اہل سنت علماء کی نظر میں امام صادقؑ کی عظمت

امام جعفر صادقؑ کا علمی، روحانی اور اخلاقی مقام اہل اسلام کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کے اقوال، ان کا اسلوب زندگی، ان کا حلم، ان کی عبادت سب مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔ اہل سنت و اہل تشیع سبھی ان کی عظمت کے معترف ہیں۔
17 ربیع الاول 83 ہجری کو ایک ایسا ستارہ مدینہ کی فضاؤں میں طلوع ہوا جس نے علم، تقویٰ اور حقیقت پسندی کا چراغ روشن کیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام، جو امام محمد باقر علیہ السلام کے فرزند اور حضرت علی علیہ السلام کی نسل سے ہیں، نہ صرف شیعہ مکتب کے چھٹے امام ہیں بلکہ اہل سنت کے جلیل القدر علماء نے بھی ان کی علمی، اخلاقی اور روحانی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔
اہل سنت علماء کی نظر میں امام صادقؑ
1۔ابوحنیفہ (بانی فقہ حنفیہ) کا قول ہے:
"ما رأيت أفقه من جعفر بن محمد” یعنی میں نے جعفر بن محمد سے زیادہ فقیہ کسی کو نہیں پایا۔
(سیر اعلام النبلاء، ج6، ص257)
2۔محی الدین نووی لکھتے ہیں:
"تمام علماء ان کی امامت، بزرگی اور سیادت پر متفق ہیں۔” انہوں نے امام کو دیکھ کر کہا:
"مجھے یقین ہوتا کہ یہ نبیوں کی نسل سے ہیں۔”
(تہذيب الأسماء واللغات، ج1، ص149)
3۔ ابن تیمیہ جیسا سخت گیر عالم بھی اعتراف کرتا ہے:
"جعفر بن محمد جیسا کوئی نہیں آیا، کئی آئمہ نے ان سے علم حاصل کیا۔”
(منہاج السنة، ج4، ص126)
4۔خیر الدین زرکلی اور محمد ابو زہرہ جیسے اہل سنت مؤرخین نے امام صادقؑ کو علمی میدان کا امام، تقویٰ کا پیکر اور خلفائے وقت کے ظلم کے خلاف علَم حق بلند کرنے والا قرار دیا ہے۔
(الاعلام، ج2، ص126؛ الامام الصادق، ص3-4)
امام صادقؑ کی کرامات
منصور دوانیقی نے جادوگروں کو امام پر مسلط کیا، لیکن امام کی دعا سے شیر کی صورت اختیار کیے جادو، اپنے خالقوں کو ہی نگل گئے۔
(مدینة المعاجز، ج5، ص246)
آزمائشِ وفا:
امام نے اپنے ایک شاگرد "ہارون مکی” کو جلتے تنور میں داخل ہونے کا حکم دیا، اور وہ بغیر کسی تردّد کے تنور میں چلا گیا۔ جب باہر نکالا گیا تو بالکل صحیح و سالم تھا، امام نے کہا:
"جب ایسے وفادار پانچ افراد بھی نہ ہوں، تو قیام کس کے ساتھ کریں؟”
(مناقب آل ابی طالب، ج4، ص237)
چوب طوبیٰ کی کرامت:
ایک شخص نے دعا کی تو امام نے حضرت خضرؑ کے ذریعے جنتی درخت طوبیٰ کی لکڑی بھجوائی، جس سے اس کا قریب المرگ بھائی شفا یاب ہوا۔ بعد میں امام نے وہی لکڑی اس کو دکھائی۔
(المناقب، ج4، ص240)
امام صادقؑ کا مقام علمی
امام صادق علیہ السلام نے اسلامی علوم میں بے شمار شاگردوں کو پروان چڑھایا، جن میں اہل سنت کے بڑے آئمہ، جیسے امام مالک اور امام ابوحنیفہ شامل ہیں۔ ان کے دربار میں فقہ، تفسیر، حدیث، طب، کیمیا، فلکیات اور منطق جیسے علوم پڑھائے جاتے تھے۔
امام کی تعلیمات میں قرآن و سنت کی اصل روح کو زندہ رکھنے کی کوشش نمایاں ہے۔ ان کا کردار علم و عمل کا امتزاج تھا، اور وہ ہر سیاسی مفاد سے بالاتر ہوکر صرف اللہ کی رضا اور حق کی سربلندی کے لیے سرگرم رہے۔
آپ کی شہادت ۲۵ شوال ۱۴۸ ہجری کو منصور عباسی کے حکم پر ہوئی۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
https://ur.hawzahnews.com/xdDWd