مقالات قرآنی

والدین کے حقوق

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
"وَوَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا ؕ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّ وَضَعَتۡہُ کُرۡہًا ؕ وَ حَمۡلُہٗ وَ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَ اَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚؕ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ” (احقاف:15)
"اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ پر احسان کرنے کا حکم دیا، اس کی ماں نے تکلیف سہ کر اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور تکلیف اٹھا کر اسے جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ رشد کامل کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو کہنے لگا: میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جس سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا اور یہ کہ میں ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور میری اولاد کو میرے لیے صالح بنا دے، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں”۔
تفسیر آیات
۱۔ وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا: سورہ عنکبوت آیت ۸ اور سورہ لقمان آیت ۳۳ میں اس کی تشریح ہو گئی ہے۔
قرآن مجید میں والدین پر احسان کو خود اللہ تعالیٰ کے حق عبودیت اور نفی شرک کے بعد سب سے اہم فریضے کے عنوان سے ذکر فرمایا ہے۔ سورۃ الانعام ۱۵۱ میں فرمایا:
اَلَّا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا۔۔۔۔۔
تم لوگ کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین پر احسان کرو۔
یہاں نفی شرک کا ذکر ہے۔ جو انسان پر عائد ہونے والے حق عبودیت میں سب سے اہم ترین ہے۔ اس کے بعد وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا کا ذکر بتاتا ہے کہ اللہ کی توحید کے بعد والدین پر احسان کا درجہ آتا ہے۔
سورہ بنی اسرائیل آیت۲۳ میں فرمایا:
"وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا”۔۔۔۔
"اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو”۔
اس آیت میں بھی توحید کے بعد والدین پر احسان کا ذکر ہے۔
اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کا تقاضا یہی تھا جسے اللہ نے اپنی اوپر واجب کر دیا ہے:
کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۲)
اس نے رحمت کو اپنے پر لازم کر دیا ہے۔
آنے والی نسل کا تحفظ فطرت میں ودیعت فرمایا چونکہ نومولود بچہ نہایت بے بس ہوتا ہے اور جانے والی نسل کا تحفظ شریعت میں ودیعت فرمایا اور اپنی توحید کے بعد کا درجہ عنایت فرمایا۔
۲۔ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا: والدین کے ذکر کے بعد خصوصی طور پر ماں کے تین احسانات کا ذکر ہے: پیٹ میں اٹھانے کی مشقت برداشت کرنا۔ پھر بڑی مشقتوں کے ساتھ جننا۔ پھر دو سال تک اسے دودھ پلانا۔
حمل کے دنوں میں بچہ ماں کا رحم چیر کر ماں کے جسم سے اتصال قائم کرتا ہے تاکہ ماں کا خون اپنے وجود میں منتقل کرے اور نشوونما حاصل ہو جو ماں کے لیے نہایت مشقت کا عمل ہے مگر یہ ماں ہے اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا محسوس نمونہ جو اپنی جان پر بھی کھیل جاتی ہے اور بچے کو تحفظ اور پیار و محبت فراہم کرتی ہے۔
۳۔ وَّ وَضَعَتۡہُ کُرۡہًا:
اور تکلیف اٹھا کر اسے جنا۔ بچے کی ولادت کے موقع پر ماں کو جو مشقت اٹھانا پڑتی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن یہ ماں ہے جو اس مشقت کو پورے صبر و حوصلہ کے ساتھ قبول کرتی ہے اور جیسے بچہ دنیا میں آ جاتا ہے ماں ان تمام مشقتوں کو بھول کر اپنے لخت جگر کی طرف تمام تر توجہات مبذول کرتی ہے۔ ماں اگرچہ ولادت کی مشقت و آلام سے ابھی دوچار ہے مگر اسے ہرگز اپنی فکر نہیں ہے۔ بچے کی رونے کی آواز سن کر ماں کا پورا وجود مہر و محبت میں بدل جاتا ہے۔ ماں اپنے درد کو ہی نہیں، اپنے وجود تک کو بھول جاتی ہے۔ اپنا وجود اپنے بچے کے وجود میں اتار دیتی ہے اور اپنے وجود سے ہاتھ اٹھا لیتی ہے۔ یہ ہے رحمت الٰہی کا مظہر اور زمین میں اللہ کی مہربانی کی نمائندگی۔
۳۔ وَ حَمۡلُہٗ وَ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا: اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ جاتے ہیں۔یہ تیس ماہ وہ دورانیہ ہے جسے انسان کی زندگی کا بے بس ترین دورانیہ کہ سکتے ہیں۔ دو سال کے بعد بچہ اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کر سکتا، چل پھر سکتا ہے۔
ماں ہی وہ مہربان ذات ہے جس نے صبر آزما مشقتوں کو برداشت، رات کی نیندوں کا سکون برباد کر کے اس بچے کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا۔ پھر بھی ہنوز یہ بچہ مہر مادری کا محتاج ہے۔ یہ وہ مہر و محبت ہے جس پر اس بچے کی شخصیت کا اعتدال موقوف ہے۔ اس مہر مادری سے محروم ہونے کی صورت میں یہ بچہ غیر معتدل، غیر مہذب، درندہ صفت بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اولاد پر ماں کا حق باپ کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی:
"یَا رَسُولَ اللہِ مَنْ اَبَرُّ؟ قَالَ: اُمَّکَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: اُمَّکَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: اُمَّکَ۔ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: اَبَاکَ”
( الکافی ۲: ۱۵۹)
"میں کس پر احسان کروں؟ فرمایاں: اپنی ماں پر۔ کہا: پھر کس پر؟ فرمایا: اپنی ماں پر۔ کہا: پھر کس پر؟ فرمایا: اپنی ماں پر۔ کہا: پھر کس پر؟ فرمایا اپنے باپ پر”
اس آیت سے حمل کی کم از کم مدت کا استنباط ہوتا ہے۔ چونکہ دودھ چھڑانے کی مدت قرآن کی صراحت کے مطابق دو سال ہے۔ تیس ماہ میں سے ۲۴ ماہ منفی کر دیے جائیں تو حمل کی مدت چھ ماہ رہ جاتی ہے۔
تفسیر ابن کثیر اور الاحکام جصاص میں آیا ہے:
ایک شخص نے حضرت عثمان کی عدالت میں بیان دیا میرے ہاں چھ ماہ میں بچہ پیدا ہوا ہے۔ حضرت عثمان نے اس عورت کو سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا۔ حضرت علی علیہ السلام کو علم ہوا تو آپ علیہ السلام نے حضرت عثمان سے فرمایا: یہ کیا کیا؟ کہا چھ ماہ میں بچہ پیدا ہو سکتا؟ فرمایا: کیا آپ قرآن نہیں پڑھتے؟ کہا: پڑھتا ہوں۔ فرمایا: اللہ کایہ فرمان سننے کا اتفاق نہیں ہوا: وَ حَمۡلُہٗ وَ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا اور فرمایا: حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۳۳) دو سال کامل دودھ پلانا ہے تو چھ ماہ حمل کی مدت رہ جاتی ہے۔ حضرت عثمان نے کہا: میں یہ بات نہیں سمجھ سکا۔ حکم دیا اس عورت کو پیش کیا جائے۔ معلوم ہوا وہ سنگسار ہو چکی تھی۔
اس آیت سے رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت کا بھی تعین ہوتا ہے۔ جو دو سال ہے اس مدت کے گزرنے کے بعد اگر کوئی عورت کسی بچے کو دودھ پلائے تو اس پر رضاعت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔
چنانچہ حدیث میں ہے:
"لَا رَضَاعَ بَعْدَ فِطَامٍ”
( الکافی ۵: ۴۴۳)
"فطام دو سال میں دودھ چھڑانے کی مدت گزرنے کے بعد رضاعت غیر موثر ہے”۔
اس سے رضاعۃ الکبیر کی حضرت عائشہ کی روایت جو سنن ابن ماجہ اور مسند امام احمد بن حنبل میں ہے اس آیت کے ساتھ متصادم ہے۔
۴۔حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ:
قرآن اشد کا لفظ بلوغ کے لیے استعمال فرماتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ۔۔۔۔۔۔ (۶ انعام:۱۵۲)
اور یتیم کے مال کے نزدیک نہ جانا مگر ایسے طریقے سے جو (یتیم کے لیے) بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنے رشد کو پہنچ جائے۔
لہٰذا اشد رشد عقلی کو کہتے ہیں۔ بچہ اس حد تک رشید ہو جائے کہ نفع نقصان کو سمجھنے لگ جائے۔ اس طرح اشد رشد عقلی کی ابتدا ہے اور اس کی تکمیل چالیس میں ہوتی ہے۔
۵۔ وَ بَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً: چالیس سال کا ہونے پر اس کی رشد عقلی مکمل ہو جاتی ہے اور اپنے ماضی اور آیندہ سے مربوط حقائق کا ادراک کر سکتا ہے۔ اس کی رشد عقلی کمال کو پہنچ جانے کی وجہ سے قدروں کو سمجھنے لگتا ہے۔
۶۔ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ:
اب وہ اپنی زندگی کے ماضی کی قدروں کو یاد کرنے لگ جاتا ہے اور ان نعمتوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر کی ہیں اور ساتھ والدین کے احسانوں کا خیال آنا شروع ہو جاتا ہے چونکہ اب تو وہ خود بھی صاحب اولاد ہو چکا ہو گا۔
۷۔وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ:
اپنے مستقبل کا خیال آتا ہے، نیک عمل کی توفیق کی خواہش ہوتی ہے اور انسان کی ہوشیاری کی علامت آخرت کی فکر ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے:
"المومن کیس”
( بحار ۶۴: ۳۰۷)
"مومن ہوشیار ہوتا ہے”۔
ایک اور حدیث میں آیا ہے:
"وَاِنَّمَا الْکَیْسُ کَیْسُ الْآخِرَۃِ”
( الکافی ۴: ۵۵۷)
"اور آخرت کے لیے سمجھدار ہونا ہی سمجھداری ہے”۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے:
"اِذَا بَلَغَ الرَّجُلُ اَرْبَعِینَ سَنَۃٍ نَادَی مُنَادٍ مَنَ السَّمَائِ دَنَا الرَّحِیلُ فَاعِدَّ زَاداٍ”
( مستدرک الوسائل ۱۲: ۱۵۶)
"جب انسان چالیس کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو آسمان سے ایک منادی ندا دیتا ہے روانگی نزدیک ہے زاد راہ تیار کر لو”۔
۸۔ وَ اَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ:
اولاد کے صالح ہونے کی دعا اس عقل و شعور کی علامت ہے کہ عاقل انسان اپنی زندگی کے بعد اپنی اولاد کے ذریعے اپنے وجوداور صالح اعمال کا دوام چاہتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے:
"اِذَا مَاتَ ابْنُ آدَمَ انْقَطَعَ عَمَلُہُ اِلَّا عَنْ ثَلَاثٍ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَہُ وَ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ وَ صِدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ”
( الوسائل ۱۲: ۲۳۰)
"جب ابن آدم مر جاتا ہے تو اس کے عمل کاسلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور صدقہ جاریہ”۔
۹۔ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ:
سمجھداری کی ایک علامت یہ بھی آ گئی کہ اپنی کوتاہیوں کی طرف متوجہ ہونا شروع ہو گیا ہے ورنہ جوانی کی رعونت میں انسان کو اپنی غلطیوں کا احساس تک نہیں ہوتا لیکن عقل و شعور کے پختہ ہونے پر وہ غلطیوں سے توبہ و انابت کی طرف آ جاتا ہے۔
۱۰۔ وَ اِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ:
میں تسلیم و رضا کی منزل پر ہوں۔ تیرے ہر حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔
اہم نکات
۱۔ توحید کے بعد والدین پر احسان کا ذکر قابل توجہ ہے۔
۲۔ ماں کا حق باپ سے تین گناہ زیادہ ہے۔
۳۔ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے۔
۴۔ دو سال رضاعت کی مدت ہے۔
۵۔ رشد عقلی کی صورت میں انسان مقام شکر پر فائز ہوتا ہے۔
۶۔ نیک عمل، نیک اولاد کی دعا کرنی چاہیے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 218)
2۔ "وَوَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ ؕ اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ "(لقمان:14)
"اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھایا اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہے (نصیحت یہ کہ)میرا شکر بجا لاؤ اور اپنے والدین کا بھی(شکر ادا کرو آخر میں) بازگشت میری طرف ہے”۔
تفسیر آیات
۱۔ وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ:
یہ آیت کلام لقمان کے درمیان شکر خدا کی مناسبت سے ذکر کی گئی ہے۔ فرمایا: ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی ہے۔ قرآن مجید میں والدین کے بارے میں مکرر تاکید کی گئی ہے جب کہ والدین کو اولاد پر احسان کرنے کی کوئی تاکید نہیں ہے کیونکہ یہ بات والدین کی فطرت میں ودیعت ہے کہ والدین اولاد کو جان سے عزیز رکھتے ہیں جب کہ والدین چونکہ جانے والے نسل ہیں ان پر احسان کے حکم کی ضرورت ہے۔ حکمت الٰہی کا تقاضا تھا کہ اس جانے والی نسل کی ضمانت فطرت میں نہیں رکھی۔ چونکہ ان سے عموماً جدائی برداشت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے اس جدائی کو آسان کر دیا۔ اولاد کی طرح فطرت میں ودیعت نہیں فرمایا بلکہ نصیحت کی اور اس تاکید کے ساتھ نصیحت کی کہ خود اللہ کے بعد سب سے پہلے درجے پر والدین کو رکھا۔
۲۔ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ:
یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ ماں کو زیادہ خصوصیت کے ساتھ اہمیت دینے کے لیے اولاد کو یاد دلاتا ہے کہ ماں نے تمہیں اپنے شکم میں ناتوانی کے ساتھ اٹھائے رکھا۔ پھر دو سال تک تمہیں دودھ پلایا۔ پس والدہ کے اس احسان کو فراموش نہ کرو۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک ماں کا حق باپ کی نسبت زیادہ ہے۔
مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:
"مَنْ اَبَرُّ قَالَ اُمُّکَ۔ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: اُمُّکَ۔ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: اُمُّکَ۔ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: اَبَکَ "
(الکافی ۲: ۱۵۹)
"میں کس پر احسان کروں۔ فرمایا: اپنی ماں پر کہا: پھر کس پر؟ فرمایا: اپنی ماں پر کہا: پھر کس پر؟ فرمایا اپنی ماں پر۔ کہا: پھر کس پر؟ فرمایا: اپنے باپ پر”۔
۳۔ اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ:
وہ نصیحت یہ ہے کہ پہلے میرا شکر کرو۔ اس کے بعد اپنے والدین کا شکر کرو۔ والدین کے حقوق کی اہمیت پر تاکید اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے خود خالق و رازق اللہ تعالیٰ کے بعد والدین کی شکر گزاری کو درجہ دیا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور رازقیت کا فیض والدین کے ذریعہ پہنچا ہے۔ اس طرح یہ دونوں فیض الٰہی کا ذریعہ بنے ہیں۔
۴۔ اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ:
اگر کوتاہی ہوئی تو میری بارگاہ میں حاضر ہو کر جواب دینا ہے۔ اس جملے میں ایک تنبیہ ہے کہ والدین کے حقوق کے بارے میں سوال ہو گا۔
اہم نکات
۱۔ شکر گزاری ایک حکیمانہ کردار ہے۔
۲۔ اللہ کے بعد والدین کی شکر گزاری واجب گرداننا اللہ کی رحمت ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 6 صفحہ 388)
3۔ "وَالَّذِیۡ قَالَ لِوَالِدَیۡہِ اُفٍّ لَّکُمَاۤ اَتَعِدٰنِنِیۡۤ اَنۡ اُخۡرَجَ وَ قَدۡ خَلَتِ الۡقُرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلِیۡ ۚ وَ ہُمَا یَسۡتَغِیۡثٰنِ اللّٰہَ وَیۡلَکَ اٰمِنۡ ٭ۖ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ ۚۖ فَیَقُوۡلُ مَا ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ” (احقاف:17)
"اور جس نے اپنے والدین سے کہا: تم دونوں پر اف ہو! کیا تم دونوں مجھے ڈراتے ہو کہ میں (قبر سے) پھر نکالا جاؤں گا؟ جبکہ مجھ سے پہلے بہت سی نسلیں گزر چکی ہیں (ان میں سے کوئی واپس نہیں آیا) اور وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے ہوئے (اولاد سے) کہتے تھے: تیری تباہی ہو! تو مان جا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، پھر (بھی) وہ کہتا ہے: یہ تو صرف اگلوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں”۔
تفسیر آیات
۱۔ وَالَّذِیۡ قَالَ لِوَالِدَیۡہِ اُفٍّ لَّکُمَاۤ:
اس شخص کا ذکر ہے جو انسانی قدروں کا حامل نہیں ہے۔ اس کا اپنے والدین کے ساتھ کیا رویہ ہوتا ہے؟ وہ والدین جو اسے ابدی ہلاکت سے بچانا چاہتے اور ایمان بہ آخرت کی دعوت دیتے ہیں۔
۲۔ تو یہ قدروں سے محروم شخص اپنے والدین کی اس مہر و محبت پر مبنی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہتا ہے:
اَتَعِدٰنِنِیۡۤ اَنۡ اُخۡرَجَ مجھے اس بات سے ڈراتے ہومیں قبر سے نکالا جاؤں گا، دوبارہ زندہ ہو جاؤں گا۔ کسی حساب کتاب کا سامنا کرنا ہو گا۔ وَ قَدۡ خَلَتِ الۡقُرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلِیۡ: ایک نہیں، کئی نسلیں گزر چکی ہیں۔ آج تک کوئی ایک شخص دوبارہ زندہ ہو اہے نہ آئندہ زندہ ہو گا۔
۳۔ وَہُمَا یَسۡتَغِیۡثٰنِ اللّٰہَ:
مہربان والدین اس سرکش اور گستاخ فرزند کی ہدایت و نجات کے لیے اللہ کی مدد مانگ رہے ہیں اور دعا کر رہے ہیں: اے اللہ اس فرزند کو راہ راست پر لانے میں ہماری مدد فرما مگر بیٹے میں اس بات کی اہلیت نہیں ہے کہ اس کے بارے میں والدین تک کی دعا قبول ہو۔
۴۔ وَیۡلَکَ اٰمِنۡ ٭ۖ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ:
اے بیٹا! ایمان لے آ، اللہ کا وعدۂ قیامت برحق ہے۔ اس دنیا میں کوئی دوبارہ واپس نہیں آئے گا، نہ اللہ نے کوئی ایسا وعدہ کیا ہے۔ وعدہ آخرت کا ہے مگر بیٹا اپنی گمراہی پر اڑا ہوا ہے اور کہتا ہے:
۵۔ فَیَقُوۡلُ مَا ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ:
دوبارہ زندگی کی کہانی داستانہائے پارینہ ہے جو کسی حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔
تفسیر ابن کثیر و دیگر تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں یہ واقعہ مذکور ہے:
جب معاویہ نے اپنے بیٹے (یزید) کے لیے بیعت لینے کا حکمنامہ مروان کو لکھا تو عبد الرحمن بن ابی بکر نے کہا: تم نے خلافت کو ملوکیت بنا دیا کہ اپنے بیٹے کے لیے بیعت لینے لگے۔ مروان نے کہا: لوگو یہ وہی آدمی ہے جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی” وَالَّذِیۡ قَالَ لِوَالِدَیۡہِ اُفٍّ لَّکُمَاۤ”۔۔۔۔ حضرت عائشہ کو یہ خبر ملی تو غصے میں آ کر کہا: یہ آیت عبدالرحمن کے بارے میں نہیں ہے۔ اگر چاہوں تو کہ سکتی ہوں کس کے بارے میں ہے لیکن اے مروان! تو وہی ہے کہ تمہارے باپ پر اللہ کے رسولؐ نے اس وقت لعنت بھیجی جب تو اس کے صلب میں تھا۔
حضرت عائشہ کو یہ گمان تک نہ تھا کہ مستقبل میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہونے والی لعنت کو رحمت سمجھیں گے۔
اہم نکات
۱۔ انسانی قدروں سے محروم شخص راہ راست پر نہیں آتا خواہ اس کی دعوت دینے والے اس کے والدین کیوں نہ ہوں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 223)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button