سلائیڈرمناقب امام حسین عمناقب و فضائل

خوشبوئے حیات حضرت امام حسین علیہ السلام

مؤلف: باقر شریف قرشی
آپ اسلام کی بنیاد اور اس دنیائے اسلام کو نجات دلانے وا لے تھے جو امویوں کے ہاتھوں گرفتار ہوچکی تھی جو اس کو بدترین عذاب دے رہے تھے، اس کے بچوں کو قتل اور عورتوں کوزندہ رکھتے تھے، انھوں نے اللہ کے مال کواپنی بزرگی کا سبب بنایا، اس کے بندوں کو اپنا نوکر بنایا،نیک اور صالح افراد کو دور کر دیا، مسلمانوں کے درمیان خوف و دہشت پھیلائی ،عام شہروں میں قیدخانوں، جرائم،فقرو تنگدستی اور محرومیت کو رواج دیا،رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آرزوحضرت امام حسین علیہ السلام نے ان کامحکم عزم و ارادہ سے جواب دیا،آپ نے ایساعظیم انقلاب برپا کیا جس کے ذریعہ آپ نے کتاب خدا کی تشریح فرمائی اور اس کوصاحبان عقل کیلئے ما یہ ٔ عبرت قرار دیا،ان کے محلوں کوجڑسے اکھاڑ پھینکا ، اُن کی عظمت و شوکت کی نشانیوں کو ختم کردیا، مسلمانوں کے درمیان سیا سی اور دینی شعور بیدار کیا، ان کو غلامی اور ذلت کے خوف سے آزاد کرایا،ان کو ان تمام منفی چیزوں سے آزاد کرایا جو ان کیلئے نقصان دہ تھیں،مسلمان پردے میں بیٹھنے کے بعد آن بان کے ساتھ چلنے لگے ،انھوں نے اس انقلاب کے پرتو میں اپنے حقوق کا نعرہ بلند کیا جن کاامویوں کے حکم سے خا تمہ ہو چکا تھاجنہوں نے ان کو ذلیل و رسوا کیا اور وہ کام انجام دیا جس کو وہ انجام نہیں دینا چا ہتے تھے ہم اس امام عظیم کے کچھ اوصاف بیان کررہے ہیں جن کی قربانی ، عزم محکم ،صبراور انکار کے چرچے خاص و عام کی زبان پر ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امام حسین علیہ السلام سے محبت
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے فرزند ارجمند امام حسین علیہ السلام سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی شان و منزلت اور کیا مقام تھا اس سلسلہ میں آپ کی بعض احادیث مندرجہ ذیل ہیں :
١۔جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
”من اراد ان ينظرالیٰ سيد شباب اهل الجنة فلينظرالیٰ الحسين بن علی”
(سیر اعلام النبلاء ،جلد ٣،صفحہ ١٩٠۔تاریخ ابن عساکر خطی ،جلد ١٣،صفحہ ٥٠)
”جوشخص جنت کے جوانوں کے سردار کو دیکھنا چا ہتا ہے وہ حسین بن علی علیھما السلام کے چہرے کو دیکھے”۔
٢۔ابو ہریرہ سے روایت ہے :میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسین علیہ السلام کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے یہ فرما رہے تھے :”اللھم انی احِبُّه فاحبّه ”
(مستدرک حاکم ،جلد ٣،صفحہ ١٧٧،نور الابصار، صفحہ ١٢٩)
’’اللھم انی اُ حِبُّہ وَ أُحِبَّ کُلَّ مَنْ یُحِبُّہُ”
”خدایا میں اس کو دوست رکھتا اور جو اس کو دوست رکھتا ہے اس کوبھی دوست رکھتاہوں”
”پروردگار میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ”۔
٣۔یعلی بن مرہ سے روایت ہے :ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں جا رہے تھے تو آنحضرت نے دیکھا کہ حسین علیہ السلام سکوں سے کھیل رہے ہیں تو آپ نے کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھ امام کی طرف پھیلادئے ،آپ مسکرارہے تھے اور کہتے جا رہے تھے، بیٹا ادھر آئو ادھرآئویہاں تک کہ آپ نے امام حسین علیہ السلام کو اپنی آغوش میں لے لیاایک ہاتھ ان کی ٹھڈی کے نیچے رکھا اور دوسرے سے سر پکڑ کر ان کے بوسے لئے اور فرمایا:
”حسين منی وانامن حسين،احب اللّٰه من احب حسينا،حسين سبط من الاسباط”
(سنن ابن ماجہ ،جلد ١،صفحہ ٥٦۔مسند احمد، جلد ٤،صفحہ ١٧٢۔اسد الغابہ، جلد ٢،صفحہ ١٩۔تہذیب الکمال،صفحہ ٧١۔تیسیر الوصول ،جلد ٣، صفحہ ٢٧٦۔مستدرک حاکم ،جلد ٣،صفحہ ١٧٧)
”حسین علیہ السلام مجھ سے ہے اور میں حسین علیہ السلام سے ہوںخدایاجو حسین علیہ السلام محبت کرے تو اس سے محبت کر ، حسین علیہ السلام بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے ”
یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام حسین علیہ السلام علیہ السلام کے درمیان عمیق رابطہ کی عکا سی کرتی ہے، لیکن اس حدیث میں نبی کا یہ فرمان کہ ”حسین منی ” حسین علیہ السلام مجھ سے ہے ”اس سے نبی اور حسین علیہ السلام کے مابین نسبی رابطہ مراد نہیں ہے چونکہ اس میں کو ئی فا ئدہ نہیں ہے بلکہ یہ بہت ہی گہری اور دقیق بات ہے کہ حسین علیہ السلام نبی کی روح کے حا مل ہیں وہ معاشرہ انسا نی کی اصلاح اور اس میں مسا وات کے قا ئل ہیں۔
لیکن آپ کا یہ فرمان:’‘وانا من الحسین علیہ السلام ” ”اور میں حسین علیہ السلام سے ہوں ” اس کا مطلب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام مستقبل میں اسلام کی راہ میں قربا نی دے کر رہتی تاریخ تک اسلام کو زندہ جا وید کریں گے ، لہٰذا حقیقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسین علیہ السلام سے ہیں کیونکہ امام حسین علیہ السلام نے ہی آپ کے دین کو دوبارہ جلا بخشی ، ان طاغوتی حکومتوں کے چنگل سے رہا ئی دلائی جو دین کو مٹا نا اور زند گی کو جا ہلیت کے دور کی طرف پلٹانا چا ہتے تھے ، امام حسین علیہ السلام نے قر بانی دے کر امویوں کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا اور مسلمانوں کو ان کے ظلم و ستم سے آزاد کرایا۔
٤۔سلمان فا رسی سے روایت ہے :جب میں نبی کی خدمت میں حا ضر ہوا تو امام حسین علیہ السلام آپ کی ران پر بیٹھے ہوئے تھے اور نبی آپ کے رخسار پر منہ ملتے ہوئے فر ما رہے تھے :
”انت سيد ُبْنُ سَيد،انت امام بن امام،وَاَخُوْااِمَامٍ،وَاَبُوالاَئِمَةِ،وَاَنْتَ حُجَّةُ اللّٰه وَابْنُ حُجَّتِه،وَاَبُوْحُجَجٍ تِسْعَةٍ مِنْ صُلْبِکَ،تَاسِعُهمْ قَائِمُهمْ”
(حیاةالامام حسین علیہ السلام ، جلد ١،صفحہ ٩٥)
’’آپ سید بن سید،امام بن امام ،امام کے بھا ئی،ائمہ کے باپ ،آپ اللہ کی حجت اور اس کی حجت کے فرزند،اور اپنے صلب سے نو حجتوں کے باپ ہیں جن کا نواں قا ئم ہوگا ”۔
٥۔ابن عباس سے مروی ہے :رسول اسلام اپنے کا ندھے پر حسین علیہ السلام کو بٹھا ئے لئے جا رہے تھے تو ایک شخص نے کہا : ”نِعم المرکب رکبت ياغلام ،فاجا به الرسول :”ونعم الراکب هوَ”۔
(تاجِ جامع للاصول ،جلد ٣،صفحہ ٢١٨)
”کتنا اچھا مرکب (سواری )ہے جو اس بچہ کو اٹھا ئے ہوئے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے جواب میں فرمایا:”یہ سوار بہت اچھا ہے ”۔
٦۔رسول اللہ کا فرمان ہے :”ھذا(يعنی :الحسين )امام بن امام ابوائمةٍ تسعةٍ”
(منہاج السنة، جلد ٤،صفحہ٢١٠)
”یہ یعنی امام حسین علیہ السلام امام بن امام اور نو اماموں کے باپ ہیں”۔
٧۔یزید بن ابو زیاد سے روایت ہے :نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عا ئشہ کے گھر سے نکل کر حضرت فاطمہؑ زہرا کے بیت الشرف کی طرف سے گذرے تو آپ کے کانوں میں امام حسین علیہ السلام کے گریہ کرنے کی آواز آ ئی، آپ بے چین ہوگئے اور جناب فاطمہؑ سے فر مایا:”اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَائَه يوْذِينِیْ؟”
(مجمع الزوائد، جلد ٩،صفحہ ٢٠١۔سیر اعلام النبلاء ،جلد ٣،صفحہ ١٩١۔ذخائر العقبی ،صفحہ ١٤٣)
”کیا تمھیں نہیں معلوم حسین علیہ السلام کے رونے سے مجھ کو تکلیف ہو تی ہے ”۔
یہ وہ بعض احا دیث تھیں جو رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیٹے امام حسین علیہ السلام سے محبت کے سلسلہ میں بیان فرما ئی ہیں یہ شرافت و کرامت کے تمغے ہیں جو آپ نے اس فرزند کی گردن میں آویزاں کئے جو بنی امیہ کے خبیث افراد کے حملوں سے آپ کے اقدار کی حفاظت کر نے والا تھا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امام حسین علیہ السلام کی شہا دت کی خبر دینا
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نواسے امام حسین علیہ السلام کی شہا دت کواتنابیان کیاکہ مسلمانوں کو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا یقین ہوگیا۔ابن عباس سے روایت ہے کہ ہمیں اس سلسلہ میں کو ئی شک و شبہ ہی نہیں تھا اور اہل بیت نے متعدد مرتبہ بیان فر مایا کہ حسین علیہ السلام بن علی کربلا کے میدان میں قتل کر دئے جا ئیں گے۔
(مستدرک حاکم، جلد ٣،صفحہ ١٧٩)
آسمان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر دی گئی کہ عنقریب تمہارے بیٹے پر مصیبتوں کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ اگر وہ پہاڑوں پرپڑتے تو وہ پگھل جا تے ،آپ نے متعدد مرتبہ امام حسین علیہ السلام کے لئے گریہ کیا اس سلسلہ میں ہم آپ کے سا منے کچھ احا دیث پیس کر تے ہیں :
١۔ام الفضل بنت حارث سے روایت ہے :میںامام حسین علیہ السلام کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خد مت میں پہنچی جب آپ میری طرف متوجہ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جا ری تھے ۔
میں نے عرض کیا :اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کو کیا مشکل پیش آگئی ہے ؟!
”اَتَانِیْ جبرئيلُ فَاَخْبَرَنِیْ اَنَّ اُمَّتِیْ سَتَقْتُلُ ابنِیْ هذَا”
میرے پا س جبرئیلؑ آئے اور انھوں نے مجھ کو یہ خبر دی ہے کہ میری امت عنقریب اس کو قتل کردے گی ”آپ نے امام حسین علیہ السلام کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فر مایا۔ام الفضل جزع و فزع کرتی ہو ئی کہنے لگی :اس کو یعنی حسین علیہ السلام کو قتل کردے گی ؟
”نَعَم،وَاَتَانِیْ جِبْرَئِيلُ بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِه حَمْرَائَ ”
(مستدرک حاکم ،جلد ٣،صفحہ١٧٩)
”ہاں ،جبرئیلؑ نے مجھے اس کی تربت کی سرخ مٹی لا کر دی ہے ”ام الفضل گریہ و بکا کرنے لگی اور رسول بھی ان کے حزن و غم میں شریک ہوگئے ۔
٢۔ام المو منین ام سلمہ سے روایت ہے :ایک رات رسول اللہ سونے کیلئے بستر پر لیٹ گئے تو آپ مضطرب ہوکر بیدار ہوگئے ،اس کے بعد پھر لیٹ گئے اور پہلے سے زیادہ مضطرب ہونے کی صورت میں پھر بیدار ہوگئے ،پھر لیٹ گئے اور پھر بیدار ہوگئے حالانکہ آپ کے ہاتھ میں سرخ مٹی تھی جس کو آپ چوم رہے تھے
(شیعہ کربلا سے حاصل کی گئی مٹی پر سجدہ کرتے ہیں جس کو رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چوما ہے)
میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ یہ کیسی مٹی ہے ؟
”اَخْبَرَنِیْ جِبْرَئِيلُ اَنَّ ھٰذَا(يعنی:الحسين )یُقْتَلُ بِاَرْضِ الْعِرَاقِ۔فَقُلْتُ لِجِبْرَئِيلَ : اَرِنِیْ تُرْبَةَ الْاَرْضِ الَّتِیْ يقْتَلُ بِهاْفَهذِہِ تُرْبَتُه ”
(کنز العمال، جلد ٧،صفحہ ١٠٦،سیر اعلام النبلاء ، جلد ٣، صفحہ ١٥،ذخائر العقبیٰ، صفحہ ١٤٨)
”مجھے جبرئیلؑ نے یہ خبر دی ہے کہ اس (حسین علیہ السلام )کو عراق کی سر زمین پر قتل کر دیا جا ئے گا ۔ میں نے جبرئیلؑ سے عرض کیا :مجھے اس سر زمین کی مٹی دکھائو جس پر حسین علیہ السلام قتل کیا جا ئے گا یہ اسی جگہ کی مٹی ہے ”۔
٣۔ام سلمہ سے روایت ہے :ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں تشریف فر ما تھے تو آپ نے فر مایا:
”لا یدخُلنَّ عَلَیَّ اَحَدُ”
”میرے پا س کوئی نہ آئے ”میں نے انتظار کیا پس حسین علیہ السلام آئے اور آپ کے پا س پہنچ گئے ،میں نے نبی کی آواز سنی ،حسین علیہ السلام ان کی آغوش میں(یا پہلو میں بیٹھے ہوئے )تھے آپ حسین علیہ السلام کے سر پر ہاتھ رکھے ہوئے گریہ کر رہے تھے ، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا:
خداکی قسم مجھ کو پتہ بھی نہ چل سکا اور حسین علیہ السلام آ پ کے پا س آگئے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فر مایا:
”اِنَّ جِبْرَئِيلَ کَانَ مَعَنَافِیْ الْبَيتِ فَقَالَ :اَتُحِبُّه ؟فَقُلْتُ : نَعَمْ۔فَقَالَ:اَمَااِنَّ اُمَّتَکَ سَتَقْتُلُه بِاَرْضٍ یُقَالُ لَهاکَرْبَلَائُ ”۔
”جبرئیلؑ گھر میں ہمارے پاس تھے تو انھوں نے کہا :کیا آپ حسین علیہ السلام کو بہت زیادہ چاہتے ہیں ؟ میں نے کہا :ہاں ۔ تو جبرئیلؑ نے کہا :آگاہ ہو جائو ! عنقریب آپ کی امت اس کو کر بلا نا می جگہ پر قتل کر دے گی ”،جبرئیلؑ نے اس جگہ کی مٹی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لا کر دی جس کو نبی نے مجھے دکھایا۔
(کنز العمال ،جلد ٧،صفحہ ١٠٦۔معجم کبیر طبرانی ،جلد ٣،صفحہ١٠٦)
٤۔عائشہ سے روایت ہے:امام حسین علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نیچے جھکنے کی طرف اشارہ کیا اور امام حسین علیہ السلام آپ کے کندھے پر سوار ہوگئے توجبرئیلؑ نے کہا : ”اے محمد! کیا آپ حسین علیہ السلام سے محبت کرتے ہیں ؟”آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کیوں نہیں ،کیا میں اپنے بیٹے سے محبت نہ کروں؟”جبرئیلؑ نے عرض کیا :آپ کی امت عنقریب آپ کے بعد اس کو قتل کردے گی ”جبرئیلؑ نے کچھ دیر کے بعد آپ کو سفید مٹی لا کر دی ۔
عرض کیا :اس سر زمین پر آپ کے فرزند کو قتل کیا جا ئے گا ،اور اس سر زمین کا نام کربلا ہے ” جب جبرئیلؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے چلے گئے تو وہ مٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک میں تھی اور آپ نے گریہ وبکا کرتے ہوئے فرمایا:اے عائشہ !جبرئیلؑ نے مجھ کو خبر دی ہے کہ آپ کے بیٹے حسین علیہ السلام کو کربلا کے میدان میں قتل کردیا جا ئے گا اور عنقریب میرے بعد میری امت میں فتنہ برپا ہوگا ”۔
اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کے پا س تشریف لے گئے جہاں پر حضرت علی ،ابو بکر ، عمر ، حذیفہ ،عمار اورابوذرموجود تھے حالانکہ آپ گریہ فر ما رہے تھے، تو اصحاب نے سوال کیا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ گریہ کیوں کر رہے ہیں ؟
آپ نے فرمایا:مجھے جبرئیلؑ نے یہ خبر دی ہے کہ میرافرزند حسین علیہ السلام کربلا کے میدان میں قتل کردیا جائے گا اور مجھے یہ مٹی لا کر دی ہے اور مجھ کو خبر دی ہے کہ ان کا مرقد بھی اسی زمین پر ہوگا ”۔
(مجمع الزوائد، جلد ٩، صفحہ ١٨٧)
٥۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک زوجہ زینب بنت جحش سے مروی ہے :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محو خواب تھے اور حسین علیہ السلام گھر میں آئے اور میں ان سے غافل رہی یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اپنے شکم پر بیٹھالیا اس کے بعد نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا کی تو ان کو ساتھ رکھایہاں تک کہ جب آپ رکوع اور سجدہ کرتے تھے تو اس کو اپنی پیٹھ پر سوار کرتے تھے اور جب قیام کی حالت میں ہوتے تھے تو ان کو اٹھالیتے تھے ،جب آپ بیٹھتے تھے تو ان کو اپنے ہاتھوں پر اٹھاکر دعا کرتے تھے ۔جب نماز تمام ہو گئی تو میں نے آنحضرت سے عرض کیا :آج میں نے وہ چیزیں دیکھی ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں ؟تو آپ نے فرمایا:”جبرئیلؑ نے میرے پاس آکر مجھے خبر دی کہ میرے بیٹے کو قتل کردیا جا ئیگا، میں نے عرض کیا: تو مجھے دکھائیے کہاں قتل کیا جائے گا؟تو آپ نے مجھے سرخ مٹی دکھا ئی ”۔
(مجمع الزوائد ،جلد ٩، صفحہ ١٨٩)
٦۔ابن عباس سے مروی ہے :حسین علیہ السلام نبی کی آغوش میں تھے تو جبرئیلؑ نے کہا :”کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں ؟”آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”میں کیسے اس سے محبت نہ کروں یہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ”۔
جبرئیلؑ نے کہا :”بیشک آپ کی امت عنقریب اس کو قتل کر دے گی، کیا میں اس کی قبر کی جگہ کی مٹی دکھائوں؟”جب آپ (جبرئیل)نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں سرخ مٹی تھی ”۔
(مجمع الزوائد ،جلد ٩ ،ص ١٩١)
٧۔ابو اُ مامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج سے فرمایا:اس بچہ کو رونے نہ دینا یعنی ”حسین علیہ السلام کو”مروی ہے :ایک روز جبرئیلؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ام سلمہ کے گھر میں داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام سلمہ سے فرمایا: ”کسی کو میرے پاس گھر میں نہ آنے دینا”،جب حسین علیہ السلام گھر میں پہنچے اور نبی کو گھر میں دیکھا تو آپ ان کے پاس جانا ہی چا ہتے تھے کہ ام سلمہ نے آپ کو اپنی آغوش میں لے لیا ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کو تسکین دینے لگی جب آپ زیادہ ضد کرنے لگے تو آپ کو چھوڑ دیاامام حسین علیہ السلام جا کر نبی کی آغوش میں بیٹھ گئے تو جبرئیلؑ نے کہا :”آپ کی امت عنقریب آ پ کے اس فرزندکو قتل کردے گی ؟”۔
”میری امت اس کو قتل کردے گی حالانکہ وہ مجھ پر ایمان رکھتی ہے ؟”۔
”ہاں ،آپ کی امت اس کو قتل کردے گی۔۔۔”۔
جبرئیلؑ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواس جگہ کی مٹی دیتے ہوئے فرمایا: اس طرح کی جگہ پرقتل کیا جائے گا، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسین علیہ السلام کو پیار کرتے ہوئے نکلے ،آپ بے انتہا مغموم و رنجیدہ تھے۔ام سلمہ نے خیال کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس بچہ کے پہنچ جانے کی وجہ سے رنجیدہ ہوئے ہیں، لہٰذا ام سلمہ نے ان سے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ،آپ ہی کا تو فرمان ہے : ”میرے اس بچہ کو رونے نہ دینا ” اور آپ ہی نے تو مجھے یہ حکم دیا تھا کہ میں آپ کے پاس کسی کو نہ آنے دوں،حسین علیہ السلام آگئے تو میں نے ان کو آپ کے پاس آنے دیا،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ئی جواب دئے بغیر اپنے اصحاب کے پاس پہنچے اور آپ نے بڑے رنج و غم کے عالم میں ان سے فرمایا:”میری امت اس کو قتل کردے گی ”اورامام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ فرمایا۔
ابوبکر اور عمر دونوں نے آنحضرت کے پاس جا کر عرض کیا :اے نبی خدا !وہ مو من ہیں یعنی مسلمان ہیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ”ہاں ،یہ اس جگہ کی مٹی ہے ۔۔۔”
٨۔انس بن حارث سے مروی ہے :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”میرا یہ فرزند (حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا )کربلا نام کی سر زمین پر قتل کیا جا ئے گا تم میں سے جو بھی اس وقت موجود ہو وہ اس کی مدد کرے ” جب امام حسین علیہ السلام کربلا کیلئے نکلے تو آپ کے ساتھ انس بھی تھے جو آپ کے سامنے کربلا کے میدان میں شہید ہوئے ۔
(تاریخ ابن الوردی ،جلد ١،صفحہ ١٧٣،١٧٤)
٩۔ام سلمہ سے مروی ہے :امام حسن اورامام حسین علیہ السلام دونوں میرے گھر میں رسول اللہ کے سامنے کھیل رہے تھے تو جبرئیلؑ نے نازل ہو کر فر مایا:”اے محمد !آپ کی امت آپ کے بعد آپ کے اس فرزند کو قتل کردے گی ”اور حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا آپ گریہ کرنے لگے ،حسین علیہ السلام کو اپنے سینہ سے لگالیا آپ کے دست مبارک میں کچھ مٹی تھی جس کو آپ سونگھ رہے تھے ،اور فر مارہے تھے :”کرب و بلا پر وائے ہو ”آپ نے اس مٹی کو ام سلمہ کو دیتے ہوئے فرمایا:”جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے تو سمجھ لینا کہ میرا فرزند قتل کردیا گیا ہے ”ام سلمہ نے اس مٹی کو ایک شیشہ میں رکھ دیا ،آپ ہر روز اس کا مشاہدہ کرتی اور کہتی تھیں کہ دن یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جا ئے گی وہ دن بہت ہی عظیم ہوگا۔
(معجم کبیر طبرانی ”ترجمہ امام حسین علیہ السلام ”،جلد ٣،صفحہ ١٠٨)
١٠۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں دیکھا ایک کتا ان کے خون میں لوٹ رہا ہے ،تو آپ نے اس خواب کی یہ تعبیر فرما ئی: ایک برص کا مریض آپ کے بیٹے حسین علیہ السلام کو قتل کرے گااور آپ کا یہ خواب حقیقی طور پر ثابت ہوا،آپ کے بیٹے حسین علیہ السلام کو برص کے مرض میں مبتلا خبیث شمر بن ذی الجوشن نے قتل کیا۔
(تاریخ خمیس ،جلد ٢، صفحہ ٣٣٤)
یہ بعض رویات تھیں جن میں نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اعلان فرما دیا تھا کہ آپ کے بیٹے امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا جا ئیگااور آپ اس دردناک واقعہ کی وجہ سے محزون و گریاں رہے۔
امام حسین علیہ السلام اپنے والد بزرگوار کے ساتھ
حضرت امام حسین علیہ السلام علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کی عطوفت کے زیر سایہ پرورش پائی آپ کے والد بزرگوار آپ سے اتنی محبت کرتے تھے کہ آپ نے جنگ صفین میں اپنے دونوں فرزندوں کو میدان جنگ میں حاضر ہونے کی اجازت نہیں دی کہ کہیںان کے شہید ہوجانے سے نسل رسول منقطع نہ ہو جائے، مولائے کائنات آپ اور آپ کے بھا ئی امام حسن کی تعریف کرتے تھے، آپنے ان دونوں کو اپنے فضائل و کمالات سے آراستہ کیااور اپنے آداب اور حکمتوں کے ذریعہ فیض پہنچایایہاں تک یہ دونوں آپ کے مانند ہو گئے ۔
امام حسین علیہ السلام شجاعت ،عزت نفس ،غیرت اور نورانیت میں اپنے پدر بزرگوار کی شبیہ تھے ،آپ نے بنی امیہ کے سامنے سر جھکانے پر شہادت کو ترجیح دی ،جس کی بنا پر آپ نے ظاہری زندگی کو خیرآباد کہا اور راہِ خدا میں قربان ہونے کیلئے آمادہ ہو گئے ۔ہم اس سلسلہ میں ذیل میں قارئین کرام کیلئے کچھ مطالب پیش کرتے ہیں :
حضرت علی علیہ السلام کا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دینا
حضرت علی نے اپنے بیٹے ابوالاحرار کی شہادت کی خبر کو شایع کیا اس سلسلہ میں ہم امام حسین علیہ السلام سے متعلق حضرت علی علیہ السلام کی چند احا دیث بیان کرتے ہیں :
١۔عبداللہ بن یحییٰ نے اپنے پدر بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ صفین تک کاسفر طے کیا، یحییٰ کے والد مولائے کا ئنات کا لوٹا اپنے ساتھ رکھتے تھے، جب ہم نینوا کو پا ر کرچکے تو مو لائے کائنات نے بلند آواز میں فرمایا:اے ابو عبد اللہ ٹھہرو!اے ابو عبد اللہ ٹھہرو فرات کے کنارے پر”یحییٰ آپ کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھے :ابو عبداللہ کیا بات ہے ؟تو امام نے فرمایا:”میں ایک دن رسول اللہ کی خدمت میں پہنچا تو آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ آپ کو کسی نے رنجیدہ کردیا ہے ؟آپ کی آنکھوں میں آنسو کیسے ہیں ؟آنحضرت نے فرمایا:میرے پاس جبرئیلؑ آئے اور انھوں نے مجھے خبر دار کیا ہے کہ حسین علیہ السلام کو فرات کے کنارے قتل کردیا جا ئیگا،اور فرمایا:کیا تمہارے پاس اس جگہ کی مٹی ہے جس کامیں استشمام کروں؟جبرئیلؑ نے جواب دیا :ہاں،تو مجھے ایک مٹھی خاک اس جگہ کی اٹھا کر دی لہٰذا میری آنکھیں آنسووں کو نہیں روک سکی ”۔
(تاریخ بن عساکر (مخطوط)،جلد ١٣، صفحہ ٥٧۔٥٨،معجم کبیر طبرا نی نے کتاب ترجمہ امام حسین علیہ السلام ،جلد ٣ ،صفحہ ١٠٥،١٠۶)
٢۔ہرثمہ بن سلیم سے مروی ہے کہ ہم جنگ صفین کیلئے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ چلے جب ہم کربلا میں پہنچے تو ہم نے نماز ادا کی، نماز کے بعد آپ نے اس جگہ کی مٹی کو اٹھایا اور اس کو سونگھنے کے بعد فرمایا:”اے زمین !تجھ سے ایک ایسی قوم محشور ہو گی جو بغیر حساب کے جنت میں جا ئیگی ”
ہرثمہ کو امام کے اس فرمان پر تعجب ہوا ،اور امام کی بات بار بار اس کے ذہن میں آنے لگی ، جب وہ اپنے شہر میں پہنچے تو انھوں نے یہ حدیث اپنی زوجہ جرداء بنت سمیر کوجو امام کے شیعوں میں سے تھی کو سنا ئی ۔ اس نے کہا : اے شخص! ہم کو ہمارے حال پر چھوڑ دو ،بیشک امیرالمومنین حق کے علاوہ اور کچھ نہیں کہتے ،ابھی کچھ دن نہیں گذرے تھے کہ ابن زیاد نے اپنے لشکر کو فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کر نے کیلئے بھیجا،ان میں ہر ثمہ بھی تھا جب وہ کر بلا پہنچا تو ان کو امیر المو منین کا فرمان یاد آگیااور ان کے فرزند ارجمندامام حسین علیہ السلام سے جنگ کر نے کے لئے تیار نہیں ہوا ۔
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام کی خدمت اقدس میں پہنچا اور جو کچھ آپ کے پدربزرگوارسے سنا تھا اُن کے سامنے بیان کیاامام نے اس سے فرمایا :”انت معنااوعلينا ؟”تو ہمارے ساتھ ہے یا ہمارے خلاف ہے ”،ہر ثمہ نے کہا :نہ آپ کے ساتھ ہوں اور نہ آپ کے خلاف ہوں، بلکہ میں نے اپنے اہل و عیال کو چھوڑدیا ہے اور اب ان کے سلسلہ میں ،میں ابن زیاد سے ڈررہا ہوں ،امام نے اس کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
”ولّ هارباحتی لاتریٰ لنامقتلا،فوالذی نفس محمد بيده لايریٰ مقتلنا اليوم رجل ولايغيثنا الّاادخله النار”
ہر ثمہ وہاں سے جلد ہی چلا گیا اور اس نے امام کو قتل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔
(حیاة الامام الحسین علیہ السلام ،جلد ١،صفحہ ٤٢٦)
٣۔ثابت بن سویدنے غفلہ سے روایت کی ہے : ایک دن حضرت علی نے خطبہ دیا تو آپ کے منبر کے پاس سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا :یا امیر المو منین !میرا وا دی قریٰ کے پاس سے گذر ہوا تو میں نے خالد بن عرفطہ کو مرے ہوئے دیکھا! لہٰذا آپ اس کے لئے استغفار کردیجئے ۔
امام نے فرمایا :”خدا کی قسم وہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک ایک گمراہ لشکر کی قیادت نہ کرلے اور اس کا پرچمدار حبیب بن حمار ہوگا ۔۔۔”۔
ایک شخص نے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا :اے امیر المو منین میں حبیب بن حمار ہوں ،اور آپ کا شیعہ اور چا ہنے والا ہوں ۔۔۔
امام نے اس سے فرمایا :” تو حبیب بن حمار ہے؟” ۔اس نے کہا :ہاں۔
امام نے کئی مرتبہ اس کی تکرار فر ما ئی اور حبیب نے ہر مرتبہ جواب دیا :ہاں ۔امام نے فرمایا :
”خدا کی قسم تو پرچمدار ہوگا یا تجھ سے پرچم اٹھوایا جا ئے گا ،اور تجھے اس دروازے سے داخل کیا جا ئے گا ‘ ‘اور آپ نے مسجد کو فہ کے باب فیل کی طرف اشارہ کیا ۔
ثابت کا کہنا ہے : میں ابن زیاد کے زمانہ تک زندہ رہا اور اس نے عمر بن سعد کوامام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لئے بھیجااور خالد بن عُرفطہ کو ا پنے ہراول دستہ میںقرار دیااور حبیب بن حمار کو پرچمدار قراردیا،اور وہ باب فیل سے داخل ہوا ۔
(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،جلد١٠،صفحہ ١٤)
٤۔امیر المو منین نے براء بن عازب سے فرمایا:”اے براء !کیا حسین علیہ السلام قتل کر دئے جا ئیں اور تم زندہ رہتے ہوئے بھی ان کی مدد نہ کر سکو؟”۔
براء نے کہا : اے امیر المو منین ! ایسا نہیں ہو سکتا ،جب امام حسین علیہ السلام شہید کئے گئے تو براء نادم ہوا اور اس کو امام امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان یاد آیااور اس نے کہا:سب سے بڑی حسرت یہ ہے کہ میں وہاں پر حا ضر نہ ہو سکا! ان کی جگہ میں قتل کر دیا جاتا ۔
(الاصابہ ،جلد ١،صفحہ ١٨٧۔حیاة الامام الحسین علیہ السلام ، جلد ١،صفحہ ٤٢٩)
حضرت علی سے اس طرح کی متعدد احا دیث مروی ہیںجن میں فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسین علیہ السلام کی کربلا میں شہادت کا اعلان کیا گیا ہے اور ہم نے اس سے متعلق احادیث اپنی کتاب (حیاة الامام الحسین علیہ السلام ) میں بیان کی ہیں ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام معاویہ کے ساتھ
امت معاویہ کا شکار ہو کر رہ گئی ،اس کے حکم کے سامنے تسلیم ہو گئی ،جس میں فکری اور معاشرتی حقد وکینہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور جو کچھ اسلام نے امت کی اونچے پیمانہ پر تربیت اور ایسے بہترین اخلاق سے آراستہ کیا تھا اس کو امت کے دلوں سے نکال کر دور پھینک دیا اور اس نے مندرجہ ذیل سیاسی قوانین معین کئے :
١۔اس نے اسلام کے متعلق سعی و کو شش کرنے والے ارکان حجر بن عدی ،میثم تمار ،رشید ہجری ، عمرو بن الحمق خزاعی اور ان کے مانند اسلا م کی بڑی بڑی شخصیتوں کو ہلاک کر نے کی ٹھان لی اور ان کو قربان گاہ میں لا کر قتل کر دیا،کیونکہ انھوں نے اس کے حکم کا ڈٹ کر مقابلہ کیااور وہ اس کی ظلم و استبداد سے بھری ہو ئی سیاست سے ہلاک ہوئے ۔
٢۔اس نے اہل بیت کی اہمیت کو کم کرنا چا ہا جو اسلام اور معاشرہ کے لئے مرکزی حیثیت رکھتے تھے اور جو امت کو ترقی کی راہ پر گا مزن کر نا چا ہتے تھے، اس امت کو ان سے حساس طور پر متعصب کردیا ،امت کے لئے مسلمانوں پر سب و شتم کرنا واجب قرار دیا ،ان کے بغض کو اسلامی حیات کا حصہ قرار دیا،اس نے اہل بیت کی شان و منزلت کو گھٹانے کیلئے تعلیم و تربیت اور وعظ و ارشاد کا نظام معین کیا اور ان (اہل بیت ) پر منبروں سے نماز جمعہ او ر عیدین وغیرہ میں سب و شتم کرنا واجب قرار دیا ۔
٣۔اسلام کے واقعی نو ر میں تغیر و تبدل کیا،تمام مفاہیم و تصورات کو بدل ڈالا ،اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کر کے احا دیث گڑھنے والے معین کئے ،حدیث گڑھنے والے عقل اور سنت کے خلاف احادیث گڑھ کر بہت خوش ہوتے تھے ، بڑے افسوس کا مقا م ہے کہ ان گڑھی ہو ئی احادیث کو صحاح وغیرہ میں لکھ دیا گیا ،جن کتابوں کو بعض مو ٔ لفین لکھنے کیلئے مجبور و ناچار ہو گئے اور ان میں ان گڑھی ہو ئی احادیث کو مدوّن کیاجو ان گڑھی ہو ئی باتوں پر دلالت کر تی ہیں ،ہمارے خیال میں یہ خوفناک نقشہ ایسی سب سے بڑی مصیبت ہے جس میں مسلمان گرفتار ہوئے اور مسلمان ان گڑھی ہوئی احادیث پر یہ عقیدہ رکھنے لگے کہ یہ ان کے دین کا جزء ہے اور وہ ان احا دیث سے بری الذمہ ہیں ۔
امام حسین علیہ السلام کا معاویہ کے ساتھ مذاکرہ
امام حسین علیہ السلام نے معاویہ سے سخت لہجہ میں مذاکرہ کیاجس سے اس کی سیاہ سیاست کا پردہ فاش ہو اجو اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کے با لکل مخالف تھی اور جس میں اسلام کے بزرگان کے قتل کی خبریں مخفی تھیں،یہ معاویہ کی سیاست کا ایک اہم وثیقہ تھاجو معاویہ کے جرائم اور اس کی ہلاکت پر مشتمل تھا ،ہم نے اس کو تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب (حیاةالامام الحسین علیہ السلام )میں بیان کیا ہے ۔
مکہ معظمہ میں سیاسی اجلاس
امام حسین علیہ السلام نے مکہ میں ایک سیاسی اور عمو می اجلاس منعقد کیا جس میں حج کے زمانہ میں آئے ہوئے تمام مہا جرین و انصار وغیرہ اور کثیرتعدادنے شرکت کی ،امام حسین علیہ السلام نے ان کے درمیان کھڑے ہوکر خطبہ دیا ، معاویہ کے زمانہ میں عترت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ڈھا ئے جانے والے مصائب و ظلم و ستم کے سلسلہ میں گفتگو فر ما ئی آپ کے خطبہ کے چند فقرے یہ ہیں :
”اس سرکش نے ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ وہ کام انجام دئے جس کو تم نے دیکھا ،جس سے تم آگاہ ہو اور شاہد ہو ،اب میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کر نا چا ہتا ہوں ، اگر میں نے سچ بات کہی تو میری تصدیق کرنا اور اگر جھوٹ کہا تو میری تکذیب کرنا ،میری بات سنو ، میرا قول لکھو ،پھر جب تم اپنے شہروں اور قبیلوں میں جائو تو لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور اس پر اعتماد کرے تو تم اس کو ہمارے حق کے سلسلہ میں جو کچھ جانتے ہواس سے آگاہ کرو اور اس کی طرف دعوت دومیں اس بات سے خوف کھاتا ہوں کہ اس امر کی تم کو تعلیم دی جائے اور یہ امر مغلوب ہو کر رہ جا ئے اور خدا وند عالم اپنے نور کو کا مل کر نے والا ہے چا ہے یہ بات کفار کو کتنی ہی نا گوار کیوں نہ ہو ”۔
اجلاس کے آخر میں امام نے اہل بیت کے فضائل ذکر کئے جبکہ معاویہ نے اُن پر پردہ ڈالنا چاہا،اسلام میں منعقد ہونے والا یہ پہلا سیمینار تھا ۔
آپ کا یزید کی ولی عہدی کی مذمت کرنا
معاویہ نے یزید کو مسلمانوں کا خلیفہ معین کرنے کی بہت کو شش کی ،بادشاہت کو اپنی ذریت و نسل میں قرار دینے کے تمام امکانات فراہم کئے ،امام حسین علیہ السلام نے اس کی سختی سے مخالفت کی اور اس کا انکار کیا چونکہ یزید میں مسلمانوں کا خلیفہ بننے کی ایک بھی صفت نہیں تھی اور امام حسین علیہ السلام نے اس کے صفات یوں بیان فرمائے : وہ شرابی شکارچی،شیطان کا مطیع و فرماں بردار ،رحمن کی طاعت نہ کرنے والا ،فساد برپا کرنے والا،حدود الٰہی کو معطل کرنے والا ، مال غنیمت میں ذاتی طور پر تصرف کرنے والا حلال خدا کو حرام،اور حرام خدا کو حلال کرنے والا ہے۔
(تاریخ ابن اثیر،جلد ٢،صفحہ ٥٥٣)
معاویہ نے امام حسین علیہ السلام کو ہر طریقہ سے اس کے بیٹے یزید کی بیعت کرنے کیلئے قانع کر نا چاہا ،اس کے علاوہ اس کے پاس کو ئی اور چارہ نہیں تھا ۔
معاویہ کی ہلاکت
جب باغی معاویہ ہلاک ہو ا تو حاکم مدینہ ولید نے یزید کی بیعت لینے کیلئے امام حسین علیہ السلام کو بلا بھیجا ، امام نے اس کا انکار کیا اور اس سے فر مایا:”ہم اہل بیت نبوت ،معدن رسالت اور مختلف الملائکہ ہیں،ہم ہی سے اللہ نے آغاز کیا اور ہم ہی پر اختتام ہوگا اور یزید فاسق ، شرابی ،نفس محترم کا قتل کرنے والا،متجاہر بالفسق (کھلم کھلا گناہ کرنے والا)ہے اور مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ‘‘
(حیاةالامام حسین علیہ السلام ، جلد ٢،صفحہ ٢٥٥نقل شدہ کتاب الفتوع جلد٥،صفحہ ١٨)
جس طرح خاندان نبوت کے تمام افراد نے اس کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنے بزرگوں کی اتباع کرتے ہوئے یزید کی بیعت کرنے سے انکار فرمادیا ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کا انقلاب
امام حسین علیہ السلام نے مسلمانوں کی کرامت و شرف کو پلٹانے ،ان کو امویوں کے ظلم و ستم سے نجات دینے کیلئے یزید کے خلاف ایک بہت بڑا انقلاب برپا کیا ،آپ نے اپنے اغراض و مقاصد کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:” انی لم اخرج۔۔۔” ”میں سرکشی ،طغیان ،ظلم اور فساد کیلئے نہیں نکلا میں اپنے نانا کی امت میں اصلاح کیلئے نکلا ہوں ،میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا چا ہتا ہوں میں اپنے نانا اور بابا کی روش پر چلنا چا ہتا ہوں ”۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنا انقلاب اس لئے جاری رکھا تاکہ آپ ملکوں میں اصلاحی اقدامات کی بنیاد رکھیں ،لوگوں کے مابین معاشرہ میں حق کا بول بالا ہو ،اور وہ خوفناک منفی پہلو ختم ہو جا ئیں جن کو اموی حکام نے اسلامی حیات میں نافذ کر رکھا تھا ۔
جب امام حسین علیہ السلام نے حجاز کو چھوڑ کر عراق جانے کا قصد کیا تو لوگوں کو جمع کرنے کا حکم دیا، بیت اللہ الحرام میں خلق کثیر جمع ہو گئی ،آپ نے ان کے درمیان ایک جاودانہ تاریخی خطبہ ارشاد فرمایاجس کے چند جملے یہ ہیں :”الحمد للّٰہ،وماشَائَ اللّٰہ۔۔۔” ”تمام تعریفیں خدا کے لئے ہیں ،ہر چیز مشیت الٰہی کے مطابق ہے خدا کی مرضی کے بغیر کو ئی قوت نہیں ،خدا کا درود و سلام اپنے نبی پر ، لوگوں کے لئے موت اسی طرح مقدر ہے جس طرح جوان عورت کے گلے میں ہار ہمیشہ رہتا ہے ،مجھے اپنے آباء واجداد سے ملنے کا اسی طرح شوق ہے جس طرح یعقوب ،یوسف سے ملنے کیلئے بے چین تھے ، مجھے راہِ خدا میں جان دینے کا اختیار دیدیا گیا ہے اور میں ایسا ہی کروںگا ،میں دیکھ رہاہوں کہ میدان کربلا میں میرا بدن پاش پاس کردیا جا ئے گا ،اور میری لاش کی بے حرمتی کی جا ئے گی ،میں اس فیصلہ پر راضی ہوں ،خدا کی خوشنودی ہم اہل بیت کی خو شنودی ہے، ہم خدا کے امتحان پر صبر کریں گے خدا ہم کو صابرین کا اجر عطا فرمائے گا ،رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کے بدن کا ٹکڑا جدا نہیں ہو سکتا ،بروز قیامت آپ کے بدن کے ٹکڑے اکٹھے کر دئے جا ئیں گے جن کی بنا پر آپ خوش ہوں گے اور اُ ن کے ذریعہ آپ کا وعدہ پورا ہوگا ،لہٰذا جو ہمارے ساتھ اپنی جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ہو اور خدا سے ملاقات کیلئے آمادہ ہو وہ ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار رہے کہ میں کل صبح روانہ ہوجاوں گا ”۔
ہم نے اس سے فصیح و بلیغ خطبہ نہیں دیکھا ،امام نے اپنے شہادت کے ارادہ کا اظہار فرمایا،اللہ کی راہ میں زند گی کو کوئی اہمیت نہیں دی،موت کا استقبال کیا ،مو ت کو انسان کی زینت کیلئے اس کے گلے کے ہار سے زینت کے مانند قراردیا جو ہار لڑکیوں کی گردن کی زینت ہوتا ہے ،زمین کے اس جگہ کا تعارف کرایا جہاں پرآپ کا پاک و پاکیزہ خون بہے گا ،یہ جگہ نواویس اور کربلا کے درمیان ہے اس مقا م پر تلواریں اور نیزے آپ کے جسم طاہر پر لگیں گے، ہم اس خطبہ کی تحلیل اور اس کے کچھ گوشوں کا تذکرہ کتاب ” حیاة الامام الحسین علیہ السلام ”میں کرچکے ہیں۔
جب صبح نمودار ہو ئی تو امام حسین علیہ السلام نے عراق کا رخ کیا ،آپ اپنی سواری کے ذریعہ کربلا پہنچے، آپ نے شہادت کے درجہ پر فائز ہونے کے لئے وہیں پر قیام کیا ،تاکہ آپ اپنے جد کے اس دین کو زندہ کرسکیں جس کو بنی امیہ کے سر پھرے بھیڑیوں نے مٹا نے کی ٹھان رکھی تھی۔
شہادت
فرزند رسول پر یکے بعد دیگرے مصیبتیں ٹوٹتی رہیں ،غم میں مبتلا کرنے والا ایک واقعہ تمام نہیں ہوتا تھا کہ اس سے سخت غم واندوہ میں مبتلا کرنے والے واقعات ٹوٹ پڑتے تھے ۔
امام حسین علیہ السلام نے ان سخت لمحات میں بھی اس طرح مصائب کا سامنا کیا جیسا آپ سے پہلے کسی دینی رہنما نے نہیں کیا تھاچنانچہ اُن سخت لمحات میں سے کچھ سخت ترین لمحات یہ ہیں :
١۔آپ مخدرات رسالت اور نبی کی ناموس کو اتنا خو فزدہ دیکھ رہے تھے جس کو اللہ کے علاوہ اور کو ئی نہیں جانتا ،ہر لمحہ ان کو یہ خیال تھا کہ ان کی عترت کاایک ایک ستارہ اپنے پاک خون میں ڈوب جائے گا،جیسے ہی وہ آخری رخصت کو آئیں گے ان کا خوف و دہشت اور بڑھ جا ئےگا چونکہ بے رحم دشمن ان کو چاروں طرف سے گھیر ے ہوئے تھے ،انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ والی و وارث کی شہادت کے بعد ان پر کیا گذرے گی، ا مام ان پر آنے والی تمام مصیبتوں سے آگاہ تھے ،لہٰذاآپ کا دل رنج و حسرت سے محزون ہورہا تھا، آپ ہمیشہ ان کو صبر و استقامت و پا ئیداری اورآہ و بکا کے ذریعہ اپنی عزت و آبرو میں کمی نہ آنے دینے کا حکم فر ما رہے تھے اور ان کو یہ تعلیم دے رہے تھے کہ خداوند عالم تم کو دشمنوں کے شرسے بچائے گا اور تمہاری حفاظت کرے گا ۔
٢۔بچے مار ڈالنے والی پیاس کی وجہ سے جاں بلب تھے ،جن کا کو ئی فریادرس نہیں تھا ،آپ کا عظیم قلب اپنے اطفال اوراہل و عیال پر رحم و عطوفت کی خاطر پگھل رہا تھااور بچے اپنی طاقت سے زیادہ مصیبت کا سامنا کر رہے تھے ۔
٣۔مجرمین اشقیاء کاآپ کے اصحاب اور اہل بیت کو قتل کرنے کے بعد آپ کے بھتیجوں اور بھانجوں کے قتل کرنے کیلئے آگے بڑھ رہے تھے۔
٤۔آپ نے شدت کی پیاس برداشت کی ،مروی ہے کہ آپ کو آسمان پر دھوئیں کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا ،شدت پیاس سے آپ کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا ۔
شیخ شوستری کا کہنا ہے :امام حسین علیہ السلام کے چار اعضاء سے پیاس کا اظہار ہو رہا تھا: پیاس کی شدت کی وجہ سے آپ کے ہونٹ خشک ہو گئے تھے، آپ کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا جیسا کہ خود آپ کا فرمان ہے جب آپ کھڑے ہوئے موت کے منتظر تھے اور آپ جانتے تھے کہ اس کے بعد مجھے زندہ نہیں رہنا ہے تو آپ نے یوںپیاس کااظہار فرمایا :”مجھے پانی کا ایک قطرہ دیدو ،پیاس کی وجہ سے میرا جگر چھلنی ہو گیا ہے ”، آپ کی زبان میں کا نٹے پڑگئے تھے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا ۔
(الخصائص الحسین علیہ السلامیہ، صفحہ ٦٠)
٥۔جب آپ کے اہل بیت اور اصحاب شہید ہوگئے تو آپ نے اپنے خیموں کی طرف دیکھا تو ان کو خا لی پایااور زور زور سے رونے لگے۔
فرزند رسول پر پڑنے والے ان تمام مصائب و آلام کو دیکھنے اور سننے کے بعدانسان کا نفس حسرت و یاس سے پگھل جاتا ہے ۔
صفی الدین کا کہنا ہے :امام حسین علیہ السلام نے جو مصائب و آلام بر داشت کئے ان کوسننے کی دنیا کے کسی مسلمان میں طاقت نہیں ہے اور ایسا ممکن نہیں ہے کہ ان کو سن کراس کا دل پگھل نہ جائے ۔
(حیاۃ امام حسین علیہ السلام ج،۳،ص۳۷۴)
امام کا استغاثہ امتحان دینے والے امام حسین علیہ السلام نے اپنے اہل بیت اور اصحاب پر رنج و غم اور حسرت بھری نگاہ ڈالی، تو آپ نے مشاہدہ کیا کہ جس طرح حلال گوشت جانور ذبح ہونے کے بعد اپنے ہاتھ پیر زمین مارتا ہے وہ سب آفتاب کی شدت تمازت سے کربلا کی گرم ریت پر بلک رہے ہیں،آپ نے اپنے اہل و عیال کو بلند آواز سے گریہ کرتے دیکھا تو آپ نے حرم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حامی و مدد گار مل جانے کے لئے یوں فریاد کرنا شروع کی :
”ھل من ذاب یذب عن حرم رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؟ھل من موحدٍ یخاف اللّٰہ فینا؟ھل من مغیثٍ یرجوااللّٰہ فی اغاثتنا؟”۔
(دررالافکار فی وصف الصفوة الاخیار، ابوالفتح ابن صدقہ، صفحہ ٣٨)
اس استغاثہ و فریاد کا آپ پر ظلم و ستم کرنے اور گناہوں میں غرق ہونے والوں پر کو ئی اثر نہیں ہوا۔جب امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کی آواز استغاثہ سنی تو آپ اپنے بستر سے اٹھ کرشدت مرض کی وجہ سے عصا پر ٹیک لگاکر کھڑے ہوگئے ،امام حسین علیہ السلام نے ان کو دیکھا اور اپنی بہن سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا سے بلند آواز میں کہا :
”ان کو روکو، کہیں زمین نسل آل محمد علیھم السلام سے خالی نہ ہو جائے ”اور جلدی سے آگے بڑھ کر امام کو ان کے بستر پر لٹادیا ۔
(مناقب ابن شہر آشوب ،جلد ٤، صفحہ ٢٢٢)
امام کی اللہ سے مناجات
ان آخری لمحوں میں امام نے خدا وند عالم سے لو لگا ئی ،اس سے مناجات کی ، خدا کی طرف متوجہ قلب سے تضرع کیا اور تمام مصائب و آلام کی پروردگار عالم سے یوں شکایت فر ما ئی :
”صبراًعلیٰ قضائکَ لاالٰه سواکَ،ياغياث المستغيثين،مال ربُّ سواکَ ولامعبودُغيرُکَ ،صبراًعلیٰ حُکمِکَ،ياغياثَ مَنْ لاغياثَ لَه، يادائما لانفادله، يامحیَ الموتیٰ،ياقائماعلیٰ کلِّ نفسٍ،احکُم بين وبينهم ْ وانتَ خير ُالحاکمِينَ ”
(مقتل الحسین علیہ السلام المقرم ،صفحہ ٣٤٥)
”پروردگارا !میں تیرے فیصلہ پر صبر کرتا ہوں تیرے سوا کو ئی خدا نہیں ہے ،اے فریادیوں کے فریاد رس،تیرے علاوہ میرا کو ئی پر وردگار نہیں اور تیرے سوا میرا کو ئی معبود نہیں ،میں تیرے حکم پر صبر کرتا ہوں، اے فریادرس! تیرے علاوہ کو ئی فریاد رس نہیں ہے ،اے ہمیشہ رہنے والے تجھے فنا نہیں ہے، اے مردوں کو زندہ کرنے والے ،اے ہر نفس کو باقی رکھنے والے ،میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کراور تو سب سے اچھا فیصلہ کر نے والا ہے ”۔
یہ دعا اس ایمان کا نتیجہ ہے جو امام کے تمام ذاتیات کے ساتھ گھل مل گا تھا یہ ایمان آپ کی ذات کا اہم عنصرتھا آپؑ اللہ سے لو لگائے ر ہے ،اس کی قضا و قدر (فیصلے )پر راضی رہے ،تمام مشکلات کو خدا کی خاطر برداشت کیا،اس گہرے ایمان کی بناپرآپ تمام مشکلات کو بھول گئے ۔
ڈاکٹر شیخ احمد وا ئلی اس سلسلہ میں یوں کہتے ہیں :
يا ابا الطف وازدهیٰ بالضحايا
مِن اديم الطفوف روض

نُخبَة مِن صحابةٍ
ورضیعُ مُطوَّ قُ وَ شَبُوْلُ

وَالشَّبَابُ الفَينَانُ جَفَّ فَغَاضَتْ
نَبْعَةُ حُلْوَةُ وَوَجْه جَمِيلُ

وتَاَمَّلْتُ فِْ وُجُوْ ه
وَزَوَاکِْ الدِّمَائِ مِنْها تَسِیْلُ

وَمَشَتْ فِْ شِفَاهکَ الْغُرِّنَجْویٰ
نَمَّ عَنْهاالتَّسْبِيحُ والتَّهلِيلُ

لَکَ عُتْبِیْ يا رَبِّ اِنْ کَانَ َ
فَهذَا اِلیٰ رِضَاکَ قَلِيلُ
(دیوانِ وائلی ،صفحہ ٤٢)
”اے کربلا کے سورما اے وہ ذات جس کی قربانیوں کی بنا پر سر زمین کربلا سر سبز و شاداب ہو گئی ۔
آپ کے ساتھی برگزیدہ تھے ،ان میں شیر خوار تک تھا آپ کے ساتھی قابل رشک جوان تھے۔
میں نے آپ کی قربانی پر غور کیاحالانکہ اس سے خون بہہ رہا تھا۔
آپ زیر لب بھی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہے۔
اے پروردگاریہ میری ناچیز کو شش ہے گر قبول افتد زہے عزّ و شرف” ۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button