سیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا علیؑ کے گھر میں

فیاض علی (متعلم جامعہ الکوثر )
مقدمہ :

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی زندگی خواتین کیلئے نمونہ عمل ہے ۔ زندگی کے ہر شعبے میں آپ کائنات کی خواتین کیلئے اسوہ حسنہ قرار پائیں۔اگر کوئی خاتون کامیاب زندگی گذارنا چاہتی ہے تو فاطمہ زہرؑا کی ذات گرامی اس کے لیے بہترین اسوہ ہے۔
فاطمہ (س) علی ؑ کے گھر میں :
جناب فاطمہ زہراؑ باپ کے گھر سے شوہر کے گھر منتقل ہوئیں۔ گویا کہ مرکز نبوت سے مرکز ولایت کی طرف ہجرت فرمائی۔اسلام کے سپہ سالار ،فوج کے سپہ سالار جنگ کے وزیر اور خصوصی مشیر اسلام کی پہلی شخصیت کے گھر وارد ہوئیں۔امام علی علیہ السلام کے گھر میں سنگین ذمہ داریوں کا بوجھ آپ کے شانوں پر آگیا۔ رسمی ذمہ داریاں بھی آپ پر عائد ہوگئیں ۔یہاں تک کہ اسلام کی خواتین کو ازدواجی زندگی ،امور خانہ داری ،بچوں کی اچھی تربیت ،خدا کاری اور صداقت کا عملی طورپر درس دینا تھا ۔آپ کو اس طرح کی زندگی گزار نا تھی جو مسلمان عورتوں کیلئے ایک نمونہ عمل ہو اور کائنات کی خواتین آپ کےوجود کے آئینے میں اسلام کی نورانیت اور حقیقت کو دیکھ سکیں۔
حضرت فاطمہ زہرا ؑ کو رسول اکرم ؐ فرماتے تھے ۔ خدا نے سب سے بڑی نعمت جو تمہیں عطا کی ہے وہ یہ ہے کہ مجھ سا باپ ،علؑی جیسا شوہر اور حسنؑ اور حسینؑ جیسے بیٹوں سے تمہیں نوازا ہے ۔ جب قبر میں ان سے فرشتے پوچھیں گے تمہارا رسول کون ؟ کہیں گی میرے بابا ،امامت کے بارے میں سوال ہوگا تو کہیں گی میرے شوہر ۔ عبادت کے لحاظ سے امت میں بے نظیر ہیں ۔رسول اکرم ؐ نےآپ سے سوال کیا کہ عورت کیلئے بہترین کام کیاہے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ وہ کسی مرد کونہ دیکھے اور نہ کوئی مرد اسے دیکھے۔اس پر رسول نے اپنی بیٹی کی پیشانی کا بوسہ دیا.(مثالی خواتین ص 25)
خاتون جنت کی ازدواجی زندگی کا آغاز عظمت اورشان شوکت سے ہوا۔ آپ کی ازدواجی زندگی کا ہر دن آپ کیلئے ملکوتی شرف و جمال کا ارمغان لا کر آپ کی عزت و رفعت میں اضافہ کردیتا۔کیونکہ آپ نے جس فضا میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا وہ قدسیت ، طہارت ،دانش، عشق ، خدا پرستی اور انسان دوستی سے لبریز تھی ۔ اس فضا اور ماحول میں پارسائی و شائستگی اور خلوص و سادگی موجزن تھی۔(فاطمہ طلوع سے غروب تک،ص200)
امور خانہ داری :
کائنات میں یہ پہلاگھر انہ تھاجس میں شوہر معصوم اور زوجہ بتول تھیں۔ انسانیت کے تمام فضائل اورکمالات سے مزین تھے ۔حضرت علیؑ ایک اسلامی فرد کامل نمونہ تھے اور حضرت فاطمؑہ ایک مسلمان عورت کا کامل نمونہ تھیں ۔ حضرت علیؑ نےبچپن سے رسول خدا ؐکے دامن میں اور آپ کی زیر نگرانی تربیت پائی تھی کمالات ،فضائل اوربہترین ،اعلیٰ ترین اسلامی اخلاق کے مالک تھے ۔جناب فاطمہ ؑ نے بھی اپنے باپ کے دامن میں تربیت پائی تھی لہذا آپ ؐ بھی اسلامی اخلاق سے پوری طرح آگاہ تھیں۔ علیؑ اور فاطمؑہ کا گھر واقعا محبت کا باصفا محور تھا ۔ میاں ، بیوی کمال صداقت سے ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے۔ گھریلو کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ۔بیاہ کی ابتدائی دنوں میں پیغمبر ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی آپ گھر کے کام کاج ہم میں تقسیم کریں تو رسول اکرم ؐ نے فرمایا: گھر کے اندرونی کام فاطمؑہ انجام دیں گی اور بیرونی کام علؑی کےذمہ ہوں گے ۔ جناب فاطمؑہ فرماتی ہیں کہ میں اس کام سے بہت خوش ہوئی کہ گھر کے بیرونی کام میرے ذمہ نہیں آئے ۔(بحاالانوار ،ج 42 ،ص 81)
فاطمہؑ وحی کی تربیت یافتہ تھیں اور جانتی تھیں کہ ان کا گھر ایک اسلام کا بہت بڑا مورچہ ہے اگر عورت گھر سے باہر نکل پڑی تو پھر وہ امور خانہ داری کے وظائف اوراولاد کی تربیت اچھی طرح انجام نہیں دے سکے گی ۔یہی وجہ تھی کہ آپ اس تقسیم سے خوش ہوگئیں ۔اسلام کی بے مثال پہلی شخصیت کی بیٹی کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتی تھی اور گھر کے مشکل کاموں کی بجاآوری سے نہیں کتراتی تھیں ۔آپ نے اس حد تک گھر کے کاموں میں زحمت اٹھائی کہ خود حضرت علیؑ آپ کی خدمات کو سرایا کرتے تھے ۔
امام علیؑ نے اپنے صحابی سے فرمایا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں اپنے اور فاطمؑہ کے متعلق تمہیں بتلاؤں۔ میرے گھر اتنا پانی بھر لائیں کہ آپ کےکندھے میں پر مشک کا نشان پڑ گیا ،اتنی چکی پیسی کہ آپ کے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے ،گھر کی صفائی اور پاکیزگی اور روٹی پکانے میں اتنی زحمت اٹھائی کہ آپ کا لباس میلا ہوگیا۔ اب آپ پر کام کرنا بہت سخت ہوچکا تھامیں نے آپ سے کہا کہ کتنا بہتر ہوتا اگر آپ پیغمبر ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر حالات کا تذکرہ کریں شاید کوئی کنیز آپ کیلئے مہیا کریں تاکہ وہ امور خانہ داری میں مدد کرسکے۔( اسلام کی مثالی خاتون ،تیسرا باب )
پیغمبر اکرم ؐ کی خدمت میں گئیں لیکن اصحاب کی ایک جماعت سے محو گفتگو دیکھ کر واپس لوٹ آئیں اور شرم کے مارے آپ سے کوئی بات نہ کی۔ پیغمبراکرم ؐ نے محسوس کیاتھاکہ فاطمہ ؑ کسی کام کی غرض سے آئی تھیں لہذا آپ دوسرے دن گھر خود تشریف لے آئے اور سلام کیا ہم نے جواب سلام دیا ۔ آپ ہمارے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا بیٹی کس لئے میرے پاس آئی تھیں؟جناب فاطمہؑ اپنی حاجت کے بیان کرنے میں شرم محسوس کی حضرت علی ؑ نے عرض کی یارسول اللہ ۔فاطمہؑ اس قدر پانی بھر کر لائی ہیں کہ مشک کے بندکےداغ ان کے سینے پر پڑ چکے ہیں اتنی چکی چلائی ہےکہ آپ کے ہاتھ پر چھالے پڑگئے ہے ۔اتنا گھرکی صفائی کیلئے جھاڈو دیا کہ آپ کا لباس غبارآلود اور میلا ہوچکا ہے ۔اور اتنا آپ نے خوراک اور غذا پکائی ہےکہ آپ کا لباس کثیف ہوگیاہے ۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ کی خدمت میں جائیں شاید کوئی کنیز اور مددگار آپ انہیں عطا فرمادیں۔ پیغمبرؐ نے فرمایا: بیٹی فاطمؑہ کیا میں ایسا عمل نہ بتادو ں جو کنیز سے بہتر ہو ۔جب سونا چاہو تو 33دفعہ سبحان اللہ ،33 دفعہ الحمدللہ اور 34 دفعہ اللہ اکبر پڑھا کرو ۔یہ ذکر سو سے زائد نہیں لیکن اس سے نامہ عمل میں ایک ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اگر اس ذکر کو ہر روز صبح و شام پڑھو توخدا وندمتعال تیرے دنیا و آخرت کے کاموں کی اصلاح کردےگا۔فاطمہؑ نے جواب میں کہا اباجان میں خدا اور اس کے رسول ؐ سے راضی ہو ں ۔ (بحارلانوار ،ج ،4 ص 82، 134)
شوہر کے ہمراہ :
جناب فاطمہ کسی عام آدمی کے گھر زندگی نہیں گزار رہی تھیں بلکہ وہ اسلام کی دوسری شخصیت ،جو اسلام کے سپہ سالار اور بہادر و قوی اور پیغمبر کے خصوصی وزیر و مشیر کے گھر میں زندگی گزار رہی تھیں ۔اسلام اور اپنے شوہر کے حساس مقام کو اچھی طرح سمجھتی تھیں اور جانتی تھیں کہ اگر علی کی تلوار نہ ہو تو اسلام کی کوئی پیشرفت نہیں ہوسکتی ۔ اسلام کا لشکر ہر وقت تیار رہتا تھا ۔ہر سال کئی لڑائیاں ہوجاتی تھیں حضرت علی ؑ ان تمام یا اکثر جنگوں میں شریک ہواکرتے تھے۔جناب فاطمہ اپنی سخت اور حساس ذمہ داری سے باخبر تھیں اور اس سے بھی بطور کامل مطلع تھیں کہ عورت کا مرد کے مزاج پر کیا اثر ہوتاہے ۔جانتی تھیں کہ عورت اس قسم کا نفوز اور قدرت رکھتی ہےکہ جس طرف چاہئے مرد کو پھیر سکتی ہے اور یہ بھی جانتی تھیں کہ مرد کی ترقی یا رتنزلی اور سعادت اور بدبختی کس قدر عورت کی رفتار اور مزاج سے وابستہ ہے یہ بھی جانتی تھیں کہ گھر مرد کیلئے مورچہ اور آسائش کا مرکز ہے۔ مرد مبارزہ کے میدان اور حوادث زندگی اور ان مشکلات سے روبرو ہو کر تھکا ماندا گھر ہی آکر پناہ لیتاہے تاکہ تازہ طاقت حاصل کرے اور اپنے وظائف کی انجام دہی کیلئے اپنے آپ کو دوبارہ تیار کرسکے ۔اس مہم کی آسائشگاہ کی ذمہ داریاں عورت کو سونپی گئی ہیں اس لیے اسلام نے ازدواجی زندگی کوجہاد کے برابر قرار دیا ہے ۔
امام موسیٰ کاظم ؑ نے فرمایا: عورت کا جہاد یہ ہے کہ وہ اچھی طرح شوہر کی خدمت کرے ۔(الکافی کتاب نکاح ص 114)
جناب فاطمہ ؑ جانتی تھی کہ اسلام کا بہادر اور طاقتور سپہ سالار جنگ کے میدان میں اس وقت فاتح ہوسکتاہے جب وہ گھر کے داخلی امور سے بے فکر اور اپنی رفیقہ حیات کی مہربانیوں سے مطمئن ہو اس سے یہ نتیجہ نکالاجاسکتاہے کہ اسلام کا خداکار سپہ سالار علیؑ جب جنگ سے تھکا ماندا میدان سے گھر آتا تھا توہمسر اپنی مہربانیوں اور نوازشات اور پیار بھر باتوں سے دل بہل جاتا ۔آپؑ ان کے جسم کے زخمیوں پر مرہم پٹی کرتی تھیں۔ان کے خون آلود لباس کو دھوتی اور جنگ کے حالات ان سے سنانے کو کہتی تھی۔ جناب فاطمہ زہرا معظمہ ؑ ان تمام کاموں کو خود انجام دیتی تھیں یہاں تک کہ کبھی اپنے باپ کے خون آلود کپڑے بھی خود ہی دھولیا کرتی تھیں ۔ ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ جنگ احد سے رسول خدا واپس آئے تو آپ نے اپنی تلوار جناب فاطمہؑ کو دی اور فرمایا کہ ان کا خون بھی دھو دو ۔ (سیرہ ابن ہشام ج 2،ص 106)
بچوں کی تعلیم و تربیت :
جناب فاطمؑہ کی ذمہ داریوں میں سے سب سے زیادہ سخت ذمہ داری اولاد کی تربیت تھی ۔ آپ کے پانچ بچے ہوئے ۔جناب امام حسن ؑ،جناب امام حسین ؑ ،جناب زینب ؑ ،جناب ام کلثوم اور پانچواں فرزند کا نام محسن تھاجو جنین مادر میں شہید کردیاگیا ۔ آپؑ کے دو لڑکے اور دو لڑکیا ں زندہ رہیں ۔آپ کی اولاد عالم لوگوں کی اولاد کی طرح نہ تھیں بلکہ یوں ہی خدا کو منظور تھا پیغمبرؐ کی نسل مبارک جناب فاطمہؑ سے چلے ۔ جناب رسول خدا فرمایا کرتے تھے باقی انبیاء کرام کی زریت ان کے صلب سے ہے لیکن میری نسل علیؑ کے صلب سے مقرر ہوئی ہے ۔ میں فاطمہؑ کی اولاد کا باپ ہو ۔(مناقب شہر آشوب، ج 2 ،ص287)
رسول خدا ؐنے فرمایا کہ دین کے پیشوا اور رسول خدا کے خلفا ء جناب زہرا کی پاک نسل سے ہوں گے۔ لہذا جناب زہرا ؑ کی سب سےزیادہ ذمہ داری تربیت اولاد تھی۔ جناب زہرا ؑ نے خود دامن وحی سے تربیت پائی تھیں اور اسلامی تربیت سے ناآشنا اور غافل نہ تھیں۔ یہ جانتی تھیں کہ کس طرح ماں کا دودھ اور اس کے معصوم بچے کے لبوں پر بوسے لیکر اس کے تما م حرکات اور سکنات اعمال اور گفتار اس کی حساس روح پر اثر انداز ہواکرتے ہیں ۔جانتی تھیں کہ مجھے معاشرہ اسلامی کو ایک ایسا نمونہ دیناہے جو روح اسلام کا آئینہ دار اور حقیقت کا معرف ہوگا ۔معارف اور حقائق ان کے وجود میں جلوہ گرہوں اور یہ کام کوئی آسان کام نہ تھا ۔جناب زہرا جانتی تھیں کہ مجھے اس حسین ؑ کی تربیت کرنا ہے کہ جو اسلام کی ضرورت کے وقت اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان دین اسلام کے دفاع اور ظلم سے مبارزہ کرکے فدا کرسکے اور اپنے عزیزوں کے پاک خون سے اسلام کے درخت کو سیراب کردے ۔ جناب فاطمہ زہراؑ عورت ہونے میں احساس کمتری میں مبتلا نہ تھیں اور عورت کے مقام اور مرتبے کو اہم اور اعلیٰ جانتی تھیں اور اس قسم کی بھاری استعداد اپنے میں دیکھ رہی تھیں کہ کار خانہ خلقت نے ان پر اس قسم بھاری اور مہم ذمہ داری ڈال دی اور اس قسم کی اہم مسؤلیت اس کے سپرد کردی ہے ۔
تربیت کی اعلیٰ درسگاہ :
حضرت فاطمہ زہراؑ کے گھر میں بچوں کی ایک اسلامی تربیت اور اعلیٰ درسگاہ کی بنیاد رکھی گئی ۔یہ درسگاہ اسلام کی دوسری شخصیت اور اسلام کی خاتون اول کی مدد سے یعنی علی ؑ اور فاطمہ ؑ کی مدد سے چلائی جارہی تھیں اور اسلام کی پہلی شخصیت پیغمبرؐ کی زیرنگرانی چل رہی تھی ۔اس میں تربیت کے قواعد اور پروگرام بلاواسطہ پروردرگار جہا ن کی طرف سے نازل ہوتے تھے ۔تربیت کے بہترین پروگرام اس میں جاری کئے جاتے تھے اور بہترین افراد کو تربیت دی گئی تھی ۔ کچھ اصول تربیت جوحضرت زہراؑ کی اولاد کی تربیت میں استعمال کئے گئے ہیں اور نقل ہوئے ہیں مختصرا عرض خدمت ہے۔
محبت :
اکثر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بچے کی تربیت کا آغاز اس وقت ہوناچاہئے جب اچھائی اور برائی کو بچہ درک کرنے لگے۔اس سے پہلے بچے کی تربیت کرنا مؤثر نہ ہوگی کیونکہ اس سے پہلے بچہ خارجی عوامل سے متاثر نہیں ہوتا لیکن یہ خیال درست نہیں ہے کیونکہ فن تربیت کے دانشمندوں کی تصدیق کے مطابق بچے کی پرورش اور تربیت کا آغاز اس کی پیدائش سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔دودھ پلانے کی کیفیت ،ماں باپ کے واقعات اور رفتار نومولود کی پرورش میں ایک حد تک مؤثر واقع ہوتی ہے اور اس کی مستقبل کی شخصیت اسی وقت سے شروع ہوجاتی ہے ۔فن تربیت اور ماہر نفسیات کے نزدیک یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ گیاہے کہ بچے بچپن کے زمانے سے ہی محبت اور شفقت کے محتاج ہوتے ہیں ۔ہر بچہ چاہتاہے کہ اس کے ماں باپ اسے حد سے زیاد ہ دوست رکھیں اور اس کے ساتھ شفقت کا اظہار کریں ۔
پس بچےسے محبت اور شفقت اس کی ضروریات میں شمار ہوتی ہے ۔اس کی پرورش میں محبت اور شفقت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ اس چیز کا درس حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے گھر میں کامل طور سے دیا جاتاتھا اور پیغمبرؐ یہ جناب فاطمہؑ کو یاد دلاتے تھے۔روایت میں آیا ہے ۔جب اما م حسن ؑ متولد ہوئے تو زرد کپڑے میں لپیٹ کر رسول اکرم ؐ کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہاتھاکہ نومولود کو زرد کپڑے میں نہ لپیٹاکرو؟ اس کے بعد امام حسن کے زرد کپڑے کو اتار پھینکا اور انہیں سفید کپڑے میں لیپٹا اور بغل میں لے کرانہیں بوسہ دینا شروع کیا۔ یہی کام آپ نے امام حسینؑ کی پیدائش کے وقت بھی انجام دیا ۔ (بحاالانوار ج 42 ص 240)
ایک دن پیغمبراکرم ؐ جناب امام حسن ؑکو بوسہ اور پیار کررہے تھے کہ افرع بن جالس نے عرض کیا میرے دس فرزند ہیں لیکن میں نے ابھی تک کسی کو بھی بوسہ نہیں دیا تو پیغمبر ؐ غضبناک ہوئے اور فرمایا اگر خدا نے تیرے دل سے محبت کو لے لیا ہے تو میں کیا کروں؟ جو شخص بھی بچوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔پیغمبرؐ اکرم کبھی فاطمہ سے فرماتے تھے حسن و حسین کو میرے پاس لاؤ اور جب آپ ان کو حضور کی خدمت میں لے جاتیں تو رسول اکرم ؐ ان کو سینے سے لگاتے اور پھول کی طرح ان کو سونگتے ۔ (بحاالانوار ج 43 ص 264)
شخصیت:
نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ بچے کی تربیت کرنے والے کو بچےکی شخصیت کی پرورش کرنی چاہیئے اوربچے کو خود اعتماد ی کا درس دینا چاہیے اس میں اعتماد نفس اجاگر کیاجائے تاکہ اسے بڑی شخصیت اور بڑا آدمی بنایا جاسکے ۔ اگر بچے کی تربیت کرنے والا بچے کا احترام نہ کرے اور اسے حقیر شمار کرے اور اس کی شخصیت کو ٹھیس پہنچاتا رہے تو خود بخود وہ بچہ ڈرپوک اوراحساس کمتری کاشکار ہوگا اور اپنے آپ کو بے قیمت اور حقیر جاننے لگے لگا ۔ جب وہ جوان ہوگا تو اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھے گا کہ کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے ۔ اس قسم کا آدمی کا معاشرہ میں بے اثر ہوگا اور اپنے آپ کو بہت آسانی سے پست کاموں کیلئے حاضر کردے گا۔
بخلاف اگر بچے اپنے آپ کو صاحب شخصیت اورباوقار سمجھتا ہو تو پھر وہ پست کاموں کیلئے تیار نہیں ہوگا۔ بچے سے محبت اور نوازش کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ بچے کی اچھی صفات کاذکر کرنا بھی ایک اہم امر ہے ۔ جناب رسول خدا ؐ نے کئی دفعہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے بارے میں فرمایا۔
یہ جوانان جنت کے بہترین سردارہیں اوران کے باپ ان سے بھی بہتر ہے ۔(شافی ج 2 ص 149)
پیغمبرؐ اکرم نےامام حسن اور امام حسین علیھمالسلام سے فرمایاکہ تم خدا کے ریحان ہو پیغمبرؐ جناب فاطمہ ؑ کی اولاد کی تربیت میں کوشش کرتے تھے ۔جناب زہراؑ اور حضرت علی ؑ بھی اسی لائحہ عمل پر آپ کی متابعت کرتے تھے ۔کبھی بھی انہوں نے بچوں کو حقیر نہیں سمجھا ۔
تقویٰ اور ایمان :
بچوں کیلئے دینی تعلیمات اور تربیت کس وقت سے شروع کی جائے اس میں بحث ہے ۔ لیکن ان ابحاث کی طرف جانا ہمارا مقصد نہیں ۔ اسلام حکم دیتاہے کہ بچوں کو جب سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کی تاکید کرو۔(بحاالانوار ج 43 ص 241)
پیغمبر اکرم ؐ نے دینی امور کی تلقین حضرت زہراؑ کے گھر بچپن اور رضاعت کے زمانے میں جاری کردی تھی ۔جب امام حسنؑ دنیا میں آئے اور انہیں رسول اکرمؐ کی خدمت میں لے گئیں تو آپ نے انہیں بوسہ دیا اور دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور یہی عمل امام حسیؑن کی ولادت کے موقع پر بھی انجام دیا۔
امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر ؐ نماز پڑھنا چاہتے تھے امام حسیؑن بھی آپ کے پہلوں میں کھڑے ہوگئے جب پیغمبر ؐ نے تکبیر کہی تو جناب امام حسین ؑ نہ کہ سکے رسول خدا نے سات مرتبہ تکبیر کاتکرار کیا یہاں تک امام حسین ؑ نے بھی تکبیر کہ دی۔ (بحالانوار ج 43 ص 241)
جناب فاطمہ زہراؑ بچوں کے ساتھ کھیل میں بھی انہیں شجاعت اور دفاع حق اور عبادت الہیٰ کا درس دیتی تھیں ۔ اور انہیں مختصر جملوں میں چار حساس مطالبہ یاد دلاتیں ۔ باپ کی طرح شجاعت ،بہادربننا ۔ اللہ کی عادت کرنا ،حق سے دفاع کرنا اور ان اشخاص سے دوستی نہ کرنا جو کینہ پرور اور دشمن ہوں ۔
ورزش اور کھیل :
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچے کو کھیل کودکی اس کی مرضی کے مطابق آزادی دینی چاہئے ۔ بعض لوگ بچوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑوں کی طرح زندگی گزایں اور اپنے لے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ انہیں کھیل کود سے روکے رکھیں ۔اگر کوئی بچہ کھیل کود میں مشغول ہوتو اسے بے ادب بچہ قرار دیتے ہیں اور اگر چپ چاپ سر جھکائے اور کھیل کود سے دور ایک گوشہ میں بیٹھا رہنے والا ہو تو اسے شاباش دیتے ہیں ۔ اور اسے باادب سمجھتے ہیں ۔ جبکہ ماہرین نفسیات اس نظریے کو غلط اور بے بنیاد قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کو کھیلنا چاہئے ۔ اگر بچہ نہ کھیلے تو یہ اس کے جسمانی اور روحانی طور پر بیمار ہونے کی علامت ہے۔ماں باپ صرف بچے کو کھیل کود کیلئے آزادی ہی نہ دیں بلکہ خود بھی کبھی کبھار بچے ساتھ کھیلیں ۔ کیونکہ ماں باپ کایہ عمل بچے کیلئے لذت بخش ہوتاہے اور وہ اسے اپنے لئے محبت کی علامت قرار دیتاہے ۔
رسول خدا ؐ جناب امام حسنؑ اور جناب امام حسیؑن کے ساتھ کھیلتے تھے ۔ابو ہریرہ نے نقل کیاہے کہ میں نے رسول خدا کو دیکھا کہ وہ حسؑن اور حسین ؑکے ہاتھ پکڑہوتے تھے اور ان کے پاؤں کو اپنے سینے پر رکھے ہوئے فرمارہے تھے فاطمؑہ کے نور چشم اور چڑھو حسؑن اور حسینؑ چڑھتے یہاں تک ان کے پاؤں آپ کے سینے تک جاپہنچتے آپ ان کے لبوں کو اپنے لبوں پر رکھ کر بوسہ دیتے اور فرماتے خدا یا میں حسنؑ اور حسیؑن کو دوست رکھتا ہو۔(بحاالانوار ج 42 ص 282)
ابوہریرہ کہتے ہے کہ جناب حسنؑ اور حسینؑ پیغمبرؐ اکرم کے سامنے کشتی کرتے تھے پیغمبرؐ امام حسؑن کو فرماتے شاباش حسؑن شاباش ۔ جناب فاطمہ ؑ عرض کرتیں یارسول اللہ حسؑن باوجود کہ حسیؑن سے بڑا ہے اپ انہیں حسینؑ کے خلاف شاباش اور تشویق دلارہے ہیں تو آپ نے فرمایا حسیؑن باوجود کہ حسنؑ سے چھوٹا ہے لیکن شجاعت اور طاقت میں زیادہ ہے اور پھر جبریل حسؑین کو تشویق اور شاباش دے رہے ہیں۔(بحاالانوار ج 42 ص 240)
امام رضاؑ نے اپنے اجداد سے روایت کی ہے کہ جناب حسنؑ اور جناب حسؑین کافی رات تک جناب رسول خدا کے گھر میں کھیلتے رہتے تھے جناب رسول خدا اس کے بعد ان سے فرماتے کہ اب اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ جب آپ گھر سے باہر نکلتے تو بجلی چمکتی اور راستہ روشن ہوجاتااور اپنے گھر تک جاپہنچتے اور پیغمبرؐ نے فرمایا کہ اس اللہ کا شکر کہ جس نے ہم اہل بیت کو معظم قرار دیا۔(بحار الانوار ج 43 ص 266)
منابع
1۔بحارالانوار علامہ مجلسی جلد 42 ، 43
2۔سیرہ ابن ہشام جلد 2ناشر بیروت
3۔شافی جلد 2
4۔مناقب شہر آشوب جلد 2
5۔اسلام کی مثالی خاتون علامہ ابراہیم امینی مترجم علامہ اختر عباس ،ناشر انصاران پبلیکشنز قم جمہوری اسلامی ایران
6۔مثالی خواتین ڈاکڑ احمد بہشتی ۔ناشر حسن علی بک ڈپو
7۔فاطمہ طلوع سے غروب تک ۔آیۃ اللہ قزوینی ۔مترجم

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button