محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

خصائص فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا

ثاقب علی ( جامعۃ الکوثر)

کائنات کے چار عظیم خواتین:
حضرت آدم سے لیکر آج تک تاریخ انسانیت میں بہت ساری ایسی خواتین ہر دور میں موجود رہی ہیں جن کی عظمت قابل بیان ہے تاریخ نے ان عظیم ہستیوں کے کارنامے، خصائص اور فضائل کو قلم بند کیا۔ ان ہستیوں میں سے چار عظیم خواتین ایسی ہیں جن کو کائنات کی سب سےزیادہ شرف والی مستوارت قراردیا ہے۔
رسالت مآبؐ سے شیعہ اور اہل سنت کی کتب احادیث میں مختلف عبارات کے ساتھ مروی ہے۔
أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَرْبَعٌ خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ وَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ وَ مَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ آسِیَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ
اہل جنت کے عورتوں میں سب سےافضل ترین خواتین خدیؑجہ بنت خویلد،فاطمؑہ بنت محمؐد،مریؑم بنت عمرانؑ اور آسیؑہ بنت مزاحم فرعون کی بیوی ہیں۔(الخصال ص۔٢٠٦)
کائنات کے چار عظیم و بافضیلت خواتین میں سے چوتھا نام خود خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراءؑ کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
ابْنَتِی فَاطِمَةُ فَهِیَ سَیِّدَةُ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ مِنَ الْأَوَّلِینَ وَ الْآخِرِینَ
میری بیٹی فاطمؑہ عالمین کی عورتوں کی سردار ہے۔(امالی شیخ صدوق ص،۴٨۵)
حضرت فاطمہ زہراءؑ:
خاتون جنت،شہزادی کونین،کوثر اہل بیت،محور عصمت،سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہراءؑ کا شمار ان عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے جن کی عظمت و فضیلت پر امت کااجماع ہے۔قرآن کی دسیوں آیات حضرت فاطمہؑ کی شان میں نازل ہوئیں ۔اہل تشیع کے بعض محققین نے قرآن مجید کی 112آیات ذکرکی ہیں جو شہزادی کونین کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ ان میں سے کچھ آیات کی دلالت عمومی ہے لیکن شہزادی کونین ان آیات کے صفِ اول کے مصادیق میں سے ہیں۔اسی طرح اہل سنت مفسرین میں سے بعض نے 40سے زیادہ آیات لکھی ہیں جو شہزادی کونین کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔
مسورابن مخرمہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا
فاطمةُ بضعة منّی فمٙن اعضبھا اعضبنی
فاطمؑہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہؑ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
(صحیح البخاری،حدیث نمبر٣٧١۴،ج2)
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله: إِنَّ اللَّهَ لَیَغْضَبُ لِغَضَبِ فَاطِمَةَ وَ یَرْضَی لِرِضَاهَا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فاطمؑہ کی غضب سے غضبناک ہوجاتا ہے اور فاطمؑہ کی رضا سے راضی ہوتا ہے۔
(عیون اخبار الرضا ص۔۴٨)
حضرت فاطمہ زہراءؑ کے اسماء:
اگر چہ حضرت فاطمہ زہراءؑ نے دنیا میں بہت کم وقت گزارا اور جوانی میں ہی شھید ہوگئی لیکن شہزادی کونین کی یہ مختصر زندگی بہت بابرکت تھی۔ احادیظ میں آپؑ کے بہت زیادہ اسماء اور القابات کا تذکرہ ملتا ہے جن کو ہم ایک روایت نقل کرکے بیان کریں گے۔
حضرت امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ
لِفَاطِمَةَ علیها السلام تِسْعَةُ أَسْمَاءَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَاطِمَةُ وَ الصِّدِّیقَةُ وَ الْمُبَارَکَةُ وَ الطَّاهِرَةُ وَ الزَّکِیَّةُ وَ الرَّاضِیَةُ وَ الْمَرْضِیَّةُ وَ الْمُحَدَّثَةُ وَ الزَّهْرَاءُ
اللہ تعالی کے ہاں جناب فاطمہ کے نو نام ہیں فاطمہ،صدیقہ،مبارکہ،طاہرہ،زکیہ،راضیہ،مرضیہ،محدثہ اور زہراء
(امالی الشیخ الصدوق ص۔٨٢٩)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا محور عصمت و طہارت:
حضرت فاطمة الزہراءؑ کے خصائص و فضائل ہر حوالے بلند پایہ اور منفرد ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء و آئمہ اہل بیتؑ صاحبان عصمت ہیں لیکن جب حضرت فاطمہ کی طرف نظر کرتے ہیں تو فاطمہ کو محور عصمت پاتے ہیں۔ حدیث کساء میں ہے۔
فَقالَ الاْمينُ جِبْراَّئيلُ يا رَبِّ وَمَنْ تَحْتَ الْكِساَّءِ فَقالَ عَزَّوَجَلَّ هُمْ اَهْلُ بَيْتِ النُّبُوَّةِ وَمَعْدِنُ الرِّسالَةِ هُمْ فاطِمَةُ وَاَبُوها وَبَعْلُها وَبَنُوها
جبرائیل امیؑن نے پوچھا:ائے پروردگار اس چادر کے نیچے کون ہیں اللہ تعالی نے جواب دیا یہ نبوت کا خاندان ہے،رسالت کے خزانے ہیں،یہ۔! فاطمؑہ،اسکے بابا،اسکے شوہر اور اسکے بچے ہیں۔
(مفاتیح الجنان ص۔۵٦۴)
اہل بیتؑ میں سے فاطمہ کو محور قرار دے کر اللہ نے اہل بیتؑ کا تعارف کرایا۔یہ پاک ہستیاں کون ہیں ایسا نہیں فرمایا محمؐد ہے ،محمؐد کی بیٹی فاطمؑہ ہے،محمؐد کا داماد علیؑ ابن ابی طالؑب ہے اور محؐمد کے نواسے حسؑن و حسیؑن ہیں بلکہ تعارف یوں ہوا فاطمؑہ ہے اور فاطمؑہ کا بابا ہے،فاطمؑہ کا شوہر ہے اور فاطمؑہ کے دو لعل حسنؑ و حسیؑن ہیں۔
یہی انداز بلکل آیہ مباہلہ میں بھی اختیار کیا گیا ۔
اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُم
اسی انداز میں رسول اللہ مباہلہ کرنے چل پڑے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنیؑن کے ہاتھ پکڑ کر آگے آگے جارہے ہیں پیچھے شہزادی کونین ہے اور ان کے پیچھے علیؑ ابن ابی طالبؑ ہیں۔
فاطمہ ام ابیھا
حضرت فاطمة الزہراء وہ بے مثال بیٹی ہے کہ جس کو ام ابیھا کا لقب ملا تاریخ میں یہ لقب کسی اور ہستی کو نہیں ملا۔وہ بیٹی جس نے اپنے بابا کی اتنی خدمت کی کہ جس کو ام ابیھا یعنی اپنے باپ کی ماں کے لقب جانا گیا۔ ابن البر نے حضرت امام محمد باقر سے نقل کیا ہے
کانت کنیة فاطمة بنت رسول اللہ ام ابیہا
بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمؑہ کی کنیت ام ابیہا تھی۔
(الاستیعاب،ج٢،ص٧۵٣)
جناب سیدہ نے اپنی والدہ ماجدہ کی شہادت کے بعد بچپنے سے اپنے والد کی خدمت کی اور اپنی والدہ کی طرح ہر میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیا ۔ ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے:
مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشْبَهَ سَمْتًا وَهَدْيًا وَدَلًّا. وَفِي رِوَايَةٍ حَدِيثًا وَكَلَامًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَاطِمَةَ كَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ قَامَ إِلَيْهَا فَأَخَذَ بِيَدِهَا فَقَبَّلَهَا وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ وَكَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ إِلَيْهِ فَأَخَذَتْ بِيَدِهِ فَقَبَّلَتْهُ وَأَجْلَسَتْهُ فِي مجلسِها
میں نے رسول اللہ کی ہیٔت ،سیرت و صورت بات چیت میں فاطمؑہ سے زیادہ کسی کو مشابہ نہیں پایا ، جب وہ آتیں تو آپؐ ان کا استقبال کرتے ، آپؐ ان کا ہاتھ پکڑتے اور ان کا (پیشانی پر) بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے ، اور جب آپ ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ بھی آپ کا استقبال کرتیں ، آپؐ کا ہاتھ پکڑتیں اور آپؐ کا بوسہ لیتیں اور آپؐ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔
(مسند احمد،حدیث نمبر ١٠٩٦٨)
حضرت فاطمہ شبیہ پیغمبرؐ:
حناب سیدہ کی ایک اہم خاصیت جس کا ذکر شیعہ و اہل سنت کتب احادیث میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ آپؑ لوگوں میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ سے مشابہ تھیں۔انس ابن مالک سے نقل ہے :
لَمْ یَکُنْ أَحَدٌ اَشْبَہَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَفَاطِمَۃَ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ
لوگوں میں سے سیدنا حسن بن علی اور سیدہ فاطمہ سے بڑھ کر کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ نہیں تھا
) مسند احمد،حدیث نمبر١١٣٧٠)
اگر کوئی انسان ظاہری خد و خال کے حوالے سے کسی عظیم انسان کا مشابہ ہو ٹھیک ہے یہ اس انسان کے خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن فضیلت یہ ہے کہ ایک انسان اسی عظیم کے ساتھ اخلاق ،عادات روحانی خصائص اور عظیم ملکوتی صفات میں اس عظیم انسان کی طرح ہو۔جناب سیدہ صرف ظاہری صورت کے اعتبار کے رسول اللہ کے ساتھ مشابہ نہ تھی بلکہ باطنی صفات و کمالات میں بھی جناب سیدہ رسول اللہ کے مشابہ تھی۔
فاطمؑہ محافظہ رسالت و امامت:
جناب خدیجہ کبرؑی نے حضرت فاطمؑہ کی ایسی تربیت کی کہ جس طرح حضرت خدیجہؑ نے ہر مشکل لمحے میں رسول اللہ کی خدمت کی بعینہ اسی طرح جناب سیدؑہ نے ہر میدان میں اپنے بابا کی خدمت کی اور حفاظت کا یہ سلسلہ علؑی و فاطمؑہ پر ختم نہیں ہوا بلکہ مرج البحرین یلتقیان یخرج منھمالوؑلوؑ و المرجان علؑی و فاطمؑہ کے ملنے سے اللہ نے اپنے دین کی حفاظت و قرآن کی حفاظت کیلئے ولایت و امامت کی صورت میں قیامت تک حفاظت کا نظام بنایا قیامت تک حفاظت دین کا انتظام کیا۔
بعض افراد یہ سوال کرتے ہیں کہ جب مرد گھر میں ہوتے ہیں تو عورت دروازے پر نہیں آتی۔اگر بعض افراد علیؑ و فاطمؑہ کے در پر آئے اور دھمکی دی کہ اگر علیؑ باہر نہیں نکلے تو دروازے کو آگ لگادیں گے اب اس صورت میں مناسب تھا کہ علؑی دروازے پر آتے نہ کہ فاطمؑہ؟
اس سوال کا جواب ہمیں دینے کی ضرورت نہیں بلکہ فاطمؑہ نے اپنے عمل سے اس سوال کا جواب دیا کہ علؑی جب میرے بابا رہبر و رہنما تھے تو آپؑ نے اس کی حفاظت کی جس نے محمؐد کو للکارا میدان میں علؑی اترے جواب علیؑ نے دیا آج آپ رہبر و رہنما ہے آج آپؑ زمانے کے امام ہیں میں محمؐد کی لخت جگر تیری حفاظت کروں گی اور ولایت و امامت کی اثبات پر سب سے پہلی قربانی پیش کروں گی۔
علؑی و فاطمؑہ:
امیر المومنین حضرت امام علیؑ اور شھزادی کونین حضرت فاطمہ زہراءؑ وہ ہستیاں ہیں کہ جن کی تربیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی۔ بعض افراد نے رشتے کا پیغام بھی بھیجا تھا لیکن رسول اللہ مولا علؑی کی پیغام کے انتظار میں تھے۔بعض روایات میں آیا ہے کہ اگر علی نہ ہوتا تو فاطمہ کا کوئی ہمسر نہ ہوتا۔حضرت امام صادقؑ فرماتےہیں:
لَوْ لَا أَنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ علیه السلام تَزَوَّجَهَا لَمَا کَانَ لَهَا کُفْوٌ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ عَلَی وَجْهِ الْأَرْض
اگر امیر المومنین علی ابن ابی طالب فاطمہ سے ازدواج نہ کرتے تو روئے زمین پر قیامت فاطمہ کا کوئی ہمسر نہ ہوتا۔
(بحار الانوار،ج،،۴٣ص١٠)
امام علؑی جنگ میں شریک ہوتے تو زخموں پر مرحم لگانے والی فاطمؑہ ہوتی، علؑی کے خون آلود لباس کو فاطمؑہ دھوتی مولا علی خود جناب سیدہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
فَوَ اللَّهِ مَا أَغْضَبْتُهَا وَ لَا أَکْرَهْتُهَا عَلَی أَمْرٍ حَتَّی قَبَضَهَا اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَا أَغْضَبَتْنِی وَ لَا عَصَتْ لِی أَمْراً وَ لَقَدْ کُنْتُ أَنْظُرُ إِلَیْهَا فَتَنْکَشِفُ عَنِّی الْهُمُومُ وَ الْأَحْزَانُ
اللہ کی قسم میں نے انکی زندگی میں کبھی ان پر غصہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے کسی معاملے میں ان کو ناراض کیا یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رحلت کر کے بارگاہ الہی میں پہنچ گئیں، اور نہ ہی وہ کبھی مجھ پر ناراض ہوئیں اور نہ کبھی میری کسی بات پر بر ہم ہوئیں اور نہ ہی انہوں نے میری نافرمانی کی، جب میں ان پر اپنی نگاہ ڈالتا تو میرے غم و آندوھ ختم ہو جاتے اور مجھے سکون مل جاتا۔
(بحار الانوار، ج ۴۳،ص١٣۴)
باالفاظ دیگر اگر مولا علی اللہ کی راہ میں جھاد کرتے تھے تو فاطمہ بھی اپنی جگہ جہاد میں مصروف تھی وہ الگ بات کہ میدان الگ الگ تھے امام صادق فرماتے ہیں:
جِهَادُ الْمَرْأَةِ حُسْنُ التَّبَعُّلِ
عورت کیلئے جہاد مرد کی خدمت ہے۔
(من لا یحضرہ الفقیہ،ج۴،ص٢٩٨)
ایمان فاطمہؑ:
شھزادی کونین حضرت فاطمہ زہرؑاء صفات عالیہ کا مجموعہ ہیں۔حضرت فاطمہ زہؑراء ایمان کےاعلی درجے پر فائز ہیں محمد مصطفؐی جناب سیؑدہ کے ایمان کے بارے میں فرماتے ہیں :
إِنَّ ابْنَتِی فَاطِمَةَ مَلَأَ اللَّهُ قَلْبَهَا وَ جَوَارِحَهَا إِیمَاناً وَ یَقِیناً
بے شک اللہ تعالی نے میری بیٹی فاطمہ کا دل اور باطن ایمان و یقین بھر دیا ہے۔
(بحار الانوار ج ۴٣،ص٢٩)
عبادت فاطمہؑ:
حضرت فاطمة الزہراء گھر کے کام کرنے اور بچوں کی پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ رات دن میں ایک اچھا خاصہ وقت اللہ تعالی کی عبادت میں گزارتی تھیں۔جناب سیدہ عبادت خدا کو تمام کاموں سے زیادہ ترجیح دیتی تھی۔ حسن بصری فرماتے ہیں کہ:
ما کَانَ فِی هَذِهِ الْأُمَّةِ أَعْبَدَ مِنْ فَاطِمَةَ کَانَتْ تَقُومُ حَتَّی تَوَرَّمَ قَدَمَاہ
اس امت میں کسی نے فاطمؑہ جتنی عبادت نہیں کی۔فاطمؑہ عبادت خدا میں اتنی کھڑی رہتی حتی کہ آپؑ کے پاوں میں ورم پڑ جاتے۔
(بحار الانوار ج۴٣،ص٨۵)
حضرت امام حسنؑ فرماتے ہیں کہ
رَأَیْتُ أُمِّی فَاطِمَةَ علیها السلام قَامَتْ فِی مِحْرَابِهَا لَیْلَةَ جُمُعَتِهَا فَلَمْ تَزَلْ رَاکِعَةً سَاجِدَةً حَتَّی اتَّضَحَ عَمُودُ الصُّبْحِ وَ سَمِعْتُهَا تَدْعُو لِلْمُؤْمِنِینَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ
وَ تُسَمِّیهِمْ وَ تُکْثِرُ الدُّعَاءَ لَهُمْ وَ لَا تَدْعُو لِنَفْسِهَا بِشَیْ ءٍ فَقُلْتُ لَهَا یَا أُمَّاهْ لِمَ لَا تَدْعِینَ لِنَفْسِکِ کَمَا تَدْعِینَ لِغَیْرِکِ فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ الْجَارَ ثُمَّ الدَّارَ
میں نے شب جمعہ کو اپنی والدہ فاطمؑہ کو محراب عبادت میں عبادت کرتے دیکھا،یہاں تک عبادت میں مشغول رہی حتی کہ صبح نمودار ہوئی اور میں نے سنا کہ وہ مومنین و مومنات کیلئے نام کرتی ہے اور بہت زیادہ دعا کی لیکن اپنے لیے کوئی دعا نہیں کی۔امام حسنؑ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا آئے ماں آپ اپنے لئیے کوئی دعا کیوں نہیں کی ۔جناب سیدہ نے جواب دیا آئے میرے بیٹے پہلے پڑوسی ہیں پھر گھر والے ہیں۔
(بحار الانوار ج، ۴٣ص٨٢)
علم فاطمہ:
جب علم کے میدان میں جناب سیدؑہ کو دیکھتے ہیں تو علیؑ کا ہم پلہ پاتے ہیں بہت سارے علماء جناب سیؑدہ کے خطبہ فدک کو مولا علؑی کے نہج البلاغہ میں موجود خطبات کا ہر حوالے سے مساوی قرار دیتے ہیں۔ فضیل حضرت امام صادقؑ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
دَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ يَا فُضَيْلُ أَ تَدْرِي فِي أَيِّ شَيْ‏ءٍ كُنْتُ أَنْظُرُ قُبَيْلُ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ كُنْتُ أَنْظُرُ فِي كِتَابِ فَاطِمَةَ ع لَيْسَ مِنْ مَلِكٍ يَمْلِكُ الْأَرْضَ إِلَّا وَ هُوَ مَكْتُوبٌ فِيهِ بِاسْمِهِ وَ اسْمِ أَبِيهِ وَ مَا وَجَدْتُ لِوُلْدِ الْحَسَنِ فِيهِ شَيْئاً
فضیل فرماتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں آیا تو آپؑ نے فرمایا تم جانتے ہو کہ میں تمہارے آنے سے پہلے کیا دیکھ رہا تھا ، میں نے کہا نہیں ۔ فرمایامیں مصحف فاطمؑہ دیکھ رہا تھا اس میں تمام بادشاہوں کے نام مع ان کے باپ کے ناموں کے لکھے ہیں میں نے ان میں اولاد امام حسؑنؑ کا کوئی نام نہ دیکھا ۔
(الکافی،ج١،ص٢۴٢)
ایثار فاطمؑہ:
جناب سیدہ کے چند نمایاں خصائص و صفات میں سے ایک اہم خصوصیت اللہ کی راہ میں ایثار و قربانی ہے گویا کہ اللہ کی راہ میں ایثار و قربانی کا جذبہ شھزادی کونین کو والدین کی طرف سے وراثت میں ملا ہوا تھا۔جناب سیدہ نے اللہ کے راہ میں کسی بھی قسم کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا حتی کہ اللہ تعالی کی راہ میں،دین خدا و ولایت علی کی دفاع میں شھادت کے درجے پر فائز ہوگئی۔ایک روایت میں آیا ہے کہ جناب سیدہ نے اپنی عروسی کا جوڑا بھی ایک غریب کو دیا۔
(فاطمة الزہراء من المھد الی اللحد،ص،١۴٠)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button