سیرتسیرت امام زین العابدینؑ

امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی کا مختصر جائزہ

امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی کا مختصر جائزہ

آپؑ کی ولادت باسعادت
علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ جب جناب شہربانو ایران سے مدینہ کے لیے روانہ ہو رہی تھیں توجناب رسالت مآب نے عالم خواب میں ان کا عقدحضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ پڑھ دیا تھا۔ (جلاء العیون ص ۲۵۶) اورجب آپ وارد مدینہ ہوئیں توحضرت علی علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے سپرد کرکے فرمایا کہ یہ وہ عصمت پرور بی بی ہے کہ جس کے بطن سے تمہارے بعد افضل اوصیاء اور افضل کائنات ہونے والا بچہ پیدا ہو گا چنانچہ حضرت امام زین العابدین متولد ہوئے لیکن افسوس یہ ہے کہ آپ اپنی ماں کی آغوش میں پرورش پانے کا لطف نہ اٹھا سکے،آپؑ کے پیدا ہوتے ہی جناب شہربانو کی وفات ہو گئی۔ (قمقام جلاء العیون)۔(عیون اخبار رضا دمعۃ سا کبۃ جلد ۱ ص ۴۲۶)
کامل مبرد میں ہے کہ جناب شہربانو،بادشاہ ایران یزدجرد بن شہریار بن شیرویہ ابن پرویز بن ہرمز بن نوشیرواں عادل "کسری” کی بیٹی تھیں (ارشاد مفید ص ۳۹۱، فصل الخطاب) علامہ طریحی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے شہربانو سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے توانہوں نے کہا "شاہ جہاں” حضرت نے فرمایا نہیں اب "شہربانو”ہے۔ (مجمع البحرین ص ۵۷۰)

لقب زین العابدین کی توجیہ
علامہ شبلنجی کا بیان ہے کہ امام مالک کا کہنا ہے کہ آپؑ کو زین العابدین کثرت عبادت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ (نورالابصار ص ۱۲۶)
علمائے فریقین کا ارشاد ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک شب نماز تہجد میں مشغول تھے کہ شیطان اژدھے کی شکل میں آپؑ کے قریب آ گیا اور اس نے آپؑ کے پائے مبارک کے انگوٹھے کو منہ میں لےکر کاٹنا شروع کیا،امام جو ہمہ تن مشغول عبادت تھے اورآپؑ کا رجحان کامل بارگاہ ایزدی کی طرف تھا، ذرا بھی اس کے اس عمل سے متاثر نہ ہوئے اور بدستور نماز میں منہمک و مصروف و مشغول رہے بالآخروہ عاجز آ گیا اور امام نے اپنی نماز بھی تمام کر لی اس وقت ہاتف غیبی نے انت زین العابدین کی تین بار صدا دی اورکہا بے شک تم عبادت گزاروں کی زینت ہو،اسی وقت آپؑ کا یہ لقب ہو گیا ۔(مطالب السؤل ص ۲۶۲،شواہدالنبوت ص ۱۷۷) علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ اژدھے کے دس سر تھے اور اس کے دانت بہت تیز اور اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور وہ مصلے کے قریب سے زمین پھاڑ کر نکلا تھا (مناقب جلد ۴ ص ۱۰۸) ایک روایت میں اس کی وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ قیامت میں آپ کو اسی نام سے پکاراجائے گا (دمعة ساکبة ص ۴۲۶)

امام زین العابدین کے بچپن کا ایک واقعہ
علامہ مجلسی رقمطراز ہیں کہ ایک دن امام زین العابدینؑ جب کہ آپؑ کا بچپن تھا بیمارہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا "بیٹا” اب تمہاری طبیعت کیسی ہے اورتم کوئی چیزچاہتے ہوتو بیان کرو تاکہ میں تمہاری خواہش کے مطابق اسے فراہم کرنے کی سعی کروں۔ آپؑ نے عرض کیا۔ باباجان ! اب خدا کے فضل سے اچھا ہوں میری خواہش صرف یہ ہے کہ خداوندعالم میراشمار ان لوگوں میں کرے جو پروردگارعالم کے قضا و قدر کے خلاف کوئی خواہش نہیں رکھتے۔ یہ سن کر امام حسین علیہ السلام خوش و مسرور ہو گئے اور فرمانے لگے ۔ بیٹا! تم نے بڑا مسرت افزا اور معرفت خیز جواب دیا ہے۔ تمہاراجواب بالکل حضرت ابراہیمؑ کے جواب سے ملتا جلتا ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ کوجب منجیقس میں رکھ کر آگے کی طرف پھینکا گیا تھا اورآپ فضا میں ہوتے ہوئے آگ کی طرف جا رہے تھے توحضرت جبرئیل نے آپ سے پوچھا ”ھل لک حاجة“ آپ کی کوئی حاجت و خواہش ہے اس وقت انہوں نے جواب دیا تھا ”نعم اما الیک فلا“ بےشک مجھے حاجت ہے لیکن تم سے نہیں اپنے پالنے والے سے ہے۔ (بحارالانوار جلد ۱۱ ص ۲۱ طبع ایران)

آپ کے عہد حیات کے بادشاہان وقت
آپ کی ولادت بادشاہ دین وایمان حضرت علی علیہ السلام کے عہدعصمت مہد میں ہوئی پھرامام حسن علیہ السلام کا زمانہ رہا، پھر بنی امیہ کی خالص دنیاوی حکومت ہو گئی۔ صلح امام حسنؑ کے بعد سے ۶۰ ھ تک معاویہ بن ابی سفیان بادشاہ رہا۔ اس کے بعد اس کا فاسق و فاجر بیٹا یزید ۶۴ ھ تک حکمران رہا۔ ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزید ابن معاویہ اور مروان بن حکم حاکم رہے ۔ ۶۵ ھ سے ۸۶ ھ تک عبدالملک بن مروان حاکم اور بادشاہ رہا پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولید بن عبدالملک نے حکمرانی کی اور اسی نے ۹۵ ھ میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کو زہر دغا سے شہید کر دیا ۔(تاریخ آئمہ ۳۹۲،وصواعق محرقہ ص ۱۲،نورالابصار ص ۱۲۸)

حضرت امام زین العابدین کی شان عبادت
جس طرح آپؑ کی عبادت گزاری میں پیروی ناممکن ہے اسی طرح آپؑ کی شان عبادت کی رقم طرازی بھی دشوار ہے۔ ایک وہ ہستی جس کا مطمع نظر معبود کی عبادت اورخالق کی معرفت میں استغراق کامل ہو اورجو اپنی حیات کا مقصد اطاعت خداوندی ہی کوسمجھتا ہو اورعلم ومعرفت میں حد درجہ کمال رکھتا ہو اس کی شان عبادت کی سطح قرطاس پرکیونکر لایاجا سکتا ہے اورزبان قلم میں کس طرح کامیابی حاصل کرسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ علماء کی بے انتہا کاہش وکاوش کے باوجود آپ کی شان عبادت کا مظاہرہ نہیں ہوسکا ”قد بلغ من العبادة مالم یبلغہ احد“ آپ عبادت کی اس منزل پر فائز تھے جس پرکوئی بھی فائز نہیں ہوا۔ (دمعہ ساکبہ ص ۴۳۹)
اس سلسلہ میں ارباب علم اورصاحبان قلم جو کچھ کہہ اورلکھ سکے ہیں ان میں سے بعض واقعات وحالات یہ ہیں:

آپؑ کی حالت وضو کے وقت
وضو نماز کے لیے مقدمہ کی حیثیت رکھتا ہے اوراسی پر نماز کا دارومدار ہوتا ہے ۔ امام زین العابدین علیہ السلام جس وقت مقدمہ نماز یعنی وضو کا ارادہ فرماتے تھے آپ کے رگ و پے میں خوف خدا کے اثرات نمایاں ہوجاتے تھے،علامہ محمد بن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جب آپؑ وضو کا قصد فرماتے تھے اور وضوکے لیے بیٹھتے تھے توآپؑ کے چہرہ مبارک کا رنگ زرد ہو جایا کرتا تھا یہ حالت بار بار دیکھنے کے بعد ان کے گھروالوں نے پوچھا کہ بوقت وضو آپؑ کے چہرہ کا رنگ زرد کیوں پڑجایا کرتا ہے توآپؑ نے فرمایا کہ اس وقت میرا تصور کامل اپنے خالق ومعبود کی طرف ہوتا ہے اس لیے اس کی جلالت کے رعب سے میرا یہ حال ہوجایا کرتا ہے۔ (مطالب السؤل ص ۲۶۲)

عالم نمازمیں آپؑ کی حالت
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپؑ کوعبادت گزاری میں امتیاز کامل حاصل تھا۔ رات بھرجاگنے کی وجہ سے آپ کا سارا بدن زرد رہا کرتا تھا اورخوف خدا میں روتے روتے آپ کی آنکھیں پھول جایا کرتی تھیں اورنمازمیں کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے۔ (اعلام الوری ص ۱۵۳) اور پیشانی پرگھٹے رہا کرتے تھے اورآپ کی ناک کا سرا زخمی رہا کرتا تھا۔ (دمعہ ساکبہ ص ۴۳۹)
علامہ محمد بن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جب آپ نماز کے لئے مصلی پرکھڑے ہوا کرتے تھے تو لرزہ براندام ہوجایا کرتے تھے لوگوں نے بدن میں کپکپی اورجسم میں تھرتھری کا سبب پوچھا توارشاد فرمایا کہ میں اس وقت خدا کی بارگاہ میں ہوتا ہوں اوراس کی جلالت مجھے ازخود رفتہ کر دیتی ہے اورمجھ پرایسی حالت طاری کردیتی ہے۔ (مطالب السؤل ص ۲۲۶)
ایک مرتبہ آپؑ کے گھر میں آگ لگ گئی اورآپؑ نماز میں مشغول تھے اہل محلہ اورگھر والوں نے بے حد شورمچایا اورحضرت کو پکارا حضور آگ لگی ہوئی ہے مگر آپؑ نے سر نیازسجدہ بے نیاز سے نہ اٹھایا۔ آگ بجھا دی گئی۔ اختتام نماز پر لوگوں نے آپؑ سے پوچھا کہ حضور آگ کا معاملہ تھا ہم نے اتنا شورمچایا لیکن آپؑ نے کوئی توجہ نہ فرمائی۔
آپ نے ارشاد فرمایا "ہاں” مگرجہنم کی آگ کے ڈر سے نماز توڑ کر اس آگ کی طرف متوجہ نہ ہوسکا۔ (شواہدالنبوت ص ۱۷۷)
علامہ محمد باقر بحوالہ بحارالانوار تحریر فرماتے ہیں کہ امام علیہ السلام ایک دن نمازمیں مصروف ومشغول تھے کہ امام محمد باقرعلیہ السلام کنوئیں میں گر پڑے ۔ بچہ کے گہرے کنویں میں گرنے سے ان کی ماں بے چین ہوکر رونے لگیں اورکنویں کے گرد پیٹ پیٹ کرچکر لگانے لگیں اورکہنے لگیں ۔ ابن رسول اللہ محمد باقرغرق ہو گئے۔ امام زین العابدینؑ نے بچے کے کنویں میں گرنے کی کوئی پرواہ نہ کی اوراطمینان سے نمازتمام فرمائی اس کے بعد آپؑ کنویں کے قریب آئے اور پانی کی طرف دیکھا پھر ہاتھ بڑھا کر بلا رسی کے گہرے کنوئیں سے بچے کو نکال لیا بچہ ہنستا ہوا برآمد ہوا، قدرت خداوندی دیکھیے اس وقت نہ بچے کے کپڑے بھیگے تھے اورنہ بدن تر تھا۔ (دمعہ ساکبہ ص ۴۳۰،مناقب جلد ۴ ص ۱۰۹)

امام زین العابدین علیہ السلام منصب امامت پرفائزہونے سے پہلے
اگرچہ ہماراعقیدہ ہے کہ امام بطن مادر سے امامت کی تمام صلاحیتیوں سے بھرپور آتا ہے تاہم فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داری اسی وقت ہوتی ہے جب وہ امام زمانہ کی حیثیت سے کام شروع کرے یعنی ایسا وقت آ جائے جب کائنات ارضی پرکوئی بھی اس سے افضل واعلم برتر و اکمل نہ ہو۔ امام زین العابدینؑ اگرچہ وقت ولادت ہی سے امام تھے لیکن فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داری آپؑ پراس وقت عائد ہوئی جب آپ کے والد ماجد حضرت امام حسین علیہ السلام درجہ شہادت پرفائز ہو کرحیات ظاہری سے محروم ہوگئے۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت ۳۸ ھ میں ہوئی جبکہ حضرت علی علیہ السلام امام زمانہ تھے دوسال ان کی ظاہری زندگی میں آپ نے حالت طفولیت میں ایام حیات گزارے پھر ۵۰ ھ تک امام حسن علیہ السلام کا زمانہ رہا پھرعاشورا، ۶ ۱ ھ تک امام حسین علیہ السلام فرائض امامت کی انجام دہی فرماتے رہے عاشورکی دوپہر کے بعد سے ساری ذمہ داری آپؑ پرعائد ہوگئی۔ اس عظیم ذمہ داری سے قبل کے واقعات کا پتہ صراحت کے ساتھ نہیں ملتا،البتہ آپؑ کی عبادت گزاری اورآپ کے اخلاقی کارنامے بعض کتابوں میں ملتے ہیں ۔ بہرصورت حضرت علی علیہ السلام کے آخری ایام حیات کے واقعات اورامام حسن علیہ السلام کے حالات سے متاثرہونا ایک لازمی امر ہے ۔ پھرامام حسین علیہ السلام کے ساتھ تو ۲۳ ۔ ۲۲ سال گزارے تھے یقینا امام حسین علیہ السلام کے جملہ معاملات میں آپ نے بڑے بیٹے کی حیثیت سے ساتھ دیا ہی ہوگا لیکن مقصد حسینؑ کے فروغ دینے میں آپ ؑنے اپنے عہد امامت کے آغاز ہونے پر انتہائی کمال کردیا۔

واقعہ کربلا کے سلسلہ میں امام زین العابدین کا شاندارکردار
۲۸/ رجب ۶۰ ھ کو آپ حضرت امام حسینؑ کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہوکرمکہ معظمہ پہنچے ۔ چارماہ قیام کے بعد وہاں سے روانہ ہوکر ۲/ محرم الحرام کو وارد کربلا ہوئے۔ وہاں پہنچتے ہی یا پہنچنے سے پہلے آپؑ علیل ہوگئے اورآپؑ کی علالت نے اتنی شدت اختیارکی کہ آپ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت تک اس قابل نہ ہوسکے کہ میدان میں جا کر درجہ شہادت حاصل کرتے۔
تاہم فراہم موقع پرآپ نے جذبات نصرت کو بروئے کارلانے کی سعی کی جب کوئی آوازاستغاثہ کان میں آئی آپؑ اٹھ بیٹھے اورمیدان کار زار میں شدت مرض کے باوجود جا پہنچنے کی سعی بلیغ کی۔ امام کے استغاثہ پرتوآپ خیمہ سے بھی نکل آئے اورایک چوب خیمہ لے کر میدان کا عزم کر دیا۔ ناگاہ امام حسینؑ کی نظرآپ پرپڑگئی اورانہوں نے جنگاہ سے بقولے حضرت زینبؑ کوآواز دی ”بہن سید سجاد کو روکو ورنہ نسل رسول کا خاتمہ ہوجائے گا“ حکم امام سے زینبؑ نے سید سجادؑ کو میدان میں جانے سے روک لیا یہی وجہ ہے کہ سیدوں کا وجود نظر آ رہا ہے اگرامام زین العابدینؑ علیل ہوکر شہید ہونے سے نہ بچ جاتے تونسل رسول صرف امام محمد باقرمیں محدود رہ جاتی،امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ مرض اورعلالت کی وجہ سے آب درجہ شہادت پرفائزنہ ہوسکے (نورالابصار ص ۱۲۶)
شہادت امام حسینؑ کے بعدجب خیموں میں آگ لگائی گئی توآپؑ انہیں خیموں میں سے ایک خیمہ میں بدستور پڑے ہوئے تھے،ہماری ہزارجانیں قربان ہوجائیں،حضرت زینبؑ پرکہ انہوں نے اہم فرائض کی ادائیگی کے سلسلہ میں سب سے پہلا فریضہ امام زین العابدین علیہ السلام کے تحفظ کاادا فرمایا اورامام کوبچا لیا الغرض رات گزاری اورصبح نمودارہوئی، دشمنوں نے امام زین العابدین کواس طرح جھنجوڑا کہ آپ اپنی بیماری بھول گئے۔
آپ سے کہا گیا کہ ناقوں پرسب کوسوار کرو اور ابن زیاد کے دربار میں چلو،سب کوسوارکرنے کے بعد آل محمد کا ساربان پھوپھیوں،بہنوں اورتمام مخدرات کو لئے ہوئے داخل دربار ہوا حالت یہ تھی کہ عورتیں اوربچے رسیوں میں بندھے ہوئے اورامام لوہے میں جکڑے ہوئے دربارمیں پہنچ گئے آپ چونکہ ناقہ کی برہنہ پشت پرسنبھل نہ سکتے تھے اس لیے آپ کے پیروں کوناقہ کی پشت سے باندھ دیا گیا تھا دربارکوفہ میں داخل ہونے کے بعد آپ اورمخدرات عصمت قیدخانہ میں بند کر دئیے گئے،سات روزکے بعد آپ سب کولیے ہوئے شام کی طرف روانہ ہوئے
حدود شام کا ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑی، پیروں میں بیڑی اورگلے میں خاردارطوق آہنی پڑا ہوا تھا اس پرمستزادیہ کو لوگ آگ برسا رہے تھے اسی لیے آپ نے بعد واقعہ کربلا ایک سوال کے جواب میں ”الشام الشام الشام“ فرمایاتھا۔(تحفہ حسینہ علامہ بسطامی)
شام پہنچنے کے کئی گھنٹوں یا دنوں کے بعد آپ آل محمد کو لیے ہوئے سرہائے شہدا سمیت داخل دربار ہوئے پھر قیدخانہ میں بند کر دئیے گئے تقریبا ایک سال قید کی مشقتیں جھیلیں۔قیدخانہ بھی ایساتھا کہ جس میں تمازت آفتابی کی وجہ سے ان لوگوں کے چہروں کی کھالیں متغیرہوگئی تھیں (لہوف)
۸/ ربیع الاول ۶۲ ھ کوآپ کا لٹا ہوا قافلہ لیے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے،وہاں کے لوگوں نے آہ وزاری اورکمال رنج وغم سے آپ کا استقبال کیا۔ ۱۵ شبانہ وروز نوحہ وماتم ہوتا رہا (تفصیلی واقعات کے لیے کتب مقاتل و اسیر کا ملاحظہ کیجئے)۔اس عظیم واقعہ کا اثر یہ ہوا کہ زینبؑ کے بال اس طرح سفید ہوگئے تھے کہ جاننے والے انہیں پہچان نہ سکے (احسن القصص ص ۱۸۲ طبع نجف)

واقعہ کربلا اور حضرت امام زین العابدین کے خطبات
معرکہ کربلا کی غمگین داستان تاریخ اسلام ہی کی نہیں بلکہ تاریخ عالم کا افسوسناک سانحہ ہے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اول سے آخرتک اس روح فرسا واقعہ میں اپنے باپ کے ساتھ رہے اورباپ کی شہادت کے بعد خود اس المیہ کے ہیرو بنے اور پھرجب تک زندہ رہے اس سانحہ کا ماتم وعزادری کے ذریعے تبلیغ  کرتے رہے ۔اس جانکاہ واقعہ کربلا کے سلسلہ میں آپ نے جوجابجا خطبات ارشاد فرمائے ہیں ان کا ترجمہ درج ذیل ہے۔

کوفہ میں آپؑ کا خطبہ:
کتاب لہوف ص ۶۸ میں ہے کہ کوفہ پہنچنے کے بعدامام زین العابدین نے لوگوں کوخاموش رہنے کا اشارہ کیا،سب خاموش ہوگئے،آپ کھڑے ہوئے خدا کی حمد و ثناء کی،حضرت نبی کا ذکر کیا، ان پرصلوات بھیجی۔ پھر ارشاد فرمایا اے لوگو! جو مجھے جانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے جو نہیں جانتا اسے میں بتاتا ہوں میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں،میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کاسامان لوٹا گیا ۔ جس کے اہل وعیال قید کر دئیے گئے۔ میں اس کا فرزند ہوں جوساحل فرات پرذبح کردیا گیا،اوربغیرکفن ودفن چھوڑدیا گیا اور(شہادت حسینؑ)ہمارے فخرکے لیے کافی ہے۔ اے لوگو! تمہارا برا ہو کہ تم نے اپنے لیے ہلاکت کا سامان مہیا کر لیا،تمہاری رائیں کس قدربری ہیں تم کن آنکھوں سے رسولؐ کودیکھوگے جب رسولؑ تم سے باز پرس کریں گے کہ تم لوگوں نے میری عترت کو قتل کیا اورمیرے اہل حرم کو ذلیل کیا ”اس لیے تم میری امت میں نہیں”۔

مسجد دمشق(شام) میں آپ کا خطبہ:
مقتل ابی مخنف ص ۱۳۵، بحارالانوارجلد ۱۰ ص ۲۳۳،ریاض القدس جلد ۲ ص ۳۲۸، اورروضۃ الاحباب وغیرہ میں ہے کہ جب حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اہل حرم سمیت دربار یزید میں داخل کئے گئے اور ان کومنبر پرجانے کا موقع ملا تو آپؑ منبر پر تشریف لے گئے اورانبیاء کی طرح شیریں زبان میں نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ خطبہ ارشاد فرمایا:
اے لوگو! تم میں سے جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے، اورجونہیں پہچانتا میں اسے بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں؟ سنو، میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں،میں اس کا فرزند ہوں جس نے حج کئے ہیں،اس کا فرزند ہوں جس نے طواف کعبہ کیا ہے اورسعی کی ہے، میں پسر زمزم وصفاہوں، میں فرزند فاطمہ زہرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پس گردن سے ذبح کیا گیا، میں اس پیاسے کا فرزند ہوں جوپیاسا ہی دنیا سے اٹھا،میں اس کا فرزند ہوں جس پر لوگوں نے پانی بند کر دیا، حالانکہ تمام مخلوقات پر پانی کوجائز قرار دیا،میں محمد مصطفیؑ کا فرزند ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جو کربلا میں شہید کیا گیا،میں اس کا فرزند ہوں جس کے انصارزمین میں آرام کی نیند سو گئے۔ میں اس کا پسر ہوں جس کے اہل حرم قید کر دئے گئے میں اس کا فرزند ہوں جس کے بچے بغیرجرم و خطا ذبح کرڈالے گئے، میں اس کا بیٹا ہوں جس کے خیموں میں آگ لگا دی گئی، میں اس کا فرزند ہوں جس کا سرنوک نیزہ پربلند کیا گیا، میں اس کا فرزند ہوں جس کے اہل حرم کی کربلا میں بے حرمتی کی گئی، میں اس کا فرزند ہوں جس کاجسم کربلا کی زمین پرچھوڑ دیا گیا اورسر دوسرے مقامات پرنوک نیزہ پربلند کرکے پھرایا گیا میں اس کا فرزند ہوں جس کے اردگرد سوائے دشمن کے کوئی اور نہ تھا،میں اس کا فرزند ہوں جس کے اہل حرم کوقید کرکے شام تک پھرایا گیا، میں اس کا فرزند ہوں جوبے یارو مددگار تھا۔
پھر امام علیہ السلام نے فرمایا لوگو! خدا نے ہم کو پانچ فضیلت بخشی ہیں:
۱ ۔ خدا کی قسم ہمارے ہی گھرمیں فرشتوں کی آمدورفت رہی اورہم ہی معدن نبوت ورسالت ہیں۔
۲ ۔ ہماری شان میں قرآن کی آیتیں نازل کیں، اورہم نے لوگوں کی ہدایت کی۔
۳ ۔ شجاعت ہمارے ہی گھرکی کنیز ہے،ہم کبھی کسی کی قوت وطاقت سے نہیں ڈرے اورفصاحت ہمارا ہی حصہ ہے،جب فصحاء فخر و مباہات کریں۔
۴ ۔ ہم ہی صراط مستقیم اورہدایت کا مرکز ہیں اوراس کے لیے علم کا سرچشمہ ہیں جوعلم حاصل کرناچاہے اوردنیا کے مومنین کے دلوں میں ہماری محبت ہے۔
۵ ۔ ہمارے ہی مرتبے آسمانوں اورزمینوں میں بلند ہیں، اگرہم نہ ہوتے توخدا دنیا کو پیدا ہی نہ کرتا، ہر فخرہمارے فخرکے سامنے پست ہے، ہمارے دوست (روزقیامت ) سیروسیراب ہوں گے اورہمارے دشمن روزقیامت بدبختی میں ہوں گے۔
جب لوگوں نے امام زین العابدین کا کلام سنا توچیخ مار کر رونے اور پیٹنے لگے اوران کی آوازیں بے ساختہ بلند ہونے لگیں یہ حال دیکھ کر یزید گھبرا اٹھا کہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہوجائے اس نے اس کے ردعمل میں فورا موذن کوحکم دیاکہ اذان شروع کرکے امام کے خطبہ کو منقطع کردے، موذن (گلدستہ اذان پرگیا) اورکہا”اللّٰہ اکبر“امامؑ نے فرمایا تونے ایک بڑی ذات کی بڑائی بیان کی اور ایک عظیم الشان ذات کی عظمت کا اظہارکیا اور جوکچھ کہا”حق“ ہے ۔ پھرموذن نے کہا "اشہد ان لاالہ الّااللّٰہ” امامؑ نے فرمایا میں بھی اس مقصد کے ہر گواہ کے ساتھ گواہی دیتا ہوں اورہرانکار کرنے والے کے خلاف اقرار کرتا ہوں۔پھرموذن نے کہا” اشہدان محمدارسول اللّٰہ“فبکی علی، یہ سن کرحضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور فرمایا اے یزیدمیں تجھ سے خدا کا واسطہ دے کرپوچھتا ہوں بتا حضرت محمد مصطفیؐ میرے نانا تھے یا تیرے، یزید نے کہا آپؐ کے، آپؐ نے فرمایا،پھرکیوں تونے ان کے اہلبیت کوشہید کیا، یزید نے کوئی جواب نہ دیا اوراپنے محل میں یہ کہتا ہواچلا گیا۔”لاحاجة لی بالصلواة“ مجھے نمازسے کوئی واسطہ نہیں،اس کے بعد منہال بن عمرکھڑے ہوگئے اورکہا فرزندرسولؐ آپ کا کیاحال ہے، فرمایا اے منہال ایسے شخص کا کیاحال پوچھتے ہوجس کا باپ(نہایت بے دردی سے) شہید کردیا گیا ہو، جس کے مددگارختم کردئیے گئے ہوں جواپنے چاروں طرف اپنے اہل حرم کوقیدی دیکھ رہا ہو،جن کا نہ پردہ رہ گیا نہ چادریں رہ گئیں، جن کانہ کوئی مددگار ہے نہ حامی، تم تو دیکھ رہے ہو کہ میں مقید ہوں، ذلیل و رسوا کیا گیا ہوں، نہ کوئی میرا ناصر ہے،نہ مددگار، میں اور میرے اہل بیت لباس کہنہ مین ملبوس ہیں ہم پرنئے لباس حرام کردئیے گئے ہیں اب جوتم میراحال پوچھتے ہوتومیں تمہارے سامنے موجود ہوں تم دیکھ ہی رہے ہو،ہمارے دشمن ہمیں برا بھلا کہتے ہیں اورہم صبح وشام موت کا انتظار کرتے ہیں۔
پھرفرمایاعرب ،عجم پر فخرکرتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفیؐ ان میں سے تھے، اور قریش عرب پراس لیے فخرکرتے ہیں کہ آنحضرتؐ قریش میں سے تھے اور ہم ان کے اہلبیت ہیں لیکن ہم کوقتل کیا گیا، ہم پرظلم کیا گیا،ہم پرمصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے اورہم کوقید کرکے دربدر پھرایا گیا،گویا ہماراحسب بہت گرا ہوا ہے اور ہمارا نسب بہت ذلیل ہے، گویا ہم عزت کی بلندیوں پرنہیں چڑھے اوربزرگوں کے فرش پرجلوہ افروز نہیں ہوئے آج گویا تمام ملک یزید اور اس کے لشکر کا ہو گیا اور آل مصطفیؐ یزید کی ادنی غلام ہوگئی ہے، یہ سننا تھا کہ ہرطرف سے رونے پیٹنے کی صدائیں بلند ہوئیں۔
یزید بہت خائف ہوا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہوجائے اس نے اس شخص سے کہا جس نے امامؑ کومنبر پرتشریف لے جانے کے لیے کہا تھا ”ویحک اردت بصعودہ زوال ملکی“ تیرا برا ہو توان کومنبر بربٹھا کرمیری سلطنت ختم کرناچاہتا ہے۔ اس نے جواب دیا، بخدا میں یہ نہ جانتا تھا کہ یہ اتنی بلند گفتگو کرے گا یزید نے کہا کیا تونہیں جانتا کہ یہ اہلبیت نبوت اور معدن رسالت کا ایک فرد ہے، یہ سن کرموذن سے نہ رہا گیا اوراس نے کہا اے یزید! "اذاکان کذالک فلماقتلت اباہ“ جب تو یہ جانتا تھا تو تو نے ان کے پدربزرگوارکوکیوں شہید کیا،موذن کی گفتگو سن کر یزید برہم ہوگیا،”فامربضرب عنقہ“ اورموذن کی گردن مار دینے کاحکم دیدیا۔

مدینہ کے قریب پہنچ کر آپؑ کا خطبہ:
مقتل ابی مخنف ص ۸۸ میں ہے (ایک سال تک قیدخانہ شام کی صعوبت برداشت کرنے کے بعدجب اہل بیت رسول کی رہائی ہوئی اور یہ قافلہ کربلا ہوتا ہوا مدینہ کی طرف چلا تو قریب مدینہ پہنچ کر امام علیہ السلام نے لوگوں کوخاموش ہوجانے کا اشارہ کیا، سب کے سب خاموش ہوگئے آپؑ نے فرمایا:
تعریف اس خدا کی جو تمام دنیا کا پروردگار ہے، روزجزاء کا مالک ہے، تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے جواتنا دور ہے کہ بلند آسمان سے بھی بلند ہے اوراتنا قریب ہے کہ سامنے موجود ہے اورہماری باتوں کو سنتا ہے، ہم خدا کی تعریف کرتے ہیں اوراس کا شکر بجالاتے ہیں عظیم حادثوں،زمانے کی ہولناک گردشوں، دردناک غموں، خطرناک آفتوں، شدید تکلیفوں، اورقلب وجگر کو ہلا دینے والی مصیبتوں کے نازل ہونے کے وقت اے لوگو! صرف خداکے لیے حمد ہے، ہم بڑے بڑے مصائب میں مبتلا کئے گئے، دیواراسلام میں بہت بڑا رخنہ(شگاف) پڑ گیا، حضرت ابوعبداللہ الحسین اوران کے اہل بیت شہیدکر دیے گئے، ان کی عورتیں اور بچے قید کر دئیے گئے اور(لشکر یزید نے) ان کے سرہائے مبارک کوبلند نیزوں پررکھ کر شہروں میں پھرایا، یہ وہ مصیبت ہے جس کے برابرکوئی مصیبت نہیں، اے لوگو! تم میں سے کون مرد ہے جوشہادت حسینؑ کے بعدخوش رہے یا کون سا دل ہے جوشہادت حسینؑ سے غمگین نہ ہو یا کونسی آنکھ ہے جوآنسوؤں کوروک سکے، شہادت حسینؑ پر ساتوں آسمان روئے، سمندر اور اس کی شاخیں روئیں، مچھلیاں اور سمندر کے گرداب روئے ملائکہ مقربین اور تمام آسمان والے روئے، اے لوگو! کون سا قطب ہے جوشہادت حسینؑ کی خبرسن کر نہ پھٹ جائے، کونسا قلب ہے جومحزون نہ ہو، کونسا کان ہے جو اس مصیبت کوسن کرجس سے دیواراسلام میں رخنہ پڑا،بہرہ نہ ہو، اے لوگو! ہماری یہ حالت تھی کہ ہم کشاں کشاں پھرائے جاتے تھے، دربدر ٹھکرائے جاتے تھے ذلیل کئے گئے شہروں سے دورتھے، گویا ہم کو اولاد ترک وکابل سمجھ لیا گیا تھا،حالانکہ نہ ہم نے کوئی جرم کیا تھا نہ کسی برائی کا ارتکاب کیا تھا نہ دیواراسلام میں کوئی رخنہ ڈالا تھا اورنہ ان چیزوں کے خلاف کیا تھاجو ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے سنا تھا،خداکی قسم اگرحضرت نبی بھی ان لوگوں(لشکریزید) کو ہم سے جنگ کرنے کے لیے منع کرتے (تویہ نہ مانتے) جیسا کہ حضرت نبی نے ہماری وصایت کااعلان کیا(اوران لوگوں نے مانا) بلکہ جتنا انہوں نے کیا ہے اس سے زیادہ سلوک کرتے،ہم خدا کے لیے ہیں اورخدا کی طرف ہماری باز گشت ہے”

امام زین العابدین اور محمد حنفیہ کے در میان حجر اسود کا فیصلہ
آل محمد کے مدینہ پہنچنے کے بعد امام زین العابدین کے چچا محمدحنفیہ نے بروایت اہل اسلام امام سے خواہش کی کہ مجھے تبرکات امامت دیدو، کیونکہ میں بزرگ خاندان اور امامت کا اہل و حقدارہوں آپؑ نے فرمایا کہ حجر اسود کے پاس چلو وہ فیصلہ کردے گا جب یہ حضرات اس کے پاس پہنچے تووہ بحکم خدایوں بولا ”امامت زین العابدین کاحق ہے“ اس فیصلہ کودونوں نے تسلیم کرلیا۔(شواہدالنبوت ص ۱۷۶)

کامل مبرد میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے محمدحنفیہ،امام زین العابدین کی بڑی عزت کرتے تھے ایک دن ابوخالد کابلی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی توکہا کہ حجراسود نے خلافت کا ان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اوریہ امام زمانہ ہیں یہ سنکر وہ مذہب امامیہ کا قائل ہوگیا۔(مناقب جلد ۲ ص ۳۲۶)

ثبوت امامت میں امام زین العابدین کاکنکری پرمہرفرمانا
اصول کافی میں ہے کہ ایک عورت جس کی عمر ۱۱۳ سال کی ہوچکی تھی ایک دن امام زین العابدین کے پاس آئی اس کے پاس وہ کنکری تھی جس پرحضرت علیؑ، امام حسنؑ،امام حسینؑ کی مہرامامت لگی ہوئی تھی اس کے آتے ہی بلا کہے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ وہ کنکری لاجس پرمیرے آباؤاجداد کی مہریں لگی ہوئی ہیں اس پر میں بھی مہر کر دوں چنانچہ اس نے کنکری دیدی آپ نے اسے مہر کرکے واپس کردی، اوراس کی جوانی بھی پلٹا دی،وہ خوش وخرم واپس چلی گئی ۔(دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۳۶)

امام زین العابدین اور فقراء مدینہ کی کفالت
علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فقراء مدینہ کے سو گھروں کی کفالت فرماتے تھے اورسارا سامان ان کے گھر پہنچایا کرتے تھے جنہیں آپؑ بہ بھی معلوم نہ ہونے دیتے تھے کہ یہ سامان خوردونوش رات کوکون دے جاتا ہے آپ کا اصول یہ تھا کہ بوریاں پشت پرلاد کر گھروں میں روٹی اور آٹا وغیرہ پہنچاتے تھے اور یہ سلسلہ تابحیات جاری رہا، بعض معززین کا کہنا ہے کہ ہم نے اہل مدینہ کویہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ امام زین العابدینؑ کی زندگی تک ہم خفیہ غذائی رسد سے محروم نہیں ہوئے۔ (مطالب السؤل ص ۲۶۵،نورالابصار ص ۱۲۶)

امام زین العابدین اور عبدالملک بن مروان کا حج
بادشاہ دنیاعبدالملک بن مروان اپنے عہد حکومت میں اپنے پایہ تخت سے حج کے لیے روانہ ہو کر مکہ معظمہ پہنچا اوربادشاہ دین حضرت امام زین العابدین بھی مدینہ سے روانہ ہو کر پہنچ گئے مناسک حج کے سلسلہ میں دونوں کا ساتھ ہو گیا، حضرت امام زین العابدین آگے آگے چل رہے تھے اور بادشاہ پیچھے چل رہا تھا عبدالملک بن مروان کو یہ بات ناگوارہوئی اوراس نے آپ سے کہا کیا میں نے آپ کے باپ کو قتل کیا ہے جو آپ میری طرف متوجہ نہیں ہوتے، آپ نے فرمایا کہ جس نے میرے باپ کوقتل کیا ہے اس نے اپنی دیناوآخرت خراب کرلی ہے کیا توبھی یہی حوصلہ رکھتا ہے۔ اس نے کہا نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ آپ میرے پاس آئیں تاکہ میں آپ سے کچھ مالی سلوک کروں، آ پ نے ارشاد فرمایا مجھے تیرے مال دنیا کی ضرورت نہیں ہے مجھے دینے والاخدا ہے یہ کہہ کر آپ نے اسی جگہ زمین پر ردائے مبارک ڈال دی اورکعبہ کی طرف اشارہ کرکے کہا،میرے مالک اسے بھر دے، امام کی زبان سے الفاظ کا نکلنا تھا کہ ردائے مبارک موتیوں سے بھرگئی،آپ نے اسے راہ خدا میں دیدیا۔(دمعہ ساکبہ،جنات الخلود ص ۲۳)

امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت
آپ اگرچہ گوشہ نشینی کی زندگی بسرفرما رہے تھے لیکن آپؑ کے روحانی اقتدارکی وجہ سے بادشاہ وقت ولید بن عبدالملک نے آپؑ کو زہر دیدیا، اور آپ بتاریخ ۲۵/ محرم الحرام ۹۵ ھ مطابق ۷۱۴ کو درجہ شہادت پرفائز ہو گئے امام محمد باقرعلیہ السلام نے نمازجنازہ پڑھائی اورآپؑ مدینہ کے جنت البقیع میں دفن کردئیے گئے علامہ شبلنجی، علامہ ابن حجر، علامہ ابن صباغ مالکی، علامہ سبط ابن جوزی تحریرفرماتے ہیں کہ ”وان الذی سمہ الولیدبن عبدالملک“ جس نے آپ کو زہر دے کر شہید کیا،وہ ولید بن عبدالملک خلیفہ وقت ہے۔ (نورالابصار ص ۱۲۸،صواعق محرقہ ص ۱۲۰، فصول المہمہ، تذکرہ سبط ابن جوزی، ارجح المطالب ص ۴۴۴، مناقب جلد ۴ ص ۱۳۱)
ملاجامی تحریرفرماتے ہیں کہ آپؑ کی شہادت کے بعد آپ کا ناقہ قبر پرنالہ و فریاد کرتا ہوا تین روزمیں مرگیا (شواہد النبوت ص ۱۷۹) شہادت کے وقت آپ کی عمر ۵۷ سال کی تھی.

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button