سیرتسیرت امام زین العابدینؑ

امام زین العابدین (ع) کی سیرت طیبہ پر ایک نظر

✍️ محمد فرقان گوہر
ایک قول کے مطابق پندرہ جمادی الاول سنہ 38 ہجری امام علی بن حسین بن علی بن ابی طالب [علیہم السلام] کا یوم ولادت با سعادت ہے۔ البتہ پانچ شعبان کی تاریخ زیادہ شہرت کی حامل ہے۔آپ شیعہ کے چوتھے امام اور پیشوا ہیں، جبکہ اہل سنت کے ہاں بھی آپ کا شمار تابعی فقہاء میں ہوتا ہے۔ذہبی کے بقول آپ اپنے زمانے کی فقیہ ترین شخصیت تھیں۔
عملی و عبادی لحاظ سے آپ کو تاریخی روایات میں ذو الثفنات کے لقب سے جانا جاتا ہے۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سجدوں کی کثرت نے پیشانی پر نشانات بنا دیے تھے۔ سید الساجدین کا لقب بھی اسی عبادیاتی پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔ فقراء اور مساکین کے ساتھ نشست و برخاست گویا آپ کے مزاج کا حصہ تھی۔ فقہاء میں بھی موالی طبقہ جو عرب کے سماجی ڈھانچے میں صاحب حسب و نسب شمار نہ ہوتے تھے، کے ساتھ بیٹھنا آپ کے ہاں بہت زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ چنانچہ سلیمان بن یسار اور خلیفہ دوم کے بیٹے عبداللہ کے غلام اسلم کے ساتھ بڑے گرم مراسم تھے۔
غلام اور کنیز سماجی طور پر نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان سے خاندانی تعلقات کی برقرار ی آپ کی سیرت کا ایک درخشان باب ہے۔ اسی ضمن میں اپنی کنیز سے باقاعدہ شادی بھی آپ کی سیرت کے اسی پہلو کی نشاندہی کرتی ہے۔ آپ کے اس طریقہ کار نے اموی بادشاہ عبدالملک کو بھی پریشان کر دیا۔ اس نے خط لکھ کر عیب جوئی کی کوشش کی جس پر آپ نے فرمایا اصل ملامت تو جاہلیت کی رسومات پر ہونی چاہیے، جبکہ اسلام نے جن معیارو ں کا تعین کیا ہے، اس کے مطابق عمل کرنے میں کیا پریشانی ہے۔ (إِنَّمَا اللَّوْمُ لَوْمُ الْجَاهِلِيَّةِ) (علماء کرام سے درخواست ہے کہ اس روایت کے متن کو غور سے پڑھیں۔ مزید کھولنا شاید یہاں مناسب نہ ہو۔ تہذیب الاحکام، ج۷، ص۳۹۷، حدیث نمبر۱۵۸۷)
آپ کا اشارہ بنو امیہ کے ترویج کردہ اشرافیہ کلچر کی طرف تھا، جہاں مسلمانوں کو اعلی و ادنی طبقات میں بانٹ کر، امت کے ٹکڑے کر کے اسلامی اخوت و مساوات کو ختم کر دیا جا چکا تھا۔
ان سب کے باوجود آپ کا زہد و تقوی سب اخلاقی صفات پر بھاری نظر آتا ہے۔ اگر آپ حسین بن سعید اہوازی کی "کتاب الزہد” کا مطالعہ کریں، یا پھر شیخ مفید کی امالی میں ابن مہزیار کی کتاب الزہد ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو امام سجاد علیہ السلام کے زہد و پرہیزگاری کی اعلی مثالیں نظر آئیں گی۔ اسی کتاب الزہد میں ہے کہ ایک بار آپ نے اپنے غلام کو غصہ کی حالت میں تازیانہ مار دیا۔ پھر کچھ دیر بعد اس سے معذرت خواہی کی، طریقہ کار یہ اپنایا کہ تازیانہ اس کے ہاتھ میں دیا اور اپنی پشت مبارک سے کپڑا ہٹا کر کہا کہ مجھے مارو۔ تاہم اس نے مارنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے اس کا دل جیتنے کے لیے پچاس دینار کی سنگین رقم عطا فرمائی۔( کتاب الزہد، ص۴۵)۔
زہد سے متعلق آپ کا ایک خط نہایت مشہورہوا۔ یہ خط آپ نے ابن شہاب زہری کو لکھا تھا۔ زہری نے اموی حکومت میں جگہ بنانے سے پہلے کچھ عرصہ آپ کی شاگردی کی ہے۔ اس لیے یہ خط اسلامی دنیا میں شہرت حاصل کر گیا۔ اسی خط میں زہد کے مفہوم کومکمل طور پر الہی احکام کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ فرمایا "ازهدوا فيما زهدكم الله فيه منها- و لا تركنوا إلى ما في هذه الدنيا ركون من اتخذها دار قرار و منزل استيطان‏”
اللہ نے اس دنیا کی جن چیزون سے پرہیز کا حکم دیا ہے، ان سے پرہیز کرو، اور اس دنیا کو اپنے رہنے کا ٹھکانہ نہ مانو۔ یہ تمہارا اصلی وطن نہیں ہے۔ )امالی مفید، ص۲۰۰۔(
پارسائی کا حقیقی مفہوم اسی نکتے کے گہرے ادراک میں مضمر ہے کہ یہ دنیا ہدف نہیں، بلکہ وسیلہ ہے، منزل نہیں بلکہ راستہ ہے اور در حقیقت آخرت کی کھیتی ہے۔
اسلامی دنیا میں پارسائی اور پرہیزگاری کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو دو قسم کے زہد اسلامی دنیا میں پرچار ہوتے دکھائی دیے۔
ایک وہ جو فقط خرقہ پوشی، انزوا طلبی، گوشہ نشینی، چلہ کشی اور دنیا گریزی کی صورت میں ظاہر ہوا، پھر گنبد و مزار و خانقاہ اور گدی نشینی پر ختم ہوا۔
جبکہ دوسری قسم کا زہد سماج میں رہنے کی ترغیب کے باوجود اس کے رنگ میں نہ رنگے جانے پر زور دیتا تھا۔ اس قسم کی پارسائی میں دنیوی نعمتیں قابل استفادہ تصور کیے جانے کے ساتھ ساتھ، محروم اور مستضعف طبقے کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا اور انہیں زندگی میں سنبھلنے کے مواقع فراہم کرنے کی ترویج کی جاتی۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا، جب دنیاوی نعمتوں میں غرق نہ ہوا جائے، انہیں مایہ غرور و تفاخر قرار نہ دیا جائے، بلکہ نیک اہداف تک پہنچنے کے لیے وسیلہ بنیں۔ زہد کی رائج تفسیر کے برخلاف آپ کے پرچار کردہ زہد میں پچاس دینار کا مہنگا ترین لباس پہننے کی نہ صرف مکمل اجازت تھی، بلکہ آپ خود اس میں پیش قدم تھے۔ چنانچہ آپ طیلسانی[طالشی] نفيس کپڑے گرمیوں میں، جبکہ سردیوں میں پشم کا گرم لباس جو پچاس دینار قیمت رکھتا تھا، پہنا کرتے تھے۔ البتہ موسم کے آخر میں بیچ کر اس سے ملنے والی قیمت فقراء میں بانٹ دیا کرتے تھے۔ اور اس آیت کی تلاوت فرماتے: "قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ” کہہ دو : کس نے خداوند متعال کی عطا کردہ نعمتوں کو حرام کیا ہے؟
سماجی میل جول اور مختلف طبقات کے حقوق کے متعلق جامع رہنمائی کا تذکرہ آپ کے رسالۃ الحقوق میں ملتا ہے۔ جس میں حقوق کا اصلی سرچشمہ اور اس سے پھوٹنے والی مختلف شاخوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا۔ (تحف العقول)
ابونعیم نے حلیہ الاولیاء میں لکھا ہےکہ سو خاندان کی کفالت کا ذمہ آپ نے لے رکھا تھا۔ اور بہت سوں کو اس وقت اس کا علم ہوا ، جب آنحضرت اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
غلاموں کو خرید کر تربیت دینا اور پھر مختلف مناسبتوں سے آزاد کرنا بھی آپ کی زندگی کا شیوہ رہا ہے۔
اسلام کے اخلاقی اصولوں کی بہترین تفسیر جاننے کے لیے آپ کی دعائے مکارم الاخلاق ایک بہترین جامع رہنما ہے۔
آپ کی سیرت کا ایک اور پہلو سیاست سے متعلق ہے۔ ایک ایسی سیاست جس میں نہ دشمن سے گٹھ جوڑ کا عنصر شامل تھا اور نہ ہی اندھا دھند انقلابی مہم پیش نظر تھی۔ شہادت امام حسین ع کے بعد کوفہ کے اندر نئی تحریکوں نے جنم لیا، چاہے وہ توابین کی احساساتی تحریک ہو، یا پھر مختار ثقفی کی سیاسی مہم ہو، اس میں آپ کا موقف نہایت ہی شفاف تھا۔ آپ قیام کی حمایت نہیں کرتے تھے۔ تاہم انتقام خون حسین ع کی ضمنی حمایت فرمائی ۔ یہ کہ کر کہ اگر کوئی سیاہ فام غلام بھی ظالموں کے ہاتھ کاٹ دے تو بھی ہماری خوشی کا سبب ہوگا۔ اسی طرح مدینہ میں عبداللہ بن حنظلہ وغیرہ جیسے لوگوں نے علم بغاوت بلند کیا، جو واقعہ حرہ کے بے رحمانہ قتل عام پر ختم ہوا۔ ان سب واقعات میں آپ نے کنارہ گیری اختیار کر لی ، کیونکہ آپ اس قسم کے قیاموں کو نتیجہ خیز نہیں سمجھتے تھے۔ آپ کو امت مسلمہ میں موجود دراڑوں کا علم ہو چکا تھا۔ اس لیے آپ نے جہاں اس کی اخلاقی تعمیر میں کردار ادا کیا، وہیں ان کے شعوری ارتقاء کے لیے اہم اقدامات انجام دیے۔
آپ نے ولایت اور برائت کے تصورات کو صحیح سمت عطا فرمائی۔اہل بیت(ع) کے حقوق کا تعین کیا۔ علمی حلقوں میں اہل بیت ع کے مقام سے لوگوں کو روشناس کرایا۔ آپ ہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کی اگلی نسل نے امام باقر ع اور امام صادق کی طرف توجہ فرمائی اور یوں شیعہ مکتب کی فکری بنیادیں آپ کی اختیار کردہ حکمت عملی کی مرہون منت ہیں۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button