محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہا امام سجاد علیہ السلام کے خطبہ کی روشنی میں

خلاصہ: حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے جو شام میں خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا سَيِّدَةُ نِساءِ العالَمينَ فاطِمَةُ البَتولُ کا تذکرہ فرمایا، اس مضمون میں ان تین القاب اور نام کی تشریح کی جارہی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام سجاد علیہ السلام نے شام میں یزید اوردربار والوں کے سامنے خطبے میں فرمایا:
أيُّهَا النّاسُ، اُعطينا سِتًّا، وفُضِّلنا بِسَبعٍ ۔۔۔ وفُضِّلنا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِيَّ المُختارَ مُحَمَّدًا صلی الله عليه و آله وَ مِنَّا الصِّدِّیقُ وَ مِنَّا الطَّیَّارُ وَ مِنَّا أَسَدُ اللَّهِ وَ أَسَدُ رَسُولِهِ ومِنّا سَيِّدَةُ نِساءِ العالَمينَ فاطِمَةُ البَتولُ
الصّحيح من مقتل سيّد الشّهداء و أصحابه عليهم السّلام ، ج1، ص1132،نقل از مقتل خوارزمی، ج2، ص69
اے لوگو! ہمیں چھ چیزیں عطا ہوئی ہیں اور ہمیں سات چیزوں کے ذریعے فضیلت دی گئی ہے،ہمیں اس ذریعہ سےفضلیت دی گئی ہے کہ نبی مختار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ ہم میں سے ہیں اور صدّیق (امیرالمومنینؑ) ہم میں سے ہیں اور جعفر طیار اور اللہ کا شیر اور اس کے رسول کا شیر (حمزہؑ) ہم میں سے ہیں اور عالمین کی عورتوں کی سردار فاطمہؑ بتول ہم میں سے ہیں۔اس مضمون میں حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کے پیش نظر، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے نام اور القاب سیدۃ نساءالعالمین، فاطمہ اور بتول کی تشریح بیان کی جارہی ہے۔سیدۃ نساء العالمین: اہلسنت کے علماء نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
يا فاطمة ألا ترضين أن تكوني سيّدة نساء العالمين وسيّدة نساء هذه الأُمّة وسيّدة نساء المؤمنين
المستدرک علی الصحیحین: 170/3 ح 4740؛ صحیح مسلم: 57/5 ذیل ح 99؛ أسد الغابة: 223/7 رقم 7175. به نقل از منتخب فضائل النبی و اهل بیته علیهم السلام من الصحاح الستة و غیرهما من الکتب المعتبرة عند اهل السنة، ص265
اے فاطمہؑ کیا آپ خوش نہیں ہوتیں کہ آپ عالمین کی عورتوں کی سردار ، اس امت کی عورتوں کی سردار اور مومنین کی عورتوں کی سردار ہیں۔حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بھی آپؑ کی مزار پر جو کلمات فرمائے، وہاں پر لقب سیدۃ نساء العالمین کا ذکر کیا ہے۔
الکافی، ج 1، ص 381،382
نیز یہ لقب آپؑ کےلئے بعض زیارت ناموں میں بھی ذکر ہوا ہے، جیسے زیارت وارثہ، زیارت عاشورا، زیارت حضرت زہراء سلام اللہ علیہا، زیارت امام رضا علیہ السلام اور زیارت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا۔اہل سنت کے بعض بزرگ علماء جیسے سبکی (حلبیات میں)، سیوطی، نسائی، ابی داود، قاضی قطب الدین وغیرہ کے نقل کے مطابق حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا چند دلائل کی بنیاد پر دنیا کی سب عورتوں سے افضل ہیں، منجملہ ان دلائل کی بنیاد پر:
۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایت:
فاطمة بضعة منی
فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہیں۔
2۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کو ارشاد:
أما ترضین أن تکونی سیدة نساء المؤمنین
کیا آپ خوش نہیں ہوتیں کہ مومنین کی عورتوں کی سردار ہیں۔
3۔ اس روایت کا غیرمستند اور ضعیف ہونا کہ “صحابہ میں سب سے افضل، پیغمبرؐ کی زوجات ہیں۔
(اس بحث کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے رجوع کیجیے: محمد راجی کناس، حیاة نساء اهل البیت، ص660 ، 663)
علامہ شیخ محمد فاضل مسعودی نے الاسرارالفاطمیہ میں علامہ اہلسنت ابن عبدالبر سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
يا بنيّة ، ألا ترضين أنّك سيدّة نساء العالمين ؟ قالت : يا أبت فأين مريم ؟ قال : تلك سيدّة نساء عالمها
الأسرار الفاطميّة، ج1، ص225
میری بیٹی! کیا آپ خوش نہیں ہیں کہ آپ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں؟ جناب سیدہؑ نے عرض کیا: بابا جان! تو مریم کا مقام کیا ہے؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: مریم، اپنے وقت کی عورتوں کی سردار ہیں۔نیز موصوف تحریر فرماتے ہیں کہ مندرجہ ذیل روایت کو طبرانی نے صحیحین (بخاری اور مسلم) کے شرائط کے مطابق نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ کہتی ہیں:
ما رأيت أحداً قطّ أفضل من فاطمة غير أبيها
الأسرار الفاطميّة، ج1، ص225، نقل از السيرة الحلبيّة ، 2 / 6
“میں نے اب تک کسی کو فاطمہؑ سے افضل نہیں دیکھا سوائے ان کے باپ کے۔ابن عباس سے نقل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا: یا رسول اللہؐ! کیا جناب فاطمہؑ اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار ہیں؟ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ذاك لمريم بنت عمران ، فأمّا ابنتي فاطمة ، فهي سيدة نساء العالمين من الأولين والآخرين
معاني الأخبار ، ج1، ص107
یہ (مقام) مریمؑ بنت عمران کے لئے ہے اور میری بیٹی فاطمہؑ، عالمین کی اولین و آخرین عورتوں کی سردار ہیں۔ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپؐ نے فرمایا:
أفضل نساء أهل الجنة : مريم بنت عمران ، وفاطمة بنت محمد ، وخديجة بنت خويلد ، وآسية بنت مزاحم امرأة فرعون
البداية والنهاية 2 : 55۔ والمعجم الكبير 22 : 407 / 1019۔ ومسند أحمد 1 : 293 و 316 و 322۔ ومستدرك الحاكم 2 : 497
جنتی عورتوں میں سے افضل مریمؑ بنت عمران اور فاطمہؑ بنت محمد اور خدیجہؑ بنت خویلد اور فرعون کی زوجہ آسیہؑ بنت مزاحم ہیں”۔فاطمہ: فاطمہ، فطم سے ہے جس کے معنی جدا ہونے کے ہیں۔
لسان العرب، ج 12، ص 454
اور آپؑ کا اسم “فاطمہ” اللہ تعالی نے اپنے نام سے مشتق کیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؑ سے فرمایا:
و شق لک یافاطمة اسماء من اسمائه فهوالفاطر و انت فاطمة
معانی الاخبار، ص 55
اے فاطمہؑ اللہ نے آپ کے لئے اپنے ناموں میں سے ایک اسم مشتق کیا، وہ فاطر ہے اور آپ فاطمہؑ ہیں۔روایات میں آپؑ کے اس مبارک نام کی دیگر وجوہات بھی ذکر ہوئی ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں:
۱۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: کیا آپ جانتے ہیں کہ فاطمہؑ کا نام فاطمہ کیوں رکھا گیا؟ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا: فاطمہؑ کا نام فاطمہ کیوں رکھا گیا یا رسول اللہؐ؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: لانها فطمت هی و شیعتها من النار
بحارالانوار، ج 43، ص 211۔ ذخائر العقبی، ص 26، ینابیع المودة، ص 194
کیونکہ وہ اور ان کے شیعہ (جہنم کی) آگ سے امان میں ہیں۔
2۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
و انما سمیت فاطمة لان الخلق فطموا عن معرفتها
بحارالانوار، ج 43، ص 65
بیشک ان کا نام اس لیے فاطمہ رکھا گیا کہ مخلوق ان کی معرفت سے دور ہے۔
بتول: بتول، حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے القاب میں سے ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ عورت جسکے لیے دیگر عورتوں کی طرح نجاست کے ایام نہ آتے ہوں (جیسے حیض اور نفاس) اور وہ ہر طرح سے پاک رہتی ہو۔ آپؑ کے بتول کہلانے کی وجہ کے بارے میں کئی اقوال بتائے گئے ہیں، جیسے:۱۔ آپؑ اپنے زمانے کی عورتوں سے اعمال، کردار اور معرفت کے لحاظ سے جدا اور افضل تھیں اور انقطاع الی اللہ کی کیفیت پر پہنچی ہوئی تھیں۔
شرح اصول کافی مازنذرانی ، ج5، ص228؛ مجمع البحرین، ج5، ص316، تفسیر نمونہ، ج25، ص179
۲۔ بہت ساری روایات کے مطابق، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کو اس لیے بتول کہا گیا ہے کہ آپؑ حیض اور نفاس سے پاک تھیں۔
بحارالانوار، ج43، ص16، امالی شیخ طوسی ، ص44؛ مجمع البحرین، ج5، ص316، دلائل الامامه، ص54 ، کشف الغمه، ج1، ص464 ، معانی الاخبار، ص64 ، ریاحین الشریعه، ج1، ص18
نیز علامہ اہلسنت، شیخ سلیمان قندوزی حنفی کا کہنا ہے کہ انما سمیت فاطمه البتول لانها بتلت من الحیض و النفاس
ینابیع الموده، ج2، ص322
فاطمہؑ کو اس لیے بتول کہا گیا کہ آپؑ حیض اور نفاس سے دور تھیں۔
نتیجہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں خطبہ دیتے ہوئے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے یہ اوصاف بیان فرمائے: سیدۃ نساء العالمین آپؑ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں، فاطمہ کے ایک معنی کے معنی کے مطابق خود اور آپؑ کے شیعہ جہنم کی آگ سے دور ہیں اور بتول وہ باعظمت شخصیت ہیں جن پر نجاست کی وہ حالتیں طاری نہیں ہوتیں جو دیگر عورتوں پر ہوتی ہیں۔ لہذا یہ عظیم الشان خاتون اتنی بلند مقام کی حامل ہیں کہ امام سجاد علیہ السلام کے خطبہ میں ان کا شمار ان سات چیزوں میں ہے جن کے ذریعہ اہل بیت علیہم السلام کو فضیلت دی گئی ہے.
https://urdulib۔com/shia

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button