تعارف امام حسن علیہ السلام
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کلام میں امام حسن (علیہ السلام) کا تعارف:
امام حسن (علیہ السلام) کی شان میں رسول اللہؐ کی زبانی اہل سنت کی کتابیں بھری ہوئی ہیں جیسے :
١۔ ترمذی نے اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا ہے :
” کان رسول اللّٰه(صلى اللّٰه علیه وآله)حامل الحسن بن علىّ على عانقه فقال رجل: نعم المرکب رکبت یا غلام، فقال النبى: ونعم الراکب هو”
ایک روز رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حسن بن علی (علیہ السلام) کواپنے دوش پر سوار کررکھا تھا۔ ایک شخص نے عرض کیا : بیٹا ! تم بہت اچھی سواری پر سوار ہوئے ہو ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : وہ خود بھی بہت اچھے سوار ہیں۔
(سنن ترمذى، ج 5، ص 327 ; مستدرک حاکم، ج 3، ص 170)
٢۔ ابن کثیر نے اپنی سند کے ساتھ جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا :
"من سرّه ان ینظر الى سیّد شباب اهل الجنّة فلینظر الى الحسن بن على”
(البدایة و النهایة، ج 8، ص 35)
جو بھی اہل بہشت کے جوانوں کے سردار کی طرف دیکھنا چاہے وہ حسن بن علی کی طرف نظر کرے ۔
٣۔ متقی ہندی نے اپنی سند کے ساتھ عائشہ سے نقل کیا ہے : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہمیشہ حسن (علیہ السلام) کو آغوش میں لیتے تھے اور ان کو اپنے سینے سے لگاتے تھے، پھر فرماتے تھے:
"اللّٰھم ان ھذا ابنی و انا احبہ فاحبہ و احب من یحبہ”
(کنز العمال، ج 13، ص 652، رقم 37653)
خدایا ! یقینا یہ میرا بیٹا ہے اور میں اس کو دوست رکھتا ہوں ، پس تو بھی ان کو دوست رکھ اور اس شخص کو دوست رکھ جو انہیں دوست رکھے۔
٤۔ مسلم نے اپنی صحیح میں ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حسن (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا :
"اللّٰھم انی احبہ فاحبہ و احبب من یحبہ”
(صحیح مسلم، ج 7، ص 129; صحیح ترمذى، ج 5، ص 661)
خدایا ! یقینا میں ان کو دوست رکھتا ہوں پس تو بھی ان کو دوست رکھ اور جوانہیں دوست رکھے ان کو دوست رکھ۔
٥۔ اسی طرح انہوں نے براء بن عازب سے نقل کیا ہے : میں نے حسن بن علی کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کندھوں پر اس حالت میں دیکھا کہ رسول اکرمﷺ فرما رہے تھے :
"اللّٰھم انی احبہ فاحبہ”
(صحیح مسلم، ج 7، ص 129; صحیح ترمذى، ج 5، ص 661)
خدایا ! میں اس کو دوست رکھتا ہوں تو بھی اس کو دوست رکھ ۔
٦۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ایک حدیث میں روایت ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا :
"لوکان العقل رجلا لکان الحسن”
(فرائد السمطین، ج 2، ص 68)
اگر عقل کوکسی شخص میں مجسم کیا جاتا تو وہ شخص حسن بن علی ہوتے۔
٧۔ براء بن عازب نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے امام حسن (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا: "ھذا منی و انا منہ و ھو یحرم علیہ ما یحرم علی”
(کنز العمال، ج 7، ص 107; ذخائر العقبى، ص 123)
یہ مجھ سے ہیں او رمیں ان سے ہوں اور جو کچھ مجھ پر حرام ہے وہ ان پر بھی حرام ہیں۔
امام حسن علیہ السلام کا اپنی زبانی تعارف
محب الدین طبری نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ معاویہ نے آپ سے عرض کیا: کھڑے ہو کر لوگوں کے سامنے خطبہ دیجئے ۔ ابوسعید کہتے ہیں : امام نے اپنے خطبہ کے دوران فرمایا:
” ایّها الناس! من عرفنى فقد عرفنى و من لم یعرفنى فأنا الحسن بن على بن ابى طالب، أنابن رسول اللّٰه، أنابن البشیر، أنا بن النذیر، أنابن السراج المنیر، أنابن مزنة السماء، أنابن من بُعِث رحمة للعالمین، أنابن من بُعِث الى الجنّ و الانس. أنا بن من قاتلت معه الملائکة، أنابن من جعلت له الارض مسجداً و طهوراً. أنابن من اذهب اللّٰه عنهم الرجس و طهّرهم تطهیراً”
(ذخائر العقبی ، صفحہ ١٤٠)
اے لوگو ! جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے اور جو مجھے نہیں پہچانتا میں اس کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں حسن بن علی بن ابی طالب ہوں۔ میں رسول اللہ کا بیٹا ہوں، میں بشارت دینے والے کا بیٹا ہوں، میں ڈرانے والے کا بیٹا ہوں، میں نور پھیلانے والے چراغ کا بیٹا ہوں، میں آسمان کی زینت کا بیٹا ہوں، میں اس کا بیٹا ہوں جو رحمت اللعالمین بن کر مبعوث ہوا ، میں اس کا بیٹا ہوں جو جن و انس کی طرف مبعوث ہوا ، میں اس کا بیٹا ہوں جس کے لئے زمین سجدہ گاہ اور طاہر قرار پائی۔ میں اس کا بیٹا ہوں جس سے خداوند عالم نے رجس و پلیدی کو دور کردیا اور اس طرح پاک کردیا جو پاک کرنے کا حق ہے۔
(اقتباس :اهل بیت از دیدگاه اهل سنت، ص ۱۹، ٢٨)