سیرتسیرت امام جعفر صادقؑ

سیرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا سیاسی پہلو

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)
آپ کا دور انقلابی دور تھا۔ وہ بیج بنی امیہ سے نفرت کے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے دل و دماغ کی زمین میں بو دیے تھے ۔ اب پورے طور پر بارآور ہو رہے تھے۔ اموی تخت سلطنت کو زلزلہ تھا اور اموی طاقت روزبروز کمزور ہو رہی تھی اس دور میں بار بار ایسے مواقع آتے تھے جن میں کوئی جذبات آدمی ہوتا تو فوراً ہوا کے رخ پر چلا جاتا اور انقلاب کے وقتی فوائد سے متمتع ہونے کے لئے خود بھی انقلابی جماعت کے ساتھ منسلک ہو جاتا۔ پھر جبکہ اسی ذیل میں ایسے اسباب بھی وقتاً فوقتاً پیدا ہوتے تھے۔ جو بنی امیہ کے خلاف اس کے جذبات کو مشتعل کرنے والے ہوں۔
زید بن علی بن الحسین حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے چچا تھے خود بھی علم و ورع واتقاء میں ایک بلند شخصیت کے حامل تھے۔ یہ بنی امیہ کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اور وہ بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینے کے اعلان کے ساتھ۔ یہ کیا ایسا موقع نہ تھا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام بھی چچا کے ساتھ اس مہم میں شریک ہو جائیں۔ پھر اس کے بعد زید کا شہید کیا جانااور ان پر وہ ظلم کہ دفن کے بعد لاش کو قبر سے نکالا گیا اور سر کو قلم کرنے کے بعد جسد بے سر کو ایک عرصہ تک سولی پر چڑھائے رکھا تھا پھر آگ میں جلا دیا گیا۔ اس کے اثرات عام انسانی طبیعت میں کیا ہیجان پیدا کر سکتے ہیں؟
اور پھر عباسیوں کے ہاتھ سے انقلاب کی کامیابی اور سلطنت بنی امیہ کی اینٹ سے اینٹ بج جانا۔
اس تمام دور انقلاب یں ہر دن نئے نئے محرکات اور گوناگوں نفسانی مہیجات ہیں جو ایک انسان کو متحرک بنانے کے لئے کافی ہیں خصوصاً اس لئے کہ بنی عباس کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے والا ابو سلمہ خلال اولاد فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی محبت کے ساتھ اتنا مشہور تھا کہ برسراقتدار آنے کے لئے امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس تحریری عرضداشت بھیجی مگر آپ نے اس سے نہ صرف یہ کہ بے اعتنائی برتی بلکہ اس کاغذ کو اس شمع کی لو کے سپرد کر دیا جو اس وقت روشن تھی۔ اور قاصد سے فرمایا کہ اس تحریر کا بس یہی جواب ہے اور پھر اسے پورے طویل دور انقلاب میں ایک دن ایسا نہیں آتا جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام میں کوئی حرکت پیدا کر سکا ہو۔ سوا علوم اہل بیت کے تحفظ و اشاعت کی اس مہم کے جس کی کھل کر ابتداء آپ کے والد ماجد نے کر دی تھی اور اب اسی کو اپنی نسبتہً طویل عمر اور اس وقت کے انقلابی حالات کے وقفہ سے فائدہ اٹھا کر پورے طور سے فروغ دینے کا موقع حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو ملا۔ جس کے نتیجہ میں مذہب اہلِ بیت عوام میں "ملت جعفری” کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
یہ کیا تھا؟ یہ وہی جذبات سے بلند ہونے کا قطعی مشاہدہ ہے جسے "معراج انسانیت” کی حیثیت سے ہم ان کے تمام پیش روؤں میں دیکھتے رہے ہیں۔
بنی عباس کے تخت سلطنت پر بیٹھنے کے بعد کچھ دن تو اولاد رسول کو سکون رہا مگر منصور دوانقی کے تخت سلطنت پر بیٹھتے ہی پھر فضا مکدر ہو گئی اور چونکہ یقین تھا کہ بنی امیہ کو جو ہم نے شکست دی ہے وہ اولاد فاطمہ سلام اللہ علیھا کے ساتھ ہمدردی ہی سے فائدہ اٹھا کر۔ اس لئے یہ اندیشہ تھاکہ نہ جانے کب عوام کی آنکھیں کھل جائیں۔ اور وہ اسی طرح جھک جائیں۔ خصوصاً اس لئے کہ بنی امیہ کے زوال کے آثار واضح ہونے کے بعد جب بنی ہاشم نے مدینہ میں جمع ہو کر ایک مجلس مشاورت منعقد کی کہ انقلاب کی تکمیل کے بعد تخت سلطنت کس کے سپرد کیا جائے تو سب نے حسن مثنی فرزند امام حسن علیہ السلام کے پوتے محمد بن عبداللہ کو اس منصب کا اہل قرار دیا تھا اورسب نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اس جلسہ میں منصور بھی موجود تھا اور اس نے بھی محمد کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اس کے بعد سیاسی ترکیبوں سے اس کارروائی کو نسیاً منسیا کرکے بنی عباس تخت خلافت پر قابض ہو گئے اس لئے بہت بڑا کانٹا جو منصور کے دل اور آنکھ میں کھٹک رہا تھا وہ محمد بن عبداللہ کا وجود تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ برسراقتدار آنے کے بعد خصوصت سے اولاد امام حسن علیہ السلام کے خلاف ظلم و تشدد شروع کر دیا گیا۔
عبداللہ بن الحسن جو عبداللہ المحض کے نام سے مشہور تھے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کے بھانجے یعنی فاطمہ بن الحسین علیہ السلام کے صاحبزادے تھے اور محمد ان کے بیٹے جو اپنے ورع و تقویٰ کی بنا پر نفس زکیہ کے نام سے مشہور تھے جناب فاطمہ بنت الحسین علیہ السلام کے پوتے تھے۔
منصور نے تمام سادات حسنی کو قید کردیا اور خصوصیت سے عبداللہ المحض کو پیرانہ سالی کے عالم میں اتنے سخت شدائد و مظالم کے ساتھ قید تنہائی میں محبوس کیا کہ الحفیظ والامان۔
ظاہر ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام قلبی طور پر ان حضرات سے غیرمتعلق نہ تھے چنانچہ یہ واقع ہے کہ جس دن اولاد حسن کو زنجیروں سے باندھ کر گردن میں طوق اور پیروں میں بیڑیاں پہنا کر بے کجا وہ اونٹوں پر سوار کرکے مدینہ سے نکالا گیا۔ اور یہ قافلہ اس حال میں مدینہ کی گلیوں سے گزرا تو امام جعفر صادق علیہ السلام اس منظر کو دیکھ کر تاب ضبط نہ لا سکے اور چیخیں مار مار کر رونے لگے اور اس کے بعد ۲۰ دن تک شدت سے بیمار رہے۔ عبداللہ کے دونوں بیٹے محمد اور ابراہیم کچھ دن پہاڑوں کی گھاٹیوں میں چھپے رہے پھر "تنگ آمد بجنگ آمد” کے مصداق ایک جماعت کو اپنے ہمراہ لے کر مقابلہ پر آماد ہوئے اس موقع پر یہ واقعہ یاد رکھنے کا ہے کہ رائے عامہ محمد کے ساتھ اس حد تک محسوس ہو رہی تھی کہ امام ابو حنیفہ اور مالک نے نفس زکیہ کی حمایت و نصرت کے لئے فتویٰ دیا۔ مگر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر باوجود تمام جذباتی تقاضوں کے اس مہم سے علیٰحدہ رہے۔ اور آپ نے اپنے دامن کو اس کشمکش سے بالکل ہی بچائے رکھا۔ آپ جانتے تھے کہ یہ مہم وقتی حالات کی بنا پر اضطراری فعل کے طور پر شروع کی گئی ہے جس کے پس پشت کوئی بلند مقصد نہیں ہے نہ اس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا ہے لیکن میں نے اگر اس کا کسی طرح بھی ساتھ دیا تو اس تعمیری خدمت کا بھی جو میں معارف آل رسول کی اشاعت کے طور پر انجام دے رہا ہوں دروازہ مسدود ہو جائے گا۔
یہ بے پناہ ضبط و صبر وہی ہے جو ان کے آباؤ اجداد میں نظر آتا رہا تھا اور وہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
( معراج انسانیت سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button