رسالاتسلائیڈرمصائب اسیران کربلامکتوب مصائب

اہلبیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دربار ابن زیاد میں داخلہ اورحضرت مختار کی پیشی

واقعہ عاشورا کے بعد جو رات آئی جسے آج کل( شام غریباں ) سے یاد کیا جاتا ہے ۔وہ بھی کچھ کم تکلیف دہ نہ تھی ۔تمام اعزا کا شہید ہو جانا دشمنوں کا زبر دست گھیرا کسی وارث مرد کا موجود نہ ہونا ۔
خدا خدا کر کے رات گزری ،صبح کا ہنگام آیا ، شمر ملعون حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آپہنچا اور کہنے لگا کہ حکم امیر ہے کہ تم پھو پھیوں ، اپنی عورتوں اور اپنے بچوں سمیت شتران بے کجاوہ پر بیٹھا کر دربار ابن زیاد میں چلو ۔تاہم حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو غیظ آگیا اور فرمانے لگیں یہ کبھی نہیں ہو سکتا مگر ساتھ ہی حضر ت امام حسین علیہ السلام کا ارشاد سامنے آگیا بہن اسلام کے لیے مصیبت کا خندہ پیشانی سے استقبال کرنا ۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا تیار ہو گئیں ۔شتران بے کجاوہ اور بے محمل پر بیٹھ کر بہ زار دقت و دشواری اور بہزار تکلیف و مصیبت جا بجا تقریریں فرماتی ہوئیں اور خطبہ کہتی ہوئیں ابن زیاد کے دربار میں داخل ہو ئیں چھوٹے چھوٹے بچے بیمار بھیجتا اور دیگر بنات رسول خدا ساتھ ہیں ۔
مورخین کا بیان ہے کہ جس وقت سرہائے شہداء اور بنات رسول خدا داخل دربار ہوئے تو ابن زیاد بساط شطرنج پر تھا اور وہ محونا شتہ وشراب تھا ۔سروں کے دربار میں پہنچے کے بعد ابن زیاد نے سر امام حسین علیہ السلام کو طشت طلا میں پیش کرکے زیر تخت رکھوا دیا تھا۔ اہلبیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسن بستہ دربار کے ایک گوشہ میں کھڑے ہوئے تھے کہ ابن زیاد نے حکم دیا کہ قید خانہ سے مختار کو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں حاضر دربار کیا جائے لوگوں نے حکم ابن زیاد کے مطابق حضرت مختار علیہ الرحمہ کوزنجیروں میں جکڑا ہوا دربار میں حاضر کیا ۔علما ءلکھتے ہیں کہ ابن زیاد نے مختار سے کہا:
اے مختار تم ابن ابو تراب حسین کا بڑا دم بھرتے تھے ۔لو یہ دیکھو کہ ان کا سر یہاں آیا ہوا ہے ۔حضرت مختار کی نگاہ جونہی سر امام حسین علیہ السلام پر پڑی بے اختیار ہو گئے آپ نے کہا کہ اے ابن زیاد تو نے جو کچھ کیا سب برا کیا اگر خدا نے چاہا توبہت جلد اس کا نتیجہ دیکھ لے گا ۔
اس کے علاوہ آپ نے کچھ منہ سے نہ کہا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت مختار نے جونہی سر حسین پر نگاہ کی جوش میں آکر زنجیروں میں بند ھے ہوئے ہونے کی حالت میں ہی ابن زیاد پر حملہ کر دیا اور ایک روایت کی بنا پر انہوں نے اپنے ہاتھوں کی زنجیر توڑ ڈالی اور جھپٹ کر حملہ کرنا چاہا لیکن لوگوں نے پکڑ لیا ۔ اس کے بعد فرمانے لگے ایک ہزار مرتبہ موت آنے سے زیادہ مجھے اس وقت سرحسین دیکھ کر تکلیف پہنچی ہے ۔حضرت مختار ابھی دربار ہی میں تھے کہ اہل بیت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رونے کی صد ا بلند ہوئی
واجداہ واحسیناہ
اے نانا رسول اور اے حسین غریب ،حضرت مختار یہ منظر دیکھ کر خون کی آنسو رونے لگے ۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ مختار کی زنجیریں اور کس دی جائیں اور انہیں قید خانہ میں لے جاکر ڈال دیا جائے ۔ چنانچہ لوگوں نے زنجیریں اور کس دیں اور انہیں لے جا کر قید خانہ ڈال دیا۔
(رو ضۃ المجاہدین ص۱۰،ریاض القد س ص۱۳۶)
(اقتباس از مختار آل محمدؐ : مولانانجم الحسن کراروی)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button