امیرالمومنینقرآنیاتمقالات قرآنیمناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

اعلان ولایت علی علیہ السلام کی نسبت حکم خداوندی

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۶۷﴾

اے رسول ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔

شان نزول

یہ آیہ شریفہ ۱۸ ذی الحجۃ الحرام بروز جمعرات حجۃ الوداع ۱۰ ہجری کو رسول اللہؐ پر اس وقت نازل ہوئی جب آپؐ غدیر خم نامی جگہ پہنچ گئے تھے۔ چنانچہ آپؐ نے آگے نکل جانے والوں کو جو مقام جحفہ کے قریب پہنچ گئے تھے، واپس بلایا اور آنے والوں کا انتظار کیا اور تقریباً ایک لاکھ کے مجمع میں حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کر کے فرمایا:

ان اللّٰہ مولای و انا مولی المؤمنین و انا اولی بہم من انفسہم فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔

اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنوں کا مولا ہوں اور ان کے نفسوں سے اولی ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں۔

پیغمبر اکرمؐ نے اس کو تین بار دہرایا ۔ بقول امام حنابلہ احمد بن حنبل کے چار مرتبہ دہرایا۔ اس کے بعد فرمایا:

اللّٰہم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ و ابغض من ابغضہ و اخذل من اخذلہ و ادر الحق معہ حیث دار الا فیبلغ الشاھد الغائب ۔

اے اللہ! جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ اور جو اس سے محبت کرے تواس سے محبت کر، جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کو ترک کرے تو اس کوترک کر اور حق کو وہاں پھیر دے جہاں علی ہو۔ دیکھو جو یہاں حاضر ہیں ان پر واجب ہے کہ وہ سب تک یہ بات پہنچا دیں۔

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے چالیس طریق سے ، ابن جریر طبری نے ستر سے زائد طریق سے، علامہ جزری المقری نے ۸۰ طریق سے ، علامہ ابن عقدہ نے ۱۰۵ طریق سے ، علامہ ابن سعید سجستانی نے ۱۲۰ طریق سے، علامہ ابو بکر جعابی نے ۱۲۵ طریق سے روایت کیا ہے۔ (تعلیق الہدایۃ العقول ص۳۰) امیر محمد یمنی سے منقول ہے کہ وہ حدیث غدیر کو ۱۵۰ طریق سے روایت کرتے ہیں۔ (الغدیر)

ہمارے معاصر علامہ امینی اپنی شہرہ آفاق کتاب الغدیر جلد اول میں ۱۱۰ اصحاب سے یہ روایت ثابت کرتے ہیں۔ صاحب الغدیر کی تحقیق کے مطابق درج ذیل اصحاب رسولؐ نے روایت کی ہے کہ یہ آیت غدیر خم کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے:

i۔ زید بن ارقم: ان کی روایت کو امام طبری کتاب الولایۃ میں نقل کرتے ہیں۔

ii۔ ابو سعید الخدری: ان سے ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے روایت نقل کی ہے۔ الدرالمنثور ۲: ۵۲۸ طبع بیروت ۱۹۹۰۔ الواحدی اسباب النزول ص ۱۰۵۔

iii۔ عبد اللہ بن مسعود: ان سے ابن مردویہ نے روایت کی ہے۔ الدرالمنثور ۲: ۵۲۸۔ فتح القدیر، الشوکانی ۳: ۵۷۔

iv۔ عبد اللہ بن عباس: حافظ ابو سعید سجستانی کتاب الولایۃ میں، بدخشانی نے مفتاح النجا میں، آلوسی نے تفسیر روح المعانی ۲ : ۳۴۸ میں ان کی روایت نقل کی ہے۔

v۔ جابر بن عبد اللہ انصاری: حافظ حاکم الحسکانی نے شواہد التنزیل میں ان کی روایت نقل کی ہے۔

vi۔ ابو ہریرہ: شیخ الاسلام حموینی نے فرائد السمطین میں ان کی روایت نقل کی ہے۔

vii۔براء بن عازب: السید علی ہمدانی نے المودۃ القربیٰ میں، السید عبد الوہاب البخاری نے اپنی تفسیر میں ان کی روایت بیان کی ہے۔

اسی طرح ایک سو دس اصحاب نے یہ حدیث روایت کی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الغدیر جلد اول۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ: اس لقب کے ساتھ خطاب سے یہ عندیہ ملتاہے کہ آگے آنے والا حکم منصب رسالت سے مربوط اہم معاملہ ہے، جس کا نہ پہنچانا ساری رسالت کے نہ پہنچانے کے مترادف ہے۔

۲۔ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ: یہ سورہ رسول کریمؐ کی حیات طیبہ کے آخری دنوں میں نازل ہوا ہے۔

فتح مکہ، فتح خیبر اور فتح خندق کے بعد تبلیغ رسالت میں کوئی خطرہ باقی نہیں رہ گیا تھا، لہٰذا جس خطرے کا آیت میں ذکرہے، وہ خود رسولؐ کو لاحق کسی خطرے کا ذکر نہیں ہو سکتا نیز شان رسالت اس بات سے بالاتر ہے کہ کسی ذاتی خوف و خطرے کی وجہ سے تبلیغ رسالت میں کوتاہی کرے۔

۳۔ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ: سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک ایسے حکم کی تبلیغ کی بات ہے جس پر پورے اسلامی نظام کا مدار ہے۔

۴۔ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ: سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم پہلے رسولؐ پر نازل ہو چکا تھا۔ شاید رسولؐ اس کی تبلیغ کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں تھے اور ساتھ خود اہل اسلام کی طرف سے الزام تراشی کا خطرہ بھی تھا کہ رسولؐ کنبہ پرستی کرتے ہیں، کیو نکہ اس وقت کے معاشرے میں اگرچہ مخلص مؤمنین کی کمی نہیں تھی، تاہم ان میں منافقین بھی تھے، ضعیف الایمان لوگ بھی تھے اور ایسے لوگ بھی تھے جو بقول قرآن، ان کے دلوں میں مرض ہے اور کچھ لوگ رسول اللہؐ کو دنیاوی بادشاہو ں پر قیاس کرتے تھے اور قانون سازی میں خود رسول اللہؐ کے عمل دخل کو بعید از قیاس نہیں سمجھتے تھے۔

۵۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ: یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر رسولؐ کو اس حکم کی تبلیغ میں خود امت کے افراد سے خطرہ لاحق تھا تو جملہ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اس حکم کا کافروں سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

جواب یہ ہے کہ کفر سے مراد اسی آیت کے مندرجات کا انکار ہے، جیساکہ آیہ حج میں فرمایا:

وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ (۳ آل عمران : ۹۷)

اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے اور جو کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو (اس کا اپنا نقصان ہے) اللہ تو عالمین سے بے نیاز ہے۔

یہاں کفر سے مراد حج کا انکار ہے ۔

اہم نکات

۱۔بعض بنیادی احکام ایسے ہیں جن کی تبلیغ پر پوری رسالت موقوف ہے۔

۲۔ اس حکم کی تبلیغ سے جو خطرہ لاحق تھا، وہ اہل کتاب سے نہیں تھا، کیونکہ اہل کتاب کے بارے میں اس سے پہلے کھلے اور سخت لفظوںمیں اظہار برائت ہو چکا ہے۔

(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 559)

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button