسولؐ کی شخصیت کا اس کی آواز پر اثر ہوتا اور اونچا ہو کر نہیں، دب کر بات کرتا۔(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ320)
نبی کریم حضرت محمد مصطفی (ص) بھی ادب کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ ” اَنـَا اَديبُ اللّه وَ عَلىٌّ اَديبى، اَمَرَنى رَبّى بِالسَّخاءِ وَ الْبِرِّ وَ نَهانى عَنِ الْبُخْلِ وَ الْجَفاءِ وَ ما شَىءٌ اَبْغَضُ اِلَى اللّه عَزَّوَجَلَّ مِنَ الْبُخْلِ وَ سوءِ الْخُلُقِ، وَ اِنَّهُ ليُفْسِدُ العَمَلَ كَما يُفْسِدُ الخَلُّ الْعَسَلَ؛(مکارم الاخلاق ص17)
میں نے خدا سے ادب سیکھا ہے اور علی نے مجھ سے ادب سیکھا ہے ، میرے خدا نے مجھے سخاوت اور نیکی کا حکم دیا ہے نیز بخل اور بے جا سختی سے منع کیا ہے ، خداوند متعال کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ کوئی چیز بری نہیں کیوں کہ بد اخلاقی انسان کے عمل کو ویسے ہی ضایع کردیتی ہے جیسے سرکہ شھد کو خراب کردیتا ہے ۔
البتہ بد اخلاقی فقط یہ نہیں کہ کسی کی توہین کی جائے یا کسی کے ساتھ برا انداز گفتگو اپنائے جائے بلکہ کبھی خدا کی ناشکری بھی بد اخلاقی شمار کی جاتی ہے جیسا کہ جناب دعبل آٹھویں امام حضرت علی رضا علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں " عَنْ دِعْبِلِ بنِ علىّ : اَنَّهُ دَخَلَ عَلى اَبِى الحَسَنِ الرِّضا عليه السلام وَ اَمَرَ لَهُ بِشَىْ ءٍ، فَاَخَذَهُ وَ لَمْ يَحْمَدِ اللّه. قالَ: فَقالَ لَهُ: لِمَ لَمْ تَحْمَدِ اللّه؟! قالَ: ثُمَّ دَخَلْتُ بَعْدُ عَلى اَبى جَعفَرٍ عليه السلام وَ اَمَرَ لى بِشَىْ ءٍ، فَقُلْتُ: اَلْحَمدُ لِلّهِ. فَقالَ لى: تَاَدَّبْتَ ۔
دعبل حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے تو امام (ع) نے انہیں تحفہ پیش کرنے کو کہا ، جناب دعبل نے تحفہ لینے کے بعد خدا کا شکر ادا نہیں کیا تو امام (ع) نے فرمایا کہ تم نے خدا کا شکر کیوں نہیں ادا کیا، جناب دعبل کہتے ہیں کہ کچھ دنوں بعد جب دوبارہ امام (ع) کی خدمت میں پہونچا تو امام (ع) نے مجھے تحفہ دینے کو کہا ، اس بار ہم نے تحفہ لینے کے بعد خدا کا شکر ادا کیا تو امام (ع) فرمایا : تم ادب بجالائے ۔(اصول کافی ج1 ص496 ح8)
اميرالمؤمنين على بن ابی طالب عليهما السّلام فرماتے ہیں "إِنَّ اَلنَّاسَ إِلَى صَالِحِ اَلْأَدَبِ أَحْوَجُ مِنْهُمْ إِلَى اَلْفِضَّةِ وَ اَلذَّهَب ؛لوگوں کو سونے چاندی کی نسبت اچھے ادب کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ہے ۔ « (غرر الحکم : ۳۵۹۰)
امام علی علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے: اَلأَدَبُ كَمَالُ الرَّجُلِ. (غرر الحكم : ۹۹۸ )ادب انسان کا کمال ہے ۔
اسی طرح فرمایا:يَا مُؤمِنُ ، إِنَّ هٰذَا العِلْمَ وَالأَدَبَ ثَمَنُ نَفسِكَ ، فَاجتَهِدْ في تَعلُّمِهِمَا، فَمَا يَزِيدُ مِن عِلمِكَ وأدَبِكَ يَزيدُ فِي ثَمَنِكَ وقَدْرِكَ. (مشكاة الأنوار : ۱۳۵)
اے مومن !یہ علم و ادب تیری جان کی قیمت ہیں لہٰذا ان کے حصول کے لئے کو شش کر کیو نکہ تیرے علم و ادب میں جس قدر اضافہ ہوتا جائے گا اتنا ہی تیری قدر و قیمت میں اضافی ہوگا ۔
اسی طرح فرمایا: عَلَيكَ بِالأَدَبِ فَإِنَّهُ زَيْنُ الحَسَبِ.(غرر الحکم : ۶۰۹۶)
تم پر لازم ہے کہ ادب کو اپنائو کوك نکہ یہ خاندانی شرافت کی زینت ہے ۔ایک اور مقام پہ فرمایا:فَسَدَ حسَبُ (مَن) ليسَ لَه أدبٌ.(تحف العقول : ۹۶)جس کے پاس ادب نہیں اس کی خاندانی شرافت فاسد ہے ۔
گفتار میں ادب:
سورہ بقرہ کی آیت ۸۳ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً”، "اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ”۔
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ دوسروں کو برے الفاظ سے یا بے احترامی سے بلاتے ہیں،اگر ان کو اسی انداز سے بلایا جائے جیسے وہ دوسروں کو بلاتے ہیں تو ان کو پسند نہیں آئے گا۔
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "أجمِلُوا في الخِطابِ تَسمَعُوا جَميلَ الجَوابِ”، "خوبصورت طریقے سے بلاؤ تا کہ خوبصورت جواب سنو”۔ [غرر الحكم و درر الكلم، ص۱۵۸، ح۹۰] مختصر وضاحت:
جب آدمی پہاڑ کے پاس کھڑا ہو کر آواز دے تو اس کی اپنی آواز واپس لوٹتی ہے، اگر اچھی بات کرے تو جو آواز پلٹ کر آئے گی وہ اچھی بات ہوگی اور اگر بری بات کہے تو بری آواز واپس آئے گی، کیونکہ وہ درحقیقت اس کی اپنی آواز ہے، اسی طرح جب کوئی شخص لوگوں سے اچھے انداز اور ادب و احترام سے بات کرتا ہے تو اسے خوبصورت اور محترمانہ جواب ملے گا اور اگر تلخ کلامی سے بات کرے تو اسے خوبصورت جواب کی توقع نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ ملنے والا جواب اس کے اپنے خطاب کا ردّعمل ہے۔
نیز حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "نَكيرُ الجَوابِ مِن نَكيرِ الخِطابِ”، "برا جواب (سننا) برے (طریقے سے) بلانے کی وجہ سے ہے”۔ [غرر الحكم و درر الكلم، ص۷۲۰، ح۱۴] لہذا انسان کو متوجہ رہنا چاہیے کہ جب گھر میں بیوی بچوں سے، باہر دوستوں سے، دوکان، کاروبار، کارخانہ اور خرید و فروخت میں، یعنی جو افراد اس سے عمر میں یا مقام میں کم ہیں، کیا اُن سے بات کرتے ہوئے ادب و احترام کا خیال رکھتا ہے یاان کو اپنے سے حقیر سمجھتے ہوئے ان سے بے ادبی اور بے احترامی سے بات کرتا ہے؟!
ادب بہترین میراث:
حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: إنَّ خَيرَ مَا وَرَّث الآبَاءُ لأبنائِهِم الأدَبَ لا المَال
سب سے بہترین چیز جو باپ اپنی اولاد کے لئے میراث کے طور پر چھوڑ جاتا ہے، ادب ہے، نہ کہ مال۔(غرر الحکم : ۹۶۷)
پہلی جگہ جہاں پر انسان کی اولاد، ان چیزوں کی طرف توجہ کرتی ہے، وہ اپنا گھرانہ ہے۔اس طرح کی چیزوں کی طرف توجہ دلانا، والدین کی ذمہ داری ہے۔بچوں کے سامنے قرآن پڑھا کریں، بچوں کے سامنے دعا پڑھا کریں۔ بچوں کے سامنے اللہ سے باتیں کیا کریں، دعا کیا کریں، بچوں کو عملی طور پر اللہ سے باتیں کرنا سیکھائیں۔
بچوں کے سامنے جھوٹ نہ بولیں، غیبت نہ کریں، دولت سے لالچ، نہ دیکھائیں۔ اگر ایسا ہوا تو جو دیکھے گا وہی سیکھے گا۔
اگر ہم غیبت کرتے رہیں، بد سلوکی کرتے رہیں، دوسروں کی توہین کرتے رہیں، اگر بچوں کے سامنے خود کو دنیاوی عہدوں کو حاصل کرنے کے لئے حقیر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے مانوس نہیں ہوتے تو اولاد بھی اسی ماحول میں پرورش پارہے ہیں۔
لہذا بچے ان حقائق سے غافل ہورہے ہوتے ہیں جن کا سیکھنا ان پر ضروری ہے اور جس چیز کو وہ دیکھیں گے ان کے ذہنوں اور روحوں کی تربیت ویسے ہی ہوگی ۔جیسے حدیث میں ہے:فإنَّ المالَ يَذهَبُ والأدَبُ يَبْقَى
کیونکہ مال ختم ہوجانے والا ہے، لیکن یہ جو ادب آپ نے اپنی اولاد کو سیکھایا ہے وہ پوری زندگی اس کے ساتھ باقی رہے گا۔
اس کی شخصیت بن رہی ہوتی ہے اس کی طرف بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
بچوں میں جھوٹ کی عادت پیدا ہونے کے اسباب:
بچوں کے جھوٹ بولنے کے اسباب مندرجہ ذیل ہوسکتے ہیں:
۱۔ بچوں کو ہر بات پر ڈانٹنا یا مارنا۲۔بچوں کا دوسروں کو جھوٹ بولتے ہوئے دیکھنا۳۔ والدین خود ہی جُھوٹ بولواتے ہوں۴۔ ضد۵۔ بچوں پر بات بات پر بے جا غصہ کرنا(جس سے بچنے کے لیے بچے جھوٹ بولنا شروع کر دیتے ہیں)
تمام معصومین(علیہم السلام) سےاس کے بارے میں بہت زیادہ حدیثیں وارد ہوئی جن میں سے ایک یہ ہے کہ جس میں امام علی(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: «لَا أَدَبَ مَعَ غَضَب‏; غضب کے ساتھ ادب نہیں ہوتا»[غرر الحکم، ص۷۷۰]۔یعنی ہر وقت بچوں پر غصہ کرنے اور انہیں ڈانٹنے سے ادب نہیں سکھایا جاسکتا بلکہ ادب سکھانے کے لیے پیار و محبت سے پیش آنا ضروری ہے۔
معاشرتی آداب:
دین اسلام کے معاشرتی آداب میں سے ایک ادب "سلام کرنا” ہے۔ جب دو مسلمان ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں تو ہر قسم کی بات اور عمل سے پہلے ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں، ان میں سے ایک سلام کرتا ہے اور دوسرا جواب دیتا ہے۔دین اسلام نے ملاقات کے اس ادب کے بارے میں سلام کا حکم دیا ہے اور کسی کلام اور کسی کام کو اس کی جگہ پر قرار نہیں دیا۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا ارشاد گرامی ہے: "مَنْ بَدَأَ بِالْكَلَامِ قَبْلَ السَّلَامِ، فَلَا تُجِيبُوهُ”، "جو شخص کلام کو سلام سے پہلے شروع کرے، اس کو جواب نہ دو”۔ [وسائل الشیعہ، ج8، ص436] اس حدیث کی روشنی میں یہ بات اٹل ہے اور یقینی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ حال چال پوچھنا ہو یا کوئی بھی بات کرنی ہو تو پہلے سلام ضرور کرنا ہوگا ورنہ اس حدیث میں سامنے والے آدمی کو جواب دینے سے منع کیا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں سلام کی جگہ پر کوئی اچھا سا جملہ رکھ دیا جائے اور سلام کو چھوڑ کر اس جملہ کو رائج کردیا جائے اور لوگ سمجھیں کہ یہ اتنا خوبصورت جملہ، سلام کہنے سے بہتر ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی اپنی خاص جگہ ہوتی ہے، اور اگر اس کی جگہ پر کسی اور چیز کو رکھ دیا جائےتو جیسے ظاہری اور مادی چیزوں میں خرابی اور بدنظمی پیدا ہوتی ہے اسی طرح معنوی اور دینی امور میں بھی شریعت کے خلاف اور اپنی مرضی سے عمل کرنے سے آدمی کا معنوی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، چاہے اس کو محسوس اور یقین نہ بھی ہو۔ لہذا خیال رکھنا چاہیے کہ ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے پہلے سلام پھر کلام، یعنی جو بات بھی کرنی ہو سلام کے بعد کی جائے۔
ادب اچھے ضمیر کی علامت:
جب آدمی تلخ کلامی، بدزبانی، بدسلوکی اور بے احترامی کے ساتھ کسی کو بلاتا ہے تو یہ انداز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کا ضمیر اور باطن خراب ہے۔
اگر انسان کا ضمیر اچھا ہو تو ضمیر زبان کو اچھے انداز میں بلوائے گا اور اگر ضمیر خراب ہو تو ضمیر زبان کو بے احترامی کے ساتھ بلوائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زبان انسان کے ضمیر کے قبضہ میں ہے۔ اگر اس کا ضمیر پاک اور صاف ہو تو وہ ہر کسی سے ادب و احترام کے ساتھ بات کرے گا۔
بعض لوگ دوسروں کو بلاتے ہوئے ادب و احترام کا خیال نہیں رکھتے اور دوسروں کو اپنے سے حقیر سمجھتے ہیں، مگر یہی لوگ اگر کسی کے محتاج ہوجائیں تو نرم زبان سے، اچھے انداز میں اور احترام سے بات کریں گے، یہ تبدیلی درحقیقت ان کے ضمیر میں پیدا نہیں ہوئی، بلکہ اپنی مجبوری کی وجہ سے وہ عارضی طور پر اپنا اندازِ گفتگو بدل لیتے ہیں تا کہ اپنا مسئلہ حل کروا لیں، جب ان کا مسئلہ حل ہوجائے تو کیونکہ ان کا ضمیر خراب ہے تو مجبوری کے علاوہ عام حالات میں وہی خراب ضمیر بولے گا، یعنی درحقیقت زبان کو حرکت دینے والا ضمیر ہے۔
حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "عَوِّد لِسانَكَ لِينَ الكَلامِ و بَذلَ السَّلامِ ، يَكثُر مُحِبّوكَ و يَقِلَّ مُبغِضوكَ” ، "اپنی زبان کو نرم کلامی اور سلام کرنے کی عادت ڈالو تا کہ تم سے محبت کرنے والے بڑھ جائیں اور تم سے دشمنی کرنے والے کم ہوجائیں”۔ [غرر الحكم و درر الكلم، ص۴۵۷، ح۳]اسی طرح حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
من نصب نفسه اماماً فلیبدا بتعلیم نفسه قبل تعلیم غیره و لیکن تادیبه بسیرته قبل تادیبه بلسانه و معلّم نفسه و مؤدبها احق بالاجلال من معلم النّاس و مؤدبهم
"جو شخص دوسروں کا پیشوا بنے چاہیے کہ پہلے وہ اپنی اصلاح کرے پھر دوسروں کی اصلاح کے لیے اٹھے اور دوسروں کو زبان سے ادب سکھانے سے پہلے اپنے کردار سے ادب سکھائے اور جو اپنے آپ کو تعلیم اور ادب سکھاتا ہے وہ اس شخص کی نسبت زیادہ عزّت کا حقدار ہے جو دوسروں کو ادب سکھاتا ہے”(نہج البلاغہ _کلمات قصار نمبر ۷۳)

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button