سلائیڈرسیرتسیرت امام علی رضاؑ

معصوم دہم امام ہشتم امام رضاعلیہ السلام

تمہید
حمد ہے اس اللہ کی جس نے ہمیں امت مرحومہ میں قرار دیا اور علی و آل علی علیہم السلام کی ولایت پر استوار کیا؛ بہترین ثناء ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپؐ کے خاندان پاک بالخصوص امام ہشتم اور معصوم دہم حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السلام کے لئے اور خدا کا لعن ہو رسول اللہ اور آل رسول اللہ کے دشمنوں پر۔
آپ ان سطور میں علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی حیات طیبہ کے بعض گوشوں کا مطالعہ کررہے ہیں؛ وہی جو عالم خلقت کے آٹھویں امام ہیں اور بندگان خدا پر اللہ کی آٹھویں حجت ہیں۔
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی حدیث لوح میں حق باری تعالی کا ارشاد ہے: جو بھی آٹھویں امام اور پیشوا کو جھٹلائے وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے میرے سارے اولیاء کو جھٹلایا ہو۔حضرت موسی کاظمؑ کے بعد آپؑ کے فرزند امام رضا علیہ السلام میرے دین کا حافظ و نگہبان ہوگا۔آپؑ کا قاتل ایک نہایت پلید اور مغرور شخص ہوگا۔
رسول اللہ نے ایک طویل حدیث کے ضمن میں فرمایا: ان کا نام خداوند متعال نے "علی” رکھا ہے اور تمام خلائق میں انہیں راضی اور رضا کا لقب عطا فرمایا؛ انہیں شیعیان اہل بیتؑ کا شفیع قرار دیا جو روز قیامت ان کی شفاعت سے نجات پائیں گے اور فلاح یافتہ ہوجائیں گے۔
اور یہ مجموعہ امام ہشتم کی حیات با برکات کے بحر بے ساحل میں سے ایک قطرہ ہے جو دسیوں کتب سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ مضمون عقیدتی بھی ہے اور سیاسی، تہذیبی و تعلیمی، معاشی، سماجی اور اخلاقی و تربیتی بھی ہے۔
یہ مختصر پیارے نوجوانوں کے لئے ہے جو حقیقت ڈھونڈنے کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہیں تا کہ صحیح کو غلط سے اور خالص کو ناخالص سے تشخیص دیں اور بہترین کا انتخاب کریں۔
امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کے مختصر حالات زندگی
امام رضا علیہ السلام، اپنے جد امجد رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے ایک سال بعد جمعرات یا جمعہ کے روز 11 ذی الحجہ 148 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ (1)
نام: علی، صلوات اللہ و سلامہ علیہ (2)
کنیت: ابوالحسن الثانی۔ ابوعلی و…۔
ألقاب: رضا، صابر، زکی، وفی، ولی، رضی، ضامن۔ غریب۔ نورالہدی۔ سراج اللہ۔ غیظ المحدثین۔ غیاث المستغیثین و…۔
والد ماجد:امام موسی کاظم۔ باب الحوائج علیہ السلام۔
والدہ ماجدہ: شقراء، معروف بہ خیزران۔ امّ البنین، اور بعض نے بتایا ہے کہ آپؑ کی والدہ کا نام گرامی "نجمہ” تھا۔
انگشتری کا نقش:امام علیہ السلام کی تین انگشتریاں تھیں جن کے نقش علی الترتیب یوں تھے:
حَسْبىَ اللّٰه ما شاءَ اللّٰهُ وَ لا قُوَّةَ إ لاّ بِاللّٰهِ وَليی اللّٰه
دربان: آپؑ کے دربان دو تھے: محمّد بن فرات اور محمّد بن راشد
مدّت امامت: 25 رجب 183 ہجری کو والد کی شہادت کے بعد امامت کے منصب پر فائز ہوئے اور 203 یا بقولی 206 ہجری (یوم شہادت) تک مسلمین کے امام رہے۔
سفر خراسان: عباسی بادشاہ مامون بن ہارون نے آپؑ کو مدینہ سے خراسان بلوایا اور یہ سفر ایسا تھا جس میں ـ آپؑ کے بقول ـ واپسی نہیں تھی۔
سِنِّ مبارک: 49 سے 57 برس؛ مؤرخین میں اس حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے۔
سفر خراسان کے اسباب:جب ہارون کی ہلاکت ہوئی تو بغداد اور نواح پر اس کے بیٹے امین کا قبضہ تھا اور خراسان کے تمام علاقوں پر مأمون کی حکمرانی تھی۔کچھ عرصہ بعد دو بھائیوں کی لڑائی میں امین مارا گیا اور مأمون فارغ البال ہوا تو مدعی ہوا کہ گویا خاندان علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما کے محبین میں سے ہے۔ چنانچہ سنہ 200 میں اس نے مدینہ پر حاکم اپنے والے کو لکھا کہ امام رضا علیہ السلام کو خراسان روانہ کریں لیکن خبردار انہیں قم کے راستے سے نہ لایا جائے۔جب امامؑ شہر "مَرو” پہنچے تو مأمون نے آپؑ کو خلافت کے عہدے کی پیشکش کی لیکن آپؑ عباسی بادشاہوں کی ریشہ دوانیوں سے واقفیت کی بنا پر خلافت کی پیشکش ٹھکرادی۔ مأمون نے دو مہینوں تک اصرار کیا اور آخر کار قتل کی دھمکی پر اتر آیا؛ چنانچہ امام علیہ السلام نے کچھ شرطوں پر خلافت کا عہدہ ٹھکرا کر ولی عہدی کا عہدہ قبول کرنے کا عندیہ دیا اور روز جمعرات 5 رمضان المبارک سنہ 201 ہجری کو ولی عہد کے عنوان سے لوگوں کی بیعت قبول فرمائی اور شرط یہ رکھی کہ فیصلوں، تقرریوں اور تنزلیوں میں مداخلت نہیں کریں گے۔
مأمون اس طرح امام علیہ السلام کی عظمت و نفوذ کو کم کرنا چاہتا تھا اور ثابت کرنا چاہتا تھا کہ امام رضا علیہ السلام اب ان کے قابو میں ہیں لیکن ولی عہدی کے دور میں ثابت ہوا کہ امام پھر بھی امام ہیں جن کے نفوذ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے چنانچہ امام غریب الوطن اور مظلوم امام کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا۔مأمون نے جمعہ یا سوموار آخر صفر المظفر سنہ 203 یا 206 (3) کو زہر ملے انگور کے ذریعے امامؑ کو مسموم کیا اور امامؑ مشہد کے قریب سناباد نامی محلے میں جام شہادت نوش فرما گئے۔ (4)
نور ہدایت کا طلوع
مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہی اور روایت سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ:
حضرت امام رضا علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ایک نہایت شریف خاندان سے تعلق رکھتی تھیں نہایت پاکیزہ اور با فضیلیت تھیں عقل و دین کے لحاظ سے اپنے زمانے میں مشہور تھیں، فرائض کی پابند اور مستحبات پر عمل پیرا تھیں اور ہر وقت ذکر و تسبیح میں مصروف رہا کرتی تھیں۔
آپ خود فرماتی ہیں کہ جب حجت الہی حضرت رضا علیہ السلام میرے رحم میں منتقل ہوئے تو مجھے ہر وقت احساس رہتا تھا کہ ایک غیر معمولی شخصیت اور خدا کے خاص بندے میرے شکم میں قرار پائے ہیں۔ میرے وجود میں معنویت اور عشق الہی کا جذبہ روز بروز بڑھتا گیا اور مجھے کبھی بھی بھاری پن یا تکلیف اور دشواری کا احساس نہیں ہوتا تھا۔
میرے فرزند تنہائیوں میں میرے مونس و انیس تھے۔ جب میں سونے لگتی تو پیوستہ تسبیح و حمد و تہلیل اپنے جسم کے اندر سے سن لیا کرتی تھی اور میں سمجھ جاتی تھی کہ یہ میرے فرزند ہیں جو اللہ کے ذکر و تسبیح میں مصروف ہیں۔
اور جب یہ نور الہی طلوع ہوا اور امامؑ اس عالَم میں وارد ہوئے تو اپنی دونوں ہاتھوں کے بل بیٹھ گئے اور سر آسمان کی جانب اٹھایا اور اپنے ہونٹوں کو حرکت دینے لگے اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں راز و نیاز اور مناجات میں مصروف ہوئے اور شہادتین زبان مبارک پر جاری کیں۔ جب میرے شریک حیات حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام داخل ہوئے تو آپؑ نے مجھے مبارکباد دی اور میں نے بیٹا آپؑ کے حوالے کیا اور امامؑ نے امام رضا علیہ السلام کے دائیں کان میں اذان کہی اور بائیں کان میں اقامۃ پڑھی اور پھر آب فرات میں سے تھوڑا سا پانی امام علیہ السلام کو پلایا۔ (5)
تمام زبانوں پر عبور
مرحوم شیخ صدوق، شیخ حرّعاملی و دیگر اکابرین بحوالہ ابوصلت ہروی نقل کرتے ہیں:
حضرت دنیا کی تمام زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور ہر علاقے کے لوگوں سے ان ہی کی زبان میں مکالمہ فرمایا کرتے تھے۔ لہجے اور کلمات و الفاظ کی ادائیگی میں اہل زبان سے زیادہ فصیح تھے اور یہ بات لوگوں کے لئے حیرت کا باعث تھی۔
ابوصلت کہتے ہیں: ایک روز میں نے امام علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آپ اتنی زبانوں پر کیونکر عبور رکھتے ہیں اور اتنی آسانی سے مکالمہ کرتے ہیں یہ سب آپ نے کیسے سیکھا؟ امامؑ نے فرمایا: اے ابا صلت! میں حجت اللہ اور خلیفۃ اللہ ہوں اور اللہ جس کو اپنے بندوں پر اپنا خلیفہ و جانشین و راہنما قرار دیتا ہے اسے تمام زبانوں اور اصطلاحات سے آگہی بخشتا ہے تاکہ وہ عام لوگوں کی زبان سمجھے اور ان کے ساتھ ان ہی کی زبان میں بات چیت کرے اور بندگان خدا بھی اپنے امام کے ساتھ اپنی زبان میں بات کرسکیں۔
اس کے بعد امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: کیا آپ نے امیرالمؤمنینؑ کا یہ قول نہیں سنا ہے کہ فرمایا: ہم اہل بیت عصمت و طہارت پر فصل الخطاب عطا ہوا ہے اور پھر فرمایا:فصل الخطاب سے مراد یہ ہے کہ ہمیں تمام لوگوں کی زبانوں اور اصطلاحات سے آگہی ہوتی ہے بلکہ تمام مخلوقات کی زبانوں سے آشنائی ہوتی ہے چاہے وہ کسی بھی نسل سے ہوں اور دنیا کے کسی بھی گوشے میں بھی ہوں۔ (6)
امام سمندر علم:
مرحوم علاّمہ مجلسی و اور بعض دیگر اکابرین نے کہا ہے:
امام رضاؑ کے صحابی "علی بن ابی حمزہ بطائنی” حکایت کرتے ہیں: ایک روز ہم امام علیہ السلام کی خدمت میں تھے کہ تیس حبشی غلام آپؑ کی مجلس میں وارد ہوئے۔ ایک حبشی نے اپنی مقامی زبان میں امام علیہ السلام کے ساتھ مکالمہ کیا اور امامؑ بھی جواب دیتے رہے اور بات چیت کرتے رہے اس کے بعد امام نے کچھ درہم اس حبشی شخص کو دیئے اور اس کو کچھ ہدایات دیں اور اس کے بعد وہ حبشی افراد اٹھ کر چلے گئے۔
میں نے حیرت کی ساتھ عرض کیا: یابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم! گویا آپ نے اس حبشی کے ساتھ اس کی مقامی زبان میں بات چیت کی، آپ نے انہیں کس چیز کا حکم دیا؟امامؑ نے فرمایا: اس غلام کو میں نے دوسروں سے زیادہ عقلمند پایا چنانچہ میں نے اسی کو منتخب کیا اور اس کو ہدایات دیں کہ اپنے دوستوں اور ہمراہیوں کے امور اپنے ہاتھ میں لے اور ان کے مسائل پر غور کیا کرے اور ہر ماہ ان میں سے ہر ایک کو 30 درہم بھی ادا کیا کرے۔ اور اس حبشی نے بھی میری ہدایات قبول کرلیں اور میں نے اس کو کچھ درہم بھی دیئے تا کہ وہ میری ہدایت کے مطابق اپنے دوستوں کے درمیان بانٹ لے۔
علی بن حمزہ بطائنی کہتے ہیں: اس کے بعد امام علیہ السلام نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: کیا ان بندگان خدا کے ساتھ میرے سلوک اور ان کے ساتھ میری بات چیت نے آپ کو حیرت زدہ کردیا؟ تعجب نہ کریں کیونکہ "امام کی منزلت و مرتبت ان حدود سے بہت اونچی ہے جہاں تک آپ اور آپ جیسے افراد تصور کرتے ہیں، جو کچھ تم نے اس مجلس میں دیکھا ایک پرندے کی چونچ میں ایک قطرہ پانی جیسا ہے جو اس نے سمندر سے اٹھایا ہوتا ہے۔ کیا سمندر سے ایک قطرہ پانی اٹھانے سے سمندر کے پانی کی مقدار پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے۔
اس کے بعد امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: توجہ رکھیں اور جان لو کہ بے شک امام اور امام کا علم ایک بے انتہا اور بے ساحل سمندر کی مانند ہے جو کبھی بھی ختم والا نہیں ہے اور اس کے اندر مختلف موجودات اور جواہرات ہوتے ہیں اور جب کوئی پرندہ اس میں سے پانی اٹھا لے تو پانی میں سے کچھ کم نہیں ہوا کرتا۔ نیز امام کے علوم بے انتہا اور بے پایان ہیں اور ہر کوئی امام کے تمام علمی مراحل اور اطلاعات و معلومات کی حدود کا ادراک نہیں کرسکتا۔ (7)
کام سے قبل اجرت کا تعین:
مرحوم کلینی سلیمان بن جعفر سے حکایت کرتے ہیں:
ایک روز ہم امام رضا علیہ السلام کے ہمراہ کسی کام کی غرض سے گھر سے نکلے اور واپسی پر امامؑ نے فرمایا: آج رات میرے گھر آئیں اور میرے مہمان بنو۔ چنانچہ میں نے دعوت قبول کرلی۔ ہم امام علیہ السلام کے گھر میں داخل ہورہے تھے تو ایک دوسرے صحابی ” مُعتّب” بھی ہمارے ہمراہ امامؑ کے گھر مشرف ہوئے۔ہم جب گھر میں داخل ہوئے تو خدام اور غلاموں کو دیکھا جو مویشیوں کے لئے طویلہ بنا رہے تھے۔ ایک سیاہ فام شخص بیچ گارا بنا بنا کر دوسروں کو دے رہا تھا۔ امام علیہ السلام نے دریافت کیا: یہ کون ہے تو خدام نے کہا: یہ ہماری مدد کررہا ہے اور جب کام ختم ہوگا توہم اسے اجرت بھی دیں گے۔ امامؑ: کیا اس کے لئے تم نے اجرت معین کی ہے؟
عرض ہوا: نہیں! ہم جو بھی اسے دیں گے وہ راضی ہوجائے گا۔امامؑ اس بات پر بہت غضبناک ہوئے اور ان کی جانب بڑھے تو میں آگے بڑھا اور عرض کیا: یابن رسول اللہ ﷺ! آپ اتنے آزردہ اور غضبناک کیوں ہوئے؟امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے کئی بار ان سے کہا ہے کہ اس طرح مزدور نہ لایا کریں مگر یہ کہ ان کی اجرت پہلے سے ہی معین کرلیں۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر آپ کسی کی خدمات حاصل کریں اور اس کی اجرت کا پہلے سے تعین نہ کریں تو بعد میں ممکن ہے کہ آپ جتنی بھی رقم اس کو ادا کریں وہ پھر بھی اپنے آپ کو صاحب حق تصور کرے اور اپنے آپ کو مزید رقم کا مستحق سمجھے لیکن اگر آپ پہلے سے اجرت کا تعین کریں تو جب اسے اس کی اجرت ادا کی جاتی ہے تو وہ شکریہ ادا کرے گا کیونکہ اس نے اپنی پوری اجرت وصول کی ہے اور اگر پھر آپ اجرت کے علاوہ مزید رقم بھی اسے دے دیں تو وہ اس کو آپ کی طرف سے محبت اور لطف سمجھے گا اور وہ اس محبت و لطف کو ہرگز نہیں بھولے گا۔ (8)
لوگوں کے ساتھ طرز سلوک
مرحوم شیخ طوسی رضوان اللہ تعالی علیہ اپنی کتاب "الرجال” میں لکھتے ہیں:
ایک روز امام رضا علیہ السلام کے اصحاب کا ایک گروہ آپؑ کے گھر میں اکٹھے ہوئے تھے اور یونس بن عبدالرحمن بھی حاضر تھے جو امامؑ کے معتمد اور اہم و بلندمرتبہ انسان تھے۔وہ آپس میں بات چیت کررہے تھے کہ اتنے میں اہل بصرہ میں سے ایک گروہ نے داخلے کی اجازت مانگی۔
امام علیہ السلام نے یونس سے فرمایا: فلان کمرے میں جائیں اور یادرکھیں کہ کوئی بھی رد عمل ظاہر نہ کریں؛ مگر یہ کہ آپ کو اجازت ملے۔
اس کے بعد امامؑ نے بصریوں کو داخل ہونے کی اجازت دی وہ داخل ہوئے تو یونس بن عبدالرحمن کے خلاف چغل خوری میں لگ گئے اور ان کی بدگوئی کرتے ہوئے انہیں برا بھلا کہنے لگے۔امام ؑاپنا سر مبارک جھکا کر بیٹھی تھے اور بالکل خاموش تھے حتی کہ بصری اٹھ کر چلے گئے اور اس کے بعد آپؑ یونس بن عبدالرحمن کو باہر آنے کی اجازت دی۔
یونس غم و حزن اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ امام علیہ السلام پر وارد ہوئے اور عرض کیا: یابن رسول اللہ ﷺ! میں آپ پر فدا ہوجاؤں میں ان لوگوں کے ساتھ میری معاشرت ہے جبکہ میں نہیں جانتا تھا کہ یہ لوگ میرے بارے میں ایسی باتیں کریں گے اور مجھ پر اس طرح کے الزامات لگائیں گے۔
امام علیہ السلام نے لطف بھرے لب و لہجے میں یونس بن عبدالرحمن سے فرمایا: اے یونس! غمگین نہ ہوں۔ لوگوں کو یہ سب کہنے دیں اور جان لیں کہ ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جب آپ کا امام آپ سے راضی و خوشنود ہو فکرمندی کی کوئی بات نہیں ہے۔
اے یونس! ہمیشہ لوگوں کے ساتھ ان کی معرفت و دانائی کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بات کرنے اور ان کے لئے ان کی معرفت و دانائی کی حدود میں معارف الہی بیان کرنے کی کوشش کریں اور ایسی باتیں بیان کرنے سے پرہیز کریں جو ان کے فہم و ادراک سے بالاتر ہیں۔
اے یونس! جب آپ کے ہاتھ میں ایک نہایت قیمتی گوہر ہو اور لوگ کہہ دیں کہ یہ پتھر یا ڈھیلا ہے تو اس طرح کی باتیں آپ کے اعتقادات اور افکار میں کتنی حد تک مؤثر ہونگی؟ اور کیا لوگوں کی اس طرح کی باتوں سے آپ کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچتا ہے؟
یونس کو امامؑ کے کلام سے سکون ملا اور عرض کیا: نہیں ان کی باتیں میرے لئے ہرگز اہمیت نہیں رکھتیں۔
امام علیہ السلام نے ایک بار پھر یونس بن عبدالرحمن سے مخاطب ہوکر فرمایا: اسی طرح جب آپ نے اپنے امام کی معرفت حاصل کی ہو اور جب آپ نے حقیقت کا ادراک کیا ہو تو لوگوں کے افکار اور ان کی باتیں آپ کے اوپر ہرگز اثرانداز نہیں ہونی چاہئیں لوگ جو بھی چاہیں بولیں۔(9)
اگر توبہ کریں تو نجات پائیں گے؟بعض روايات میں منقول ہے: ایک دن ایک منافق نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: آپ کے بعض شیعہ اور دوست مست کرنے والے مشروبات استعمال کرتے ہیں!؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کا شکر کہ وہ جس حال میں بھی ہوں ہدایت یافتہ ہیں اور ان کے عقائد صحیح اور صراط مستقیم پر استوار ہیں۔
اسی وقت بیٹھک میں موجود دوسرے منافق نے کہا: آپ کے بعض شیعہ نبیذ پیتے ہیں۔امام علیہ السلام نے فرمایا: رسول اللہ (ص) کے بعض اصحاب بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ منافق نے کہا: نبیذ سے میری مراد شہد کا شربت نہیں بلکہ میری مراد نشہ آور شراب ہے۔
یہ بات سن کر امامؑ کے چہرہ مبارک سے پسینہ چھوٹا اور فرمایا: خداوند متعال اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے مؤمن بندے کے دل میں ہماری محبت بھی رکھے اور شراب کی محبت بھی اس کے دل میں ہو اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوگا [کہ ایک مؤمن بندے کے دل میں ہماری محبت بھی ہو اور وہ شراب سے بھی محبت کرے]۔
امامؑ قدرے خاموش رہے اور فرمایا: اگر کوئی اس فعل کا ارتکاب کرے اور اس سے محبت نہ رکھتا ہو او اپنے فعل سے نادم ہوجائے تو وہ روز قیامت خدائے مہربان و ہمدرد، رؤف و عطوف اور رحمدل پیغمبر (ص) اور حوض کوثر کے کنارے موجود امام و رہبر کے پاس حاضر ہوگا اور دیگر بزرگ ہستیوں کے پاس جو اس کی نجات و شفاعت کے لئے آئیں گے لیکن تم اور تمہاری طرح کے لوگ برہوت کے دردناک اور جلادینے والے عذاب میں گرفتار ہونگے۔ (10)
ختم قرآن یا قرآن میں تفکر و تدبر
مرحوم شیخ صدوق، طبرسی اور دیگر بزرگوں نے ابراہیم بن عباس کے حوالے سے حکایت کی ہے کہ:
جتنا عرصہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں گذارا اور میں نے امام کی محفلوں اور مجلسوں میں شرکت کی میں نے دیکھا کہ امام علیہ السلام ہر سوال کا بہترین، زیباترین اور فصیح ترین جواب دیا کرتے تھے اور تمام علوم و فنون میں مہارت رکھتے تھے اور آپؑ کا جواب قائل و مطمئن کردینے والا ہوتا تھا۔مأمون بھی ہر موقع و مناسبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امامؑ سے پیچیدہ سوالات پوچھ لیتا تھا مگر امام علیہ السلام کبھی بھی جواب دینے سے عاجز نہیں ہوئے۔
امامؑ کے تمام جوابات قرآن مجید کی آیات سے مستند ہوا کرتے تھے اور ساتھ ہی امامؑ تین دن میں قرآن مجید ختم کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ "اگر چاہوں تو اس سے کم مدت میں بھی ختم قرآن کرسکتا ہوں لیکن میں تلاوت کرتے وقت ہر آیت میں تدبر و تأمل بھی کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ آیت کس موضوع میں کس واقعے کی مناسبت سے اور کب نازل ہوئی ہے اور تدبر و تأمل کے سوا کسی بھی آیت سے نہیں گذرتا چنانچہ ختم قرآن تین روز میں ممکن ہوجاتا ہے۔ (11)
تھیلی میں زہر آلود ہتھیار:
مرحوم راوندی محمد بن زید رزامی کے حوالے سے حکایت کرتے ہیں:
ہم امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں تھے کہ ایک خارجی داخل ہوا جس نے اپنی تھیلی میں ایک زہر آلود ہتھیار چھپا رکھا تھا۔
خارجی نے اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ چونکہ رسول اللہ ﷺکے فرزند نے اس زمانے کے طاغوت (یعنی مأمون) کی ولایت عہدی قبول کرلی ہے لہذا میں ان سے ایک سوال پوچھتا ہوں اور اگر انھوں نے صحیح جواب نہ دیا تو اس ہتھیار سے انہیں قتل کردیتا ہوں۔
خارجی نے امام علیہ السلام سے سوال کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں تمہارے سوال کا جواب دیتا ہوں بشرطیکہ اگر میرا سوال صحیح ہوا اور تم قائل ہوئے تو جو کچھ تم نے تھیلی میں چھپا رکھا ہے اسے تھیلی سے نکال دو اور توڑ کر پھینک دو۔
اس شخص نے امامؑ کی شرط سن لی تو حیرت زدہ ہوا اور تھیلی میں رکھا ہوا ہتھیار نکال کر توڑ دیا اور عرض کیا: یابن رسول اللہ ﷺ! اس کے باوجود کہ آپ جانتے ہیں کہ مأمون ظالم ہے آپ اس کے امور میں کیوں داخل ہوئے اور آپ نے اس کی ولی عہدی کیوں قبول کی ہے حالانکہ یہ لوگ کافر ہیں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: ان لوگوں کا کفر زیادہ بڑا ہے یا شاہ مصر اور اس کے درباریوں کا کفر زیادہ بڑا تھا؟ کیا یہ لوگ بظاہر مسلمان نہیں ہیں اور خدا کی وحدانیت کے معتقد نہیں ہیں؟ امام علیہ السلام نے اس کے بعد ارشاد فرمایا: حالانکہ حضرت یوسفؑ نبی تھے اور نبی کے بیٹے اور نبی کے پوتے تھے اس کے باوجود انھوں نے مصری بادشاہ سے درخواست کی کہ انہیں خزانے، اموال اور مملکت مصر کے دیگر امور کی ذمہ داری سونپ دے اور حضرت یوسف فرعون مصر کے مقام پر بیٹھتے حالانکہ فرعون مصر کافرِ محض تھا۔ اور میں بھی رسول اللہ ﷺ کے فرزندوں میں سے ایک ہوں مگر میں نے مملکت کے امور میں مداخلت کی درخواست نہیں دی بلکہ انھوں نے مجھے یہ عہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا اور میں مجبوری کی بنا پر قلبی طور پر رضا و رغبت کے بغیر اس مقام میں قرار پایا ہوں۔اس شخص نے امامؑ کا جواب پسند کیا اور شکریہ ادا کرکے اپنی گمان باطل سے باہر نکلا۔ (12)
سخاوت میں حرمت و آبرو:
مرحوم کلینی اور بعض دیگر بزرگ امام رضا کے صحابی یسع بن حمزہ سے نقل کرتے ہیں:
ایک روز امام رضا علیہ السلام کی مجلس میں مختلف طبقات کے نمائندے حاضر تھے اور حلال و حرام کے بارے میں سوال پوچھتے اور جواب سن رہے تھے کہ ایک بلند قامت شخص اٹھا اور سلام کے بعد عرض کیا: یابن رسول اللہ ﷺ! میں آپ کے دوستوں اور آپ کے بزرگوار اور عظیم الشان آباء و اجداد اور اہل بیت رسول ﷺ کے محبین میں سے ہوں اور اس وقت میں مکہ معظمہ کا مسافر ہوں مگر میں رقم اور سفر کا سازوسامان کھو گیا ہوں اور اگر ممکن ہو تو میری مدد فرمائیں تاکہ میں اپنے وطن اور شہر و دیار (خراسان) کی طرف لوٹ سکوں؛ اور چونکہ میں صدقے کا مستحق نہیں ہوں لہذا گھر پہنچ کر آپ سے لی ہوئی رقم آپ کی طرف سے صدقے کے طور پر غرباء میں بانٹوں گا۔
امامؑ نے فرمایا: خداوند مہربان آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائی، یہیں بیٹھے رہیں۔
امامؑ لوگوں کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہوئے اور ان کے مسائل کے جوابات دیئے یہاں تک کہ سوال و جواب کی مجلس برخاست ہوئی اور لوگ اٹھ کر چلے گئے لیکن میں (یسع بن حمزہ)، سلیمان جعفری اور خیثمہ مجلس میں موجود رہے۔امامؑ نے فرمایا: مجھے گھر کے اندر جانے کی اجازت ہے؟سلیمان جعفری نے کہا: آپ کے قدم مبارک ہوں! آپ خود صاحب اجازت ہیں۔امامؑ اٹھ کر ایک کمرے میں چلے گئے اور چند لمحے بعد امامؑ نے دروازے کی پشت سے آواز دی اور فرمایا: وہ خراسانی مرد کہاں ہے؟ خراسانی نے کہا: میں یہیں ہوں میرے مولا!امامؑ نے انہیں دروازے کی طرف بلایا اور دروازے کے اوپر سے دوسو درہم خراسانی مسافر کو عطا کرتے ہوئے فرمایا: یہ دو سو درہم ہیں؛ ان سے سفر کے اخراجات فراہم کریں اور انہیں تبرک کے طور پر استعمال کریں اور میری طرف سے صدقہ دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اور پھر فرمایا: اب جلدی سے چلے جائیں تا کہ ہم ایک دوسرے کو دوبارہ نہ دیکھ سکیں!خراسانی مرد رقم لے کر باہر نکلا اور چلا گیا اور امام باہر تشریف لائے اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ سلیمان جعفری نے عرض کیا: یابن رسول اللہ ﷺ! ہماری جان آپ پر فدا ہو آپ نے ایسا کیوں کیا اور اس مرد پر مہربانی فرمائی اور سخاوت فرمائی اور پھر آپ نے اس شخص سے اپنا چہرہ چھپا دیا؟۔امامؑ نے فرمایا: میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ غریب الوطن شخص مجھ سے شرمندہ ہوجائے اور ذلت و خواری محسوس کرے۔ کیا آپ لوگوں نے نہیں سنا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ خفیہ طور پر نیکی کرنے والے کو ستر قبول حَجّوں جتنا ثواب عطا فرمائے گا اور اعلانیہ طور پر گناہ کرنے والے کو خداوند متعال تنہا چھوڑ کر ذلیل و خوار کرتا ہے(13)
حوالہ جات:
1۔امام (ع) کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے اور سال ولادت 148 تا 153 بیان کیا گیا ہے اور 11 ذی القعدة 148 ہجری کے حساب سے امام کی تاریخ ولادت 2 جنوری 766 عیسوی بنتی ہے۔
2۔نام و لقب مبارک بعنوان امام ((علىّ، رضا)) علیہ السلام۔ ابجد کبیر کے حساب سے 110، 1001 کا عدد بنتا ہے۔
3۔ تاریخ شہادت 10 ستمبر 818 یا 10 ستمبر 821 ہے۔
4۔ تاریخ ولادت اور دیگر حالات زندگی درج ذیل کتب سے ماخوذ ہے:
، اصول کافی: ج 1، کشف الغمّة: ج 2، فصول المہمّہ ابن صبّاغ مالکی۔ ا علام الوری طبرسی: ج 2، مجموعہ نفیسہ۔ تاریخ اہل بیت علیہم السلام۔ ینابیع المودّہ۔ تہذیب الا حکام: ج 6، جمال الا سبوع سيّد ابن طاووس۔ دعوات راوندی۔ دلائل الا مامہ طبری۔ عیون المعجزات و… .
5۔عیون اخبارالرّضا علیہ السلام: ج 1، ص 20، ح 2، ینابیع المودّة: ج 3، ص 166، حلیة الا برار: ج 4، ص 339، ح 5.
6۔عیون اخبارالرّضا علیہ السلام: ج 2، ص 228، ح 3، ا ثبات الہداة: ج 4، ص 279، ح 91، ا علام الوری طبرسی: ج 2، ص 70.
7۔قرب الا سناد: ص 144، بحارالا نوار: ج 26، ص 190، ح 2.
8۔کافی: ج 5، ص 288، ح 1.
9۔بحارالا نوار: ج 2، ص 65، ح 5، بہ نقل از کتاب رجال کشّی .
10۔بحارالا نوار: ج 27، ص 314، ح 12، بہ نقل از مشارق الا نوار: ص 246.
11۔ا علام الوری طبرسی: ج 2، ص 63، عیون اخبارالرّضا علیہ السلام: ج 2، ص 180، ح 4، کشف الغمّة: ج 2، ص 316، بحار: ج 49، ص 90، ح 3.
12- الخرایج والجرایح: ج 2، ص 766، ح 86.
13۔بحارالا نوار: ج 49، ص 101، ح 19، بہ نقل از کافی و مناقب ابن شہرآشوب۔ اعیان الشّیعة: ج 2، ص 15.
https://erfan.ir/urdu/82969.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button