حضرت امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے اہم واقعات

آپؑ کی ولی عہدی
عباسی دور میں سب سے اہم واقعہ یہ رونما ہوا کہ مامون نے امام رضاعلیہ السلام کو اپنا ولی عہد بنا دیا یعنی وہ عباسی خلافت جو علوی سادات سے دشمنی رکھتی تھی اس میں تبدیلی واقع ہو گئی اور اس بڑے واقعہ کا خاص وعام دونوں میں گفتگو و چرچا ہوا اور سب مبہوت ہو کر رہ گئے،وہ سیاسی روش جس میں عباسیوں نے علویوں کا بالکل خاتمہ کر دیا تھا، اُن کے جوانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا، اُن کے بچوں کو دجلہ میں غرق اور شیعوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر قتل کردیا تھا۔ عباسیوں سے علویوں کی دشمنی بہت آشکار تھی، یہ دشمنی محبت و مودت میں کیسے بدل گئی،عباسی اُن کے حق کے معترف ہو گئے اور عباسی حکومت کا اہم مرکز اُن (علویوں ) کو کیسے سونپ دیا،اسی طرح کی تمام باتیں لوگوں کی زبانوں پر تھیں۔
یہ مطلب بھی بیان ہونا چاہئے کہ مامون نے یہ اقدام اس لئے نہیں کیا تھا کہ یہ علویوں کا حق ہے اور وہ خلافت کے زیادہ حقدار ہیں، بلکہ اُ س نے کچھ سیاسی اسباب کی بنا پر ولایت کا تاج امام رضاؑ کے سر پر رکھا، جس کے کچھ اسباب مندرجہ ذیل تھے:
١۔ مامون کا عباسیوں کے نزدیک اہم مقام نہیں تھا،اور ایسا اس کی ماں مراجل کی وجہ سے تھا جو اس کے محل کے پڑوس اور اس کے نوکروں میں سے تھی،لہٰذا وہ لوگ مامون کے ساتھ عام معاملہ کرتے تھے، وہ اس کے بھائی امین کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے،کیونکہ اُ ن کی والدہ عباسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی، لہٰذا مامون نے امام رضاؑ کو اپنی ولی عہدی سونپ کر اپنے خاندان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی تھی۔
٢۔ مامون نے امامؑ کی گردن میں ولی عہدی کا قلادہ ڈال کر یہ آشکار کرنا چاہا تھا کہ امامؑ دنیا کے زاہدوں میں سے نہیں ہیں،بلکہ وہ ملک و بادشاہت اور سلطنت کے خواستگار ہیں،اسی بنا پر انہوں نے ولی عہدی قبول کی ہے، امامؑ پر یہ سیاست مخفی نہیں تھی، لہٰذا آپؑ نے مامون سے یہ شرط کی تھی کہ نہ تو میں کسی کو کوئی منصب دوں گا، نہ ہی کسی کو اس کے منصب سے معزول کروں گا، اور ہر طرح کے حکم سے کنارہ کش رہوں گا امام کی اِن شرطوں کی وجہ سے آپؑ کا زاہد ہونا واضح ہو گیا۔
٣۔ مامون کے لشکر کے بڑے بڑے سردار شیعہ تھے لہٰذا اس نے امامؑ کو اپنا ولی عہد بنا کر اُن سے اپنی محبت و مودت کا اظہار کیا۔
٤۔ عباسی حکومت کے خلاف بڑی بڑی اسلامی حکومتوں میں انقلاب برپا ہو چکے تھے اور عنقریب اُس کا خاتمہ ہی ہونے والا تھا،اور اُن کا نعرہ "الد عوة الی الرضا من آل محمد "تھا ،جب امام رضا کی ولی عہدی کے لئے بیعت کی گئی تو انقلابیوں نے اس بیعت پر لبیک کہی اور مامون نے بھی اُن کی بیعت کی، لہٰذا اس طرح سے اُ س کی حکومت کو درپیش خطرہ ٹل گیا، اور اسی طرح مامون اپنی حکومت کے ذریعہ اُن رونما ہونے والے واقعات پر غالب آ گیا۔
اِن ہی بعض اغراض و مقاصد کی وجہ سے مامون نے امام رضاؑ کو اپنا ولی عہد بنایا تھا۔
فضل کا امام رضاؑ کو خط لکھنا:
مامون نے اپنے وزیر فضل بن سہل سے کہا کہ وہ امامؑ کو ایک خط تحریر کرے کہ میں نے آپؑ کو اپنا ولی عہد مقرر کردیا ہے۔ خط کا مضمون یہ تھا:
علی بن مو سیٰ الرضا علیہما السلام کے نام جو فرزند رسول خداؐ ہیں، رسولؐ کی ہدایت کے مطابق ہدایت کرتے ہیں،رسولؐ کے فعل کی اقتدا کرتے ہیں، دین الٰہی کے محافظ ہیں، وحی خدا کے ذمہ دار ہیں، اُ ن کے دوست فضل بن سہل کی جانب سے جس نے اُن کے حق کو دلانے میں اپنا خون پسینہ ایک کیا اور دن رات اس راہ میں کوشش کی،اے ہدایت کرنے والے امامؑ آپؑ پر صلوات و سلام اور رحمت الٰہی ہو،میں آپؑ کی خدمت میں اس خدا کی حمد بجا لاتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ اپنے بندے محمدؐ پر درود بھیجے ۔
اما بعد :امیدوار ہوں کہ خدا نے آپؑ کو آپؑ کا حق پہنچا دیا اور اُس شخص سے اپنا حق لینے میں مدد کی جس نے آپؑ کو حق سے محروم کر رکھا تھا، میں امیدوار ہوں کہ خدا آپؑ پر مسلسل کرم فرمائی کرے، آپؑ کو امام اور وارث قرار دے، آپؑ کے دشمنوں اور آپؑ سے روگردانی کرنے والوں کو سختیوں میں مبتلا کرے ،میرا یہ خط امیر المو منین بندہ خدا مامون کے حکم کی بنا پر پیش خدمت ہے میں آپؑ کو یہ خط لکھ رہا ہوں تاکہ آپؑ کا حق واپس کر سکوں،آپؑ کے حقوق آپؑ کی خدمت میں پیش کر سکوں، میں چاہتا ہوں کہ اس طرح آپؑ مجھ کو تمام عالمین میں سعا دتمندترین قرار دیں اور میں خدا کے نزدیک کامیاب ہو سکوں، رسول خداؐ کے حق کو ادا کر سکوں،آپؑ کا معاون قرار پائوں، اور آپؑ کی حکومت میں ہر طرح کی نیکی سے مستفیض ہو سکوں، میری جان آپؑ پر فدا ہو ، جب میرا خط آپؑ تک پہنچے اور آپؑ مکمل طور پر حکومت پر قابض ہو جائیں یہاں تک کہ امیرالمومنین مامون کی خدمت میں جا سکیں جو کہ آپؑ کو اپنی خلافت میں شریک سمجھتا ہے، اپنے نسب میں شفیع سمجھتا ہے اور اس کو اپنے ماتحت پر مکمل اختیار حاصل ہے تو آپؑ ایسی روش اختیار کریں جس کی وجہ سے خیرالٰہی سب کے شامل حال ہو جائے اور ملائکہ الٰہی سب کی حفاظت کریں اور خدا اس بات کا ضامن ہے کہ آپؑ کے ذریعہ امت کی اصلاح کرے اور خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین ذمہ دارہے اور آپؑ پر خدا کا سلام اور رحمت و برکتیں ہوں۔
اس خط میں آپؑ کے کریم و نجیب القاب اوربلند و بالا صفات تحریر کئے گئے ہیں جس طرح کہ امامؑ کی جانب خلافت پلٹائے جانے کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ سب مامون کی مہربانی ا ور اس کی مشقتوں سے بنے ،مامون یہ چاہتا تھا کہ امامؑ بہت جلد خراسان آ کر اپنی خلافت کی باگ ڈور سنبھال لیں، امامؑ نے اس خط کا کیا جواب دیا ہمیں اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے جو عباسی حکومت کے ایک بڑے عہدے دار کے نام لکھا گیا ہو اور اس سے بڑا گمان یہ کیا جا رہا ہے کہ امامؑ نے اپنے علم و دانش کی بنا پر اس لاف و گزاف (بے تکے ) ادّعا اور عدم واقعیت کا جواب تحریر ہی نہ فرمایا ہو۔
مامون کے ایلچیوں کا امامؑ کی خدمت میں پہنچنا
مامون نے امام رضاؑ کو یثرب سے خراسان لانے کے لئے ایک وفد بھیجا اور وفد کے رئیس سے امامؑ کو بصرہ اور اہواز کے راستے یا پھر فارس کے راستہ سے لانے کا عہد لیا اور ان سے کہا کہ امامؑ کو کوفہ اور قم کے راستہ سے نہ لیکر آئیں جس طرح کہ امامؑ کی جانب خلافت پلٹائے جانے کا بھی ذکر ہے۔ مامون کے اتنے بڑے اہتمام سے یہ بات واضح و آشکار تھی کہ امامؑ کو بصرہ کے راستہ سے کیوں لایا جائے اور کوفہ و قم کے راستہ سے کیوں نہ لایا جائے؟ چونکہ کوفہ اور قم دونوں شہر تشیع کے مرکز تھے،اور مامون کو یہ خوف تھا کہ شیعوں کی امامؑ کی زیادہ تعظیم اور تکریم سے اُس کا مرکز اور بنی عباس کمزور نہ ہو جائیں۔
وفد بڑی جد وجہد کے ساتھ یثرب پہنچا اس کے بعد امامؑ کی خدمت میں پہنچ کر آپؑ کو مامون کا پیغام پہنچایا،امام نے جواب دینا صحیح نہیں سمجھا،آپؑ کو مکمل یقین تھا کہ مامون نے آپؑ کو خلافت اور ولی عہدی دینے کے لئے نہیں بُلایا ہے بلکہ یہ اُس کی سیاسی چال ہے اور اس کا مقصد آپؑ کا خاتمہ کرنا تھا ۔
امامؑ زندگی سے مایوس ہو کر بڑے ہی حزن و الم کے عالم میں اپنے جد رسول اللہؐ کی قبر کی طرف آخری وداع کے لئے پہنچے، حالانکہ آپؑ کے رُخِ انور پرگرم گرم آنسو بہہ رہے تھے، مخول سجستانی امامؑ کی اپنے جد کی قبر سے آخری رخصت کے سلسلہ میں یوں رقمطراز ہیں: جب قاصد امام رضاؑ کو مدینہ سے خراسان لانے کے لئے پہنچا تو میں مدینہ میں تھا،امامؑ اپنے جد بزرگوار سے رخصت ہونے کیلئے مسجد رسول میں داخل ہوئے اور متعدد مرتبہ آپ کو وداع کیا،آپؑ زار و قطار گریہ کر رہے تھے، میں نے امامؑ کی خدمت اقدس میں پہنچ کر سلام عرض کیا، آپؑ نے سلام کا جواب دیا اور میں نے اُن کی خدمت میں تہنیت پیش کی تو امامؑ نے فرمایا:مجھے چھوڑ دو ،مجھے میرے جد کے جوار سے نکالا جا رہا ہے،مجھے عالم غربت میں موت آئے گی، اور ہارون کے پہلو میں دفن کر دیا جا ئے گا۔ مخول کا کہنا ہے:میں امامؑ کے ساتھ رہا یہاں تک کہ امامؑ نے طوس میں انتقال کیا اور ہارون کے پہلو میں دفن کردئے گئے۔
خراسان کی طرف
امام رضاؑ خانہ خدا کوالوداع کہنے کے بعد خراسان کی طرف چلے، جب آپؑ شہر بلد پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے آپؑ کا انتہائی احترام و اکرام کیا امامؑ کی ضیافت اور ان کی خدمات انجام دیں جس پر آپؑ نے شہربلد والوں کا شکریہ ادا کیا۔
امامؑ نیشاپور میں
امامؑ کا قافلہ کسی رکاوٹ کے بغیر نیشاپور پہنچا، وہاں کے قبیلے والوں نے آپؑ کا بے نظیر استقبال کیا، علماء اور فقہاء آپؑ کے چاروں طرف جمع ہو گئے، جن میں پیش پیش یحییٰ بن یحییٰ، اسحاق بن راہویہ، محمد بن رافع اور احمد بن حرب وغیرہ تھے۔ جب اس عظیم مجمع نے آپؑ کو دیکھا تو تکبیر و تہلیل کی آوازیں بلند کرنے لگے، اور ایک کہرام برپا ہو گیا،علماء اور حفاظ نے بلند آواز میں کہا:اے لوگو ! خاموش ہو جائو اور فرزند رسول کو تکلیف نہ پہنچا ئو ۔
جب لوگ خاموش ہو گئے تو علماء نے امامؑ سے عرض کیا کہ آپؑ اپنے جد بزرگوار رسول اسلامؐ سے ایک حدیث بیان فرما دیجئے تو امامؑ نے فرمایا:”میں نے موسیٰ بن جعفر سے انہوں نے اپنے والد بزرگوار جعفر بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد بزرگوار محمد بن علی سے،انہوں نے اپنے والد بزرگوار علی بن الحسین سے ،انہوں نے اپنے والد بزرگوار حسین بن علی سے انہوں نے اپنے والد بزرگوار علی بن ابی طالب سے اور انہوں نے نبی اکرمؐ سے نقل کیا ہے کہ خدا وند عالم حدیث قدسی میں فرماتا ہے :
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ حِصْنِیْ ،فَمَنْ قَالَھَا دَخَلَ حِصْنِیْ، وَمَنْ دَخَلَ حِصْنِیْ اَمِنَ مِنْ عَذَابِیْ وَلٰکِنْ بِشُرُوْطِھَاوَأَنَا مِنْ شُرُوْطِھَا "۔
لا الٰہ الّا اللّٰہ میرا قلعہ ہے ،جس نے لا الٰہ اِلّا اللّٰہ کہا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوگیا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہو گیا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہو گیا لیکن اس کی کچھ شرطیں ہیں اور اُن ہی شرطوں میں سے ایک شرط میں ہوں”۔
اس حدیث کو بیس ہزار سے زیادہ افراد نے نقل کیا،اس حدیث کو حدیث ذہبی کا نام دیا گیا چونکہ اس حدیث کو سنہری روشنائی (یعنی سونے کا پانی )سے لکھا گیا،سند کے لحاظ سے یہ حدیث دیگر تمام احادیث میں سے زیادہ صاحب عظمت ہے۔
احمد بن حنبل کا کہنا ہے: اگر اس حدیث کو کسی دیوانہ پر پڑھ دیا جائے تو وہ صحیح و سالم ہو جائے گا۔ اور بعض سامانی حکام نے یہ وصیت کی ہے کہ اس حدیث کو سونے کے پانی سے لکھ کر اُ ن کے ساتھ اُن کی قبروں میں دفن کر دیا جائے "۔
ولی عہدی کی پیشکش
جب مامون امامؑ سے خلافت قبول کرنے سے مایوس ہو گیا تو اس نے دوبارہ امامؑ سے ولی عہدی کی پیشکش کی تو امامؑ نے سختی کے ساتھ ولی عہدی قبول نہ کرنے کا جواب دیا، اس بات کو ہوئے تقریباً دو مہینے سے زیادہ گزر چکے تھے اور اس کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آ رہا تھا اور امامؑ حکومت کا کوئی بھی عہدہ و منصب قبول نہ کرنے پر مصر رتھے۔
امامؑ کو ولی عہدی قبول کرنے پر مجبور کرنا
جب مامون کے تمام حربے ختم ہو گئے جن سے وہ امامؑ کو ولی عہدی قبول کرنے کے لئے قانع کرنا چا ہتا تھا تو اُس نے زبردستی کا طریقہ اختیار کیا، اور اس نے امامؑ کو بلاو ابھیجا،تو آپؑ نے اُس سے فرمایا:”خدا کی قسم جب سے پروردگار عالم نے مجھے خلق کیا میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اور مجھے نہیں معلوم،کہ تیرا کیا ارادہ ہے ؟”۔
مامون نے جلدی سے کہا: میرا کو ئی ارادہ نہیں ہے۔
"میرے لئے امان ہے؟”
ہاں آپؑ کے لئے امان ہے۔
"تیرا ارادہ یہ ہے کہ لوگ یہ کہیں: "علی بن مو سیٰؑ نے دنیا میں زہد اختیار نہیں کیا،بلکہ دنیا نے ان کے بارے میں زہد اختیار کیا،کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ انہوں نے خلافت کی طمع میں کس طرح ولی عہدی قبول کرلی؟”۔
مامون غضبناک ہو گیا اور اُس نے امامؑ سے چیخ کر کہا:آپؑ ہمیشہ مجھ سے اس طرح ملاقات کرتے ہیں جسے میں ناپسند کرتا ہوں، اور آپؑ میری سطوت جانتے ہیں، خدا کی قسم یا تو ولی عہدی قبول کرلیجئے ورنہ میں زبردستی کروں گا، قبول کر لیجئے ورنہ میں آپؑ کی گردن ماردوں گا۔
امامؑ نے خدا کی بارگاہ میں تضرّع کیا :”خدایا تو نے مجھے خو دکشی کرنے سے منع فرمایا ہے جبکہ میں اس وقت مجبور و لاچار ہو چکا ہوں، کیونکہ عبداللہ مامون نے ولی عہدی قبول نہ کرنے کی صورت میں مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے، میں اس طرح مجبور ہو گیا ہوں جس طرح جناب یوسفؑ اور جناب دانیالؑ مجبور ہوئے تھے، کہ اُن کو اپنے زمانہ کے جابر حاکم کی ولایت عہدی قبول کرنی پڑی تھی۔
امامؑ نے نہایت مجبوری کی بنا پرولی عہدی قبول کر لی حالانکہ آپؑ بڑے ہی مغموم و محزون تھے۔
امامؑ کی شرطیں
امام نے مامون سے ایسی شرطیں کیں جن سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ آپؑ کو اس منصب کے قبول کرنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے۔ وہ شرطیں مندرجہ ذیل ہیں:
١۔آپؑ کسی کو ولی نہیں بنائیں گے۔
٢۔ کسی کو معزول نہیں کریں گے۔
٣۔ کسی رسم و رواج کو ختم نہیں کریں گے۔
٤۔ حکومتی امور میں مشورہ دینے سے دور رہیں گے۔
مامون نے اِن شرطوں کے اپنے اغراض و مقاصد کے متصادم ہونے کی وجہ سے تسلیم کر لیا، ہم نے اس عہد نامہ کی نص و دلیل اور شرطوں کواپنی کتاب "حیاۃالامام علی بن مو سیٰ الرضا ؑ ” میں نقل کیا ہے۔
اہم قوانین
١۔ مامون نے امام رضاؑ کو ولی عہد منتخب کرتے وقت مندرجہ ذیل اہم قوانین معین کئے:
١۔ لشکر کو پورے سال تنخواہ دی جا ئے گی۔
٢۔عباسیوں کو کالا لباس نہیں پہنایا جائے گا بلکہ وہ ہرا لباس پہنیں گے، چونکہ ہرا لباس اہل جنت کا لباس ہے اور خداوند عالم کا فرمان ہے وَ یَلْبَسُونَ ثِیَابًا خُضْرًا مِنْ سُندُسٍ وَِسْتَبْرَق۔ اور یہ باریک اور دبیز ریشم کے سبز لباس میں ملبوس ہوں گے ”
٣۔درہم و دینار پر امام رضاؑ کا اسم مبارک لکھا جا ئے گا۔
مامون کا امام رضاؑ سے خوف
ابھی امام رضاؑ کو ولی عہد بنے ہوئے کچھ ہی مدت گزری تھی کہ مامون آپؑ کی ولی عہدی کو ناپسند کرنے لگا،چاروں طرف سے افراد آپؑ کے گرد اکٹھا ہونے لگے اور ہر جگہ آپؑ کے فضل و کرم کے چرچے ہونے لگے ہر جگہ آپؑ کی فضیلت اور بلند شخصیت کی باتیں ہونے لگیں اورلوگ کہنے لگے کہ یہ خلافت کے لئے زیادہ شایانِ شان ہیں، بنی عباس چور اور مفسد فی الارض ہیں،مامون کی ناک بھویں چڑھ گئیں اس کو بہت زیادہ غصہ آ گیا،اور مندرجہ ذیل قانون نافذ کردئے:
١۔اُس نے امامؑ کے لئے سخت پہرے دار معین کر دئے، کچھ ایسے فوجی تعینات کئے جنہوں نے امامؑ کا جینا دو بھر کر دیا اور نگہبانوں کی قیادت ہشام بن ابراہیم راشدی کے سپرد کر دی وہ امامؑ کی ہر بات مامون تک پہنچاتا تھا۔
٢۔اُس نے شیعوں کو امامؑ کی مجلس میں حاضر ہو کر آپؑ کی گفتگو سننے سے منع کر دیا،اس نے اِس کام کے لئے محمد بن عمر و طوسی کو معین کیا جو شیعوں کو بھگاتا اور ان کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آتا تھا۔
٣۔علماء کو امامؑ سے رابطہ رکھنے اور اُن کے علوم سے استفادہ کرنے سے منع کیا۔
امامؑ کو قتل کرنا
مامون نے امامؑ کو قتل کرنے کی سازش کی، اور اُس نے انگور یا اَنار میں زہر ملا کر دیا، جب امامؑ نے اُس کو تناول فرمایا تو زہر آپؑ کے پورے بدن میں سرایت کر گیا اور کچھ ہی دیر کے بعد آپؑ کی روح پرواز کرگئی جو ملائکہ کے حصار میں خدا تک پہنچی اور ریاض خلد میں انبیاءؑ کی ارواح نے آپؑ کا استقبال کیا۔امامؑ اللہ کے بندوں تک رسالت الٰہی کا پیغام پہنچا کردار فانی سے کو چ فرما گئے،آپؑ مامون کی حکومت کے کسی کام میں بھی شریک نہیں ہوئے جبکہ مامون نے آپؑ کو ہر طرح سے ستایا تھا۔
امامؑ کی جس طرح تشیع جنازہ ہوئی اس کی خراسان کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی،تمام حکومتی دفاتر، اور تجارت گاہیں وغیرہ رسمی طور پر بند کردی گئیں،اور ہر طبقہ کے لوگ امام کے جسم مطہر کی تشیع جنازہ کے لئے نکل پڑے۔آگے آگے مامون،اُس کے وزیر،حکومت کے بڑے بڑے عہدیدار اور لشکر کے کمانڈر تھے، مامون ننگے سر اور ننگے پیر تھا وہ بلند آواز سے کہہ رہا تھا: مجھے نہیں معلوم کہ مجھ پر اِن دونوں مصیبتوں میں سے کونسی بڑی مصیبت ہے؟ آپؑ مجھ سے جدا ہو گئے یا لوگ مجھ پر یہ تہمت لگا رہے ہیں کہ میں نے آپ کو دھوکہ دے کر قتل کر دیا ہے؟ مامون نے خود کو امامؑ کے قتل سے بری الذمہ ہونے کے لئے نالہ و فریاد اور حزن و الم کا اظہار کیا ؟ لیکن بہت جلد اس کی اس ریاکاری کا پردہ فاش ہو گیا اور سب پر واضح ہو گیا کہ وہ خود مجرم ہے۔امامؑ کا جسم اطہر تکبیر و تعظیم کے سایہ میں لیجایا گیا اور مامون نے آپؑ کو ہارون کے نزدیک آپؑ کی ابدی آرامگاہ میں سپرد خاک کردیا، آپؑ کے دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لئے باعث عزت صفاتِ حسنہ رخصت ہو گئے۔
امامؑ کو اس مقدس و طاہر بقعہ میں دفن کردیا گیا، آپؑ کا مرقد مطہر خراسان میں انسانی کرامت کا مظہر بن گیا، آپؑ کا مرقد مطہر اسلام میں بہت باعزمت ہے، لوگوں نے امام رضاؑ کے مرقد مطہر جیسا با حشمت، عزت اور کرامت کامرقد کسی اور ولی اللہ کا مرقد نہیں دیکھا۔ بہر حال امام رضاؑ کے اس دنیا سے چلے جانے سے دنیائے اسلام میں ایمان و ہدایت کے چراغ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا اور مسلمان اپنے قائد اعظم اور امامؑ سے محروم ہو گئے۔
https://shiastudies.com/ur/607