امامترسالاتسلائیڈرعقائد

امام ِ معصوم کی ضرورت ( حصہ سوئم)

مختار حسین توسلی
سوال یہ ہے کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کے بعد سب کچھ امت کے حوالے کردیا ہے یا کسی کو اپنا جانشین اور خلیفہ منتخب کیا ہے تاکہ وہ آپ کے بعد لوگوں کی ہدایت و رہبری کا فریضہ انجام دے سکے؟
اس حوالے سے ہمارا موقف یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تعالی کے حکم سے اپنے جانشین منتخب کیے ہیں اور اس امر کو امت کے سپرد نہیں کیا، اس ضمن کچھ دلائل حصہ اول میں بیان کیے ہیں، یہاں مزید کچھ دلائل بیان کیے جائیں گے، اس مورد میں ہم خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے اپنے بعد امت کی ہدایت و رہنمائی اور قیادت و رہبری کے لئے کوئی انتظام فرمایا ہے یا نہیں ؟
وہ یقینا جواب میں فرمائیں گے کہ تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے میں نے اللہ تعالی کے حکم سے تمہاری ہدایت و رہبری کے لئے تنہا قرآن کو نہیں چھوڑا بلکہ اس کے ساتھ میرے اہل بیت کو بھی چھوڑا ہے جو اس عظیم کتاب کے معلم و مفسر ہیں اور ان سے بہتر کوئی تمہیں قرآن و حکمت کی تعلیم نہیں دے سکتا۔”
اہل سنت خلفاء خاص کر حضرت عمر کی پیروی کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت کی ہدایت و رہبری کے لیے کسی امام کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ تنہا قرآن کافی ہے اور امت کے علماء احادیث کی روشنی میں قرآن کے تمام مطالب و مفاہیم کو سمجھ سکتے ہیں۔
جبکہ اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کوئی عام کتاب نہیں ہے بلکہ کلام الہی ہے، لہذا اس میں ناسخ و منسوخ، عام و خاص، مطلق و مقید اور محکم و متشابہ آیات موجود ہیں جن کو سمجھنا عام لوگوں کے بس میں نہیں ہے لہٰذا کوئی ایسا عالم ہونا چاہیے جو پورے قرآن مجید کا کما حقہ علم رکھتا ہو بالفاظ دیگر جیسی کتاب ہے ویسا ہی معلم و مفسر ہونا چاہیے۔
چنانچہ ہمارے عقیدے کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو یونہی سرگرداں نہیں چھوڑےبلکہ قرآن مجید کے ساتھ اس کے وارثین یعنی اہل بیت علیہم السلام کو بھی چھوڑ کر ان کا تعارف کر گئے ہیں تاکہ وہ امت کے لیے قرآن کے احکامات کی توضیح و تشریح بیان کریں اور قرآن کی حقیقی تعلیمات لوگوں تک پہنچ جائیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے حکم سے امت کی ہدایت و رہبری اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دینے کے لیے آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت و ولایت کا اعلان فرمایا ہے چنانچہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے قرآنی آیات اور دیگر دلائل و شواہد سے قطع نظر حدیث ثقلین کافی ہے جو فریقین کے درمیان موثق، متواتر اور متفق علیہ ہے۔
چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :” إنّي تَارِك فِيكُمُ الثَّقلَين كِتَابَ اللهِ ، وَعِترَتِي أهلَ بَيتِ ، مَا إن تَمَسَكّتُم بِهِمَا لَن تَضِلُّوا بَعدِي أبَدَا ، وَهُما لَن يَّفتَرِقا حَتّى يَرِدَا عَلَيَّ الحَوض”
تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ان میں سے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میرے اہل بیت ہیں، جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو نگے اور یہ دونوں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں۔
( مجلسی، بحار الانوار ج 23، ص 133 – 141، تاریخ نشر : 1403ھ ، موسسہ الوفا بیروت لبنان ، کلینی، الکافی ج 1 ، ص 294، طبع ثالث 1388ھ )
صحیح مسلم اور مسند احمد بن حنبل میں یہ حدیث یوں مذکور ہے :” وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ : أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ثُمَّ قَالَ: وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي ۔”
یعنی : میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت اور نور ہے، تم اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو، پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، یہ جملہ آپ نے تین بار دہرایا۔
(صحیح مسلم باب فضائل علی ابن ابی طالب حدیث : 6225، مسند احمد بن حنبل حدیث: 322 – 11393)
جامع ترمذی، مستدرک علی الصحیحین اور مسند احمد بن حنبل میں ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے :” إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، ‏‏‏‏‏‏أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ، ‏‏‏‏‏‏كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي،‏‏‏‏ وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ ۔”
یعنی : میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، اور دوسری میری عترت یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہونگے۔”
(صحیح ترمذی حدیث: 3788، مسند احمد حدیث: 323 ، نیشاپوری، مستدرک علی الصحیحین ج 3، ص 109، دار المعرفت بیروت)
نیز مسند احمد میں ایک اور مقام پر یہ حدیث کچھ یوں مذکور ہے :” إِنِّی تَارِکٌ فِیکُمْ خَلِیفَتَیْنِ کِتَابُ اللّٰہِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مَا بَیْنَ السَّمَاء ِ وَالْأَرْضِ أَوْ مَا بَیْنَ السَّمَاء ِ إِلَی الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِی أَہْلُ بَیْتِی وَإِنَّہُمَا لَنْ یَتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ۔
یعنی : میں تمہارے درمیان دو باقی رہنے والی چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ایک تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، یہ ایک رسی ہے جو آسمان اور زمین کے درمیان لٹکی ہوئی ہے اور میرا خاندان جو کہ میرے اہل بیت ہیں، لوگوں کے حوض کوثر پر آنے تک یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے۔
( مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر: 11395)
کتاب معجم الکبیر اور کچھ دیگر منابع میں حدیث ثقلین کے ذیل میں زید بن ارقم سے مروی ایک روایت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :” فَلاَ تُقَدِّمُوهُمَا فَتَهلِكُوا وَلَا تَقصِرُوا عَنهُمَا فَتَهلِكُوا وَلَا تُعَلّمُوهُم فَإنّهُم أعلَمُ مِنكُم ۔”
یعنی : پس ان دونوں سے نہ آگے بڑھو اور نہ پیچھے رہو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے، اور انہیں ( اہل بیت علیہم السلام کو ) پڑھانے کی کوشش مت کرو کیونکہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں ۔
(الطبرانی، معجم الکبیر ج 5، ص 167، اشاعت 1405ھ، کنزل العمال، المتقی الہندی، ج 1، ص 188، اشاعت 1409ھ)
اہل بیت کا معنی :
اہل بیت دو الفاظ اہل اور بیت پر مشتمل ہے، قرآن مجید میں لفظ اہل زوجہ، اولاد اور میاں بیوی کے قریبی رشتہ دار حتی بھانجا، بھتیجا اور چچا زاد تک کے لیے استعمال ہوا ہے، جبکہ عربی محاورے میں بیت سے مراد وہ چیز ہے جس کی پناہ میں انسان ہوتا ہے، جب لفظ اہل کو بیت کی طرف اضافہ کرکے اہل بیت پڑھ لیا جائے تو اس میں گھر کے اندر رہنے والے تمام افراد (چاہے وہ نوکر ہی کیوں نہ ہوں) شامل ہو جاتے ہیں، پس اہل بیت کا دائرہ استعمال وسیع ہے لہذا اس سے خاص افراد کو مراد لینے کے لیے قرینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اہل بیت کے مصداق کا تعین:
تمام مسلمانوں کے ہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت کے عنوان سے پنجتن پاک علیہم السلام ہی مشہور و معروف ہیں تاہم کچھ ناصبی اور خارجی ذہن رکھنے والے افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ ازواج رسول کو بھی اہل بیت میں شامل کیا جائے، بلکہ بعض لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ اہل بیت رسول سے مراد صرف ازواج ہیں، بیٹی، داماد اور ان کے بچوں پر اہل بیت کا اطلاق نہیں ہوتا۔
جواب یہ ہے کہ کسی اور کی بیٹی، داماد اور ان کے بچے اہل بیت کا مصداق بنیں یا نہ بنیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، ان کے داماد مولا علی علیہ السلام اور ان کے نواسے حسنین کریمین علیہما السلام کو اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت کا حقیقی مصداق قرار دیا ہے، آنے والے صفحات میں اہل بیت ِ رسول کے مصداق کے تعین کےلیے قرآن و حدیث سے چند قرائن بیان کیے جائیں گے .
پہلا قرینہ :
آیہ تطہیر میں اللہ تعالی نے اہل بیت رسول کو ہر قسم کی ناپاکی سے پاک و پاکیزہ رکھنے کا مژدہ سنایا ہے، بالفاظ دیگر انہیں معصوم قرار دیا ہے، واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں موجود سارے افراد اس منصب جلیلہ پر فائز نہیں ہو سکتے بلکہ کچھ خاص افراد ہی اس کے اہل ہو سکتے ہیں، چنانچہ مسلمانوں کی غالب اکثریت اس بات کو تسلیم کرتی ہے حضرت علی علیہ السلام مولائے کائنات ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور حسنین کریمین علیہما السلام جنت کے جوانوں کے سردار ہیں، ہمارے عقیدے کے مطابق یہ ہستیاں معصوم عن الخطاء ہیں تبھی ان معنوی مناصب پر فائز ہیں لہذا اہل بیت کا حقیقی اطلاق انہی ہستیوں پر ہوتا ہے۔
دوسرا قرینہ :
آیت مباہلہ اور واقعہ مباہلہ سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پنجتن پاک علیہم السلام یعنی امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام، خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور جوانان جنت کے سردار حسنین کریمین علیہما السلام ہی قرآنی تعبیر میں اہل بیت رسول ہیں۔
اہل سنت کے مشہور و معروف مفسرین جیسے زمخشری، فخررازی، بیضاوی اور دیگر نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ یہ آیہ شریفہ اہل بیت علیہم السلام کی عظمت کو بیان کر رہی ہے اور اس کے مندرجات انہی ہستیوں پر ہی مکمل آتے ہیں، چنانچہ یہاں پہ ” أبناءنا ” ہمارے بیٹوں سے مراد حسنین کریمین علیہما السلام ” نساءنا ” ہماری عورتیں سے مراد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ” أنفسنا ” ہماری جانوں سے مراد امیر المومنین علیہ السلام ہیں۔
علاوہ ازیں زمخشری اور فخر رازی نے اس بات کو بھی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ آیہ مباہلہ میں اہل بیت علیہم السلام کی صداقت و سچائی کو بیان کرنے کے بعد آیہ تطہیر ان معصوم ہستیوں کی طہارت و پاکیزگی کو بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے تاکہ ان کی عظمت و رفعت دنیا پر واضح ہو جائے۔
واضح رہے کہ آیت مباہلہ میں أبناءنا، نساءنا اور أنفسنا جمع کے صیغے ہیں، لہذا مفہوم کے اعتبار سے ان میں بڑی گنجائش اور وسعت تھی، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انصار اور مہاجرین کے بہت سارے بچوں کو ” أبناءنا ” کے تحت، بہت ساری خواتین کو یا کم از کم ازواج کو ” نساءنا ” کے تحت اور بہت ساری نامور شخصیات کو ” انفسنا ” کے تحت اہل نجران کے ساتھ مباہلہ کرنے کے لیے اپنے ساتھ لے جا سکتے تھے، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ آپ نے صرف حسنین کریمین، جناب سیدہ اور مولائے متقیان کو اپنے ہمراہ لیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی دعوت اور تبلیغ کے ساتھ ان ہستیوں کا ایک خاص ربط ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے، چنانچہ الفاظ اور مفہوم میں گنجائش ہونے کے باوجود ان ہستیوں کے علاوہ کسی اور کو ساتھ نہیں لیا کیونکہ ان کے علاوہ کوئی اور مصداق نہیں تھا، اگر ان کے علاوہ کسی اور کو بھی ساتھ لے جانا ممکن ہوتا تو آپ یقیناً ساتھ لے کر جاتے۔
تیسرا قرینہ :
آیت قربی میں اجر رسالت کے طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریبی ترین رشتہ داروں کی محبت و موددت کو امت پر لازم قرار دیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:” قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی ۔”
کہہ دیجیے کہ میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔”
(سورہ شوری آیت 23)
جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے قریبی ترین رشتہ دار کون لوگ ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے، آپ نے فرمایا: علی و فاطمۃ و ابناھما، یعنی علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے ہیں۔
(تفسیر بحر المحیط، محمد بن يوسف بن علی بن يوسف بن حيان معروف بہ ابی حيان اثير الدين اندلسی، ذیل آیہ قربی)
چوتھا قرینہ :
حدیث ثقلین میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہل بیت کو عترت کے ساتھ مقید کیا ہے جس سے لا محالہ غیر عترت خارج ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں موجود سارے افراد عترت سے مربوط نہیں ہو سکتے۔
پانچواں قرینہ :
مسند احمد بن حنبل میں ایک روایت کئی بار نقل ہوئی ہے اور ان سب روایتوں کا مضمون یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آیت تطہیر کے مصادیق واضح کرکے متعارف کرائے ہیں، چنانچہ آیہ تطہیر کے نازل ہونے پر آپ نے کساء یمانی (یمنی چادر) کے نیچے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کو لے کر آیہ تطہیر کی تلاوت کے بعد فرمایا : یہ میرے اہل بیت ہیں۔
(حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج : 4 ، ص : 107، نیشاپوری، حاکم نیشاپوری، مستدرک علی الصحیحین ج 3 ص 148، دارالمعرفت بیروت لبنان)
یہ واقعہ ام المومنین جناب ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں پیش آیا تھا، (یعنی آیہ تطہیر ان کے گھر میں نازل ہوئی) چنانچہ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں یمنی چادر کے قریب گئی اور کہا اے اللہ کے رسول ! (کیا) میں بھی آپ کے ساتھ ہوں (یعنی کیا میں بھی اہل بیت میں شامل ہوں؟) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اے ام سلمہ !) تم خیر پر ہو (لیکن اہل بیت میں شامل نہیں ہو، آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم اہل بیت میں شامل ہو)۔(حوالہ سابق ج 6، ص 292)
بعض منابع میں یہ روایت یوں آئی ہے :” قالت أم سلمة : يا رسول الله ألست من أهل البيت ؟ قال : أنت من أزواج رسول الله.
یعنی جناب ام سلمی نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کیا میں بھی اہل بیت میں سے ہوں، آپ نے جواب دیا تم ازواج رسول میں سے ہو۔
(حسکانی، شواہد التنزیل، ج2 ، ص 82، طبع اول 1411ھ _ 1990ء)
اس روایت سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اہل بیت اور ازواج دو الگ موضوع ہیں، یعنی ازواج اہل بیت میں شامل نہیں ہیں، لہذا جو حکم اہل بیت علیہم السلام کے لئے ثابت ہے وہ ازواج رسول کے لئے ثابت نہیں ہے۔
اس واقعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امہات المومنین اہل بیت میں شامل نہیں ہیں، اگر وہ بھی شامل ہوتی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ام سلمی کو بھی کسائے یمانی کے تحت لے لیتے اور ان کے اہل بیت میں شامل ہونے کا اعلان فرماتے جبکہ یہ واقعہ خود ان کے گھر میں رونما ہوا تھا۔
علاوہ ازیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہل بیت علیہم السلام کو چادر کے اندر بٹھا کر یعنی گھر کے اندر گھر بناکر ایک خاص اہتمام سے آیہ تطہیر کی تلاوت کے ذریعے ان کی عصمت و طہارت کا اعلان فرمایا تاکہ دیکھنے والوں کے لئے واضح ہو جائے کہ اہل بیت فقط یہی پنجتن پاک ہیں، جناب ام سلمہ والی روایت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ازواج رسول اس مقدس عنوان میں داخل نہیں ہیں، اگر کوئی منصف مزاج شخص اس واقعے پر غور و فکر کرتا ہے تو اس کے پاس اس حقیقت کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔
اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پنجتن پاک علیہم السلام کو کسائے یمانی کے اندر لیے بغیر کوئی بات ارشاد فرماتے تو بہت سے لوگ اپنے آپ کو بھی اس کا مصداق سمجھنے لگ جاتے کہ ہم بھی تو گھر میں موجود تھے، لہٰذا آپ نے گھر کے اندر ایک گھر بناکر فرمایا : ھولاء اھل بیتی، یعنی یہ میرے اہل بیت ہیں۔
چھٹا قرینہ :
بہت سارے شیعہ و سنی منابع و ماخذ میں آیا ہے کہ آیت تطہیر کے نزول کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اہل بیت علیہم السلام کی عظمت و بزرگی کو لوگوں پر واضح کرنے اور ان کی عصمت و طہارت کے عقیدے کو ان کے اذہان میں پختہ و راسخ کرنے کے لئے چھے یا اس سے کچھ زیادہ مہینے روزانہ تمام نمازوں کے اوقات میں یا کم از کم نماز صبح کے وقت شہزادی کونین حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے دروازے پر تشریف لاتے اور بلند آواز سے فرماتے : السلام علیکم یا أهل البیت النبوة، پھر آیہ تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔
(حوالہ سابق ج 2 ص 78 تا 81، ابن اثیر، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 5 ص 521_ 522، نیشاپوری، حاکم نیشاپوری، مستدرک علی الصحیحین ج 3 ص 158، دارالمعرفت بیروت لبنان)
شیعوں کے ہاں یہ قول حد تواتر تک پہنچ چکا ہے کہ آیت تطہیر اصحاب کساء کی شان میں نازل ہوئی ہے، نیز ائمۂ اہل بیت سے ایسی احادیث منقول ہیں جن کی روشنی میں پنجتن پاک کے علاوہ دوسرے ائمہؑ بھی آیت تطہیر کے مصادیق میں شامل ہیں، یعنی وہ سب معصوم ہیں۔
اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابن کثیر، نے اپنی تفسیر میں آیت تطہیر کی تفسیر کرتے ہوئے امام حسن مجتبی علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی ہے اور کہا ہے: امام حسنؑ نے برسر منبر فرمایا ہے : ” اے اہل عراق ! ہم ہی وہ اہل بیت ہیں جن کے حق میں خدا نے آیت تطہیر نازل فرمائی ہے، نیز امام سجادؑ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے ایک شامی مرد سے فرمایا : "ہم ہی اہل بیت کے مصداق ہیں۔”
(ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ذیل آیہ تطہیر، مکتبة التفاسیر کی ویب سائٹ سے ماخوذ)
عصمت ِ اہل بیت :
اللہ تعالی کے نظام ہدایت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت کی ہدایت و رہبری کرنے والے کو معصوم ہونا چاہیے ورنہ وہ قابل اعتماد نہیں رہے گا، چنانچہ ہم آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی عصمت کے قائل ہیں۔
قرآنی آیات اور نصوص سے قطعِ نظر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے مروی احادیث و روایات میں سے حدیث ثقلین ہمارے دعوے پر کئی وجوہات سے دلالت کرتی ہے، کیونکہ یہ حدیث متواتر، موثق اور متفق علیہ ہے، یہ حدیث شریف قرآن مجید کے دوش بدوش اہل بیت علیہم السلام کی علمی مرجعیت کو واضح طور پر بیان کرتی ہے اور مسلمانوں کے لیے اس امر کو ضروری قرار دیتی ہے کہ وہ کتابِ خدا کے ساتھ ساتھ اہل بیت علیہم السلام کی طرف بھی رجوع کریں کیونکہ قرآن کتابِ صامت ہے جبکہ اہل بیت علیہم السلام کتابِ ناطق ہیں لہذا احکام شرعیہ کا بیان کلی طور پر قرآن مجید میں موجود ہے جبکہ ان کی توضیح و تشریح اہل بیت علیہم السلام سے ملے گی، چنانچہ حدیث ثقلین تمام مسلمانوں کو اُمتِ وحدہ کے طور پر متحد ہونے کے لیے ایک مرکزیت کی نشاندہی کرتی ہے۔
جناب سید امیر محمد کاظمی قزوینی نے ڈاکٹر علی احمد سالوس کی شیعہ عقائد کے خلاف لکھی گئی کتاب ‘ فقه الشيعة الإمامية ‘ کے جواب میں تالیف کی گئی اپنی کتاب ‘ محاورية عقائدية ‘ میں حدیث ثقلین کی روشنی میں اہل بیت علیہم السلام کے معصوم اور واجب الاتباع ہونے کی پانچ وجوہات بیان کی ہیں، ذیل میں ان کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے گا ۔
پہلی وجہ :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت علیہم السلام کو ثقلین میں سے ایک ثقل قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ قرآن و اہل بیت ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہ اس بات پر دلیل ہے کہ اہل بیت علیہم السلام معصوم ہیں اور معصوم لائق اتباع ہوتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہوں گے اور یہ بات واضح ہے کہ جو ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہوگا وہ بغیر کسی خطا کے خدا وند متعال کی بارگاہ میں پہنچے گا کیونکہ قرآن مجید میں کسی بھی قسم کی خطا کی گنجائش نہیں ہے لہذا جو اس کے ساتھ ہوگا وہ بھی بے خطا ہو گا اور جو بے خطا ہو گا وہ معصوم ہے پس اہل بیت علیہم السلام معصوم ہیں۔
مزید وضاحت :
مذکورہ بالا حدیث ِ مبارکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اہل بیت علیہم السلام سے تمسک اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ آپ کے حکم کی پیروی واجب ہے، بالفرض اگر اہل بیت معصوم نہیں ہیں اور جائز الخطاء ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں امر ِ خطا میں تمسک کرنے کا حکم دیا ہے، جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امر ِ خطا میں تمسک کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہل بیت علیہم السلام سے قرآن مجید کی طرح مطلقا تمسک اختیار کرنے کا حکم دیا ہے تو اس کا لازمہ یہ بنتا ہے کہ وہ معصوم ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر اہل بیت علیہم السلام معصوم نہیں ہیں جائز الخطاء تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قرآن سے جدا ہیں کیونکہ قرآن مجید میں خطا کا امکان نہیں ہے، پس اہل بیت علیہم السلام کو قرآن سے جدا سمجھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کی نفی ہے، لہذا یہ ہستیاں قرآن سے جدا نہیں ہیں جب قرآن سے جدا نہیں ہیں تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ وہ معصوم ہیں۔
دوسری وجہ :
یہ حدیث مبارکہ اس بات پر نص ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے پاس پورے قرآن کریم کا علم موجود ہے، قرآن مجید وہ کتاب ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : یعنی اس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے، پس قرآن کریم میں جتنی بھی چیزوں کا بیان ہے اہل بیت علیہم السلام کے پاس ان سب کا علم ہے، لہذا لوگوں پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ قرآن کریم کے علوم و معارف اور دینی احکام کے لئے اہل بیت علیہم السلام کی طرف رجوع کریں۔
تیسری وجہ :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت علیہم السلام کو قرآن کا عِدِل یعنی بدل اور ہم پلہ قرار دیا ہے، یہ بات واضح ہے کہ قرآن مجید واجب الاتباع ہے لہذا اہل بیت علیہم السلام بھی واجب الاتباع ہیں۔
چوتھی وجہ :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن و اہل بیت دونوں سے تمسک اختیار کرنا ہدایت جبکہ دونوں کو چھوڑ دینا گمراہی ہے، پس اگر کوئی اِن دونوں میں سے کسی ایک سے تمسک اختیار کرے تو یہ بھی کافی نہیں ہے، یہ بلکل ایسے ہے جیسے اُس نے ان میں سے کسی سے بھی تمسک اختیار نہ کیا ہو، کیوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے، لہذا ان دونوں سے تمسک اختیار کرنا ضروری ہے۔
پس اگر کوئی اہل بیت علیہم السلام سے تمسک اختیار کرے لیکن قرآن سے تخلف کرے تو وہ بھی گمراہ ہے اسی طرح اگر قرآن مجید سے تمسک اختیار کرے لیکن اہل بیت کو چھوڑ دے تو وہ بھی گمراہ ہے، چنانچہ ضلالت و گمراہی سے نکلنے کے لیے ان دونوں سے تمسک اختیار کرنا پڑے گا۔
پانچویں وجہ :
یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ ہر زمانے میں اہل بیت کے گھرانے میں سے کوئی ایسی ہستی ضرور موجود ہوتی ہے جو قرآن کی طرح واجب التمسک ہو، لہذا یہ امام مہدی علیہ السلام کے وجود مبارک پر واضح دلیل ہے۔
( محاورہ عقائدیہ ص 19، ناشر دائرہ معارف فقہ اسلامی قم مقدس )

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button