قرآنیاتمقالات قرآنی

مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ ۚ وَكَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِيمًا

ترجمہ
آخر اللہ تمہیں سزا دے کر کیا کرے گا؟ اگر تم شکر کرنے والے اور ایمان دار بن کر رہو تو اللہ تو بڑا ہی قدر کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
یہ آیت اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمت اور مہربانی کا عکاس ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ وہ بلاوجہ سزا دینے والا نہیں ہے۔ اگر ہم اللہ کا شکر ادا کریں اور ایمان لائیں تو اللہ ہمیں سزا دینے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ اس سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب دینے کا کوئی شوق نہیں رکھتا، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی راہ پر چلیں اور اس کی رحمت کے مستحق بنیں۔
اللہ کی رحمت
اللہ تعالیٰ کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ وہ ہمیں ہمارے گناہوں کے باوجود معاف کرنے کے لئے تیار ہے، بشرطیکہ ہم اس کا شکر ادا کریں اور ایمان کی راہ پر قائم رہیں۔ اس کی رحمت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ ہمیں ہمارے نیک اعمال کا اجر دیتا ہے اور ہمیں اپنی قربت میں جگہ دیتا ہے۔
اللہ کا شکر کرنے کا مطلب:
شکر کرنے سے مراد صرف زبانی شکر نہیں بلکہ دل و جان سے اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرنا اور اس کے احکام کی پیروی کرنا ہے۔ ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ ہم اللہ کی وحدانیت کو مانیں اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں۔
اللہ کی معرفت:
آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات "شاکرًا” اور "علیمًا” بیان کی گئی ہیں۔ "شاکرًا” سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ قدر کرنے والا ہے، وہ ہماری نیکیوں کا بدلہ دیتا ہے اور ہمیں اجر سے نوازتا ہے۔ "علیمًا” سے مراد ہے کہ اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، وہ ہماری نیتوں اور اعمال سے بخوبی واقف ہے۔
یہ آیت ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اللہ کے شکر گزار بندے بنیں اور اس پر کامل ایمان رکھیں۔ اس طرح ہم اللہ کی رحمت کے مستحق بن جائیں گے اور اس کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت کا یہ پیغام ہمیں امید اور حوصلہ دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق گزاریں اور اس کی بے پایاں محبت اور شفقت سے مستفید ہوں۔
کلیدی الفاظ
1. عذاب
2. شکر
3. ایمان
4. شاکر
5. علیم
1. عذاب
عذاب کا مطلب ہے سزا یا تکلیف جو کسی غلط کام کی پاداش میں دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب اس کی نافرمانی کرنے والوں کے لئے ہے۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کو عذاب دینے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا مقصد ہمیں سیدھے راستے پر لانا ہے نہ کہ ہمیں عذاب دینا۔ اگر ہم اللہ کا شکر ادا کریں اور ایمان لائیں تو عذاب سے بچ سکتے ہیں۔
2. شکر
شکر کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کا شکریہ ادا کرنا۔ شکر گزاری ایک اہم عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ شکر کرنے سے مراد دل سے، زبان سے اور عمل سے اللہ کی نعمتوں کا اظہار کرنا ہے۔ شکر گزار بندے اللہ تعالیٰ کی مزید نعمتوں کے مستحق ہوتے ہیں۔ شکر کرنا ہمیں اللہ کی قربت اور اس کی رحمت کے قریب لاتا ہے۔
3. ایمان
ایمان کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنا اور اس کے احکام کی پیروی کرنا۔ ایمان لانے سے مراد اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسولوں پر یقین رکھنا ہے۔ ایمان ہمیں اللہ کے عذاب سے بچاتا ہے اور اس کی رحمت کا مستحق بناتا ہے۔ ایمان والے بندے اللہ کی مدد اور نصرت کے حقدار ہوتے ہیں۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اللہ کی مرضی کے مطابق گزاریں۔
4. شاکر
شاکر اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ قدر کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ شاکر ہے، یعنی وہ ہماری نیکیوں کا بدلہ دیتا ہے۔ شاکر ہونے کا مطلب ہے کہ اللہ ہمارے شکر اور اعمال کا معترف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری کوششوں کا صلہ دیتا ہے اور ہماری نیکیوں کی قدر کرتا ہے۔ شاکر ہونا اللہ کی ایک خاص رحمت ہے جو ہمیں اس کے قریب لاتی ہے۔
5. علیم
علیم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ علیم ہے، یعنی وہ ہماری نیتوں اور اعمال سے بخوبی واقف ہے۔ علیم ہونے کا مطلب ہے کہ اللہ ہر چھوٹی بڑی چیز سے آگاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی علمیت ہمیں یہ یقین دلاتی ہے کہ وہ ہمارے حالات سے مکمل طور پر باخبر ہے۔ علیم ہونے کی صفت اللہ تعالیٰ کی حکمت اور عدل کو ظاہر کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ یہ محبت اتنی وسیع اور گہری ہے کہ اسے بیان کرنا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت بے شرط اور لا محدود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے ہدایت کے راستے واضح کیے اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے اور اس کی محبت ہر دل میں بستی ہے۔
میرے بندو! تم سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، لہٰذا مجھ سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ تم سب بھوکے ہو، سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں، لہٰذا مجھ سے کھانا مانگو، میں تمہیں کھلاؤں گا۔ تم سب ننگے ہو، سوائے اس کے جسے میں پہناؤں، لہٰذا مجھ سے لباس مانگو، میں تمہیں پہناؤں گا۔”
یہ حدیثِ قدسی اللہ تعالیٰ کی شفقت اور محبت کو واضح کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی طرف بلاتا ہے اور ان کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس کی محبت اتنی عظیم ہے کہ وہ بندوں کی ہر حاجت کو پورا کرتا ہے اور انہیں اپنی رحمت کے سائے میں پناہ دیتا ہے۔
مزید برآں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"میرے بندو! اگر تمہارے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں اور تم مجھ سے معافی مانگو تو میں تمہیں معاف کر دوں گا۔”
قرآن مجید میں اللہ کی رحمت اور کرم کے بارے میں کئی آیات موجود ہیں۔ ان میں سے ایک مشہور آیت یہ ہے:
"قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۚ إِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ” (سورة الزمر 39:53)
ترجمہ: "کہہ دو: اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ بے شک اللہ سب گناہوں کو معاف کر دیتا ہے، یقیناً وہی بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔”

یہ اللہ کی بے پناہ محبت کی ایک اور جھلک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے گناہوں سے مایوس نہیں ہونے دیتا بلکہ ہمیں توبہ کی دعوت دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ وہ ہمیں معاف کر دے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے گناہوں کے باوجود محبت کرتا ہے اور ہمیں معافی کے دروازے کھولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اس بات میں بھی نظر آتی ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت کی پناہ میں رکھتا ہے، ہمیں ہدایت دیتا ہے، ہمارے گناہوں کو معاف کرتا ہے، اور ہماری مشکلات میں ہمارا ساتھ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ بے پناہ محبت ہمیں اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ ہم بھی اس سے محبت کریں، اس کی عبادت کریں، اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں۔
اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی اور سخاوت بے حد و حساب ہے۔ وہ اپنے بندوں کے گناہوں کے باوجود انہیں نوازتا ہے اور ان پر اپنی نعمتوں کی بارش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس بے پایاں کرم نوازی کا ذکر قرآن مجید اور احادیث میں بارہا آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے عیب چھپاتا ہے، ان کی دعائیں قبول کرتا ہے، اور ان کی مشکلات میں ان کی مدد کرتا ہے۔
"اے میرے بندو! تم دن رات گناہ کرتے ہو اور میں سارے گناہ معاف کرتا ہوں، لہٰذا مجھ سے مغفرت طلب کرو، میں تمہیں معاف کر دوں گا۔”
یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی بے انتہا کرم نوازی اور معافی کے بارے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے گناہوں کے باوجود اپنی رحمت کے دروازے پر بلاتا ہے اور ہمیں معافی کی امید دلاتا ہے۔
"کہہ دو: اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بے شک اللہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ یقیناً وہی بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔” (قرآن پاک)
یہ آیت ہمیں امید دلاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے گناہوں کے باوجود معاف کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس کی رحمت اور کرم نوازی اتنی وسیع ہے کہ وہ ہمارے گناہوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور ہمیں اپنی رحمت کی پناہ میں لے لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہمیں اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ ہم اس سے رجوع کریں، اس کی رحمت کے طلبگار بنیں اور اپنی زندگی کو اس کے احکام کے مطابق گزاریں۔ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ کرم نوازی ہمیں یقین دلاتی ہے کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے اور ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اس کی محبت اور کرم نوازی ہمارے دلوں کو سکون اور اطمینان بخشتی ہے اور ہمیں امید دلاتی ہے کہ ہم اس کی رحمت کے سایہ میں ہمیشہ محفوظ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی اور محبت اتنی بے پایاں ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے بندوں کی واپسی کا انتظار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت اس بات کا مظہر ہے کہ وہ ہمیں ہماری غلطیوں اور گناہوں کے باوجود اپنی طرف پلٹنے کی دعوت دیتا ہے۔
"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میرا بندہ میری طرف ایک قدم بڑھاتا ہے تو میں اس کی طرف دو قدم بڑھاتا ہوں۔ جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔”
یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی محبت اور کرم نوازی کو واضح کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ایک قدم کے جواب میں اس کی طرف دو قدم بڑھاتا ہے اور اگر بندہ اللہ کی طرف چل کر آتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری واپسی کا بے صبری سے انتظار کرتا ہے اور ہمیں اپنی رحمت کے سایہ میں لینے کے لئے ہمیشہ تیار ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
بیشک اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔”
ایک اور آیت ہے جو اللہ کی رحمت اور کرم کے بارے میں ہے:
"وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ” (سورة الأعراف 7:156)
ترجمہ: "اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ پس میں اسے ان لوگوں کے لئے لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔”

یہ آیت اللہ تعالیٰ کی محبت اور کرم نوازی کو بیان کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور ان کی واپسی کا انتظار کرتا ہے۔ اس کی رحمت اور محبت ہمیں اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ ہم اپنی غلطیوں پر نادم ہو کر اس کی طرف لوٹ آئیں۔ مزید برآں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرمانبردار بن جاؤ، قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے، پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔” یہ آیت ہمیں اللہ کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتی ہے اور ہمیں یقین دلاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری واپسی کا انتظار کر رہا ہے۔ اس کی محبت اور شفقت ہمیں حوصلہ دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اس کی رضا کے مطابق گزاریں۔ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی اور محبت کا یہ پیغام ہمیں امید اور حوصلہ دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کی غلطیوں کو سدھار کر اللہ کی طرف لوٹ آئیں۔ اس کی بے پناہ محبت اور کرم ہمیں یقین دلاتی ہے کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے اور ہماری واپسی کا انتظار کرتا ہے تاکہ ہمیں اپنی رحمت کی پناہ میں لے لے۔
اللہ کی رحمت وہ روشنی ہے جو تاریکیوں میں ہمارا راستہ روشن کرتی ہے۔ یہ وہ شفقت ہے جو ہمارے دلوں کو محبت اور سکون سے بھر دیتی ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو ہمیں آزمائشوں میں مضبوطی عطا کرتی ہے اور ہمیں کبھی اکیلا محسوس نہیں ہونے دیتی۔ اللہ کی رحمت کا سایہ ہمیشہ ہمارے اوپر بنا رہے۔
مزمل حسین الحسینی
پی ایچ ڈی اسکالر

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button