سیرتسیرت امام موسی کاظمؑ

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے زمان امامت پر مختصر نظر

امامت
148ھ میں امام جعفر صادق علیہ السّلام کی شا دت ہوئی اس وقت سے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام بذاتِ خود فرائض امامت کے ذمہ دار ہوئے اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پر منصور دوانقی بیٹھا تھا۔ یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں لاتعداد سادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے اور تلوار کے گھاٹ اتار دیئے گئے یا دیواروں میں چنوا دیئے یاقید رکھے گئے تھے ۔خود امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاچکی تھیں اور مختلف صورتوں سے تکلیفیں پنچا ئی گئی تھیں یاچں تک کہ منصور ہی کا بھیجاہوا زہر تھا جس سے آپ دنیا سے رخصت ہورہے تھے ۔ان حالات میں آپ کو اپنے جانشین کے متعلق یہ قطعی اندیشہ تھاکہ حکومتِ وقت اسے زندہ نہ رہنے دے گی اس لیے آپ نے ایک اخلاقی توجہ حکومت کے کاندھوں پر رکھنے کے لیے یہ صورت اختیار فرمائی کہ اپنی جائداد اور گھر بار کے انتظام کے لیے پانچ افراد پر مشتمل ایک جماعت مقرر فرمائی۔ جس میں پلان شخص خود خلیفہ وقت منصور عباسی تھا ۔ اس کے علاوہ محمد بن سلیمان حاکم مدینہ اور عبداللہ فطح جو سن میں امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام نیز ان کی والدہ حمیدہ خاتون۔
امام کا اندیشہ بالکل صحیح تھا اور آپ کاطریقہ بھی کامیاب ثابت ہوا۔ چنانچہ جب حضرت کی وفات کی اطلاع منصور کو پنچیھ تو اس نے پےل تو سیاسی مصلحت کے طور پر اظآر رنج کیا۔ تین مرتبہ اناللهِ واناالیہ راجعون پڑھااور کہا کہ اب بھلاجعفر کا مثل کون ہے؟ ا س کے بعد حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر جعفر صادق نے کسی شخص کو اپنا وصی مقرر کیاہوتو اس کا سر فوراً قلم کردو ۔ حاکم مدینہ نے جواب لکھا کہ انوبں نے تو پانچ وصی مقرر کئے ہیں جن میں سے پلےت آپ خود ہیں۔ یہ جواب پڑھ کر منصور دیر تک خاموش رہا اور سوچنے کے بعد کنےب لگا تو اس صورت میں تو یہ لوگ قتل نیںج کیے جاسکتے ۔ اس کے بعد دس برس تک منصور زندہ رہا لیکن امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سے کوئی تعرض نیں کیا اور آپ مذہبی فرائض امامت کی انجام دہی میں امن وسکون کے ساتھ مصروف رہے۔ یہ بھی تھا کہ اس زمانے میں منصور شر بغداد کی تعمیر میں مصروف تھا جس سے 157ھ میں یعنی اپنی موت سے صرف ایک سال پلےو اسے فراغت ہوئی۔ اس لئے وہ امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے متعلق کسی ایذا رسانی کی طرف متوجہ نہیںہوا۔
دور مصائب
158ھ کے آخر میں منصور دوانقی دنیا سے رخصت ہوا تو اس کا بیٹا مدیی تخت سلطنت پر بیٹھا شروع میں تو اس نے بھی امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی عزت واحترام کے خلاف کوئی برتاؤ نیںن کیا مگر چند سال کے بعد پھر وہی بنی فاطمہ کی مخالفت کاجذبہ ابھرا اور 164ھ میں جب وہ حج کے نام پر حجاز کی طرف آیاتو امام موسی کاظم علیہ السّلام کو اپنے ساتھ مکہ سے بغدادلے گیا اور قید کردیا۔ ایک سال تک حضرت اس کی قید میں رہے ۔ پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور حضرت کو مدینہ کی طرف واپسی کاموقع دیا گیا مد4ی کے بعد اس کابھائی ھادی192ھ میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال ایک مینے تک اُس نے حکومت کی ۔ اس کے بعد ھارون الرشید کازمانہ آیا جس میں پھر امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کو آزادی کے ساتھ سانس لینا نصیب نیں ہوا۔
اخلاق واوصاف
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام اسی مقدس سلسلہ کے ایک فرد تھے جس کو خالق نے نوع انسان کے لیے معیار کمال قرار دیا تھا اس لیے ان میں سے ہر ایک اپنے وقت میں بتررین اخلاق واوصاف کا مرقع تھا ۔بے شک یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض افراد میں بعض صفات اتنے ممتاز نظر آتے ہیں کہ سب سے پلےو ان پر نظر پڑتی ہے چنانچہ ساتویں امام میں تحمل وبرداشت اورغصہ کوضبط کرنے کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کالقب کاظم قرار پایا جس کے معنیہیں غصے کو پینے والا ۔ آپ کو کبھی کسی نے تر شروئی اور سختی کے ساتھ بات کرتے نیںی دیکھا اور انتا ئی ناگوار حالات میں بھی مسکراتے ہوئے نظر آئے ۔ مدینے کے ایک حاکم سے آپ کو سخت تکلیفیں پنچیں ۔یہاں تک کہ وہ جناب امیر علیہ السّلام کی شان میں بھی نازیبا الفاظ استعمال کیا کرتا تھا مگر حضرت نے اپنے اصحاب کو ہمیشہ اس کو جواب دینے سے روکا۔
جب اصحاب نے اس کی گستاخیوں کی بہت شکایات کیں اور یہ  کہ ہمیں ضبط کی تاب نیںک ۔ ہمیں اس سے انتقام لینے کی اجازت دی جائے تو حضرت نے فرمایا کہ میں خود اس کاتدارک کروں گا ۔ اس طرح ان کے جذبات میں سکون پیدا کرنے کے بعد حضرت خود اس شخص کے پاس ا سکی زراعت پر تشریف لے گئے اور کچھ ایسا احسان اور سلوک فرما یا کہ وہ اپنی گستاخیوں پر نادم ہوا ا ور اپنے طرزِ عمل کو بدل دیا ۔ حضرت نے اپنے اصحاب سے صورت حال بیان فرماکر پوچھا کہ جو میں نے اس کے ساتھ کیا وہ اچھا تھا یا جس طرح تم لوگ اس کے ساتھ کرنا چاہتے تھے ؟ سب نے کہا یقیناً حضور نے جو طریقہ استعمال فرمایا وہی بترس تھا ۔ اس طرح آپ نے اپنے جدِ بزرگوار حضرت امیر علیہ السّلام کے اس ارشاد کو عمل میں لا کر دکھلایا جو آج تک نجی البلاغہ میں موجود ہے کہ اپنے دشمن پر احسان کے ساتھ فتح حاصل کرو کیونکہ اس قسم کی فتح زیادہ پر لطف اور کامیابےھ۔ بیشک اس کے لیے فریق مخالف کے ظرف کاصحیح اندازہ ضروریہے اور اسی لیے حضرت علی علیہ السّلام نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی فرمایاہے کہ خبردار یہ عدم تشدد کاطریقہ نااہل کے ساتھ اختیار نہ کرنا ورنہ اس کے تشدد میں اضافہ ہوجائے گا۔
یقیناً ایسے عدم تشدد کے موقع کو پچاہننے کے لیے ایسیہی بالغ نگاہ کی ضرورت ہے جیسی امام کو حاصل تھی مگر یہ اس وقت میںہے جب مخالف کی طرف سے کوئی ایسا عمل ہوچکا ہو جو اس کے ساتھ انتقامی جواز پیدا کرسکے لیکن اس کی طرف سے اگر کوئی ایسا اقدام ابھی نہ ہوا تو یہ حضرات برے حال ا س کے ساتھ احسان کرنا پسند کرتے تھے تاکہ اس کے خلاف حجت قائم ہو اور اسے اپنے جارحانہ اقدام کے لیے تلاش کرنے سے بھی کوئی عذر نہ مل سکے ۔بالکل اسی طرح جیسے ابن ملجم کے ساتھ جناب امیر علیہ السّلام نے کیا جو آپ کو شیدر کرنے والا تھا، آخری وقت تک جناب امیر علیہ السّلام اس کے ساتھ احسان فرماتے رہے ۔ اسی طرح محمد ابنِ اسمٰعیل کے ساتھ جو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی جان لینے کاباعث ہوا آپ برابر احسان فرماتے رہے یامں تک کہ اس سفر کے لیے جو اس نے مدینے سے بغداد کی جانب خلیفہ عباسی کے پاس امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی شکائتیں کرنے کے لیے کیا تھا ، ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درہم کی رقم خود حضرت ہی نے عطا فرمائی تھی جس کو لے کر وہ روانہ ہوا تھا ۔ آپ کو زمانہ بہت ناساز گار ملا تھا ۔ نہ اس وقت وہ علمی دربار قائم رہ سکتا تھا جوامام جعفر صادق علیہ السّلام کے زمانہ میں قائم رہ چکا تھا نہ دوسرے ذرائع سے تبلیغ واشاعت ممکن تھی ۔ بس آپ کی خاموش سیرتیو تھی جو دنیا کو آلِ محمد کی تعلیمات سے روشناس کراسکتی تھی۔
آپ اپنے مجمعوں میں بھی اکثر بالکل خاموش رہتے تھے یاذں تک کہ جب تک آپ سے کسی امر کے متعلق کوئی سوال نہ کیا جائے آپ گفتگو میں ابتدا بھی نہ فرماتے تھے ۔ اس کے باوجود آپ کی علمی جلالت کا سکہ دوست اور دشمن سب کے دل پر قائم تھا اور آپ کی سیرت کی بلندی کو بھی سب مانتے تھے اسی لیے عام طور پر آپ کو کثرت عبادت اور شب زندہ داری کی وجہ سے عبد صالح کے لقب سے یاد جاتا تھا ۔ آپ کی سخاوت اور فیاضی کابھی خاص شر ہ تھا۔آپ فقرائے مدینہ کی اکثر پوشیدہ طور پر خبر گیری فرماتے تھے۔ ہر نماز کے صبح کی تعقیبات کے بعد آفتاب کے بلند ہونے کے بعد سے پیشانی سجدے میں رکھ دیتے تھے اور زوال کے وقت سراٹھاتے تھے ۔ پاس بیٹھنے والے بھی آپ کی آواز سے متاثر ہو کر روتےرہتے تھے۔
170ھ میں ھادی کے بعد ھارون تخت خلافت پر بیٹھا ۔ سلطنت عباسیہ کے قدیم روایات جو سادات بنی فاطمہ کی مخالفت میں تھے اس کے سامنے تھے خود اس کے باپ منصور کارویہ جو امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف تھا اسے معلوم تھا اس کا یہ ارادہ کہ جعفر صادق علیہ السّلام کے جانشین کو قتل کر ڈالاجائے یقیناً اس کے بیٹے ھارون کو معلوم ہوچکا ہوگا ۔ وہ تو امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حکیمانہ وصیت کا اخلاقی دباؤ تھا جس نے منصور کےہاتھ باندہ دیئے تھے اور شرع بغداد کی تعمیر کی مصروفیت تھی جس نے اسے اس جانب متوجہ نہ ہونے دیا تھا ورنہ اب ھارون کے لیے ان میں سے کوئی بات مانع نہ تھی ۔ تخت سلطنت پر بیٹھ کر اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سب سے پلےی اس کے ذہن میں تصور پیداہوسکتا تھا کہ اس روحانیت کے مرکز کو جو مدینہ کے محلہ بنیہاشم میں قائم ہے توڑنے کی کوشش کی جائے مگر ایک طرف امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کامحتاط اور خاموش طرزِ عمل اور دوسری طرف سلطنت کے اندرونی مشکلات جن کی وجہ سے نوبرس تک ھارون کو بھی کسی امام کے خلاف کھلے تشدد کا موقع نیں ملا۔
شہادت
سب سے آخر میں امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سندی بن شاہک کے قید خانے میں رکھے گئے یہ شخص بہت ہی بے رحم اور سخت دل تھاآخر اسی قید میں حضرت کوانگور میں زہر دیا گیا 25رجب 183ھ میں 55 سال کی عمر میں حضرت کی شائدت ہوئی۔ بعد شاقدت آپ کے جسد مبارک کے ساتھ بھی کوئی اعزاز کی صورت اختیار نیںش کی گئی بلکہ حیرتناک طریقے پر توہین آمیز الفاظ کے ساتھ اعلان کرتے ہوئے آپ کی لاش کو قبرستان کی طرف روانہ کیا گیا۔مگر اب ذرا عوام میں احساس پیداہو گیا تھا اس لئے کچھ اشخاص نے امام کے جنازے کو لے لیا اور پھر عزت و احترام کے ساتھ مشایعت کر کے بغداد سے باہر اس مقام پر جواب کاظمین کے نام سے مشومر ہے دفن کیا۔
http://alhassanain۔org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button