سلائیڈرسیرتسیرت امام مھدیؑ

انتظارکیا،کیوں اور کیسے؟

تحریر:مولانافداحسین ساجدی
مقدمہ
اگر چہ انسانوں کی خلقت کی ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت،نجات اور معاشی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے انبیاء واوصیاءکا سلسلہ شروع کیا لیکن لوگ ان کی اہمیت سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے پیروی کرنے والوں کی تعداد بہت کم رہی۔
دورحاضر میں دنیا کے مختلف جگہوں سے انسانی حقوق کے دفاع کی خاطر قدم اٹھانے والے یا اپنی تحریک اوراقدام میں مخلص نہیں تھے یا ان کےپاس کوئی جامع عقلی اور وحی پر مبنی اصول اور قانون نہیں ہونے کی وجہ سے نہ صرف انسانوں کو حقوق دلانے میں کامیاب نہ ہوئے بلکہ ابتدائی حقوق سے محروم لوگوں کو ظاہری چمک اور دمک سے فریب دیکر سوشلزم اور کمیونیزم جیسے مکتبوں کے جال میں پھنسادئیےجس کے نتیجے میں بشریت مختلف قسم کے مصائب اور مشکلات کا شکار ہوگئے۔
انسانوں کی نجات کاواحدراستہ اسلامی اصول سے آگاہ ہوکر ان پر عمل کرنے میں پوشدہ ہے اسی بناپر انسانوں کی نجات کی خاطر اسلامی اصول کو دنیا والوں تک پہنچانا علمائے اسلام کی ذ مہ داری ہے۔ انہی اسلامی اصول میں سے ایک اصل انتظار ہے۔
اسلام کے دامن میں پروان چڑھنے والے کبوتروں کے پاس دو بال ہے جو ان کو شاندار مستقبل اور معنوی کمال کی طرف لے جائے گا۔ پہلا ،بال سرخ کربلا ہے اور دوسرا بال سبز انتظار ہے لیکن وہ انتظار جو انسان کو زندگی میں احساس مسئولیت ،ظلم ستیز اور عدالت پیشہ بنائے۔اور انتظار کرنے والوں کےعقیدےکو مضبوط،عمل کو پکا،دینی اور اسلامی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصمم بنائے۔
انتظار کی اہمیت
انتظار کے حوالے سے ہماری ذمہ داریاں بیان کرنے سے پہلے قارئین کی خدمت میں چندروایتیں پیش کرتے ہیں جن سے انتظارکی اہمیت کااندازہ ہوجائے گا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،امام زمان کے ظھور کے لئے انتظار کرنے کو افضل ترین اعمال میں شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«افضل اعمال امتی انتظارالفرج»
میری امت کا سب سے بہتر عمل ظہور اور فرج کا انتظار ہے.حضرت ایک اور حدیث میں انتظار کو بافضیلت ترین عبادتوں میں سے قرار دیتے ہوئےفرمایا:
«افضل العبادة انتظار الفرج»
حضرت علی انتظار فرج کوخدا کے پاس سب سے زیادہ محبوب عمل سمجھتے ہیں۔جیسا کہ فرماتے ہیں:
« انتظروا الفرج‏ و لا تيأسوا من روح الله‏ فإن أحب الأعمال إلى الله عز و جل انتظار الفرج »
خدا کی طرف سے فرج اور ظھور کے انتظار میں رہو اور خدا کی رحمت سے مایوس مت ہوجاو کیونکہ انتظار فرج خدا کے پاس محبوب ترین اعمال میں سے ہے اور جو بھی ہمارے امر پر اعتقاد رکھئے وہ قیامت کے دن حظیرہ قدس (بہشت بریں )میں ہمارے ساتھ ہونگے اور حقیقی معنوں میں انتظار کرنے والے اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں شہید ہو کر اپنے خون میں لہو لہان ہواہو۔
انسان اپنی زندگی میں مختف قسم کے مشکلات سے گرفتار ہوسکتاھے تو ان مشکلات سے تجات پانےکا بہترین راستہ انتظار فرج ہے امام جواد ع اس حوالے سے فرماتے ہیں:
«افضل اعمال شیعتنا انتظار الفرج من عرف هذالامر فقد فرج عنه بانتظاره»
ہمارے شیعوں کا بہترین عمل انتظار فرج ہے جو شخص اس مطلب کو جان کر اس پر اعتقاد رکھے تو اس انتظار کی بدولت اس کی مشکلات حل ہوجائے گی.امام علی نقی علیہ السلام کے صحابی علی ابن مہزیار کہتے ہیں۔ میں نے امام ع سے کسی خط میں فرج اور ظہور امام زمان کے حوالے سے سوال کیا تو امام ع نے فرمایا:
«اذا غاب صاحبکم عن دارالظالمین فتوقعوا الفرج»
جب تمھارے امام اور رہبر ظالم اور جابر لوگوں سے مخفی ہوجائے تو ان کے ظہورکا انتظار کرو»
آئمہ معصومین علیہم السلام کےکسی بھی قول اور فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتی ہیں لہٰذا اس حدیث میں امام، غیبت کے زمانے میں ہمیں انتظار کا حکم دیتے ہیں۔اس سے یہ بات ثابت ہوتا ہےکہ ظالم اور جابر حاکموں کے دور میں ہماری نجات اور کامیابی انتظار ہی میں پوشیدہ ہے ۔۱یک شخص نے حضرت امام جعفرصادقؑ سے سوال کیا وہ شخص جوآئمہ کی ولایت کاقائل ہے اورحکومت حق کاانتظارکررہاہے ایسے شخص کامرتبہ اورمقام کیاہے ؟امام علیہ السلام نے ارشادفرمایا :«هوبمنزلة من کان مع القائم فی فسطاطہ»وہ اس شخص کے مانند ہے جوامام کے ساتھ ان کے خیمے میں ہو ۔

انتظار کیا؟( انتظارکی تعریف)
انتظار (تنظر )سے ہے جس کا لغوی معنی کسی شئے کی امید رکھنا ہےاور منتظر اس شخص کو کہا جاتاہے جو کسی کی آمد اور نئی اور اچھی حالت پیدا کرنے کا امید وار ہو جیسے وہ بیمار جو شفایابی کا انتظار کرتا ہے۔ یہاں سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے وہ یہ کہ انتظار کرنے والاہمیشہ موجودہ حالت سے ناراحت ہے۔اور بہتر حالت کی امید رکھتا ہے.اس مقالے میں انتظارسےمراد منجی عالم بشریت حضرت امام زمان( عج) کے ظھور کا انتظار ہے جس کے لئے شیعہ روایتوں میں ایک خوبصورت تعبیر ملتی ہے وہ ہےانتظار فرج،فرج کا معنی فتح پیروزی گشایش اور تنگی وغم سے نجات اور رہائی پانے کو کہتے ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امامؑ کے ظھور کے ساتھ انسان ہر قسم کی مشکلات اور غموں سے نجات پائے گا. جب امام رضاؑ سے ظھور امام مہدی (عج) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے اس مطلب کی طرف اشارہ کیا کہ مومنین کو راحت اور سکون فقط اسی وقت حاصل ہوگا جب امام عج ظھور فرمائیں گے۔ کلمہ انتظار اور فرج دونوں کے لغوی معنی کے پیش نظر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انتظار فرج کا مطلب امام عج کے ماننے والے امام کی غیبت اور ظالم حکمرانوں کے ظلم وبربریت سے تنگ آکر ظلم وجور سے بھری ہوی دنیا کی موجودہ حالت سے سخت ناراحت ہے اور امام کی آمد کا امید رکھتا ہے اور اس کو یقین ہے کہ امام کے ظھور کے بعد بنی نوع انسان پر چھائے ہوئے ظلم وجور کی تاریک گھٹائیں ختم ہوکر سعادت اور خوش بختی میں تبدیل ہوجائیں گی اور انسان امام کےسایہ میں فلاح وبہبود،خوشحالی ،اور ترقی کی اعلیٰ منزل پر پہنچ جائے گا.انتظار کا معنی روشن ہونے کے ساتھ انتظار کرنے والے کی تعریف بھی واضح ہوئی۔اگر ایک کلمہ میں بیان کرنا چاہے تو واقعی انتظار کرنے والا وہ ہے جواسلامی اور شیعہ مذہب کے اعتقادات پر صحیح طور پر عقیدہ رکھے۔
امام مہدی( عج) کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل کرنے کے علاوہ فرعی مسائل میں پابندی کے ساتھ اپنا وظیفہ انجام دے، خاص طور پر انتظار کے حوالے سے جو ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے اسے جامہ عمل پہنائے. یہاں پر اس مطلب کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ انتظار کا معنی کبھی یہ نہیں ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اس خوش فہمی میں بیٹھ جائے کہ امام زمانہ علیہ السلام ظہور کریں گے اورمعاشرے کی اصلاح کریں گے بلکہ ہمیں بھی اپنے نفوس کو اخلاقی برایوں سے پاک کرنے کےذریعے اپنی اصلاح کرنی چاہیے کیونکہ تمام انسانی معاشروں کی اصلاح اور پوری دنیا میں عدل وانصاف کی حکومت برپا کرنے والے کا منتظر کبھی اپنے نفس کی اصلاح سے غافل نہیں ہوتاہے۔
انتظارکیوں؟(فوائدانتظار)
غیبت کے دور میں انتظار،امام کے ماننے والوں کے لئے بہت سخت اور پرتھکن ہے کیونکہ ایک طرف امام عج کی غیبت اور ان کی زیارت سے محروم اور دوسری طرف ظالموں کی حکومت اور جرائم پیشہ افراد کے بھاگ ڈور ہمارے لئے قابل برداشت نہیں لیکن کام جتنا سخت ہو اتناہی اس کا نتیجہ زیادہ ہوتا ہے اور عمل جتنا مشکل ہو اتنا ہی اس کے لئے ثواب اور اجر زیادہ ملے گا لہٰذا امام عج کے ظہور کا انتظار ان اعمال میں سے ہے جو سخت اور مشکل ہو نے کی وجہ سے روایتوں میں صحیح معنوں میں انتظار کرنے والوں کے لئے بے شمار اجر اور ثواب ذکر ہواہے اور منتظرین کو بلند تعبیرات کے زریعے سراہا گیاہے.
1- دگناثواب
اللہ تعالیٰ اپنے مخلوقات سے ہر حال میں بے نیاز ہے اس کے باوجود ان کو نعمت وجود عطاکرنے کے علاوہ انسانوں کوکچھ تکالیف دئیے تا کہ اسی بہانے ان کو اپنی بہترین نعمتوں سے نوازے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم اپنے بندوں پراتنا زیادہ ہے کہ بعض اعمال کےلئے بعض حالات میں دگنا ثواب رکھا ہے.انہی حالات میں سے ایک حالت، انتظار کا زمانہ ہے جس میں مومنین کے ہر اچھے عمل کو دوبرابر ثواب ملے گا.
عمار ساباطی کہتے ہیں میں نے امام صادق ع سے عرض کیا مولا!باطل حکومت کے دورمیں آپ میں سے حق امام کے ساتھ چھپی ہوئی عبادت بہتر ہے یا دولت حق کے زمانے میں امام حاضر کے ساتھ کھلے عام عبادت کرنا بہتر ہے ؟ امامؑ نے جواب میں فرمایا :عمار اللہ کی قسم امام حق پردہ غیب میں ہونے کی وجہ سے باطل حکومت کےدور میں اللہ تعالیٰ مومنین کو دگناثواب عطاکرے گا۔ اگر وہ لوگ اپنے نفس،امام اور دین کی حفاظت کے لئے تقیہ کے ساتھ اپنے اعمال کو نیک طریقے سے انجام دیں اور اپنی زبان کو حرام سے بچائے تو خدا اسے دوگنا اور چوگنا اجر دےگا کیونکہ اللہ تعالیٰ بے حساب کرم کا مالک ہے.
2- حقیقی اور سچا شیعہ
صراط مستقیم پر ثابت قدم ہوکر ایک مقدس اور بلند ہدف کی طرف حرکت کرنا ایک ایسی سعادت ہے جو ہرکسی کو نہیں ملتی اگر کوئی شخص حقیقی معنوں میں دوستدار اور پیروکار اہلبیت ہو وہ بتحقیق صراط مستقیم پر گامزن ہے لیکن حقیقی معنوں میں شیعہ ہونا کوئی آسان کام نہیں جبکہ روایات میں امام زمان ع کے ظہور کا انتظار کرنے والوں کو خود اہلبیت (ع) حقیقی اور سچے شیعہ سے یاد کیاہے۔
امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں:وہ لوگ جو امام المنتظر عج کی غیبت کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں،امام المنتظر عج کی امامت کے قائل بھی ہیں اور ان کے ظہور کا انتظار بھی کرتے ہیں وہ لوگ تمام زمانوں کے لوگوں سے افضل ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی یاداشت، قوت عقل ،فکر وفہم اور معرفت الٰہی عطا کی ہے جس کی وجہ سے امام ع کے غائب ہونے کے باوجود ان کا امام ع کے بارے میں ایمان ایسا ہی ہے جیسے وہ امام ع کو دیکھ رہے ہوں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اس زمانے میں ان مجاہدین کا درجہ عطا کیا ہے جنہوں نے رسول اکرم ص کے ساتھ مل کر تلوار کے ساتھ جہاد کیا ہواور یہی وہ  لوگ ہیں جو حقیقی مخلص ہمارے سچے شیعہ اور اللہ کے دین کی ظاہر اور چھپ کر دعوت دینے والے ہیں.(بحارالانوارج52،ص 122)
3- اولیاء الہٰی میں شامل
اولیاء اللہ وہ افراد ہیں جو مقام تقرب میں اس منزل پر فائز ہونگے جہاں جلوہ ربوبیت نگاہ کے سامنے رہتاہے اور ایسے افراد اس قدر غم دنیا سے بے نیاز ہوجاتے ہیں کہ انہیں نہ دنیا کا خوف ہوتا ہے اور نہ اس کے ختم ہوجانے کا رنج ہوتا ہےلہٰذا منتظرین ظہور کو ایسا مقام حاصل ہے.
ابو بصیر نے امام صادق ع سے روایت کی ہے کہ آپ نےقرآن کی اس آیت «يوم يأتي بعض آيات ربك لا ينفع نفسا إيمانها لم تكن آمنت من قبل أو كسبت في إيمانها خيرا » (الأنعام: 158 )کی تفسیر میں فرمایا:اس دن سے مراد ہمارے قائم منتظر کے ظہور کا دن ہے۔آگے امام انتظار کرنے والوں کا مقام بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں:ہمارے قائم کے ظہور کا انتظار کرنے والے شیعوں کو خوشخبری ہو جو ظہور کے بعد ان کے اطاعت گزار ہونگے۔یہ لوگ اولیاء خدا ہیں اور اولیاء خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ محزون اور رنجیدہ ہوتے ہیں۔
انتظار کیسے؟(انتظار اور ہماری ذمہ داریاں)
1-امام کی معرفت
انتظار کرنے والوں کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں امام زمان کی معرفت حاصل کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف سے امام عج کی محبت کو اجر رسالت قرار دیاگیا ہے اور دوسری طرف امام کی ولایت کو تہہ دل سے قبول کئے بغیر ہمارا دین قرآن کی نگاہ میں مکمل نہیں ہے اور یہ دو امر یعنی محبت اور ولایت پزیری امام ع کی شناخت اور معرفت کے بغیر ممکن نہیں.جیسا کہ حدیث میں آیاہے:
«و إن من مات و لا يعرفهم مات ميتة جاهلية »
اگر کوئی شخص اماموں کی معرفت کے بغیر مرجائے در حقیقت وہ جاہلیت کی موت مراہے۔ ان کی معرفت سے مراد ان صفات اور نشانیوں کی پہچان ہے جس کی وجہ سے اماموں کے بارے میں ہمارا عقیدہ مضبوط ہو اور ان کی پیروی کرنے سے دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی حاصل ہو.
2- تزکیہ نفس
ظہور امام کا انتظار کرنے والوں کی مہم ترین وظیفوں میں سے ایک تزکیہ نفس اور خود سازی ہے۔ یہ موضوع اس قدر مہم ہے کہ پیغمبروں کا سب سے بڑا ہدف اور غرض انسانی نفوس کی پرورش اور پاک وپاکزہ بنانا ہے۔انسان کی فردی اور اجتماعی شخصیت کی سعادت اور دنیوی واخروی شقاوت اسی سے وابستہ ہے اسی وجہ سے انسان کا اپنے آپ کو بنانا ایک زندگی ساز اور سرنوشت ساز کام شمار ہوتا ہے۔ پیغمبر اسلام ص کی آمد کامقصد یہ ہے کہ خود سازی اور نفس انسانی کی پرورش اور تکمیل کا راستہ بتلائیں اور نفوس انسانی کو رذائل اور برے اخلاق سے پاک اور اچھے اخلاق اور فضائل کی پرورش کریں.اور آئمہ اطہارؑ خود فضائل اخلاقی اورکمال انسانی کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز تھے اور انہوں نے انسانوں کوخود سازی کا درس دئیے۔اور ان کو اخلاق کی شناخت اور خواہشات نفسانی پر قابو پانے کی مدد فرمائیں.ان باتوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی نظر میں خود سازی اور تزکیہ وتہذیب نفس کی کتنی اہمیت ہے لہٰذا انتظار کرنے والوں کےلئے ضروری ہے کہ روحی پاکیزگی ،فضائل اخلاقی کا حصول اور اپنی نفس کو برے صفات سے پاک کرنے کی راہ میں ہمیشہ کوشاں رہے کیونکہ شیطان بھی ہمیشہ انسان کو راہ حق سے بٹکانے کے درپے ہوتا ہے.علاوہ بر ایں امام کی عادلانہ حکومت صرف ان لوگوں کے لئے قابل برداشت اور ہضم ہے جو اپنے آپ کو پاک دل،پاک صفت ،پاک کرداراور پاک ضمیر بنایا ہو ورنہ جس طرح امیرالمومنینؑ کے دور میں لوگوں کی نفوس پاک نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی عادلانہ حکومت مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا ہوا.اسی طرح انتظار کرنے والوں کی نفوس پاک نہ ہو تو امام عج کے ظہور میں تاخیر ہوگی.خاص کر روایات میں منتظر امام کو تقویٰ اور کسب فضائل اخلاق کی سفارش ہوئی ہے. امام صادقؑ فرماتے ہیں :اگر کوئی شخص قائم آل محمد امام زمان کے یاران میں سے ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے حقیقی معنوں میں انتظار کریں در حالنکہ اس کے اعمال پرہیز گاری اور اچھے اخلاق کے ساتھ ہو تب وہ واقعی منتظر شمار ہوگا.
3-عالمی حکومت کی تیاری
جو شخص حقیقی طور پر حجت خدا کے ظہور، فرج اورحکومت عدل کے قیام کا انتظار کررہا ہو، اس کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو عدل و انصاف پر استوار کرے۔اوراس نے حکومت عدل کی تشکیل سے پہلے ہی اپنی زندگی میں ایسی حکومت کو نافذ کریں اور اپنے معاشرے میں اس قسم کی حکومت قائم کرنے کے لئے کوشاں رہے۔
کیونکہ حقیقی انتظار فرج کی بنیاد حکومتِ عدل کو انفرادی زندگی، انسانی معاشروں پھر عالمی سطح پر نافذ کر نے کے لئے تیاری پر رکھا گیا ہے اور یہ مقصد صرف الفاظ اور نعروں سے حاصل نہیں ہوتی اور نہ یہ دینی تعلیمات سے لاپرواہی کے ساتھ سازگار ہے۔ یہیں سے انتظار فرج کی ایک تفسیر کے غلط ہونے کا پتہ چلتا ہے کیونکہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انتظار فرج یعنی انسانی معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے لاتعلقی اختیار کرنا ہے اور اس امید سے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا کہ امام زمانہ علیہ السلام ظہور کریں گے اورمعاشرے کی اصلاح کریں گے۔حالانکہ حقیقت انتظار یہ ہے کہ انتظار کرنے والا انسان، اپنے آپ کو، اپنے ماحول اور معاشرے کو امام زمانہ علیہ السلام کے آنےاور عالمی سطح پر حکومت عدل کے قیام کے لئے آمادہ کرے اور ہرایک اپنی قدرت کے حساب سے اس راہ میں کوشش کریں ۔امام صادق فرماتے ہیں: قال أبو عبد الله ع
«ليعدن‏ أحدكم لخروج القائم و لو سهما فإن الله إذا علم ذلك من نيته رجوت لأن ينسئ في عمره حتى يدركه و يكون من أعوانه و أنصاره»
تم میں سے ہرایک کی ذمہ داری کہ قائم کے ظہور کے لئے ایک تیر ہی کیوں نہ ہوں اسلحے تیار کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کی نیت سے آگاہ ہے۔ امید ہے کہ اس کی عمر کو خدا اتنی طولانی کریں کہ امامؑ کو درک کریں اور امامؑ کے اعوان وانصار میں سے قرار پایے.( بحار الانوار،ج52،ص366)
شیعہ اور منتظر ہونے کا ثبوت
زبان پر شیعہ اور منتظر ہو نے کا ادعا کرنا کوئی مشکل کام نہیں اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے لہٰذا اگر ہم دنیا اور آخرت دونوں میں اہل بیت کی محبت کا مزہ چھکنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم عمل میں شیعہ ہونے کا ثبوت دیں اورمنتظر کا بھی یہی حال ہے جب تک عمل میں انتظار کے حوالے سے جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے حقیقی معنوں میں ادا نہ کریں جو فوائد انتظار کے لیے بیان ہوا ہمارے شامل حال نہیں ہوگا.مندرجہ ذیل روایتوں میں غور کرنے سے شیعہ حقیقی کا اندازه لگایا جاسکتا ہے.
ابو اسامہ امام صادق ع سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا :اے ابو اسامہ میں تمہیں تقویٰ الہٰی ،ورع،کوشش وتلاش،گفتار میں سچایی،اچھے اخلاق ،پڑوسیوں سے نیکی کرنے کی وصیت کرتاہوں.لوگوں کو زبان کے بغیر دین کی طرف دعوت دو یعنی تمھارے رفتار، کردار اور اخلاق اتنا پاک اور صاف ہونا چاہیئے کہ لوگ تمہیں دیکھ کرمذہب شیعہ کی طرف مائل ہوجائے)اور اے ابو اسامہ تم (شیعہ) ہماری زینت بنو اور ہمارے لئے باعث شرم نہ ہو.
امام صادقؑ نے اپنے خاص صحابی عیسی بن عبداللہ قمی سے فرمایا:اے ابن عبداللہ! وہ شخص جو کسی ایسے شہر میں زندگی کررہا ہوجس میں ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لوگ بستے ہو اگر اس محب اہلبیت  میں سے ایک اور شخص تقویٰ میں آگے ہو یہ ہمارا شیعہ نہیں ہے۔
علماء کی اطاعت اور مجتہدین کی تقلید
اللہ تعالیٰ نےہر دور میں انسانوں کی ہدایت کا بندوبست کیاہے۔ انبیاء کا سلسلہ ختم ہونے بعد ہمارے اماموں نے لوگوں کی راہنمائی اور ان کو سیدھے راستے پر لانے کے لئے بیش بہا قربانیاں دئیےاوریہ ذمہ داری عصر انتظار میں علماء اور دینی دانشوروں کو سونپا گیا ہے۔اور دینی علماء غیبت امام کے شروع سے لیکر اب تک اس الہٰی وظیفے کو احسن طریقے سے انجام دیتے آئے ہیں۔عصر اتنظار میں امام مہدی( عج) کے انتظار کرنے والوں کی اہم ذمہ داریوں میں سے علماء کی پیروی اور مجتہدین کی تقلید ہے.جو لوگ تقلید پر اعتراض کرتے ہیں وہ قطعا غلط فہمی میں ہیں یا وہ واقعی شیعہ نہیں کیونکہ جب خود امامؑ ہمیں حکم فرماتے ہیں کہ ہم جامع الشرائط مجتہدین کی تقلید کریں اس کا مطلب یہ ہےکہ ہمارا کوئی بھی عمل خدا کے ہاں تقلید کے بغیر قبول نہیں ہے۔ جب ہم اپنی ذمہ داریوں کو دین اور شریعت کی نسبت نہیں پہچان سکتے ہیں لہٰذا اگر عملی میدان میں مسلمان باقی رہنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہیں کہ دینی احکامات کو دریافت کرنے کے لئے اس دینی عالم کی طرف رجوع کریں جو سالہا سال زحمت اٹھا کر فرعی مسائل کو کلی قواعد سے نکال کر آسان طریقے سے ہمارے اختیار میں دیتے ہیں۔ اگر ہمارے لئے براہ راست خود امام ع کی تقلید کرنا ممکن ہوتا تو امام ع مجتہدین کی تقلید کرنے پر امر نہ فرماتے در حال اینکہ امام صادق (ع)فرماتے ہیں:«فامامن کان من الفقهاء صائنا لنفسہ حافظا لدینہ مخالفا علی هواه مطیعا لامر مولاه فللعام ان یقلدوه »۔
پس فقہاء میں سے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھنے والا ،دین کا محافظ ، اور ہوا وہوس کے مخالف اور اپنے مولا کے فرمانبردار ہو عوام پر اس کی تقلید واجب ہے۔اس کے علاوہ دینی تمام کاموں میں عصر انتظار میں شیعوں کی ذمہ داری ہے کہ علماء کی اطاعت کریں امام زمان ع فرماتے ہیں «حوادث زمانہ میں ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو وہ لوگ میری طرف سےتمہارے اوپر حجت ہیں»اور ان کی سعادت اور کامیابی کا واحد راستہ یہی ہے کیونکہ بہت سارےایسے مسائل ہیں جو علماء کے ترجمہ شدہ کتابوں کو رٹنے سے نہیں سمجھ سکتے ہیں.
عصر انتظار میں علماء کی ذمہ داری
انتظار کے دور میں علماء کی ذمہ اری کے حوالے سے بہت موضوعات قابل تحریر ہیں۔ ہم یہاں آیت اللہ حافظ بشیر دام ظلہ سے اس بارے چند جملات نقل کرتے ہیں:آپ اپنی کتاب ولادت امام مہدی ع میں لکھتے ہیں: غیبت کبریٰ کے دوران دینی طلباء علما،مفکرین، مصنفین، مؤلفین اور واعظین اور میدان خطابت میں ید طولیٰ رکھنے والوں پر بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس موجودہ دور میں انسانیت اور خصوصاً اسلام اور مسلمانوں کی جو حالت ہم دیکھ رہے ہیں وہ اس وقت سے قطعاً بہتر اور مختلف نہیں ہے جس وقت غیبت کبریٰ رونما ہوئی تھی ،آج بھی لوگ اسی طرح دنیا کی محبت میں غرق ہیں۔اسی بناپر دینی طلباء اور علماء پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کو واجب الہٰی امر بہ معروف نہی از منکر اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے تیار کریں اور ان پر واجب ہے کہ وہ انقلاب امام مہدی ع کی ضرورت کے بیان اور اس کی تشریح کے ذریعے ثقافت مہدویہ کو استحکام بخشیں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button