سیرتسیرت امام حسن مجتبیٰؑ

سیرت امام حسنِ مجتبیٰ علیہ السلام

مؤلف: سید علی نقی نقوی
امام حسن علیہ السلام کی ولادت ۲ یا ۳ ہجری میں ہوئی۔ رسول کی وفات کے وقت ساتواں یا آٹھواں برس تھا اور ان کی یہ عمر پوری پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات کی عمر ہے۔ ۲ ھ میں جنگ بدر ہوئی اور اس کے بعد ان کی عمر کے ساتھ غزوات کی فہرست آگے بڑھی۔ جس طرح علی کی پرورش پیغمبر کی گود میں تبلغ اسلام کے ساتھ ویسے ہی حسن مجتبیٰ کی پرورش رسول کی گود میں رسول کے غزوات اور اپنے والد (حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام) کے فتوحات کے ساتھ۔ ان کے بچپن کی کہانیاں اور سوتے وقت کی لوریاں گویا یہی تھیں کہ علی علیہ السلام کسی جہاد سے واپس آئے ہیں۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا زرا سے تذکرہ ہو رہا ہے خندق میں یہ ہوا۔ یہ تذکرے کانوں میں پڑ رہے ہیں اور آنکھیں جو دیکھ رہی ہیں وہ یہ کہ دشمنوں کے خون میں بھری ہوئی تلوار ہے اور سیدہٴ عالم اسے صاف کر رہی ہیں۔ پیغمبر کے ارشادات بھی گوش زد ہو رہے ہیں کبھی معلوم ہوا کہ آج نانا نے والد بزرگوار کے لئے کہا:
’’ضرْبةُ علٍیّ يوْمَ الْخَنْدقٍ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثَقَلين۔ کبھی سنا فرمایا: لَاُعْطَين اَرَّايةً غدًا رَجُلاً غَير فّرارٍ يحِبُّ اللّٰه وَرَسُوْلَه‘‘
کبھی ملک کی صدا گوش زد ہوئی:
’’لَا فَتٰی اِلَّا علّی لَا سَیف الّا ذوالفقار‘‘
ان تذکروں کے علاوہ بس ہے تو عبادت اور سخاوت کی مثالوں کا مشاہدہ۔ یہ ہے سات آٹھ برس کا حسن علیہ السلام کا رسول کی زندگی میں دور حیات۔
سات آٹھ برس کی عمر کے بچے چاہے معاملات میں عملی حصہ نہ لیں اور ادب و حفظِ مراتب کی بنا پر بزرگوں کے سامنے گفتگو میں بھی شرکت نہ کریں مگر وہ احساسات و تاثرات، جذبات اور قلبی واردات میں بالکل بزرگوں کے ساتھ شریک رہتے ہیں اور ان کے دلوں کے اندر ولولوں کا طوفان بھی اٹھتا ہے۔ اور منصوبوں کی عمارتیں بھی کھڑی ہوتی ہیں اور اس وقت کے تاثرات و تصورات کے نقوش اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ وہ مٹا نہیں کرتے۔
یقیناً یہ اتنا زندگی کا دور امام حسن علیہ السلام کے دل و دماغ میں عام انسانی فطرت کے لحاظ سے ولولہ و ہمت کی لہروں میں تموج ہی پیدا کرنے والا تھا سکون پیدا کرنے والا نہیں مگر اس سات آٹھ سال کے بعد ایک دم ورق الٹتا ہے۔ اب یہ منظر سامنے ہے کہ باپ گوشہ نشیں ہیں۔ اور ماں گریہ کناں۔ وہ تمام ناگوار حالات سامنے ہیں جن کا اظہار کسی کے لئے پسندیدہ ہے یا ناپسند۔ بہرحال تاریخ کے اندر وہ موجود اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہیں۔ یقیناً اگر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کا دس برس کی عمر کے بعد ۱۳ برس رسول کے ساتھ رہ کر مکہ کی خاموش زندگی میں خاموشی کے راستے پر قائم رہنا ایک جہادِ نفس تھا تو محسن مجتبیٰ کا بھی ۸ برس کی عمر کے بعد پچیس سال باپ کے صبر و استقلال کے ساتھ ہم آہنگ رہنا ان کا ایک عظیم جہاد تھا۔ وہاں علی علیہ السلام کے سامنے ان کے مربی رسول کے جسم پر پتھر پھینکے جاتے تھے اور وہ خاموش تھے اور یہاں حسن علیہ السلام کے سامنے ان کے باپ علی بن ابی طالب علیہ السلام کے گلے میں رسی باندھی جاتی ہے اور مادر گرامی کے دروازے پر آگے لگانے کے لئے لکڑیاں جمع کی جاتی ہیں اور انہیں ہر طرح کی ایذائیں پہنچائی جاتی ہیں اور حسن مجتبیٰ علیہ السلام خاموش ہیں۔
اسی خاموشی میں آٹھ برس سے اٹھارہ برس اور اٹھارہ برس سے اٹھائیس برس بلکہ سات آٹھ برس کی عمر کے بعد ۲۵ سال میں ۳۳ برس کے ہوئے مگر وہ جس طرح ساتھ آٹھ برس کے بچپن کے دور میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ ایک کم عمر بچہ کی طرح تھے بالکل اسی شان سے اٹھارہ اور اٹھائیس اور تیس بتیس برس کی عمر کے جوان ہو کر بھی ہیں۔ مسلک ہے تو باپ کا طریقہٴ کار ہے تو باپ کا۔ نہ ان کے بچپن میں کوئی نادانی کا قدم اٹھتا ہے نہ جوانی میں کوئی جوش کا اقدام اٹھتا ہے پھر حضرت علی علیہ السلام نے خاموشی کے ماحول میں آنکھ ہی کھولی تھی اور امام حسن علیہ السلام تو آٹھ برس کی عمر اس جنگ کے ماحول میں گزار چکے تھے جس سے شجاعانہ اقدامات کو طبیعت میں رس بس جانا چاہئے اس کے بعد ۲۵ سال اس طرح گزار رہے ہیں۔ اتنی طولانی مدت کے اندر کبھی جوش میں نہ آنا۔ اپنے ہم عمروں سے کبھی تصادم نہ ہونا کسی دفعہ بھی ایسی کوئی بات نہ ہونا جو مصلحتِ علی علیہ السلام کے خلاف ہو۔ یہ ان کی زندگی کا کارنامہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ تاریخ کی دھندلی نگاہ حرکت کو دیکھتی ہے سکون کو نہیں۔ آندھیوں کو دیکھتی ہے سناٹے کو نہیں۔ شورش طوفان دیکھتی ہے سمندر کے سکون پر نظر نہیں ڈالتی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس دور کے فتوحات جو اکثریتی طاقت نے کئے جزو تاریخ بن گئے اور اسلام کی جو خدمت خاموش رہ کر کی گئی اور اس کے جو نتائج ہوئے وہ تاریخ میں کہیں نظر نہ آئیں گے بہرحال اب یہ ۲۵ سال گزرے اور وہ وقت آیا جب حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام برسراقتدار ہیں اس کے بعد جمل صفین اور نہروان کے معرکے ہیں اور حضرت امام حسن علیہ السلام ان میں اپنے والد بزرگوار حیدرِ کرارعلیہ السلام کے ساتھ ساتھ ہیں۔
حسن کے ہاتھ میں جمل کی لڑائی میں تلوار اسی طرح پہلی بار ہے جس طرح بدر میں علی علیہ السلام کے ہاتھ میں پہلی بار۔ مگر جیسے انہوں نے پہلی ہی لڑائی میں شجاعان آزمودہ کار پر اپنی فوقیت ثابت کر دی ویسے ہی جمل میں جو کارنامہ دوسروں سے نہیں ہوتا وہ حسن مجتبیٰ علیہ السلام اپنی تلوار سے کرکے دکھا دیتے ہیں۔
اسی طرح صفین میں ایسا معیاری نمونہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت امیرعلیہ السلام اپنے فرزند محمد حنیفہ علیہ السلام کے لئے اسے مثال قرار دیتے ہیں او جیسا کہ دینوی نے ‘الاخبارالطوال” میں لکھا ہے ایک ایسے موقع پر جب لشکر امیرالمومنین علیہ السلام کے ایک بڑے حصہ نے شکست کھائی تھی، یہ اپنے باپ کے سامنے اس طرح تھے کہ انہیں تیروں سے بچا رہے تھے اور خود اپنے کو تیروں کے سامنے پیش کئے دیتے تھے۔
مخالف حکومت کا پروپیگنڈا بھی کیا چیز ہے؟ اس نے حکایتیں تصنیف کی ہیں کہ حسن مجتبیٰ علیہ السلام تو طبعاً صلح پسند تھے۔ مگر ان کی بے جگری کے ساتھ ان نبردآزمائیوں میں عملی شرکت ان تصورات کو غلط ثابت کر دیتی ہے۔
جنگ جمل میں کوفہ والوں کو ابو موسیٰ اشعری نے جو وہاں حاکم تھے نصرت امیرالمومنین علیہ السلام سے روک دیا تھا۔ یہ حسن مجتبیٰ علیہ السلام ہی تھے جنہوں نے جا کر تقریر کی اور پورے کوفہ کو جناب امیرعلیہ السلام کی نصرت کے لئے آمادہ کر دیا۔
ہاں جب صفین میں نیزوں پر قرآن اٹھائے گئے اور امیرالمومنین علیہ السلام نے حالات سے مجبور ہو کر معاہدہ تحکیم پر دستخط کئے تو جوان سال بیٹے امام حسن علیہ السلام وامام حسین علیہ السلام دونوں باپ کے ساتھ اس معاہدہ میں بھی شریک تھے بالکل جس طرح حضرت امیرالمومنین علیہ السلام، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھے جنگ اور صلح دونوں میں۔ اسی طرح حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ہر منزل میں شریک نظر آتے ہیں۔
جب ۲۱ ماہ رمضان ۴۰ ھ کو جناب امیرعلیہ السلام کی وفات ہو گئی اور حضرت امام حسن علیہ السلام خلیفہ تسلیم کئے گئے تو آپ نے خود بھی حاکم شام کے خلاف فوج کشی کی۔ اور فوجوں کو لے کر روانہ بھی ہوئے اور اس طرح بھی ثابت کر دیا کہ راستہ آپ کا وہی ہے جو آپ کے والد بزرگوار کا راستہ تھا۔
اب اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ حالات کی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اہل کوفہ کی اکثریت جنگِ نہروان کے بعد سے جناب امیرعلیہ السلام کے ساتھ ہی سردمہری برتنے لگی تھی اور جنگ سے عاجز آچکی تھی جس پر خود حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے اقوال جو نہج البلاغہ ہمیں مذکور ہیں، گواہ ہیں اس کا علم حاکم شام کو بھی اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے ہو گیا تھا چنانچہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد انہوں نے اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے بہت سے روسائے کوفہ کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ان لوگوں نے خطوط بھیجے کہ آپ عراق پر حملہ کیجئے اور ہم یہاں ایسی تدبیر کریں گے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کو قید کرکے آپ کے سپرد کر دیں۔
معاویہ نے یہ خطوط بجنسہٖ حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس بھیج دیے۔ پھر بھی وہ جانتے تھے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کوئی ایسی صلح کبھی نہ کریں گے جس میں ان کے نقطہٴ نظر سے حق کا تحفظ نہ ہو۔ اس لئے انہوں نے اس کے ساتھ ایک سادہ کاغذ بھیج دیا کہ جو شرائط آپ چاہیں اس پر لکھ دیں میں انہیں منظور کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ان حالات میں جب کہ اپنوں کا حال وہ تھا اور مخالف یہ رویہ اختیار کر رہا تھا جنگ پر قائم رہنا ایک بلاوجہ کی ضد ہوتی جو آلِ رسول کی شان کے خلاف تھی۔
حضرت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو حدیبیہ میں امن وامان کی خاطر مشرکین کے پیش کردہ شرائط پر صلح کی جسے سطحی نگاہ والے مسلمان سمجھ رہے تھے کہ یہ دب کر صلح ہے اور امام حسن نے جو صلح کی وہ ان شرائط پر جو خود آپ نے پیش کئے تھے اور جنہیں فریق مخالف سے منظور کرایا۔
ذرا اس صلح نامہ کے شرائط میں نظر ڈالئے۔ اس کی مکمل عبارت علامہ ابن حجر مکی نے صوائق محرقہ میں درج کی ہے۔
اس میں شرط اول یہ ہے کہ حاکم شام کتاب و سنت پر عمل کریں گے اس شرط کو منظورکراکے حضرت امام حسن علیہ السلام نے وہ اصولی فتح حاصل کی ہے جو جنگ سے حاصل ہونا ممکن نہ تھی۔
ظاہر ہے کہ صلح نامہ کے شرائط میں بنیادی طور پر ایسی ہی چیز درج ہوتی ہے جو بنائے مخاصمت ہو۔ حضرت امام حسن علیہ السلام نے یہ شرط لگا کر ثابت کر دیا کہ ہماری بنائے مخاصمت معاویہ سے کوئی ذاتی یا خاندانی نہیں ہے بلکہ وہ صرف یہ ہے کہ ہم کتاب اور سنت رسول پر عمل کے طلب گار ہیں اور یہ اس سے اب تک منحرف رہے ہیں۔ پھر صلح نامہ کی دستاویز تو فریقین میں متفق علیہ ہوا کرتی ہے۔ وہ دونوں فریق اس کے کاتب ہوتے ہیں۔ یہ شرط درج کرکے امام حسن علیہ السلام نے حاکم شام سے تسلیم کرا لیا کہ اب تک حکومت شام کا جو کچھ رویہ رہا ہے وہ کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس شرط کی کیا ضرورت تھی؟
غلط اندیش دنیا کہتی ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے بیعت کر لی۔ میں کہتا ہوں۔ اگر حقیقت پر غور کیجئے تو جب امام حسن علیہ السلام شریعت اسلام کے محافظ ہیں اور آپ نے اس کا اقرار حاصل کیا ہے کہ حاکم شام کتاب اور سنت کے مطابق عمل کریں گے تو اب یہ فیصلہ آسان ہے کہ جس نے شرائط مانے اس نے بیعت کی یا جس نے شرائط منوائے اس نے بیعت کی۔ حقیقت میں حضرت امام حسن علیہ السلام نے تو بیعت لے لی۔ خود بیعت نہیں کی۔
دوسری شرط یہ تھی کہ تمہیں کسی کو اپنے بعد نامزد کرنے کا اختیار نہ ہو گا اس طرح حضرت امام حسن علیہ السلام نے برفرض مخالفت شرط اول اس ضرر کو جو حاکم شام کی ذات سے مذہب کو پہنچتا محدود بنایا اور آئندہ کے لئے یزید ایسے اشخاص کا سدباب کر دیا۔
خواہانِ حاکم شام زیادہ نمایاں طور پر یہ شرط پیش کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے سالانہ ایک رقم مقرر کی تھی کہ یہ تمہیں ادا کرنا ہو گی میں کہتا ہوں کہ یہ شرط اگرچہ مسلم نہیں ہے پھر بھی اگر یہ شرط رکھی ہو تو یہ آئینی حیثیت سے اپنے اصلی حقدار حکومت ہونے کے اعتراف کا فریق مخالف کے عمل سے قائم رکھنا ہے اور اگر زیادہ گہری نظر سے دیکھا جائے تو حضرت رسول خدا کا نصاریٰ سے جزیہ لے کرجنگ کو ختم کر دینا درست ہے تو حضرت امام حسن علیہ السلام کا حاکم شام پر سالانہ ایک ٹیکس عائد کرنا بھی بالکل صحیح ہے۔ یہ عملی مظاہرہ ہے اس کا کہ ہم نے دب کر صلح نہیں کی ہے بلکہ خونریزی سے بچنے کی ممکن کوشش کی ہے۔
حضرت امام حسن علیہ السلام کو اس صلح پر برقرار رہنے میں بھی کتنے شدائداور زخم ہائے زبان کا مقابلہ کرنا پڑا ہے مگر مفادِ دینی کے لئے یہ صلح ضروری تھی تو پُرجگری کے ساتھ حضرت علیہ السلام تمام ایذاء و اہانت کے صدموں کو برداشت کرتے رہے۔ اور دس برس مسلسل پھر گوشہ نشینی کے ساتھ زندگی گزار کر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے ۲۵ سال کے دور گوشہٴ نشینی کا مکمل نمونہ پیش کر دیا۔
اموی ذہنیت والوں کا یہ پروپیگنڈا کہ حسن مجتبیٰ علیہ السلام اپنے والد بزرگوار حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور اپنے چھوٹے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام سے مختلف ذہنیت رکھتے تھے اور وہ صلح ان کی انفرادی افتاد طبع کا نتیجہ تھی۔ خود اموی حاکم شامی کے عمل سے بھی غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ اس طرح کہ اگر یہ بعد والا پروپیگنڈا صحیح ہوتا تو اس مصالحت کے بعد حاکم شام کو حضرت امام حسن علیہ السلام سے بالکل مطمئن ہو جانا چاہئے تھا بلکہ حاکم شام کی طرف سے واقعی پھر امام حسن علیہ السلام کی قدرومنزلت کے مسلمانوں میں بڑھانے اور نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی۔ بلاتشبیہ جس طرح مشہور روایات کی بنا پر جناب عقیل کو حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے بظاہر جدا کرنے کے بعد ان کی خاطرداریوں میں کوئی وقیقہ فروگزاشت نہ کیا جاتا تھا۔ یہی بلکہ اس سے زیادہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے ساتھ ہوتا مگر ایسا نہیں ہوا۔ صلح کرنے کے بعد بھی امام حسن علیہ السلام کو آرام اور چین نہیں لینے دیا گیا اور بالآخر زہر دغا سے آپ کو شہید کر دیا گیا۔ اسی سے ظاہر ہے کہ حاکم شام بھی جانتے تھے۔ کہ یہ رائے، مسلک، خیال اور طبیعت کسی اعتبار سے بھی اپنے باپ بھائی سے جدا نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت انہیں فرض کا تقاضا یہی محسوس ہوا لیکن اگر مصلحت دینی میں تبدیلی ہو تو یہی کوئی نیا صفین کا معرکہ پھر آراستہ کر سکتے ہیں اور انہی کے ہاتھ سے کربلا بھی سامنے آ سکتی ہے اسی لئے ان کی زندگی اس کے بعد بھی ان کے سیاسی مقاصد کے لئے خطرہ بنی رہی اور جب ان کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے اطمینان کی سانس ہی نہیں لی بلکہ اپنے سیاسی ضبط و تحمل کے دائرہ سے بھی تجاوز کرکے بالاعلان انہوں نے مسرت سے نعرہٴ تکبیر بلند کیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی صلح کسی مخصوص ذہنیت یا طبیعت کا نتیجہ نہیں تھی۔ وہ صرف فرض کے اس احساس کا تقاضا تھی جو انسانی بلندی کی معراج ہے۔
(کتاب ” معراج انسانیت” سے اقتباس)
Source: Alhasnain.org urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button