خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:216)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک01ستمبر2023ء بمطابق 14صفر المظفر1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: تکبر
اللہ تعالیٰ انسان کو جس آزمائش سے گزارتا ہے وہ کبھی آسائش اور سہولت کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔مثلا کسی کو اللہ تعالی بہت زیادہ مال و دولت اور مقام و منزلت سے نوازتا ہے تو یہ بھی ایک طرح کی آزمائش ہوتی ہے۔زیادہ مال و متاع حاصل کرکے اکثر لوگ تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں۔تکبر ایک غیر اخلاقی اور قبیح صفت ہے۔تکبر اور جبر سے کام لینا گناہان کبیرہ میں سے ایک ہے۔تکبر کرنے والا خود کو بہت بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا اور ہمیشہ کے لیے خدا کی لعنت کا سزاوار ٹھہرا۔اس کے علاوہ یہ ایسا گناہ ہے کہ قرآن مجید میں جس کے لئے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے سورہ زمر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
ألَیْسَ فِی جَھَنَّمَ مَثْویً لِلْمُتَکبَرِیْن(سورہ زمر آیت ۶۰)
کیا غرور کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے۔
یعنی جی ہاں ان کی جگہ دوزخ ہے اور یہ بھی فرماتا ہے۔
قِیْلَ ادْخُلُوْا اَبْوَابَ جَھَنَّمَ خٰا لِدِیْنَ فِیْھٰا فَبِئْسَ مَثْوی لَلْمُتِکَبْرِیْنَ
(سورہ زمر آیت۷۲)
کہاجائے گا کہ جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاوٴ اور ہمیشہ اسی میں رہو۔پس تکبر کرنے والوں کا (جہنم) کیا برا ٹھکانہ ہے۔
سورہ موٴمن میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے۔
کَذَالِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلْبٍ مُّتَکَبِّرٍ جَبّٰارٍ۔
(سورہ غافر آیت۳۵)
اس جرم میں وہ لوگ مبتلا رہتے ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔ مہر لگانے کامطلب یہ ہے کہ اللہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا ہاتھ ان سے اُٹھا لیتا ہے تو اس کے بعد گمراہی کے سوا کوئی صورت نہیں رہتی ہے۔ ان سے ہاتھ اٹھانے کی وجہ ان کا متکبر، جبار اور سرکش ہونا ہے۔تکبر سے متعلق آیات بہت زیادہ ہیں لیکن یہاں پر اسی آیت کا ذکر کافی ہے جو شیطان کے تکبر کرنے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کہ اپنے اس عمل کی وجہ سے وہ مردود و ملعون بنا اور ابدی عذاب میں مبتلا ہو گیا چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں فرماتا ہے:
اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَ کٰانَ مِنَ الْکَافِرِیْن (سورہ بقرہ آیت ۳۴)
شیطان نے آدم کو سجدے سے انکار کیا اس نے تکبر کیا اورکافروں میں سے ہو گیا۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلامایک خطبے میں فرماتے ہیں:
فَاعْتَبِرُوْا بِمٰا کَانَ مِنْ فِعْلِ اللّٰہِ بِاِبْلِسَ اَذٰا اَحْبَطَ عَمَلَہُ الطَّوِیْلَ وَ جَھْدَہُ الْجَھِیْدِ وَکٰانَ قَدْ عَبَدَ اللّٰہَ سِتَۃ الٰافٍ سَنَةٍلَا یَدْری اَمَنْ سِنیَ الدُّنْیٰا اَمْ مِنْ سِنَی الْاٰخِرَةِ عٰلِی کِبْرِسٰاعَةٍ وٰاحِدَةٍ، فَمِنْ ذٰا بَعْد اِبْلِیْس یُسْلَمُ عَلَی اللّٰہِ بِمِثْلِ مَعْصِییَتِہ کَلّاٰ مٰا کٰانٰ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ لِیَدْخُلَ الْجَنَّتَہَ بَشَراً بِاَمْرٍ اَخْرَجَ مِنْھٰا مَلَکاً۔وَمٰا بَیْنَ اللّٰہِ وَبَیْنَ اَحَدٍ مَنْ خَلْقِہ ھَوٰادٰةً فِیْ ابٰاحَتِہ حِمیً حُرْمَتَہَ عَلَی الْعٰالِمَیْن
(نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ۱۹۱)
اللہ تعالیٰ نے جو کچھ شیطان کے ساتھ کیا اس سے عبرت حاصل کرو جب اس (خدا)نے اس کے طویل عمل اوربے انتہا کوشش کو ایک لمحہ کے تکبر کی وجہ سے ضائع کر دیا حالانکہ اس نے چھ ہزار سال(کی مدت) تک خداوند عالم کی عبادت کی تھی معلوم نہیں کہ یہ سال دنیا کے سال تھے یا آخرت کے سال( کہ جس کا ہر دن ہزار سال کے برابر ہے) تو اب ابلیس کے بعد اس جیسا جرم کر کے کو ن بچ سکتا ہے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ جس جرم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک ملک(فرشتوں کی محفل میں رہنے والے )کو جنت سے نکال کہ دیا ہو اس جرم پر کسی بشر کو جنت میں جگہ دیدے۔خداوند عالم کو حکم اہل آسمان اور اہل زمین کے لئے یکساں ہے۔(اور خدا کی ان مخلوقات میں سے کسی ایک فرد کے ساتھ دوستی نہیں ہے)کہ جو اس سارے جہاں والوں پر حرام کیا ہے۔وہ اس کے لئے مباح کردے(یعنی عزت وکبریائی)
کچھ جملوں کے بعد آپؑ فرماتے ہیں:
اور اس قابیل کی طرح نہ ہو جاوٴ جس نے اپنے بھائی ہابیل کے مقابلے میں تکبر کیا بغیر اس کے کہ خداوند عالم نے اسے کوئی فضیلت دی ہو سوائے اس کے کہ حاسد انہ عداوت کی وجہ سے اس کے دل میں بڑائی کا خیال پیدا ہو گیا اور خود پسندی نے اس کے دل میں غیض و غضب کی آگ بھڑ کادی اور شیطان نے اس کے دماغ میں تکبر اور غرور کی ہوا پھونک دی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ندامت اس کے پیچھے لگا دی اور قیامت تک کے قاتلوں کے گناہوں کا اسے ذمہ دار(بانی) قرار دیا۔خلاصہ قابیل اپنے بھائی سے تکبر کی بنا پر ابدی بدبختی اور سخت ترین عذاب میں مبتلا ہو گیا۔کچھ کلمات کے بعد آپ فرماتے ہیں۔
پس تم سے پہلے تکبر کرنے والے امتوں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو سختیاں اور عتاب وعقاب و عذاب نازل ہوئے ان سے عبرت لو اور ان کے رخساروں کے بل لیٹنے کی جگہ (خاک)اور پہلووٴں کے بل گرنے کے مقامات (قبروں)سے نصیحت حاصل کرو اور جس طرح زمانے کی آنے والیل مصیبتوں سے پناہ مانگتے ہو اسی طرح سرکش بنانے والی خصلتوں سے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو۔
(نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ۱۹۱)
رسول خدا ﷺفرماتے ہیں:
ثَلٰثَةٌ لٰا یُکلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلٰا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰامٰةِ وَلٰا یُزَکِیِّھِمْ وَلَھُمْ عَذٰابٌ اِلِیْمٌ۔شَیْخٌ زٰانٍ وَمَلِکٌ جَبّٰا رٍ وَمُقِلٌّ مَخْتٰالٍ(الكافي ج‏2، ص: 311)
روز قیامت اللہ تعالیٰ تین گروہوں سے کلام نہیں کرے گا۔ (یعنی وہ خداوند عالم کے غضب کا نشانہ ہوں گے)اور ان پر رحمت کی نظر نہیں کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔۱۔بوڑھا زانی۲۔ ظالم حاکم ۳۔مغرور فقیر۔
یعنی ان تین گروہوں کا عذاب،جوانی میں زنا کرنے والے اور ایسے ظالم سے جو حاکم نہ ہو اور ایسے مغرور سے جو فقیر نہ ہو،زیادہ ہے اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کیونکہ مذکورہ تین گروہوں میں گناہ کا سبب موجود نہیں۔یعنی شہوت کی جو آگ جوانی میں ہوتی ہے وہ بڑھاپے میں نہیں ہوتی۔تو جب بھی(بوڑھا)زنا کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ بہت بے حیاء ہے اور احکام خدواوندی کی پروا نہیں کرتا لہذا گناہوں میں بوڑھوں کی سزا جوانوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے ۔اور اسی طرح حاکم کے لئے جیسا کہ خداوند عالم نے اسے حکومت اور طاقت عدل کو وسعت دینے کے لئے دی ہے لیکن اگر وہ ستم کو اپنا پیشہ بنائے تو گناہ کے علاوہ خداوند عالم کی نعمتوں کے انکار کی بنا پر درحقیقت اپنی بندگی کا منکر ہو گیا۔اور اسی طرح تکبر کرنے والا فقیر کے لئے جیسا کہ بڑائی کا ایک سبب مال ہے اور جو کوئی مال کے نہ ہوتے ہوئے تکبر کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ خبیث اور پیدا کرنے والے خدا کا دشمن ہے۔
ایک شخص نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا:
عَنْ حَکِیْم قٰالَ سَئَلْتُ اَبٰا عَبْدِ اللّٰہِ عَیَیْہِ السَّلٰامُ عَنْ اَدْنَی الْاِلْحٰادِ۔فَقَالَ عَلَیْہِ اَنَّ الْکِبْرَاَدْ نٰاہُ۔
(کافی جلد ۲۔صفحہ ۳۰۹)
کفرکے کمترین درجات یعنی حق سے رو گردانی کیا ہے؟امام (علیہ السلام) اس کا کمترین درجہ تکبر ہے۔
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
اَلعِزُّرِدآءُ اللّٰہِ وَالْکِبْر اِزٰارُہُ فَمَنْ تَنٰاوَلَ شَیئاً مِّنْہُ اَکَبَّہُ اللّٰہُ فِیْ جَھَنَّم
(کافی جلد۲۔صفحہ ۳۰)
عزت و بزرگی اور کبریائی کا اظہار اللہ تعالیٰ کے دو مخصوص لباس کی مانند ہیں۔یعنی جس طرح حاکم کے مخصوص لباس میں کوئی شرکت کا حق نہیں رکھتا اسی طرح کوئی بھی مخلوق ان دو صفات اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرکت کا حق نہیں رکھتی)پس جو کوئی بھی ان دو صفات سے متصف ہونے کی جرأت کرے گا تو خداوند عالم اسے سر کے بل جہنم میں ڈال دے گا۔
آپ علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا:
اَلْکِبْرُ رِدٰآءُ اللّٰہِ وَالْمُتَکَبِّرُ ینُازِغُ اللّٰہَ رِدٰوآئہُ۔
کبر و بزرگی اللہ تعالیٰ کے دو مخصوص لباس کی مانند ہے اور جو کوئی تکبر کرے(خداوند عالم کی اس مخصوص صفت میں )تو اس نے خداوند عزوجل سے جنگ کی ہے ۔(کافی جلد ۲۔صفحہ۳۰۹)
کیونکہ تکبر کرنے والا حالت تکبر میں اپنے بندگی کو فراموش کر دیتا ہے ۔جبکہ اس کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اور اپنے آپ کو مستقل اور فعال شئے سمجھتا ہے۔اور فرعون کی طرح کہتا ہے کہ میں سب سے بڑا اور اعلیٰ ہوں میں ایسا اور ویسا ہوں پس اس حالت میں خدائے واحد کے مقابل کھڑا ربوبیت کا دعویٰ کرتا ہے۔خلاصہ یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کی (اس کے علاوہ)ہر ایک صفت مثلاً عفو در گزر ،رحم،سخاوت احسان،کرم ،حلم ،علم ،محبت ،مہربانی سے متصف ہو سکتا ہے۔بلکہ قرب کے درجات انہی صفات کی کمی و زیادتی سے ظاہر ہوتے ہیں لیکن عزت و عظمت اور کبریائی کی صفت صرف خدائے عزوجل سے مختص ہے اور کسی انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ان دو صفات سے متصف کرے۔قرآن مجید میں خداوند عالم فرماتا ہے۔
وَلَہُ الْکِبْرِیٰآءُ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔(سورہ جاثیہ آیت ۳۷)
اور سارے آسمان و زمین میں اس کے لئے بڑائی ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
اِنَّ فِیْ جَھَنَّمَ لَوادٰ یاً للّمتکبّرِیْن یُقٰالُ لَہُ سَقَر شکَیٰ اِلَی اللّٰہِ عَزَّو جَلَّ شِدّ ةِ حِدِّہ۔وَسَئَلَہُ اَنْ یثاذَنَ لَہُ اَنْ یَتَنَفَّسَ فَتَنَفَّسَ فَاحَرْقَ جَھَنَّمَ (کافی جلد۲صفحہ۳۱۰)
دوزخ میں ایک ایسا درہ ہے جو متکبروں کے لئے مخصوص ہے کہ جسے سقر کہتے ہیں اس سے اپنی گرمی کی شدت کی خداوند عالم سے شکایت کی اور سانس لینے کی اجازت چاہی پس اس نے سانس لیا اور جہنم کو جلادیا ۔
آپ نے یہ بھی فرمایا:
اِنَّ المُتکَبَّرِیْن یَجْعَلُونَ فِیْ صُوَرِ الذَرِّ یتَوَ طَئَاھمُ النّٰاسَ حَتّٰی یَفْرغُ اللّٰہُ مِنَ الْحِسٰابِ
(کافی جلد ۲صفحہ ۳۱۱)
بلاشبہ تکبر کرنے والے(روز قیامت)باریک چیونٹیوں کی صورت میں محشور ہوں گے اور خداوند عالم کی مخلوق کے حساب سے فارغ ہونے تک لوگ انہیں پاوٴں تلے روندیں گے۔
رسالۃ الحقوق:
کان کا حق:امام زین العابدین ؑ کا ن کا حق بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَ أَمَّا حَقُّ السَّمْعِ فَتَنْزِيہُہُ عَنْ أَنْ تَجْعَلَہُ طَرِيقاً إِلَى قَلْبِكَ
کان کا حق یہ ہے کہ تم اس(ہر چیز کے لیے) اپنے دل کا راستہ بننے سے دور رکھو،
إِلَّا لِفُوَّہَةٍ كَرِيمَةٍ تُحْدِثُ فِي قَلْبِكَ خَيْراً
ہاں اسے اس بہترین بات کے لیے دل کا راستہ بناؤ جو تمہارے دل میں نیکی و بھلائی کا جذبہ پیدا کرے
أَوْ تَكْسِبُكَ خُلُقاً كَرِيماً
یا اس سے ایسی بات سنو جو تمہیں بہترین اخلاق سے آراستہ کرے
فَإِنَّہُ بَابُ الْكَلَامِ إِلَى الْقَلْبِ
کیونکہ کان دل کا راستہ ہے
يُؤَدِّي إِلَيْہِ ضُرُوبُ الْمَعَانِي عَلَى مَا فِيہَا مِنْ خَيْرٍ أَوْ شَرٍّ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہ
اور وہ بہترین معانی کو درک کرتا ہے، کان دل تک خیر یا شر کو پہنچاتا ہے اور طاقت و قوت تو صرف خدا کی ہے۔

تاریخی مناسبت: چہلم امام حسینؑ و شہدائے کربلا
تاریخ انسانیت خصوصا عالم اسلام اور شیعوں کے درمیان سرکار سیدالشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے چالیسویں دن کو اربعین کہا جاتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی اربعین کا اعتبار شیعوں اور امام حسین کے وفاداروں کی تاریخ میں قدیم الایام سے معروف ہے۔ اس دن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے غم میں سوگ اور عزاداری کی جاتی ہے۔ دعا اور عبادت، اعمال اور وظائف انجام دیتے جاتے۔
اربعین حسینی سے مراد سنہ 61 ہجری کو واقعہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کی شہادت کا چالیسواں دن ہے جو ہر سال 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔
حسینی تحریک میں اربعین یعنی چہلم حضرت امام حسین علیہ السلام کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ وہ دن ہے جس میں حضرت امام حسین علیہ السلام سے محبت کا پہلا چشمہ جاری ہوا۔ اس طاقتور حسینی مقناطیس نے سب سے پہلے چہلم کے دن دلوں کو اپنی طرف کھینچا۔ مشہور صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ انصاری اورجناب عطیہ کا چہلم کے دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کیلئے جانا اس بابرکت رسم کا آغاز تھا جو صدیوں سے چلتی ہوئی آج ہر زمانے سے زیادہ عظیم، پررونق، پرشکوہ اور مقبول ہو چکی ہے۔ اس عظیم رسم نے دنیا میں روز بروز عاشورا کی یاد مزید زندہ کر دی ہے۔
چہلم اپنی ذات میں عاشورا کی جانب دوبارہ پلٹنے کا نام ہے۔ چہلم منانے کے لیے سب کچھ اہتمام شاید اس نکتے کی یاددہانی ہو کہ مومن کو چاہئے کہ وہ کربلا کو اپنی زندگی کا راستہ قرار دے اور اپنی زندگی کی تمام سرگرمیاں اسی مرکز کے گرد منظم کرے۔ اسی طرح ایمانی معاشرہ بھی کربلا کے خورشید کی جانب متوجہ ہو اور چہلم درحقیقت اسی خورشید تک پہنچنے کا راستہ ہے۔
مشہور تاریخی اسناد کے مطابق اسیران کربلا بھی شام سے رہا ہو کر مدینہ واپس جاتے ہوئے اسی دن یعنی 20 صفر سنہ 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے کربلا پہنچے تھے۔اسی طرح جابر بن عبداللہ انصاری بھی اسی دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے آئے تھے۔اس دن کے خاص اعمال میں سے ایک زیارت اربعین ہے جسے امام حسن عسکریعلیہ السلام سے مروی حدیث میں مؤمن کی نشانی قرار دیا گیا ہے:
عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ وَزِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَالتَّخَتُّمُ بِالْيَمِينِ وَتَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَالْجَهْرُ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ‏ ..
شیعہ مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں:
1. شب و روز کے دوران 51 رکعتیں نماز پڑھنا
2. زیارت اربعین پڑھنا
3. انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہننا
4. سجدے میں پیشانی مٹی پر رکھنا اور
5. نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہر کے ساتھ (بآواز بلند) پڑھنا۔
(طوسی، تہذیب الاحکام، ج6 ص52)
چہلم کے دن آپ کے تمام چاہنے والے اور شیعیان حیدر کرار آپ کے غم میں آنسو بہاتے، سر و سینہ پیٹتے، جلوس عزا نکالتے، نوحہ و ماتم کرتے اور اپنی عقیدت و محبت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اربعین ہی کے دن اہل حرم کا لٹا ہوا قافلہ شام سے کربلا آیا ہے۔
اربعین حسینی کی اہمیت اس لئے ہےکہ اربعین میں امام حسین ؑ کی شہادت کی یاد زندہ ہو گئی اور یہ بہت اہم بات ہے۔
اگر بنی امیہ، امام حسین علیہ السلاماور انکے اصحاب با وفا کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کامیاب ہوجاتے اور ان کی یاد اس زمانے کے انسانوں اور آیندہ نسلوں کے ذہن سے مٹا دیتے، کیا ایسی صورت میں یہ شہادت عالم اسلام کےلئے مفید ہوتی؟
اگر اس زمانے کےلئے موثر بھی ہوتی تو کیا یہ واقعہ تاریخ میں آیندہ نسلوں کےلئے، مشکلات میں، تاریکیوں میں، ظلمتوں میں اور تاریخ میں ظاہر ہونے والے یزیدیوں کا گریبان چاک کرتا اور واضح طور پر اثر انداز ہوتا؟
اگر امام حسین علیہ السلامشہید ہوجاتے، لیکن اس زمانے اور آیندہ نسلوں کو اس کا علم نہيں ہوتا کہ حسین شہید ہو گئے تو یہ واقعہ قوموں، معاشروں اور تاریخ کے ارتقاء، تعمیر اور ہدایت میں کتنا موثر ہوتا؟
پس بنیادی طور سے اربعین کی اہمیت اس لئے ہےکہ اس دن، اہل بیت پیغمبر ﷺ کی خداداد حکمت عملی سے امام حسین علیہ السلام کے قیام کی یاد ہمیشہ کےلئے زندہ ہو گئی اور اس کی بنیاد رکھی گئی۔ اگر شہدا کے ورثاء اور اقربا نے مختلف واقعات میں، جیسے کہ واقعہ کربلا کی یاد باقی رکھنے کےلئے کمر نہیں کسیں تو آئندہ نسلیں شہادت سے زیادہ فیضیاب نہیں ہو سکیں گی۔یہ صحیح ہےکہ خداوند عالم شہداء کو اس دنیا میں بھی زندہ رکھتا ہے اور شہید تاریخ و لوگوں کے اذہان میں بھی زندہ ہے، لیکن تمام کاموں کی طرح خداوند عالم نے اس کام کےلئے بھی طبیعی آلات و وسائل مقرر کئے ہیں، یہ وہی چیز ہےکہ جو ہمارے اختیار اور ارادے میں ہے۔ ہم ہی ہیں کہ جو صحیح اور بروقت فیصلوں سے شہدا کی قربانیوں کی یاد اور شہادت کے فلسفہ کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔

عربی متن
ألَیْسَ فِی جَھَنَّمَ مَثْویً لِلْمُتَکبَرِیْن(سورہ زمر آیت ۶۰)
قِیْلَ ادْخُلُوْا اَبْوَابَ جَھَنَّمَ خٰا لِدِیْنَ فِیْھٰا فَبِئْسَ مَثْوی لَلْمُتِکَبْرِیْنَ
کَذَالِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلْبٍ مُّتَکَبِّرٍ جَبّٰارٍ۔
اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَ کٰانَ مِنَ الْکَافِرِیْن (سورہ بقرہ آیت ۳۴)
حضرت امیر المومنین علیہ السلام خطبہ قاصعہ میں فرماتے ہیں:
فَاعْتَبِرُوْا بِمٰا کَانَ مِنْ فِعْلِ اللّٰہِ بِاِبْلِسَ اَذٰا اَحْبَطَ عَمَلَہُ الطَّوِیْلَ وَ جَھْدَہُ الْجَھِیْدِ وَکٰانَ قَدْ عَبَدَ اللّٰہَ سِتَۃ الٰافٍ سَنَةٍلَا یَدْری اَمَنْ سِنیَ الدُّنْیٰا اَمْ مِنْ سِنَی الْاٰخِرَةِ عٰلِی کِبْرِسٰاعَةٍ وٰاحِدَةٍ، فَمِنْ ذٰا بَعْد اِبْلِیْس یُسْلَمُ عَلَی اللّٰہِ بِمِثْلِ مَعْصِییَتِہ کَلّاٰ مٰا کٰانٰ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ لِیَدْخُلَ الْجَنَّتَہَ بَشَراً بِاَمْرٍ اَخْرَجَ مِنْھٰا مَلَکاً۔وَمٰا بَیْنَ اللّٰہِ وَبَیْنَ اَحَدٍ مَنْ خَلْقِہ ھَوٰادٰةً فِیْ ابٰاحَتِہ حِمیً حُرْمَتَہَ عَلَی الْعٰالِمَیْن
رسول خدا ﷺفرماتے ہیں:
ثَلٰثَةٌ لٰا یُکلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلٰا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰامٰةِ وَلٰا یُزَکِیِّھِمْ وَلَھُمْ عَذٰابٌ اِلِیْمٌ۔شَیْخٌ زٰانٍ وَمَلِکٌ جَبّٰا رٍ وَمُقِلٌّ مَخْتٰالٍ
ایک شخص نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا:
عَنْ حَکِیْم قٰالَ سَئَلْتُ اَبٰا عَبْدِ اللّٰہِ عَیَیْہِ السَّلٰامُ عَنْ اَدْنَی الْاِلْحٰادِ۔فَقَالَ عَلَیْہِ اَنَّ الْکِبْرَاَدْ نٰاہُ۔
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
اَلعِزُّرِدآءُ اللّٰہِ وَالْکِبْر اِزٰارُہُ فَمَنْ تَنٰاوَلَ شَیئاً مِّنْہُ اَکَبَّہُ اللّٰہُ فِیْ جَھَنَّم
آپ علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا:
اَلْکِبْرُ رِدٰآءُ اللّٰہِ وَالْمُتَکَبِّرُ ینُازِغُ اللّٰہَ رِدٰوآئہُ۔
وَلَہُ الْکِبْرِیٰآءُ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔(سورہ جاثیہ آیت ۳۷)
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
اِنَّ فِیْ جَھَنَّمَ لَوادٰ یاً للّمتکبّرِیْن یُقٰالُ لَہُ سَقَر شکَیٰ اِلَی اللّٰہِ عَزَّو جَلَّ شِدّ ةِ حِدِّہ۔وَسَئَلَہُ اَنْ یثاذَنَ لَہُ اَنْ یَتَنَفَّسَ فَتَنَفَّسَ فَاحَرْقَ جَھَنَّمَ
آپ نے یہ بھی فرمایا:
اِنَّ المُتکَبَّرِیْن یَجْعَلُونَ فِیْ صُوَرِ الذَرِّ یتَوَ طَئَاھمُ النّٰاسَ حَتّٰی یَفْرغُ اللّٰہُ مِنَ الْحِسٰابِ
رسالۃ الحقوق:
کان کا حق:امام زین العابدین ؑ کا ن کا حق بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَ أَمَّا حَقُّ السَّمْعِ فَتَنْزِيہُہُ عَنْ أَنْ تَجْعَلَہُ طَرِيقاً إِلَى قَلْبِكَ
إِلَّا لِفُوَّہَةٍ كَرِيمَةٍ تُحْدِثُ فِي قَلْبِكَ خَيْراً
أَوْ تَكْسِبُكَ خُلُقاً كَرِيماً
فَإِنَّہُ بَابُ الْكَلَامِ إِلَى الْقَلْبِ
يُؤَدِّي إِلَيْہِ ضُرُوبُ الْمَعَانِي عَلَى مَا فِيہَا مِنْ خَيْرٍ أَوْ شَرٍّ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہ
امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی حدیث میں مؤمن کی پانچ نشانیاں:
عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَىوَ الْخَمْسِينَ وَزِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَالتَّخَتُّمُ بِالْيَمِينِ وَتَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَالْجَهْرُ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ‏ ..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button