امامتعقائد

آیہ صادقین کی روشنی میں اما مت و ولایت

"یاایّهاالذین آمنوااتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین”(سورہ توبہ آیت ۱۱۹)
”اے صا حبا ن ایمان!اللہ سے ڈرواورصادقین کے ساتھ ہوجاؤ“
جس آیہ شریفہ کے بارے میں ہم بحث وتحقیق کرنا چاہتے ہیں،اس پر سر سری نگاہ ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک اخلاقی پہلوہے مذ کورہ آیت میں تقوی کاحکم دینے کے بعد مو منین سے یہ کہا جا رہا ہے کہ صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ ہمیں ہمیشہ سرسری نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ قرآن مجید کا ارشادہے:
"فارجع البصرهل تریٰ من فطورثمّ ارجع البصرکرّتین” (سورہ ملک آیت ۳۔۴)
”پھر نظراٹھاکردیکھوکہیں کوئی شگاف تو نہیں ہے۔اس کے بعدباربارنگاہ ڈالو “
خاص کر قرآن مجید میں اس کے بلندمعارف تک رسائی اوراس کے مفاہیم کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے اس امر کی رعا یت بہت ضروری ہے چنانچہ بعض مواقع پر خودقرآن نے تدبرکرنے کاحکم فرمایاہے۔ہمیشہ اور بار بارغوروخوض کی ضرورت ہے۔ اس لئے قرآن مجید کے سلسلہ میں ابتدائی اورسرسری نگاہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کی آیتوں پر تدبر اور غورو خوض کرناچاہئے۔
اگرہم اس آیہ کریمہ کا اس نقطہ نظر سے مطا لعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس آیت کریمہ میں قرآن مجید کے ایک عظیم اور اصلی معارف، یعنی اما مت و رہبری کے مسئلہ ، کو بہترین تعبیر میں پیش کیا گیا ہے۔
اس لحاظ سے امامت سے مربوط آیات کی بحث و تحقیق میں یہ آیہ کریمہ بھی نمایاں اور قابل توجہ ہے۔ اس آیہ شریفہ کے سلسلہ میں بحث و تحقیق چند محوروں پرمشتمل ہے:
۱ ۔آیت کے مفردات اور مفاہیم کی تحقیق
۲ ۔مذکورہ آیت کااس سے پہلے والی آیات سے ربط
۳ ۔اس آیت کامسئلہ رہبری سے ربطہ اور اس کے قرائن کی چھان بین پڑتال
۴ ۔علما ء ومفسرین کے بیانات
۵ ۔شیعہ،سنی احادیث وروایات
آیت کے بارے مفردات میں بحث
اس حصہ میں جن الفاظ کی تحقیق ضروری ہے وہ لفظ”صدق“اور”صادقین“ہیں۔اس سلسلہ میں پہلے ہم ان کے لغوی معنی پر ایک نظرڈالیں گے اور ان کے بعد اس کے قرآنی استعمالات پر بحث کریں گے۔
استعمالا ت لغوی
اس سلسلہ میں ہم دو اہل لغت کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
ابن منظور نے ”لسان العرب“ میں لفظ”صدق“کے مختلف استعمالات کویوں بیان کیاہے:
الصدق:نقیض الکذب،سچ،جھوٹ کی ضدہے۔
(لسان العرب ،ج۱۰،ص۳۰۹۔۳۰۷)
رجل صدق:نقیض رجل سوء ۔اچھاانسان برے انسان کی ضدہے۔یعنی اچھائی اور برائی کی صفتیں ایک دوسرے کی ضدہیں۔
وکذالک ثواب صدق وخمارصدق،اسی طرح کہا جاتا ہے اچھا لباس اوراچھابرقعہ۔
ویقال: رجل صدق،مضاف بکسرالصادومعناه نعم الرجل هو
نیزاسی طرح حالت اضا فت میں صاد کے کسرے کے ساتھ استعمال ہو تا ہے”رجل صدق“یعنی وہ ایک اچھا مردہے۔
رجل صدق اللقاء وصدق النظر، خوش اخلاق مرداور خوش بین انسان
والصّدق:بالفتح الصلب من الرماح وغیرها، ورمح صدق:مستو،وکذالک سیف صدق
صاف اورسیدھا نیزہ ،اوراسی طرح سیدھی تلوارکو بھی صدق کہتے ہیں۔
عن ابن درستویہ:قال إنّما لصدق الجامع للاوصاف المحمودة
بن درستویہ کا کہنا ہے کہ”صدق“اس شخص کوکہاجاتاہے جس میں تمام پسندیدہ اوصاف موجودہوں۔
قال الخلیل:
"الصدق:الکامل کلّ شیءٍ”
خلیل نے کہاہے کہ ہرمکمل چیزکو”صدق“کہتے ہیں۔
۲ ۔”مفردات قرآن میں راغب کاکہناہے:
"ویعبّرعن کل فعل فاضل ظاهراًوباطناً با لصدق،فیضاف إلیه ذٰلک الفعل الّذی یوصف به نحو قوله
ہروہ کام جوظاہروباطن کے اعتبارسے اچھا اور پسندیدہ ہو اسے”صدق“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اوراس کے موصوف کی”صدق“کی نسبت اضافت دی جاتی ہے۔
(مفردات فی القرآن،ص۲۷۷)
استعما لات قرآ نی کے وقت ہم اس کے شاہدپیش کریں گے۔
استعمالات قرآنی
قرآن مجید میں ہمیں بہت سی ایسی آیات نظر آتی ہیں جن میں لفظ”صدق“کوایسی چیزوں کی صفت قرار دیا گیاہے جوگفتگووکلام کے مقولہ نہیں ہےں۔نمونہ کے طور پر درج ذیل آیات ملاحظ ہوں:
وبشّرالّذین آمنوا اٴنّ لهم قدم صدق عندربّهم
(سورہ یونس آیت۲)
اس آیہء شریفہ میں ’ صدق“،”قدم“کی صفت واقع ہے۔
"ولقدبوّاٴنا بنی اسرائیل مبوّاٴصدق
(سورہ یونس آیت ۹۳)
اس آیہء شریفہ میں ”صدق“کو”جگہ“کی صفت قرار دیا گیاہے۔
"وقل ربّ اٴدخلنی مدخل صدق واٴخرجنی مخرج صدق "
(سورہ اسراء آیت ۸۰)
اس آیہء شریفہ میں ”مدخل“ و ”مخرج“ یااسم مکان داخل اورخارج کرنے کی جگہ ہیں یا مصدرخودکوداخل کرنایاخارج کرنا ہیں۔بہرحال کسی طرح بھی مقولہ کلام سے نہیں ہے۔
"فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر
(سورہ قمر آیت ۵۰)
اس آیہ شریفہ میں ”صدق“،”مقعد“جگہ اوربیٹھنےکی صفت ہے۔
لیس البرّاٴن ُتوَلّوُاوجوهکم قبل المشرق والمغرب ولکنّ البرّمن آمن باللّٰه والیوم الآخر و الملائکة والکتاب والنبیّین وآتی المال علی حبّه ذوی القربی والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب واقام الصلوة وآتی الزکوةوالموفون بعهدهم إذاعاهدواوالصابرین فی الباٴسائ والضرّاء وحین الباٴس اولئک الّذین صدقواواٴُولئک هم المتّقون
(سورہ بقرہ آیت ۱۷۷)
اس آیہء شریفہ میں خداوندمتعال نے پہلے نیکیوں کوعقائد کے شعبہ میں یعنی خدا،قیامت،فرشتوں،آسمانی کتابوں اورانبیاء پرایمان کے سلسلہ میں اس کے بعدعمل کے شعبہ میں یعنی اپنے رشتہ داروں،محتاجوں،ابن سبیل اورسائلوں کوانفاق کرنا،خداکی راہ میں بندوں کو آزادکرنانیزایفائے عہدکرنا وغیرہ وغیرہ کی طرف اشارہ کیاہے۔اس کے بعداخلاقی شعبہ میں یعنی مشکلات و پریشاں نیوں میں صبروتحمل استقامت و پائیداری کا مظا ہرہ کر نے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اورمذکورہ تینوں شعبوں میں نیکیاں کرنے والوں صدق وتقویٰ کے ذریعہ تعریف کرتاہے۔
لغت اورآیات کریمہ میں مذکورہ استعمالات کے پیش نظرواضح ہوجاتاہے کہ”صدق“کاایک ایساوسیع مفہوم ہے کہ جس کا دائرہ صرف مقولہء،کلام،وعدہ وخبرتک محدود نہیں ہے،بلکہ یہ فکرواندیشہ عقا ئد و اخلا قیات نیزانسانی رفتارجیسے دیگر مواردپربھی اطلاق کرتا ہے اوراس کااستعمال ان موا رد میں حقیقی ہے۔
اس آیت کا گزشتہ آیات سے ربط
اس آیت سے پہلی والی آیت جیساکہ تفسیر وحدیث کی کتابوں میں آیا ہے ان مومنین کے بارے میں ہے کہ جنہوں نے پیغمبراسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جنگ تبوک میں جانے سے انکار کیا تھا اوراس کے بعدنادم اورپشیمان ہوکرانھوں نے توبہ کرلی تھی،مسلمانوں نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے ان کے ساتھ اپنے رشتہ نا طے توڑ دئے تھے،یہاں تک کہ ان کی بیویوں نے بھی ان سے بات کرنا چھوڑدی تھی۔
انہوں نے جب شہر سے باہرنکل کربارگاہ الٰہی میں التماس والتجا کی اور خدا کی بار گاہ میں توبہ کی تو خدا وند متعال نے ان کی توبہ قبول کی اوروہ پھرسے اپنے لوگوں اوراپنے خانوادوں میں واپس لوٹے۔
بعد والی آیت میں بھی خدا وند متعال فرماتا ہےاہل مدینہ اوراس کے اطراف کے لوگوں کو نہیں چا ہئیے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت اوران سے رو گردانی کریں۔ اس کے بعد خدا کی راہ میں مشکلات و پریشا نیاں،بھوک وپیاس کی سختیاں برداشت کرنے کی قدرواہمیت کی طرف بھی اشارہ کرتاہے۔
اس آیہ شریفہ زیر بحث آیت میں مؤمنین کومخاطب کرکے انھیں تقویٰ و پر ہیز گاری کا حکم دیا گیا ہے،اورانھیں اس بات کا پیغام دیا گیا ہے کہ وہ”صادقین“کے ساتھ ہوجائیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آیہء شریفہ میں ”صادقین“سے مراد کون لوگ ہیں؟
اس آیت کا ائمہ معصومین علیہ السلام کی امامت سے ربط
ابتدائی نظر میں جیسا کہ”صدق“ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا گیا ایسالگتاہے کہ جملہ کونوامع الصادقین سے مرادسچوں کے ساتھ ہونے کاحکم ہے۔

قابل غور بات اورجو چیز ضروری ہے وہ سچ بولنااورجھوٹ بولنے سے پر ہیز کر نا ہے۔ لیکن سچ بولنے والوں کے ساتھ ہونا یہ شر عی واجبات میں سے نہیں ہے،جبکہ سچوں کے ساتھ ہونے کا یہ آیہ شریفہ میں حکم ہواہے اور یہ امروجوبی ہے اور جملہ( کونوامع الصادقین ) کا وقوع”اتقوااللّٰہ“کے سیاق میں ہے کہ جس میں تقوائے الٰہی کا حکم تھالہذایہ بیشک وجوب کے لئے ہے اوراس سے وجوب کی مزیدتاکیدہوتی ہے۔
مفہوم صدق کی وسعت کے پیش نظرمقولہ کلا م و گفتگو تک محدودیت نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ فکرو عقائد،اخلاق وکردار نیزرفتار و عمل تک پھیلا ہواہے کہ جس میں صادقین سے ہونے کو آیہء کریمہ میں واجب قرار دیا گیاہے،ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ صادقین کے ساتھ ہونے سے مرادجسمانی معیت اورہمراہی نہیں ہے بلکہ ہمراہی ہراس چیز میں ہے جس میں صحت وسچائی پا ئی جاتی ہو اورآیہء کریمہ میں صادقین سے مرادوہ لوگ ہیں جوصدق مطلق کے مالک ہیں نہ مطلق صدق کے۔او رصدق مطلق وہ ہے جوہر جہت سے سچااورصحیح ہواورفکروعقائد،گفتاروکرداراور اخلاقیات کے لحاظ سے کسی طرح کا انحراف نہ رکھتاہو۔اس طرح کا شخص معصوم کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتاہے۔اس طرح کے انسان کے ساتھ ہونے کامطلب اس کے افکار و عقائد، کردارواخلاق کی پیروی کر نا ہے۔
چونکہ مسلمانوں کااس بات پراجماع ہے کہ چودہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کوئی صاحب عصمت اور صدق مطلق کا مالک نہیں ہے،اس لئے”صادقین“ سے مرادپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہوں گے۔
علماء ومفسرین کے بیانات کی تحقیق
اس سلسلہ میں ہم صرف دوبزرگ علماء کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
علامہ بہبہانی کا قول:
پہلا قول شیعہ امامیہ کی ایک عظیم شخصیت وبزرگ عالم دین،گراں قدرمفکرمرحوم علامہ محقق سید علی بہبہانی کاہے۔وہ اپنی عظیم کتاب”مصباح الھدایہ“کہ جوواقعاًامامت کے بارے میں ایک بے نظیرکتاب ہے میں آیہ شریفہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقداستفاضت الروایات من طریقناوطریق العامةاٴنّ الصادقین هم اٴهل بیت النبیّی المطهّرون“وقد ذکرفی غایة المرام عشرةخبارمن طریقنا وسبعة اٴخبار من طریق العامة”
(نمایة المرام ،ص۲۴۸)
اٴقول:ویدّل علی اختصاص الصادقین فی الآیةالکریمه فی الاٴئمّة المعصومین الطبّین من آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعدم إرادة مطلق الصادقین منهکمادلّت علیه الروایات المستفیضة من الطر فین:اٴنّه لوکان المراد بالصدق مطلق الصدقالشامل لکلّ مرتبة منه المطلوب من کلّ مؤ من،وبالصادقین المعنی العام الشامل
لکلّ من اتّصف بالصدق فی اٴیّ مرتبة کان،،لوجب اٴن یعبّرمکان”مع“ بکلمة”من“ضرورةاٴنّه یجب علی کلّ مؤمن اٴن یتحرزعن الکذب و یکون مع الصادقینفالعدول عن کلمة ”من“إلی”مع“ یکشف عن اٴن المراد ”باالصدق“مرتبة مخص صةو”باالصادقین“ طائفة معینةومن المعلوم اٴنّ هذه المرتبة مرتبة کاملة،بحیث یستحقالمتصفون بها اٴن یتبعهم سائر المؤمنین جمیعاً،وهذاالمرتبة الکاملة التی تکون بهذه المثا بة لیست إلاّ العصمة والطهارة التی لم یتطرّق معها کذب فی القول والفعل،إذفی الاٴمّة من طهّره اللّٰه تعالی واٴذهب عنه الرجس!وهم اٴهل بیت النبیّی بنصّایة التطهیرواتّفاق جمیع المسلمین
فلواٴُرید من الصّادقین غیر المعصومین لزم اٴن یکون المعصومون ماٴمورین بمتا بعة غیر المعصومین المتطرّق فیهم الکذب و لو جهلاً اٴو سهواً و هو قبیح عقلاً ، و تعیّن اٴن یکون المراد الصادقین المطهّرین الحائزین جمیع مراتب الصدق قولاً و فعلاً،ولا یصدق ذلک إلاّ علی اٴهل بیت النبیّیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الّذین اٴذهب اللّٰه عنهم الرجس و طهرَّهم تطهیراً، و إلیه یشیر قول مولانا الرضا علیه السلام ”هم الاٴئمّة الصدیقون بطا عتهم“
) فی المصدر:”والصدیقون بطا عتہم “فراجع)
و یدلّ علی کونهم اٴئمّة کمانبّه علیه مولانا الرضا علیه السلام فی هذه الروایة اٴمره سبحانه وتعالی جمیع المؤ منین بعد اٴمرهم بالاٴتّقاء عن محارمه باٴن یکونوا مع الصادقین، و لا یصدق الکون معهم إلا باٴن یکونوا تحت طاعتهم ،متحرّزین عن مخا لفتهم ولیس للإمامة معنی إلاّافتراض طاعة الإمام علی الماٴموم من قبله تعالی،بل لا تعبیراٴقرب إلی معنی الإمامة من اٴمر المؤمنین باٴن یکونوامعه،إذ حقیقة الإئتمام عبارة عن متابعة الماٴموم إمامه وعدم مفارقته عنه "
(مصباح الہدایہ ص۹۳۔۹۲)
شیعہ اور اہل سنّت سے مستفیض روایتیں نقل ہوئی ہیں کہ آیہء شریفہ میں صادقین سے مرادپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت علیہم السلام ہیں۔
(دس تک کی احادیث پر”حدیث مستفیض“اطلاق ہوتا ہے)
مرحوم بحرانی نے اپنی کتاب ”غایة المرام“ میں شیعہ طریقہ سے دس احادیث اورسنی طریقہ سے سات احادیث نقل کی ہیں۔
آیہء کریمہ میں ”صادقین“سے مرادجیساکہ فریقین کی احادیثوں میں ایاہے ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ”صدق“سچائی کہ جو”صادقین“کے عنوان میں ماخوذہے،اس سے مرادمطلق سچائی ہے کہ جوہرمرتبہ کو شامل ہے اور”صادقین“کے زمرے میں ہروہ شخص شامل ہوکہ جو صفت صدق کے کسی بھی مرتبہ سے متصف ہے تو آیہ کریمہ کی تعبیر ”کو نوا من الصا دقین“ہونی چا ہئے تھی اوراس صورت میں اس آیت کے معنی یہ ہو تے کہ ہرمسلمان پر ضروری ہے کہ وہ سچ بو لنے والوں سے ہو اورجھوٹ سے پرہیزکرے۔
یہ جو”مع الصادقین“تعبیرہے،یہ خوداس بات کی دلیل ہے کہ”صدق“سے مراد ایک خاص مرتبہ و مقام ہے اور”صادقین“سے مرادایک مخصوص اور ممتازگروہ اورصادقین کے ساتھ ہونے کا معنی ان کی پیروی کرناہے۔
صفت صد ق کا کا مل اور نہائی مرتبہ وہی عصمت وطہارت ہے جس کی وجہ سے گفتار وکردار میں سچائی مکمل طورپرمحقق ہوتی ہے۔
اس مطلب کاقطعی ثبوت یہ ہے کہ اگر”صادقین“سے مرادائمہ معصومینعلیہ السلام کے علاوہ کوئی اورہوں تواس فرض کی بنیادپرکہ آیہء تطہیرکی نص مو جود ہے اورتمام مسلمانوں کا اہل بیت کے معصوم ہو نے پر اتفاق ہے ،اس کالازمہ یہ ہوتا کہ تمام انسان حتی کہ ائمہ معصو مین بھی غیرمعصوم کی اطاعت وپیروی کریں اوریہ عقلاًقبیح ہے۔لہذایہ مرتبہ عصمت وطہارت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے علاوہ کہیں اورنہیں پایا جاسکتاہے۔
دوسراثبوت یہ ہے کہ خدا وند متعال نے آیت کی ابتداء میں تمام مؤمنین کو تقویٰ اورگناہوں سے اجتبا ب کر نے کاحکم دیاہے اوراس کے بعد انہیں”صادقین“ کے ساتھ ہونے کا فرمان جاری کیا ہے،اوران کے ساتھ ہونے کا مطلب ان کی اطاعت کرنے اوران کی نافرمانی نہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور امامت کے معنی بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ ماموم پر امام کی اطاعت واجب ہے۔
اگرہم امامت واطاعت کی صحیح تعبیر کرناچاہیں توبہترین تعبیریہ ہے کہ امام کے ساتھ ہونا اوراس کی پیروی و اطا عت سے جدانہ ہو ناہے۔
فخررازی کا قول
دوسراقول اہل سنت کے مشہورومعرو ف علا مہ فخررازی کاہے۔وہ آیہء شریفہ کی تفسیر میں کہتے ہیں:
و فی الآیة مسائل: المساٴلة الاٴولی: اٴنّه تعالی اٴمرالمؤمنین بالکون مع الصادقین! و متی وجب الکون مع الصادقین فلا بدّمن وجود الصادقین فی کلّ وقت، و ذلک یمنع من إطباق الکلّ علی الباطل، و متی إمتنع إطباق الکلّ علی الباطل وجب إذا اٴطبقوا علی شیء اٴن یکونوا محقّین فهذا یدل علی اٴنّ إجماع الاٴمّة حجّة
فإن قیل: لمَ لا یجوز اٴن یقال: المراد بقوله:کونوا مع الصادقین اٴی کونوا علی طریقة الصادقین، کما اٴنّ الرجل إذا قال لولده: ”کن مع الصالحین“ لا یفید إلاّ ذلک؟
سلّمنا ذلک، لکن نقول: إن ّ هذا الاٴمر کان موجوداً فی زمان الرسول فقط، فکان هذا اٴمراً بالکون مع الرسول، فلا یدّل علی وجود صادق فی سائر الاٴز منة
سلّمنا ذلک لکن لم لا یجوز اٴن یکون الصادق هو المعصوم الذی یمتنع خلوّ زمان التکلیف عنه کما تقو له الشیعة؟
و الجواب عن الاول: اٴنّ قوله:
کونوا مع الصادقین اٴمر بموافقة الصادقین، و نهی عن مفارقتهم، و ذلک مشروط بوجود الصادقین وما لا یتمّ الواجب إلاّ به فهو واجب فدّلت هذه الآیة علی وجود الصادقین و قوله: ” إنّه عدول عن الظاهر من غیر دلیل
قوله: ” هذا الاٴمر مختصّ بزمان الرسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴنّ التکالیف المذکورة فی القرآن متوجهة إلی المکلّفین إلی قیام القیامة، فکان الاٴمر فی هذا التکلیف کذلک
الثانی : اٴنّ الصیغة تتناولال اٴوقات کلّها بدلیل صحة الاستثناء الثالث: لمّا لم یکن الوقت المعین مذکوراً فی لفظ الآیة لم یکن حمل الآیة علی البعض اٴولی من حمله علی الباقی فإماّ اٴن لا یحمل علی شیء من الاٴوقات فیفضی إلی التعطیل و هو باطل ! اٴو علی الکلّ فهو المطلوبو الرابع: و هو اٴنّ قوله:
” یا اٴیّها الّذین آمنوا اتّقوا اللّٰہ”
اٴمر لهم بالتقوی و هذا الاٴمر إنّما یتناول من یصحّ منه اٴن لا یکون متّقیاً، و إنّما یکون کذلک لو کان جائز الخطاٴ فکانت الآیة دالّة علی اٴنّ من کان جائز الخطاٴ وجب کونه مقتدیاً بمن کان واجب المعصمة، و هم الّذین حکم اللّٰه تعالی بکونهم صادقین فهذ ایدّل علی اٴنّه واجب علی جائز الخطاٴ کونه مع المعصوم عن الخطاٴ حتی یکون المعصوم عن الخطاٴ مانعا لجائز الخطاٴ عن الخطاٴ! و هذا المعنی قائم فی جمیع الاٴزمان، فوجب حصوله فی کل الازمان
قوله:”لم لا یجوزاٴن یکون المراد هو کون المؤمن مع المعصوم الموجود فی کلّ زمان“
قلنا:نحن نعترف باٴنّه لابدّ من معصوم فی کلّ زمان،إلا اٴناّ نقول: ذلک المعصوم هو مجموع الاٴمّة و اٴنتم تقولون ذلک المعصوم واحد منهم فنقول: هذا الثانی باطل، لاٴنّه تعالی اٴوجب علی کلّ واحدمن المؤمنین اٴن یکون مع الصادقین،وإنّما یمکنه ذلک لو کان عالماً بان ذلک الصادق من هو ،لاالجاهلباٴنّه من هو فلو کان ماٴموراً بالکون معه کان ذلک تکلیف مالا یطاق، واٴنّه لا یجوز، لکنّا لا نعلم إنساناً معیّناً موصوفاً بوصف العصمة، و العلم باٴنّا لانعلم هذا الانسان حاصل بالضرورة، فثبت اٴنّ قوله: وکونوا مع الصادقین لیس اٴمراً بالکون مع شخص معیّن و لمّا بطل هذا بقی اٴنّ المراد منه الکون مع مجموع الاُمّة، وذلک یدل علی اٴنّ قول مجموع الاُمّة حقّ و صواب ، و لا معنی لقولنا،”الإجماع حجة“إلاّ ذلک
(التفسیر الکبیر ،فخررازی ،ص۲۲۱۔۲۲۰)
ترجمہ:
”خداوند متعال نے مو منین کو صادقین کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا ہے۔اس مطلب کا لازمہ یہ ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کاوجودہو اور یہ اس بات کے لئے ما نع ہے کہ پوری امت کسی باطل امر پر ا تفاق کر ے ۔اس لئے اگر پوری امت کسی چیز پر اتفاق کرتی ہے تو ان کا یہ اتفاق صحیح و بر حق ہو گا اوریہ،اجماع امت کے حجت ہونے کی دلیل ہے۔
اگر کہا جائے:صادقین کے ساتھ ہو نے کا مقصد یہ کیوں نہیں ہے کہ صادقین کے طریقہ کار کی پیروی کرے ،چنانچہ اگر ایک باپ اپنے بیٹے سے کہے:”صالحین کے ساتھ ہو جاؤ“یعنی صالحین کی روش پر چلو اور یہ امر اس بات پر دلالت نہیں کرتا ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کا وجود ہو۔
جواب یہ ہے کہ:یہ خلاف ظاہر ہے،کیونکہ وکون امع الصادقین یہ ہے کہ پہلے ان صادقین کا و جود ہو جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے۔
مزید اگریہ کہا جائے کہ:یہ جملہ صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں موضوعیت رکھتا تھا،کیونکہ اس زمانہ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات صادق کے عنوان سے مو جود تھی اور یہ اس بات پردلالت نہیں کرتاہے کہ ہرزمانہ میں صادقین موجود ہوں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ:یہ خطاب قرآن مجید کے دوسرے خطابوں کے مانندقیامت تک کے لئے تمام مکلفین سے متعلق و مر بوط ہے اوراس میں ہر زمانہ کے مکلفین سے مخطاب ہے اور یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ استثناء صحیح ہےاوراستثناء کے صحیح ہو نے کی دلیل ہمیشہ مستثنی منہ میں عمومیت کا پا یا جا تا ہے ۔
اس کے علاوہ خدا وند متعال نے پہلے مرحلہ میں مؤ منین کو تقویٰ کا حکم دیا ہے،اور یہ انھیں تمام افراد کے لئے تقویٰ کا حکم ہے کہ جن کے لئے امکان ہے کہ متقی نہ ہوں اوراس خطاب کے مخاطبین وہ لوگ ہیں جو جائزالخطاء ہیں۔لہذاآیہء شریفہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جائز الخطاء افراد کو ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہونا چاہئے کہ جو خطا سے معصوم ہوں تاکہ وہ معصوم لوگ انھیں خطا سے بچا سکیں۔اور اس طرح کاامکان ہرزمانہ میں ہے۔اس لئے آیہ شریفہ تمام زمانوں سے متعلق ہے اورصرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔
یہاں تک فخررازی کے بیان سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ صادقین سے مراد خطا سے معصوم افراد ہیں اور یہ افراد ہر زمانہ میں موجود ہیں اوریہ مطلب صحیح اور نا قابل اشکال ہے۔ لیکن فخررازی کاکہنا ہے:
”معصوم”صادقین“ امت کے مجموعی افراد ہیں اور یہ امت کے خاص اورمشخص افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ اس صورت میں ہر ایک پر لازم ہے کہ ان معین مشخص افراد کو پہچانے ان کی معرفت حاصل کرے تا کہ ان کے ساتھ ہو جائے جبکہ یہ معرفت اورآگا ہی ممکن نہیں ہے اورہم ایسے خاص افراد کو نہیں پہچانتے ہیں کہ جو خطا و غلطی سے پاک اورمعصوم ہوں۔ لہذااس بات کے پیش نظر معصوم صادقین سے مراد مجموعہ امت ہے کہ جس کا نتیجہ اجماع کی حجیّت ہے۔“
فخررازی کے قول کا جواب
فخررازی کے بیان میں دونمایاں نکتے ہیں:
پہلانکتہ:یہ ہے کہ معصوم صادقین سے مراد مشخص و معیّن افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمیں ان کے بارے میں علم وآگاہی نہیں ہے۔
اس قول کا صحیح نہ ہو نا واضح و روشن ہے،کیونکہ شیعہ اما موں کی عصمت کی دلیلوں کی طرف رجوع کرنا ہرایک کے لئے ممکن ہے،جن احادیث میں ان معصوم اما موں کاصراحتاًنام لیا گیا ہے،وہ تواتر کی مقدار سے زیادہ ہیں نیزیہ حدیثیں بعض سنی منابع اور بے شما ر شیعہ منابع میں ذکر ہوئی ہیں۔
دوسرا نکتہ:یہ کہ” معصوم صادقین سے مراد تمام امت ہے“اس پر بہت سا رے اعتراضات ہیں ذیل کے عبا رت میں ملا حظہ ہو:
۱ ۔چودہ معصومین علیہ السلام کی عصمت کے علاوہ کسی اور کی عصمت کا قول تمام مسلمانوں کے قطعی اجماع کے خلاف ہے
۲ ۔آیہ شریفہ میں صادقین کے عنوان جو ایک عام عنوان ہے سے جو چیز ظاہر ہے وہ اس کااستغراقی اورشمولی ہو نا ہے نہ کہ مجموعی ہونا اور فخررازی کے کلام سے جو بات ظاہر اور واضح ہے کہ عصمت مجموعہ امت کی صورت میں ہے نہ جمیع امت کی صورت میں اور”مجموعہ“ایک اعتباری عنوان ہے جووحدت افراد کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیتا ہے۔عنوان عام میں اصل”استغراقی ہو نا“ہے،کیونکہ عام مجموعی مجازہے اور اسے قرینہ کی ضرورت ہے جبکہ اصالةالحقیقة کا تقاضا یہ ہے کہ عام،جس کا حقیقی عنوان استغراقی ہو نا ہے اس پر حمل ہو۔
۳ ۔عصمت ایک حقیقی عنوان ہے اوراسے ایک حقیقی موضوع کی ضرورت ہے،اور عام مجموعی ایک اعتباری موضوع ہے اورحقیقی موجود کا اعتباری موضوع پر قائم ہو نا محال ہے۔
۴ ۔فخررازی کا قول
یاایهاالذین آمنوا “
اور صا دقین کے درمیان ایک دوسرے مقابل ہو نے کا جو قرینہ پا یا جا تا ہے اس کے خلاف ہے اور ان دو عناوین کے درمیان مقا بلہ کا تقاضا ہے کہ وہ مومنین کہ جن کو خطاب کیا جا رہا ہے وہ دوسرے ہوں اور وہ صادقین جوان کے مقا بل میں قرار دیئے گئے ہیں اور جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے وہ دوسرے ہوں۔
۵ ۔صادقین سے مراد مجموعہ امت عام مجموعی ہونا خود فخررازی کے بیان سے متناقص ہے،کیونکہ اس نے اس مطلب کی توجیہ میں کہ صادقین کا اطلاق فقط پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں منحصر نہیں ہے ،کہاہے:
”آیہء شریفہ اس پہلو کو بیان کر نے والی ہے کہ ہرزمانے میں ایسے مؤ منین کا وجود رہا ہے کہ جو جائزالخطا ہوں اور ایسے صادقین بھی پائے جاتے رہے ہیں کہ جوخطا سے محفوظ اورمعصوم ہوں اور ان مؤمنین کو چاہئیے کہ ہمیشہ ان صادقین کے ساتھ ہوں۔“
لہذا فخر رازی نے ان مؤمنین کو کہ جن کوخطاب کیا گیا ہے جائز الخطا اور صادقین کو خطا سے معصوم فرض کیا ہے۔
(کتاب:امامت اورائمہ معصومین کی عصمت سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button