محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

انسیہ حوراء جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے مناقب

مناقب منقبت کی جمع ہے اور یہ اعلی و ارفع ان چیزوں کے معنی میں ہے کہ جن پر لوگ ناز کرتے ہیں اور ان سے شرافت پاتے ہیں۔ کیونکہ نقب مادہ کے بہت سے معانی ہیں جیسے پھر نا ، بحث کرنا تلاش و جستجو کرنا،گواہ ہونا سوراخ کرنا، صدارت کا حامل ہونا جیسے نقیب اور نقباء بنی اسرائیل(المائدہ:12) یہاں پردوسروں پر افضلیت اور شرافت رکھنے کے معنی میں ہے۔ جب میں نے کتاب فضائل الزّہراءمکمل کرلی تو میرے پاس علامہ امینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب "فاطمہ” آئی میں نے دیکھا کہ انہوں نے فاطمہ زہراء کے چالیس مناقب ذکر کئے ہیں۔ علامہ امینی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کہ جنہوں نے کتاب الغدیر تحریر کی اور ان کا حق ادا نہیں ہوا ہے، ان چالیس مناقب کو دیگر گیارہ مناقب کے ساتھ روز و شب کی نماز وں کی تعداد کے مطابق اکاون مناقب کی صورت میں یہاں ذکر کر رہا ہوں۔
1۔ زہراء کی خلقت آدم سے پہلے ہوئی اپنے والد شوہر اور بیٹوں کی مانند وہ انوار تھیں جو خدا وند متعال کی تسبیح و تقدیس کرتی تھیں : خِلْقَتُھَا قَبْلَ النَّاسِ شَأنُ اَبِیھَا وَبَعْلِھَا وَبَنِیْھَا وَھُم اَنوَارٌ یُسَبِّحُونَ اللّٰہَ وَیُقَدِّسُونَہُ وَیُھَلِّلُونَ وَیُکَبِّرُونَہُ پہلے باب میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔
خَلْقُھَا من نُورِ عَظَمَۃِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ وَھِیَ ثُلْثُ النُّورِ الْمَقْسُومِ بَیْنَھَا وَبَینَ اَبِیْھَا وَبَعْلِھَا وھُوَ نُورٌ مُخْزُنٌ مَکْنُونٌ فِی عِلْمِ اللّٰہِ
ان کی خلقت خداوند متعال کی عظمت کے نور سے ہے اور اپنے اور اپنے والد اور شوہر کے درمیان تقسیم ہونے والے نور کا تیسرا حصہ ہیں اور یہ نور خد اکے علم کے خزانے میں چھپا ہواہے۔
عِلَّتُھَا فِی خَلقِہِ السَّمَاءِ وَالاَرضِ وَالجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَالعَرشِ وَالْکُرسِیِّ وَالمَلآئِکَۃِ وَالاِنسِ وَالجِنِّ شَأنُ اَبِیھَا وَبَعَلِھَا وَبَنیھَا ان کا آسمان زمین جنت دوزخ عرش کرسی فرشتوں اور جن و انس کی خلقت کی وجہ ہونا اپنے والد شوہر اور بیٹوں کی شان میں شریک ہونا ہے کہ اگر یہ نہ ہوتے تو آسمان و زمین اور جنت ودوزخ کی مخلوق اور دوسری کوئی بھی مخلوق نہ ہوتی نہ ہی اسلام اور توحید کی کوئی خبرہوتی۔ ان تینوں مناقب کی تفصیل پہلے باب میں بیان کی گئی ہے۔
تَسمِیَتُھَا مِنْ عِندِ رَبِّ العِزَّۃِ شَأنُ اَبِیْھَا وَبَعْلِھَا وَبَنِیْھَا خداوند تبارک تعالیٰ کے نزدیک ان کانام رکھنا بھی ان کے والد،شوہراوربیٹوں کی شان ہے اور یہ دو مناقب ہیں۔ نام رکھنا اور نام خدا سے جد اہونا یہ امر دلالت کرتا ہے کہ پنجتن پاک کا خود سے کوئی اختیار نہیں ہے اور ان کے تمام امور حتی ان کے ناموں کا انتخاب بھی خداوند سے مربوط ہے اور اس نے کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں دی۔ رسول اکرمﷺ کو بھی اجازت نہیں تھی کہ وہ خود سے فاطمہؑ اور حسنینؑ کے نام رکھیں۔اور اسی طرح مولود کعبہ علی بن ابی طالبؑ کا نام رکھنے کی پیغمبرﷺ اور ابو طالبؑ کو اجازت نہیں تھی اور درحقیقت یہ دو مناقب ہیں ایک خدا کے نام سے مشتق ہونا اور دوسرا حق تعالیٰ نے نام رکھا۔
اِشتِقَاقُ اِسمِھاَ مِنْ اَسمَاءِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعالٰی شَانُ اَبِیْھَا وَ بَعْلِھَا وَبَنِیْھَا ان کا نام خدا وند تبارک و تعالیٰ کے ناموں سے مشتق ہونا، اس میں وہ اپنے والد، شوہر اور بیٹوں کی شا ن میں شریک ہیں کہ کسی کو بھی یہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہے اور اس منقبت کی تفصیل دوسرے باب میں بیان کی گئی ہے۔
تَوَسُّلُ الاَنبِیَاءِ بِھَا وَبِاِسْمِھَا شَانُ اَبِیْھَا وَ بَعْلِھَا وَبَنِیھَا انبیاء کا ان کی ذات اور نام سے توسل کرنا اس شان میں وہ اپنے والد شوہر اور بیٹو ں کے ساتھ شریک ہیں۔ اور ان سے تمسک کرنا انبیاء ،اوصیاء اور دیگر افراد کی مشکلات سے نجات کا وسیلہ ہے۔ ان کے بارے میں آیا ہے : مَن آمَنَ بِھَا فَقَد نَجیٰ وَمَن لَم یُؤمِن بِھَا فَقَد ھَلَکَ جو ان پر ایمان لایا وہ نجات پاگیا اور جو ایمان نہیں لایا وہ ہلاک ہوگیا۔
کِتَابۃُ اِسمِھَا عَلیٰ سَاقِ العَرشِ وَاَبوَابِ الْجَنَّۃِ لِدَۃُ اَبِیْھَا وَبَعْلِھَا وَبَنِیْھَا اپنے والد، شوہر اور بیٹوں کے ساتھ ان کے نام کا عرش کے پائے اور جنت کے دروازوں پر لکھا جانا انتہائی حیرت انگیز ہے کیونکہ کسی بھی پیغمبر فرشتے وصی اور مخلص بندے کو یہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہے۔ پہلے باب میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔
8۔فاطمہ ان کلمات میں سے ہے جو حضرت آدمؑ نے اپنے پرودرگار سے سیکھے اور حضرت ابراہیمؑ کا بھی انہی کلمات سے امتحان لیا گیا یعنی محمد، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام جیسا کہ سولہویں باب میں گزر چکاہے۔
کُونُھَا شَبَحاً عَنْ یُمنَۃِ العَرشِ وَصُورَۃُ فِی الْجَنَّۃِ رَدِفَ اَشْبَاحِ اَبِیھَا وَبَعْلِھَا وَ بَنِیْھَا وَصُورھُم زہراء کا عکس عرشِ الہی کے دائیں جانب اور ان کی تصویربہشت میں اپنے والد ،شوہر اور بیٹوں کی تصویروں کے ساتھ ہے۔ خداوند عالم نے نہ صرف پنجتن پاک کے مقدس ناموں کو عالم بالا کی زینت قرار دیا ہے بلکہ ان کی نورانی تصویروں سے اپنے عظیم عرش اور بہشت کو مزین فرمایا ہے اور عرش بریں کی دائیں جانب کو زینت بخشی ہے۔ لہذا آدم جب عرش کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کو پنجتن کی تصاویر اور عکس نظر آتی ہیں اور جب وہ بہشت کی طر ف رخ کرتے ہیں تو وہ ان کی خوبصورت تصاویر کا مشاہدہ کرتے ہیں اور وہ جدھر دیکھتے ہیں انہیں ان کے جلال و جمال کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔
10۔جناب فاظمہ زہراءؑ پروردگارکا ہدیہ اور تحفہ ہیں اپنے حبیب خاتم الانبیاء محمد مصطفیﷺ کے لئے ،جیسا کہ چوتھے باب میں تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔
11۔خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰﷺ جیسی ہستی کو ان کا باپ اور خدیجۃ الکبریٰؑ جیسی خاتون کوان کی ماں قرار دیا۔ کائنات نے کسی کا ایساباپ دیکھا ہے اور نہ ہی دیکھے گا۔
12۔ کَانَت یُحَدِّثُ اُمَّھَا فِی بَطنِھَا وَتَعبرھَا رحمِ مادر میں ماں سے باتیں کرنا، اُن کی مونس و ہمدم ہونا اور انہیں بشارت دینا ان سب کی تفصیل چوتھے باب میں بیان کی گئی ہے۔
13۔ رسول خدا کو اس بات کی بشار ت ان کی پاک نسل ان کی دختر سے چلے گی۔
14۔بہشتی عورتیں بہشتی حوروں کے ساتھ ان کے ہاں ولادت کے وقت ان کی مدد کے لئے آئیں اس فضیلت میں وہ ممتاز ہیں۔
15۔وِلاَدَتُھَا طَاہِرَۃٌ وَ مُطَھَّرَۃٌ زَکِیَّۃٌ مَیمُونَۃٌ نَقِیَّۃٌ کَمَا یَعْتَقِدُ فِی الْاَءِمَّۃِ الاَطھَارِ ان کی ولادت ائمہ اطہارؑ کی مانند پاک و پاکیزہ تھی۔
16۔ دُخُولُ نُورِھَا حِینَ وُلِدَت بُیُوتَاتِ مَکَّۃَ کَوِلاَ دَۃِ اَبِیْھَا زہراءؑ کی ولادت کے وقت ان کا نور اپنے والد کی ولادت کی مانند پورے مکہ کے گھر وں میں اور مشرق و مغرب میں پھیل گیا۔ گویا اس نور افشانی سے خداوند عالم نے پوری دنیا کو بتا دیا  کہ دنیا کی ہدایت ورہنمائی کے لئے ایک ہستی تشریف لائی ہے۔
17۔ ولادت کے وقت فاطمہ زہراءؑ کا پروردگار ،خاتم الانبیاءﷺ اور ائمہ معصومینؑ کو پہچاننا اور ان کے ناموں سے انہیں سلام کرنا: عِرْفَانُھَا رُسُلَ رَبِّھَا اِلَیھَا عِندَ وَلادَتِھَا وَالتَّسلِیمِ عَلَیھَا بِاَسماءِھَا یہ بالا ترین معجزہ ہے اور بہشتی عورتوں کو مخاطب کیا : یَاسَارَۃُ اَلسَّلاَمُ عَلَیکِ، یَامَریَمُ اَلسَّلاَمُ عَلَیکِ
18۔ تَکَلُّمُھَا الشَّھَادَتَینَِ حِینَ الوِلاَدَۃِ وَبِذِکرِالمُؤمِنِینَ وَاَولَادہِِالاَسبَاطِ کَالاَءِمَّۃِ امیر المؤمنینؑ اور ائمہ اطہارؑ کی مانند ولادت کے وقت ان کاشہادتین کہنا۔
19۔ فاطمہ زہراءؑ کا ائمہ اطہارؑ کی مانند ہر روز ایک ماہ کے برابر اور ہر ماہ ایک سال کے برابر رشد ونمو کرنا۔
20۔ تُبَشِّرُ اَھْلُ السَّمَاءِ بَعْضُھُمْ بَعضًا کَمَا فِی رَسُولِ اللّٰہِ وَالْاِءِمَّۃِ اہل آسمان کا ان کی ولادت کے وقت ایک دوسرے کو مبارکباد دینا جیسا کہ رسول اللہﷺ ا ور ائمہؑ کی ولادت پر انہوں نے مبارکباد دی تھی۔
21۔ اِشتِرَاکُھَا مَعَ اَبِیھَا وَبَعْلِھَا وَبَنِیھَا فِی العِلمِ بِمَا کَانَ اَو یَکُونُ وَ مَالَم یَکُن اِلیٰ یَومِ القِیَامَۃِ گزشہ اور آئندہ قیامت تک کے واقعات کا علم رکھنے میں اپنے والد، شوہر اور بیٹوں کے ساتھ شریک ہونا۔
22۔ اِشتِرَاکُھَافِی العِصمَۃِ وَدُخُولُھَا فِی آیَۃِ التَّطھِیرِ عصمت میں ان کا شریک ہونا اور آیت تطہیر میں داخل ہونا۔
23۔اِشتِرَاکُھَافِی الاِھتِدَاءِ وَالاِقتِداءِ وَالتَّمَسُّکِ بِھَارَدِفِ اَبِیْھَا وَبَعْلِھَا وَبَنِیھَا تمام افراد چاہے وہ لوگ جو خاتم الانیاءﷺ پر ایمان لائے ہیں اور ان کی بیعت کی ہے یا وہ لوگ جنہوں نے آنحضرتﷺ کی اطاعت میں سرتسلیم خم کیا ہے اور ان کے فرمان کے مطابق علیؑ اور ان کی اولاد کی امامت کو قبول کیا ہے، ناگزیر ہیں کہ حضرت فاطمہؑ کو ہدایت و اقتداء کے مرجع کے طور پر قبول کریں اور مشکلات میں (انکے والد،شوہر اور بیٹوں کی مانند) ان کی پناہ میں آئیں اور ان سے تمسک و توسل کریں۔
24۔ فِی وُجُوبِ حُبِّھَاکَحُبِّ بَعِلِھَا وَاَبِیھَا وَبَنِیھَا اَجرِ الرِّسَالَۃِ الخَاتِمَۃِ زہراءؑ کی مودت ان کے شوہر اور بیٹوں کی مودت کی مانند (کہ جو خاتم الانیاءﷺ  کی رسالت کا اجر ہے)تمام لوگوں پر واجب ہے رسول خداﷺ فرماتے ہیں: خد انے مجھے ان چاروں سے دوستی اور محبت کاحکم دیا ہے۔ علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام سے دوستی اور محبت اس لئے واجب ہے کہ ان چاروں میں سے ایک رسولﷺ کے داماد دوسری بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ بلکہ رسول خداﷺ  کو بھی دوسرے تمام لوگوں کی مانند فاطمہؑ  کی ولایت کا معتقد اور معترف ہونا چاہئے۔ اور اس کی گواہی دینی چاہئے۔
25۔ کُونُھَا مِنَ الاَمَانَۃِ المَعْرُفَۃِ عَلَی السَّمٰواتِ وَالاَرضِ وَالجِبَالِ وہ امانت جو خدا وند متعال کی جانب سے آسمانوں زمین اور پہاڑوں کے سامنے رکھی گئی لیکن وہ اس امانت کا بوجھ نہ اٹھاسکے اور اسے قبول کرنے سے انکار کردیا لیکن بشر نے اسے قبول کرلیا یہ پنجتن پاک کی ولایت تھی اور فاطمہ زہراءؑ اس امانت کا ایک جزء ہیں۔ سولہویں باب میں اس کا ذکر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس امانت کی تفصیل سرمایہ  سعادت و نجات صفحہ ۱۴۰ تا ۱۴۶بیان کی گئی ہے۔
26۔ اِشتِرَاکُھَامَع رَسُولِ اللّٰہِ فِی الرُّکنِیَّۃِ لَعَلِیِّ بنِ اَبِی طَالِبٍ فاطمہ زہراءؑ مقامِ رکنیت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے ساتھ شریک تھیں۔ اس کی تفصیل ساتویں باب میں بیان کی گئی ہے۔
27۔ اِشتِرَاکُھَا فِی تَطھِیرِ مَسجِدِ رَسُولِ اللّٰہِ لَھَا نَظِھیرَ بَعِلِھَا وَاَبِیھَا وَبَنِیھَا انہیں اپنے والد، شوہر اور  بیٹوں کی مانند مسجد نبوی میں داخل ہونے کی اجازت تھی اور وہ ہرزمانے میں اور ہر حال میں پاک تھیں جوعصمت و طہارت اور ولایت کا ثمرہ ہیں۔
28۔ کُونُھَا مُحَدِّثَۃٌ کالاَءِمَّۃِ اَمِیرِ المُؤمِنِینَ وَاَولاَدِہِ وہ ائمہؑ کی مانند محدثہ تھیں۔ فرشتے ان سے باتیں کرتے تھے اس کے باوجود کہ وہ منصبِ امامت پر فائز نہ تھیں۔
29۔ اِشتِرَاکُھَا مَع اَمِیرِ المُؤمِنِینَ وَاَولاَدِہِ فِی التَبشِیرِ بِشِیعَتِھَا وَمحِبِّیھَا جس طرح رسول اکرمﷺ نے علیؑ اور گیارہ ائمہؑ کے شیعوں اور دوستداروں کو فلاح و کامیابی کی بشارت دی ہے اسی طرح بہت سے مقامات پر فاطمہؑ کے محبوں کو بھی عذاب سے نجات و رہائی کی بشارت دی ہے۔
30۔ اِطِّلاعُ اللّٰہِ عَلی الَارض وَ اختیارُ ھَا عَلَی النِّسَاءِ العَالِمِینَ کاِطلاَعِہِ عَلَی الاَرضِ وَاختِیَارِاَبِیھَا وَ بَعِلِھَاوَبَنِیھَاوَوُلدِھَاالاَءِمَّۃِ
پیغمبر اکرمﷺ واضح طور پر فرماتے ہیں کہ خداوند تبارک وتعالیٰ نے ایک بار زمین پر نظر ڈالی تو اولین اور آخرین میں سے مجھے چن لیا۔ دوسری دفعہ علیؑ کو اور تیسری نظر میں ان کی معصوم اولادؑ کو اور چوتھی بار نظر کی تو تمام عالمین کی عورتوں میں سے فاطمہ زہراءؑ کا انتخاب کیا۔ پس جس طر ح محمد، علی، حسن اور حسین علیہم اسلام خدا کی برگزیدہ ہستیاں ہیں اسی طرح فاطمہ زہراءؑ بھی خدا کی برگزیدہ ہستی ہیں۔
31۔ فِی کُفُوِیَّتِھَا مَعَ عَلی فِی المَلکَاتِ وَ والنفَانیَاتِ وَاِ نْ لَم یُخلَق عَلِیّ لَم یَکن لَھَاکُفوٌ مِن آدَمِ وِمِن دُونَہَ معنوی اقدار اور صفات میں فاطمہؑ کا علیؑ کاکفو اور ہمسر ہونا ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ فرماتے ہیں : اگر فاطمہؑ  پیدا نہ ہوتیں تو علیؑ کا کوئی ہمسر نہ ہوتا اسی طرح اگر علیؑ  پیدا نہ ہوتے تو فاطمہؑ کا نہ صرف موجودہ زمانے میں بلکہ آدمؑ اور اولاد آدم میں سے کوئی بھی زہراءؑکا ہمسر نہیں ہے اور صرف علیؑ ہی زہراءؑ کے کفو اور ہمسر ہیں۔ (اور یہ دونوں ہستیاں مقامات عالیہ اور ملکاتِ فاضلہ میں برابر ہیں اور یہی حدیث اپنے والدکے علاوہ تمام انبیاءعلیہماسلام پر فاطمہ زہراءؑ کی فضیلت و برتری کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
32۔ ان کا عقد آسمان پرہوا پوری کائنات میں فاطمہ زہرا ءؑ کے سوا کسی اور کاعقد آسمان پر نہیں ہوا۔
33۔ دُخُولُھَا فِی فَضلِ سُورَۃِ ھَل اَتٰی مَعََ بَعِلِھَاوَبَنِیھَا فاطمہ زہراءؑ علی ،حسن اور حسین علیہم السلام کے ساتھ سورہ ھل اتیٰ کی فضیلت میں شریک ہیں۔
34۔دُخُولُھَا فِی آیَۃِ المُبَارِکَۃِ بَینَ اَبنَاءَنَا وَ اَنفُسَنَا فاطمہ زہراءؑ ان افرادمیں شامل ہیں جن کی شان میں آیتِ مباہلہ نازل ہوئی یعنی انفسنا محمﷺد اور علیؑ، ابنائنا حسن او ر حسین علیہم السلام اور نسائنا فاطمہؑ ہیں۔
35۔ فِی اَفضَلِیَّتِھَا عَلَی المَلاَ ئکَۃِ وَ الجِنِّ وَالاِنسِ کَاَبِیھَا وَبَعْلِھَا وَبَنِیھَا وہ اپنے والد، شوہر اوربیٹوں کی مانند فرشتوں اور جن وانس پر فضیلت اور افضلیت رکھتی ہیں۔
36۔یعرف اللّٰہُِ قَدرَھَا کَمَا یعرفُ قَدرَ اَبِیھَا وَبَعْلِھَاوَبَنِیھَا خدا نے ان کی قدر سے آگا ہ کیا ہے جیسا کہ ان کے والد، شوہر اور بیٹوں کی قدرکو قیامت کے دن بیان کیا ہے۔
37۔سنی اورشیعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام میں جوا حکام پیغمبر اکرمﷺ سے محبت و دشمنی ، جنگ و دشنام اور انہیں آزار و اذیت دینے کے بارے میں ہیں وہ فاطمہؑ کے باے میں بھی جاری ہیں۔
38۔کفر مَن اَبغَضَ فَاطمَۃَ کَاَبِیھَا وَبَعْلِھَاوَبَنِیھَا علماء نے فتوی دیا ہے کہ جو بھی پیغمبر اکرمﷺ یا علیؑ سے دشمنی رکھتا ہے وہ کافر ہے اس حکم میں فاطمہؑ اپنے والد اور شوہر علیؑ کے ساتھ شریک ہیں یہ کیسے ہوسکتاہے جوہستی مقامِ ولایت کی مالک ہو اس سے دشمنی کفر نہ ہو۔
39۔اِشتِرَاکُھَا معَ کَاَبِیھَا وَبَعْلِھَاوَبَنِیھَا فِی دَرَجَۃِ الوَسِیلَۃِ فِی الجَنَّۃِ جنت میں داخل ہونے کے وسیلے کے درجے میں وہ اپنے والد اور شوہر کے ساتھ شریک ہیں۔ پنجتن پاکؑ کے سوا انبیاء، اولیاء، مرسلین، صالحین اور مقرب فرشتوں میں سے کسی کو یہ اعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہے۔
40۔رُکُوبُھَا کَاَبِیھَِا یَومَ القِیَامَۃِ اَبِیھَا وَبَعلِھَاوَبَنِیھَا ا پنے والد، شوہر اور بیٹوں کی مانند قیامت کے دن سواری پر سوار ہونا۔
41۔رسول اکرمﷺ نے فرمایا (اے فاطمہؑ) قیامت کے دن میں جبرئیل کا دامن تھاموں گا۔ میری بیٹی میرا دامن اور علیؑ فاطمہؑ کا دامن اور ان کے گیارہ فرزند علیؑ  کا دامن تھامیں گے۔
42۔کونُھَا شَفِیعَۃُ کُبریٰ یَومَ القِیَامَۃِ لِشِیعَتِھَا وَمُحِبِّیھَا کاَبِیھَا وَبَعلِھَاوَبَنِیھَا
43۔فاطمہ زہراءؑ کی محبت محشر کے سو مقامات پر فائدہ دے گی اور یہ منقبت صرف انہی کے ساتھ مخصوص ہے۔
44۔اشتِرَاکُھَا مَعَ اَبِیھَا بَعِلِھَاوَبَنِیھَا یَومَ القِیَامۃِ فِی قُبَّۃٍ تَحتَ العَرَشِ ان کی ایک او رمنقبت یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے بابا، شوہر اور بیٹوں کے ساتھ عرش کے نیچے قبہ لاھوتی میں ہوں گی کہ جہاں پنجتن پاکؑ اور ان کے معصوم بیٹوںؑ کے سوا کوئی اور نہیں ہوگا۔
45۔زہراءؑ کی ایک ممتاز ترین منقبت کہ جس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے، ان کا اُمُّ الائمہ ہونا ہے وہ گیارہ معصوم اماموں کی والدہ گرامی ہیں۔ جوزمین کے ستاروں کی مانند ہیں اور ان کے مزار لوگوں کی شفا اور درمان کا مقام ہیں۔
46۔زہراءؑ کی سنتیں ہیں جیسے تسبیحِ فاطمہؑ اور ان کی دعائیں ان میں سے ہر ایک کی تشریح ہے۔ بتیسویں اور تینتیسویں باب میں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
47۔حضرت فاطمہ زہراءؑ کی زیارت ہے چاہے دور سے ہو یا نزدیک سے۔ اس کا ثواب ان کے والد کی زیارت کے ثواب کے برابر ہے فرشتے زہراءؑ کے موکل ہیں قیامت میں بھی اور ان کی رحلت کے وقت بھی۔ وہ ان کی اور ان کے والداور شوہر اوربیٹوں کی قبروں پر صلوات بھیجتے ہیں۔ انتالیسویں باب میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
48۔ان کی زیارت کرنا اور ان پر صلوات بھیجنا خود رسول خداﷺ  کی زیارت کرنا اور ان پر صلوات بھیجنا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: مَن صَلّٰی عَلَیکِ یَافَاطِمَۃُ غَفَرَاللّٰہُِ لَہُ وَاُلحِقہُ حَیثُ کُنتِ مِنَ الجَنَّۃِ روایت میں یہ بھی آیا ہے: وَمَن صَلّٰی عَلَیھَا فَقَد صَلّٰی عَلیٰ اَبِیھَا جس نے ان پر درود بھیجا بے شک اس نے ان کے والد پر درود بھیجا۔ مصباح الانوار میں امیر المؤمنین نے خود فاطمہ زہراءؑ سے روایت کی ہے کہ میرے والد رسول خداﷺ نے مجھ سے فرمایا: جو شخص تجھ پر صلوات بھیجے خدا اس کے گناہ بخش دے گا اور میں جنت میں جہاں بھی ہوں گی وہ شخص مجھ سے آملے گا۔
زہراءؑ کے بغیر صلوات کا کوئی فائدہ نہیں ہے آنحضرتﷺ نے فرمایا: لاَ تُصَلُّوا عَلَیَّ صَلٰوۃً بَتَراءَ اَن تُصَلُّوا وَتَسکُتُوا عَن آلِی مجھ پر ناقص درود و صلوات مت بھیجو ایسا نہ کرو کہ مجھ پر تو درود بھیجو اور میری آل کے بارے میں چپ رہو۔
49۔ فِی الاَمرِبِالتَّوسُّلِ اِلَیھَا کَاَبِیھَا وَبَعلِھَاوَبَنِیھَافِی الحَوَاءِجِ وَعِندَ کُلِّ مسئلۃٍوَ الاَمرُ یُحِبیھَا وَ الصَّلٰواۃُ عَلَیھَا وَزَِیَارَتُھَا جس طرح پیغمبر اکرمﷺ امیر المؤمنینؑ اور ان کے معصوم بیٹے بے کسوں اور لاچاروں کی پناہ گاہ ہیں کہ لوگوں کو ان سے توسل کرنا چاہئے، صدیقہ طاہرہ بھی توسل کرنیوالوں کی پناہ گاہ ہیں بلکہ غیاث مستغیثین ہیں۔ اس وقت سے ہی کہ جب آدم نے زہراءؑ کی صورت دیکھی اور حکم ہوا کہ پنجتن پاکؑ کے ناموں کو یاد کرو۔ حضرت فاطمہؑ بے کسوں اور لاچاروں کی پناہ گاہ تھیں اور ہیں پس مشکل اور گرفتاری میں ۱۳۵ بار کہو یا مولاتی یا فاطمۃُ اَغِیثِینِی۔
50۔ اَوَّلُ شَخصٍ یَدخُلُ الجَنَّۃَ فَاطِمَۃُ بِنتُ مُحَمَّد حافظ سیوطی نے جمع الجوامع میں ذکر کیا ہے کہ رسول خداﷺ نے فرمایا: بہشت میں سب سے پہلے جو داخل ہوگا وہ فاطمہ بنت محمدؑ ہے ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ: اِنَّ اَوَّلَ مَن یَدخُلُ الجَنَّۃَ اَنَا وَعَلِیٌ وَفَاطِمَۃُ وَالحَسَنُ وَالحَسَینُ سب سے پہلے جو بہشت میں داخل ہوگا وہ میں ہوں اور علی، فاطمہ حسن اور حسین علیہم السلام  ہیں بے شک پہلی خاتون فاطمہ زہراءؑ  ہیں شاید احترام کی وجہ سے ان کو آگے رکھا ہے۔
Erfan.ir

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button