قرآنیاتمقالات قرآنی

قرآن کریم کی تلاوت کے آداب

سب سے زیادہ پاکیزہ کتاب قرآن کریم، ایک پاکیزہ ترین ذات کی طرف سے، پاکیزہ ترین قلب پر نازل ہوئی۔ اسی وجہ سے صرف وہ لوگ قرآن کریم کے قریب جا سکتے ہیں، جو ظاہری اور باطنی اعتبار سے پاک و پاکیزہ ہوں۔
انہ لقرآن کریم، فی کتاب مکنون، لا یمسہ الا المطھرون (سورہ واقعه آيت 77، 78، 79)
جسم کی طہارت:
قرآن کریم کو مس کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جسم پاک ہو، فقہاء کے مطابق قرآن کریم کے خط کو مس کرنا یعنی بدن کے کسی حصے کو قرآن کے الفاظ تک پہنچانا، بغیر وضو کے حرام ہے۔
وضو ایسی چیز ہے جس کو انجام دینے سے ہمارا ذہن تمام خیالات سے خالی ہو جاتا ہے اور صرف معنوی افکار ہمارے ذہن میں حاوی ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ امام صادقؑ نے وضو کی معنوی کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
جب وضو کرنے کا ارادہ کرو اور پانی کے نزدیک جاؤ تو اس شخص کی طرح ہو جاؤ جو پروردگار عالم کی رحمت کے قریب ہونا چاہتا ہے، اس لیے کہ خداوند نے پانی کو اپنے قریب کرنے اور مناجات کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
زبان اور منہ کی طہارت:
زبان کی پاکیزگی اور طہارت کے بارے میں آئمہ معصومین علیہم السلام سے چند حدیثیں نقل ہوئی ہیں:
امام صادقؑ نے فرمایا: پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا:
قرآن کے راستے کو پاکیزہ رکھیں۔پوچھا: اے رسول خدا قرآن کا راستہ کون سا ہے ؟
فرمایا: آپ کے منہ۔پوچھا: کیسے پاکیزہ رکھیں۔فرمایا: مسواک کے ذریعے۔ (مصباح الشریعه، باب دهم)
امام رضاؑ نے اپنے آباء و اجداد کے ذریعہ رسولؐ خدا سے نقل کیا کہ آپؐ نے فرمایا:
آپ کی زبانیں کلام الہی کا راستہ ہیں انہیں پاکیزہ رکھیں۔ (الحیات، ج 2 ص 161، 162)
وہ زبان جو غیبت، تہمت، جھوٹ جیسے گناہان کبیرہ سے آلودہ ہو ۔ وہ زبان جو حرام کھانوں کا مزہ لیتی رہی ہو۔
وہ زبان جو دوسروں کی دل شکنی کا سبب بنی ہو۔وہ زبان جس کے شر سے دوسرے مسلمان ہمیشہ اذیت میں ہوں۔کیسے پاک کلام الہی اس پر جاری ہو سکتا ہے ؟جی ہاں، اس پاکیزہ کلام کی تلاوت کے لیے زبان کی پاکیزگی ضروری ہے، ورنہ صاف پانی بھی ایک گندی نالی میں گندا ہو جاتا ہے اور استعمال کے قابل نہیں رہتا اور اگر قرآن کریم ناپاک زبان پر جاری ہو گا تو:
رب تال القرآن و القرآن یلعنہ،کتنے ایسے قرآن کی تلاوت کرنے والے ہیں کہ جن پر قرآن لعنت کرتا ہے۔ (الحیات، ج 2 ص 161، 162) کا مصداق بن جائے گا۔
آنکھ کی طہارت:
رسول اسلام سے نقل ہوا ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
اعط العین حقھا۔
آنکھ کا حق ادا کرو۔عرض کیا گیا یا رسول اللہ آنکھ کا حق کیا ہے ؟
فرمایا: النظر الی المصحف، قرآن پر نگاہ کرنا۔
اس لیے کہ قرآن کریم کی دیکھ کر تلاوت کرنا، ثواب رکھتا ہے اور اگر آنکھ آلودہ ہو ناپاک ہو تو قرآن پر نگاہ کرنے کی توفیق حاصل نہیں کرے گی ۔ (مستدرک الوسائل ج 1 ص 291)
روح کی طہارت:
وہ ناپاک روح جو شیطانی وسوسوں میں اسیر ہو، جو اپنی طہارت اور پاکیزگی کو کھو چکی ہو، جو مادیات کے ساتھ اس قدر وابستہ ہو کہ اس سے منہ پھیرنا محال ہو چکا ہو، جو گناہوں کی آلودگی سے کثیف ہو چکی ہو، وہ قرآن پاک کی معنویت اور اس کے نورانی پیغام کو کیسے ادراک کر سکتی ہے ؟
لیکن پاکیزہ روح جس کا مادیات کے ساتھ کوئی سروکار نہ ہو، جس نے خود سازی کے ذریعے اپنی پاکیزگی کو محفوظ رکھا ہو۔
جس نے آثار کبرائی میں تفکر و تدبر کے ذریعے شیطانی وسواس اور شرک آلود افکار سے کنارہ کشی اختیار کی ہو۔
ایسی پاک و پاکیزہ روح تلاوت قرآن کے دوران قرآن کی معنویت اور نورانیت سے لطف اندوز ہوتی ہے اور اس سے معنوی غذا حاصل کرتی ہے۔
باقی اعضائے بدن کی طہارت:
آیت اللہ جوادی آملی کے بقول:کان، آنکھ ہاتھ اور دیگر اعضاء بھی قرآن کریم کے ادراک کے راستے ہیں ۔ (آداب قرآن، مہدى مشایخى، ص 104)
وہ کان جو قرآن کی دلربا آواز کو سنتا ہے اور اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، وہ کان جو قرآن کا مخاطب واقع ہوتا ہے لیکن ایک کان سے سن کر دوسرے سے باہر نکال دیتا ہے، وہ کان جو غیبت، تہمت وغیرہ سن کر لذت کا احساس کرتا ہے، ایسا کان پاکیزہ نہیں ہے۔ قرآن کی تلاوت کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
وہ ہاتھ جو دوسروں کا مال لوٹنے کا عادی رہا ہے، وہ ہاتھ جس سے دوسروں پر ظلم ہوتا رہا ہے، وہ قرآن کریم کو کیسے مس کر سکتا ہے:
لا یمسہ الا المطہرون، (سورہ واقعہ آیت 79)،آداب قرآن، مہدى مشایخى، ص 104)
لہذا ضروری ہے کہ قرآن کریم کی حقیقت اور اس کے ظاہر اور باطن کو ادراک کرنے کے لیے، بدن کے تمام اعضاء پاکیزہ ہوں، تا کہ قرآن کی نورانیت اس پر اثر کر سکے۔
جسم کی ظاہری طہارت تو بہت آسان ہے، ایک نیت اور چند چلو پانی سے بدن کو ظاہری طور پر پاک کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد ظاہر قرآن کو لمس کیا جا سکتا ہے، لیکن باطن قرآن کو سمجھنے کے لیے بدن کی باطنی طہارت شرط ہے اور باطنی طہارت اور پاکیزگی کا حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
تلاوت قرآن کو سننے کے آداب:
سزاوار ہے کہ قرآن کریم کی جب تلاوت ہو رہی ہو تو انسان سکوت اور خاموشی اختیار کرے اور توجہ کے ساتھ اسے سنے۔
اپنے دل سے کلام الہی کا احترام کرے۔
اللہ کے کلام کو سننے کے لیے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرے۔
آیات قرآن پر تدبر اور تفکر کرے۔
آیات قرآن کے معانی کو اپنے وجود کے اندر محسوس کرے۔
اور روح کو اس نورانی کلام سے جلا بخشے۔(امالى صدوق، ص 179الحیات ج 2 ص 171)
حفظ قرآن کے آداب:
1- بچوں کو بچپنے سے حفظ قرآن کی عادت ڈالنی چاہیے۔
2- حفظ کرنے سے پہلے قرآن، اچھے طریقے سے پڑھنا آنا چاہیے۔
3- آیات کو عربی لب و لہجہ میں تلاوت کیا جائے اور حفظ کے ساتھ ساتھ اس مفہوم سے آشنائی بھی حاصل کی جائے۔
4- ترتیل کو سیکھا جائے اور ترتیل کے طریقہ سے قرآن کو حفظ کیا جائے۔
5- حفظ کے دوران ایک جلد اور ایک معین خط سے قرآن یاد کیا جائے۔
6- روزانہ آدھا گھنٹہ مشق کی جائے اور کم کم کر کے اس میں اضافہ کیا جائے۔
7- ایک معین وقت میں مثال کے طور پر ہر روز صبح سات بجے حفظ کیا جائے۔
8- حفظ چھوٹے سوروں سے آغاز کیا جانا چاہیے۔
9- غصہ، بھوک و پیاس کی حالت میں قرآن کو حفظ نہیں کرنا چاہیے۔
10- آیات کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ آیات کے نمبر اور صفحات بھی ذہن میں رکھے جائیں۔
11- حفظ قرآن روزانہ تکرار کا محتاج ہے۔
12- سفر میں زیادہ تکرار کیا جا سکتا ہے۔
13- حفظ کے لیے ترجمہ شدہ قرآن سے استفادہ نہ کریں۔
14- لمبے سوروں کو تھوڑا تھوڑا کر کے حفظ کیا جائے۔
15- دو آدمی مل کر مباحثہ کی صورت میں جلدی اور آسانی سے حفظ کر سکتے ہیں۔
https://www.valiasr-aj.com/urdu/mobile_shownews.php?idnews=1563

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button