سلائیڈرمحافلمناقب امام حسن مجتبی عمناقب و فضائل

خوشبوئے حیات حضرت امام حسن علیہ السلام

مؤلف: باقر شریف قرشی
آپ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند اور اُن کے پھول ہیں،آپ حلم ،صبر،جود اور سخاوت میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھے ،نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے خالص محبت کرتے تھے ،آپ کی محبت مسلمانوں کے درمیان مشہور تھی ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے اپنے نزدیک امام حسن علیہ السلام علیہ السلام کی عظیم شان و منزلت کے سلسلہ میں متعدد احادیث بیان فرما ئی ہیں جن میں سے کچھ احا دیث یوں ہیں :
١۔عائشہ سے روایت ہے :آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن علیہ السلام کو آغوش میں لیا اور ان کو اپنے سینہ سے چمٹاتے ہوئے فرمایا:خدایا !یہ میرا فرزند ہے ،میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جو اس سے محبت کرے اس سے محبت کرتا ہوں ”۔
(کنزالعمال، جلد ٧،صفحہ ١٠٤۔مجمع الزوائد، جلد ٩،صفحہ ١٧٦)
٢۔براء بن عازب سے مروی ہے :میں نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنے کندھوں پر امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام علیہ السلام کو سوار کئے ہوئے فرما رہے ہیں :خدایا میں ان سے محبت کرتا ہوں اور تو بھی ان سے محبت کر ”۔
(صحیح بخاری باب ،مناقب حسن اور حسین جلد ٣،صفحہ ١٣٧٠،طبع دار ابن کثیر ، دمشق۔صحیح الترمذی ،جلد ٢،صفحہ ٢٠٧۔البدایہ والنھایہ ،جلد ٨،صفحہ ٣٤)
٣۔ابن عباس سے روایت ہے :سرور کائنات امام حسن علیہ السلام کو اپنے کندھے پر سوار کئے ہوئے کہیں لے جا رہے تھے ،ایک شخص نے کہا :اے صاحبزادے !تمہاری سواری کتنی اچھی ہے ؟رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا:”سوار کتنا اچھا ہے” ۔
(صواعق محرقہ، صفحہ ٨٢،حلیۃالاولیاء ،جلد ٢،صفحہ ٣٥)
٤۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے :
”جو جوانان جنت کے سرداروں کو دیکھنا چا ہتا ہے وہ امام حسن علیہ السلام پر نظر کرے ”۔
(الاستیعاب، جلد ٢،صفحہ ٣٦٩)
٥۔رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :”حسن دنیا میں میرے پھول ہیں” ۔
(البدایہ والنہایہ ،جلد ٨،صفحہ ٣٥۔فضائل اصحاب ،صفحہ ١٦٥)
٦۔انس بن مالک سے مروی ہے :”امام حسن علیہ السلام نبی کی خدمت میں آئے میں نے ان کو رسول سے دور رکھنے کی کو شش کی تو رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اے انس وائے ہو تم پر ،میرے فرزند ارجمند اور میرے جگر کو چھوڑ دو،بیشک جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی ”۔
(کنز العمال، جلد ٦،صفحہ ٢٢٢)
٧۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عشاء میں مشغول تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سجدہ کو بہت طول دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا تو لوگوں نے آپ اس سلسلہ میں سوال کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”یہ (حسن ) میرا فرزند ہے جو میری پشت پر سوار ہوگیا تھا اور میں نے اس کو اپنی پشت سے جلدی اتارنے میں کراہت محسوس کی” ۔
(البدایہ والنہایہ ، جلد ٨،صفحہ ٣٣)
٨۔عبداللہ بن عبد الرحمن بن زبیر سے روایت ہے :امام حسن علیہ السلام نبی کے اہل میں سب سے زیادہ زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ تھے ،اور وہ امام حسن علیہ السلام سے سب سے زیادہ محبت کر تے تھے ،راوی کابیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں تھے تو امام حسن علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن یا آپ کی پشت پر سوار ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن علیہ السلام کواس وقت تک اپنی پشت سے نہیں اُتارا جب تک کہ آپ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی پشت سے نہیں اُتر گئے ،اور میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع کرتے تھے تو اپنے دونوں پائے مبارک کو اتنا کشادہ کرتے تھے جس سے امام حسن علیہ السلام ایک طرف سے دوسری طرف نکل سکیں ۔
(الاصابہ ،جلد ٢،صفحہ ١٢)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزندارجمند ،ریحان اور میوہ دل کی فضیلت کے بارے میں ان احا دیث کے مانندمتعدد احا دیث رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی گئی ہیں ۔راویوں نے کچھ دو سری احا دیث نقل کی ہیں جن میں امام حسن علیہ السلام اور ان کے برادر سید الشہداء امام حسین علیہ السلام علیہ السلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور دوسری کچھ روایات میں اہل بیت کی فضیلت بیان کی گئی ہے امام حسن علیہ السلام اہل بیت کی ایک شمع ہیں ،اور ہم نے متعدد احا دیث اپنی کتاب( حیاۃالامام الحسن ) کے پہلے حصہ میں بیان کر دی ہیں ۔
آپؑ کی پرورش
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فرزند ارحمند سے دو ستی کی رعایت کرتے ہوئے ان کو بلند اخلاق کا درس دیا ، اپنے تمام علوم ان تک پہنچا ئے ،آپ کی تربیت آپ کے والد بزرگوار امیر المو منین نے کی جو دنیائے اسلام کے سب سے بلند و افضل معلم ہیں جنھوں نے آپ کی ذات اور نفس کو کریم اور عظیم مثال سے آراستہ کیا یہاں تک کہ آپ ان کی سچی تصویر بن گئے ،اسی طرح آپ کی والدہ گرا می سید ة نساہ العالمین ،زہرا ء سلام اللہ علیھا، ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خالص ایمان ، اللہ سے عمیق محبت اور اس سے مضبوطی سے لو لگانے سے آپ کی تربیت فرما ئی ۔
امام حسن علیہ السلام نے بیت نبوت ،وحی نازل ہونے کی جگہ اور مرکز امامت میں پرورش پا ئی آپ اپنے حسن سلوک اور عظیم شخصیت میں اسلامی تربیت کے لئے بہترین مثال بن گئے ۔
بہترین فضائل و کمالات
امام حسن علیہ السلام بلند ترین صفات و کمالات کا مجسمہ تھے ، آپ اپنے جدامجد اور والد بزرگوار کے صفات وکمالات کے مکمل آئینہ دار تھے جنھوں نے زمین پر فضائل و کمالات کے چشمے جا ری کئے ۔
امام حسن علیہ السلام علیہ السلام فضائل و مناقب ، اصل رائے ،بلند افکار ،ورع و پرہیزگاری ،وسیع حلم ، اخلاق حسنہ میں بلندی ٔ کمالات پر فائز ہوئے یہ سب آپ کے اخلاق کے کچھ جواہر پارے ہیں ۔
امامت
آپ کے عظیم صفات میں سے امامت ہے اور امامت و بلندی کمالات اس کے شامل حال ہوتی ہے جس کو خداوند عالم اپنے بندوں میں سے منتخب کرتا ہے ،یہ امامت کا درجہ بھی خدا ہی نے آپ کو عطا کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن علیہ السلام اور ان کے بردار محترم کے سلسلہ میں یہ اعلان فرمایا :”حسن اور حسین دونوں امام ہیں چا ہے وہ دونوں قیام کریں یا بیٹھ جائیں”۔
ہم اس وقت اختصار کے طور پر امامت کے معنی اوراس کے متعلق کچھ مطالب بیان کرنے کیلئے مجبور ہیں جن سے امام کا مقام اور عظیم شان کاپتہ چلتا ہے، قارئین کرام ملا حظہ فرما ئیں :
١۔امامت کا مطلب
علماء کلام نے امامت کی تعریف میں یوں کہا ہے :ایک انسانی شخصیت کا دین اور دنیا کے امور میں عام طور پر رئیس و حکمراں ہونا ۔ پس اس تعریف کی بنا پر امام وہ عام زعیم و رئیس ہے جس کا لوگوں کے تمام دینی اور دنیوی امور پر سلطۂ قدرت ہو۔
٢۔امامت کی ضرورت
امامت زندگی کی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت ہے جس سے انسان کا کسی حال میں بھی بے نیاز رہنے کا امکان نہیں ہے، اسی میں دنیا اور دین کے نظام کا قیام ہوتا ہے اسی سے عدالت کبریٰ محقق ہو تی ہے، جس کو اللہ نے زمین پر نافذ کیا ہے ،لوگوں کے درمیان عام طور پر امن و سلامتی محقق ہوتی ہے ان سے ہرج و مرج دور ہوتا ہے ،اور طاقت ورکو کمزوروں پر زورگو ئی سے روکتا ہے۔
امام کی سب سے زیادہ اہم ضرورت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دے ،اس کے احکام اور تعلیمات کو نشر کرے ،معاشرہ کو روح ایمان اور تقویٰ کی غذا کھلائے تاکہ اس کے ذریعہ وہ انسانوں سے شر دورکرے اور اچھائیوں کی طرف متوجہ ہو اور تمام امت پر اس کی اطاعت کرنا ، اس کے امور کو قائم کرنے کے لئے اس کے اوامر کو بجالانا،اس کے ذریعہ کجی کو درست کرنا ، پراکندگی کو اکٹھا کرنا اور راہ مستقیم کی طرف ہدایت کرناضروری ہے ۔
٣۔واجبات امام
مسلمانوں کے امام اور ان کے ولی امر میں مندرجہ ذیل ذمہ داریاں ہیں:
١۔دین کی حفاظت ،اسلام کی حراست ،اورا قدار و اخلاق کو مذاق کرنے والوں سے بچانا ۔
٢۔احکام نافذ کرنا ،جھگڑوں میں فیصلے کرنا اور مظلوم کا ظالم سے حق دلانے میں انصاف کرنا۔
٣۔اسلامی ممالک کی بیرونی حملوں سے حفاظت کرنا ،چاہے وہ حملے لشکری ہوں یا فکری ۔
٤۔ انسان کی شقاوت کا باعث ہونے والے تمام جرائم میں حدیں اور فیصلے قائم کرنا ۔
٥۔سرحدوں کی حفاظت ۔
٦۔جہاد ۔
٧۔زکات جیسے خراج ”ٹیکس ”کا جمع کرناجس کے متعلق اسلامی شرعی نص و روایت موجود ہے ۔
٨۔حکومتی امور میں امانتدار افراد سے کام لینا اور اپنے کار گزاروں کے ساتھ نا انصافی نہ کرنا۔
٩۔بذات خود رعایا کے امور کی نگرانی اور دیکھ بھال کرنا ،اور اس کے لئے کسی دوسرے کی نظارت پر اعتماد کرنا جا ئز نہیں ہے ۔
(سیاست شرعیہ، صفحہ ٧)
١٠۔دلیری کے ساتھ فیصلے کرنا ،امت کیلئے رفاھی کام کرنا اور ان کو فقر و محرومیت سے نجات دلانا ۔
امام پر ان مندرجہ بالا امور کابجالانا اور ان کی عام طور پر مطابقت کرنا واجب ہے اور ہم نے ان جہتوں کے متعلق مکمل طور پر اپنی کتاب ”نظام الحکم اور ادارة الاسلام ”میں بحث کی ہے ۔
٤۔امام کے صفات
امام میں مندرجہ ذیل شرطوں کاپایا جانا ضروری ہے :
١۔معاشرہ میں عدالت رائج کرنایعنی اور وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ کرتاہو اور گناہ صغیرہ پر اصرار نہ کرتاہو ۔
٢۔امت کی تمام ضروریات کی چیزوں سے آگاہ ہو ،ان کے شان نزول اور احکام سے باخبر ہو ۔
٣۔اس کے حواس جیسے قوت سامعہ ،باصرہ اور زبان صحیح و سالم ہو ،تا کہ ان کے ذریعہ براہ راست چیزوں کا درک کرنا صحیح ہو ،جیسا کہ دوسرے بعض اعضاء کا ہر نقص سے پاک و منزہ ہونا ضروری ہے ۔
٤۔رعایا کی سیاست اور عام مصلحتوں کی تدبیر کے لئے نظریہ کا نفاذ۔
٥۔اسلام کی حمایت اور دشمن سے جہاد کرنے کے لئے شجاعت ،جواں مردی اور قدرت کا ہونا ۔
٦۔نسب یعنی امام کا قریش سے ہونا ۔
یہ تمام شرطیں اور صفات ماوردی اور ابن خلدون نے بیان کی ہیں ۔
(احکام السلطانیہ ،صفحہ ٤۔مقدمہ ،صفحہ ١٣٥)
٧۔ عصمت،متکلمین نے عصمت کی تعریف یوں کی ہے :اللہ کا لطف جو اس کے اکمل بندوں پر جاری ہوتا ہے ،جو اس کو عمداً اور سہوا جرائم اور گناہوں کے ارتکاب سے روکتا ہے ،شیعوں کا امام میں اس صفت کے پائے جانے پر اجماع ہے ،اس مطلب پر حدیث ثقلین دلالت کر تی ہے ، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن و عترت کو مقارن قرار دیا ہے ،جس طرح ”قرآن کریم”غلطی اور لغزش سے محفوظ ہے، اسی طرح عترت اطہار بھی غلطی اور خطا سے محفوظ ہیں ،ورنہ ان دونوں کے ما بین مقارنت اور مساوات کیسے صحیح ہو تی اور ہم اس سلسلہ میں پہلے عرض کر چکے ہیں ۔
یہ تمام صفات ائمہ ٔ اہل بیت کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائے جاتے ہیں چونکہ انھوں نے ہی اسلام کی پرورش اور اس کی حمایت کی ،اللہ اور اس کی رضا اور اس کی اطاعت کے لئے دلائل پیش کئے ،اسلام کے معتقد شاعر نے ان کو اشعار میں یوں نظم کیا ہے :
لِلْقَرِيبِينَ مِنْ نَدًی والبَعِيدیِ
مِنَ الْجَوْرِ ف عُری الأَحکامِ
والمُصِيبِينَ بابَ ما أَخْطَأَ النَّاسُ
وَمُرْسِیْ قَواعِدَ السلامِ
والحُماة الکُفَاةِ ف الحربِ نْ لَفْفَ
ضِرامُ وَقُودَہُ بِضِرَامِ
وَالغُيوثِ الذينَ ِنْ أَمْحلَ النَّاسُ
فَمأْویٰ حَوَاضِنِ الأَيتَامِ
راجحِ الوَزْنِ کامِلِ العَدْلِ فِ السَّيرِ
طَبِينُوْنَ بِالْاُمُوْرِ الْعِظَامِ
سَاسَةُ لاکَمَنْ رآَٔی رَعْيةَ النَّاسِ
سَوائً وَرَعْيةَ الْأَنْعامِ
(ہاشمیات، صفحہ ٩)
”یہ صفات اُن ائمہ کی ہیں جو سخاوت سے نزدیک ہیں اور ظلم و جور سے دُور ہیں ۔
یہ ائمہ احکام اسلام پر مضبوطی سے عمل پیرا ہیں جہاں لوگ خطائوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔
وہاں ان کو راہ راست معلوم ہو تی ہے یہ اسلام کی بنیادوں کو راہ راست بخشنے والے ہیں ۔
یہ ائمہ جنگ میں شدت سے حملہ کرتے ہیں ۔
یہ وہ باران کرم ہیں کہ اگر لوگ پریشانی میں مبتلا ہوںتو یہ یتیموں کی پناہ گاہ ہوتے ہیں۔
اُن کی فضیلتوں کا پلّہ جھکا رہتا ہے یہ بالکل انصاف سے کا م لیتے ہیں ۔
یہ اہم امور کو اچھی طرح سمجھتے ہیں یہ سیاست مدار ہیں البتہ جانوروں اور انسانوں کو ایک نگاہ سے دیکھنے والے نہیں ہیں”۔
بیشک اہل بیت نے اپنی عصمت پر سیرت و کردار کے ذریعہ دلیل قائم کی ہے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ تاریخ انسانیت میں ان کے مثل کو ئی نہیں ہے ،اسی وجہ سے ان کیلئے دین میں عظیم فضل اور تقویٰ ہے ۔وہ ہر قسم کی غلطی اور خطا سے معصوم ہیں جس پر مختلف حالات و واقعات دلالت کرتے ہیں۔
٥۔امام کی تعیین
شیعوں کے نظریہ کے مطابق امام کا معین کرنا امت کے اختیار میں نہیں ہے اور نہ ہی اہل حل وعقد کے ہاتھ میں ہے ،امامت کے متعلق الکشن کرانا باطل ہے ،اس میں کسی کا اختیار محال ہے، امامت بالکل نبوت کے مانند ہے ،جس طرح نبوت انسان کی ایجاد نہیں ہو سکتی اسی طرح امامت بھی کسی کی تکوین و ایجاد کے ذریعہ نہیں ہو سکتی ،کیونکہ جس عصمت کی امامت میں شرط ہے اس سے خدا کے علاوہ مخفی نفوس سے کو ئی بھی آگاہ نہیں ہے ،اس نے اس پر حجت آل محمد اور مہدی ٔ منتظر سے اپنی حدیث میں سعد بن عبداللہ کے ساتھ استدلال کیاہے اس نے امام سے سوال کیا کہ لوگوں کے اپنی خاطر امام اختیار نہ کرنے کی کیا وجہ ہے ؟تو امام نے فرمایا:”وہ اپنے لئے مصلح یا مفسد امام کو اختیار کریں گے ؟”۔
اس نے جواب دیا:بلکہ مصلح امام اختیار کریں گے ۔
”تو کیا ان کا کسی بُرے شخص کو اختیار کرناناممکن ہے جبکہ کسی کے دل کی اچھائی یابرا ئی سے کو ئی واقف نہیں ہے ؟”۔
کیوں نہیں ۔
یہ وجہ میں نے تیری عقل کے نزدیک مؤثق دلیل و برہان کے ذریعہ بیان کی ہے ،مجھے ان انبیاء کی خبر دی گئی ہے جن کو اللہ نے منتخب فرمایا ،ان پر کتاب نازل فر ما ئی ،ان کی عصمت اور وحی کے ذریعہ تا ئید فرما ئی کیونکہ وہ امتوں کے بزرگ ہیں ،حضرت مو سیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے مانند ان کو اختیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے کیا ان دونوں کی زیادہ عقل اور ان کے علم کے کامل ہونے کے باوجودان دونوں کو کسی کومنتخب کرنے کا اختیار ملتا ہے تو وہ منافق کے سلسلہ میں حیرت میں پڑجاتے ہیںاور فکر کرتے ہیں کہ یہ مو من ہے حالانکہ وہ منافق ہوتا ہے ؟ ‘ ‘ ۔
۔نہیں ۔
موسیٰ کلیم اللہ نے اتنی زیادہ عقل ،اتنے کامل علم اور اپنے اوپر وحی نازل ہونے کے باوجود اپنی قوم سے اپنے پروردگار سے کئے ہوئے وعدے کے تحت ستر افراد کو منتخب کیاجن کے ایمان و اخلاص میں کو ئی شک و شبہ نہیں تھا جبکہ اُن میں منافقین بھی تھے؟ ” اللہ کا ارشاد ہے :
’’وَاخْتَارَ مُوسَی قَوْمَه سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقَاتِنَا‘‘
(سورہ اعراف، آیت ١٥٥۔ 13۔سورہ نساء ،آیت ١٥٣)
”اور موسیٰ نے ہمارے وعدے کے لئے اپنی قوم کے ستّرافراد کا انتخاب کیا ”
یہاں تک کہ خدا نے فرمایا
’’َ فَقَالُواَرِنَااﷲَ جَهرَةً فََخَذَتْهمْ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهم‘‘
”جب انھوں نے کہا کہ ہمیں علی الاعلان اللہ کو دکھلا دیجئے تو ان کے ظلم کی بناپرانھیں ایک بجلی نے اپنی گرفت میں لے لیا ”
جب خدا کی طرف سے نبوت کیلئے منتخب کیا جانے والا شخص بھی فاسد کا انتخاب کر سکتا ہے تواس سے ہم یہ جان لیتے ہیں کہ منتخب کرنے کا حق صرف اس ذات بابرکت کو ہے جو دلوں کے راز سے واقف ہے ”
(بحارالانوار، جلد ١٣،صفحہ ١٢٧)
انسانی طاقتیں اس امت کے لئے اصلح شخص کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں ،اس کا اختیار انسان کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ اس کا اختیار تو عالم الغیب خدا کے قبضہ قدرت میں ہے ۔
امامت کے متعلق یہ مختصر سی بحث تھی اور محقق کے لئے تفصیل کی خاطرعلم کلام کی کتابوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے ۔
بلند اخلاق امام حسن علیہ السلام کو اپنے جد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلند اخلاق وراثت میں ملے جو اپنے اخلاق میں تمام انبیاء پر فضیلت رکھتے تھے ،مورخین نے آپ کے اخلاق کے متعلق متعدد روایات نقل کی ہیں ،ان ہی میں سے ایک یہ واقعہ ہے کہ ایک شا می شخص آپ کے پاس سے گزرا تو اس نے آپ کو دیکھ کر آپ پر سب و شتم کرنا شروع کیا، امام خاموش رہے اور اس کو کو ئی جواب نہیں دیا جب وہ شخص سب و شتم کرکے چُپ ہو گیا تو امام حسن علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے چہرے سے اس سے فرمایا :اے بزرگ میرے خیال میں تم مسافر ہو اگر تم کچھ چا ہتے ہو تو ہم تجھے عطا کریں ،اگر تم ہدایت چاہتے تو ہم تمہاری ہدایت کریں ،اگر سواری کی ضرورت ہو تو سواری فراہم کریں،اگر تم بھوکے ہو تو تمھیں کھانا کھلادیں گے ،اگر تم محتاج ہو تو تمھیں بے نیاز کردیں گے اگر تمہارے پاس رہنے کی جگہ نہیں ہے تو ہم اس کا انتظام کردیں گے ”۔
جب امام اس سے اپنے نرم و لطیف کلام سے پیش آئے تو اس کے ہو ش اڑگئے ،وہ کو ئی جواب نہ دے سکا ،وہ اس شش و پنج میں پڑگیا کہ امام سے کیسے عذر خوا ہی کرے اور جو کچھ گناہ مجھ سے صادر ہوگئے ہیں ان کو کیسے مٹائے ؟ اور اس نے کہنا شروع کیا :اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں قرار دے ۔
(مناقب ابن شہر آشوب، جلد ٢،صفحہ ١٤٩۔الکامل مبرد ،جلد ١،صفحہ ١٩٠۔٢)
آپ کے عظیم اخلاق کا یہ حال تھا کہ آپ ایک جگہ تشریف فرما تھے اوروہاں سے کہیں جانے کا قصد رکھتے تھے تو وہاں پر ایک فقیر آگیاآپ اس کے ساتھ بڑی شفقت و مہربانی کے ساتھ پیش آئے اور اس
سے فرمایا:” تم اس وقت آئے جب میں وہاں سے اٹھنے کا ارادہ کر رہا تھا تو کیا تم مجھے یہاں سے جانے کی اجازت دیتے ہو ؟”
امام کے ان بلند اخلاق سے فقیر متعجب ہوا اور امام کو وہاں سے چلے جانے کی اجازت دیدی ۔
(تاریخ الخلفا ء ،مؤلف سیوطی، صفحہ ٧٣)
یہ آپ کا بلند اخلاق تھا کہ ایک مرتبہ آپ فقیروں کی ایک ایسی جماعت کے پاس سے گذرے جو زمین پر بیٹھے ہوئے کھانا کھارہے تھے انھوں نے آپ کو اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی تو آپ نے ان کی دعوت قبول کر لی اور ان کے پاس بیٹھ کر کھانا کھا نے لگے اور فرمایا :”خداوند عالم متکبروں کو دوست نہیں رکھتا ” پھر ان کو مہمان ہونے کی دعوت دی تو انھوں نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا آپ نے ان کو کھانا کھلایا،کپڑا دیا اور ان کو اپنے الطاف سے نوازا ۔
(اعیان الشیعہ ،جلد ٤،صفحہ ٢٤)
وسعت حلم
آپ ایسے حلیم و بردبار تھے کہ جو بھی آپ کے ساتھ بے ادبی کرتا آپ اس کے ساتھ احسان کرتے تھے مورخین نے آپ کے حلم کے متعلق متعدد واقعات قلمبند کئے ہیں، ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ نے جب اپنی بکری کا ایک پیر ٹوٹا ہوا دیکھا تو اپنے غلام سے فرمایا :”یہ کس نے کیا ہے ؟”۔
غلام :میں نے ۔
امام :”تونے ایساکیوں کیا؟”۔
غلام :تاکہ آپ اس کی وجہ سے ناراض ہو جا ئیں!
امام نے مسکراتے ہوئے فرمایا:”میں تجھے ضرور خوش کرونگا”۔
امام نے اس پربہت زیادہ بخشش کرکے اسے آزاد کردیا ۔
(مقتل الحسین ”خوارزمی ”،جلد ١،صفحہ ١٤٧)
آپ کے سخت دشمن مروان بن حکم نے آپ کے عظیم حلم کا اعتراف کیا ہے اور جب آپ کا جسم اطہر حضیرہ ٔ قدس میں لیجایا گیا تو اس نے آپ کے جنازہ کو کا ندھا دینے میں سبقت کی ،امام حسین علیہ السلام علیہ السلام یہ دیکھ کرمتعجب ہوئے اور اس سے فرمایا:آج تم اس کا جنازہ اٹھانے کے لئے آگئے جس پر تم کل غیظ و غضب کا گھونٹ پیتے تھے ؟”۔
مروان نے کہا :جس کا حلم پہاڑ کے مانند ہو میں اس کے ساتھ ایسا ہی کرونگا۔
(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،جلد ٤،صفحہ ٥)
امام حسن علیہ السلام اپنے حلم ،بلند آداب اور عظیم اخلاق میں ایک نمونہ تھے اور اسی صفت کی وجہ سے آپ لوگوں کے قلوب میں جگہ بنائے تھے ۔
سخاوت
امام حسن علیہ السلام لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے ،آپ اکثر غریبوں پر احسان فرماتے تھے ،کسی سائل کو کبھی رد نہیں کر تے تھے اور ایک مرتبہ آپ سے سوال کیا گیا : آپ سائل کو رد کیوں نہیں کرتے ہیں ؟
آپ نے فرمایا:”بیشک میں اللہ کا سائل ہوں ،اسی سے لو لگاتا ہوں ،مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ میں خود تو سائل ہوں اور سوال کرنے والے کو رد کردوں ،بیشک خدا کی مجھ پر اپنی نعمتیں نازل کر نے کی عادت ہے، لہٰذا میں نے بھی اس کی نعمتیں لوگوں کو دینے کی عادت بنا لی ہے اور مجھے یہ خوف ہے کہ ا گر میں نے اپنی عادت ختم کر لی توخدا کہیں اپنی عادت ختم نہ کر لے ”،اس کے بعد آپ نے یہ شعر پڑھے :
”ِذا ما أَتانِ سَائِلُ قُلْتُ مَرْحَباً
بِمَنْ فَضْلُه فَرْضُ عَلَّ مُعَجَّلُ
وَمَنْ فَضْلُه فَضْلُ عَلیٰ کُلِّ فَاضِلٍ
وَأَفْضَلُ أَهامِ الْفَتیَ حِينَ يسْأَلُ
(نور الابصار، صفحہ ١١١)
”اگر میرے پاس کو ئی سائل آتا ہے تو میں اسے خوش آمدید کہتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ آپ کا احترام کرنا مجھ پر واجب ہے ۔
آپ کا احترام ہر شخص پر فرض ہے اور انسان کے بہترین ایام وہ ہیں جب اس سے سوال کیا جائے ”۔
آپ کے دروازے پر محتاجوں اورفقیروں کی بھیڑ لگی رہتی تھی آپ ان کے ساتھ احسان و نیکی کرتے اور انھیں ان کی خواہش سے زیادہ عطا کیا کرتے تھے ،مؤرخین نے آپ کے کرم و سخاوت کے متعدد واقعات نقل کئے ہیں، ہم ان میں سے بعض واقعات ذیل میں نقل کر رہے ہیں :
١۔ایک اعرابی نے آکر سوال کیا تو امام نے فرمایا :”جو کچھ خزانہ میں ہے اس کو دیدو ”اس وقت خزانہ
میں دس ہزار درہم تھے ۔اس اعرابی نے امام کی خدمت میں عرض کیا :کیا آپ مجھے یہ اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ میں آپ کی شان و مدح میں کچھ اشعار پڑھوں ؟ تو امام نے فر مایا :
”نَحْنُ اُنَاس نَوَالُنَا حَضِلُ
يرْتَعُ فِيه الرَّجائُ وَالأَمَلُ
تَجُوْدُ قِبْلَ السَّؤالِ أَنْفُسُنَا
خَوْفاً علیٰ مائِ وَجْه مَنْ يسَلُ
لَوْ يعْلَمُ الْبَحْرُ فَضْلَ نَائِلِنَا
لَفَاضَ مِنْ بَعْدِ فَيضِه خَجَلُ
(اعیان الشیعہ، جلد ٤،صفحہ ٨٩۔٩٠)
”ہم ایسے لوگ ہیں جن کی بخشش سر سبز و شاداب ہے جس میں آرزو اور امید چر تی رہتی ہے۔
ہم سوال کئے جانے سے پہلے ہی سخاوت کرتے ہیں تاکہ سائل کی آبرو محفوظ رہے ۔
اگر سمند رکو ہماری بخشش کی فضیلت معلوم ہو تی تو وہ اپنی فیاضی سے شرمندہ ہو جاتا ”۔
٢۔امام حسن علیہ السلام ایک ایسے حبشی غلام کے پاس سے گذرے جو اپنے سا منے رکھی ہو ئی روٹی کا ایک ٹکڑا خود کھاتاتھا اور دوسرا ٹکڑا اپنے کتےّ کو ڈال رہا تھا ،امام نے اس سے فرمایا:”تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟”
اس نے کہا مجھے شرم آتی ہے کہ میں تو روٹی کھائوں اور اس کو نہ کھلائوں۔
امام نے اس غلام میں اس بہترین خصلت کا مشاہدہ فرمایا اور اس کو اس اچھی خصلت کی جزا دینا چاہی اس کے احسان کے مقابلہ میں احسان کرنا چاہاتاکہ فضیلتوں کو رائج کیا جا سکے۔اس سے فرمایا :تم اسی جگہ پر رہو ،پھر آپ نے اس کے مالک کے پاس جاکر غلام اور جس باغ میں وہ رہتا تھا اس کو خریدااور اس کے بعد اسے آزاد کرکے اس باغ کا مالک بنا دیا ۔
(البدایہ والنھایہ جلد ٨ صفحہ ٣٨)
٣۔ایک مرتبہ امام حسن علیہ السلام مدینہ کی ایک گلی سے گذر رہے تھے تو آپ نے سنا کہ ایک آدمی اللہ سے دس ہزار درہم کا سوال کر رہا ہے تو جلدی سے اپنے بیت الشرف میں آئے اور اس کے لئے دس ہزار درہم بھیج دئے ۔
(طبقات الکبریٰ ،مؤلف شعرانی جلد ١،صفحہ ٢٣ ۔الصبّان ،صفحہ ١١٧)
یہ آپ کے جود و کرم کے چند واقعات تھے اور ہم نے آپ کے جود و کرم کے متعددواقعات اپنی کتاب ”حیاةالامام الحسن ”کے پہلے حصہ میں بیان کئے ہیں ۔
زہد
رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پہلے پھول اور آپ کے اس لخت جگرنے اپنی زندگی زہد و تقویٰ میں بسر کی اور ہمیشہ خدا سے لو لگائے رہے ،اور زندگی کے بہت کم مال و دولت پر قناعت فرما ئی، امام فرماتے ہیں :
”لَکِسْرَةُ مِنْ خِسِيسِ الْخُبْزِ تُشْبِعُنِْ
وَشَرْبَةُ مِنْ قَرَاحِ الْمَائِ تکْفِينِ
وَطَرَّةُ مِنْ دَقِيقِ الثَّوْبِ تَسْتُرُنِْ
حَياً وَِنْ مِتُّ تَکْفِينِ لِتَکْفِينِْ”
(حیاة الامام الحسن ،جلد ١،صفحہ ٣٢٨)
”روٹی کا معمولی ٹکڑا مجھے شکم سیر کردیتا ہے سادہ پانی کا ایک گھونٹ میرے لئے کافی ہے ۔
زندگی میں معمولی کپڑا میرے پہننے کیلئے کافی ہے اور مرنے کے بعد میری تکفین کیلئے کافی ہے ”
آپ نے اپنا بیان مندرجہ ذیل دو بیتوں پر تمام فرمایاجو آپ کے زہد کی عکا سی کر تا ہے :
’قَدِّمْ لِنَفْسِکَ ما استَطَعْتَ مِنَ التُّقیٰ
ِنَّ الْمَنِيةَ نَازِلُ بِکَ يا فَتی
أَصْبَحْتَ ذَا فَرَحٍ کَأَنَّکَ لا تَریٰ
أَحْبَابَ قَلْبِکَ فِ المقَابرِوالبِلی‘‘
(تاریخ ابن عساکر، جلد ٤،صفحہ ٢١٩)
”اپنے نفس کو حتی الامکان پرہیز گاری کا تحفہ پیش کروکیونکہ اے جوان تم کو موت آنے والی ہے ۔
تم اس طرح خوش ہو گئے ہوکہ گویا اپنے قلبی دوستوں کو قبروں میں سوتا نہیں دیکھتے ”۔
محمد بن بابویہ نے امام حسن علیہ السلام کے زہد کے متعلق ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا نام ”زھد الامام الحسن ” رکھا ہے،۔
(حیاۃالامام الحسن ، جلد ١،صفحہ ٣٣٠)
مترجمین و محققین کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپ سب سے زیادہ زا ہد تھے آپ کی شان آپ کے جد اور والد بزرگوار کی شان کے مطابق تھی ۔
علمی ہیبت
امام حسن علیہ السلام اسلام میں علم و حکمت کے منبع تھے ،آپ اور آپ کے برادر کے کثرت علم کے متعلق احادیث میں وارد ہوا ہے ،امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام علیہ السلام متبحر فی العلم تھے ،عالم اسلام میں سب لوگ فتووں کے سلسلہ میںامام حسن علیہ السلام علیہ السلام کی طرف ہی رجوع کر تے تھے ،آپ کے پاس علوم اخذ کرنے والے صحابہ کی بھیڑ لگی رہتی تھی ،اس کی تمام صحابہ نے روایت کی ہے ۔
(حیاة الامام الحسن ، جلد ٢، صفحہ ٣٣٣)
یہ بات شایان ذکر ہے کہ محمد بن احمد دولابی متوفی ٣٢٠ ھ نے مسند نا می کتاب تحریر کی ہے جس میں ”ذریہ ٔ طاہرہ ”کے نام سے ایک باب ہے جس میں وہ تمام روایات درج کی ہیں جن کو امام حسن علیہ السلام نے اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے نقل کیا ہے۔
(جامعہ زیتونہ کی لا ئبریری کے خطی نسخے جن کی امیر المومنین علیہ السلام لا ئبریری سے فوٹوکاپی لی گئی ہے ہم نے اس کا تذکرہ حیاۃالامام الحسن کی پہلی جلد میں کر دیا ہے ۔)
حکیمانہ کلمات قصار
١۔”دنیا میں اپنے بدن کے ساتھ رہو اور آخرت میں اپنے دل کے ساتھ رہنا ”۔
(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد ١٨،صفحہ ٨٩)
٢۔”اگر دنیا کے بارے میں تمہارے مطالبات پورے نہ ہوں تو تم یہ تصور کروکہ تم نے اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا ”۔
(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ١٨،صفحہ ٨٩)
٣۔”سب سے بڑی مصیبت بری عادت ہے ”۔
(نہج السعادہ ،جلد ٨،صفحہ ٢٨٠)
٤۔”جو شخص سلام سے پہلے کلام کرے اس کا جواب نہ دو ”۔
(کشف الغمہ ،جلد ٢،صفحہ ١٩٧)
٥۔ایک شخص اپنے مرض سے صحتیاب ہوا تو امام نے اس سے فرمایا:”اللہ نے تیرا ذکر کیا تو اسکا ذکر کر ،اور تجھے واپس پلٹایا لہٰذا تو اس کا شکر ادا کر ”۔
٦۔”نعمت ،محنت ہے اگر تم نے نعمت کا شکر ادا کیا تو وہ تمہارے لئے خزانہ ہو گی اور اگر نعمت کا انکار کیا تو وہ مصیبت ہو جا ئے گی ”۔
( بحارالانوار ،جلد ٧٥،صفحہ ١٠٦)
آپ کے بعض خطبے
آپ ا پنے زمانہ کے بہت بڑے خطیب تھے اور بات میں بات ایجاد کرنے کی قدرت رکھتے تھے ہم ذیل میں ان کے بعض خطبے نقل کر رہے ہیں :
١۔امام امیر المو منین حضرت علی نے آپ کو لوگوں کے درمیان خطبہ دینے کیلئے بھیجا توآپ نے بڑی ہی شان و شوکت کے ساتھ منبر کے پاس کھڑے ہوکر یوں خطبہ ارشاد فرمایا :
”ایہا الناس !اپنے پروردگار کے پیغام کو سمجھو، بیشک پروردگار عالم نے عالمین کیلئے آدم ، نوح ، آل ابراہیم اور آل عمران کو منتخب کرلیاہے یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور اللہ سب کی سننے والا اور جاننے والا ہے ،ہم آدم کی برگزیدہ اولاد ہیں ،نوح کے خاندان ہیں ، آل ابراہیم کے منتخب کردہ ہیں ،اسماعیل اور آل محمد کی نسل ہیں ،ہم تمہارے درمیان بلند آسمان ، بچھی ہوئی زمین اور چمکتے سورج کے مانند ہیں ہم ہی نے اپنے نور سے دنیا کو روشن کیا ہے اورہم ہی شجرِ زیتونہ ہیں جس کو پروردگار عالم نے مبارک قرار دیا ہے اور اس کی قرآن کریم میں مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے :
لاشرقیة ولاغربیة ”نہ مشرق ہے اور نہ مغرب ہے ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس درخت کی اصل ہیں اور علی اس کی شاخ ہیں ،خدا کی قسم ہم اس کے ثمر ہیں،جس نے اس کی شاخوں سے تعلق رکھاوہ نجات پا گیا اور جس نے اس سے رو گردانی کی وہ گمراہ ہوا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے”۔
(تذکرة ابن حمدون ،صفحہ ٢٥)
٢۔آپ کا ایک بہت ہی عمدہ خطبہ یہ ہے جس میں آپ نے مکارم اخلاق کے سلسلہ میں گفتگوفرمائی:
”جان لو !عقل حرز(محافظ) ہے ،حلم زینت ہے ،وفاداری مروت ہے ،جلد بازی بیوقوفی ہے ، بیوقوفی کمزوری ہے ، اہل دنیا کے ساتھ مجالست بری ہے ،اہل فسق و فجور سے ملنا جُلنا دھوکہ ہے ، جس نے اپنے برادران کو ہلکا سمجھا اس نے ان کی محبت سے ہاتھ دھولیا ،شک و شبہ کرنے والے کے علاوہ اور کو ئی ہلاک نہیں ہوگا ،وہ ہدایت یافتہ افراد ہی نجات پا ئیں گے جو اپنی مو ت اور اپنے رزق کے بارے میں ایک لمحہ کے لئے بھی خدا پر کسی طرح کا الزام نہیں لگاتے ،وہ صاحب مروّت افراد ہوتے ہیں اُن کی حیا کامل ہو تی ہے ، وہ صبر کئے رہتے ہیں یہاں تک کہ اُن کو اُن کا رزق مل جاتا ہے ، وہ دنیا کے عوض دین اور جوانمردی کا سودا نہیں کر تے اور نہ رضایت الٰہی کے بدلہ دنیا حاصل کرنا چاہتے ہیں،انسان کی جوانمردی اور عقل مندی یہ ہے کہ اپنے بھا ئیوں کی حاجت برآری میں جلدی کرے چاہے وہ حاجت برآری کا تقاضا بھی نہ کریں، عقل خدا کی عطا کی ہو ئی چیزوں میں سب سے بہتر ہے، اس لئے کہ اسی کے ذریعہ سے دنیا اور اس کی آفتوں سے نجات پائی جا سکتی ہے اور آخرت میں اس کے عذاب سے محفوظ رہا جا سکتا ہے ”۔
آپ سے کہا گیا :لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص کی عبادت کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا :
” تم اس کی عقل کو دیکھو کیونکہ قیامت کے دن جزا انسان کی عقل کے حساب سے دی جا ئیگی اوربہترین ادب عقل کی صحت کی دلیل ہے”۔
(جلاء العیون، جلد١،صفحہ ٣٢٨)
عبادت امام حسن علیہ السلام
اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عابد تھے ،آپ کے سلسلہ میں راویوں کا کہنا ہے : آپ ہمیشہ اپنی زبان پر اللہ کا ذکر جا ری رکھتے تھے۔
(ارشاد القلوب ،صفحہ ٢٣٩۔ 37۔امالی صدوق ،صفحہ ١٠٨)
جب جنت و جہنم کا تذکرہ ہو تا تو آپ مضطرب ہوجاتے ،خدا سے جنت کا سوال کر تے اور جہنم سے پناہ مانگتے ،جب موت اور موت کے بعدحشر و نشر کا تذکرہ ہوتا تو آپ خا ئفین اورتوبہ کرنے والوں کی طرح گریہ کرتے ۔
(اعیان الشیعہ ،جلد ٤، صفحہ ١١)
جب اللہ کی بارگاہ میں حاضری کاذکر ہوتا تو آپ ایک نعرہ مارتے تھے یہ تمام باتیں اللہ کی عظیم اطاعت اور اس سے خوف کی عکاسی کرتی ہیں ۔
(امالی صدوق ،صفحہ ١٠٨)
وضو اور نماز امام حسن علیہ السلام
جب وضو کا ارادہ کرتے تو خدا کے خوف سے آپ کی حالت متغیر ہو جاتی یہاں تک کہ آپ کا رنگ متغیر ہوجاتا اور آپ کے اعضاء کانپ اٹھتے تھے،جب اس راز کے سلسلہ میں آپ سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
”جوشخص، رب العرش کی بارگاہ میں کھڑا ہوتا ہے اس کا حق ہے کہ اس کے بند بند کانپ جائیں اور اس کا رنگ بدل جائے ”، جب آپ وضو سے فارغ ہو کر مسجد میں داخل ہوتے تو باآواز بلندیوں فرماتے :
”خدایا تیرا مہمان تیرے دروازے پر ہے ،اے احسان کرنے والے! گناہ گار تیرے پاس آیا ہے ، اے کریم اپنی نیکیوں کے ذریعہ ہماری برائیوں سے در گذر فرما ”۔
(امالی صدوق ،صفحہ ١٠٨)
جب نماز میں مشغول ہوتے تو خدا سے خوف و ڈر کی وجہ سے آپ کے بند بند کا نپنے لگتے تھے ۔
(حیاةالامام حسن علیہ السلام ،جلد ١، صفحہ ٣٢٧)
نماز صبح ادا کرنے کے بعد سے لیکر سورج نکلنے تک آپ اللہ کے ذکر کے علاوہ کسی سے کو ئی کلام نہیں کر تے تھے ۔
(بحارالانوار، جلد ١٠، صفحہ ٩٣)
حج
آپ نے اللہ کی عبادت اور اس کی طاعت کا یوں اظہار فرمایا کہ آپ نے پاپیادہ پچیس حج کئے ، جبکہ آپ کیلئے سواریاں مو جود تھیں
جب آپ سے پاپیادہ بہت زیادہ حج کرنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ فرمایا:”مجھے اپنے پروردگار سے اس بات پر شرم آتی ہے کہ میں پیدل اس کے بیت حرام تک نہ جائوں ”۔
(اعیان الشیعہ ،جلد ٤، صفحہ ١١)
اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرنا امام نے خدا کی مرضی اور اس کی اطاعت میں ہر انسان پر سبقت فرما ئی ،آپ نے دو مرتبہ اپنی ساری ملکیت راہ خدا میں تقسیم کر دی ،اور تین مرتبہ اللہ کی راہ میں اپنا سارا مال دیدیا یہاں تک کہ اپنی نعلین بھی دیدی اور پھر دوبارہ خریدی۔
اسدالغابہ، جلد ٢، صفحہ ١٢)
یہ آپ کے ذریعہ اللہ کی اطاعت کے چند نمونے ہیں آپ نے عبادت میں اپنے جد اور پدر بزرگوار سید المتقین اور امام الموحدین کا کردار ادا کیا ۔
کثرت ازواج کی تہمت
امام حسن علیہ السلام پر زیادہ شادیاں کرنے کی تہمت لگا ئی گئی ہے جیساکہ کہاگیا ہے :آپ نے تین سو شادیاں کی ہیں ۔
(حیاةالامام حسن علیہ السلام ، جلد ٢، صفحہ ٤٥٣)
یہ صرف ایک بہتان ہے اس کی کو ئی حقیقت نہیں ہے ،جب حسنی سادات نے منصور دوانیقی کے خلاف قیام کیا تو اس نے جان بوجھ کر یہ مشہور کردیا ، اس قیام سے اس کی حکومت کو خطرہ لا حق ہوا ، ارکان حکومت لرزہ براندام ہوگئے تو اس نے جان بوجھ کر امام امیرالمومنین اور ان کی اولاد پر الزامات لگانا شروع کردئے اور ان پر آرام طلبی کا الزام لگایا۔
اگر یہ روایات صحیح ہو تیں تو امام حسن علیہ السلام کی اولاد بھی کثرت نساء سے شادیوں کے مناسب ہوتی حالانکہ ”نسابوں نے جو آپ کی اولاد کا ذکر کیا ہے ”آپ کی اولاد لڑکے اور لڑکیوںکی تعداد٢٢ بتا ئی ہے ، مطلق طور پر یہ تعداد کثرت ازواج کے بالکل مناسب نہیں ہے جس کا انھوں نے گمان کیا ہے کہ آپ نے بہت زیادہ شادیاں کی ہیں ،اس سے بڑھ کر انھوں نے تو یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپ بہت زیادہ طلاق دیتے تھے ،اب اگر یہ ثابت ہوجائے کہ آ پ بہت زیادہ طلاق دیتے تھے تو آپ جعدہ بنت اشعث کو طلاق دیتے ، اور ہم نے اس سلسلہ میں قاطع دلیلوں کے ذریعہ اپنی کتاب ”حیاةالامام الحسن ”کی دوسری جلدمیں اس نسبت کے متعلق بیان کر دیا ہے ۔
خلافت
جب عالم اسلام ،معاشرتی عدالت کے علمبر دارامیر المو منین کی شہادت کے سانحہ سے دوچار ہواتو بڑے ہی پیچیدہ وقت میں امام نے اسلامی خلافت کی باگ ڈور سنبھالی ،جبکہ آپ کا لشکر نافرمان ہو چکا تھا ،ان میں سے اکثر افراد جنگ میں سستی سے کام لے رہے تھے اور اُن میں خوارج بھی تھے جنھوں نے امام امیرالمومنین پرکفر اور دین سے خارج ہونے کاالزام لگایا وہ اپنے لشکر میں جسم کھا جانے والی چیونٹی کی طرح تھے ان کو نافرمانی اور امام کی اطاعت نہ کرنے کی رغبت دلاتے تھے ۔
امام حسن علیہ السلام کیلئے سب سے المناک حادثہ آپ کے لشکر کے سپہ سالاروں کا تھا ،جن میںسر فہرست عبیداللہ بن عباس تھے ،انھوں نے اللہ ،رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ،معاویہ نے ظاہری طور پر انھیں ولایت ،طاعت اور اپنا حکم ماننے کیلئے خط تحریر کیااور اس کے ضمن میں یہ تحریر کیا کہ اگر وہ چا ہیں امام کو قتل کردیں یا گرفتار کر کے اس کے حوالہ کر دیں ۔
آپ کے چچا زاد بھا ئی عبید اللہ بن عباس نے معاویہ سے رشوت لے لی اور رات کے اندھیرے میں بڑی ذلت و خواری کے ساتھ معاویہ کے لشکر سے جا ملا ،امام حسن علیہ السلام کے لشکر میں فتنوں کی امواج اور بے چینی چھوڑ گیا،کمزور نفس افراد کے لئے خیانت اور ضمیر فروشی کی راہ ہموار کر گیا، آپ کو اس لشکر کے حوالے کردیا جو مال و زر کے لالچ میںآپ کے ہمراہ آگیا تھا،ہر طرف سے آپ کو مشکلوں نے گھیر لیا،آپ کے لشکر میں بعض مارقین نے جان بوجھ کر نماز کی حالت میں آپ کی ران پرنیزہ مارا ،امام نے ان تمام مشکلوں میں صبر سے کام لیااور یہ مشاہدہ کیا کہ آپ کے سامنے ان دو راستوں کے علاوہ اورکو ئی تیسرا راستہ نہیں ہے :
١۔ اپنے اس پراکندہ لشکر کے ساتھ معاویہ سے جنگ کرتے جس سے فتح و نصرت کی کو ئی امید نہیں کی جا سکتی تھی ،اس طرح اپنی اور اپنے اہل خاندان نیز شیعوں کی جان کی بازی لگا دیتے اور اس طرح دین اور صراط مستقیم کی ہدایت کا یہ ستارہ غروب ہو جاتا کہ اگر امام اسیر کرکے معاویہ کے پاس لیجائے جاتے تو وہ آپ پر احسان رکھتا اور آپ کو آزاد کردہ قرار دیتا ،جس سے اس سے اور اس کے اہل خاندان سے آزاد کردہ کی تہمت ختم ہو جا تی ،کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ان لوگوں کو آزاد کیا تھا اور اس طرح بنی امیہ مضبوطی کے ساتھ اپنے پیر جما لیتے اور عام لوگوں کی نظر میں امام کی قربانی کی اس کے علاوہ کو ئی اہمیت نہ ہوتی کہ لوگ یا آپ کی تا ئید کرتے یا آپ کو برا بھلا کہتے ۔
٢۔یامعاویہ کے ساتھ صلح کرلیتے جبکہ یہ صلح آنکھ میں تنکے یا گلے میں پھنسی ہو ئی ہڈی کی طرح ہوتی ،معاویہ اور اس کی سرکشی سے چشم پو شی سے کام لیتے یا اس کے اسراراور خباثت کو اسلامی معاشرہ میں فاش کرتے ،اس کے مسلمان نہ ہونے کو بیان کرتے ، اس سے بے شرمی کا لباس دور کرتے تاکہ لوگوں کے سامنے اس کی ریا ،خباثت اور زورگوئی کا انکشاف ہوجاتا ،یہ چیز واضح طور پر محقّق ہو ئی جس میں کسی طرح کاکو ئی ابہام و غموض نہیں ہے ،صلح کے بعد معاویہ نے ایک خطبہ دیاجس میں عراقیوں سے مخاطب ہو کر کہا: اے اہل عراق! میں نے تم سے اس لئے جنگ نہیں کی ہے کہ تم نماز پڑھو ، روزے رکھو، زکات دواور حج بجالاؤ، بلکہ میں نے تم سے اس لئے جنگ کی ہے کہ تم کو اپنا مطیع بنا کر تم پر حکومت کروں،اور اللہ نے مجھے یہ حکومت دیدی ہے جس کے متعلق تم پر گراں گذر رہا ہے، آگاہ ہوجائو میں نے جو کچھ عہد و پیمان حسن بن علی (علیہما السلام )سے کئے تھے وہ سب میرے پائوں کے نیچے ہیں ۔
کیا آپ نے اس اموی خبیث کو ملاحظہ کیا جس نے اپنی جہالت کو واضح کردیا اور اپنے تمام امور کو بیان کر دیا ؟اگر امام حسن علیہ السلام علیہ السلام کی صلح میں یہ عظیم فائدہ نہ ہوتا جو معاویہ کی جہالت اور اس کے خبث با طنی اور سوء سریرہ پر دلالت کر تا ہے اس کی روح میں تو اسلام سما ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے دشمن ابو سفیان کے مشابہ اور اس کی ماں ہندکے مثل تھی جس نے سید الشہدا حضرت حمزہ کا جگر نکال کر داتنوں سے چبایا تھا اور ان کو مثلہ کر دیا تھامعاویہ کو اِن دونوں سے اسلام سے دشمنی اور رسول اسلام سے بغض کرنا ورثہ میں ملاتھا۔
بہر حال امام حسن علیہ السلام نے صلح کا انتخاب فرمایااور شرعی طور پر آپ کو یہی کر نا ہی چا ہئے تھا ،اگر آپ صلح نہ فرماتے تو امت ایسی مشکلات میں گھر جا تی جن کو خدا کے علاوہ اور کو ئی نہیں جانتا ہے ۔
امام حسن علیہ السلام نے صلح نامہ میں معاویہ سے شرط کی کہ اس کا (معاویہ )کا شریعت پر کو ئی قبضہ نہ ہو اس کو امیر المومنین علیہ السلام نہیں کہا جا ئیگا یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ معاویہ شرعی حا کم نہیں ہے اور نہ مو منین کا امیر ہے ، بلکہ وہ ظلم و جور کا حاکم ہے ،اسی طرح آپ نے یہ شرط کی کہ وہ کتاب و سنت کو اپنی سیاست اور سیرت میں شمار نہیں کر ے گا ،اگر آپ معاویہ کے مسلمان ہونے سے مطمئن ہوتے تو کیوں اس کے ساتھ یہ شرط کرتے ،اس کے علاوہ امام نے اس سے دوسری شرطیں بھی کی ہیں ۔
معاویہ نے ایک شرط بھی پوری نہیں کی ،بلکہ ان کو توڑکر وعدہ خلافی کی ،اور ہم نے ان تمام شرطوں کو اپنی کتاب ”حیاةالامام الحسن ”میں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے ۔
صلح کے بعد معاویہ کی سیاست آشکار ہو گئی جو بالکل کتابِ خدا اور اس کے نبی کی سنت کے مخالف تھی ،اس نے نیک اور صالح حجر بن عدی اور عمرو بن الحمق خزاعی جیسے اصحاب کو قتل کیا ،مسلمانوں کوبے آبرو کیا ،عورتوں کو قید میں ڈالدیا ،ان کے اموال چھین لئے ،اور اپنی حکومت میں ابن عاص ابن شعبہ ،ابن ارطات ،ابن حکم ، ابن مرجانہ اور ابن سمیہ جیسے افراد سے مدد لی جس کو اس کے شرعی باپ عبید رومی کا انکار کر کے اس کے فاجر و فاسق باپ ابو سفیان سے ملحق کر دیا گیا تھا،اس طرح کے افراد کو عراق کے شیعوں پر مسلط کر دیا گیا جنھوں نے ان کوسخت عذاب دیا ،ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیا ،ان کی عورتوں کو رسوا کیا،ان کے گھروں کو جلا دیا اور ان کے اموال لو ٹ لئے ۔
اس (معاویہ ) کا سب سے بڑا جرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے فرزند ارجمند امام حسن علیہ السلام کو شہید کرنا تھا ، اس نے امام حسن علیہ السلام کو آپ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث سے زہر دلوایا جبکہ اس کو یہ کہہ کر بہکایا کہ میں تیری شادی اپنے بیٹے یزید سے کر دونگا ، امام کو روزہ کی حالت میں زہر دیدیا گیا جس سے آپ کے جگر کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور آپ کچھ مدت تک زندہ رہے اور اس کے بعد آپ کی روح پرواز کرگئی ،یہ وہ مصائب تھے جن کا گھونٹ معاویہ نے پلایا تھا وہ معاویہ جس کو بعض صحابہ ”کسریٰ عرب ” کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔
انا للّه وانا اليه راجعون
معاویہ نے اپنے جرائم کا اختتام اپنے بیٹے یزید کو مسلمانوں کا خلیفہ بنا کر کیا ،اس کی دین و دنیا میں فساد برپا کرنے کے لئے پرورش کی ،اور اس نے اُن تمام فسادات کاروز عاشورہ کربلا میں،مکہ میں اور یوم حرہ میں ارتکاب کیا اسی طرح کے اور بہت سے جرائم کا ارتکاب کیاجن کے ذریعہ مسلمانوں کو بڑے بڑے مصائب میں مبتلاکردیا جس کی و ہ تاب نہیں رکھتے ہیں ۔
(اقتباس از کتاب :ائمہ اہل بیت علیھم السلام کی سیرت )
Source: http://alhassanain.org/urdu/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button