قرآنیاتمقالات قرآنی

قرآن و اہل بیتؑ کا باہمی تعلق(حدیث ثقلین کی روشنی میں) حصہ اول

فاضل جامعۃ الکوثر: ثاقب علی ساقی
مقدمہ

تمام تعریفیں عالمین کے پروردگار کیلئے ہیں۔پاک ہے وہ ذات کہ جس نے انسان کو تمام مخلوقات پر فوقیت دی اور انسان کو اپنی بندگی کیلئے خلق کیا۔ درود و سلام ہو محمد ؐو آل محمدؐ پر کہ جن کو اللہ نے ہر قسم کی رجس و ناپاکی سے دور کیا۔
قرآن و اہل بیتؑ قیامت تک ہدایت کے دومینار ہیں اور قرآن و اہل بیت ؑسے تمسک رکھنا تمام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ عا لم اسلا م کا کوئی بھی فرد ان دو گراں قدر چیزوں کی ا ہمیت سے انکار نہیں کرسکتا،ا ور ا ن سے تعلق رکھنے کو ہی راہ نجا ت سمجھتاہے۔ اسلامی علوم کا محور اللہ تعالی کی کتاب ہے
ا ور اہل بیتؑ ہی و ہ ہستیاں ہیں کہ جو ا س عظیم کتا ب کے حقیقی مفسّر ہیں۔ کو ئی بھی کتاب خوا ہ کتنا آسان ہی کیوں نہ ہو ایک طالب علم استاد کے بغیر اسے سمجھ نہیں سکتا لھذا ضر وری ہے کہ اللہ تعالی کے اس عظیم کتاب کو سمجھنے کیلئے ہم اہل بیتؑ کی طرف رجوع کریں اور ا ن کے فرامین کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن مجید سمجھنے کی کوشش کریں۔قرآن و اہل بیتؑ آپس میں جڑے ہوئے ہیں ا ور ان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور اسی تعلق کی وجہ سے اگر کوئی بھی ان میں سے ایک کو چھوڑ کر دوسرے کی پیروی کرے تو وہ یقینا گمراہی کی طرف گامزن رہے گا۔ پس ہمارا تعلق اللہ تعالی کی کتا ب یعنی قر آن مجید ا ور اہل بیتؑ دونوں کے ساتھ ہونا چاہئے۔
اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ علماء کرا م نے ا ن اہم موضوعا ت پر قلم ا ٹھایا ہے کہ جس کی آج معاشرے میں ضرورت ہے ا ور بہتر سے بہترین اندا ز میں ا ن موضوعات پر قلم فر سائی کی ہے لیکن معاشرے میں ا ن موضوعات کی تبلیغ و ترویج کی آج سے پہلے کی نسبت زیا دہ ضرورت ہے۔جب تک یہ موضوعات معاشرے میں عملی صورت اختیار نہ کریں، گویا تب تک ا ن کا حق ادا نہیں ہوا ہے۔مسلمانو ں کیلئے ضروری ہے کہ اپنے زندگی کا سفر قرآن مجید کے سائے میں طئے کریں ورنہ آج دشمن کے سازشوں سے بچنے کا اس کے علاو ہ ا ور کوئی مناسب را ستہ نظر نہیں آتا۔قرآن و اہل بیتؑ کی تعلیما ت سے عوا م کی آشنا ئی ایک انتہا ئی اہم امر ہے اگر چہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام قرآن مجید اور اہل بیتؑ سےبہت زیادہ محبت رکھتی ہےلیکن اسلامی مبلغین کی یہ ذمہ دا ری ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ کی تعلیما ت بھی عوام تک پہنچائیں۔
اس دفعہ تحقیق کیلئے جس موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے اس کی وجہ ا ردو زبان میں اس پر اگر چہ کام تو ہوا ہے لیکن دوسرے موضوعا ت جتنی توجہ اس موضوع کو نہیں دی گئی ہے جبکہ اس کی تشنگی ا کثریت محسو س کرتی ہیں ا ور اظہار بھی کرتے ہیں۔ مناظرانہ کام تو شاید زیادہ ہوا ہو لیکن یہ موضوع انسان کی ہدایت کے لیے ہے اور ہدایت انسان کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس موضوع پر جتنا بھی کام کیا جائے کم ہے۔ اگرچہ یہ موضوع کافی طولانی ہے لیکن یہاں ہماری کو شش ہوگی کہ جتنا ہوسکے اختصار کے ساتھ بحث کریں اور غیر ضروری بحث سے اجتناب کریں۔
باب اول
قرآن مجید دستور ہدایت
قرآن مجید کا تعارف
لغوی اعتبار سے لفظ قرآن قَرَءَ کا اسم مصدر ہے کہ جو جمع کرنے اور پڑھنے کے معنی میں آتا ہے۔ (1) قرآن مجید میں بھی کئی مقامات پر لفظ قرآن اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے کہ ارشاد باری تعالی ہے:
اِنَّ عَلَینَا جَمعَہٗ وَ قُراٰنَہ/فَاِذَا قَرَانٰہُ فَاتَّبِع قُراٰنَہٗ (2)
(اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمے ہے۔پس جب ہم اسے پڑھا چکیں تو پھر آپ اسی طرح پڑھا کریں۔)
اصطلاح میں لفظ قرآن اس کتاب کے ساتھ مختص ہے کہ جو اللہ تعالی کی طرف سے حضرت محمدؐ پر نازل کی گئی۔ (3)
اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہؐ پر جو وحی نازل کی گئی اس کی دو قسمیں ہیں۔ایک وہ وحی ہے کہ جس کی ہم تلاوت کرتے ہیں یعنی وحی متلو اور دوسری وہ وحی ہے کہ جس کی تلاوت نہیں کی جاتی بلکہ رسول اللہؐ سے مروی باقی احادیث کی طرح ہی اسے پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جس کو حدیث قدسی کہا جاتا ہے۔ (4) وحی متلو یہی قرآن مجید ہے اور وحی غیر متلو احادیث قدسی ہیں۔
قرآن مجید کا ایک تعارف وہ ہے کہ جس کو اگر ہم قرآن مجید کا عامیانہ تعارف کے عنوان سے تعبیر کریں تو بہتر ہوگا۔عامیانہ تعارف سے مراد قرآن مجید کا وہ تعارف ہے کہ جو اس وقت قرآن مجید سے متعلق عام عوام کے ذہنوں میں موجود ہے۔قر آنِ مجید یعنی ایک ایسا کتاب جس کے پڑھنے سے ثواب حاصل ہو تا ہے،جس میں سزا و جزا ء کی با تیں ہیں،وہ کتاب کہ جو مردوں کو بخشوانے کے لیے کام آتا ہے، وہ کتاب کہ جس میں گزروں کے کچھ قصے کہانیا ں ہیں،وہ کتاب کہ جس میں کچھ عبادات و رسومات کا بیان ہے اور اسی طرح قرآن مجید وہ کتاب ہے کہ جس میں جنت و جہنم کا ذکر ہے۔یہ ترزتفکر صرف قرآن کے بار ے میں نہیں بلکہ یہی تزرِ تفکر ہمارا دین ا ور دین سے متعلق تمام چیزوں کے بارے میں ہے۔ا ور یہ تر زِ تفکر جو مکہ کے مشرکین کا قرآنِ مجید کے بارے میں تھا اس سے مشابہ ہے اگر چہ انہوں نے عداوت و دشمنی میں یہ ترز تفکر اختیار کیا تھا اور ہم نے عقیدت کی وجہ سے نہ جانتے ہوئےاختیار کیا ہے۔اس کے باوجود کہ مکہ میں موجود اہل علم افراد قرآن مجید کی اہمیت کو جانتے تھے لیکن عوا م میں جان بوجھ کر ا س تفکر کی تبلیغ و ترویج کیا کرتے تھے کہ قرآن مجید کہ جس کی آیات محمدؐ تم لوگوں کو سناتا ہے یہ کوئی پائے کی چیز نہیں ہے بلکہ سارے پرانے قصے کہانیاں ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا (5)
(ا ور انھو ں نے کہا: یہ تو و ہی گزشتہ لوگوں کے افسانے ہیں جنہیں اس نے قلم بند کئے ہیں ا ور صبح و شام اسے لکھوایا جاتا ہے۔)
ایک اور مقام پر مشرکین کے تزر تفکر کو بیان کرتے ہوئےاللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِذا قَیلَ لَھُم مَا ذَا اَنزَلَ رَبَّکُم قَالُوا اَسَاطِیرُ الاَوَّلِینَ (6)
(اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔)
یہ قرآنِ مجید کا تعا رف نہیں بلکہ یہ قرآن مجید کے با ر ےمیں ہمارا ایک بہت ہی غلط گمان ہے ہمارا اپنا وہم و خیا ل ہے یا یہ کہیں کہ ہم قرآن مجید کی تعلیمات کے بارے میں ایک ایسے پروپیگنڈ ے کا شکار ہوچکے ہیں کہ جس کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے یا لاعلمی اور قرآن و اسلام سے متعلق شعور نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی نامناسب نکتہ نظر اختیار کرچکے ہیں۔ہم اپنی زندگی میں معمولی سی چیزوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں ہر قسم کے افسانے اور پتہ نہیں کیا کچھ نہیں پڑ ھتے لیکن ہم نے قرآن مجید سمجھنے کیلئے دن میں کتنا وقت صرف کیا ہے؟مجھےنہیں لگتا اپنی زندگی میں کچھ وقت قرآن مجید کے مطالعے کیلئے ہم نے مختص کیا ہو۔ جب ہم افسانہ یا کو ئی ناول پڑھتے ہیں تو غور سے پڑھتے ہیں اگر کو ئی لفظ سمجھ میں نہ آئے تو لغت کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن ہم نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن مجید جو ہمارے خالق و مالک کا کلام ہے اس کے آیات کا کیا مطلب ہے میرا پر ودگار مجھ سے اس میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟۔قرآن مجید کا تعارف وہ نہیں جو ہم نے اپنی ذہنوں میں بنایا ہے یہ ہمارے توہمات و خیالات ہیں قرآن کا تعارف اللہ تعالی خود قرآن مجید میں کچھ اس طرح سے بیان کرتا ہے:اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَبِیرا (7)
(بیشک یہ قرآن اس راستہ کی ہد ایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہےا ورا ن صاحبانِ ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کیلئے بہت بڑا اجر ہے۔)
ایک ا ور آیت میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِلنَّاسِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ اَکۡثَرَ شَیۡءٍ جَدَلًا(8)
(اس قرآن میں ہم نے لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثال(موضوع) بیان کی ہے لیکن انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔)
پس اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ہمارے لئےضر وری امور کو واضح اندز میں بیان فرمایا ہے،اللہ تعالی نے قرآن مجید کو ہمارے لئے دستور زندگی و دستور ہدایت قرار دیا ہے،قرآن مجید کو ہمارا رہنما قرار دیا ہے، لیکن یہ تو ہماری غلطی ہے کہ ہم اس عظیم کتاب سے ہدایت حاصل نہیں کرتے اس میں غور و فکر نہیں کرتے،اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا (9)
(کیایہ لوگ قرآن میں غور و فکرنہیں کرتے یا پھر ا ن کے دلوں پر تالے پڑے ہیں۔)
واقعا ہمارےدلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں ہمارے دل قرآن مجید سے مانوس نہیں ہیں۔بلکہ ہم قرآنی آیات میں موجود علم و حکمت کی طرف اصلا متوجہ ہی نہیں ہیں۔امام ابو عبد اللہؑ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ:
کنت عند ابی عبد اللّٰہ علیہ السلام،فقال لہ رجل:بابی انت و امی،انی ادخل کنیفا لی،ولی جیران و عندھم جوار یغنین و یضربن بالعود،فربما اطلت الجلوس استماعا منی لھن فقال:لا تفعل۔فقال الرجل:و اللّٰہ ما اتلھی انما ھو سماع اسمعہ باذنی،فقال لہ:(اللّٰہ)انت،اما سمعت اللّٰہ یقول:ان السمع و البصر و الفؤاد کل اولئک کان عنہ مسؤلا قال:بلی و اللّٰہ،فکانی لم اسمع ھذہ الآیۃ قط من کتاب اللّٰہ من عجمی و لا من عربی۔ (10)
(راوی کہتا ہے میں ابو عبد اللہؑ کے پاس موجود تھا کہ ایک آدمی نے سوال کیا: مولا آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں،جب میں بیت الخلاء میں جاتا ہوں تو میرے پڑوسیوں کے پاس سے گانے بجانے اور ساز کی آواز آتی ہے،میں کبھی ان کی آوازیں سننے کے لیے وہاں کچھ زیادہ وقت کے لیے بیٹھ جاتا ہوں۔امام نے فرمایا کہ ایسا مت کرو۔اس پر اس شخص نے کہا !خدا کی قسم میں خود تو ان کے پاس چل کے نہیں جاتا، یہ تو محض ایک آواز ہے جو میں اپنے کانوں سے سن لیتا ہوں۔امام نے جواب دیا:کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ہے کہ بیشک کان،آنکھ اور دل سب سے باز پرس ہوگی۔اس پر اس شخص نے کہا:اللہ کی قسم گویا یہ آیت اس سے پہلے میں نے نہ تو کسی عجمی سے سنی ہو اور نہ عربی سے گویا میں نے آج پہلی مرتبہ یہ آیت سنی۔
ہم بھی اس شخص کی طرح ہیں کہ قرآن کی تلاوت تو کرتے ہیں لیکن قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے قرآن مجید سے ہدایت حاصل نہیں کرتے بلکہ ہمارے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔
انسان کا خود مختار ہونا
انسان اور باقی مخلوقات میں فرق یہ ہے کہ اللہ تعالی نے باقی مخلوقات کو اختیار نہیں دیا کہ وہ جو چاہیں کرے البتہ انسان کو اللہ تعالی نے اختیار دیا ہے کہ اگروہ چاہئے تو اپنی مرضی اور اختیار سے اپنے خالق کی طرف سفر کرسکتا ہے،ہدف خلقت کو پاسکتا ہے اور اگر چاہئے تو گمراہی کے راستوں کو بھی اختیار کرسکتا ہے۔ا للہ تعالی نے جس حد تک بھی انسان کو اختیار دیا ہے اس اختیار کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ انسان جو کرنا چاہئے کرے ایسا نہیں ہے بلکہ اس اختیار میں انسان کا امتحان ہے۔ایک بچہ جو سکول جاتا ہے اور سال کے آخر میں امتحان دیتا ہے اب پورا سال اس کو اختیار ہے وہ چاہئے تو پڑھائی کرے اور اچھے نمبروں سے پاس ہو اور اگر چاہئے تو نہ پڑھے اور نہ پڑھنے کی صورت میں ظاہر ہے فیل ہوجائے گا۔اسی طرح اللہ تعالی نے انسان کو اختیار اس لیے نہیں دیا کہ جو چاہے کرے جو جی میں آئے انجام دے ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی نے انسان کو بھی خلق کیا اور دوسرے مخلوقات کو بھی خلق کیا لیکن دوسرے مخلوقات کو خلق کرنے کے ساتھ ساتھ ہدایت بھی پہلے سے دے دی لیکن انسان کے اندر اللہ تعالی نے ہدایت حاصل کرنے کی صلاحیت رکھی اور انسان کے کھاندوں پر ایک بھاری ذمہ داری ڈال دی اور وہ یہ کہ آئے انسان ہدایت کو تم نے خود حاصل کرنا ہے اور یہ اختیار جو اللہ تعالی نے ہمیں دی ہے یہ ایک امتحان ہے اللہ تعالی دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم میں سے کون خود چل کر اس اختیار سے فائدہ اٹھا کر ہدایت پائے گا اور کون ہدایت کے بجائے گمراہی کے راستوں پر چل پڑے گا۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا (11)
(بیشک ہم نے امانت}ذمہ دا ری ا ور ولایت الٰہیہ }کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا، انھوں نے ا س کے اٹھانے سے انکار کردیا ا ور اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے }اس کا بوجھ{اپنے کندھوں پر اٹھالیا،وہ بہت ہی ظالم اور جاہل تھا۔)
پس معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو یہ اختیار کیوں دیا۔ یہ اختیارانسان کے حق میں نہیں بلکہ انسان کے نقصان میں ہے ا ور اسی وجہ سے قیامت کے دن ہر کافر شخص کے زبان پر یہ جملات ہوں گے:
وَ یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُ یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا (12)
(اور کافر کہے گاآئے کاش میں مٹی ہوتا۔)
انسان کیلئے نظام ہدایت کی ضرورت
ایک نظریہ جو کہ ایک زمانے سے الہی نظریے کے ساتھ ساتھ چلا آرہا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کیلئے کسی رہنما کی ضر ورت نہیں ہے،انسا ن کیلئے کسی ہادی و ہدایت کی ضرورت نہیں ہے،نہ انسانی زندگی کا کو ئی مقصد ہے اور اگر انسانی زندگی کا کوئی مقصد ہے بھی تو یہی ہے کہ اچھی زندگی گزارو،اپنے لیے جتنا ہوسکے زیادہ وسائل زندگی فراہم کرو،اور نہ اس د نیاوی زندگی کے بعد کو ئی زندگی ہے۔آج اس نکتہ نظر نے بہت ترقی کی ہے ا ور ہمارے معاشرے بھی اس نکتہ نظر کے گہرے اثرات نظر آنے لگے ہیں۔جوانان الحاد اور لبرل ازم کا شکار ہورہے ہیں۔ہمارے پاکستانی معاشرے میں تدین،آزاد فکری ا ور روشن فکری کے نامو ں سے یہ نظر یہ پل ر ہا ہےا ور کافی حد تک جوانان اس نظریے سےمتاثر بھی ہوچکے ہیں۔ہیومن ازم ہو، ایتھزم ہو یا لبرل ازم ہو ان سب کا تعلق سمجھیں ایک ہی خاندان سے ہے اور ہر ایک دوسرے سے زیادہ تباہ کن ہے۔
جب رسالت مآبؐ مشر کینِ مکہ کو قیامت،جنت وجہنم اور قبروں سے دوبارہ اٹھائے جانے کی بات کرتے تو مکہ کے مشرکین کا رد عمل یہ ہوتا تھا کہ:
وَ قَالُوۡۤاءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًاءَ اِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ خَلۡقًا جَدِیۡدًا (13)
(ا ور انھوں نے کہا کہ جب ہم بوسیدہ ہڈیاں بن جائیں گے ا ور بکھر جائیں گے تو کیا ہمیں دوبارہ خلق کرکے ایک نئی صورت میں اٹھایا جائے گا۔)
کیا واقعا انسان کیلئے رہنما (نظامِ ھدایت)کی ضرورت نہیں ہے،انسا ن کے زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے ا ور نہ انسان کو دوبارہ قبر سے اٹھایا جائے گا؟
نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ انسان کیلئے رہنما ئی کی ضر ورت نہ ہو، بلکہ انسا ن کیلئے دوسرے مخلوقات کی نسبت زیادہ رہنما ئی کی ضرورت ہے کیونکہ انسان کو اختیار دیا گیا ہے۔ یہ انسان کا گمان ہے کہ خدا نے انسان کو پیدا کیا اور انسان کیلئے ہدایت و رہنما ئی کا انتظام نہیں کیا ا ور انسان کو ایک بے مقصد مخلو ق کے طور پر بنایا کہ مرنے کے بعد اس کو دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا اور نہ اسے باز پرس ہوگی۔خدا وند تبارک و تعالی فرما تا ہے:
اَیَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ اَنۡ یُّتۡرَکَ سُدًی ﴿ؕ۳۶﴾اَلَمۡ یَکُ نُطۡفَۃً مِّنۡ مَّنِیٍّ یُّمۡنٰی ﴿ۙ۳۷﴾ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰی ﴿ۙ۳۸﴾فَجَعَلَ مِنۡہُ الزَّوۡجَیۡنِ الذَّکَرَ وَ الۡاُنۡثٰی ﴿ؕ۳۹﴾اَلَیۡسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یُّحۡیِۦَ الۡمَوۡتٰی﴿۴۰﴾ (14)
(کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اسے بغیر کسی ہا دی و رہنما کے چھوڑا گیا ہے۔ کیا وہ رحم میں ٹپکایا جانے والا نطفہ نہیں تھا جو رحم میں ڈالا جاتا ہے؟ پھر اس نے جمے ہوئے خون کی صورت اختیار کر لی۔ پھر اس کو خلق کیا ا ور موزوں بنایا۔ ا ور اس سے دو جو ڑہ مزکر و مؤنث بنائے۔کیا ا یسی ہستی اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو زندہ کر د ے۔)
لفظِ سدیٰ کا لغوی معنی کسی چیز کو نظر اندا ز کرنا یا بیکار سمجھنا ہے۔(15) عربوں میں یہ رسم تھی کہ جب کوئی ا ونٹ عمر رسیدہ ہوجاتا جس کا پوتا سواری کا قابل ہوجا تا تھا یا و ہ ا ونٹنی جو 12بچے جنتی ان کو اہل عر ب آزاد چھوڑتے تھے نہ ان کو ذبح کرکے کھاتے تھے، نہ ا ن پر سوا ری کیاکرتے تھے اور نہ ان کا کو ئی ساربان ہوا کرتا تھا بلکہ اس کو ویسے چھوڑتے جہاں چاہے چرے ا ور جہاں چاہے جائے اس ا ونٹ کو وہ سدی کہتے تھے۔ (16)
ا للہ تعالی نے کیا فصیح و بلیغ تعبیر استعمال کیا ہے یعنی کیا انسا ن بھی یہ گمان کرتا ہے کہ اسے بغیر کسی رہنما ا ور بغیر کسی مقصد کے پیدا کیا ہے۔ انسان موت کو دیکھ کر کہتا ہے میرا کو ئی مقصد نہیں ا ور نہ مجھے قبر سے اٹھایا جائے گا زرا اپنے آغاز کو بھی تو دیکھے۔ جو خدا منی کو خون کے لوتڑے اور خون کے لوتڑےسے انسان جیسا مخلوق بنا سکتا ہے اس خدا کیلئے یہ کام بالکل مشکل نہیں کہ مرنے کے بعد انسان کے بوسیدہ ہڈیوں کو یکجا کر کے اٹھائے۔کسی چیز کا ایجاد کرنا مشکل ہے جبکہ ایجاد کرنے کے بعد جب وہ چیز خراب ہوجائے اب دوبارہ اس کا بنانا تو کوئی مشکل نہیں جیسے موبائیل کا ایجاد کرنا مشکل تھا اب جب انسان نے موبائیل بنایا ہے اب اگر یہ خرا ب ہوتا ہے تو اس کا ٹھیک کرنا انسا ن کیلئے بالکل بھی مشکل نہیں۔ لھذا جب اللہ تعالی نے انسا ن کو پیدا کیا ہے اب مرنے کے بعد انسان کا دوبارہ زندہ کر نا یہ خد ا کیلئے کو ئی مشکل کام نہیں ہے۔جب انسان نہیں تھا اللہ تعالی نے انسان بنانے والا مادہ بھی پیدا کیا ا ور اس سے پھر انسان کو بھی خلق کیا حالانکہ انسان کسی بھی چیز کے مادہ(matter) کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے ا ور اب دوبا رہ ا س انسا ن کو اس بوسیدہ مادے سے بنانا اللہ تعالی کیلئے کو ئی مشکل کام نہیں ہے۔ ا ن آیات میں اللہ تعالی نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کیا جس قادر ذات نے اس اندا ز سے انسان کو بنایا ہے اب وہ یہ نہیں کرسکتا کہ اس کو دوبارہ زندگی د ے ا ور اس کے پرا گندہ اجزا ء کو یکجا کر د ے، بالکل ایسا کر سکتا ہے۔
قرآن مجید میں ایک ا ور مقام پر خد ا وند تبارک وتعا لی فرماتا ہے:
اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ /فَتَعٰلَی اللّٰہُ الۡمَلِکُ الۡحَقُّ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡکَرِیۡمِ (17)
(کیا تم یہ گمان کر تے ہو کہ ہم نے تمھیں فضو ل پیدا کیاہے ا ور تم ہماری طرف پلٹ کر نہیں آ وگے۔اللہ تعالی اس سے بلند ہے }کہ تمہیں فضو ل خلق کرے{ وہ خدا کہ جو فرماں روائے حق ہے، اس کے علا وہ کو ئی معبود نہیں ا ور وہی عرش کریم کا پر وردگار ہے۔)
آخر کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی انسان کو ایک فضول ا ور بے مقصد مخلوق پیدا کرے جبکہ ایک عاقل انسان کو ئی بےمقصدکا م نہیں کر تا۔مثلا جتنے ایجادات انسان نے کئے ہیں ا ن میں سے کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جو بے مقصد ہو لھذا کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا بے مقصد چیزیں خلق کرے بالخصوص انسان جیسے مخلوق کو بے مقصد خلق کرے کہ جو احسن المخلوقات بھی ہے اور اشرف المخلوقات بھی ہے۔ جب اللہ تعالی نے چرند پرند کو بغیر مقصد کے خلق نہیں کیا، جب اللہ تعا لی نے شھد کی مکھی جیسی چھوٹی بلکہ اس سے بھی چھوٹے مخلوقا ت کو بغیر مقصد کے پیدا نہیں کیا بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ ا س جہاں کے ِگلِ سرسبد کو بے مقصد پیدا کرے؟
اللہ تعالی نے کائنا ت کو انسا ن کی خاطر خلق فرمایا ا ور ا س کائنات کو انسا ن کیلئے مسخر کیا اب یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان کو بے مقصد خلق کرے انسان کی زندگی کا کو ئی مقصد نہ ہو۔جو افراد یہ نظریہ رکھتے ہیں ا نہوں نے صرف اپنی ذمہ دا ری کو اپنے کھاندوں سے ہٹانے کیلئے اس نظریےکو اختیار کیا ہے۔لیکن انسان کو یہ یادرکھنا چاہئے کہ جب اللہ تعالی نے تجھے اختیار دیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کرنا چاہو کرو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ا ور تجھے بے مقصد خلق کیا گیا ہے بلکہ اختیار دینے کا مطلب یہ ہے کہ تجھ سے اپنے کئے کی پوچھ گج ہوگی۔تو ہی تو ہے کہ جس نے قیامت کے دن اپنے کئے کا حساب دینا ہے۔اللہ تعالی نے اس لئے انسان کو پیدا نہیں کیا کہ اپنی زندگی فضولیات میں صرف کرے بلکہ اسے اس لئے پیدا کیا کہ کمال حاصل کرے،اپنے رب کی عبادت کر ے ا ور اس کی معرفت و قربت حاصل کرے۔ انسان اور باقی مخلوقات میں فرق یہ ہے کہ باقی مخلوقات کو اللہ تعالی نے خلق بھی کیا اور ہدایت بھی دی جبکہ انسان کو خلق کرکے ہدایت کی صلاحیت انسان میں رکھ دی اور انسان کو اسی مقصد کے تحت خلق کیا کہ آپ نے یہ ہدایت خود حاصل کرنی ہے آپ نے ہدایت خود پانا ہے۔ہدایت کے حصول کے لیے اللہ تعالی نے مکمل نظام ہدایت بنایا تاکہ انسان اس نظام کے ذریعے سے ہدایت حاصل کرے اور اپنے مقصد تک پہنچ سکے۔
پس اس بحث کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب اللہ تعالی نے انسان کو اختیار دیا ہے اور انسان نے اپنی مقصد کے حصول کے لئے تگ و دو کرنی ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کے لیے نہ فقط ایسا ہے کہ ہدایت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہدایت تکوینی کے ساتھ ساتھ ہدایت تشریعی بھی ضروری ہے۔
قرآن مجید دستورہدایت
قرآنِ مجید آسمانی کتابوں میں سے خد ا وند تبارک و تعالی کی طرف سے اپنے پیغمبرحضرت محمد مصطفیؐ پر نا زل ہونے والی آخری کتاب ہے۔یہ عظیم کتاب قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے ہدایت کا دستور ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ جو ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک ہے ا ور نہ کو ئی اس کا مثل پیش کر سکتا ہے۔ بلکہ نہ صرف یہ کہ کو ئی اس کا مثل پیش نہیں کرسکتا، اگر جن و انس جمع ہوجائے ا ور ایک دو سرے کے معا ون بنے پھر بھی اس کتاب کے ایک سورے جیسا سورہ پیش نہیں کرسکتے۔ چونکہ یہ کتاب عالمین کے پروردگار کی طرف سے ہے۔اس ذات کی طرف سے ہے کہ جو انس و جن کا خالق ہے بھلا مخلو ق اپنے خالق کا مقابلہ کیسے کرسکتی ہے۔مجھے اس انسان پرتعجب ہوتا ہے کہ جو قرآن مجید جیسے نو رانی نظامِ حیا ت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات و توہما ت کی بنیاد پر اپنے لئے زندگی کا دستور بنالیتا ہے ا ور اپنے اس عمل کو بہت اچھا سمجھتا ہے حا لانکہ وہ اپنی جہالت سے لا علم ہے۔
جس چیز کو انسان ایجاد کرتا ہے تو اس کے لئے مکمل طریقہ کار(Setting) بھی خود انسان ہی بناتا ہے کیونکہ اس چیز میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اپنے لیے کوئی ضابطہ بناسکے۔ وہ چیز خود اپنی حقیقت سے آشنا نہیں ہے کہ اپنے لئے کوئی قانون بناسکے۔اسی طرح انسان بھی اپنی حقیقت سے آشنا نہیں ہے
ا ور نہ ا ن اشیاء کی حقیقت کو کماحقہ جانتا ہے جن سے انسان کا تعلق ہے۔ پس جب انسان خدا کا پیدا کردہ مخلو ق ہے تو حق یہ ہے کہ انسا ن کیلئے دستور زندگی خداوندتبارک و تعالی ہی بنائے،اور اللہ تعالی نے انسان کے لیے جو دستور نازل فرمایا ہے اور جس دستور پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے وہ قرآن مجید ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَان (18)
(رمضان و ہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگو ں کے لیے ہدایت ہے ا ور ایسے د لائل پر مشتمل ہے جو ہدایت ا ور (حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں۔)
ہدایت انسان ا ز نظر قرآن
جیسا کہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ قرآن مجید وہ کتاب ہے کہ جس کا موضوع ہی انسان کی ہدایت و رہنما ئی ا ور تعلیم و تربیت ہے۔اللہ تعالی نے انسان کی تعلیم و تربیت اور ہدایت کا انتظام خود اپنے ذمے لیا ہے،کیونکہ یہ ایک اہم اور عمیق کام ہے ا ور نہ خود انسان ا س کام کو انجام دینے کی طاقت رکھتا ہے، وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے کمالات و نقائص سے آشنا نہیں ہے ، انسان اب تک اپنے حقیقت سے لاعلم ہے ا ور خصوصا ً جن چیزوں سے انسان کا تعلق ہے اس کے با رے میں بھی انسان کا علم سمندر کے مقابلے میں قطرے کی مثل ہے۔لھذ ا ضروری ہے کہ ا للہ تعالی خود انسان کیلئے ہدایت کا انتظام کرے ، انسان کیلئے اس نظا م کی تبلیغ و تبیین کیلئے خود کوئی بندوست کرےاور کمال کی طرف انسا ن کی رہنما ئی کرے۔ اگر یہاں ہم قاعدہ لطف کی طرف اشارہ کریں تو زیادہ مناسب ہے۔علماء کے مابین مشہور قواعد میں سے ایک قاعدہ لطف ہے۔ قاعدہ لطف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی پر ان امور کا انجام دینا لازمی ہے کہ جن کا اہتمام نہ کرنے کی صورت میں انسان اپنی مقصد خلقت تک پہنچنے سے رہ جائے گا۔ (19) لھذا ضروری ہے کہ اللہ تعالی انسان کی ہدایت کے لیے خود انتظام کرے اور ایک نظام بناکے انسان کے حوالے کرے۔
قرآن مجید میں خود اللہ تعالی نے انسان کی ہدایت کیلئے جس نظام کا تعارف فرمایا ہے وہ دو اہم ارکان پر مشتمل ہے،ا ن میں سے ایک دستور ہدایت یعنی کتاب ا ور دوسرا ہادی یعنی رہنما کا ہونا ہے۔ ضروری ہے کہ یہ دونوں چیزیں خود اللہ تعالی کی طرف سے ہو ں،چونکہ جو منشور اللہ تعالی کی طرف سے آیا ہے اس کی تعلیم، تبلیغ و تبیین وہی کرسکتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے منتخب شدہ ہو، بالفاظ دیگر جس کو اللہ تعالی نے خود اس کام کے لیے ٹرین کیا ہے اور اسے مسلسل ٹریننگ دی ہو۔ایک عام انسان اس منشور کے پیچیدگیو ں کو اللہ تعالی کے رہنما ئی کے بغیر نہیں سمجھ سکتا۔ قرآن مجید میں خالق کائنات ا رشاد فرماتا ہے: ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ (20)
(وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے ا ور انہیں پاکیزہ کرتا ہے ا ور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔ )
ایک ا ور مقام پر اللہ تعالی بیان فرماتا ہے: اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ (21)
(آپ تو محض تنبیہ کرنے والے ہیں ا ور ہر قوم کا ایک رہنما ہوا کر تا ہے۔)
اسی طرح ایک ا ور مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے:
شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَان (22)
(رمضان و ہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگو ں کے لیے ہدایت ہے ا ور ایسے د لائل پر مشتمل ہے جو ہدایت ا ور (حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں۔)
پس معلو م ہوا کہ اللہ تعالی کے بنائے گئے نظام ہدا یت کی بنیاد منشور ہدایت یعنی کتا ب ا ور اللہ تعالی کی طرف سے انسان کی رہنمائی کرنے والے ہادی و حجت کے ا وپر ہے ا ور ا ن کے بغیر نظام ہد ایت نامکمل ہے۔اللہ تعالی کی طرف سے انسان کی ہدایت کیلئے ہادی و حجت یا تو رسول و نبی ہوتا ہے ا ور یا اس امت کے رسول کا وصی ہوتا ہے جیسے رسول اللہؐ کے بعد قیامت تک کو ئی نبی و رسول تو نہیں آئے گا لیکن آپؐ کے ا وصیا ء قیامت تک یکے بعد دیگر رہیں گے۔
قرآن مجید کی تعلیم و تعلم
اسلام نے بالعموم تعلیم و تعلم کو بہت اہمیت دی ہے ا ور علم کو بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔قرآن مجید کے آیات ہوں یا رسالت مآبؐ کی احادیث ہوں ا ور یا آئمہ اہل بیتؑ سے مروی روایات ہوں ا ن سب میں بالعموم تعلیم و تعلم کو اہمیت دی گئی ہے،لیکن قرآن مجید کے تعلیم و تعلم کو خصوصیت کے ساتھ اہمیت دی ہے، کیونکہ قرآن مجید ہی وہ کتاب ہے کہ جو قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے ہدایت کا مینار ہے ا ور تعلیمات اسلامی کا منبع و مرکز ہے۔ حضرت ابو عبد اللہ امام صادقؑ  کی فرماتے ہیں: یَنْبَغِی لِلْمُؤْمِنِ أَنْ لَا یَمُوتَ حَتَّی یَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ أَوْ یَکُونَ فِی تَعْلِیمِهِ. (23)
( مومن تب تک نہ مرے جب تک اس نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل نہ کی ہو یا وہ قرآن کی تعلیم حاصل کررہا ہو۔)
یہاں اس حدیث میں قرآن مجید کی تعلیم سے مرا د صرف قرآن مجید کی قرائت سیکھنا یا قرآن مجید کا حفظ کرنا مقصود نہیں ہے ا ور نہ قرآن مجید کی یہ قر ائت مراد ہے جیسا آج کل ہم کررہے ہیں کہ معنی کی سمجھ ہی نہ آتی ہو یہ تو اصلا علم کے زمرے میں ہی نہیں آتی ساتھ یہ کہ اہل عرب کو اس کے سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید انہیں کے زبان میں نازل ہوا ہے جو کوئی بھی پڑھنا جانتا ہے وہ قرآن مجید کی تلاوت آسانی سے کرسکتا ہے۔قرآن مجید کی قرآئت و حفظ کرنے کے ساتھ سا تھ اس عظیم کتاب میں غور و فکر کرنا ا ور اس میں تفقہ کرنے کی ضر ورت ہے ا ور خود آیا ت قرآنی میں بھی اس چیز کی تاکید موجود ہے کہ انسان کو چاہئے کہ تفقہ و تدبر کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرے۔
امالی الشیخ طوسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک حدیث نقل ہےرسالت مآبؐ فرماتے ہیں:
خياركم من تعلم القرآن وعلمه (24)
(تم میں سے بہترین شخص و ہ ہے کہ جو قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرہ ا ور دوسروں کو بھی سیکھائے۔)
یہ حدیث کتب اہل سنت میں بھی موجود ہے۔ بعض اصحاب نے صرف اسی حدیث کی بنا پر اپنے آپ کو قرآن مجید کی تعلیم و تعلم کے لیے وقف کیا اور آپؐ کی رحلت کے بعد اپنی آخر ی عمر تک قرآن مجید لوگوں کو سیکھایا کرتے تھے اور یہی ان کا مشغلہ رہا۔
حضرت ابو عبد اللہ امام صادق ؑ اپنے جد امجد رسول اللہؐ سے اپنے آباء و اجدا د کے سلسلہ سند سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ یَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ صَاحِبَهُ فِی صُورَةِ شَابٍّ جَمِیلٍ شَاحِبِ اللَّوْنِ فَیَقُولُ لَهُ الْقُرْآنُ أَنَا الَّذِی کُنْتُ أَسْهَرْتُ لَیْلَکَ وَ أَظْمَأْتُ هَوَاجِرَکَ وَ أَجْفَفْتُ رِیقَکَ وَ أَسَلْتُ دَمْعَتَکَ أَئُولُ مَعَکَ حَیْثُمَا أُلْتَ وَ کُلُّ تَاجِرٍ مِنْ وَرَاءِ تِجَارَتِهِ وَ أَنَا الْیَوْمَ لَکَ مِنْ وَرَاءِ تِجَارَةِ کُلِّ تَاجِرٍ وَ سَیَأْتِیکَ کَرَامَةٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَأَبْشِرْ فَیُؤْتَی بِتَاجٍ فَیُوضَعُ عَلَی رَأْسِهِ وَ یُعْطَی الْأَمَانَ بِیَمِینِهِ وَ الْخُلْدَ فِی الْجِنَانِ بِیَسَارِهِ وَ یُکْسَی حُلَّتَیْنِ ثُمَّ یُقَالُ لَهُ اقْرَأْ وَ ارْقَهْ حُلَّتَیْنِ إِنْ کَانَا مُؤْمِنَیْنِ ثُمَّ یُقَالُ لَهُمَا هَذَا لِمَا عَلَّمْتُمَاهُ الْقُرْآنَ. (25)
(قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرو، وہ روز قیامت اپنے پڑھنے والے کے پاس ایک نہایت خوبصورت جوا ن کی صورت میں آئے گا ا ور اس سے کہے گا کہ: میں وہی قرآن ہوں جس نے راتوں رات تجھے جگایا تھا ا ور گرم دن کی دوپہر میں تجھے پیاسا رکھا تھا ا ور تیرا اب دہن خشک ہو گیا تھا تیرے آنسو بہہ رہے تھے جہاں تو جائے میں تیرےساتھ جاؤں گا ہر تاجرتجارت میں اپنے نفع میں لگا ہوا ہے ا ور میں ہر تاجر سے زیا دہ تر ےنفع کے خیال میں ہوں۔ اللہ کی رحمت تیرے شا مل حال ہوگی پس تجھے خوش خبری ہو پھر ایک تاج اس کے سر پر لا کر رکھا جائے گا ا ور پروانۂ امان داہنے ہاتھ میں ہوگا ا ور ہمیشہ بہشت میں رہنے کا حکم بائیں ہاتھ میں ہوگا ا ور دو جنت کے خلے پہنے ہوں گے ا ور اس سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھ ا ور ا وپر کے درجہ میں جا۔ جب آیت پڑھے گا تو اس کی روح بلند ہوگی ا ور اس کے والدین بھی دو خلے پہنے ہوں اگر مومن ہوں گے تو ان سے یہ کہا جائے گا یہ نتیجہ ہے اس کا کہ تم نے اپنے بیٹے کو قرآن پڑا یا تھا۔)
ا ن احادیث سے ہمارے لئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام قرآن مجید کی تعلیم و تعلم یعنی قرآن مجید سیکھنے ا ور سیکھانے کو کتنا اہمیت دیتا ہے۔قیامت کے دن قرآن مجید انہیں کی شفاعت کرے گا کہ جو دنیا میں قرآن مجید کے ساتھ اپنا تعلق برقرا ر رکھ چکے ہوں۔لھذا ایسا نہیں ہے کہ قرآن مجید قیامت کے دن ہر کسی کی شفاعت کرے۔جو اس دنیا میں اپنے آپ کو قرآن مجید کے نورانی تعلیمات سے آراستہ نہ کرے قیامت کے دن ہرگز قرآن مجید ان کی شفاعت نہیں کر ے گا بلکہ نہ صرف یہ کہ ان کی شفاعت نہیں کرے گا بلکہ اللہ تعالی کے بارگاہ میں ان کے خلاف مقدمہ دائر کرےگا۔اگر چہ قرآن مجید کی تعلیم و تعلم سے متعلق احاد یث کچھ کم نہیں ہیں لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہاں انہیں پر اکتفا کرتے ہیں۔
قرآن مجید کا اندا ز افہام
قرآن مجید کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ قرآن مجید ایک منفرد اندا زِ افہام ر کھتا ہے۔جب قرآن مجید پوری دنیا کے انسانوں کیلئے سرچشمہ ہدایت ہے تو اس کا تقاضہ یہی ہے کہ قرآن مجید کے مطالب سمجھنے میں آسان ہوں تا کہ کسی کو بھی سمجھنے میں کو ئی دقت پیش نہ آئے۔قرآن مجید کے آسان اندا ز افہام کی دو اہم وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے مطالب سمجھانے کیلئے کو ئی فلسفی اندا ز نہیں اپنایا ہے کہ جس کی وجہ سے عام انسان اس عظیم کتاب سے فائدہ نہ اٹھا سکے، بلکہ قرآن مجید میں اللہ تعا لی نے موضوعات کی عملی صورت بیان فرمائی ہے تاکہ لو گوں کو سمجھنے میں کو ئی دقت پیش نہ آئے۔ اکثر فلسفے یا دیگر علوم میں علمی بحث زیادہ ہوتی ہے جبکہ عملی فائدہ ان ابحاث کا یہ نہ کہ نہیں ہوتا ضرور ہے لیکن علمی بحث کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔ باالفاظِ دیگر ا کثر علوم کا عملی حصہ بہت کم ہوتا ہے جبکہ ان میں موجود علمی اصطلاحا ت و مطالب بہت زیادہ ہوتے ہیں اسی طرح ا ور بہت سارے علمی ابحاث جو اس علم سے متعلق ہوتے ہیں۔جبکہ قرآن مجید میں ایسا نہیں ہے قرآن مجید نے جن موضوعات کو بھی بیان کیا ہے فلسفی اصطلاحات کے بجائے خالص عربی لغت کا سہارا لیتے ہوئے ان موضوعات کی عملی صورت کو واضح اندا ز میں بیا ن فرمایا ہے تاکہ انسان کیلئے ان موضوعات کو عملی جامہ پہنانے میں کو ئی مشکل پیش نہ آئے۔قرآن مجید ا ور معصومینؑ کے کلام میں یہ چیز کثرت سے نظر آتی ہے کہ بہت ہی عمیق ا ور علمی مطالب کو عام الفاظ میں بیان کیا ہے
ا ور اسی اہم خصوصیت کی وجہ سے قرآن مجید کو مبین کہا گیا ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشادفرماتا ہے:
وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ وَّ قُر ۡاٰنٌ مبین (26)
(ا ور ہم نے اس (رسول) کو شعر نہیں سکھایا ا ور نہ ہی یہ اس کے لیے شایان شان ہے، یہ تو بس ایک نصیحت(کی کتاب) اور روشن قرآن ہے۔
نہج البلاغہ میں امام علیؑ سے منقول ہے:
وَ اِنَّ الْقُرْاٰنَ ظَاهِرُهٗ اَنِیْقٌ وَّ بَاطِنُهٗ عَمِیْقٌ، لَا تَفْنٰى عَجَآئِبُهٗ، وَ لَا تَنْقَضِیْ غَرَآئِبُهٗ، وَ لَا تُكْشَفُ الظُّلُمٰتُ اِلَّا بِهٖ. (27)
(اور بیشک اس قرآن کا ظاہر خو بصورت ا ور باطن عمیق ہے، اس کے عجائب فنا ہونے والے نہیں ہیں ا ور تاریکیوں کا خاتمہ اس کے علا وہ کسی ا ور چیز سے نہیں ہوسکتا ہے۔)
قرآن مجید کے آسان اندا ز افہا م کی دوسری وجہ قرآن مجید کا فطرت انسان کے مطابق ہونا ہے۔ اگر قرآن مجید کے مطالب انسانی فطرت و عقل کے مطابق نہ ہو تے توہر نوع کے انسانوں کیلئے قرآن سمجھنا مشکل ہوجاتا۔جب انسان قرآن مجید کا غور سے مطا لعہ کرتا ہے تو انسان کے ذہن میں یہ سوا ل پید ا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید کے اندر کئی جگہوں پر ہمیں تکراری مطالب نظر آتے ہیں کہ ایک ہی مطلب ہمیں مختلف الفاظ کے ساتھ تکراری نظر آتا ہے، ا ور اسی طرح بعض دفعہ یہ سو ا ل پیدا ہوتا ہے کہ جنت و جہنم کی تشویق کے بجائے اگر کچھ علمی و استدلالی مطالب ہوتے تو بہتر تھا لیکن جب انسان تھو ڑا سا غور و فکر کر تا ہے تو یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے کیونکہ تمام انسان ایسے نہیں ہیں کہ جو ایک ہی اندا ز سے سمجھے ا ور ساتھ یہ کہ یہ ایک فطری بات ہے کہ انسانوں کی صلاحیتیں ا ور ان کے حواہشات و جذبات میں بھی فرق ہے۔ ہوسکتا ہے ہم اس فرق کو دقت سے نہ سمجھیں لیکن اللہ تعالی نے خصوصی طور پر اس نکتے کا خیال رکھا ہے ا ور اسی وجہ سے راہ حق کی طرف لا نے کیلئے ہر طرح کی طبع رکھنے والے افراد کیلئے انہیں کے سمجھ کے مطابق ایک ہی مطلب کو کئی طریقوں سے بیا ن فرمایا ہے ا ور ساتھ استدلال کے علاو ہ انسان کی تشویق کیلئے اللہ تعالی نے جنت اور جنت کے نعما ت کا ذکر کیا ہے،اللہ تعالی نے ثواب کا ذکر کیا ہے اگر چہ آج کل ہم نے ا ن چیزوں کو مقصد قرا ر دیا ہے حالانکہ یہ مقصد نہیں بلکہ مقصد کی طرف انسان کو قریب کرنے کیلئے ہیں۔ ا ور اگر اللہ تعالی نے جہنم کا جو ذکر کیا ہے تو وہ بھی ایسے افراد کو ڈرا نے کیلئے کہ جن کی طبیعت پر دلیل سے زیادہ خوف اثر اندا ز ہو تا ہے۔

 

حوالہ جات:

1-ابن منظور،محمد بن مکرم،لسان العرب،ج1،ص128(دار صادر،بیروت،طبع،سوم،1414ھ)
2-القرآن الکریم/سورۃ القیامہ/18-17
3-راغب اصفہانی،ابو القاسم حسین بن محمد،مفردات الفاظ القرآن،ص669(دار القلم،بیروت،1996ء)
4-مناع القطان،مناع بن خلیل،مباحث فی علوم القرآن،ص16(موسسۃ الرسالہ،بیروت،2000ء)
5-القرآن الکریم/سورۃ الفرقان /5
6-القرآن الکریم/سورۃ النحل/24
7- القرآن الکریم/سورۃ الاسراء/9
8-القرآن الکریم/سورۃ الکھف/54
9- القرآن الکریم /سورۃ محمد/24
10-عیاشی،ابو النضرمحمد بن مسعود،تفسیر العیاشی،ج3،ص53(موسسہ البعثہ،قم،1420ھ)
11- ا لقرآن الکریم/سورۃ الاحزاب/72
12-القرآن الکریم/سورۃ النباء/40
13- القرآن الکریم/سورۃ الاسراء/49
14- القرآن الکریم /سورۃ القیامۃ /36-40
15-ابن منظور،محمد بن مکرم بن علی،لسان العرب،ج14،ص377
16-مکارم،ناصر مکارم،شیرازی، الامثل فی التفسیر کتاب اللہ المنزل، ج19، ص231(مدرسہ الامام علی ابن ابی طالبؑ،قم،1421ھ)
17-القرآن الکریم /سورۃ المومنون/115-116
18- القرآن الکریم /سورۃ البقرہ/185
19-مکارم، ناصر مکارم شیرازی،العقائد الاسلامیہ،ص/203(مدرسہ الامام علی بن ابی طالبؑ،قم،1425ھ)
20- القرآن الکریم /سورۃ الجمعہ/2
21- القرآن الکریم /سورۃ الرعد/7
22-القرآن الکریم /سورۃ البقرہ/185
23-کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی، کتاب فضل القرآن،باب من یتعلم القرآن،ج/4 ص/552،رقم الحدیث/3(موسسہ دار الحدیث العلمیہ و الثقافیہ،قم،1430ھ)
24-طوسی،ابو جعفر محمد بن الحسن،امالی الشیخ طوسی،ص/535(موئسسۃ البعثۃ مرکز الطباعۃ و النشر،تہران،1385ھ)
25-کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،کتاب فضل القرآن،باب فضل حامل القرآن،ج4، ص544،رقم الحدیث3
26-القرآن الکریم /سورۃ یٰسین/69
27- شریف الرضی،ابو الحسن سید محمد بن الحسن،نہج البلاغہ ص61(موسسہ دار الھجرۃ،قم،1407ھ)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button