توحیدسلائیڈرعقائد

نہج البلاغہ میں توحید اور الٰہیات کی حقیقت

مضمون نگار:مہدی علی زمانی
طالب علم :جامعۃ الکوثر اسلام آباد

نہج البلاغہ میں توحید اور الٰہیات کی حقیقت
تعارف
توحید ہر دور میں دین الہی کا بنیادی ہدف رہا ہے۔تمام انبیائےکرام ؑاسی پیغام کو معاشرے میں عام کرنے کی خاطر ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں۔اسی پیغام کو پھیلانے کی راہ میں انبیاؑءنے اپنے دورکے مشرکوں اور کافروں سے حد درجہ کی مشکلات برداشت کی حتی کہ بعض انبیا شہید بھی ہوئے۔ ابوالانبیاؑءحضرت ابراہیمؑ کو توحید کی تبلیغ کی وجہ سے تمام لوگ یہاں تک کہ ان کے چچا بھی مخالف ہو گئے اور وقت کے ظالم حکمران نمرود نے آگ میں پھینکا۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺنےمشرکین مکہ کے ساتھ جو کثیر جنگیں لڑیں،ان تمام جنگوں کی بنیادی اور اصلی وجہ توحید کا اعلان و پر چار تھا۔ مشرکین کبھی نہیں چاہتے تھےکہ آپؐ ان کے بتوں کو چھوڑکر ایک خدا کی طرف بلائیں۔اس کے بعد آپ ﷺکے جانشینِ برحق امام علیؑ اورآپ کی آلؑ نے بھی اسی مشن کو باقی ر کھنے کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں فرمایا۔ امیرالمومنین علیؑ نے اپنے متعدد خطبات اور فرامین میں توحیدِ الہی کونہایت ہی محکم اور جامع انداز میں بیان فرمایا ہے،ذیل میں نہج البلا غہ سے توحید و الٰہیا ت کی حقیقت پر مشتمل آپؑ کے کچھ فرامین اور ان کی مختصر وضاحت پیش خدمت ہے۔
توحید کا لغوی معنی یکتا اوراحد ماننا ہے،جبکہ اصطلاح میں توحید سے مراد اللہ تعالی کی ذات کویکتا ما ننے کو کہتے ہیں۔ الٰہیات مرکب ہےالٰہ اور یات سے، الٰہ کامطلب اللہ اور یات سے مراد مطالعہ ہے، پس الہیات ایساعلم ہے کہ جس میں خداوند متعال اور اس سے متعلق امور کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔
توحید فطرت کی آواز ہے: انسان فطرتاً توحید پرست ہو تاہے۔ جب انسان دنیا میں آتا ہے تو اس بات کا ملہم ہوکر آتا ہے کہ وہ اس دنیامیں آکر اپنی ارد گرد موجود اشیا اور اپنے نفس میں موجود توحیدی نشانیوں پر غور کرے۔ یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنینؑ نے انبیاءؑ کی بعثت کا مقصد فطرت کو جگانا قرا ردیا آپؑ فرماتے ہیں:
پرور دگار عالم نے انبیاءکو مسلسل لوگوں کے درمیان بھیجتارہا تاکہ ان کےفطرت کے عہد و پیمان کو ابھاریں اور ان کو ان کی فراموش شدہ نعمتیں یاد دلائیں۔(1)
معرفتِ فطری کامحورخدائے واحد ہے، لا محالہ فطری معرفت کی جانب توجہ کرنا خدائے واحد کی طرف توجہ کرناہے۔ جیسا کہ کتابِ توحید میں ابو ہاشم کے حوالے سے روایت میں آیاہے (راوی کہتا ہے )میں نے حضرت امام جوادؑ سے سوال کیا کہ واحد کے کیا معنی ہے؟امامؑ نے فرمایا وہ جس کی وحدانیت کے بارے میں سب متفق ہیں۔ جیسا کہ قرآن فرماتاہے:اگر ان لوگوں سے پوچھو کہ کس نے آسمان و زمیں کو زیور وجود سے آراستہ کیا ہے؟وہ بغیر شک وتر دید کے کہیں گے:اللہ نے۔
اللہ کی جامع تعریف: آج دنیا میں اللہ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتاہے،اس کی بنیادی وجہ اللہ کی تعریف غیر منطقی اور مخلوقات پر منطبق ہونے والی صفات کو اللہ کے ساتھ الحاق کرنا ہے۔اگردنیا امیرالمومنینؑ کی طرف اس حوالے سےرجوع کرتی تو اللہ کے بارے میں پھیلائے گئے شبہات دور ہوجاتے۔آپؑ نے توحید کو اس انداز سے بیان کیا ہےکہ :
”جس نےاللہ کو مختلف کیفیتوں سے متصف کیا اس نے اسے یکتا نہیں سمجھا،جس نے اس کا مثل ٹھہرایااس نے اس کی حقیقت کو نہیں پایا،جس نے اسے کسی چیز سے تشبیہ دی اس نے اس کا قصد نہیں کیا،جس نے اسے قابل ِاشارہ سمجھا اور اپنے تصور کا پابند بنایا اس نے اس کا رخ نہیں کیا۔جو اپنی ذات سے پہچانا جائے وہ مخلوق ہوگا اور دوسرے کے سہارے پر قائم ہو وہ علت کا محتاج ہوگا۔ وہ فاعل ہے بغیرآلات کو حرکت میں لائے۔ وہ ہر چیزکا اندازہ مقرر کرنے والا ہے بغیرفکرکی جولانی کے۔ وہ تونگر وغنی ہے بغیر دوسروں سے استفادہ کیے۔ نہ زمانہ اس کا ہمنشین اور نہ آلات اس کے معاون و معین ہیں۔ اس کا زمانہ سے پیشتر،اس کا وجود عدم سے سابق اور اس کی ہمیشگی نقطہ آغاز سے بھی پہلے ہے۔۔۔”۔(2)
ذاتِ باری تعالی بے مثل ہے:اللہ کو سمجھنے کے لیے بنیا دی چیز یہ ہے کہ اسے مخلوقات کی صفات سے مبرا و منزہ قرار دیں۔اگر مخلوقات کی صفات کو قیاس کرتے ہوے اللہ کوسمجھنے کی کوشش کریں تو یہ اند ھیرے میں منزل ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ اسی حقییقت کو بیان کرتے ہوئے امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں:
ساری حمد و ستایش اس اللہ کےلیے ہے جسے حواس پا نہیں سکتے،نہ جگہیں اسے گھیر سکتی ہیں،نہ آنکھیں اسے دیکھ سکتی ہیں،نہ پردےاسے چھپاسکتے ہیں۔ وہ مخلوقات کی نیست کے بعد ہست ہونے سے اپنے ہمیشہ سے ہونے کا اور ان کے باہم مشابہ ہونے سے اسے اپنے بے مثل اور بے نظیر ہونے کا پتا دیتاہے،وہ گنتی اور شمار میں آئے بغیریگانہ ہے،وہ کسی متعینہ مدت کے بغیر ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا”۔ (3)
ذات حق: نہج البلاغہ میں امیر المومنینؑ نے ذاتِ حق کی بہت گہری تعریف کی ہے۔ ذاتِ و حدہ لا شریک کی ہستی ایسی ہے جس نے اپنی ذات سےہر قسم کے نقص اور عدم ونیستی،مثلا مخلوقیت،ومعلولیت،محدودیت، کثرت، جزءیت اورنیازمندی کی نفی کی ہے۔مختصر یہ کہ وہ تنہا سرحد، جہان وہ اپنے قدم نہیں اٹھاتا نیستی و نابودی کی سرحد ہے،وہ تمام اشیا میں ہے لیکن کسی میں موجود نہیں اور کوئی چیزبھی اس میں نہیں ہے نہ ہی کسی چیزمیں سمایا ہوا ہے،مگر کسی چیز سے باہر بھی نہیں ہے، وہ ہر قسم کی کیفیت و ماہیت اور ہر قسم کی تشبیہ و تمثیل سے منزہ ہے کیوں کہ یہ اوصاف محدود و متعین اور ماہیت رکھنے والے موجود کی صفات ہیں۔ آپؑ نے فرمایا :
”وہ ہر چیز کے ساتھ ہے مگر اس طرح نہیں کہ کسی شے کے ساتھ جفت ہو اور نتیجہ میں وہ چیز بھی اس سے قریب و ہم دوش ہو جائے وہ تمام چیزوں سے الگ اور مغایر ہےلیکن اس طرح نہیں کہ ان چیزوں سے جدا ہوجا ئے اور اشیاکے وجود اس کےلیے سرحد محسوب ہوجائیں”۔ (4)
کسی اور مقام پر آپؑ فرماتے ہیں :
”وہ کسی چیزمیں حلول کیے ہی نہیں ہے کیونکہ حلول،حلول کرنے والی چیز کی محدودیت کو لازم قرار دیتا ہے اور اس کے یہاں گنجائش کا پتہ دیتاہے جبکہ وہ کسی چیز سے باہر بھی نہیں ہے کیوں کہ باہر ہونا ہی ایک قسم کی محدودیت کا مستلزم ہے”۔ (5)
کسی اور جگہ مزید ذات حق کی وضاحت کرتے ہو ئے فرماتے ہیں:
”تمام اشیاء سے اس کے الگ اور مغایر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ قاہر و قادر اور ان سب پر حاوی و مسلط ہے اور یقیناً کبھی قاہر خود ہی مقہور اور قادر خود ہی مقدور اور کبھی مسلط خود ہی مسخر نہیں ہوسکتا،تمام اشیا کی اس سے جدائی و مغایرت کا اندازیہ ہے کہ وہ اس کی کبریائی کے سامنے سراپا تسلیم و مسخر ہیں اور ہرگز وہ جو ذاتی طور پر محتاج و مسخر ہے (بلکہ عینِ بندگی و اطاعت ہے)اور وہ جس کی ذات ہی بے نیازو مستغنی ہےایک ہی نہیں ہوسکتے”۔ (6)
وحدتِ الہی وحدتِ عددی کے معنی میں نہیں:
اللہ تعالی کی ذات کو ہم جس معنی میں وحدت کے قائل ہیں وہ وحدت عددی کے معنی میں نہیں بلکہ یہ کسی اور نوعیت کی وحدت ہے۔وحدتِ عددی ایسی نوعیت کی وحدت جس کے وجود میں تکرار فرض کیا جا نا ممکن ہو۔ ہمارے اردگرد موجود ماہیات اور طبیعتیں اسی نوعیت کی ہے جن میں دوئی کا احتمال پایا جا تاہے اور کثرت و قلت کا تصور بھی صدق کرتاہے،لیکن اگر کسی چیزکے وجود کے لیے تکرار کا فرض ممکن نہ ہو اس کا وجود ایسا ہو جو لامتناہی ہو،ہر چیز میں کمال ہو،محتاج کا تصور نہ ہو،تمام صفات عینِ ذات ہو،جیسا کہ توحید صدوق میں آیا ہے کہ جنگ جمل میں عین جنگ کے موقعے پر ایک عرب اٹھا اور عرض کیا: اے امیرالمومنینؑ،کیا آپ کہتے ہیں کہ خداوند عالم کی ذات ایک ہے؟ تو اس وقت آپؑ نے فرمایا:
”اے مرد عرب یہ جو کہتا ہے کہ خدا ایک ہے،اس کے چار معانی ہیں،ان میں سے دو معنی خدا وند عالم کے لیے جائز نہیں اور دو معنی اس کے لیے ثابت ہیں ”۔ اس کے بعد ان دونوں معنی کی تشریح فرمائی جو خدا کے لیے جائز نہیں وہ واحدِ عددی ہے،جس چیز کے دو معنی نہ ہو (وہ اس ذات کی طرح ہے جو بے مثل ہے) وہ اعداد کے باب میں داخل نہیں ہوتا۔اور دوسرا اپنی جنس میں واحد ہونا ہے (یوں کہا جائے کہ اللہ جنس میں واحد و یکتاہے ) اس ذات کی نسبت اس طرح کہنا بھی درست نہیں ہے،یہ تشبیہ کی اقسام میں داخل ہے،جب کہ خدا کی ذات ہر قسم کی شباہتوں سے پاک ومنزہ ہے۔اور دو معنی جو خدا وند عالم کے لیے ثابت ہیں،ان میں سے ایک یہ کہا جائے کہ وہ یکتا و تنہا ہے،اس جیسا کوئی نہیں۔ جی ہاں خدا کی ذات ایسی ہی ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ خدا کی ذات احدی المعنی ہے یعنی نہ اس کا کوئی ظاہری جزء ہے،نہ وہ عقلی اجزاء رکھتاہے اور نہ وہ کسی ذہنی اجزاء سے مرکب ہے،اور اس کی ذات ایسی ہی ہے۔ (7)
ذاتِ باری تعالی کے چند صفات کا بیا ن:
اس سے پہلے کہ اللہ کی صفات کو بیا ن کیا جائے یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اللہ کی صفات جمال و جلال کسی بھی مخلوق سے شباہت نہیں رکھتیں،وہ علم و قدرت رکھتاہے،لیکن ہمارے علم و قدرت کی طرح نہیں اور جسم وجسمانیت سے ما وراہے اور کسی لحاظ سے اس کی کوئی انتہا نہیں اس بناء پر جب ہم اس کی صفات کی بحث کرتے ہیں تو تعجب آمیز باتوں کا سامناہوتاہے جوکسی جگہ دیکھی نہیں جاتیں۔
بعض صفات جو مخلوقات کی نسبت متضاد ہیں لیکن اللہ کے لیے فرض کرسکتے ہیں۔ جیسے جو مخلوقات عالم میں اول ہے وہ آخر نہیں جو آخر ہیں وہ اول نہیں،جو ظاہر ہیں وہ باطن نہیں جو باطن ہیں وہ ظاہر نہیں،لیکن اللہ کی ذات پاک میں اول و آخر اور ظاہر و باطن سب جمع ہیں۔اس کے علاوہ مخلوقات کی صفات آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہوتی ہیں اور کمال حاصل کرتے ہوے شکل وصورت پیدا کرتی ہیں،لیکن صفات خدا میں نہ تدرج ہے نہ تقدم و تاخر ہے،امیر المو منینؑ نے خصوصیت کے ساتھ اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
امیر المو منینؑ فرماتے ہیں:
”تمام تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جس کی صفات میں تقدم و تاخر نہیں ہوتا ہے کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اول رہا ہو باطن بننے سے پہلے ظاہر رہا ہو،وہ اول بھی ہے آخر بھی ہے اور ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی ہے” (8)
اس سےواضح ہوتاہے کہ اللہ کی ذات ایسی ہے جو ہر لحاظ سے ازلی و ابدی ہے اور ایسا وجود ہے جس کی کوئی انتہا نہیں،اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ آغازبھی ہے اور انجام بھی، کوئی اور وجود اس سے پہلے نہ تھا اور نہ ہی کوئی وجوداس کے بعد ہوگا۔
پہلی صفت :عزت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے:عزت چاہے ”ناقابل شکست قدرت ”کے معنی میں ہو،یا ”احترام اور بزرگی’ ‘کے معنی میں ہو،صرف خدا کی ذات کے لیے لائق ہے،کیونکہ خداکے علاوہ سب دنیا وی قوانین کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور قضا و قدر کےمحکوم ہیں۔اور کسی کو اگر احترام و عزت ہے وہ حقیقی مرکز عزت سے وابستگی کی وجہ سے ہے،جیساکہ امیر المو منینؑ نے فرمایا:
"اس کے علاوہ ہر عزت والا اس کے سامنے ذلیل ہے۔” (9)
دوسری صفت:قوت کا محور اللہ کی ذات ہے :دنیا میں انسان کے پاس جو قوت وطاقت ہےوہ نسبی وعطا کردہ ہے،لمحہ بھر کےلیے بھی انسان یہ خیال نہیں کرسکتاکہ میرے پاس جو جسمانی،ذہنی و دیگر صلاحیتیں ہیں ان میں اللہ کا محتاج نہیں،اسی حقیقت کو امیرالمومنینؑ بیان فرماتے ہیں:
"اس کے علاوہ ہر طاقت ضعیف و کمزور ہے۔” (10)
تیسری صفت: مالک ِحقیقی اللہ کی ذات ہے:حقیقی ملکیت اس وقت صدق آتی ہے جب کسی چیز کا وجود و خلقت اس کی وجہ سے ہو،اس بناء پر تمام موجودات کو عدم سے جس نے وجود میں لایا وہ اللہ کی ذات ہی ہے اسی لیے وہی مالک حقیقی ہے،اس کے علاوہ غیرخدا کے بارے میں مختلف چیزوں کی نسبت جو ملکیت کا تصور ہے وہ مجازی ہے،اسی کی طرف امیرالمومنینؑ نے اشارہ کرتے ہوے فرمایا:
"اس کے سوا ہر مالک،مملوک اور غلام ہے۔” (11)
چوتھی صفت:علم کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے: اللہ کے علاوہ غیر خدا کا علم ذاتی نہیں بلکہ عطائی اور تحصیلی ہے،جبکہ علم خداوندی ذاتی ہے،جس طرح اللہ کی ذات لامحدود اور لامتناہی ہے اسی طرح علم خدا بھی لامتناہی ہے۔ وہ دن جب انسان کا وجود نہ تھا،تو کوئی علم بھی نہ تھا،جب وجود میں آیا تو خدا و ند عالم نے علم کے سمندر سے کچھ اس کی فطرت میں رکھ دیا اور کچھ وہ تجربات سے حاصل کرتاہے اور کچھ حصہ دوسروں سے سیکھتاہے،اسی حقیقت کو امیرالمومنینؑ نے بیان فرمایا ہے:
"خدا کے علاوہ تمام علم رکھنے والے طالب علم ہیں”
پانچویں صفت: اذہان کی پہنچ سے ماوراہے:انسان کی فکر اور سوچ محدود اور ایک مخلوق ہونے کے ناطے اللہ کی ذات کی حقیقت کا ادراک ممکن نہیں،کیونکہ اللہ کی ذات لامتناہی ہے اور اس کی لامحدود صفات جو اس کی عین ِذات ہیں ہمارے وہم میں نہیں آسکتی ہیں،جیسا کہ امامؑ نے اسی جانب متوجہ فرمایا ہے :
”اذہان اس کی صفات کی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتے” (12)
چھٹی صفت: اللہ کی نسبت کمیت و کیفیت کا تصور ممکن نہیں: کمیت و کیفیت ایسے امور کے سا تھ مربوط ہیں،کہ جن کے اوصاف ذات کے علاوہ ہیں لیکن اللہ کے تمام صفات ذاتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اس کی ذات ہر قسم کی تقسیم سے خالی و پاک ہو۔ کیفیت و کمیت اس میں راہ نہیں پاسکتی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کمیت و کیفیت محدودیتوں سے جنم لیتی ہیں، جبکہ اللہ کی ذات لامحدود ہے۔اسی کی طرف امیر المو منینؑ نے اشارہ فرمایا ہے:
‘عقلیں اس کی کیفیت کو درک نہیں کرسکتیں اور تجزیہ و تبعیض اس کی ذات میں کوئی راہ نہیں رکھتے ” (13)
چمگاڈر کی مثال حکمت و قدرت ِالہی کا مظہر :امیر المومنینؑ نے اللہ کی قدرت،حکمت اور اور علم کو سمجھانے کے واسطے نہج البلاغہ میں مختلف مثالیں بیان کیئے ہیں۔کبھی آسمان و زمین کو کلی مثال بنا کر تو کبھی پہاڑوں و دیگراجسامِ سماوی و ارضی اور ان کے خصوصیات بیان فرما کر سوچنے والوں کوراستے دکھادیئے ہیں۔اسی طرح ایک انوکھی مخلوق چمگاڈر کو معرفت و توحید ِخداوندی کی شاہد و علامت کے طور سے بیان فرمائے ہیں۔
آپؑ فرماتے ہیں: ”کیا یہ لوگ خداکی اس چھوٹی سی مخلوق کے بارے میں غور نہیں کرتے؟اپنی اس خلقت کو اس نے کیسا استحکام بخشا ہے اور اس کو دیکھنے اور سننے کا آلہ عنایت کیا ہے اور کس کامل شکل میں ہڈی و کھال سے درست کیا ہے ذرا چونٹی کے اس چھوٹے سے جسم اور لطیف بدن پر نظر ڈالو اتنی مختصر ہے کہ پلک جپکتے نظروں سے اوجھل اور فکر کے پردے سے بھی غاٰئب ہوجائے۔یہ چھوٹی سی جان کس طرح زمین پر رینگتی ہے اور کس چاہ کے ساتھ اپنا رزق جمع کرتی ہے دانہ چن کر کھینچتی ہوئی بل میں لے جاتی ہے اور ذخیرہ میں محفوظ رکھتی ہے سردیوں کا آزوقہ گرمیوں میں فراہم کرتی ہے اور قوت و توانائی کے زمانہ میں عجزو در ماندگی کے دنوں کے لیے ذخیرہ اکٹھا کرلیتی ہے۔ایک ایسی مخلوق کی روزی کا ذمہ اس انداز سے لیاگیا ہے کہ اس کے مناسب حال اس کا رزق پہنچتا رہتاہے خداوند عالم ہرگز اس کو فراموش نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی طرف سے غافل ہو تاہے،خواہ وہ بھاری پتھرہی کے نیچے ہی کیوں نہ ہو۔ اگر تم اس کے غذا اورنا لیوں کے نظام کو اس کے شکم کی اندرونی بناوٹ اورآنکھ اور کان کی ساخت کہ جو سر میں قرار دیے گئے ہیں غوراور تحقیق کرو اور واقفیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاوتو سخت حیرت و تعجب میں پڑ جاؤگے۔
نعمتِ الہی کا حق ادا کرنا بندگان خدا کے بس میں نہیں ہے:انسان جب اپنے اردگرد اللہ کی نعمتوں اور احسانا ت کو دیکھتا ہےتو دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اس کریم ذات کا شکر اداکریں،لیکن اللہ کی عطائیں اس حد تک زیادہ ہیں کہ بندگانِ خدا کے لیے ممکن ہی نہیں کہ اس کا شکر ادا کرسکیں،حتی کہ اللہ کے مقرب اور چنے ہوئے بندے انبیا اور مرسلینؑ بھی شکر کا حق ادا نہیں کرسکتے کیونکہ ایک تو اللہ اس سے بےنیاز و مستغنی ہے کہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے۔دوسرا یہ کہ اگرانسان کسی نعمت کا شکر ادا کرئے تو اس کے لیے اسے جو توفیق،صلاحیت،طاقت اوراظہار تشکر کا احساس حاصل ہوا، اس لیے مزید شکر کامستحق ہو جاتاہے۔
خلاصہ
توحید اسلام کی بنیاد اور اساس ہے۔تمام انبیاء کرامؑ اور اوصیائے برحق نے اسی پیغام کو پھیلانے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ قرآن پاک میں اللہ نےتوحید سے روگردانی اور شرک کی طرف جانے کو اس حد تک گناہ قرار دیا ہے کہ اسے غیر ِقابلِ عفو شمارکیا ہے۔ اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ جملہ امور اور تمام صفات میں اس کی احدیت اور یکتا ہونے کا یقین رکھیں۔ اللہ کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا جانادر اصل اللہ کے ساتھ غیر عقلی و منطقی چیزوں کاوملحق کرنے کا نتیجہ ہے وگرنہ اللہ کی صحیح معرفت انسان کے سامنے پیش کیا جائے،جس طرح امیرالمومنینؑ نے نہج البلاغہ میں متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہےتو انسان کےذہن سے شبہات دور ہوجائیں گی اور تصورِ الہی کو دل سے قبول کریں گے۔ انسان کا عقیدہ توحید یوں مضبوط ہوگا جب وہ اس کا ئیات میں موجود اللہ کی مخلوقات اور اپنے اندر موجود نشانیوں اور باریکیوں پر غور و فکر کرے۔اللہ کی ذات کی حقیقت کو کماحقہ درک کرنا انسان کے بس میں نہیں اور اللہ کےاحسانات اور عطاؤوں پر شکر ادا کرنا بھی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔پس انسان کو اللہ سے متمسک رہتے ہوئے یہ اقرار کرنا چاہیے کہ اے اللہ! تیرے احسانات اور فضل و کرم کا حق ادا کرنا میرے بس میں نہیں ہے،یہی اعتراف کمالِ شکر ہے۔

حوالہ جات
1 )التوحید صفحہ نمبر 83
2 )خطبہ نمبر 184 مترجم مفتی جعفر حسین ناشر امامیہ کتب خانہ مغل حویلی
3 )خطبہ نمبر 183 مترجم مفتی جعفر حسین ناشر امامیہ کتب خانہ مغل حویلی
4 )خطبہ نمبر 1 مترجم مفتی جعفر حسین ناشر امامیہ کتب خانہ مغل حویلی
5 )خطبہ نمبر 184 مترجم مفتی جعفر حسین ناشر امامیہ کتب خانہ مغل حویلی
6 )خطبہ نمبر15 مترجم مفتی جعفر حسین ناشر امامیہ کتب خانہ مغل حویلی
7 )توحید صدوق (نقل بحارالا نوار جلد 3صفحہ 206 حدیث 1
8) اقتباس از شرح نہج البلاغہ آیت اللہ مکارم شیرازی
9 )خطبہ نمبر 65 مترجم مفتی جعفر حسین ناشر امامیہ کتب خانہ مغل حویلی
10) خطبہ نمبر 65 مترجم مفتی جعفر حسین ناشر امامیہ کتب خانہ مغل حویلی
11 )خطبہ نمبر65 مترجم مفتی جعفر حسین ناشر امامیہ کتب خانہ مغل حویلی
12)خطبہ نمبر 85 مترجم مفتی جعفر حسین ناشر امامیہ کتب خانہ مغل حویلی
13 )خطبہ نمبر 85 مترجم مفتی جعفر حسین ناشر امامیہ کتب خانہ مغل حویلی

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button