قرآنیاتمقالات قرآنی

قرآن کریم کی تلاوت کے آثار

1- قلبی و باطنی نورانیت:
عن رسول اللّٰہ: ان ھذہ القلوب تصدا کالحدید ۔ قیل: یا رسول اللّٰہ فما جلاء ھا ؟قال: تلاوۃ القرآن۔رسول خدا نے فرمایا: ان دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے۔ کہا گیا: یا رسول اللہ ان کو کیسے جِلا دیں ؟ فرمایا: تلاوت قرآن سے۔(الحیاه، ج 2 ص 172)
عن امیر المومنین: انّ اللّٰہ سبحانہ لم یعظ احدا بمثل ھذا القرآن، فانہ حبل اللّٰہ المتین و سببہ الامین و فیہ ربیع القلب و ینابیع العلم و ما للقلب جلاء غیرہ۔ خداوند نے قرآن کریم کی حد تک کسی چیز کو بھی نصیحت کے ذریعہ نہیں دیا۔ اس لیے کہ قرآن، اللہ کی مضبوط رسی اور اطمینان بخش دستاویز ہے، اس میں دلوں کی بہار ہے اور علم کے چشمے ہیں،لہذا قرآن کے علاوہ دلوں کو جِلا دینے والی کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ نھج البلاغہ
2- حافظے کا قوی ہونا:
روایات میں ہے کہ قرآن کو دیکھ کر تلاوت کرنے سے انسان کے حافظے میں اضافہ اور حافظہ قوی ہوتا ہے، خاص طور پر آیت الکرسی کی تلاوت کرنے سے انسان کا حافظہ قوی اور پختہ ہوتا ہے۔
3- اہل خانہ کے درمیان معنویت کا پیدا ہونا:
عن رسول اللّٰہ (ﷺ): ما اجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ یتلون کتاب اللّٰہ و یتدارسونہ بینھم الاّ نزلت علیھم السکینۃ و غشیتھم الرحمہ و حفتھم الملائکۃ۔کوئی گروہ کسی گھر میں تلاوت قرآن کرنے اور ایک دوسرے کو درس قرآن دینےکے لیے جمع نہیں ہو گا، مگر خداوند انہیں اطمینان اور سکون عطا کرے گا اور ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے گا۔
4- سعہ صدر اور وسعت رزق:

قال النبی (ﷺ): نوروا بیوتکم بتلاوۃ القرآن فان لبیت اذا کثر فیہ تلاوۃ القرآن کثر خیرہ و امتع اہلہ۔
اپنے گھروں کو تلاوت قرآن سے منور کرو، اس لیے کہ وہ گھر جن میں تلاوت قرآن کثرت سے ہوتی ہے، خداوند اس گھر پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کی فراوانی کر دیتا ہے۔عن علی (علیہ السلام): افضل الذکر القرآن بہ تشرح الصدور و تستنیر السرائر۔
بہترین ذکر قران ہے، قرآن کے ذریعے اپنے سینوں میں فراخ دلی پیدا کرو اور اپنے باطن کو نورانی کرو۔
5- مشکلات کا مقابلہ کرنے پر قدرت اور اللہ پر بھروسہ:
قرآن مجید کی قرائت کے باطنی آداب سے کیا مراد ہے ؟
چونکہ قرآن مجید، پیغمبر اسلام (ﷺ) کا لا فانی معجزہ اور خداوند کا کلام ہے، اس لیے صدر اسلام سے مسلمانوں کے درمیان خاص احترام و قدر و منزلت کا حامل رہا ہے۔
قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اسلام کی احادیث کی رو سے، مسلمان اس آسمانی کتاب کی قرائت کے سلسلہ میں بھی خاص اور اپنی نوعیت کے شرائط اور آداب کی رعایت کرتے رہے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کے سلسلہ میں اس قسم کے آداب، اس آسمانی کتاب کی تلاوت کے ظاہری آداب شمار ہوتے ہیں، لیکن چونکہ روایات کے مطابق قرآن مجید کا ایک ظاہر اور کئی باطن ہیں، اس لیے اس کی قرائت کے آداب بھی کئی ظاہری اور باطنی آداب پر مشتمل ہیں، یہ ایک ایسا امر ہے جس کے بارے میں قرآن مجید کی بعض آیات اور پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ اطہارؑ کی روایات میں بخوبی اشارہ کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت کے آداب کو ظاہری اور معنوی یا باطنی آداب میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ظاہری آداب کے سلسلہ میں کچھ مقدمات اور شرائط کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
تلاوت قرآن مجید کے باطنی آداب:
خود قرآن مجید کی آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کو یوں تاکید کی ہے کہ قرآن مجید کو ترتیل اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھنا چاہیے، اس بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ
اور قرآن کو ترتیل ( ٹہر ٹہر کر آرام سے اور ترتیب و سنجیدگی ) کے ساتھ پڑھو۔ (سورہ مزمل آیت 4)
ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ: اور جن لوگوں کو ہم نے قرآن دیا ہے وہ اس کی با قاعدہ تلاوت کرتے ہیں اور انہیں اس پر ایمان بھی ہے اور جو اس کا انکار کرے گا، اس کا شمار خسارہ والوں میں ہو گا۔ (سورہ بقره، آیت 121)
یہ دو آیات اور اس بارے میں نقل کی گئی روایات، تلاوت قرآن کے ظاہری آداب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں اور قرآن مجید کی تلاوت کے باطنی آداب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 121 کے ذیل میں نقل کی گئی ایک حدیث میں آیا ہے کہ امام صادقؑ نے فرمایا ہے کہ:جو لوگ قرآن مجید کی تلاوت کے حق کے مطابق تلاوت کرتے ہیں، وہ ہم اہل بیت (علیہم السلام) ہیں۔
(کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج1، ص 215)
حقیقت میں امام صادقؑ نے تلاوت کرنے والوں کا حقیقی مصداق بیان کیا ہے۔ ممکن ہے بہت سے مؤمن قرآن مجید کی تلاوت کے ظاہری اور باطنی آداب کی رعایت کرنے کے نتیجہ میں قرآن مجید کے حقیقی قاریوں کے مقام پر پہنچ جائیں، اس لیے آیہ شریفہ:
كِتابٌ أَنْزَلْناهُ إِلَيْكَ مُبارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آياتِه (سورۀ ص، آیت 29)
کو بیان کرتے ہوئے ہمارے چھٹے امامؑ فرماتے ہیں: اس کا مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات کو دقت کے ساتھ پڑھیں اور اس کے حقائق کو سمجھ لیں اور اس کے احکام پر عمل کریں،
اور اس کے وعدوں کے بارے میں پر امید رہیں اور اس کے انتباہات سے ڈریں، اس کی داستانوں سے عبرت حاصل کریں اور اس کے اوامر کے سامنے تسلیم ہو جائیں اور اس کے نواہی کو قبول کریں، خدا کی قسم آیات کو حفظ کرنے سے مراد سوروں کے حروف کو پڑھنا اور تلاوت کرنا نہیں ہے۔
انھوں نے قرآن مجید کے حروف کو حفظ کیا ہے، لیکن خود قرآن کو ضائع کر دیا ہے، اس کی مراد صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات میں غور و فکر اور اس کے احکام پر عمل کرو، جیسا کہ خداوند ارشاد فرماتا ہے: یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تا کہ یہ لوگ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور صاحبان عقل نصیحت حاصل کریں۔
(مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج‏1، ص 432)
اس نورانی حدیث کے پیش نظر ہم قرآن مجید کے باطنی آداب کے بارے میں مندرجہ ذیل مطالب کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں:
1- جب تلاوت کے دوران کسی وعدے پر پہنچ جائے تو اس تک پہنچنے کی امید رکھنی چاہیے اور اگر کسی انتباہ پر پہنچ جائے تو اس سے دوچار ہونے سے ڈرنا چاہیے، پس اگر بہشت یا جہنم سے متعلق آیات پر پہنچ جائے، تو رک کر خداوند سے بہشت کی درخواست کرنی چاہیے اور جہنم سے پناہ مانگنی چاہیے۔ (مشهدی، محمد،تفسير كنز الدقائق و بحر الغرائب، ج‏2، ص 132)
مولا امام علیؑ مؤمنین کی خصوصیات کے بارے میں فرماتے ہیں:
لیکن وہ رات کے وقت کھڑے ہو کر قرآن مجید کی اس کے خاص آداب کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں، جب کسی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں کہ جس میں ہمت افزائی ہو تو اس سے امید باندھتے ہیں تا کہ اسے حاصل کریں، ان کی حالت اس فرد کی جیسی ہوتی ہے کہ جو کسی عزیز کی آمد کے شوق میں چشم براہ ہوتا ہے، لیکن جب کسی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں کہ جس میں خوف و ترس ہے، تو دل و جان سے اس پر غور کرتے ہیں، ان کے رونگھٹے کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے دل خوف و ہراس سے دو چار ہوتے ہیں اور اس خوف سے ان کے بدن ضعیف ہوتے ہیں، جیسا کہ وہ جہنم کے شعلوں اور آگ کی زنجیروں کی آواز سنتے ہیں، زمین پر گر جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوتے ہیں، خدا سے پناہ چاہتے ہیں تا کہ اس عذاب سے نجات پائیں۔ (نہج البلاغہ، صبحى صالح، ص 304)
2- قرآن مجید کی تلاوت کے دوسرے باطنی آداب میں سے، قرآن مجید کو سمجھنا اور اس کی آیات میں تدبر کرنا اور انہیں جاننا اور احکام الہی پر عمل کرنا ہے۔ امام صادقؑ امیر المؤمنین علیؑ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:آگاہ رہنا کہ جس تلاوت میں تدبر نہ ہو، اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔ (کافی، ج1، ص 36)
3- اس امر پر توجہ کرنا کہ قرآن مجید، انسان کا کلام نہیں ہے اور خالق کی عظمت کو مد نظر رکھنا، کہ کلام کی تعظیم، متکلم کی تعظیم ہے۔
4- قرآن مجید کی تلاوت کے دوسرے باطنی آداب میں سے تحلیہ ہے، یعنی خود کو تلاوت کرنے والی ہر آیت کے متناسب بنانا، اگر انبیاء کی داستان یا کوئی قصہ پڑھتا ہے تو اس سے عبرت حاصل کرے اور اگر الہی اسماء و صفات کو پڑھتا ہے، تو اس کے مصادیق کے بارے میں غور کرے۔کاشفی سبزواری، ملا حسین، (جواهر التفسیر، ص 270)
5- قرآن مجید کی تلاوت کے باطنی آداب میں سے ایک اور چیز تخلیہ ہے، جو لوگ قرآن مجید سے کوئی مطلب سیکھنا چاہتے ہیں، قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے والے کو پہلے سے اپنے ذہن کو شبہات سے خالی کرنا چاہیے تا کہ وہ قرآن کو سمجھنے میں اثر نہ ڈالیں۔ (کاشفی سبزواری، ملا حسین، جواهر التفسیر، ص 270)
6- قرآن مجید کی تلاوت کے باطنی آداب میں اپنے باطن سے نا پسندیدہ صفتوں خاص کر تکبر، ریاکاری اور حسد و طمع کو دور کرنا ہے، کیونکہ اگر انسان ان بری صفتوں والے دل سے قرآن مجید کی تلاوت کرے گا، تو خداوند کے کلام کے معنی و مفہوم اس میں متجلی نہیں ہو سکیں گے۔
7- قرآن مجید کی تلاوت کے بلند ترین آداب میں سے روحی اور معنوی طہارت ہے۔ جب تک انسان پاک نہ ہو جائے، قرآن مجید اپنی حقیقت کو اسے نہیں دکھاتا ہے، کیونکہ خود قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ہے: لا یمسّه الا المطهّرون، (سورہ واقعه، آیت 79)
8- قرآن مجید کی تلاوت کے معنوی آداب میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کا قاری قرآن مجید کو نہ صرف ایک متن کے عنوان سے دیکھے، بلکہ ایک شفاء بخش نسخہ کے عنوان سے دیکھے اور اس سے اسی کی توقع رکھے۔
روایت میں آیا ہے کہ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے قرآن مجید کو اسی نظریہ سے دیکھا ہے اور اس سے اپنی بیماریوں کی دوا حاصل کی ہے۔ خداوند ایسے قاریوں کی وجہ سے، جو دلوں کی شفاء کو قرآن مجید سے حاصل کرتے ہیں، لوگوں کے دشمنوں کو دور کرتا ہے اور ان پر باران رحمت نازل کرتا ہے۔
(اصول کافی، ج2، ص 627)
https://www.valiasr-aj.com/urdu/mobile_shownews.php?idnews=1563

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button