محافلمناقب امام جعفر صادق ع

خوشبوئے حیات حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام

مؤلف: باقر شریف قرشی
آپ اس امت کی عظیم ہستی اور فکری و علمی نہضت کے علمبر دار ہیں آپ ہی کے علوم سے دنیا پُر ہوئی ہے (جاحظ کی تعبیر کے مطابق )یہ آپ ہی کے علوم کا فیض تھا جو مذاہب اسلامیہ کے اماموں نے احکام شریعت کے عبادات ،معاملات ،عقود او رایقاعات حاصل کئے ، اور یہ فقہی دولت ایسی عطا ہے جو کبھی بھی زائل ہونے والی نہیں ہے فقہاء امامیہ احکام شریعت میں استنباط کرنے کیلئے اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں ، جیسا کہ علماء قانون نے احکام کے متعلق اپنے قوانین اِ ن ہی احکام کے ذریعہ مر تب کئے ۔
امام کے علوم صرف فقہ ،حدیث اور علم کلام ہی نہیں تھے بلکہ ان میں آپ کے ایجاد کر دہ علوم جیسے فیزیک ، کیمیااور طب وغیر ہ بھی شامل تھے،جیسا کہ آپ نے آکسیجن کا انکشاف کیا،اور اس کے خصوصیات دلیل کے ساتھ بیان فرمائے ،آپ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ” ہوا ”عنصر بسیط نہیں ہے بلکہ اس کے بھی مختلف عناصر ہیں ،اسی طرح آپ نے کا ئنات کے اسرار اور مجرّات وغیرہ کے سلسلہ میں بھی گفتگو فرما ئی ہے ،اس بات کی طرف آپ کے شاگرد جابر بن حیان نے ان مغربی علماء کے سامنے ایک لمحہ فکریہ پیش کیاہے جوآپ کی تحریر کردہ کتابیںاپنی درسگاہوںمیںپڑھاتے ہیں،مغربی علماء اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ انسانیت میں عقل ِمبدع و موجد آپ ہی ہیں ۔
(امام صادق علیہ السلام جیسا کہ مغربی دانشمندوں نے آپ کا تعارف کرایاہے صفحہ ١٢٠،١٣٠)
بڑے تعجب کی بات ہے کہ مستشرقین کا کہنا ہے کہ امام عرب نہیں تھے ،بلکہ آپ مغربی تھے اور مغرب سے مشرق چلے آئے تھے چونکہ مشرقی لوگ امام کی علمی طاقت و قدرت کے مالک نہیں تھے وہ اس بات سے نا واقف ہیںکہ آپ اس خاندان نبوت سے ہیں جن سے زمین پر نور اور فقہ کے چشمے ابلے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے زمانہ میں اپنے عطایا اور علوم میں یکتا تھے جن کے ذریعہ عقل بشری عروج پر پہنچی اور انسان کی ایک دم ترقی ہو گئی ۔
بیشک امام صادق علیہ السلام جن بڑی علمی قدرتوں کے مالک تھے ،ان کے متعلق شیعوں کایہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے ائمہ اہل بیت پرحکمت ،فصل خطاب اور متعدد علوم کا الہام کیا اور ان کو عطا کیا جس طرح اُس نے رسول اور انبیاء علیہم السلام کو عطا کیا ہے ۔یہ فطری بات ہے کہ اس قول میں ذرا بھی غلو اور علمی حدود کے دائرہ سے باہر کی کو ئی بات نہیں ہے چونکہ اس قول پر متعدد معتبر دلیلیں مو جود ہیں ۔
بہر حال پہلے ہم امام کی پرورش اور آپ کے بعض ذاتی خصوصیات ہم مختصر طور پربیان کریں گے اس کے بعد اس موضوع سے متعلق باتیں بھی نقل کریں گے ۔
آپ کی پرورش
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اللہ کے سب سے بزرگ اور عظیم الشان گھرانہ میں پرورش پائی ،وہ گھرانہ جس سے رسالت اسلام کا نور چمکا ،اسی سے امتیں مدوّن ہو ئیں ،انسان کو کرامت ملی اور فکر کو عروج ملا ۔
اسی بیت الشرف میں اس امت کی عظیم ہستی امام جعفر صادق علیہ السلام نے پرورش پا ئی جو فکری اور ثقافتی نہضت کے علمبر دار تھے ، آپ کی تربیت آپ کے دادا امام زین العابدین علیہ السلام نے کی اور امام صادق علیہ السلام کو مواہب ، ایمان اور تقویٰ سے آراستہ کیا ،امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے دادا امام زین العابدین علیہ السلام کے سایۂ عطوفت میں اپنی زندگی کے بارہ سال بسر کئے۔
(حیاةالامام صادق ،جلد ١،صفحہ ٣٤)
جس میں آپ نے اپنے دادا کی اس معطر سیرت کا مشاہدہ کیا جو رسول اور انبیاء کی سیرت کی عکاسی کر رہی تھی ،عمل کے علاوہ انسان کی کوئی اور چیزاُسے خدا سے قریب نہیں کر سکتی ہے اور انسان اپنی ذات کے علاوہ کسی اور چیز سے عظمت یا فضیلت کی بلندیوں پر نہیں پہنچ سکتا ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے جدامام زین العابدین کی ہمراہی کی جو ہمیشہ اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے، دن میں روزہ رکھتے اور رات میں نمازیں پڑھتے تھے ،نماز کی کثرت اور سجدوں کی وجہ سے آپ کےاعضاء سجدہ پر اونٹ کے گھٹوں کی طرح گھٹّے پڑ گئے تھے ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یہ بھی مشاہدہ فرمایا کہ آپ کے دادا امام زین العابدین علیہ السلام رات کی تاریکی میں کھانے اور پیسوں سے بھری تھیلیاں فقیروں اور کمزوروں کی مدد کرنے کیلئے لے جایا کرتے تھے حالانکہ وہ لوگ آپ کو پہچانتے بھی نہیں تھے ،اسی طرح آپ عاجزوں اور کمزوروں ک سیراب بھی کیا کرتے تھے ۔
نیز امام جعفر صادق علیہ السلام نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ آپ کے دادا امام زین العابدین علیہ السلام لوگوں کے مابین صحیح علمی باتیں بیان فرماتے جن کاعلوم کے طالب استقبال کرتے اور آپ کے علوم کے دسترخوان سے سیراب ہوتے تھے لہٰذا آپ کی بزم میں علم حاصل کرنے والوں نے آپ کی حکمتوں ،دعائوں اور فتووں کو لکھنا ضروری سمجھا ۔
(حیاةالامام محمد باقر ،جلد ١،صفحہ ٣٨)
بہر حال امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے پوتے کی تربیت فرما ئی اور اپنے ذاتی کمالات سے آراستہ کیا اور دینی و علمی امور میں امت کی قیادت کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھانے کے لئے تیار کیا ۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپکے پدر بزرگوار امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند کے حال کی رعایت کرتے ہوئے ہر قسم کے علوم و معارف سے سیر کیا ،آپ ”امام صادق علیہ السلام ‘ ‘ بچپن میں اپنے پدر بزرگوار کے بلند پایہ کے دروس میں حاضر ہوتے تھے جو آپ کے بیت الشرف کے ہال یا مسجد نبوی میں دئے جاتے تھے ،امام صادق اپنے پدر بزرگوار کے ان شاگردوں میں نابغہ شمار ہوتے تھے جوبڑے بڑے علماء اور آپ سے سن و سال میں بہت بڑے تھے ،اس کی گواہی عمر بن عبد العزیزنے ولید بن عبد الملک کے سامنے دی جب وہ مدینہ زیارت کرنے کے لئے آیا تھا ،ولید نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا :”بیشک آپ کے فرزنداتنی چھوٹی سی عمر میں علامہ دہر ہیں”۔
(امام صادق کما عرفہ علماء الغرب ،صفحہ ١١٢)
امام صادق علیہ السلام کیلئے احسان و نیکی میں آپ کے والدکی مثال تھے ، آپ کی نظرمیں سب سے بہترین اعمال والدین کے ساتھ نیکی و احسان کرنا ہے ۔
(وسیلہ المآل فی عدّ مناقب الآل ،صفحہ ٢٠٨)
،اور آپ کا فرمان ہے :
” بیشک خداوند عالم والدین کے ساتھ نیکی کرنے سے موت کی سختیوں کو آسان کر دیتا ہے ” ۔
آپ نے اپنے والد بزرگوار کے ساتھ انیس سال گزارے ۔
(مناقب آل ابی طالب جلد ٤صفحہ ٢٨٠)
اور کتابوںمیں آیا ہے کہ آپ نے اپنے والد بزرگوار کے ساتھ تیس سال بسر کئے
ان کے سلوک سے متاثر ہوئے ،اور ان کی جیتی جا گتی تصویر بن گئے ، اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد آپ نے امت کی باگ ڈور سنبھالی، آپ کے اردگرد فقہاء جمع رہتے،راویان حدیث آپ سے مختلف قسم کے علوم و معارف حاصل کرتے اور ان کے علاوہ اچھی حکمتیں اور آداب بھی سیکھتے تھے ۔
آپ کے وسیع علوم
امام صادق علیہ السلام اپنے دور میں علوم و معارف کی وسعت کے اعتبار سے یکتا شخصیت تھے ،آپ اپنی عطا و بخشش اور عبقریات میں نابغہ تھے ۔
شیخ ابو زہرہ کا کہنا ہے :
امام صادق علیہ السلام اپنے زمانہ کی فکری طاقت تھے ،آپ نے صرف اسلامی دروس ، علوم قرآن ، سنت اور عقیدہ پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ آپ نے کا ئنات اور اس کے رموز و اسرار کا بھی درس دیا ،اپنی عقل کوآسمانوں، آفتاب ،چاند اور ستاروں کے مدار (جس چیز پر یہ گھوم رہی ہیں )پرمحیط کردیا ، اسی طرح آپ نے علم النفس کی تعلیم پر بھی بڑی توجہ دی ،اور جب فلسفہ کی تاریخ میں یہ کہا جاتا ہے کہ سقراط نے انسانوں کیلئے آسمان سے فلسفہ نازل کیا تو امام صادق علیہ السلام نے آسمان ،زمین ،انسان اوردین و شرائع کا درس دیا ہے۔
(امام صادق ،صفحہ ١٠١ ،١٠٢)
حضرت امام صادق علیہ السلام اسی طرح عالم اسلام میںہمیشہ کی ترقی کیلئے اپنے علوم کی سخاوت کے چشمے ابالتے رہے ، آپ نے اسلامی ثقافت میں جو ایجادات کی ہیں ان میں نہ آپ کے علوم کی کوئی حد ہے اور نہ ہی آپ کے معارف کی کو ئی انتہا ہے ،آپ نے دنیائے اسلام ہی کی نہیں بلکہ علمی حیات کی بوسیدگی کوبھی دور کیا،آپ نے پوری دنیا کو فیض پہنچایا ۔
امام کی یونیورسٹی
امام کی یونیورسٹی عباسی دور میں سب سے نمایاں جامعہ تھی جو علمی زندگی کے امور انجام دے رہی تھی آپ نے مختلف علوم کے اقسام شائع کئے جن کو لوگ اس وقت تک نہیں جانتے تھے ،اس یونیورسٹی نے بہترین مفکر ،منتخب فلسفی اورنامورعلماء پیش کئے۔بعض محققین کا کہنا ہے :
اس مقام پر اس حقیقت کا بیان کرنا واجب ہے کہ ترقی پر گامزن ہونے کیلئے اسلامی ثقافت اور عربی فکر اسی یونیورسٹی کی مرہون منت ہیں اور اس کے عمید و سردار امام جعفر صادق نے علمی تجدد اور قیمتی میراث چھوڑی ہے ۔
(حیاةالامام صادق ،جلد ١، صفحہ ١٣١)
عارف ثامر کا کہنا ہے :
علمی میدان پر امام صادق علیہ السلام کے سلسلہ میں گفتگو کرنا واجب ہوگیا کہ مدرسہ ٔ فکر کے پہلے بانی آپ ہیں ،فلسفہ ٔ باطنی کی تعلیم کا پہلا مرکز قائم کرنے والے آپ ہی ہیں نیزعلم کیمیاء کے موجدبھی آپ ہی ہیں جس کے سلسلہ میں جابر بن حیان صوفی طرسوسی نے گفتگو کی ہے ، آپ ہی نے عقل اسلامی کو اس کے محدود دائرہ سے نکال کرخوشگوار اور کھلی فضاعطا فرما ئی جس کے ہر پہلو میں صحیح و سالم فکری اور علمی آزا دی پائی جا تی ہے جومنطق اور حقیقت پر مبنی ہے ۔
(جعفر صادق ملہم الکیمیاء، صفحہ ٣٢)
ہم نے اس یونیورسٹی کے متعلق حیات الامام الصادق میں مفصل طور پر گفتگو کی ہے اوراب ہم ذیل میں اس کی بعض بحثوں کی طرف اجمالا اشارہ کرتے ہیں :
یونیورسٹی کا مرکز
جس یونیورسٹی کی امام صادق علیہ السلام نے بنیاد ڈالی اس کا بڑا مر کز یثرب میں تھا اور جامع نبوی عظیم میں آپ اپنے محاضرات و دروس دیا کرتے تھے اور بعض اوقات آپ کے بیت الشرف کے صحن میں بھی یہ دروس برقرار ہو تے تھے ۔
علمی وفود
عالم اسلام کے مختلف مقامات کے بزرگان فضیلت جلدی جلدی اس درسگاہ سے کسب فیض کے لئے حاضر ہونے لگے ۔
سید عبد العزیز الاھل کا کہنا ہے :
کوفہ ،بصرہ ،واسط ،حجازاورہر قبائل بنی اسد،غنی ،مخارق ، طیّ ،سلیم غطفان ،غفار، ازد ،خزاعہ ،خشعم ،مخزوم ،بنی ضبّہ ،قریش کے لوگ مخصوصا حارث بن عبدالمطلب ،بنی حسن بن علی، اپنے بچوں کو اس درسگاہ میں تعلیم دین حاصل کرنے کیلئے بھیجنے لگے ، ان کے علاوہ عرب اور فارس کے کچھ آزاد قبیلے خاص طور سے شہر قم کے علماء نے بھی اپنے بچوں کو امام صادق کی درسگاہ میں تحصیل علم کیلئے روانہ کیا۔
(جعفر بن محمد صفحہ ٥٩)
اقالیم اسلامیہ نے مشترک طورپراپنے بچوں کو امام کے علوم سے استفادہ اور نسل نبوت سے احکام شریعت حاصل کرنے کے لئے امام کی خدمت میں روانہ کیا ۔
طلبہ کی تعداد
امام کی یونیورسٹی کے طالب علموں کی تعداد چار ہزار تھی ۔
(الارشاد ،جلد ٢،صفحہ ٥٩،اعلام الوریٰ ،جلد ١،صفحہ ٥٣٥،المعتبر ،جلد ١،صفحہ ٢٦)
یہ بہت بڑی تعداد تھی جس کی اس دور کے علمی مدرسوں میںکو ئی نظیر نہیں ملتی ،حافظ ابو عباس بن عقدہ ہمدا نی کو فی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث نقل کر نے والے راویوں کے نام کے متعلق ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں چار ہزار طلاب کے نام تحریر کئے ہیں ۔
(صواعق المحرقہ، صفحہ ١٢٠)
ڈاکٹر محمود خالدی کا کہنا ہے :
”امام جعفر صادق علیہ السلام ”کے مؤثق راویوں کی تعداد چار ہزار تھی ہم اس بڑی تعداد سے بالکل بھی متعجب نہیں ہیں بلکہ اگر اس کے برعکس واقع ہو اور نقل کیا جائے تو تعجب کا امکان ہے ۔
(اصول الفکریہ للثقافہ الاسلامیہ جلد ١،صفحہ ٢٠٣)
محقق نے معتبر میں کہا ہے :
امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں ایسے علوم شائع ہوئے جن سے عقلیں مبہوت ہو کر رہ گئیں ،امام جعفر صادق علیہ السلام سے تقریبا چار ہزار راویوں نے روایت کی ہے ۔
(حیاةالامام جعفر صادق علیہ السلام جلد ١، صفحہ ١٣٤)
سید محمد صادق نشأت کا کہنا ہے :
” امام جعفر صادق علیہ السلام کا بیت الشرف یزدان کی یونیورسٹی کے مثل تھا جو ہمیشہ علم حدیث ،تفسیر ،حکمت اور کلام کے بڑے بڑے علماء سے چھلکتا رہتا تھا ، اکثر اوقات آپ کے درس میں دو ہزار طلبا حاضر ہوتے تھے اور بعض اوقات چار ہزار مشہور علماء حاضر ہوتے تھے ۔ آپ کے شاگردوں نے آپ کی وہ تمام احادیث اور دوروس تحریر کئے جو بعد میں شیعہ یا جعفری مذہب کے علمی خزانہ کے مانند کتابوں کی شکل میں آگئے ”۔
) حیاة الامام صادق اور مذاہب اربعہ جلد ١صفحہ ٦٢)
ہم نے ”حیاة الامام الصادق علیہ السلام ”میں آپ کے تین ہزار چھ سو باسٹھ راویوں کاتذکرہ کیا ہے ۔
یونیورسٹی کے شعبے
وہ اکثر علماء جو آپ کی درسگاہ سے فارغ التحصیل ہو کر اپنے وطن واپس پلٹے انہوں نے اپنے اپنے وطن میں علمی اور دینی مدرسے قائم کئے ۔اور آپ کے جامعہ کی سب سے بڑی شاخ کی بنیادکوفہ میں ڈالی گئی جو جامعہ کوفہ کے نام سے مشہور ہوا ۔
حسن بن علی وشّاء کا کہنا ہے :
میں اس ”یعنی مسجد کو فہ ”مسجد میں پہنچا تو مجھ سے نو سو شیخ ”علماء ” نے کہا کہ :مجھ سے جعفر بن محمد علیھما السلام نے حدیث بیان کی ہے۔
(حیاة الامام جعفر صادق علیہ السلام ،جلد ١،صفحہ ١٣٥)
کوفہ میں وسیع پیمانہ پرعلمی تحریک کا آغاز ہوا ،جیسے اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر وسیع پیمانہ پرعلمی نہضت قائم ہو ئی تھی ۔
سید میر علی ہندی کہتے ہیں :
”اس دور میں علم منتشر کرنے میں کو ئی پریشا نی نہیں تھی یعنی فکر ایک دم آزاد تھی اور اس نے عقل کو اس کے محور سے جدا کرنے میں مساعدت کی ،اور عالم اسلام میںعام طور پر ہرجگہ فلسفی بحثیں ہونے لگیں،اس بات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اس بلند و بالا تحریک کا آغاز علی بن ابی طالب علیھما السلام کے فرزند امام جعفر جن کو صادق کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ،نے کیا آپ نے افق تفکیر کو خوش آمدیدکہا ،آپ بہت گہری فکر کے مالک تھے ، اپنے زمانہ کے تمام علوم سے آشنا تھے ،حقیقت میں آپ ہی وہ شخصیت تھے جنھوں نے سب سے پہلے اسلام میں مشہور فلسفی مدرسوں کی بنیاد ڈالی ،حقیقت میں جن لوگوں نے بعد میں مختلف جگہوں پرمدرسہ کی بنیاد ڈالی وہ خود امام کے دروس میں حاضر ہوتے تھے ۔آپ کے درس میں دور دراز کے علاقوں سے بھی لوگ فلسفہ کے دروس پڑھنے کیلئے حاضر ہوتے تھے ۔
(جعفر بن محمد ،صفحہ٥٩)
بہر حال کوفہ میں بعض علمی خاندان کو امام کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ، اور بہت سے خاندان جیسے آل حیان تغلبی ، آل اعین ،بنی عطیّہ ،بیت بنی درّاج وغیرہ اور دوسرے علمی خاندانوں نے علم فقہ اورحدیث میں تخصّص کیا۔
(تاریخ کوفہ ،صفحہ ٤٠٨ )
امام جعفر صادق علیہ السلام نے کوفہ میں دو سال سے زیادہ قیام کیا ،آپ نے بنی عبد القیس کے یہاں قیام کیا،جہاں پر آپ سے احکام دین کے متعلق فتوے معلوم کرنے والے شیعوں کاہجوم لگا رہتا تھا، محمدبن معروف ہلالی نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس ہجوم کے متعلق یوں بیان کیا ہے کہ : میں مقام حیرہ پر جعفر بن محمد علیھما السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں پر لوگوں کا ازدھام تھا ،چوتھے دن میں نے ان کو اپنے قریب ہوتے دیکھا ، لوگ ان سے دور ہوتے گئے، امام اپنے جد امیر المو منین کی قبر کی طرف گئے تو میں بھی ان کے نقش قدم پر قدم رکھتا ہوا اُن کے ساتھ ہو لیا اور ان کا کلام سنا ۔
(حیاةالامام جعفر صادق علیہ السلام ،جلد ١،صفحہ ١٣٦)
علمی طریقے
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے دروس ہر قسم کے علوم و معارف اور ثقافتی ضرب المثل کو شامل ہیں آپ نے مندرجہ ذیل موضوعات میں دروس دئے :
علم فقہ ۔
علم حدیث ۔
علوم قرآن ۔
علم طب ۔
کیمیا ء۔
فیزیک۔
علم نبات۔
ان کے علاوہ آپ نے دوسرے ایسے علوم کی تعلیم بھی دی جن کا آنے والے معاشرہ اور صناعت میں اثر تھا ۔
ان تمام علوم میں نمایاں طور پر امام نے جس علم کا بہت زیادہ اہتمام کیا وہ علم فقہ اسلامی ہے جس میں آپ نے عبادات ، معاملات ،عقود اور ایقاعات کی تشریح فرما ئی،اور وہ احادیث شریفہ جن کی طرف امامیہ فقہاء احکام شرعی کے استنباط کے لئے رجوع کر تے ہیں۔
علوم کی تدوین
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو اپنے تمام دروس و محاضرات کو تدوین کرنے کی شدت کے ساتھ تاکید فرمائی کہ کہیں یہ دروس ضائع و برباد نہ ہو جا ئیں ۔چنانچہ ابو بصیر سے مروی ہے کہ میں ابوعبداللہ جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا :
”تمھیں لکھنے سے کو ن منع کرتا ہے ؟ بیشک تم اس وقت تک حفظ نہیں کر پائوگے جب تک نہ لکھ لو ،میرے پاس سے بصرہ والوں کا ایک ایساگروہ گیاہے جو جس چیز کے بارے میں سوال کرتا تھا اس کو لکھتا تھا ”۔
(مستدرک الوسائل، جلد ١٧،صفحہ ٢٩٢حدیث ٢٩٢)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے علوم تدوین کر نے کا اتنا زیادہ اہتمام کیا کہ اپنے شاگرد جابر بن حیان سے کہا کہ ایسا کاغذ تیار کرو جس کو آگ نہ جلا سکے ،جابر نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وہ کاغذ تیار کیا تو امام نے اس کاغذ پراپنے دست مبارک سے لکھ کر اسے آگ میں ڈالا تو آگ اس کو نہ جلاسکی۔
(امام صادق کما عرفہ علماء الغرب صفحہ ٥٤۔جابر بن حیان و خلفائوہ ،صفحہ ٥٧)
البتہ راویوں نے اس کتاب کے نام کاتذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس میں تحریر کئے گئے علم کا نام بتایا ہے۔
امام کے شاگرد
علماء نے آپ کی آواز پر بڑی جلدی کے ساتھ لبیک کہی اور جابر بن حیان نے علم کیمیاء کے متعلق آپ کے بیان کردہ مطالب کو مدوّن کیاجن کی تعداد پانچ سو رسالہ تک پہنچ گئی یہ رسائل علم کیمیاء کیلئے بہت ہی بہترین سر چشمہ ہیں اور ان سے علماء نے بہت زیادہ فائدہ اٹھایاہے۔
(مرآة الجنان ،جلد ١،صفحہ ٣٠٤، الاعلام جلد ١،صفحہ ١٨٦)
امام کے کچھ نابغہ شاگردوں کا ایک گروہ تھا جنھوں نے مختلف قسم کے علوم میں مختلف کتابیں تالیف کی ہیں ۔
محقق کبیر آقا بزرگ (خدا ان کے درجات بلند فرمائے )رقمطراز ہیں کہ امام کے شاگردوں میں سے دوسو شاگرد مصنف تھے ۔ (الذریعہ ،جلد ٦،صفحہ ٣٠١ ،٣٧٤)
اس اختصار کے ساتھ ہی امام صادق علیہ السلام کی یونیورسٹی کے سلسلہ میں ہماری گفتگو ختم ہو جا تی ہے۔
(خوشبوئے حیات سے اقتباس)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button