سلائیڈرسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

جنت البقیع کا تاریخی تعارف

جنت البقیع وہ قبرستان ہے کہ جس میں رسول اکرمؐ کے اجداد ،اہل بیتؑ ، اُمّہات المومنینؓ، جلیل القدر اصحابؓ، تابعینؓ اوردوسرے اہم افراد کی قبور ہیں کہ جنہیں سو سال قبل آل سعود نے منہدم کر دیا کہ اُن میں سے تو اکثر قبور کی پہچان اور اُن کے صحیح مقام کی شناخت ممکن نہیں!
یہ عالم اسلام خصوصاً شیعہ و سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام، دانشور حضرات اوراہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ اِن قبور کی تعمیرنو کیلئے ایک بین الاقوامی تحریک کی داغ بیل ڈالیں تا کہ یہ روحانی اور معنوی سرمایہ اور آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے اِس عظیم نوعیت کے قبرستان کی کہ جس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں، حفاظت اورتعمیر نوکے ساتھ یہاں مدفون ہستیوں کی خدمات کا ادنیٰ سا حق ادا کرسکیں۔
تاریخ قبرستان جنت البقیع
8شوال تاریخ جہان اسلام کا وہ غم انگیز دن ہے کہ جب سو سال قبل 1344 ہجری کو وہابی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کو منہدم و مسمارکر دیا تھا۔ یہ دن تاریخ اسلام میں ”یوم الہدم“ کے نام سے معروف ہے، یعنی وہ دن کہ جب بقیع نامی تاریخی اور اسلامی شخصیات کے مدفن اور مزاروں کو ڈھا کر اُسے خا ک میں ملا دیا۔
جدّہ کے معروف عرب کالم نویس ”منال حمیدان“ لکھتے ہیں:
”بقیع وہ زمین ہے کہ جس میں رسول اکرمؐ کے بعد اُن کے بہترین صحابہ کرامؓ دفن ہوئے اورجیسا کہ نقل کیا گیا ہے کہ یہاں دس ہزار سے زیاد اصحاب رسولؓ مدفون ہیں کہ جن میں اُن کے اہل بیت ،اُمّہات المومنینؓ…..، فرزند ابراہیم، چچا عباس بن المطلب ؓ، پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطّلبؓ، اُن کے نواسے حسنؑ، اکابرین اُمت اور تابعین شامل ہیں۔ یوں تاریخ کے ساتھ ساتھ بقیع کا شمارشہر مدینہ کے اُن مزاروں میں ہونے لگا کہ جہاں حجاج بیت اللہ الحرام اور رسول اللہؐ کے روضہ مبارکہ کی زیارت اور وہاں نماز ادا کرنے والے زائرین اپنی زیارت کے فوراً بعد حاضری دینے کی تڑپ رکھتے تھے۔ نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرتؐ نے وہاں کی زیارت کی اور وہاں مدفون افراد پر سلام کیا اوراستغفار کی دعا کی۔“ (الشر ق الاوسط؛ ١٥/ ذی الحجہ ١٤٢٦ ہجری، شمارہ ٩٩٠٩)

تین ناموں کی شہرت رکھنے والے اِس قبرستان ”بقیع، بقیع الغرقد یا جنت البقیع“ کی تاریخ، قبل از اسلام زمانے سے مربوط ہے لیکن تاریخی کتابیں اِس قبرستان کی تاریخ پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں لیکن اِس سب کے باوجود جو چیز مسلّم حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ بقیع، ہجرت کے بعد شہر مدینہ کے مسلمانوں کیلئے دفن ہونے کا واحد قبرستان تھا۔ شہر مدینہ کے لوگ وہاں مسلمانوں کی آمد سے قبل اپنے مردوں کو دو قبرستانوں ”بنی حرام“ اور ”بنی سالم“ میں دفن کیا کرتے تھے۔
(حجۃ الاسلام محمد صادق نجمی؛ تاریخ حرم ائمہ بقیع، صفحہ ٦١)

بقیع میں مدفون شخصیات
اِس قبرستان میں اسلام کی اہم شخصیات میں ائمہ اربعہ تشیع (حضرت امام حسن مجتبیٰؑ، حضرت امام زین العابدینؑ، حضرت امام محمد باقرؑ اور حضرت امام جعفر صادقؑ) کے علاوہ اور بھی شخصیات مدفون ہیں۔

علامہ سید محمد امینؒ اِس بارے میں لکھتے ہیں:

”بقیع میں رسول اللہ ؐکے چچا حضرت عباس بن المطّلبؒ بھی مدفون تھے، اِسی طرح حضرت ختمی مرتبتؐ کے والد امجد حضرت عبداللہؓ، اُمّہاتُ المومنینؓ، عثمان بن عفانؓ، اسماعیل بن جعفر الصادقؑ اور مذہب مالکی کے پیشوا، امام ابو عبداللہ مالک بن انس الاصبحیؓ (متوفی ١٧٩ ہجری) کی قبور کو بھی ویران کیا گیا ہے۔“
(کشف الارتیاب؛ صفحہ ٥٥)

خلیفہ سوم عثمان بن عفان کے قتل کے بعدجب اُنہیں بقیع میں دفن ہونے سے روکا گیا تو اُنہیں بقیع سے باہر مشرقی حصے میں ”حش کوکب“ نامی جگہ پر دفن کردیا گیا لیکن معاویہ ابن ابی سفیان کے زمانے میں جب مروان بن حکم مدینے کا والی بنا تو اُس نے حش کوکب اور بقیع کی درمیانی دیوار کو ہٹا کر اُن کی قبر کو اِسی قبرستان میں داخل کر دیا اورپتھر کا وہ ٹکڑا کہ جسے خود رسول اکرمؐ نے اپنے ہاتھوں سے حضرت عثمان بن مظعونؓ کی قبر پر رکھا تھا، اُٹھا کر حضرت عثمان کی قبر پر رکھتے ہوئے کہا: ”واللّٰہ لا یکون علی قبر عثمان بن مظعون حجرٌ یعرف بہ“ (خد اکی قسم! عثمان بن مظعونؓ کی قبر پر کوئی نام ونشان نہ ہو کہ وہ اُس کے ذریعے سے پہچانی جائے)۔
(اُسد الغابۃ؛جلد ٣،صفحہ ٣٨٧۔تاریخ المدینہ ابن زبالہ نقل از وفاء الوفاء ؛جلد٣،صفحہ ٩١٤۔٨٩٤)

اُمّہات المومنینؓ میں حضرت زینب بنت خزیمہؓ، حضرت ریحانہ بنت زبیرؓ ،حضرت ماریہ قطبیہؓ، حضرت زینب بنت جحشؓ، اُم ّ حبیبہ بنت ابو سفیانؓ، حضرت سودہؓ اورحضرت عائشہؓ بنت ابو بکر مدفون ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت ختمی مرتبتؐ کے فرزندابراہیمؓ، حضرت علیؑ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد (س)، زوجہ حضرت اُمّ البنین (س)، حلیمہ سعدیہؓ، حضرت عاتکہؓ، عبداللہ بن جعفرؓ، محمد بن حنفیہؓ اور عقیل بن ابو طالبؑ، نافع مولا عبد اللہ بن عمر شیخ القراء السبعہؓ (متوفی ١٦٩ ہجری) کی قبور مبارکہ بھی وہاں موجود ہیں۔
البقیع؛ یوسف الہاجری، صفحہ ٣٧۔ مرآۃ الحرمین؛ ابراہیم رفعت پاشا، صفحہ ٤٢٧۔ آثار اسلامی مکہ و مدینہ؛ صفحہ ٩٩۔ تاریخ المعالم المدنیۃ المنوّرۃ؛ سید احمد آل یاسین، صفحہ ٢٤٥۔ طبقات القرای؛ جلد ٢، صفحہ ٣٣٠۔تہذیب التھذیب؛ جلد ١٠ ،صفحہ ٤٠٧

اِس کے علاوہ یہاں مقداد بن الاسودؓ، مالک بن حارثؓ، مالک اشتر نخعیؓ، خالد بن سعیدؓ، خزیمہ ذو الشہادتینؓ، زید بن حارثہؓ (پیغمبر اسلام ؐ کا منہ بولا بیٹا)، سعد بن عبادہؓ، جابر بن عبداللہ انصاریؓ، حسّان بن ثابتؓ، قیس بن سعد بن عبادہؓ اسعد بن زارہؓ،عبد اللہ بن مسعودؓ اورمعا ذبن جبلؓسمیت دوسرے جلیل القدر صحابہ اکرامؓ بھی یہاں مدفون ہیں۔
(مستدرک حاکم؛ جلد ٢، صفحہ ٣١٨۔ سیرہ ابن ہشام؛ جلد ٣، صفحہ ٢٩٥۔)

مؤرّخین اور معروف سیاحوں کے نزدیک قبرستان بقیع کی تاریخ

جنت البقیع 495 ہجری یعنی پانچویں صدی ہجری کے اواخر سے صاحب ِگنبد و بارگاہ تھا۔ معروف اہل سنّت اندلسی مؤرّخ، سیاح، مصنف او رشاعر ابوالحسین محمد بن احمد بن جبیر (٥٤٠۔١٤ ٦ ہجری) جو ساتویں صدی ہجری میں حجاز کے اپنے سفرنامہ (تدوین شدہ ٨٧٥ ہجری) میں لکھتے ہے:”وہ سربفلک گنبد موجود بقیع کے ساتھ ہی واقع ہے۔“ (رحلہ ابن جبیر؛ مطبوع دار الکتاب اللُّبْنَانیہ، صفحہ ١٥٣)

ابن جبیر کے سفر کے ڈیڑھ سو سال بعد آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ نے شہر مدینہ کا سفر کیا اوراپنے مشاہدات کو یوں رقم کیا: ”حرم ائمہ بقیع (ائمہ اربعہ اہل تشیع) میں موجود قبور پر دراصل ایک ایسا گنبد ہے جو سر بفلک ہے اور جو اپنے استحکام کی نظر سے فن تعمیر کا بہترین اورحیرت انگیز شاہکار ہے۔ ”رحلہ ابن بطوطہ؛ صفحہ ٨٩“

قرن معاصر کے معروف سفر نامہ ”مرآۃ الحرمین“ کے مصنف ابراہیم رفعت پاشا جو ١٣١٨ہجری، ١٣٢٠ہجری، ١٣٢١ہجری اور ١٣٢٥ ہجری میں مصری حجاج کے قافلے کے امیر محافظ محمل کی حیثیت سے اپنے پہلے سفر حج اور اُس کے بعد امیر الحجاج کی حیثیت سے اپنے بعد کے سفر حج کے چار سفروں کو ”مرآۃ الحرمین“ نامی سفر نامہ میں مفصل طور پر جنت البقیع کے منہدم کیے جانے سے اُنیس سال قبل لکھتے ہیں:

”عباس بن عبد المطّلبؓ، حسن بن علیؑ اور تین ائمہ (امام علی بن الحسینؑ، امام محمد بن علیؑ اور امام جعفر بن محمدؑ) ایک ہی گنبد کے نیچے مدفون ہیں، جن کا گنبد دوسروں سے بہت زیادہ اونچا ہے۔“ (مرآۃ الحرمین؛ جلد ١، صفحہ ٤٢٦، طبع مصر ١٣٤٤ ہجر ی مطابق ١٩٢٥ عیسوی)

جابر انصاری، کتابِ ”تاریخ اصفہان“ میں ١٣٤٤ ہجری کے واقعات کے ضمن میں وہابیوں کے ملک حجاز پر حملہ کرنے اوروہاں موجود اہم اسلامی شخصیات کی قبور اور مزارات کو منہدم کرنے کے بار ے میں لکھتے ہیں:

”حاجی امیر السلطنت کی جانب سے حکم دئیے جانے کے نتیجے میں ١٣١٢ ہجری میں دو سال کی مدت میں بنائی جانے والی ضریح کو وہاں (موجود ائمہ بقیع کی قبور) سے اُکھیڑ لیا گیا اورجب وہابیوں نے چاہا کہ وہ (قبرستان بقیع کو منہدم ومسمار کرنے کے بعد) حضرت ختمی مرتبتؐ کے حرم میں داخل ہوں تو اُن میں سے ایک نے ”یٰاَیُّها الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیّ….“ (اَے ایمان والو! نبی کے گھر میں داخل نہ ہو…) کی آیت کی تلاوت کی تو وہ اِس جسارت کو انجام دینے سے رُک گئے….“ (تاریخ اصفہان؛ صفحہ٩٢٣)

میرزا محمدحسین فراہانیؒ نے ١٣٠٢ ہجری میں اپنے سفر حج میں بقیع اوراُس میں موجود ائمہ اربعہ کی زیارت کا احوال کچھ یوں درج کیا ہے:

”قبرستان بقیع ایک بہت بڑا قبرستان ہے جو شہر مدینہ کے مشرق میں دروازہ ئسور سے متصل ہے….. یہ قبرستان حج کے موسم میں حاجیوں کیلئے ہر دن مغرب کے وقت تک کھلا رہتا ہے اورجو بھی اِس کی زیارت کرنا چاہے وہ اِس میں جا سکتا ہے لیکن حج کے علاوہ یہ جمعرات کے زوال سے جمعہ کے غروب تک کھلا رہتا ہے۔

آئمہ اثنیٰ عشر کے چار امامؑ ایک بڑے سے بقعہ (بارگاہ) میں جو ہشت ضلعی شکل میں بنایا گیا ہے، مدفون ہیں…. اِس بقعہ کی تعمیر کی صحیح تاریخ کا علم نہیں لیکن محمد علی پاشا مصری نے ١٢٣٤ ہجری میں سلطان محمود خان عثمانی کے حکم کے مطابق اِسے تعمیر کرایا ہے اور اِس کے بعد سے تمام عثمانی سلاطین کی جانب سے یہ بقعہ اور اِس قبرستان میں واقع دیگر تمام بقعہ جات ہر سال مرمت و تعمیر کیے جاتے رہے ہیں۔

یہاں کچھ ”مقامات“ مشہورہیں جو حضرت فاطمہ صدیقہ طاہرہ (س) کی قبر کے نام سے معروف ہیں، اُن میں سے ایک بقیع میں موجود حجرہ ہے جسے ”بیت الاحزان“ کہا جاتا ہے اور اِسی وجہ سے یہاں آنے والے حجاج اور زائرین حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زیارت پڑھتے ہیں۔ یہاں موجود قبر کے سامنے سونے اور چاندی کے تاروں سے مزین ایک پردے کو گنبد کے چاروں طرف ڈالا ہوا ہے اور اُس پر یہ عبارت درج ہے: سلطان احمد بن سلطان محمد بن سلطان ابراہیم (سنۃ اِحدي وثلاثین و مأۃ بعد الف ١١٣١ہجری)۔“ (سفر نامہ فراہانی؛ صفحہ ٢٨١، طبع ١٣٦٢ شمسی ایرانی، تدوین: مسعود گلزاری، چاپ چہارم)

حاجی فرہاد میرزا ١٢٩٢ ہجری میں اپنے سفر حج کے مشاہدات کو اپنے سفر نامہ ‘‘ هدْ یَة السَّبِیْل میں لکھتے ہیں: ”میں بابِ جبرئیلؑ سے باہر آ کر ائمہ بقیع کی زیارت سے مشرف ہوا…. متولّی نے ضریح کا دروازہ کھولا اور میں اندر گیا اور ضریح کے گرد چکر لگایا، وہاں پیر کی طرف کی جگہ بہت چھوٹی ہے کہ جہاں صندوق (قبر) اور ضریح کا درمیانی فاصلہ نصف ذراع سے بھی کم ہے۔“ (هدْیَة السَّبِیْل؛صفحہ ١٢٧)
نائب الصدر شیرازی ١٣٠٥ ہجری میں اپنے سفر حج کے مشاہدات کو اپنے سفر نامہ’‘تُحْفَة الْحَرِمَیْنِ’‘ میں لکھتے ہیں: ”وادی بقیع داہنے ہاتھ پر واقع ہے جو ایک سر پوشیدہ مسجد ہے کہ جس (کے صدر دروازے ) پر یہ عبارت درج ہے: ”هذَامَسْجِدُ اُبَی بْنِ کَعْب وَصَلّیٰ فِیْه النَّبِیُّ غَیْرَ مَرَّة’ٍ‘، (یہ مسجد اُبی بن کعب ہے کہ جس میں رسول اللہؐ نے کئی مرتبہ نماز پڑھی ہے)۔ یہاں امام حسنؑ، امام زین العابدینؑ،امام باقرؑ اور امام صادقؑ کی قبور مطہرہ ایک ضریح میں دن دفن ہیں، اُس کے سامنے ایک پردے دار ضریح ہے کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں حضرت فاطمہ زہرا (س)مدفون ہیں۔“ (تُحْفَة الْحَرِمَیْنِ؛ صفحہ ٢٢٧)

معروف مدینہ شناس، مؤرّخ، محدث، رجال شناس اور ادیب شافعی ابو عبد اللہ محب الدین محمد ”ابن نجار“ (٥٧٨۔٤٣ ٦ ہجری) کہتا ہے۔

”وَعَلَیْها بَابَانِ یَفْتَحُ اَحَدُهمَا فِی کُلِّ یَوْم لِلزِّیَارَة ”، قبرستان بقیع کے دو دروازے تھے کہ جن میں سے ایک دروازہ ہر دن زائرین کیلئے کھولا جاتا تھا۔ (اخبار مدینۃ الرسول؛ مکتبۃ دار الثقافۃ، مکۃ مکرمۃ، صفحہ ١٥٣)

قبرستان بقیع کی تعمیر، ضریح اور حرم کی منظر کشی

قبرستان بقیع اپنی تاریخ میں تین مرتبہ تعمیر کیا گیا ہے۔ معروف سیاح اور مؤرّخ ابن جبیر اپنے سفر نامہ میں لکھتے ہیں:

”بقیع پہلی مرتبہ ٥١٩ ہجری میں ‘‘اَلْمُسْتَنْصَر بِاللّٰه ” اورتیسری مرتبہ تیرہویں صدی کے اواخر میں ”سلطان محمود غزنوی“ کے ذریعے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں موجود کُتبوں پر درج عبارتیں کہ جن کو سیاحوں نے اپنے اپنے سفر ناموں میں بیان کیا ہے، اِسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں۔“ (رحلہ ابن جبیر؛ مطبوع دار الکتاب اللُّبْنَانیہ، صفحہ ١٧٣)

ایک حقیقت!
ایک نکتے کی جانب اشارہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ ائمہ بقیع پر حرم و بارگاہ کی تعمیر ٥١٩ ہجری سے قبل ہوئی تھی اوراُس کی اصلاح اور مرمت کا کام بعد میں انجام دیا گیا تھا۔

مشہور مؤرّخ ”سمہودی“ ابن جبیر کی بات کے بر خلاف کہتا ہے:

”٥١٩ ہجری میں تعمیر شدہ بارگاہ و گنبد کے وجود میں آنے کے پچاس سال بعد اِس حرم کی پہلی تعمیر عباسی خلیفہ ”سترشد باللہ“ کے حکم سے ہوئی۔ حضرت عباس بن عبد المطّلبؓ کی قبر کے پاس طاق میں موجود ایک چھوٹے سے کُتبے پر یہ عبارت درج ہے: ”اِنَّ الْأمْرَ بِعمله المُسْتَرشِد باللّٰه تسع و عشرة و خمسمأة“ ۔ (وفاء الوفاء ؛جلد٣ ،صفحہ ٩١٦)

یہاں ایک اور نکتے کی جانب اشارہ ضروری ہے اور وہ یہ اِس حرم کی اصل عمارت اِس تاریخ سے قبل ہے کہ جسے سمہودی نے بیان کیا ہے اورحرم کی تعمیر کا اُس کا حکم اُس کی مرمت اور اصلاح کیلئے تھا۔ دوسری بات یہ کہ مسترشد باللہ اُنتیسواں (٢٩)عباسی خلیفہ ہے جو ٥١٢ ہجری میں اپنے باپ ”مستظہر باللہ“ کے بعد خلافت حاصل کرتا ہے اور ٥٢٩ ہجری میں قتل کر دیا جاتا ہے۔

حرم ائمہ بقیع کی دوسری تعمیر و مرمت عباسی خلیفہ ”مستنصر باللّٰہ“ کے حکم سے ٦٢٣ ہجری اور ٦٤٠ ہجری کے درمیانی عرصے میں انجام پائی۔ سمہودی اِس بارے میں لکھتا ہے:

”حرم بقیع میں موجود محراب کے اوپر لگے ہوئے چھوٹے سے کُتبے پر یہ عبارت درج ہے: اَمر بعملہ المنصور المستنصر باللّٰہ (وفاء الوفاء ؛جلد٣ ،صفحہ ٩١٦)

مستنصر باللہ کا اصل نام منصور، کنیت ابو جعفر تھی، وہ ‘‘الظَّاهر باللّٰه ”کا بیٹا تھا اور وہ تیتیسواں (٣٣) عباسی خلیفہ ہے اور علامہ سیوطیؒ کے قول کے مطابق وہ ٦٢٣ہجری میں خلافت حاصل کرتا ہے اور ٦٤٠ ہجری میں دارِ فانی کو وداع کہتا ہے۔ (تاریخ الخلفائ؛صفحہ ٤٢٤)

اِس حرم کی تیسری تعمیر تیرہوں صدی کے اوائل میں عثمانی خلیفہ سلطان محمود غزنوی کے حکم سے ہوئی۔

”فرہاد میزرا“ ١٢٩٢ ہجری میں حج کی سعادت کے حاصل ہونے کے بعد بقیع کا حال کچھ یوں بیان کرتا ہے:

”بقیع میں بقعہ مبارکہ کی تعمیرنو سلطان محمود خان کے حکم سے ایک ہزار دوسو ہجری میں ہوئی، وہ سلطان محمد ثانی ہے جو تیسوواں عثمانی خلیفہ ہے۔ سلطان محمود چوبیس سال کی عمر میں ١٢٢٣ ہجری میں خلافت کو پہنچا اور ١٢٥٥ ہجری میں انتقال کر گیا۔“ (نامہ فرہاد میرزا؛چاپ مطبوعات علمی ١٣٦٦ شمسی ایرانی، تہران، صفحہ ١٤١) (رجوع کریں: قاموس الاعلام ترکی؛ جلد٦،صفحہ ٤٢٢٥؛ فصلنامہ میقاتِ حج؛ سال دوم ،شمارہ پنجم صفحہ ١١٨۔ شمارہ ششم، زمستان ١٣٧٢ شمسی ایرانی)

معروف سیاح اور مؤرّخ ابن جبیر اپنے سفر نامہ میں لکھتے ہیں: ”قبرستان بقیع کے دو دروازے ہیں کہ جن میں سے ایک ہمیشہ بند رہتا ہے اور دوسرا دروازہ صبح سے غروب تک زائرین کیلئے کھلا رہتا ہے۔ حرم بقیع ”ہشت ضلعی“ ہے اور اِس کی دوسری خصوصیت اِس میں محراب کا ہونا ہے نیز اِس حرم کے بہت سے خادم تھے۔ دوسرے تمام حرموں کی مانند حرم ائمہ بقیع میں بھی ضریح، روپوش، بڑے فانوس، شمعدان اور قالین موجود تھے۔” (رحلہ ابن جبیر؛ مطبوع دار الکتاب اللُّبْنَانیہ، صفحہ ١٧٣)

یہ عالم اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کا ایک مختصر سا ورق ہے کہ جو تاریخی اسناد و دستاویزات کی روشنی میں آل سعود اور فرقہ وہابیت کے سیاہ کارناموں کی ایک زندہ اور حقیقی مثال ہے اور دورِ حاضر کا مسمار قبرستان بقیع آج کے مسلمانوں سے اِس بات کا سوال کر رہا ہے کہ وہ اِس تاریخی بے حرمتی پر کیوں خاموش ہیں؟

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button