امامترسالاتسلائیڈرعقائد

امام ِ معصوم کی ضرورت (حصہ اول )

مختار حسین توسلی
اللہ تعالی کے اولو العزت نبی حضرت ابراھیم علیہ السلام نے بارگاہ خدا وندی میں دعا کرتے ہوئے فرمایا :
” رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ۔
یعنی: اے ہمارے رب ! ان میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات سنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں (ہر قسم کے رذائل سے) پاک کرے، بے شک تو بڑا غالب آنے والا، حکیم ہے۔”(سورہ بقرہ آیت 129)
اللہ تعالی نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی دعا سن لی اور آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو انہی صفات کے ساتھ بھیجا جن کا ذکر جناب ابراھیم علیہ السلام نے کیا تھا، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
” لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۔
یعنی: ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔”
(سورہ آل عمران آیت 164)
سورہ جمعہ میں بھی یہی آیت انہی الفاظ کے ساتھ آئی ہے :” هوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ، وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ۔”
یعنی ( اللہ ) وہ ہے جس نے امیین یعنی ناخواندہ لوگوں ( مکے والوں ) میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔(سورہ جمعہ آیت : 2)
ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے اُمیین میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا، یہاں پر لفظ امی کے مختلف معانی بیان کیے جاتے ہیں، عموما اُمی سے مراد وہ شخص لیا جاتا ہے جو ناخواندہ یعنی پڑھنے لکھنے سے عاری ہو، صدر اسلام کے یہودی دوسری قوموں کو اہانت اور حقارت کے طور پر اُمی کہتے تھے مگر قرآن مجید میں یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے جو اہل کتاب نہیں ہیں یعنی جنہیں کتاب نہیں دی گئی ہو، جیساکہ مذکورہ بالا آیہ شریفہ میں ہے، کیونکہ یہ آیت قریش کے بارے میں گفتگو کر رہی ہے جو اہل کتاب میں سے نہیں تھے، اسی طرح اہل کتاب میں سے بھی جو لوگ متعلقہ کتاب کو پڑھ نہیں سکتے انہیں بھی قرآن نے اُمی کہا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
” وَ مِنۡہُمۡ اُمِّیُّوۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ الۡکِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ ۔۔۔ یعنی ان میں کچھ ایسے ناخواندہ لوگ ہیں جو کتاب (تورات) کو نہیں جانتے سوائے جھوٹی آرزوؤں کے۔(سورہ بقرہ آیت : 78)
علاوہ ازیں عربی میں امی ” لفظ ام ” سے ماخوذ ہے جو مبداء اور اصل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی ایسی اصل کہ جس کی طرف باقی تمام چیزوں کی بازگشت ہو، عربی میں ” ماں ” کو اس لیے اُم کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اولاد کے لیے مرکز و محور ہوا کرتی ہے۔
عراق کے مشہور و معروف خطیب ِ منبر حسینی شیخ احمد وائلی رحمة الله عليه اپنے ایک خطاب میں بیان کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ کو أم القریٰ یا أم المُدُن (یعنی تمام شہروں کی اصل) کہا جاتا ہے، اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ پرانے زمانے میں مکہ تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا چنانچہ قرب و جوار کے لوگ تجارت کی غرض سے یہاں آیا کرتے تھے، دوسرے یہ کہ مکہ سے اسلام کا آغاز ہوا اور اسلام کی تعلیمات یہیں سے پوری دنیا میں پھیل گئیں چنانچہ مکہ مکرمہ باقی شہروں کے لیے اصل اور بنیاد قرار پایا، سورہ فاتحہ کو ام الکتاب یا ام القرآن کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں جو شرف ہے وہ پورے قرآن مجید پر محیط ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ امی کا ایک معنی نہیں ہے بلکہ یہ ایک سے ذیادہ معانی پر مشتمل ہے، اسے علم منطق کی رو سے مشترک لفظی کہتے ہیں۔
قرآن مجید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جن اوصاف کا ذکر ہوا ہے ان میں سے ایک اہم صفت اُمی ہے، یعنی آپ کو نبی و رسولِ اُمّی کہا جاتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
” قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہِ النَّبِیِّ الۡاُمِّیِّ الَّذِیۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ .
یعنی : کہدیجئے: اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگی اور وہی موت دیتا ہے، لہٰذا تم اللہ اور اس کے فرستادہ رسول پر ایمان لے آؤ، اس امی نبی پر جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو، شاید تم ہدایت حاصل کر لو۔”(سورہ اعراف آیت 158 _ 157)
مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ آیت نمبر 157 کے ذیل میں رقم طراز ہیں : قابل توجہ مطلب یہ ہے کہ اس لفظ امّی کو جہاں اہل کتاب خاص کر یہودی تحقیر کے طور پر استعمال کرتے تھے، وہاں قرآن نے اس لفظ کو رسول کریمؐ کی شناخت کے طور پر بیان فرمایا ۔
اس میں عظیم نکتہ یہ ہے کہ وہ رسول جن کے بارے میں تم خود تسلیم کرتے ہو کہ وہ امّی ہیں، ایک جامع نظام حیات پیش کرتے ہیں، جس کی نظیر پیش کرنے سے انسانی درسگاہوں کے پڑھے ہوئے دانشور قاصر ہیں۔ یہ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ جس نظام حیات نے دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا ہے، اس کا پیش کرنے والا اللہ کی طرف سے پڑھا ہوا ہے۔ وہ ان سب پڑھے لکھے لوگوں سے زیادہ پڑھا لکھا ہے۔ البتہ بشری درسگاہوں میں نہیں بلکہ ملکوتی درسگاہوں کا پڑھا لکھا ہے۔ اس نے ان سیاہ لکیروں والی تحریر کو نہیں پڑھا، وہ لوح کائنات پر قلم قدرت سے لکھی ہوئی تحریروں کو پڑھ کر آیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:” بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ ، بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے۔ لوح محفوظ میں (ثبت) ہے۔(سورہ بروج، آیات 21، 22)
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لکیروں کو پڑھ نہیں سکتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ ان لکیروں کو پڑھتے نہیں ہیں، وہ انسانیت کو تعلیم دینے آئے ہیں، انسانوں سے تعلیم لینے نہیں آئے کہ ان کی تحریروں کو پڑھنے کی ضرورت پیش آئے۔
(الکوثر فی تفسیر القران ذیل آیت 157)
مسلمانوں کے دونوں مکاتب فکر اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لقب امی کی تفسیر و تشریح میں اختلاف پایا جاتا ہے اہل سنت کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ آپ ان پڑھ اور ناخواندہ تھے یعنی آپ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے جبکہ اہل تشیع کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ آپ لکھنا پڑھنا تو جانتے تھے مگر لکھتے یا پڑھتے نہیں تھے، با الفاظ دیگر آپ علم لدنی کے مالک تھے یعنی خدا نے خود آپ کو اپنے ہاں سے علم دے کر بھیجا تھا، چنانچہ آپ نے دنیا کے کسی مکتب میں جاکر تعلیم حاصل نہیں کی اور کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ جو معلم انسانیت بن کر آیا ہے وہ کیسے کسی اور کے پاس جا کر تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔
المختصر امی کا مطلب یہ نہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پڑھ تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پڑھنا لکھنا جاننے کے باوجود پڑھتے اور لکھتے نہیں تھے، کیونکہ آپ نے دنیا کے کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی بلکہ خدا کی بارگاہ سے علم لدنی لے کر آئے تھے اس لیے آپ انسانوں کی لکھی ہوئی تحریر کو پڑھنے پے محتاج نہیں تھے، چنانچہ آپ دنیا کے سب سے بڑے معلم تھے اس کا ثبوت مذکورہ بالا آیہ شریفہ ہے جس میں ارشاد ہوا کہ آپ لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دینے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں، لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان پڑھ کہنا درست نہیں ہے ۔
پس اللہ تعالی نے ناخواندہ قوم میں ایک معلم کو مبعوث کیا، غیر تعلیم یافتہ قوم میں ایک تعلیم دہندہ کو مبعوث کیا، جاہل قوم میں ایک عالم کو مبعوث کیا، یہ خود اس رسول کی رسالت پر ایک واضح دلیل ہے، آگے اس معلم اور تعلیم دہندہ کی تعلیم کے مضامین کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے پہلا مضمون تلاوت کتاب ہے۔
واضح رہے کہ یَتۡلُوۡا تلا يَتلُو سے ماخوذ ہے جس کے بہت سارے معانی ہیں ان میں سے ایک معنی اتباع اور پیروی کرنا بھی ہے، جیسے کہا جاتا ہے تَلا الرَّجُلَ یعنی تَبِعَهُ في عَمَلِهِ، کسی کے عمل میں اس کی پیروی کرنا، یا کسی کی سیرت و کردار کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دینا وغیرہ، اسی سے تلاوت ہے، تلاوت میں اتباع و پیروی کا مفہوم مضمر ہوتا ہے، لہٰذا اگر قرآن مجید کو اتباع کی غرض سے پڑھا جائے تو اسے تلاوت کہیں گے، بصورت دیگر صرف پڑھنے کو قرائت کہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قرآن مجید کی تلاوت کرنے یعنی بغرض اتباع و پیروی پڑھ کے سنانے میں تیئس سال لگے۔
یُزَکِّیۡہم : لغوی معنی نمو و فزونی ہے، تزکیہ یعنی پاک کرنا اور تربیت کے ذریعے ارتقائی منازل سے گزارنا، یعنی فکری و عملی خبائث سے پاک کر کے ارتقائی منازل کی طرف لے جانا، تزکیہ نفس کا تعلق فکری، عملی، ظاہری، باطنی، مادی، عقلی، جسمانی، روحانی، انفرادی، اجتماعی اور سماجی امور سے ہے تاکہ ان تمام میدانوں میں انسانوں کو اخلاقی اور انسانی اقدار کا مالک بنایا جائے اور ان کے ظاہر و باطن کو سدھارا اور سنوارا جائے، جس سے انسان کو دنیا میں سعادت اور آخرت میں نجات اور ابدی حیات مل جاتی ہے۔
و يُعَلِّمُہُمُ الۡکتٰب، یعنی انہیں قرآن مجید کی تعلیم دے، قرآن مجید کے مختلف نام ہیں ان میں سے ایک الکتاب بھی ہے۔
وَ الۡحِکۡمَۃَ: حکمت واقع بینی اور حقیقت شعاری کو کہتے ہیں، خطا اس کی ضد ہے، لہٰذا حکمت کی تعلیم سے مراد حقائق تک رسائی حاصل کرنا ہے، تمام مشکلات کی بنیاد حقائق تک رسائی نہ ہونا ہے، حقائق تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں انسان ایک موہوم چیز کے پیچھے اپنی زندگی تلف کر دیتا ہے، چنانچہ زندگی ایک سراب کی مانند ہو جاتی ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کام لوگوں کو سراب سے نکالنا اور حقائق سے روشناس کرانا ہے۔
(ماخوذ از الکوثر فی تفسیر القران ذیل آیت)
اس آیہ شریفہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کرنے کے چار مقاصد بیان کیے ہیں یعنی ان کی چار ذمہ داریاں ہیں :-
تلاوت کتاب
تعلیم کتاب
تعلیم حکمت
تزکیہ نفس
تلاوت اور تعلیم میں فرق ہے تلاوت کا مطلب کتاب کی آیات کو پڑھ کے سنانا ہے، جبکہ تعلیم کا مطلب صرف سنانا نہیں بلکہ سمجھانا بھی ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب یعنی قرآن مجید کی تلاوت کا کام صرف 23 سالوں پر محیط ہے اور یہ کام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ختم ہو گیا لیکن تعلیم کا کام باقی ہے، اور تعلیم کی احتیاج تب تک باقی رہے گی، جب تک کتاب اور اس سے ہدایت لینے والے موجود ہیں، کیونکہ انسان کبھی بھی ہدایت و رہبری سے بے نیاز نہیں ہوسکتا، چنانچہ ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے کہ جس کی بنا پر کہا جا سکے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد لوگوں کو کتاب یعنی قرآن کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔
تعلیم ِ کتاب و حکمت :
اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو قسم کی وحی نازل کی ہے اور مسلمانوں کے لیے ان دونوں پر ایمان رکھنا اور ان پر عمل کرنا واجب قرار دیا ہے، ان میں سے ایک کتاب اور دوسری حکمت ہے، جس طرح قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :
” وَ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمۡ تَکُنۡ تَعۡلَمُ ؕ وَ کَانَ فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا ۔”
ترجمہ: اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی اور آپ کو ان باتوں کی تعلیم دی جنہیں آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔(سورہ نساء آیت 113)
مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں پر لفظ واو تفسیری نہیں ہے بلکہ مغایرت کے معنی میں ہے، یعنی کتاب اور حکمت ایک نہیں بلکہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، چنانچہ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :” وَاذۡکُرۡنَ مَا یُتۡلٰی فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیۡفًا خَبِیۡرًا ۔”
ترجمہ: اور اللہ کی ان آیات اور حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے، اللہ یقینا بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔(سورہ احزاب آیت 34)
ابن قیم مزید لکھتے ہیں کہ سلف یعنی صحابہ و تابعین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مذکورہ بالا آیات میں الکتاب سے مراد قرآن اور الحکمت سے مراد سنت ہے، گویا سنت بھی وحی ہے۔
واضح رہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خداوندمتعال سے جو بھی خبر ہم تک پہنچائیں اس کی تصدیق کرنا اور اس پر ایمان لانا واجب ہے، اس پر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے، اس بات کا منکر وہی ہو سکتا ہے جو مسلمان نہ ہو، پس سنت کا انکار کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ دین کا جز ہے۔
تاریخ اسلام میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جو قرآن کے علاوہ کسی چیز حتی حدیث کو بھی قبول نہیں کرتے تھے جنہیں فرقہ قرآنیہ کہا جاتا ہے، مگر ان کا نظریہ حقیقت کے برخلاف ہے کیونکہ سنت پر عمل کرنا درحقیقت قرآن پر عمل کرنے کے مانند ہے کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ .”
ترجمہ : اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ کا خوف کرو، اللہ یقینا شدید عذاب دینے والا ہے۔(سورہ حشر آیت 7)
اس آیہ شریفہ کی رو سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات پر عمل کرنا واجب ہے کیوں کہ آپ اپنی خواہش سے کچھ بھی نہیں بولتے، آپ جو کچھ بولتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
” وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی، اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی، یعنی وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا، یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔(سورہ نجم آیات 3 _ 4)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہر کلام وحی الہی کی روشنی میں ہوتا ہے، البتہ کچھ کلام کے الفاظ اور معنی و مفہوم دونوں جب کہ کچھ کلام کا صرف معنی و مفہوم اللہ تعالی کی طرف سے جبکہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے ہوتے تھے۔
چنانچہ قرآن اور حدیث میں فرق یہ ہے کہ قرآن میں الفاظ اور معنی و مفہوم دونوں اللہ تعالی کی طرف سے ہیں جبکہ حدیث میں معنی و مفہوم اللہ کی طرف سے جبکہ الفاظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہیں، بہر کیف قرآن کی طرح سنت پر بھی عمل کرنا واجب ہے، سنت پر عمل کرنے سے قرآن پر بھی عمل ہو جاتا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
” مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ۔۔۔۔ یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔
(سورہ نساء آیت 80)
المختصر اگر کسی نے سُنّت کو چھوڑ دیا تو گویا اس نے قرآن کو چھوڑ دیا، کیونکہ سُنّت قرآن کی تفسیر کرتی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :” وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ۔”
یعنی : (اے رسول) آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں اور شاید وہ (ان میں) غور کریں۔(سورہ نحل آیت 44)
اس سے پہلے والی آیت میں اللہ تعالی کے نازل کردہ ذکر (قرآن مجید) کی تفسیر و تشریح جاننے کے لیے اہل ذکر کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :” فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ، یعنی : اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو ۔(سورہ نحل آیت 43)
پس دین کے اصول و فروع کو سمجھنے کے لئے قرآن و سنت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ان میں سے کسی ایک کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے، ابن قیم جوزی لکھتے ہیں کہ تمام علمائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ دین کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے بعد حدیث سے تمسک کیا جاتا ہے، البتہ حدیث کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح، صریح اور متفق علیہ ہو۔(کتاب الروح ص 218)
امام بحاری لکھتے ہیں کہ سنت پر عمل کرنا قرآن پر عمل کرنے کی طرح ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ جو کچھ تمہیں رسول دیدیں اسے لے لو اور جس چیز سے وہ منع کریں اس سے رک جاؤ، نیز احادیث بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی ہوئی ہیں مگر یہ کہ ان کے الفاظ خود آپ کی طرف سے، جب کہ مفاہیم اللہ کی طرف سے ہیں، لہذا اگر کوئی قرآن سے استدلال کرے اور سنت سے استدلال نہ کرے تو وہ زندیق یعنی منافق ہے۔
(کتاب : اتحاف القاری با التعلیقات علی الشرح السنة ج 2، ص 157)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ممکن ہے کہ ایک چیز امت کے لئے بہت ہی اہمیت کی حامل ہو لیکن قرآن مجید میں اس کا ذکر نہ ہو بلکہ حدیث میں ذکر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک چیز کی اہمیت اتنی زیادہ نہ ہو لیکن قرآن مجید میں اس کا تذکرہ ہو جبکہ حدیث میں نہ ہو،
فليس هناك ضابطة وقاعدة كل ما كان مهم فيرد في القران وكل ما كان غير مهم فيرد في السنة۔
یہاں پر کوئی ایسا ضابطہ اور قانون نہیں ہے کہ جو بھی چیز مہم ہو اس کا ذکر قرآن میں ہو اور جو بھی چیز غیر مہم ہو اس کا ذکر سنت میں ہو، ایسا ہرگز نہیں ہے، پس دین اسلام کے عقائد و احکام کو سمجھنے میں قرآن و سنت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیہ شریفہ میں مذکور ان چار ذمہ داریوں میں سے فقط ایک ذمہ داری یعنی تلاوت قرآن کو اپنی حیات مبارکہ میں پورا کیا ہے، آپ نے 23 سال کے عرصے میں قرآن کی آیتیں لوگوں تک پہنچائی ہیں لہذا یہ ذمہ داری آپ کی حیات مبارکہ میں ہی ختم ہوگئی ہے، مگر دیگر تین ذمہ داریاں آج بھی باقی ہیں، لوگ ان سے بے نیاز نہیں ہوئے، کیونکہ اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے انسان وہ واحد مخلوق ہے جس کو ہر آن اور ہر لمحہ تعلیم و تربیت اور ہدایت و رہبری کی ضرورت ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کون ان ذمہ داریوں کو نبھائے گا، جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں، آپ پر نبوت و رسالت کا سلسلہ خاتم ہو گیا ہے اب کوئی اور نبی یا رسول نہیں آئے گا، لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کون لوگوں کا تزکیہ نفس کرے گا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیگا ؟
کیا اللہ تعالی نے نبوت و رسالت کے خاتمے کے بعد لوگوں کی ہدایت کا سلسلہ بھی ختم کر دیا ہے یا کسی اور شکل میں جاری رکھا ہوا ہے؟
کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد سب کچھ امت کے حوالے کردیا ہے یا کسی کو اپنا جانشین اور خلیفہ منتخب کیا ہے تاکہ وہ آپ کے بعد لوگوں کی ہدایت و رہبری کا فریضہ انجام دے سکے؟
ان سوالوں کے جوابات بلکل واضح ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت کا تزکیہ نفس کرنے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دینے کے لیے ہر دور اور ہر زمانے میں کسی نہ کسی معصوم ہستی کا ہونا ضروری ہے، اگر ہم منصب نبوت و رسالت کی گِرانی اور قرآن مجید کے مطالب کی سنگینی کو سامنے رکھتے ہوئے غور و فکر سے کام لیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے، لہذا اس میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے لیکن جو بات کو سمجھنا نہ چاہے اس کا معاملہ اور ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر آکر امت کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سنبھالنے والے کو انہی صفات کا حامل ہونا چاہیے جن سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متصف ہیں ، مثلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منصوص من اللہ ہیں لہذا اسے بھی منصوص من اللہ ہونا چاہیے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معصوم عن الخطا ہیں، اسے بھی معصوم الخطا ہونا چاہیے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے زیادہ عالم، فاضل، متقی شجاع، بہادر، صابر اور شاکر ہیں، چنانچہ آپ کے جانشین اور خلیفہ کو بھی ان صفات کا حامل ہونا چاہیے، بالفاظ دیگر جیسا منوب عنہ ہے ویسا نائب ہونا چاہیے، جیسی کتاب ہے ویسا ہی معلم ہونا چاہیے، تب وہ لوگوں کی ہدایت و رہبری کا فریضہ انجام دے سکتا ہے، ورنہ وہ خود کسی اور کی ہدایت و رہبری کا محتاج ہو گا۔
چنانچہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی نے نبوت و رسالت کے خاتمے کے بعد بنی نوع انسان کی ہدایت و رہبری کے سلسلے کو موقوف نہیں کیا بلکہ امامت کی صورت میں جاری رکھا، تاکہ لوگوں کا تزکیہ نفس ہوتا رہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم ملتی رہے، چنانچہ ہمارے نزدیک تعلیم ِ کتاب کے تسلسل کا نام امامت ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام کو اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد منصب امامت و ولایت پر فائز کرکے لوگوں کے لیے ہادی و رہنماء بنایا ہے تاکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد لوگوں کی تعلیم و تربیت اور ہدایت و رہبری کا فریضہ انجام دیں۔
تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس دن کھل کر اپنی نبوت و رسالت کا اعلان فرمایا اسی دن امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و امامت کا بھی بیان فرمایا، یہ تاریخِ اسلام کی مسلمہ حقیقت ہے جس کا سوائے ابن تیمیہ اور ان کے پیروکاروں کے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر قریش کے سرداروں کے سامنے جہاں اپنی بعثت کا اعلان فرمایا وہیں مولائے کائنات کی امامت و ولایت کا بھی اعلان فرمایا، اس کے بعد بھی آپ نے متعدد مواقع پر امیر المومنین کے علاوہ باقی آئمہ معصومین علیہم السلام کی بھی ولایت و امامت کا اعلان فرمایا۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button