سلائیڈرمحافلمناقب امام مھدی عجمناقب و فضائل

امام مہدیؑ کی ولادت پر کتبِ اہل سنت سے ناقابلِ رد دلائل

زمانہ ماضی سے لے کر آج تک اہل سنت کے بہت سے بزرگان اور علماء نے حضرت مہدی (عج) کی ولادت کا اعتراف کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ وہ حضرت 15 شعبان المعظم سن 255 ہجری شہر سامرا میں دنیا میں آئے تھے۔ ان علماء میں سے بعض کے اسماء کو ہم ذکر کریں گے۔
ایک شیعہ عالم جناب فقیہ ایمان نے کتاب الإصالة المهدوية، لکھی ہے اور اس میں اہل سنت کے 112 علماء کا نام ذکر کیا ہے کہ جہنوں نے امام زمانؑ کی ولادت کا واضح طور پر اعتراف کیا ہے:
شمس الدین الذہبی (متوفی748 ہجری)
اہل سنت کے علم رجال کے مشہور و معروف عالم شمس الدين ذہبی نے اپنی چند کتب میں حضرت مہدیؑ کی ولادت کا اعتراف کیا ہے۔ اس نے کتاب العبر فی اخبار من غبر، میں لکھا ہے کہ:وفيها [سنة 256 ه ] محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي محمد الجواد بن علي الرضا بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق العلوي الحسيني أبو القاسم الذي تلقبه الرافضة الخلف الحجة وتلقبه بالمهدي وبالمنتظر وتلقبه بصاحب الزمان وهو خاتمة الاثني عشر۔
سن 255 ہجری میں محمد بن الحسن العسكری [عليہما السلام] دنیا میں آئے، رافضیوں نے اسکو خلف، حجت، مہدی، منتظر اور صاحب الزمان جیسے القابات دیئے ہیں، وہ بارہ آئمہ میں سے آخری امام ہے۔
الذهبي الشافعي، شمس الدين ابو عبد اللّٰه محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، العبر في خبر من غبر، ج2، ص37، الطبعة: الثاني، 1984.
اور ذہبی نے کتاب تاریخ الاسلام ان حضرت کی وفات کو سن 256 یا 258 ہجری میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
أبو محمد الهاشمي الحسيني أحد أئمة الشيعة الذين تدعي الشيعة عصمتهم . ويقال له الحسن العسكري لكونه سكن سامراء، فإنها يقال لها العسكر . وهو والد منتظر الرافضة…
وأما ابنه محمد بن الحسن الذي يدعوه الرافضة القائم الخلف الحجة، فولد سنة ثمان وخمسين، وقيل: سنة ست وخمسين . عاش بعد أبيه سنتين ثم عدم، ولم يعلم كيف مات . وأمه أم ولد .
ابو محمد ہاشمی حسینی شیعوں کے آئمہ میں سے ایک امام ہے کہ شیعہ اس امام کی عصمت کا دعوی کرتے ہیں اور وہ اس امام کو حسن عسکری کہتے ہیں، اسلیے کہ وہ سامرا میں رہتے تھے اور سامرا کو عسکر کہتے ہیں، وہ (امام عسکری) اس امام کے والد ہیں کہ جسکے آنے کا رافضہ انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔۔
بہرحال اسکا بیٹا محمد بن الحسن ہے کہ رافضی اسے قائم، خلف اور حجت کہتے ہیں، وہ سن 258 ہجری میں دنیا میں آئے تھے، بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ سن 256 ہجری میں دنیا میں آئے تھے اور اپنے والد کے دو سال بعد تک زندہ تھے اور پھر وہ دنیا سے چلے گئے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کیسے فوت ہوئے تھے، اسکی ماں ایک کنیز تھی۔
الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج19، ص113، الطبعة: الأولي، 1407هـ – 1987م.
وہ چیز جو ہمارے لیے مہم ہے، وہ یہ ہے کہ بس یہ ثابت ہو کہ حضرت مہدیؑ دنیا میں آئے تھے، اور رہی یہ بات کہ وہ دنیا سے گئے ہیں یا نہیں؟ اس بارے میں بعد میں تفصیل سے تحقیقی مطالب پیش کیے جائیں گے۔
اور ذہبی نے کتاب سیر أعلام النبلاء میں کہا ہے کہ:
المنتظر الشريف أبو القاسم محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي ابن محمد الجواد بن علي الرضي بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن زين العابدين بن علي بن الحسين الشهيد بن الامام علي بن أبي طالب العلوي الحسيني خاتمة الاثني عشر سيدا الذين تدعي الامامية عصمتهم… .
منتظر شریف، ابو القاسم محمد بن الحسن العسکری …. وہ بارہ آئمہ میں سے آخری امام ہے کہ شیعہ اس امام کی عصمت کا دعوی کرتے ہیں۔
الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج13، ص119، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
فخر الدین الرازی (متوفی604 ہجری)
اہل سنت کے معروف مفسر قرآن فخر الدين رازی نے امام عسکری علیہ السلام اور انکی اولاد کے بارے میں لکھا ہے کہ:
أما الحسن العسكري الإمام (ع) فله إبنان وبنتان، أما الإبنان فأحدهما صاحب الزمان عجل اللّٰه فرجه الشريف، والثاني موسي درج في حياة أبيه وأم البنتان ففاطمة درجت في حياة أبيها، وأم موسي درجت أيضاً.
امام حسن عسکری علیہ السلام کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، ان حضرت کے بیٹوں میں سے ایک صاحب الزمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشريف ہیں اور دوسرا بیٹا موسی ہے کہ جو امام عسکری کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ اسی طرح ان امام کی بیٹیاں اور موسی کی والدہ، امام عسکری کی زندگی میں ہی دنیا سے چلے گئے تھے۔الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفي604هـ)، الشجرة المباركة في أنساب الطالبية، ص78 ـ 79
ابن حجر ہیثمی (متوفی973 ہجری)
ابن حجر ہیثمی نے اپنی کتاب الصواعق المحرقہ میں کہ جسکو اس نے شیعوں کے خلاف لکھا ہے، اس نے اعتراف کیا ہے کہ امام عسکری کا ایک بیٹا تھا کہ جسکا نام ابو القاسم الحجۃ تھا:
ولم يخلف غير ولده أبي القاسم محمد الحجة، وعمره عند وفاة أبيه خمس سنين، لكن أتاه اللّٰه فيها الحكمة، ويسمي القائم المنتظر۔
امام عسکری علیہ السلام کا ابو القاسم م ح م د حجت کے علاوہ کوئی بیٹا نہیں تھا، ان حضرت کی وفات کے وقت اس بیٹے کی عمر پانچ سال تھی، لیکن اسکے باوجود بھی خداوند نے اسکو حکمت سیکھائی تھی اور اسکا نام قائم منتظر رکھا گیا تھا۔
الهيثمي، ابو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفي973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج2، ص601، الطبعة: الأولي، 1417هـ – 1997م.
ابن اثیر الجزری (متوفی630 ہجری)
وفيها توفي الحسن بن علي بن محمد بن علي بن موسي بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب (ع)، وهو أبو محمد العلوي العسكري، وهو أحد الأئمة الإثني عشر علي مذهب الإمامية، وهو والد محمد الذي يعتقدونه المنتظر بسرداب سامرا، وكان مولده سنة إثنتين وثلاثين ومائتين.
سن 260 ہجری میں حسن بن علی … عليہم السلام دنیا سے چلے گئے، وہ ابو محمد علوی عسكری اور شیعہ عقیدے کے مطابق بارہ آئمہ میں سے ایک امام کے والد ہیں، محمد کے والد ہیں کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ منتظر اور سامرا کے سرداب میں ہے۔ امام عسکری سن 232 ہجری میں دنیا میں آئے تھے۔
ابن أثير الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفي630هـ) الكامل في التاريخ، ج6 ص249 ـ 250، الطبعة الثانية، 1415هـ.
البتہ امام زمان (عج) کی سامرا میں غیبت اور سرداب میں غائب ہونے کے بارے میں انشاء اللہ تفصیل سے ثابت کیا جائے گا کہ یہ بات بنی امیہ اور ابن تیمیہ کی اولاد کی طرف سے شیعوں پر ایک ناجائز تہمت ہے، کیونکہ شیعوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ حضرت مہدی (عج)سامرا کے سرداب میں غائب ہوئے ہیں۔
شمس الدین ابن خلکان (متوفی681 ہجری)
ابن خلکان نے اگرچہ ولادت حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو واضح ذکر کیا ہے، لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ اس نے بھی اہل سنت کے بعض علماء کی طرح آنکھیں بند کر کے بغیر تحقیق کے شیعوں پر تہمت لگاتے ہوئے کہا ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام زمان سرداب میں غائب ہوئے ہیں اور وہ سرداب سے ہی اپنے امام کے ظاہر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں:أبو القاسم محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي بن محمد الجواد المذكور قبله ثاني عشر الأئمة الاثني عشر علي اعتقاد الامامية المعروف بالحجة وهو الذي تزعم الشيعة أنه المنتظر والقائم والمهدي وهو صاحب السرداب عندهم وأقاويلهم فيه كثيرة وهم ينتظرون ظهوره في آخر الزمان من السرداب بسر من رأي۔ كانت ولادته يوم الجمعة منتصف شعبان سنة خمس وخمسين ومائتين ولما توفي أبوه وقد سبق ذكره كان عمره خمس سنين واسم امه خمط وقيل نرجس والشيعة يقولون إنه دخل السرداب في دار أبيه وامه تنظر إليه فلم يعد يخرج إليها وذلك في سنة خمس وستين ومائتين وعمره يومئذ تسع سنين.
ابو القاسم محمد بن الحسن العسکری … کہ جو شیعہ اعتقاد کے مطابق بارویں امام ہیں کہ جو حجت کے نام سے مشہور ہیں اور شیعہ گمان کرتے ہیں کہ وہ منتظر، قائم، مہدی اور صاحب سرداب ہے۔ شیعوں نے اپنے اس امام کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ انکا امام آخر الزمان میں سرداب سے ظہور کرے گا۔
انکی ولادت 15 شعبان بروز جمعہ سن 255 ہجری کو واقع ہوئی۔ جب ان کے والد دنیا سے گئے تو وہ پانچ سال کے تھے۔ انکی والدہ کا نام خمط تھا، بعض نے کہا ہے کہ نرجس تھا۔ شیعوں کا اعتقاد ہے کہ وہ اپنے والد کے سرداب میں داخل ہوئے ہیں اور اس حالت میں کہ انکی والدہ ان کی طرف دیکھ رہی تھی، وہ غائب ہو گئے ہیں اور ابھی تک سرداب سے نہیں نکلے۔ یہ واقعہ سن 265 ہجری میں رونما ہوا تھا اور اس وقت انکی عمر 9 سال تھی۔
إبن خلكان، ابوالعباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفي681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج4، ص176، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة – لبنان.
صلاح الدین الصفدی (متوفی764 ہجری)
اہل سنت کے ایک نامور عالم صلاح الدین صفدی نے حضرت مہدی عليہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ:
الحجة المنتظر محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي ابن محمد الجواد بن علي الرضا بن موسي الكاظم بن محمد الباقر بن زين العابدين علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنهم الحجة المنتظر ثاني شعر الأئمة الأثني عشر هو الذي تزعم الشيعة انه المنتظر القائم المهدي وهو صاحب السرداب عندهم وأقاويلهم فيه كثيرة ينتظرون ظهوره آخر الزمان من السرداب بسر من رأي ولهم إلي حين تعليق هذا التاريخ أربع مائة وسبعة وسبعين سنة ينتظرونه ولم يخرج ولد نصف شعبان سنة خمس وخمسين.
حجت منتظر محمد بن الحسن العسکری …. کہ جو شیعہ اعتقاد کے مطابق بارویں امام ہیں اور شیعہ گمان کرتے ہیں کہ وہ منتظر، قائم، مہدی اور صاحب سرداب ہے۔۔۔۔۔شیعوں کو اس تاریخ تک 477 سال گزر گئے ہیں کہ وہ انکا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ ان حضرت کی ولادت 15 شعبان بروز جمعہ سن 255 ہجری کو واقع ہوئی۔
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج2، ص249، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفي، ناشر: دار إحياء التراث – بيروت – 1420هـ- 2000م.
سبط ابن الجوزی (متوفی654 ہجری)
سبط ابن جوزی کہ جو ابو الفرج ابن الجوزی کا نواسہ ہے، پہلے وہ حنبلی تھا اور پھر اس نے مذہب حنفی اختیار کر لیا۔ اس نے شیعوں کے بارویں امام کے بارے میں کہا ہے کہ:
محمد بن الحسن بن علي بن محمد بن علي بن موسي بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب، وكنيته أبو عبد اللّٰه وأبو القاسم وهو الخلف الحجة صاحب الزمان القائم والمنتظر والتالي وهو آخر الأئمة، وقال: ويقال له ذو الإسمين محمد وأبو القاسم قالوا: أمه أم ولد يقال لها: صقيل.
محمد بن الحسن بن علی … کہ ان کی کنیت ابو عبد اللہ اور ابو القاسم ہے، وہ جانشين و حجت، صاحب الزمان، قائم، منتظر اور آخری امام ہیں۔ کہا گیا ہے کہ ان حضرت کے دو نام ہیں: 1- محمد، 2- ابو القاسم۔ کہا گیا ہے کہ ان کی والدہ ایک کنیز تھی کہ جنکا نام صیقل تھا۔
سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبو المظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي (متوفي654هـ)، تذكرة الخواص، ص204، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.
خیر الدین زرکلی (متوفی1410 ہجری)
معروف وہابی خیر الدین زرکلی نے حضرت حجت عجل اللہ تعالی فرجہ الشريف کے بارے میں لکھا ہے کہ:
محمد بن الحسن العسكري الخالص بن علي الهادي أبو القاسم، آخر الأئمة الإثني عشر عند الإمامية، وهو المعروف عندهم بالمهدي، وصاحب الزمان، والمنتظر، والحجة وصاحب السرداب، ولد في سامراء، ومات أبوه وله من العمر نحو خمس سنين، ولما بلغ التاسعة أو العاشرة أو التاسعة عشر دخل سرداباً في دار أبيه ولم يخرج منه .
محمد بن الحسن العسکری … کہ جو شیعہ اعتقاد کے مطابق بارہ آئمہ میں سے آخری امام ہیں اور شیعوں کے نزدیک وہ مہدی، صاحب الزمان، منتظر، حجت اور صاحب سرداب مشہور ہیں۔ وہ شہر سامرا میں دنیا میں آئے اور جب ان کے والد دنیا سے گئے تو وہ پانچ سال کے تھے، وہ 9 سال یا 10 سال، یا 19 سال کی عمر میں اپنے والد کے گھر موجود سرداب میں داخل ہوئے اور پھر دوبارہ وہاں سے باہر نہیں نکلے۔
پھر وہ (خیر الدین زرکلی) ابن خلکان کے کلام کو سامرا کے سرداب میں غائب ہونے اور وہاں سے باہر نکلنے کو نقل کرتے اور ردّ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
قال إبن خلكان: والشيعة ينتظرون خروجه في آخر الزمإن من السرداب بسر من رأي. إن الشيعة لا تنتظر خروج الإمام المصلح من السرداب في سامراء وإنما تنتظر خروجه من بيت اللّٰه الحرام، وقد أشرنا إلي ذلك ودللنا عليه في كثير من بحوث هذا الكتاب.
ابن خلکان نے کہا ہے کہ: شیعہ ان حضرت کے آخر الزمان میں سامرا میں موجود سرداب سے خارج ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، حالانکہ شیعہ اس امام مصلح کا سامرا میں واقع سرداب سے ظاہر ہونے کے منتظر نہیں ہیں، بلکہ وہ اس امام کے بیت اللہ الحرام سے ظاہر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں کہ ہم نے اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کتاب کے بہت سے مطالب بھی اسی بات پر استدلال کر رہے ہیں۔
خير الدين الزركلي (متوفي1410هـ)، الأعلام قاموس تراجم لأشهر الرجال والنساء من العرب والمستعربين والمستشرقين، ج6، ص80، ناشر: دار العلم للملايين ـ بيروت، الطبعة: الخامسة، 1980م
ابن صباغ المالکی (متوفی855 ہجری)
ولد أبو القاسم محمد الحجہ بن الحسن الخالص بسر من رأي ليلة النصف من شعبان سنة 255 للهجره، وأما نسبه أباً وأماً فهو أبو القاسم محمد الحجه بن الحسن الخالص بن علي الهادي بن محمد الجواد بن علي الرضا بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبي طالب (ع)، وأما أمه فأم ولد يقال لها: نرجس خير أمة، وقيل: إسمها غير ذلك، وأما كنيته فأبو القاسم، وأما لقبه فالحجه والمهدي والخلف الصالح والقائم المنتظر وصاحب الزمان وأشهرها المهدي.
ابو القاسم محمد الحجہ بن الحسن، جو 15 شعبان 255 ہجری میں شہر سامرا میں دنيا میں آئے۔ اسکے والد امام حسن عسکری فرزند علی الہادی ہے اور اسکی والدہ ایک بہت اچھی کنیز تھی کہ جسکا نام نرجس تھا۔ ان حضرت کی کنیت ابو القاسم اور القاب حجت، مہدی، خلف، صالح، قائم، منتظر اور صاحب الزمان تھے، لیکن ان حضرت کا مشہور ترین لقب مہدی ہے۔
ابن صباغ المالكي المكي، علي بن محمد بن أحمد (متوفي855هـ) الفصول المهمة في معرفة الأئمة، ج2، ص682، تحقيق: سامي الغريري، ناشر: دار الحديث ـ قم، 1380ش.
البتہ اہل سنت کے بزرگان جیسے قندوزی حنفی، عبد الحليم جندی، سيد ابو الحسن يمانی، شمس الدین ابن طولون، کمال الدین الشامی، علامہ مولوہ ہندی، علامہ عثمان العثمانی، علامہ حمداوی و … نے بھی ولادت حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو نقل کیا ہے، لیکن کسی نے بھی بیان اور قبول نہیں کیا کہ یہ وہی مہدی ہے کہ جسکے بارے میں رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ: وہ ظاہر ہو کر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ بہرحال اہل سنت کے علماء کے ان اقوال کو نقل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ابن تیمیہ ناصبی اور اسکے پیروکاروں کو منہ توڑ جواب دیا جائے کہ جو دعوی کرتے تھے کہ امام عسکری (ع) جب شہید ہوئے تو انکی کوئی اولاد اور کوئی جانشین نہیں تھا۔
نتیجہ:
اولا:
ابن تیمیہ وہابی و ناصبی نے جو دعوی طبری اور عبد الباقی ابن قانع سے نقل کیا ہے کہ امام عسکریؑ بغیر اولاد اور جانشین کے دنیا سے گئے ہیں، یہ دعوی سراسر جھوٹ ہے، کیونکہ ان دونوں علماء کی کتابوں میں ایسا دعوی بالکل موجود و مذکور نہیں ہے۔ پس معلوم و واضح ہوا کہ ابن تیمیہ جھوٹا اور دشمن اہل بیتؑ ہے۔
ثانیا:
اگر فرض بھی کریں کہ طبری اور عبد الباقی نے ایسا دعوی بھی کیا ہو تو، یہ بات ان کی جہالت اور تعصب کو ثابت کرتی ہے، اس لیے کہ اہل سنت کے بہت سے معتبر علمائے تاریخ نے ولادت حضرت حضرت حجت علیہ السلام کو اپنی اپنی کتب میں ذکر کیا ہے، حتی واضح طور ولادت کے دن، مہینے اور سال تک کو ذکر کیا ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو طبری اور عبد الباقی کے دعوے کی کیا علمی اہمیت رہ جاتی ہے کہ اسکی طرف توجہ کی جائے؟
ثالثا:
در حقیقت ابن تیمیہ سے لے کر آج دور حاضر تک کے تمام وہابیوں اور ناصبیوں کا مختلف بہانوں سے امام حسن عسکریؑ کے جانشین کے انکار کرنے سے اصل ہدف اور مقصد، امام زمان (عج) کے مبارک وجود کا انکار کرنا ہے۔ لیکن باطل پھونکوں سے حق کے اس روشن چراغ کو بجھایا نہیں جا سکتا۔
يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُـوْرَ اللّٰہ بِاَفْوَاهِهِـمْۖ وَاللّـٰهُ مُتِمُّ نُـوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْنَ،
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں (پھونکوں) سے بجھا دیں، اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا، اگرچہ کافر برا ہی کیوں نہ مانیں۔
سور صف آیت 8
https://www.alwahabiyah.com/ur/Articleview/2034

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button