عقائدعقائد کا مطالعہ

آخرت میں اندھا محشور ہونے کا مفہوم

خداوند متعال کے اس فرمان:”جولوگ دنیا میں اندھے ہیں ،وہ آخرت میں بھی اندھے ہوں گے”کا مراد کیا ہے؟
آیہ شریفہ وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا
اور جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ (اندھے سے بھی) زیادہ گمراہ ہو گا۔
الاسراء:٧٢
اور اس کی مشابہ
وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی وَ قَدۡ کُنۡتُ بَصِیۡرًا
اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔ وہ کہے گا: میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو بینا تھا؟
طہٰ:١٢٤، ١٢٥
دوسری آیات میں اعمی سے مراد دنیا میں جسمانی اندھا پن نہیں ہے ،بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ شخص دانستہ طور پر اپنے آپ کو اندھا بنائے،یعنی خدا کے جلوؤں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقانیت کو دیکھتا ہے اور حق وحقیقت تک پہنچتا ہے،لیکن دل سے ان کا معتقد نہیں ہو تا ہے ,جیسے کہ اصلا اس کی آنکھوں نے ان آثار اور عظمتوں کو نہیں دیکھا ہے۔وہ دینی مسائل کے ساتھ ایسا بر تاو کر تا ہے،جیسا کہ نہ انہیں دیکھا ہے اور نہ انہیں سنا ہے،لہذا حق بات کہنے اور اس کے اقرار کرنے سے بھی اجتناب کر تا ہے اور قرآن مجید کی تعبیر میں یہ(دانستہ طورپر)اندھا،بہرا اور گونگا ہے۔
آخرت کی اکثر سزائیں تجسم اعمال کی صورت میں ہیں،اس کا قلبی اندھا پن نمایاں ہو کر اس کے لئے عذاب و تکلیف کا سبب بن جاتا ہے،محشر میں جہاں آیات الہی اور مومنین جلوہ گرہیں وہ اندھا ہے اور حق کے دل ربا جمال،مومنین کے نورانی چہرے اور بہشتی نعمتوں کو دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے اور بہشت کی طرف جانے کے کسی راستہ کو نہیں پا سکتا ہے۔لیکن اس کے جہنم میں داخل ہو نے کے بعد اس کے عذاب میں شدت پیدا ہو نے کے لئے،مختلف عذاب اور عذاب میں مبتلا جہنمیوں کو دیکھنے کے لئے اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، چونکہ دنیا میں بھی ایسا ہی تھا کہ حق و حقیقت کے سامنے وہ اپنی آنکھوں کو بند کرلیتا تھا اورباطل،دنیا اور دنیا پرستوں کے لئے اپنی آنکھیں کھولے رکھتا تھا۔
پس اس سے ادراک سلب نہیں ہو تا تھا ،بلکہ قیامت کے دن سب کا ادراک اپنے کمال تک پہنچتا ہے اور سب غیبی امور کے بارے میں،جیسے خدا کا وجود ،وحی ،ملائکہ ،بہشت و جہنم و۔۔۔ عین الیقین تک پہنچتے ہیں اور کسی شخص کے لئے ان امور کے سلسلہ میں انکار وشبہہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
انسان کا ڈھانچہ مختلف توانائیوں کا حامل ہے ،جن میں سے بعض ظاہری اور حسی ہیں اور بعض باطنی اور انسان کی روح سے مربوط ہیں،لیکن ظاہری توانائیاں،بدن کی نوکر اور لذتوں اور بدن کی ضرورتوں کو پورا کر نے کے اوزار ہو نے کے علاوہ (جیسا کہ حیوان میں بھی یہی ذمہ داریاں رکھتی ہیں)دل تک اطلاع پہنچانے کی راہ اور معارف کسب کر نے اور جذبات و احساسات کو ابہار نے والی بھی ہیں،اس لحاظ سے انسان کی پوری زندگی میں اس کو سمت دیتی ہیں۔اب اگر انسان ان حسی نعمتوں ،خاص کر آنکھیں اور کان،سے پورا استفادہ کرے اور ان دو اوزاروں کا صحیح استعمال کر ے اور اپنی انسانیت کی بلند راہ میں ان سے بہرہ مند ہو جائے،تو اس کو سمیع وبصیر کہا جاسکتا ہے(نہ کہ صرف سننے اور دیکھنے والا )۔لیکن اگر ان نعمتوں سے صحیح استفادہ نہ کرے اور ان سے حاصل ہو نے والے معارف کے بارے میں ان سنی اور ان دیکھی کا مظاہرہ کرے اور ان معارف کے سلسلہ میں اقرار کی زبان نہ کھولے تو گو یا وہ سننے اور دیکھنے والا نہیں تھا ،کیونکہ اس کی آنکھوں اور کان کا وہ فائدہ نہیں ہے جو اس کی حیات طیبہ کے لئے ہو نا چاہیےتھا اور یہ عدم فائدہ اس کی آنکھوں اور کان میں عیب کی وجہ سے نہیں ہے،بلکہ یہ ان نعمتوں کے بارے میں اس کے اختیار کا غلط استفادہ اور عدم بیداری و تذکر کا نتیجہ ہے۔
اس لحاظ سے،ممکن ہے کہ انسان،خدا وخالقیت اور اس کی رحمت و عنایات کے قرائن کا مشاہدہ کر تا ہے،لیکن خدا پر ایمان نہیں لاتا ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے قرائن اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات کو دیکھتا ہے،لیکن ان کی تصدیق نہیں کر تا ہے اور ان کی فر مودات کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا ہے،ولی کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نصوص کو سنتا ہے اور ان کی عظمتوں اور فضا ئل کو پاتا ہے،لیکن ان کا انکار کر تا ہے اور اس کے نتیجہ میں ولی کی ولایت کو مسترد کر تا ہے اور ولایت کے تحت نہیں آتا ہے بلکہ اس کے ساتھ جنگ کر تا ہے،یا خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکروں کی توجہ اور ان کی صداقت ،معاد کے ضروری ہو نے کی علامتوں کے باوجود ابدی،بہشتی اور جہنمی زندگی کے وجود کا انکار کر تا ہے۔۔۔اگر کسی نے دنیا میں اپنی پوری عمر میں اس طرح کی زندگی بسر کی اور اپنی آنکھوں کو انسانیت و معنویت کی طرف سے بند رکھا اور ان سے منہ موڑ لیا اور خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور ولی کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا،تو وہ آخرت میں بھی جو تجسم اعمال پرکھنے اور جزا وسزا پانے کی جگہ ہے ، کبریائے حق جل جلالہ کے دلربا جمال اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیائے خدا اور مومنین کی ملکوتی صورتوں اور بہشتی نعمتوں کا مشاہدہ کر نے سے محروم رہے گا اور جہنم میں داخل ہو گا اور جس طرح دنیا میں دل کے اندھے پن کی وجہ سے سعادت کے راستے میں آگے نہ بڑھ سکا ،آخرت میں بھی اندھا محشور ہو گااور بہشت کو پانے سے محروم ہو گا۔
قرآن مجید میں قیامت میں اندھے پن کے اسباب وعلل کے طور پر مندرجہ ذیل امور دینوی عوامل ،وعلل کے طور پر ذکر ہوئے ہیں:
خدا کا انکار اور محض دنیاداری اور نفسانی خواہشات کی پرستش :
وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ مَنۡ اَسۡرَفَ وَ لَمۡ یُؤۡمِنۡۢ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ؕ وَ لَعَذَابُ الۡاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَ اَبۡقٰی
طہٰ١٢٤ ،١٢٧
اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔ اور ہم حد سے تجاوز کرنے والوں اور اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان نہ لانے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو زیادہ شدید اور تادیر باقی رہنے والا ہے۔
وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا
الاسراء:72
اور جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ (اندھے سے بھی) زیادہ گمراہ ہو گا۔
وَ مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَہُمۡ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ؕ وَ نَحۡشُرُہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوۡہِہِمۡ عُمۡیًا وَّ بُکۡمًا وَّ صُمًّا ؕ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ کُلَّمَا خَبَتۡ زِدۡنٰہُمۡ سَعِیۡرًا
الاسراء:97
اور ہدایت یافتہ وہ ہے جس کی اللہ ہدایت کرے اور جسے اللہ گمراہ کر دے تو آپ اللہ کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں پائیں گے اور قیامت کے دن ہم انہیں اندھے منہ اندھے اور گونگے اور بہرے بنا کر اٹھائیں گے، ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا، جب آگ فرو ہونے لگے گی تو ہم اسے ان پر اور بھڑکائیں گے۔
دین کے امور میں ہٹ دھرمی اور بہانہ تراشی:
وَ اَمَّا ثَمُوۡدُ فَہَدَیۡنٰہُمۡ فَاسۡتَحَبُّوا الۡعَمٰی عَلَی الۡہُدٰی فَاَخَذَتۡہُمۡ صٰعِقَۃُ الۡعَذَابِ الۡہُوۡنِ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ
فصلت:١٧
اور (ادھر) ثمود کو تو ہم نے راہ راست دکھا دی تھی مگر انہوں نے ہدایت کی جگہ اندھا رہنے کو پسند کیا تو انہیں ان کے اعمال کے سبب ذلت آمیز عذاب کی بجلی نے گرفت میں لے لیا۔
آخرت کو فراموش کر نا اور اس پر اعتقاد نہ رکھنا:
بَلِ ادّٰرَکَ عِلۡمُہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۟ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّنۡہَا ۟ بَلۡ ہُمۡ مِّنۡہَا عَمُوۡنَ
النمل:66
بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ماند پڑ گیا ہے، بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں ہیں بلکہ یہ اس کے بارے میں اندھے ہیں۔
لوگوں کو دین سے روکنا اور خدا پر افتراء باندھنا:
وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ؕ اُولٰٓئِکَ یُعۡرَضُوۡنَ عَلٰی رَبِّہِمۡ وَ یَقُوۡلُ الۡاَشۡہَادُ ہٰۤؤُلَآءِ الَّذِیۡنَ کَذَبُوۡا عَلٰی رَبِّہِمۡ ۚ اَلَا لَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ
ھود:18
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ افترا کرتا ہے، ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے اور گواہ کہیں گے: یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا، خبردار! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
قَالَ یٰقَوۡمِ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کُنۡتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ وَ اٰتٰىنِیۡ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِہٖ فَعُمِّیَتۡ عَلَیۡکُمۡ ؕ اَنُلۡزِمُکُمُوۡہَا وَ اَنۡتُمۡ لَہَا کٰرِہُوۡنَ
ھود:28
(نوح نے) کہا: اے میری قوم! مجھے بتاؤ اگر میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا ہے مگر وہ تمہیں نہ سوجھتی ہو تو کیا ہم تمہیں اس پر مجبور کر سکتے ہیں جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟
آیات الہی کو جھٹلانا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبول نہ کر نا:[ انعام/٥و٤۔اعراف/٦٤۔بقرہ/١٨و١٧]
مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوۡرِہِمۡ وَ تَرَکَہُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ
بقرہ:17،18
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے(تلاش راہ کے لیے) آگ جلائی، پھر جب اس آگ نے گرد و پیش کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کر لی اور انہیں اندھیروں میں (سرگرداں) چھوڑ دیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں پس وہ (اس ضلالت سے) باز نہیں آئیں گے۔
وَ مَا تَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ مِّنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِمۡ اِلَّا کَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ فَقَدۡ کَذَّبُوۡا بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ ؕ فَسَوۡفَ یَاۡتِیۡہِمۡ اَنۡۢبٰٓؤُا مَا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ
الانعام:4،5
اور ان کے رب کی نشانیوں میں سے جو بھی نشانی ان کے پاس آتی ہے یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ چنانچہ جب حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے بھی جھٹلا دیا، پس جس چیز کا یہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں اس کی خبر عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گی۔
فَکَذَّبُوۡہُ فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ فِی الۡفُلۡکِ وَ اَغۡرَقۡنَا الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمًا عَمِیۡنَ
الاعراف:64
مگر ان لوگوں نے ان کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں اور کشتی میں سوار ان کے ساتھیوں کو بچا لیا اور جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی تھی انہیں غرق کر دیا، کیونکہ وہ اندھے لوگ تھے۔
قطع رحم ، ولی کی ولایت کو قبول نہ کر نا اور سر کشی وعصیان:
فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمۡ وَ اَعۡمٰۤی اَبۡصَارَہُمۡ

محمد:٢٢،٢٣
پھر اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ روایات میں بھی اندھے پن اور حق کو نہ دیکھ پانے کے مندرجہ ذیل امور،مصادیق کے عنوان سے بیان کئے گئے ہیں:امام علی علیہ السلام کی ولایت کا انکار اور استطاعت کے باوجود مرتے دم تک واجب حج بجا نہ لانا
(اطیب البیان”،ج١٨،ص٢٨٧و٢٨٨۔المیزان ،ج٤،ص٣١٤۔کنزالدقائق،ج٧،ص٥٢٤، ٥٢٣و٤٦٢،٦ ٤٥، و ج ٨، ص٣٧١، ٣٦٨)
البتہ روایات میں آیات کے بارے میں بھی اشارہ ہوا ہے۔
آخرت میں اندھا پن اس معنی میں نہیں ہے کہ شخص ہر قسم کے ادراک سے محروم ہو ،جیسا کہ دنیا میں بھی ایساہی ہے۔وہ محشر میں اپنے اندھے پن کا ادراک کر تا ہے اور اس مطلب کی طرف بھی متوجہ ہے کہ یہ دنیا کی سرائے کے علاو ہ ایک اور سرائے ہے وہاں پر آنکھیں رکھتا تھا اور یہاں پر ان سے محروم ہے۔اس لئے اعتراض کی زبان کھولتا ہے،جس طرح دنیا میں ہٹ دھرمی اور اعتراض کر نے کا عادی تھا۔
وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی وَ قَدۡ کُنۡتُ بَصِیۡرًا وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ مَنۡ اَسۡرَفَ وَ لَمۡ یُؤۡمِنۡۢ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ؕ وَ لَعَذَابُ الۡاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَ اَبۡقٰی
طہٰ:١٢٤، ١٢٥،١٢٧
اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔ وہ کہے گا: میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو بینا تھا؟ اور ہم حد سے تجاوز کرنے والوں اور اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان نہ لانے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو زیادہ شدید اور تادیر باقی رہنے والا ہے۔
لیکن قرآن مجید کے ظاہر اور بعض روایات اور مفسرین کی تحقیقات سے جو معلوم ہو تا ہے، وہ یہ ہے کہ: قیامت میں متعدد وقف ہیں تاکہ سر انجام بہشتی، بہشت کی طرف راہی ہو جائیں اور جہنمی،دوزخ میں ڈال دئے جائیں اور اس گروہ کا اندھا پن محشر کی توقف گاہوں سے متعلق ہے، تاکہ جہنم میں داخل ہو نے سے پہلے خداوند متعال کے جلال و جبروت اور اولیائے الہی کو دیکھنے سے محروم رہے، لیکن جہنم میں داخل ہو نے کے بعد اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، تاکہ اولیائے خدا کو نہ دیکھنے اور عذاب میں مبتلا جہنمیوں کو دیکھنے سے اس کے عذاب میں اضافہ ہو جائے!
بعض تنگ نظروں نے خیال کیا ہے کہ من کان فی ہذہ اعمی سے مراد دنیا میں جسمانی اندھا پن ہے،یعنی جو دنیا میں اندھے ہیں،جتنے بھی ۔بصیر اور فقیہ ہوں، آخرت میں اندھے محشور ہوں گے۔جبکہ آیت کا مقصد ایسا نہیں ہے اور فی ہذہ اعمی سے مراد دنیا میں ان کا اندھا پن ہے لیکن فہو فی الاخرہ اعمی سے مراد ظاہری اندھا پن اور اس کے چہرے پر دل کے اندھے پن کا ظہور اور تجسم ہےتاکہ اس کے عذاب کا سبب بنے۔اور جیسا کہ بیان کیا گیا ،یہ محشر میں اس کا اخروی اندھا پن ہے،لیکن جہنم میں داخل ہو نے کے بعد تمام عذاب اور اس کے مجسمہ اعمال پر اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں تا کہ زیادہ عذاب میں مبتلا ہو جائے،جس طرح وہ دنیا میں عمل کر تا ہے، یعنی وہ خدا کی نشانیوں اور او لیائے الہی کے مقابلہ میں آنکھیں بند کرتا تھا اور دنیا کے سر مایہ اور اپنے ہم مسلکوں کو دیکھتا تھا۔
اعاذنا اللہ وایاکم من شرور انفسنا
https://www۔islamquest۔net/ur

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button