حضرت فاطمہ زھراؑسلائیڈرسیرت کتبلائبریری

مخدومہ کونین جناب سیدہ فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا

مخدومہ کونین جناب سیدہ فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا

تالیف:علامہ الشیخ محمد علی فاضل رحمۃ اللہ علیہ

تعارف

نام :مشکوٰۃ ِ نورِ خدا، دخترِ خاتم الانبیاء، زوجہ سید الاولیاء، مادر ائمہ ہدیٰ، ام ابیہا، صدیقہ کبریٰ فاطمہ زہرا صلواۃ اللہ علیہا وعلیٰ ابیہا و بعلہا و بنیہا، کا نام نامِ نامی اسم گرامی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہے۔
کنیت : ام ابیہا، ام الحسنین، ام السبطین۔
لقب : زہرا ؑ، صدیقہ کبریٰ، بتولِ عذرا، سیدۃ النساء، سیدۃ نساء اہل الجنہ، طاہرہ مطہرہ۔
والدِ گرامی : خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ
والدہ ماجدہ :جناب خدیجہ بنت خویلد اسدی سلام اللہ علیہا، اور یہ وہ باعظمت خاتون ہیں جنہیں سب سے پہلے حضرت رسول خدا ﷺکی زوجیت کا شرف حاصل ہوا ہے اور کائنات کی پہلی خاتون ہیں جنہیں آنحضرت ﷺ کی تصدیق کا اعزاز ملا پچیس (۲۵) سال تک سرورِ کائنات کے ساتھ ہم نشینی کے شرف سے مشرف رہیں، آنحضرت ﷺکی دس سالہ مکی زندگی کی رسالت کا عرصہ درک کیا۔
حضرت سیدۃ النساء مخدومہ کونین فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مادرِ گرامی بننے کا شرف بھی آپ ہی کو حاصل ہے، اسلام کے لئے جس قدر آپ کی خدمات ہیں ان کے بیان کرنے کے لئے ایک عرصہ چاہئے۔
مستدرک حاکم ج۳ ص ۱۸۶ اور کتاب معرفۃ الصحابہ میں ہے کہ :
حضرت خدیجہ الکبریٰ ؑ کی شان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خداوند عالم نے جناب جبرائیل کے ذریعہ آپ ؑ کو سلام بھیجا ہے، چنانچہ روایت میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت ﷺسے کہا:`
’’اِنَّ اللّٰہَ یَقْرَء عَلیٰ خَدِیْجَۃَ السَّلَام ‘‘
تو جناب خدیجہ نے بھی جواب میں عرض کیا :
’’اِنَّ اللّٰہ ہُوَا لسَّلَامُ وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ‘‘
بے شک خدا وند عالم ہی سلام ہے اور آپ پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔
تاریخ یعقوبی جلد۲ ص۲۱ میں ہے کہ:
جب جناب خدیجۃ الکبریٰ (س) کی رحلت ہوئی تو اس وقت جناب مخدومہ کونین (ع) پانچ سال کی تھیں اور اپنے والد جناب رسالت مآب ﷺ سے لپٹ کر اور رو رو کر اپنے بابا سے پوچھنے لگیں بابا! میری اماں کہاں ہیں ؟ میری اماں کہاں ہیں ؟ کہتی جاتی تھیں اور آنسو بھی بہاتی جاتی تھیں، اتنے میں جبرائیلِ امین علیہ السلام نازل ہوئے کہا: ’’یارسول اللہ ! فاطمہ ؑ سے کہئے کہ وہ پریشان نہ ہوں، خداوندِ عالم نے ان کیلئے بہشت میں موتیوں کا محل تیار کیا ہوا ہے جس سے وہ ہر طرح کی نعماتِ خداوندی سے بہرہ ور ہوں گی اور وہاں پر ہر قسم کے رنج و غم سے محفوظ ہیں۔‘‘
ولادت باسعادت :کافی کلینی ؒ کے مطابق آپؑ کی ولادت باسعادت بیس جمادی الثانیہ سال پنجم بعثت اور آٹھ سال قبل ہجرت ہوئی۔مقام ولادت: مکہ معظمہ، شہادت: اس بارے میں مختلف اقوال ہیں
اول : آپ ؑ کی شہادت ۲۸ /ربیع الثانی ۱۱ ھ میں ہوئی، اس لحاظ سے آپ اپنے والدِ گرامی کی وفات کے بعد ساٹھ دن تک زندہ رہیں۔
دوم: اصولِ کافی کے بقول آپ کی شہادت ۱۳/جمادی الاولیٰ ۱۱ ھ میں ہوئی، تو اس لحاظ سے آپ اپنے والدِ گرامی کی وفات کے بعد پچھتر (۷۵)دن تک زندہ رہیں
سوم: آپ کی شہادت ۳/جمادی الآخرۃ ۱۱ ھ میں ہوئی، تو اس لحاظ سے آپ اپنے بابا کی وفات کے بعد پچانوے (۹۵)دن زندہ رہیں۔ (مرأ ۃ الاصول جلد ۵ ص ۳۱۳، مصباح کفعمی)
مدفن: جنت البقیع (مدینہ منورہ)
جبکہ مرحوم شیخ آپ کے بقیع میں دفن ہونے والی روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :
’’وَالصَّحِیْحُ عِنْدِیْ أَنَّھَا دُفِنَتْ فِیْ بَیْتِہَا، فَلَمَّا زَادَ بَنُوْا أُمَیَّۃَ فِی الْمَسْجِدِ صَارَتْ فِی الْمَسْجِدِ‘‘
میرے نزدیک صحیح یہی ہے کہ آپ کو اپنے گھر ہی میں دفن کیا گیا، جب بنو امیہ نے مسجد نبوی ؐ میں توسیع کی تو وہ گھر مسجد میں شامل ہو گیا۔
اس روایت کو بزنطی نے امام رضا علیہ السلام سے نقل کیا ہے، اور شیخ طوسی ؒ نے بھی اسے ہی صحیح قرار دیا ہے۔
(بحار الانوار جلد۳ ص ۱۸۷ )
مدتِ عمر: اٹھارہ سال
اولادِ امجاد:۱۔ حضرت امام حسن علیہ السلام
۲۔ حضرت امام حسین علیہ السلام
۳۔ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا
۴۔ زینب صغریٰ ام کلثوم زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا
۵۔ حضرت محسن شہید،جو ظالموں کے ظلم کی وجہ سے شکم مادر سے گر کر شہید ہو گئے تھے،معارفِ قیتبی کے مطابق محسن شہید کی شہادت غلام قنفذ کے تازیانوں کے ساتھ ظلم کی وجہ سے ہوئی۔ (مناقب جلد ۳ ص۳۵۸)

حضرت فاطمہ زہرا ؑ محدثہ ہیں

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’حضرت فاطمہ زہرا (ع)اپنے والدکی وفات کے پچھتر دن بعد تک زندہ رہیں، بابا کی موت کا صدمہ ان کے لئے سخت ناقابلِ برداشت تھا، ہر وقت اپنے والد کی موت کے غم میں غمگین رہتیں، حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آیا کرتے اور آپ کو اپنے والدِ گرامی کی تسلیت دیا کرتے تھے، جس سے آپ کے دل کو سکون حاصل ہو جاتا، جبرائیل آپ کو حضرت رسالتمآب ؐ اور ان کے مقام و منزلت سے آگاہ کیا کرتے تھے، اور انہیں بتایا کرتے تھے کہ آپ ؑ کی وفات کے بعدیہ امت آپ کی اولاد کے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟ اور حضرت علی علیہ السلام یہ سب کچھ لکھ لیا کرتے تھے‘‘
روایت کے الفاظ ہیں : ’’عَنْ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلَام علیہ السلام قَالَ: اِنَّ فَاطِمَۃَ (عَلَیْہَا السَّلَامُ) مَکَثَتْ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ص) خَمْسَۃً وَّ سَبْعِیْنَ یَوْماً وَّکَانَ دَخَلَہَا حُزْنٌ شَدِیْدٌ عَلٰی أَبِیْہَا، وَکَانَ یَأْتِیْہَا جِبْرَآئیلُ فَیُحْسِنُ عَزَآئہا عَلیٰ أَبِیْہَا، وَیُطِیْبُ نَفْسَہَا وَیُخْبِرُہَا عَنْ أَبِیْہَا وَمَکَانِہٖ وَیُخْبِرُہَا بِمَا یَکُوْنَ بَعْدَہَا فِیْ ذُرِّیَّتِہَا وَکَانَ عَلِیٌّ علیہ السلام یَکْتُبُ ذَالِکَ ‘‘

عظمتِ زہرا (ع):

۱۔ ابھی آپ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائے کہ :’’کان یأتیہا جبرائیل …‘‘جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب جبرائیل علیہ السلام ان کے پاس ۷۵ دن تک بلا ناغہ آتے رہے، اس سے جناب زہرا (ع)کی عظمت نمایاں اور واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے‘‘
۲۔ اصول کافی جلد اول ص۲۳۹باب ذکرِ صحیفہ …میں ہے کہ :
حضرت علی علیہ السلام جو کچھ جبرائیل (ع) سے سنتے اسے قلم بند کر لیتے تھے، اور اسی کا نام ’’مصحفِ فاطمہ ؑ ‘‘ رکھا
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ابو بصیر سے فرماتے ہیں :
’’مصحفِ فاطمہ ؑ ہمارے پاس ہے اور لوگوں کو کیا معلوم کہ ’’مصحفِ فاطمہؑ‘‘ کیا ہے ؟‘‘میں نے عرض کیا : ’’مصحفِ فاطمہ ؑ کیا ہے؟‘‘فرمایا:’’ایسی کتاب ہے جو قرآن سے تین گنا زیادہ ہے اور خدا کی قسم اس کا ایک حرف بھی قرآن سے نہیں ہے ‘‘۔
___بالفاظِ دیگر اس میں حلال و حرام کے شرعی احکامات نہیں بلکہ آئندہ کا علم درج ہے ___
جیسا کہ اس بات کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ حماد بن عثمان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’۱۲۸ ھ میں کچھ زندیق (لادین )لوگ پیدا ہوں گے، میں نے مصحفِ فاطمہ ؑ میں ایسا ہی دیکھا ہے ‘‘میں نے پوچھا : ’’مصحفِ فاطمہ ؑ کیا ہے ؟‘‘
فرمایا:
’’جب حضرت رسول خدا ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے تو حضرت فاطمہ زہرا (س)اس قدر غمگین ہوئیں کہ جسے خدا ہی بہتر جانتا ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ بھیجا جو ان کو تسلی دیتا اور ان سے باتیں کرتا تھا، اور حضرت علی علیہ السلام اس سے جو کچھ بھی سنتے اسے تحریر فرما لیتے تھے اور یہ تحریر ایک کتاب کی صورت اختیار کر گئی ‘‘اور پھر فرمایا:’’اس کتاب میں شریعت کے حلال و حرام کے مسائل کا بیان نہیں ہے بلکہ آئندہ کا علم موجود ہے ‘‘(اصولِ کافی جلد۱ ص۲۴۰)

نوٹ :
۳۔ یہ فضیلت صرف دو مخدرات عصمت و طہارت کو حاصل ہے ایک حضرت زہرا ؑ ہیں اور دوسری حضرت مریم مادرِ حضرت عیسیٰ علیہما السلام ہیں، جیسا کہ قرآنِ مجید کے دو سوروں آلِ عمران اور مریم میں ہے کہ :’’ملائکہ نے حضرت مریم کو پکارا اور ایک فرشتہ ان کے پاس آیا جیساکہ سورہ مریم کی آیت ۱۷ میں ہے :’’…فَأَرْسَلْنَا اِلَیْہَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا‘‘ پس ہم نے مریم ؑ کی طرف اپنا ایک فرشتہ بھیجا اور وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔

آیت تطہیر ___اور ___حضرت زہرا (ع)

جہاں پر چہاردہ معصومین علیہم السلام میں حضرت زہرا (ع)ہی صرف ایک خاتون شامل ہیں وہاں پر آپ نبوت و امامت کے درمیان ایک حلقۂ اتصال بھی ہیں، کیونکہ اللہ جل شانہ نے سرکار رسالتمآب کی نسل کی حفاظت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ذریعہ فرمائی ہے، ورنہ آنحضرت ﷺکی نسل کا وجود ہی نہ ہوتا، اور اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے سرکار رسالت مآب کو ’’اِنَّا أَعْطَیْنَا کَ الْکَوْثَر‘‘ کے حکم کے مطابق جو ’’کوثر‘‘ عطا فرمایا ہے اس کا ایک عظیم مصداق زہرائے مرضیہ کی ذات ہے تو بجا ہو گا۔
حضرت فاطمہ زہرا (ع)اللہ کے رسول ؐ کی بیٹی، اللہ کے ولی کی بیوی اور اللہ کے اوصیاء کی ماں ہیں کہ جن کی عصمت و طہارت کی گواہی خداوند عالم نے آیتِ تطہیر میں دی ہے، اور آپ ہی گزشتہ اور قیامت تک آنے والی عورتوں کی سردار بھی ہیں، کیونکہ (روضۃ الواعظین ص۱۸۰ میں ہے کہ ) آپ کے بارے میں آپ کے والدِ گرامی نے ارشاد فرمایا ہے :
’’سَیِّدَۃُ نِسَآءِ الْعَالَمِیْنَ مِنَ الْاَ وَّلِیْنَ وَ الْآخِرِیْن‘‘
ایک دن حضرت رسالت مآب ؐ اپنی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تشریف فرما تھے، تو حضرت فاطمہ زہرا (ع) آنجناب ؐ کے لئے کھانا لے کر آئیں تو سرکارِ رسالت مآب ؐ نے فرمایا :
’’زہرا ؑ بیٹی ! جاؤ اپنے شوہر اور اپنے بیٹوں حسن ؑاور حسین ؑ کو میرے پاس لے آؤ!‘‘چنانچہ جناب فاطمہ زہرا ؑ گئیں اور انہیں بلا کر لے آئیں تو آنحضرت ﷺنے ان چاروں کے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔
حضرت ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ:
میں گھر کے ایک کونے میں نماز پڑھ رہی تھی اور رسول خدا ؐ ایک بستر پر تشریف فرما تھے اور آپ کے نیچے خیبر کی بنی ہوئی عبا(چادر) بچھی ہوئی تھی، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :
’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا‘‘(احزاب /۳۳)
یعنی خدا تو بس چاہتا ہی یہی ہے اے اہل، بیت ؑ تم سے ہر پلیدی کو دور رکھے اور تمہیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ بنائے رکھے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضورِ گرامی ؐنے فوراً عبا کو اپنے اور ان کے سر پر لے لیا اور عبا کے اندر سے اپنا ہاتھ بلند کر کے کہا:
’’اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَآء اَہْلُ بَیْتِیْ وَخَآصَّتِیْ فَاَذْھِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرَہُمْ تَطْہِیْراً‘‘
یعنی بارالٰہا!یہی میرے اہل ِ بیت ہیں اور یہی میرے خواص ہیں کہ جنہیں میں نے چادر میں لیا ہوا ہے، لہٰذا تو ان سے ہر قسم کی پلیدی کو دور رکھ اور انہیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ بنائے رکھ۔
آنحضرت ؐ نے اپنے اور ان چاروں کے سر پر چادر ڈال کر یہ بتلا دیا کہ آیت کا مصداق پنجتن پاک ؑ ہیں۔
حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنا سر عبا کے اندر کرکے کہا :
’’یا رسول اللہ !کیا میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہوں ؟‘‘
تو سرکار نے فرمایا:
’’تم خیر پر ہو، تم خیر پر ہو ‘‘
جبکہ ایک اور روایت کے مطابق آنحضرت ؐ نے عبا کو ان کے ہاتھ سے کھینچ لیا اور فرمایا:
’’تو خیر پر ہے ‘‘
تو اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے ان ذواتِ قدسیہ کے پاک و مطہر ہونے کی گواہی دی ہے جن میں جناب فاطمہ زہرا ؑ بھی شامل ہیں۔
چند قابلِ غور نکات :
یہاں پر چند نکات نہایت ہی غور طلب ہیں
۱۔ اس آیت سے پہلے اور بعد میں جتنے بھی خطابات مذکور ہیں وہ سب حضرت رسالت مآب ﷺ کی ازواجِ محترمہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور جمع مؤنث کے صیغوں کو استعمال کیا گیا ہے، مثلاً پہلی آیت میں ہے :’’کُنْتُنَّ‘‘، ’’تَعَالَیْنٍَ‘‘، ’’اُمَتِّعْکُنَّ‘‘، ’’اُسَرِّحْکُنَّ‘‘، ’’مِنْکُنَّ‘‘، ’’اِتَّقَیْتُنَّ‘‘ وغیرہ اور بعد والی آیت میں ہے ’’وَاذْکُرْنَ‘‘،’’فِیْ بُیُوْتِکُنَّ‘‘ اور ان تمام جمع مؤنث کے صیغوں کے درمیان ایک مرتبہ اندازِ گفتگو بدل جاتا ہے اور تمام صیغوں کو جمع مذکر کی صورت میں لایا جاتا ہے کہ ’’لِیُذْہِبَ عَنْکُم ‘‘اور ’’یُطَہِّرَکُمْ ‘‘۔
لہجے اور گفتگو کی اس تبدیلی سے معلوم ہوتا ہے ’’ عَنْکُمْ ‘‘اور ’’یُطَہِّرَکُمْ‘‘ کے ساتھ جن لوگوں کو مخاطب کیا جا رہا ہے وہ سب مرد ہیں یا اگر کوئی عورت ہے تو وہ اقلیت میں ہے، اور پھر یہ کہ تمام مفسرین اور محدثین نے آیت کے اس حصے کو ایک ایسا مستقل عنوان دیا ہے جس کا نہ تو اپنے ماقبل سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی بعد سے۔
۲۔ ’’اِذْھَابِ رِجْسْ‘‘ ___یا پلیدیوں کے دور رکھنے ___سے مراد یقینا ہر طرح کی نجاست اور پلیدی ہے، چاہے وہ شرک اور کفر ہو یا نا شائستہ عمل، سب نجاستوں اور پلیدیوں میں شامل ہیں اور یہ اہلِ بیت ؑ سے دور ہیں، اور ’’تطہیرِ شدید‘‘سے مراد، اعتقادِ حق اور اعمالِ صالحہ کے لئے ہر وقت آمادہ رکھنا ہے جسے دوسرے لفظوں میں ’’عصمتِ الٰہیہ ‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے، اور ’’أَللّٰہُ یَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ‘‘ ___ خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا امین کسے قرار دے؟ کے حکم کے مطابق رسول اللہ کے اہلِ بیت ( علیہم السلام )ہی اس کرامت، عنایت اور شرافت کے صحیح حقدار ہیں۔
۳۔ آیت میں موجود لفظ ’’یُرید‘‘ تحَقُّق اور دوام ___کام کے ہو جانے اور اس کے باقی رہنے، ___پر دلالت کر رہا ہے، اور ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ مستقبل میں ارادہ کرے گا بلکہ یہ حقیقت اہل بیت کے بارے میں وقوع پذیر ہو چکی ہے اور اس کا سلسلہ جاری ہے، اور پھر ارادہ سے مراد تکوینی ارادہ ہے تشریعی ارادہ نہیں۔
۴۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ ’’انما‘‘ ایک ایسا کلمہ ہے جو حصر پر دلالت کرتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ رجس اور پلیدی کی دوری اور طہارت کے حصول میں منحصر ہے، اور پھر ’’اہل البیت‘‘ کا منصوب ہونا یاتو ان کی مدح کے لئے ہے یااختصاص اور ندا کی وجہ سے ہے جو اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ نجاست کی دوری اور طہارت کا حصول صرف اہلِ بیت علیہم السلام ہی سے مخصوص ہے، باالفاظِ دیگر آیت میں دو حصر موجود ہیں، ایک تو خدا کے ارادہ کا حصر نجاست کی دوری اور طہارت کے حصول کے لئے اور دوسرا اس ارادے کا حصر صرف اہلِ بیت علیہم السلام کے لئے ہے اور اسی بناء پر حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں اللہ نے پاک کیا ہے اور ان کی پاکیزگی کی قرآن میں گواہی دی ہے۔
امام سیوطی اپنی کتاب ’’الدر المنثور ‘‘میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ :
’’میں نو مہینوں تک دیکھتا رہا کہ حضرت رسات مآب روزانہ ہر نماز کے وقت علی (ع)کے دروازے پر آکر کہا کرتے تھے :
’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ أَہْلَ الْبَیْتِ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا‘‘
بنا بریں اگر دیکھا جائے تو حضور اکرم (ص)نے اسی آیت تطہیر کو علی ؑ اور فاطمہ (علیہما السلام )کے دروازے پر ایک ہزار تین سو پچاس مرتبہ پڑھ کر واضح کر دیا کہ یہ آیت صرف اور صرف اس گھر والوں کے بارے میں ہے، ہم نے ابھی بتایا ہے کہ آیت تطہیر کو ایک ہزار تین سو پچاس مرتبہ پڑھا ہے تو اس کی تفصیل یوں ہے
کل :۹ماہ، ہر ماہ ۳۰دن ۹*۳۰=۲۷۰ ہر روز ۵ مرتبہ =کل ۱۳۵۰مرتبہ
یادر ہے کہ اس حدیث کو ہم نے مسند احمد بن حنبل جلد ششم ص۲۹۲،۲۹۳ اور ’’اسباب النزول ‘‘واحدی، سے نقل کیا ہے، اور یہاں پر تکمیل مقصد کے لئے مرحوم سید شرف الدین عاملی کے ان کلمات کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب ’’الکلمۃ الغراء فی تفضیل الزہراء ‘‘میں ذکر فرمایا ہے، مرحوم سید شرف الدین آیت مجیدہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’اس میں تو کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ اس آیت میں ’’اہل البیت ؑ ‘‘سے مراد پنجتن پاک(ع) ہیں …جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر ’’الدرالمنثور ‘‘میں مختلف طریقوں کے ساتھ بیس روایات کو نقل کیا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ اس آیت میں ’’اہل البیت ؑ ‘‘سے مراد پنجتن پاک (ع)ہیں اور بس ‘‘(ملاحظہ ہو کتاب شرف المؤبد نبہانی مقصد اول )
اسی طرح مذکورہ کتاب ہی میں ہے کہ ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں مختلف اسناد کے ساتھ پندرہ روایات کو نقل کیا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ یہ آیت پنجتن پاک ؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
نیز کتاب کافی میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :
’’یہ آیت پانچ افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، میرے، علی و فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کے بارے میں ‘‘
تمام اہلِ قبلہ کے اسلامی مذاہب کا اس بات پر اجماع ہے کہ : ’’جب تطہیر کی وحی پیغمبر عالی قدر پر نازل ہوئی تو آپ ؐ نے اپنے دونوں نواسوں، ان کے ماں باپ اور خود کو ایک عبا کے نیچے لے لیا تاکہ دوسرے لوگوں سے جدا ہو جائیں اور کوئی دوسرا شخص اس میں طمع نہ کرے، پھر آپ نے آیت تطہیر کو پڑھا، اور پھر صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے سیدھے ہاتھ کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہا:
’’اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَآء اَہْلُ بَیْتِیْ وَخَآصَّتِیْ فَاَذْھِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرَہُمْ تَطْہِیْراً‘‘
اس وقت حرم رسول اللہ (ص) حضرت ام سلمہ ؓ بھی یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھیں، انہوں نے سرکار رسالت مآب کی خدمت میں عرض کیا :
’’میں بھی آپ کے ساتھ ہوں ؟‘‘
یہ کہا اور عبا کو اوپر اٹھایا تاکہ اس کے نیچے آ جائیں، مگر رسول پاک ؐ نے عبا کو کھینچ لیا اور فرمایا :
’’اِنَّکِ عَلیٰ خَیْر‘‘ بے شک آپ خیر پر ہیں۔
اس کے علاوہ طرق ِ اہلِ بیت ؑ سے ان ہی کے بارے میں بے حد و حساب صحیح اور متواتر روایات موجود ہیں۔
تفسیر المیزان میں اہلِ سنت کی روایات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بتایا گیا ہے کہ :
’’شیعہ حضرات اسے علی بن ابی طالب ؑ، امام زین العابدین ؑ، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام، حضرت ام سلمہ، حضرت ابوذر غفاری، حضرت ابی لیلیٰ، ابو الاسود د، عمرو بن میمون اور سعد بن ابی وقاص سے بھی نقل کرتے ہیں ‘‘۔

جس سے فاطمہ ؑ راضی، اس سے اللہ راضی

کوئی انسان کمال اور تقویٰ کے جس قدر اعلیٰ مدارج پر کیوں نہ پہنچ جائے پھر بھی اس حد تک نہیں پہنچ سکتا کہ اس کی رضا خدا کی رضا اور اس کی ناراضی، خدا کی ناراضی قرار پائے، کیونکہ وہ بہت سے کاموں میں غلطیوں کا ارتکاب کر سکتا ہے اور غلط فہمیوں کا شکار ہو سکتا ہے، بلکہ ہو جاتا ہے، اور یہ فقط معصومین علیہم السلام ہی ہیں کہ وہ جس شخص یا جس چیز سے راضی ہیں اللہ بھی اس سے راضی ہے، اور جن سے یہ ناراض ہیں اس سے اللہ بھی ناراض ہے، اس لئے کہ معصومین علیہم السلام اللہ کی رضا کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔
صدیقہ طاہرہ، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا زہد و تقویٰ اور عصمت و طہارت کے اس مرتبہ پر فائز ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) آپ ؑ کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’اِنَّ اللّٰہَ یَغْضِبُ لِغَضَبِ فَاطِمَۃَ وَیَرْضیٰ لِرِضَاہَا‘‘ کہ اللہ تعالیٰ فاطمہ ؑ کی ناراضی کی وجہ سے ناراض ہوتا ہے اور ان کی رضا کی وجہ سے راضی ہوتا ہے، اس حدیث کو ابو حمزہ ثمالی امام محمد باقر علیہ السلام سے وہ اپنے والدِ گرامی سے وہ اپنے جد امجد سے روایت کرتے ہیں، اور فتال نیشا پوری نے اسے اپنی کتاب روضۃ الواعظین ص۱۸۰ مجلس ۱۵ میں، مرحوم مجلسی رضوان اللہ علیہ نے چار اسناد کے ساتھ مجالسِ مفید سے احتجاج طبرسی اور عیون اخبار الرضا (ع) سے نقل فرمایا ہے۔
اس کے مطالعہ کے لئے ہم آپ کو بحار الانوار جلد ۴۳ ص۱۹ کے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں۔
ہم سب کو معلوم ہے کہ حضرت رسالتمآب (ص) جذبات کے تابع نہیں تھے لہٰذا یہ سوچ بالکل غلط ہو گی کہ آپ ؑ شفقتِ پدری کے جذبہ سے مغلوب ہو کر یا محبت اولاد کے تابع ہو کر ایسے جذبات کا اظہار کریں، بلکہ آپ نے جو کچھ فرمایا وہ بالکل حق اور سچ ہے، اور ایک واقعیت ہے، اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ایک ’’فَانِی فِی اللہ‘‘ خاتون تھیں یعنی وہ کام انجام دیتیں جس میں خدا وند عالم کی رضا ہوتی تھی، اور ایسے کام سے اجتناب فرماتی تھیں جس سے خدا راضی نہیں ہوتا تھا، اسی چیز کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے قلم اور بیان میں اس قدر طاقت نہیں ہے کہ ان کی اس منقبت اور فضیلت کو کماحقہٗ بیان کر سکیں۔
یہ ایک قابلِ درک مگر ہر قسم کی توصیف سے بالا تر فضیلت ہے، اور آنجناب سلام اللہ علیہا کی عصمت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے، مکتبِ خلفاء کی کتب میں بھی اس حدیث کو نقل کیا گیا ہے کہ :
’’قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمْ لِفَاطِمَۃَ اِنَّ اللّٰہَ یَغْضِبُ لِغَضَبِکِ وَیَرْضیٰ لِرِضَاکِ ‘‘
کہ حضرت رسالت مآب ﷺنے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ناراضی سے ناراض ہوتا ہے اور تمہاری رضا سے راضی ہوتا ہے۔
(ملاحظہ ہو کتاب ’’الکلمۃ الغراء فی تفضیل الزہراء ص۲۵۰، جو فصول المہمہ کے ساتھ شائع ہوئی ہے ‘‘)اور طبری نے بھی اسے ’’ذخائر العقبیٰ ص۳۹‘‘ میں نقل کیا ہے۔

من آذاہا فقد آذانی

جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
’’ جس نے فاطمہؑ کو ستایا اس نے مجھے ستایا، حضور کا یہ فرمان بھی در حقیقت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی عظمت پر ایک بیّن دلیل ہے، جہاں پر خداوند عالم حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی رضا سے راضی اور ناراضی سے ناراض ہوتا ہے، وہاں پر فاطمہ ؑ کی ایذا رسانی کوئی معمولی گناہ نہیں بلکہ رسول خدا ؐ کی ایذا رسانی جیسا گناہ ہے ‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ حضرت رسالت مآب ؐ کی رحلت کے فوراً بعد کچھ لوگوں نے جنابِ زہرا سلام اللہ علیہا کو اس قدر اذیتیں پہنچائیں جن کو تصور میں بھی نہیں لایا جا سکتا اور پھر سیاسی مصلحتوں کی خاطر ان سے معافی مانگنے کی کوشش کی، لیکن چونکہ انہوں نے آنجناب سلام اللہ علیہا کو اس قدر ستایا تھا کہ آپ نے مرتے دم تک نہ تو انہیں معاف کیا اور نہ ہی ان سے بات کی۔
اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ رحلت رسول اکرم ﷺ کے بعد کچھ لوگوں نے سیدہ مظلومہ ؑکو اس قدر ستایا اور دکھ دئیے کہ آپ ؑ درد ناک لہجے میں اس قسم کے بین کیا کرتی تھیں :
صُبَّتْ عَلَیَّ مَصَآئب لَّوْ اَنَّہا
صُبَّتْ عَلَی الْاَیَّامِ صِرْنَ لَیَالیا
مجھ پر مصیبتوں کے اس قدر پہاڑ ڈھائے گئے کہ اگر وہ دنوں پر پڑتے تو وہ سیاہ راتیں ہو جاتے۔
لیکن جب ان لوگوں کا مقصد و منشاء حاصل ہو گیا تو پھر سیاسی مصلحتوں کے پیشِ نظر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے قریب کے زمانے میں ان سے معافی مانگنے کی کوشش کی تاکہ دنیا کو بتائیں کہ دخترِ رسول ﷺ مرتے وقت ہم سے راضی گئی تھیں۔
چنانچہ مرض الموت کے وقت وہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی مگر سیدہ ؑ نے انہیں اجازت نہیں دی، مگر ان میں سے ایک نے عہد کر لیا کہ جب تک جنابِ زہرا ؑ شرفِ باریابی عطا کر کے انہیں معاف نہیں کریں گی اس وقت تک وہ کسی چھت کے سایہ میں نہیں بیٹھے گا، لہٰذا وہ رات کو جنت البقیع میں سویا کرتا تھا۔
اس کا دوسرا ساتھی حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور اس کے بارے میں ان سے عرض کیا: ’’وہ ایک بوڑھا مگر کمزور انسان ہے، اس کا دل بڑا نرم ہے اسے بہت بڑی فضیلتیں حاصل ہیں، ہم مل کر کئی مرتبہ آپ کے درِ دولت پر حاضر ہوئے ہیں تاکہ ہم فاطمہ زہرا ؑ پر کئے ہوئے اپنے مظالم کی معافی مانگیں، مگر حضرت زہرا ؑ نے ہمیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی، اگر آپ مہربانی فرمائیں تو ہمارے لئے ان سے ملاقات کی اجازت حاصل کریں ‘‘
امام علی علیہ السلام نے ان کی بات مان لی اور جناب زہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایا:
’’دخترِ رسولؐ! آپ ان لوگوں کے سلوک کو تو اچھی طرح جانتی ہیں، وہ کئی مرتبہ آپ کے دروازے پر آئے مگر آپ نے انہیں اجازت نہیں بخشی، اب انہوں نے میرے ذریعے اجازت مانگی ہے اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟‘‘
جناب زہرا سلام اللہ علیہا نے جواب دیا:
’’خدا کی قسم میں ان سے ہر گز نہیں بولوں گی اور نہ انہیں اندر آنے کی اجازت دوں گی، اور اپنے بابا سے ملاقات کرکے اُنہیں ان لوگوں کے مظالم کی شکایت کروں گی‘‘
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
’’زہرا ؑ! میں نے انہیں آپ سے ملاقات کرانے کا قول دیا ہے‘‘
جنابِ زہرا ؑ نے عرض کیا:
’’اب جبکہ آپ ؑ نے ان کو قول دیا ہے تو آپ مالک ہیں یہ آپ کا گھر ہے اور عورتیں اپنے مردوں کے تابع فرمان ہوتی ہیں، مَیں آپ کے فرمان کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتی، آپ مالک ہیں جسے چاہیں اندر بلا سکتے ہیں !‘‘
امام علی علیہ السلام گھر سے باہر آ گئے اور انہیں اندر آنے کی اجازت عطا فرمائی جب ان کی نگاہ حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا پر پڑی تو انہوں نے آپ کو سلام کیا مگر جنابِ زہرا (ع) نے ان کے سلام کا جواب ہی نہیں دیا بلکہ دیوار کی طرف منہ کر لیا، وہ ادھر آ گئے مگر آپ نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔
ان میں سے ایک شخص نے کہا: ’’اے دخترِ رسول ؐ! ہم آپ کے پاس اس لئے حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ ہمیں معاف کر دیں اور ہم سے راضی ہو جائیں ‘‘ بی بی نے فرمایا:
’’میں اپنے بابا سے ملاقات تک تم میں سے کسی کے ساتھ بھی بات نہیں کروں گی اور جو سلوک تم نے میرے ساتھ کیا ہے میں اس کی شکایت اپنے بابا سے جا کر کروں گی‘‘
اس نے کہا: ’’ہم معذرت چاہتے ہیں اور آپ کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے حاضر ہوئے ہیں، آپ ہمیں معاف کر دیں اور ہماری کارستانیوں کا ہم سے مواخذہ نہ کریں !‘‘
اس کے بعد حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے علی بن ابی طالب علیہ السلام کی طرف منہ کر کے کہا:
’’یاعلی ؑ ! ان میں سے کسی کے ساتھ بھی نہیں بولوں گی اور اس وقت تک ان سے بات نہیں کروں گی جب تک کہ وہ مجھے حضرت رسول خدا ﷺ کے اس قول کے بارے میں جواب نہیں دیں گے، اگر انہوں نے اس بارے صحیح جواب دے دیا تو پھر اس بارے سوچوں گی‘‘
تو ان لوگوں نے عرض کیا: ’’ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں جو بات حق ہو گی وہی کہیں گے جو گواہی سچ ہو گی وہی دیں گے‘‘
فرمایا:
’’ میں تمہیں خدا کی قسم سے کر کہتی ہوں کہ آیا تمہیں یاد ہے حضرت رسول خدا ﷺ تمہیں ایک رات گھر سے باہر لے آئے اور علی ؑ کے بارے میں تم سے کوئی بات کی تھی؟‘‘
انہوں نے کہا: ’’ہاں ! خدا کی قسم! کی تھی!!‘‘
تمہیں خدا کی قسم آیا تم نے رسول خدا (ص) کو فرماتے سنا تھا کہ ’’فاطمہ ؑمیرا ٹکڑا ہے اور میں فاطمہ ؑ سے ہوں جو اسے اذیت دے گا، وہ مجھے اذیت دے گا، وہ خدا کو دکھ پہنچائے گا، اور جو میرے مرنے کے بعد فاطمہ ؑ کو دکھ پہنچائے گا ایسے ہے جیسے میری زندگی میں اسے دکھ پہنچایا‘‘
انہوں نے کہا: ’’خدا کی قسم جی ہاں !‘‘
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘
روایت کے الفاظ یوں ہیں :
’’فَاطِمَۃُ بَضْعَۃٌ مِّنِّیْ وَأَنَا مِنْہَا وَمَنْ اٰذَاہَا فَقَدْ آذَانِیْ وَمَنْ آذَانِیْ فَقَدْ آذَی اللّٰہَ، وَمَنْ آذَاہَا بَعْدَ مَوتِی فَکَانَ کَمَنْ آذَاہَا فِیْ حَیَاتِی، وَمَنْ آذَاہَا فِیْ حَیَاتِیْ کَمَنْ آذَاہَا بَعْدَ مَوْتِی …‘‘
یہ سن کر حضرت مخدومہ کونین سلام اللہ علیہا نے فرمایا:
’’خداوندا! میں تجھے گواہ بنا کر کہتی ہوں اور اے حاضرین! تم بھی گواہ رہنا کہ ان لوگوں نے مجھے زندگی میں بھی اذیت دی اور میرے مرنے کے وقت بھی اذیت دی ہے، خدا کی قسم! میں ایک لفظ بھی ان کے ساتھ نہیں بولوں گی، تاآنکہ اپنے والدِ گرامی سے جاکر ملاقات کروں اور جو مظالم ان لوگوں نے مجھ پر ڈھائے ہیں، ان کی شکایت بھی اپنے والد سے کروں گی‘‘
یہ سن کر میں نے ایک شخص سے کہا: ’’واویلاہ! اے کاش کہ مجھے ماں جنم نہ دیتی……‘‘ یہ سن کر اس کے دوسرے ساتھی نے کہا:
’’بڑی عجیب بات ہے …احمق ہو گئے ہو، ایک عورت کے ناراض ہو جانے پر رورہے ہو اگر وہ راضی ہو جاتیں تو خوش ہو جاتے! اگر انسان نے کسی عورت کو ناراض کر دیا ہے تو کون سی بڑی بات ہو گی‘‘
یہ کہا اور وہاں سے اٹھ کر باہر آ گئے۔
یاد رہے کہ اس حدیث کو علل الشرائع صدوق جلد اول ص۱۸۷ باب ۲۴۸ میں نقل کیا گیا ہے، علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے اسے بحار الانوار جلد ۴۳ ص۲۰۳ میں، علل الشرائع سے بیان کیا ہے، نیز ابن قتیبہ دنیوری نے اسے اپنی کتاب : ’’الامامۃ والسیاسۃ ‘‘جلد اول ص۱۳ تا ۱۴ میں نقل کیا ہے۔
آخر میں ہم ایک نکتہ کو بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں :
۱۔ ’’فَاطِمَۃُ بَضْعَۃٌ مِّنِّیْ مَنْ آذَاہَا فَقَدْ آذَانِی‘‘ والی حدیث ’’حدیث مستفیض ‘‘ بلکہ ’’حدیث متواتر‘‘ہے، جن مورخین نے بھی حضرت سیدہ عالم مخدومہ کائنات فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخ زندگانی پر قلم اٹھایا ہے تو اس حدیث کو حتما ً تحریر کیا ہے، اور یہی چیز اس مخدومہ کی شخصیت کو اجاگر کرتی ہے کہ حضرت رسالت مآب ﷺ کا وجود ذی جود جناب سیدہ عالم مخدومہ ٔ کونین کے وجود میں خلاصہ ہو چکا ہے۔
اس لئے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات والا صفات ایک معیار کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ آپ ہی کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی، قرآن مجید کی سورہ آلِ عمران کی اس آیت ۶۱ :’’فَقُلْ تَعَالَوا نَدْعُ أَبْنَآئنا… ‘‘ میں ’’نِسَآئنا ‘‘ کا مصداق آپ ہی ہیں، سورہ شوریٰ آیت۲۳: ’’قُلْ لَا اَسْئلکُمْ عَلَیْہِ أَجْرا ً اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُربیٰ ‘‘ میں بھی آپ کی محبت فرض کی گئی ہے، اللہ کی رضا فاطمہ ؑ کی رضا سے مشروط ہے، اور خدا کا غضب اسی پر ہوتا ہے جس پر فاطمہ ؑ غضب ناک ہوتی ہیں، محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کے جسم کا حصہ اور جگر کا ٹکڑا ہیں، ان کا فعل اور ترک یا امر و نہی حجت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

آپؑ مخدومہ کونین ___اور ___سیدہ عالم ہیں

بہت سی روایات میں ہے کہ سرکارِ رسالت مآب ﷺ نے فرمایا ہے کہ :
’’خواتین ِ عالم میں سے چار خواتین تمام عورتوں سے افضل ہیں ۱۔ آسیہ زنِ فرعون ۲۔ مریم بنت، عمران مادرِ عیسیٰ ۳۔ خدیجۃ الکبریٰ اور ۴۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہِنَّ، اور ان چاروں میں سے افضل اور برتر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں ‘‘
اگر غور کیا جائے تو اس لحاظ سے حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کائنات کی تمام عورتوں کی سردار اور مخدومہ ہیں، اولین و آخرین کی عورتوں میں سے کوئی بھی عورت آپ کی فضیلت اور مقام و مرتبے کو نہیں پہنچی۔
اس بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
۱۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ:
ایک دن حضرت رسول خدا (ص) بیٹھے ہوئے تھے کہ علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام آپ ؐ کے پاس تشریف لے آئے تو رسول خدا ؐ نے فرمایا:
’’أَللّٰہُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّ ہٰؤُلآء أَہْلُ بَیْتِیْ وَأَکْرَمُ النَّاسِ عَلَیَّ فَاحْبِبْ مَنْ أَحَبَّہُمْ وَأبْغَضَ مَنْ أَبْغَضَھُمْ وَوَالِ مَن وَّالَاہُمْ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُمْ وَاَعِنْ مَنْ أَعَانَھَمْ وَاجْعَلْہُمْ مُطَہَّرِیْنَ مِنْ کُلِّ رِجْسٍ مَّعْصُوْمِیْنَ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَأیِّدْہُمْ بِّرُوْحِ الْقُدُسِ مِنْکَ‘‘
خدا وندا!تو جانتا ہے کہ یہ میرے اہلِ بیت ؑ ہیں اور میرے نزدیک تیری بہترین معزز مخلوق ہیں، خدا وندا تو اسے دوست رکھ جو ان کو دوست رکھتا ہے اور تو اسے دشمن رکھ جو ان سے دشمنی کرتا ہے، جو ان کی مدد کرتا ہے تو بھی اس کی مدد کر اور تو انہیں ہر قسم کی رجس اور پلیدی سے پاک و پاکیزہ بنا دے، اور ہر گناہ سے معصوم بنائے رکھ، اور اپنی طرف سے روح القدس کے ساتھ ان کی تائید فرماتا رہ۔
پھر آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؑ سے فرمایا:
’’یا علی ؑ ! تم میرے بعد میری امت کے امام ہو، اس امت پر میرے بعد میرے خلیفہ ہو، بہشت میں جانے والے مومنین کے رہبر و پیشوا ہو، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ میری بیٹی فاطمہ زہرا ؑ قیامت کے دن نور کی ایک اونٹنی پر سوار ہیں، جس کے آگے پیچھے دائیں بائیں ستر، ستر ہزار فرشتے ہیں جو میری امت کی مومن خواتین کو بہشت کی طرف لے جا رہی ہیں ‘‘
(کتاب بحار الانوار جلد ۴۳ ص۲۴،امالی شیخ صدوق باب ’’سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الآخرین ‘‘اور روضۃ الواعظین ص۱۸۰)میں ہے کہ :
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جو عورت ہر روز پنجگانہ نماز ادا کرتی ہے، ماہِ رمضان کے روزے رکھتی ہے، بیت اللہ الحرام کا حج بجا لاتی ہے، اپنے مال پر واجب زکوٰۃ ادا کرتی ہے اور میرے بعد علی ؑکی ولایت کا اقرار کرتی ہے وہ میری بیٹی فاطمہ زہرا (ع) کی شفاعت کے ساتھ بہشت میں جائے گی کیونکہ میری بیٹی ’’وَاِنَّہَا لَسَیِّدَۃُ نِسَآء الْعَالَمِیْن‘‘ عالمین کی عورتوں کی سردار ومخدومہ ہے ‘‘
لوگوں نے عرض کی :
’’یا رسول اللہؐ!آیا فاطمہ زہرا (ع) اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں ؟‘‘فقال :
’’ذَاکَ مَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ فَأَمَّاابْنِتِیْ فَاطِمَۃُ فَسَیِّدَۃُ نِسَآء الْعَالَمِیْنَ مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ الآْخِرِیْنَ وَلَتَقُوْمُ فِیْ مِحْرَابِھَا فَیُسَلِّمُ عَلَیْہَا سَبْعُوْنَ أَلْفِ مَلَکٍ مِّنَ الْمَلٓائکۃِ الْمُقَرَّبِیْنَ وَیُنَادُوْنَہَا بِمَا نَادَتْ بِہِ الْمَلٓائکۃُ مَرْیَمَ فَیَقُوْلُوْنَ یَا فَاطِمَۃُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ، وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلیٰ نِسَآء الْعَالَمِیْنَ فرمایا:
وہ حضرت عیسیٰ کی والدہ مریم بنت عمران ہیں، میری بیٹی تو تمام اولین وآخرین کے جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیـں، جب وہ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں تو ستر ہزار ملائکہ مقربین انہیں سلام کرتے ہیں اور انہیں بھی ان الفاظ کے ساتھ ’’یافاطمہ ‘‘ کہ کر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جن کے ساتھ مریم کو پیش کرتے تھے، اور کہتے تھے: ’’اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ …‘‘
پھر آپ نے حضرت علی ؑ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’یاعلی ؑ!فاطمہ ؑ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، میری آنکھوں کا نور اور دل کا میوہ ہے، جو اسے غمگین کرے گا وہ مجھے غمگین کرے گا، اور جو اسے خوش کرے گا وہ مجھے خوش کرے گا میرے اس دنیا سے جانے کے بعد فاطمہ زہرا ؑ ہی میرے اہلِبیت ؑ میں سے سب سے پہلے میرے پاس پہنچے گی، علی ؑ!میرے بعد فاطمہ ؑ کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے رہنا‘‘
’’وَأَمَّا الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ فَھْمَا ابْنَایَ وَرَیْحَانَتَایَ وَہُمَا سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَلْیُکْرَمَا عَلَیْکَ کَسَمْعِکَ وَبَصَرِکَ‘‘
رہے حسن ؑو حسین ؑتو یہ دونوں میرے خوشبو دار پھول ہیں اور وہی جوانانِ جنت کے سردار ہیں، لہٰذا آپ انہیں اپنی آنکھوں اور کانوں کے مانند باعزت مقام دینا۔
اس کے بعد حضور ؐ نے اپنا سر آسمان کی طرف کرکے بارگاہِ رب العزت میں عرض کیا:
’’خداوندا! میں تجھے گواہ بنا کر کہتا ہوں، میں ان کو دوست رکھتا ہوں جو ان سے دوستی رکھے اور ان سے دشمنی کرتا ہوں جو ان سے دشمنی کرے، جو ان سے صلح رکھے میری ان سے صلح ہے اور جو ان سے جنگ کرے میری ان سے جنگ ہے، میں اس کا دشمن ہوں جو ان سے دشمنی رکھے جو ان سے دوستی رکھے میری ان سے دوستی ہے‘‘
اسی طرح بحار اور امالی صدوق میں بھی ہے کہ حسین بن زیاد عطار کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ :
’’حضرت رسالتمآب (ص) نے فرمایا ہے کہ :’’فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَآء أَہْلِ الْجَنَّۃِ‘‘ فاطمہ اہل جنت کی خواتین کی سردار ہیں، تو کیا اس سے مراد انہی کے زمانے کی عورتیں ہیں؟ ’’قَالَ تَاکِ مَرْیَمُ، وَفَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَآء أَہْلِ الْجَنَّۃِ مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ الْآخِرِیْنَ‘‘ فرمایا کہ نہ!وہ مریم بنت عمران کی بات ہے اور فاطمہ زہرا (ع) تو اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار ہیں۔
میں نے پھر پوچھا :
’’رسول خدا ﷺ کے اس فرمان کا کیا مقصد ہے کہ ’’اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّہِ ‘‘
فرمایا: خدا کی قسم وہ بھی اولین و آخرین کے جوانان اہل جنت کے سردار ہیں۔
خطیب بغدادی اپنی کتاب ’’تاریخ بغداد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت رسالتمآب ﷺنے جناب فاطمہ زہرا (ع) کو کائنات کی عورتوں کی سردار قرار دیا ہے، اس لئے کہ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر کئی حضرات نے حضرت رسولِ خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا :
’’یَافَاطِمَۃُ !اِبْشِرِیْ فَاِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَاکِ عَلیٰ نِسَآء الْعَالَمِیْنَ وَعَلیٰ نِسَآء الْاِسْلَامِ وَہُوَ خَیْرُ دِیْنِی ‘‘
اے فاطمہ ؑ!آپ کو مبارک ہو کہ اللہ نے آپ کو عالمین کی تمام عورتوں میں سے چن لیا ہے اور اسلامی امہ کی عورتوں میں سے برگزیدہ کیا ہے اور اسلام ہی تمام ادیان پر فائق ہے۔

کچھ تسبیح فاطمہ زہرا ؑ کے بارے میں

حضرت صدیقہ کبریٰ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی جانب سے امتِ محمدیہ کو آپ کی تسبیح کا تحفہ عطا ہوا ہے، جو عام طور پر ہر نماز کے بعد اور رات کو سونے سے پہلے پڑھی جاتی ہے، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی روایات میں اسے ’’تسبیح فاطمہ ؑ ‘‘کا نام دیا گیا ہے، اور فقہاء و محدثین نے اسے تعقیباتِ نماز کے باب میں ذکر کیا ہے، چنانچہ’’ من لا یحضرہ الفقیہ ‘‘ اور ’’علل الشرائع‘‘ میں حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے والدِ ماجد سرکارِ رسالت مآبؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان سے گھریلو کام کاج کیلئے کسی ملازمہ کی درخواست کی تو حضورِ انور (ص) نے اس ملازمہ کے بجائے آپ کو اس تسبیح کی تعلیم دی اور فرمایا:
’’آیا میں آپ کو ایسی چیز نہ بتاؤـں جو کسی بھی خدمت گار سے بہتر ہے ؟‘‘
پھر فرمایا :
’’جب تم سونے لگو تو چونتیس(۳۴) مرتبہ اللہ اکبر تینتیس(۳۳)مرتبہ الحمد للہ اور تینتیس(۳۳) مرتبہ سبحان اللہ کہا کرو‘‘
یہ سن کر حضرت زہرا ؑ نے فرمایا:
’’میں نے خدا اور اس کے رسول کی طرف سے کسی خدمتگار کی بجائے اس ذکر کو قبول کیا ہے‘‘
یاد رہے کہ شیخ صدوق ؒ نے اسے کتاب من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۱ ص۳۲۱ کے باب ’’وصف الصلوٰۃ ‘‘میں اور شیخ طبرسی نے علل الشرائع جلد ۲ ص ۳۶۶ کے باب ’’ادب المصلی‘‘ میں ذکر کیا ہے، جبکہ اس روایت کو مکارم الاخلاق طبرسی ص ۲۸۰ کے علاوہ مکتبِ خلفاء کے امام بخاری نے صحیح بخاری جلد ۵ ص ۲۴ باب مناقب علی اور سنن ابی داؤد جلد ۲ ص ۶۰۹ باب التسبیح عند النوم میں بھی نقل کیا ہے۔
چنانچہ جب سے آنحضرت ؐ نے یہ تسبیح جنابِ زہرا (ع) کو تعلیم دی اس وقت سے لے کر مرتے دم تک آپ نے اس پر عمل کیا، اور آپ کے بعد آپ کی اولاد اور مسلمانانِ عالم میں یہ تحفہ یادگار کے طور پر باقی رہا اور آج تک اس پر عمل ہو رہا ہے، اور نماز کی تعقیبات میں سنت مؤکدہ کی حیثیت کی حامل ہے، ملاحظہ ہو کافی ۳ ص۳۴۳،مکارم الاخلاق ص۲۸۱، بحارالانوار جلد ۸۲ ص ۳۳۲ اور ثواب الاعمال میں ہے :
’’عَنْ اَبِیْ خَالِدِ الْقَمَّاطِ عَنْ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ (ع) :قَالَ : تَسْبَیْحُ الزَّہْرَآء فَاطِمَۃَ (عَلَیْہَا السَّلَام)فِیْ دَبْرِ کُلِّ صَلوٰۃٍ اَحَبُّ اِلَیّ مِنْ صَلَاۃِ اَلْفِ رَکْعَۃٍ فِیْ کُلَّ یَوْمٍ ‘‘
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
ہر نماز کے بعد حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی تسبیح میرے نزدیک ایک ہزار رکعت یومیہ سے زیادہ محبوب ہے۔
کتاب مکارم الاخلاق ص۲۸۱ میں ہے کہ:
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اونی دھاگے کی ایک تسبیح بنائی جس میں (۳۴)گانٹھیں تھیں، اسی سے آپ مذکورہ تعداد کے مطابق تکبیر، تحمید اور تسبیح کیا کرتی تھیں، لیکن حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد آپ نے ان کی قبر کی کچھ مٹی لی جس سے چونتیس دانے درست کر کے ایک دھاگے میں پرویا اور اس پر ہی یہ ذکر کیا کرتی تھیں، لیکن سید الشہداء حضرت اباعبد اللہ الحسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ کی تربتِ پاک سے خاکِ شفا کی تسبیح تیار کی گئی کیونکہ خاکِ شفا کی فضیلت دوسری تمام زمینوں سے زیادہ ہے۔
حضرات ائمہ اطہار علیہم السلام نے واجب نمازوں کی تعقیبات میں اس تسبیح کو بہت اہمیت دی ہے اور ساتھ ہی اس کی تاکید بھی کی ہے، لیکن اس بارے میں یہ جملہ بہت مشہور ہے کہ ’’جو شخص اس کی پابندی کرے گا یا اسے پابندی سے بجا لاتا رہے گا وہ کبھی بد بخت اور برے انجام سے دو چار نہیں ہو گا‘‘
شیخ کلینی نے صحیح سند کے ساتھ اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں :
’’مَنْ سَبَّحَ تَسْبِیْحَ فَاطِمَۃَ الزَّہْرَآء عَلَیْہَا السَّلَامُ قَبْلَ اَن یُّثْنِیْ رِجْلَیْہِ مِنْ صَلوٰۃِ الْفَرِیْضَۃِ غَفَرَا للّٰہُ لَہٗ وَیَبْدَأُ بِالتَّکْبِیْرِ ‘‘
جو شخص فریضہ نماز کے بعد اور اپنے پاؤں سیدھے کرنے سے پہلے یہ تسبیح بجا لائے تو خدا اس کے گناہ معاف کر دے گا، اور اسے چاہئے کہ اس کا آغاز اللہ اکبر سے کرے۔
کافی کی ایک روایت میں ہے امام جعفر صادق علیہ السلام ابو ہارون مکفوف سے فرماتے ہیں :
’’ اِنَّانَأْمُرُ صِبْیَانَنَا بِتَسْبِیْحِ فَاطِمَۃَ عَلَیْہَا السَّلَامُ کَمَا نَأْمُرُ ہُمْ بِالصَّلوٰۃِ، فَأَلْزِمْہُ فَاِنَّہٗ لَا یَلْزِمْہُ عَبْدٌ فَشَقٰی ‘‘
ہم اپنی اولاد کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی تسبیح کا ایسے حکم دیتے ہیں جیسے انہیں نماز کا حکم دیتے ہیں، لہٰذا تم بھی اسی امر کو اپنے لئے لازم سمجھ لو کیونکہ جو بندہ اس کی پابندی اختیار کرتا ہے کبھی بدبخت نہیں ہوتا۔
کتاب کافی کی تیسری جلد کے ص۳۴۲ اور ۳۴۳ کے مطابق
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
خدا وند عالم کے نزدیک تسبیح فاطمہ زہرا ؑ سے بڑھ کر کوئی چیز افضل نہیں، اگر کوئی اور چیز افضل ہوتی تو حضرت رسالت مآب ﷺ وہی حضرت زہراؑ کو عطا فرماتے۔

مبارک ازدواج

کائنات چہاردہ معصومین علیہم السلام کے انتظار میں تھی کہ بحیثیت مصابیح الدجیٰ، اعلام الہدیٰ اور حجج خدا وندی روئے زمین پر تشریف لے آئیں، مشیتِ خدا یہی تھی کہ حضرت رسالت مآب ؐ، امیر المومنین ؑاور سیدہ طاہرہ ؑ کے بعد سردار جوانانِ جنت حسنین شریفین ؑسب سے پہلے اس خاکدان عالم میں قدم رنجا فرمائیں اور پھر یکے بعد دیگرے دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام، اور ایسا امیر المومنین ؑاور مخدومہ کونین فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ازدواج مبارک سے ممکن ہوا۔
اس مبارک پیوند کی داستان کچھ اس طرح ہے :
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
پیغمبر اکرم ﷺ کے دو بزرگ صحابی میرے پاس آئے اور کہا : ’’یا علی ؑ! کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ سرکار رسالت مآب ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی دختر نیک اختر فاطمہ زہرا (س) کی خواستگاری کرتے ؟! کیونکہ ہمیں تو منفی جواب مل چکا ہے ‘‘
یہ سن کر مولا علی علیہ السلام سرکارِ رسالت مآب ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے :
یا رسول اللہ !اس غلام کی خدمات سے تو آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ اسلام میں سبقت، آپ کی نصرت و امداد اور راہِ خدا میں جہاد ایسی خدمات ہیں جنہیں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے!‘‘
رسالت مآب ﷺ نے فرمایا :
’’یا علی ؑ! آپ سچ کہتے ہیں آپ کی خدمات اس سے بھی بالا تر ہیں اس سے آپ کا کیا مقصد ہے؟‘‘
عرض کیا :’’مقصد یہ ہے کہ بندے کو اپنی دامادی کا شرف عطا فرمائیں !!‘‘
فرمایا : ’’یا علی ؑ!آپ سے پہلے کچھ لوگوں نے اس بارے میں مجھ سے گفتگو کی ہے لیکن فاطمہ ؑ نے سب سے اظہارِ نا پسندیدگی کیا ہے، آپ ذرا ٹھہر جائیں تا کہ میں اس بارے میں فاطمہ ؑ سے پوچھ لوں !‘‘
چنانچہ آپ گھر تشریف لائے اور حضرت فاطمہ زہرا (ع)کے حجرے میں تشریف لے گئے، حضرت زہرا ؑ نے کھڑے ہو کر آپ کا استقبال کیا، آپؐ نے وہاں پر وضو کیا، پھر فرمایا:
’’فاطمہ ؑ بیٹی !‘‘عرض کیا:جی بابا! لبیک میں حاضر ہوں !!‘‘
فرمایا:
’’زہرا ؑ! تم علی ؑ کی قرابت، فضیلت اور اسلامی خدمات سے اچھی طرح واقف ہو، اور میں نے خدا سے دعا کی ہے کہ تمہارا عقد ازدواج اپنی بہترین مخلوق اور محبوب ترین ذات سے کرے، اس بارے میں علی (ع) آپ کی خواستگاری کر رہے ہیں، آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘
یہ سن کر حضرت زہرا ؑ خاموش ہو گئیں اور آنکھیں جھکا لیں، حضور ؐ نے ان کے چہرے کے خطوط کو پڑھا اور سمجھ گئے کہ
’’سُکُوْتُہَا رِضَآءھَا ‘‘فاطمہ ؑ کا سکوت ہی ان کی رضامندی ہے
اللہ اکبر کہا اور فرمایا: ’’فاطمہ ؑ اس عقد پر راضی ہیں ‘‘
اتنے میں جبرائیل امین (ع) نازل ہوئے اور کہنے لگے :
’’یا رسول اللہ ! آپ فاطمہ زہرا ؑ کا عقد علی ؑ ؑ سے کر دیں کیونکہ اللہ نے فاطمہ ؑکو علی ؑ کے لئے اور علی ؑ کو فاطمہ کے لئے پسند فرما لیا ہے ‘‘
آنحضرت ﷺ نے علی ؑ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:
’’خدا کا نام لے کر اٹھو اور کہو:’’مَاشَآءَ اللّٰہُ لَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہ‘‘
پھر فرمایا:
’’زرہ کو فروخت کرکے اس سے فاطمہ زہرا ؑکے لئے حق مہر تیار کرو، چنانچہ حضرت علی ؑ فرماتے ہیں کہ میں نے وہ زرہ پانسو درہم میں بیچی اور اس کی ساری رقم لا کر حضور ؐ کی خدمت میں پیش کر دی نہ حضور نے پوچھا کہ کتنی رقم ہے اور نہ میں نے کہا کہ کس قدر ہے ؟ پھر سرکار رسالت مآب ؐ نے اس سے ایک مشت اٹھا کر اپنے موذن بلال کو دی اور فرمایا اس سے فاطمہ زہرا ؑ کے لئے عطر خرید کر لاؤ، پھر دونوں ہاتھوں کو ملا کر اس رقم سے اٹھایا اور عمار یاسر اور دوسرے کئی صحابیوں کو دیا تاکہ حضرت زہرا ؑ کا لباس اور گھریلو سامان خرید کر لائیں، چنانچہ ان حضرات نے بازار سے جہیز کا سامان خریدا اور حضورؐ کی خدمت میں لا کر پیش کیا، خریدے جانے والے سامان کی تفصیل بعض روایات کے مطابق کچھ اس طرح ہے‘‘
۱۔ سفید پیراہن ۲۔ ایک بڑی چادر ۳۔ ایک سیاہ حُلہ خیبر میں تیار شدہ ۴۔ ایک چارپائی جو لیف خرما سے بنی ہوئی تھی ۵۔ دو عدد کتان مصری کی توشک جن میں سے ایک تو لیف خرما سے بھری ہوئی تھی اور دوسری گوسفند کی اون سے ۶۔ چار تکئے، طائف میں بنے ہوئے جن کے اندر ’’اذخر‘‘ نامی گھاس بھری ہوئی تھی ۷۔ دروازے پر لٹکانے کا ایک اونی پردہ ۸۔ ہَجَر میں بنی ہوئی ایک چٹائی ۹۔ ایک چکی ۱۰۔ ایک کاسہ مِسی ۱۱۔ ایک مشک ۱۲۔ ایک کاسۂ ِشیر ۱۳۔ چمڑے کا بنا ہوا ایک ظرف ۱۴۔ ایک آفتابہ ۱۵۔ ایک سبز سبو ۱۶۔ دو مٹی کے پیالے ۱۷۔ ایک پوست برائے فرش، اور ۱۸۔ ایک عبا
ہمارے قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ یہ جو بات معاشرے میں عام مشہور ہے کہ ’’جہیز ایک لعنت ہے ‘‘غلط ہے بلکہ یہ سنت ہے البتہ اس کا انتظام ’’مہر ‘‘کی رقم سے ہونا چاہئے اور پھر ضروریاتِ زندگی کی حد تک محدود ہونا چاہئے نہ تو نام و نمود اور معاشرے میں اپنی برتری جتانے کے لئے ہو اور نہ ہی اس کی ادائیگی لڑکی والوں کے ذمہ ہو، اسی طرح مہر ادا کئے بغیر جہیز کا مطالبہ یقینا بدعت اور ظالمانہ حرکت ہے جسے نفسانیت اور خود غرضی سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
اگر مذکورہ سامان کی قیمت لگائی جائے تو مجموعی طور پر ۶۳ درہم بنتی ہے، جبکہ مہر کی کل رقم پانسو درہم ہوتی ہے، اس تفصیل سے جہیز کی نوعیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اور مہر کے مقابلے میں اس کی مالیت کا بھی۔
کاش کہ مسلمانانِ عالم مہمل رسموں، نام و نمود اور معاشرتی برتری جیسی غلط روایات کی بجائے سیرتِ معصومین علیہم السلام کو اپناتے اور رواج دیتے تو آج قوم و ملت اس قدر مصائب سے دو چار نہ ہوتی اور مسلمانوں میں مہنگی شادی، سستی بدکاری کا پیش خیمہ نہ بنتی۔
بہر حال جب مہر کی رقم سے جہیز کا سامان مکمل ہو گیا تو حضور اکرم ﷺنے اس سامان میں سے ایک ایک چیزپر ہاتھ پھیر کر فرمایا:
’’بَارَکَ اللّٰہُ لِاَہْلِ الْبَیْتِ ‘‘ اللہ اہل بیت ؑ کیلئے برکت عطا فرمائے۔
اس کے بعد آپؐ، حضرت علی علیہ السلام کو اپنے ساتھ حضرت زہرا (س) کے پاس لے آئے ان کے لئے صیغہ عقد جاری کیا اور ان الفاظ میں دعا فرمائی :
’’اَللّٰہُمَّ اِنَّھُمَا اَحَبُّ خَلْقِکَ اِلَیّ‘‘ خداوندا! یہ دونوں مجھے تیری تمام مخلوق سے زیادہ پیارے ہیں۔ ’’فَأَحِبَّھُمَا وَبَارِکَ فِیْ ذُرِّیَّتِہِمَا وَاجْعَلْ عَلَیْہِمَا مِنْکَ حَافِظًا‘‘ پس تو بھی ان سے محبت فرما اور اپنی طرف سے ان کیلئے حفاظت کے اسباب فراہم کر، ’’وَاِنِّیْ اُعِیْذُ ہُمَا بِکَ وَذُرِّیَّتَہُمَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ‘‘ اور میں ان کو اور ان سے ہونے والی اولاد کو راندہ درگاہ شیطان سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔
آخر میں آپ نے فرمایا :
’’لَوْلَا عَلِیٌّ لَّمَا کَانَ لِفَاطِمَۃَ کُفْوٌآدَمَ وَمَنْ دُوْنَہٗ ‘‘ اگر علی ؑنہ ہوتے تو دنیا میں فاطمہ ؑ کا کوئی ہمسر نہیں تھا،خواہ آدم ہوں یا کوئی اور۔
غرض علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
عقد ازدواج کے مراسم کے ایک ماہ بعد تک میں سرکارِ رسالت مآب ؐ کی اقتدا میں نمازیں ادا کرتا رہا مگر شادی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔
اس دوران میں بعض ازواج رسول ؐ نے مجھ سے کہا :
’’آیا آپ فاطمہ زہرا (س) کو اپنے گھر میں نہیں لے جانا چاہتے ؟‘‘
فرمایا: ’’ آپ ہی حضرت رسول خدا (ص) سے اس کا تذکرہ کیجئے !‘‘
چنانچہ وہ گھر میں رسولِ پاک (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں، حضرتِ ام ایمن نے ازواجِ رسول(ص) کی ترجمانی کرتے ہوئے حضور (ص)کی خدمت میں عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ! اگر خدیجہ زندہ ہوتیں انہیں فاطمہ زہرا (س)کی شادی پر کس قدر خوشی ہوتی ؟حضور ؐ ! اگر وہ ہوتیں تو خود اپنے ہاتھوں سے زہرا ؑ کو رخصت کرتیں جبکہ آپ ان کے والد ہیں لہٰذا آپ ہی اپنی نیک دعاؤں کے ساتھ اسے علی ؑ کے گھر کے لئے رخصت کیجئے!!‘‘
حضور ؐ نے فرمایا:
’’کیا وجہ ہے کہ خود علی ؑ مجھ سے کیوں نہیں کہتے ؟‘‘ حضرت علی ؑ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ ! شرم اس بات سے مانع ہے!‘‘
حضور ؐ نے پوچھا یہاں کون کون خواتین موجود ہیں ؟ ام سلمہ نے کہا :
’’میں ہوں، یہ زینب ہے یہ فلاں خاتون، یہ فلاں بی بی ہے …تو حضور ؐ نے فرمایا میری بیٹی اور داماد کے لئے میرے گھر کا ایک حجرہ تیار کرو ‘‘
ام سلمہ نے پوچھا :
’’یا رسول اللہ ! کون سا حجرہ ؟‘‘
فرمایا:
تمہارا اپنا حجرہ ! پھر آپ نے خواتین کو حکم دیا کہ فاطمہ زہرا (س) کی زینت کریں اور اس بارے میں جو ضروری امور انجام دینے ہوتے ہیں انجام دیں ‘‘
ام سلمہ کہتی ہیں میں نے فاطمہ ؑ سے پوچھا :
’’آیا آپ کے پاس کوئی عطر موجود ہے ؟‘‘
فرمایا:
’’ہاں، ہے !‘‘
اس کے بعد ایک شیشی لے آئیں جس سے میرے ہاتھ پر کچھ ڈالا، اس جیسا عطر میں نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔
حضرت علی فرماتے ہیں :
مجھے سرکار پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا :’’ اپنے اہلِ خاندان کے لئے ایک بہترین کھانا تیار کرو، گوشت اور روٹی ہمارے ذمہ، خرما، کھجور اور گھی تمہارے ذمہ، مجھے شرم محسوس ہوئی کہ کچھ لوگوں کو تو بلاؤں کچھ کو نہ بلاؤں، لہٰذا ایک اونچی جگہ جا کر عمومی اعلان کیا : ’’اَجِیْبُوْا اِلیٰ وَلِیْمَۃِ فَاطِمَۃ ‘‘فاطمہ ؑ کے ولیمہ میں آجاؤ، لوگ بڑی کثیر تعداد میں شریک ہوئے جس کی وجہ سے مجھے کھانے میں کمی کا احساس ہونے لگا، حضرت رسول خدا(ص) میرے اس احساس کو جان گئے اور فرمایا : یاعلی ؑ! گھبراؤ نہیں، میں نے خدا وند عالم سے دعا کی ہے کہ وہ کھانے میں برکت عطا فرمائے ‘‘چنانچہ سب لوگوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا لیکن پھر بھی بچ رہا، پھر آپ ؑ نے میرے لئے بھی برکت کی دعا فرمائی۔
رسول خدا (ص)نے کھانے کا ایک کاسہ اپنی خواتین کیلئے گھر بھجوا دیا، ایک اور کاسہ میں حضرت فاطمہ زہرا (س) اور ان کے شوہر کے لئے بھی بھجوا دیا، جب عصر کا وقت ہوا تو رسالت مآب ؐ نے ام سلمہ سے فرمایا کہ :’’فاطمہ زہرا ؑ کو میرے پاس لے آؤ‘‘ چنانچہ میں انہیں لینے کے لئے چلی گئی، صدیقہ طاہرہ شرم کے مارے پسینہ میں شرابور ہو گئیں اور ان کے پاؤں لڑکھرانے لگے اور گر گئیں۔
رسول خدا (ص)نے فرمایا :
’’اَقَالَکِ الْعَثْرَۃَ فِی الدُّنْیَاوَالْآخِرَۃ‘‘ خدا تمہیں دنیا اور آخرت میں تمام لغزشوں سے محفوظ رکھے۔
بہر حال اب فاطمہ زہرا ؑ رسول خدا ؐ کے سامنے کھڑی ہوئیں، اس وقت آپ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر علی ؑ کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا:’’یا علی ؑ ! دخترِ رسول آپ کو مبارک ہو، یقینا فاطمہ ؑ آپ کی بہترین زوجہ ہوں گی ‘‘
اور فاطمہ زہرا ؑ سے فرمایا :
’’فاطمہ ؑ! علی ؑ تمہارے بہترین شوہر ہیں، اب آپ اپنے گھر تشریف لے جائیں خدا نیا گھر مبارک کرے ‘‘
اس طرح سے یکم ذی الحجہ ۲ ھ میں نور کی نور سے ملاقات ہوئی اور صدیقہ طاہرہ ؑ نے ولی ذوالجلال کے گھر میں مبارک قدم رکھا اور اس مبارک پیوند سے جوانانِ جنت کے سردار حسنین شریفین اور ان کی نسل سے حجج طاہرہ اور ائمہ اطہار علیہم السلام اور دیگر ہادیانِ برحق اس دنیا میں تشریف لائے اور ظلمت سرائے جہان کو اپنی ہدایت کی نورانی شعاعوں سے منور فرمایا۔

جاگیرِ فدک

مراصد الاطلاع کے مطابق سرزمین ِ حجاز میں ’’فدک ‘‘نامی ایک گاؤں ہے جو مدینہ منورہ سے دو یا تین دن کی منزل کے فاصلے پر واقع ہے، اس گاؤں میں سب یہودی رہتے تھے، جب ۷ ھ میں جناب امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی جرأت و شجاعت سے خیبر فتح ہوا تو فدک کے جو یہودی عرصے سے اسلام کے ساتھ برسر پیکار تھے انہیں یقین ہو گیا کہ اب ہماری خیر نہیں، لہٰذا انہوں نے ایک وفد آنحضرت (ص)کے پاس مدینہ میں بھیجا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے لہٰذا فدک کی نصف جاگیر آپ کو دیتے ہیں اور اسی پر صلح کرتے ہیں، رسول ِ گرامی ؐ نے ان کی یہ پیش کش قبول فرمائی اور فدک کا نصف حصہ سرکارِ رسالت مآب ﷺ کی ذاتی جاگیر قرار پایا۔
کیونکہ جو مال و جائیداد صلح کے ساتھ اور مسلمانوں کی لشکر کشی اور اونٹ گھوڑے دوڑائے بغیر حاصل ہو اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’فے ‘‘کہتے ہیں اور وہ رسول ِ خدا ﷺ کی ذاتی جائیداد شمار ہوتی ہے اور آپ اس کے مکمل مالک و مختار ہوتے ہیں، چاہے کسی کو ہبہ کر دیں، بیع کر دیں یا کسی اور مصرف میں لےٍ آئیں صاحبِ اختیار جو ہوئے۔
چنانچہ سورہ حشر کی( آیت ۶ )اسی بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے :
’’وَمَآ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْھُمْ فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابٍ وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَن یَّشَآءُ … ‘‘اور جس مالِ غنیمت کو اللہ نے اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے، اس میں تمہارا کوئی حق نہیں، کیونکہ اس کے لئے تم نے نہ تو گھوڑے دوڑائے اور نہ ہی اونٹ، لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جن پر چاہتا ہے غالب فرماتا ہے …
نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۴۵ میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اس بارے میں بصرہ کے گورنر عثمان بن حُنیف کو تحریر فرماتے ہیں :
’’بَلٰی کَانَتْ فِیْ اَیْدِیْنَا فَدَکَ مِنْ کُلِّ مَا اَظَلَّتْہُ السَّمَآء فَتَّحَتْ عَلَیْہَا نُفُوْسُ قَوْمٍ وَّ سَخَتَ عَنْھَا نُفُوْسُ قَوْمٍ آخَرِیْنَ فَنِعْمَ الْحَکَمُ اللّٰہ‘‘
’’جی ہاں ! جہاں پر آسمان سایہ فگن ہے اس میں سے صرف فدک ہمارے اختیار میں تھا کہ لوگوں نے اس بارے بخل سے کام لیا اور کچھ دوسروں نے سخاوت کے ساتھ چشم پوشی اختیار کر لی اور اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ‘‘
اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک انہی کے ہاتھ میں تھا جسے زبردستی چھین کر سرکار ی تحویل میں لے لیا گیا، چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ فدک کے باغات کا یہ رقبہ جنابِ فاطمہ زہرا (س) کے پاس پانچ سال تک رہا، پھر رسول اکرم ص کی رحلت کے فوراً بعد اسے سرکار دربار کی طرف سے اپنے قبضے میں لے لیا گیا۔
اس موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے اپنے قارئین کیلئے ایک خاص مطلب کو بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہ :
حضور رسالتمآب ؐ نے مال ’’فے ‘‘ اور دیگر اراضی میں سے بہت سے بے زمین لوگوں کو کاشتکاری کے لئے زمینیں دے دیں اور وہ زمیندار بن گئے، اور اپنے حاصل کردہ رقبے سے بہرہ مند ہوتے رہے، چنانچہ محقق خبیر جناب علی احمدی نے اپنی کتاب ’’مکاتیب الرسول ؐ ‘‘کے ص ۴۹۲ تا ۴۹۸ میں اس کے سینتالیس نمونے فریقین کی کتابوں سے پیش کئے ہیں، ان میں سے چند ایک بزرگوں کے اسمائے گرامی کو ذکر کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں، ملاحظہ ہو حضرت ابوبکر، حضرت زبیر، حضرت عمر بن خطاب، عبد الرحمن بن عوف صہیب بن سنان، ابو سلمہ بن عبد الاسد، سہل بن حنیف، ابو دجانہ، وائل بن حُجر، علی بن ابی طالب علیہ السلام، کشد بن مالک، سلیط انصاری، فرات بن حیان، بلال حبشی، ابی ثعلبہ اور دوسرے بہت سے حضرات۔
اس لئے کہ سرکار رسالت مآب ؐ چاہتے تھے کہ زمینیں اور جاگیریں مسلمانوں کے پاس ہوں اور مالک کے بغیر نہ پڑی رہیں تاکہ لوگ ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں، لیکن یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ حضور ختمی مرتبت کی رحلت کے بعد سوائے حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے کسی ایک سے ایک انچ زمین یا جاگیر نہیں چھینی گئی، یہ صرف دخترِ رسول ؐ ہی کی جاگیر تھی جو سرکاری ستم کا نشانہ بن گئی اور اس سے ان کے کارندوں کو بھی بے دخل کر دیا گیا، اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ جائیداد اور رقبہ بھی آپ سے چھین لیا گیا جو حضرت فاطمہ زہرا ؑ کو والدِ گرامی ؐ سے میراث کی صورت میں ملا تھا، اور اس کے جواز کے لئے یہ حدیث بنائی گئی کہ حضور ؐ نے فرمایا ہے کہ :
’’ہم انبیاء کا گروہ کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے ہم جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ‘‘
تو اس طرح حضرت زہرا مرضیہ سلام اللہ علیہا اپنے والد کی میراث سے بھی محروم کر دی گئیں، اور جب آپ کو اس ماجرا کا علم ہوا تو حضرت ابوبکر کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا:
’’میرے والد نے فدک مجھے عطا فرمایا تھا
تو انہوں نے کہا :
’’آپ کے اس دعویٰ کے کوئی گواہ ہیں ؟ ‘‘
تو اس پر آپ ؑ نے حضرت علی، حضرات حسنین شریفین، بی بی ام ایمن اور کتاب نص اجتہاد ص۳۶ کے مطابق تفسیر رازی میں ہے کہ غلامِ رسول ؐ رباح کو بھی گواہی کے لئے پیش کیا تو انہوں نے کہا:
حسنین ؑ ابھی کمسن ہیں، رباح غلام ہیں، لہٰذا ان کی گواہی قابلِ قبول نہیں صرف ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی سے آپ کا مدعا ثابت نہیں ہوتا، اس لئے کہ نصابِ شہادت کی تکمیل کیلئے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا ہونا ضروری ہے ‘‘
کس قدر تعجب کی بات ہے، آیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ حضرت فاطمہ زہرا ؑ __صدیقہ ہیں ؟ آیا جس کی شان میں آیت تطہیر نازل ہو چکی ہو، جس کی رضا خدا کی رضا اور جس کی ناراضی خدا کی ناراضی ہو، جس کی خوشی رسول خدا ؐ کی خوشی اور جس کا غم رسولِ خدا کا غم ہو، تو کیا ممکن ہے کہ ایسی شخصیت کسی دنیوی مال و متاع کے لئے جھوٹ بولے !!
آیا یہ ہو سکتا ہے کہ نعوذ باللہ کسی قسم کی جھوٹی گواہی دیں ؟ آیا حسنین شریفین جو آیت تطہیر کے مصداق تو بن سکتے ہوں مگر گواہی دینے کی صلاحیت سے محروم ہوں ؟ اگر گواہی دیں بھی تو تطہیر کی سند کے حصول کے بعد نعوذ باللہ جھوٹ سے کام لیں ؟ آیا رسول ؐ کا غلام اس لئے مسترد کر دیا جائے چونکہ وہ غلام ہے؟
افسوس وہاں کوئی نہ تھا جو اُن سے پوچھ لیتا کہ گواہ بھی صرف حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے طلب کئے جا رہے ہیں کسی اور سے کیوں نہیں طلب کئے گئے جن کو رسول خدا جاگیریں عنایت فرما چکے تھے ؟ خاص کر خود ان سے کہ رسول پاک ؐ نے بنی نضیر سے جو جائیداد ان کو عطا فرمائی تھی!۔
اس بات پر تمام عالم اسلام کا اتفاق ہے اور کسی کو اس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں ہے، جب یہ آیت نازل ہوئی ’’وَآتِ ذَالْقُرْبیٰ حَقَّہٗ‘‘ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ان کا حق ادا کر دو (جو کہ قرآنِ مجید میں سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۲۶ ہے) تو حضرت رسول اکرم ﷺ نے فدک کی وہ جاگیر جنابِ فاطمہ زہرا ؑ کو عطا کر دی۔
چنانچہ امین الاسلام طبرسی اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابو سعید خدری سے نقل کرتے ہیں اور تفسیرِ برہان میں تقریباً بیس روایات اس بارے میں منقول ہیں کہ اس وقت سے فدک حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ملکیت میں آ گیا اور حضرت علی ؑ اور بنی ہاشم کا خاندان ان کے محصولات سے استفادہ کرتا رہا۔
حالانکہ شریعت ِ اسلامی کا قانون ہے کہ ’’اَلْبَیِّنَۃُ عَلَی الْمُدَّعِیِّ وَالْیَمِیْنُ عَلٰی مَنِ ادُّعِیَ عَلَیْہِ‘‘ گواہوں کی ذمہ داری مدعی پر ہوتی ہے اور قسم مدعَّی علیہ کے ذمہ ہوتی ہے، بنا بریں چاہئے تو یہ تھا کہ دربارِ خلافت اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لئے گواہ پیش کرتا کیونکہ قبضہ اور مالکیت حضرت زہرا (س) کی تھی مگر گواہ پیش کرنے کی بجائے خود ان سے گواہ طلب کئے گئے اور اپنے دعویٰ کے لئے ایک لاوارث حدیث پیش کی گئی، جبکہ اس سے پہلے رسول خدا ﷺ کی فرمائش کے جواب میں قرآن کافی ہونے کا نعرہ لگایا گیا اور حدیث کا انکار کیا گیا تھا۔
بہر حال جناب مخدومۂ کونین نے بہتر یہ سمجھا کہ آپ اپنا مقدمہ دربارِ خلافت میں لے جائیں اور مسند نشینِ خلافت سے مہاجرین و انصار کے عمومی مجمع میں اپنے حق کا مطالبہ کریں، بنابریں مخدومہ کونین سلام اللہ علیہا چادر اور پردے میں لپٹ کر بہت سی خواتین کے حلقہ میں مسجد نبوی تشریف لے آئیں راوی کے بقول چادر اس قدر لمبی تھی کہ پاؤں بھی اس میں چھپے ہوئے تھے اور رفتار سے معلوم ہوتا تھا کہ گویا خود پیغمبر خدا (ص) چل کر آ رہے ہیں۔
منبر پر خلیفۂ اول براجمان تھے مسجد نبوی مہاجرین و انصار کے اجتماع سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، مخدومۂ کونین سلام اللہ علیہا اور مجمع کے درمیان پردہ نصب کیا گیا اور سیدۂ عالم نے پردے کے پیچھے سے مسند نشین ِ خلافت کو خطاب فرمایا، پہلے تو سیدہ ؑکو اپنے بابا کا زمانہ یاد آ گیا اور پھر ان کے اس دنیا سے رحلت فرما جانے کے بعد اپنے اوپر نازل ہونے والے مصائب و آلام کو یاد کیا اس سے آپ نے چیخ مار کر رونا شروع کر دیا جس سے حاضرین مسجد سے بھی رونا ضبط نہ ہو سکا اور وہ بھی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے مسجد کے در اور دیواریں بھی رونے لگے، پھر آپ خاموش ہو گئیں اور جب کافی دیر کے بعد مجمع پر سکوت طاری ہوا تو مخدومہ کونین نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کے بعد ایک طویل و عریض خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا:
’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ مَا اَنْعَمَ وَلَہُ الشُّکْرُ عَلیٰ مَا اَلْہَمَ …‘‘ اس کے ساتھ ہی آپ نے بڑی فصاحت کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش فرمایا اور اپنے دعووں میں مسلسل آیاتِ قرآنی کو پیش فرماتی رہیں کہ قرآن کہتا ہے ’’یُوصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِ کُم لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘‘ (نساء/۱۱)خدا وند عالم تمہیں اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ ایک بیٹے کے لئے دوبیٹیوں کے برابر کا حصہ ہے، جب میرے مخاطب اپنے باپ کے وارث ہو سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں ہو سکتی ؟
اور فرمایا:
’’قرآن کہتا ہے ’’وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاؤدَ ‘‘ (نمل/۱۶)داود کے وارث سلیمان بنے۔جب داؤد نبی کے مال کے وارث سلیمان ہو رہے ہیں تو پھر ان کا مال صدقہ کہاں رہا؟ پھر بی بی عالم نے فرمایا: ’’اَیُّہَا النَّاسُ ! اِعْلَمُوْا اَنِّیْ فَاطِمَۃَُ وَاَبِیْ مُحَمَّدٌ اَقُوْلُ عَوْدًا وَّبَدَء ا وَّلَااَقُوْلُ مَااَقُوْلُ غَلَطًا، وَلَا اَفْعَلُ مَااَفْعَلُ شَطَطًا۔‘‘
لوگو! تمہیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ میں فاطمہ زہرا ؑ ہوں میرے بابا محمد مصطفی (ص) ہیں، میں اول و آخر سچ بات کہتی ہیں کبھی نہ تو غلط بات کی اور نہ ہی کبھی کوئی بے مقصد کام کیا۔
مخدومہ کونین(س) نے اس انداز میں تفصیل کے ساتھ خطبہ ارشاد فرمایا کہ تمام سامعین مبہوت و پریشان ہو گئے، خطبہ کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ’’احتجاج طبرسی ‘‘اور ’’بلاغات النساء ‘‘ علاوہ ازیں مکتبِ خلفاء کے بہت سے علماء، مورخین اور مفسرین نے اسے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے خصوصیت کے ساتھ علامہ ابن الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح جلد ۱۶ ص۲۱۵ تا ۲۳۶ مکتوب کے ذیل میں اس واقعہ کو مفصل درج کیا ہے ہم اپنے قارئین کو اس کے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں۔
غرض رسول ؐ کی اکلوتی بیٹی نے مسلمانوں کے سامنے نہایت ہی مفصل اور مدلل خطبہ ارشاد فرمایا مگر افسوس کہ کسی بھی کلمہ گو نے اس کا کوئی اثر نہ لیا اور نہ ہی آپ کی حمایت کی صرف رو رو کر ان کی مظلومیت پر آنسو بہانے کو ہی کافی سمجھا، اور دربارِ خلافت نے حضرتِ زہرا (ع) کو فدک سے محروم کرکے اسے بیت المال میں داخل کر دیا۔
آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فدک کی سرگذشت کو ذکر کیا جائے۔
تو پیارے قارئین ! رسول زادی کی یہ جائیداد تیسری خلافت کے دور تک بیت المال میں رہی، اور اس مرحلے میں خلیفہ سوم نے فدک کی یہ جائیداد اپنے چہیتے چچا زاد مروان بن حکم کو عنایت فرما دی، اور امیرِ شام کے برسرِ اقتدار آنے تک یہ جائیداد مروان ہی کے پاس رہی۔
اور جب امیرِ شام نے زمامِ اقتدار سنبھا لی تو فدک کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا، ایک حصہ مروان کے پاس رہنے دیا، ایک حصہ عمرو بن عثمان بن عفان کو اور تیسرا حصہ اپنے ’’ فرزندِ دلنبد‘‘ یزیدِ عنید کو عطا فرما دیا۔
مروان بن حکم کے مختصر سے دورِ حکومت میں تمام فدک اس کے پاس رہا، اور اس نے جائیداد اپنے بیٹے عبد العزیز کو بخش دی اور عبد العزیز نے وہ سب اپنے بیٹے عمر یعنی عمر بن عبد العزیز کو ہبہ کر دی۔
جب عمر بن عبد العزیز سریر آرائے حکومت ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کے سامنے ایک خطبہ دیا اور کہا:
’’لوگو! تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ فدک کا شمار’’ مالِ فے ‘‘ میں ہوتا ہے جس پر مسلمانوں نے اونٹ اور گھوڑوں سے حملہ نہیں کیا تھا …پھر انہوں نے اپنے کارندے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ :
’’فدک کی ساری جائیداد اولادِ علی ؑ و زہرا (ع) کو دے دی جائے‘‘
تو اس طرح سے فدک اولادِ علی ؑ و زہرا ؑ کو مل گیا اور حضرت عمر بن عبد العزیز کی زندگی تک انہیں کے پاس رہا، جب یزید بن عبد الملک تخت پر بیٹھا تو اس نے فدک کو دوبارہ بنی فاطمہ سے چھین کر بنی مروان کو دیدیا، اور یہ سلسلہ بنی امیہ کی حکومت کے انقراض تک جاری رہا۔
بنو امیہ کے سقوط کے بعد بنی عباس کے ابو العباس سفاح نے فدک کی جاگیر عبد اللہ بن حسن اولادِ امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کو پلٹا دی، مگر منصور دوانیقی نے اسے پھر غصب کر لیا، لیکن مہدی عباسی نے اسے پھر اولادِ زہرا ؑ کو دے دیا۔
لیکن جب اس کا بیٹا موسیٰ بن مھدی عباسی خلیفہ بنا تو اس نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر فدک کو غصب کر لیا اور مامون عباسی تک یہ جاگیر عباسی حکمرانوں کے پاس رہی۔
جب مامون تخت نشین ہوا تو اس نے مدینہ کے اپنے گورنر قثم بن جعفر کو یہ سرکلر جاری کیا کہ :
امیر المومنین چونکہ دینِ خدا وندی، رسولِ خدا کی خلافت اور ان سے قرابت اور رشتہ داری کی بنیاد پر ایک ایسی حیثیت اختیار کر چکے ہیں کہ ان کے لئے سنت رسول ؐ پر عمل کرنا ضروری، اور ان کے فرمان کو عملی جامہ پہنا نا لازم ہو گیا ہے، اور جسے حضرت رسول ِ خدا (ص) نے جو کچھ عطا فرمایا تھا، خلیفہ بھی اسے عطا کر دیں، اور چونکہ رسول اللہ (ص) نے فدک کی جاگیر اپنی دختر حضرت فاطمہ زہرا (ع) کو عطا کر دی تھی اور یہ ایک ایسا امر ہے کہ آلِ رسول ؐ میں سے کسی کو اس سے اختلاف نہیں ہے … لہٰذا امیر المومنین بہتر یہی سمجھتے ہیں کہ فدک کی جاگیر کو حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے وارثوں کو لوٹا دی جائے … کیونکہ فاطمہ زہرا (ع) اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ رسول ؐ کے ہدیہ کے بارے میں ان کے قول کو قبول کیا جائے ‘‘
تو اس طرح سے فدک ایک مرتبہ پھر اولادِ علی و زہرا ؑ کو پلٹا دیا گیا، مگر جب متوکل عباسی سریر آرائے سلطنت ہوا تو اس نے حکم دیا کہ فدک کو وہاں پلٹایا جائے کہ جہاں مامون عباسی سے پہلے تھا، جبکہ ایک اور روایت کے مطابق اس نے یہ جاگیر عبد اللہ بن عمر بازیار کو بخش دی۔
اس کی مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب الغدیر علامہ امینی جلد ۷ ص۱۹۳ تا ۱۹۷ اور ’’فدک ‘‘ص ۲۲تا ۲۴ تالیف شہید آیۃ اللہ محمد باقر الصدر، جن میں تمام حوالہ جات مکتبِ خلفاء کی کتابوں سے لئے گئے ہیں۔

زندگی کا اجمالی جائزہ

اب ہم اپنے قارئین کیلئے مخدومۂ کونین (سلام اللہ علیہا)کی زندگی کا اجمالی جائزہ اور اپنی تمام گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہیں :
__مخدومۂ کونین ؑخاندان عصمت و طہارت کا محور ہیں ___
ارباب سیرت و تاریخ نے حضرات اہلِ بیت عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ :
’’اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک ایسا خاندان خلق فرمایا ہے جسے ہر قسم کی نجاست اور پلیدی سے پاک و پاکیزہ اور ہر قسم کے عیب و نقص اور خطا و لغزش سے محفوظ رکھا ہے، اور ہمارے اس دعویٰ کی دلیل سورہ احزاب کی۳۳ ویں آیت ہے جو کہ آیتِ تطہیر کے نام سے مشہور ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’اِنَّمُا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ ‘‘
…‘‘اے اہلِ بیت ِ پیغمبر ؐ ! اللہ تعالیٰ تو بس یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی نجاست کو دور رکھے اور تمہیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاکیزہ رکھنے کا حق ہے‘‘
تو آیت کی رو سے عصمت و طہارت اس خاندان کے خمیر، فطرت اور طینت میں شامل ہے اور اہلِ بیت ؑ اطہار علیہم السلام کے تعارف کیلئے یہ آیت وہم و گمان اور تصور سے بھی بالا تر اہمیت کی حامل ہے، اور اہلِ بیت علیہم السلام سے ہر قسم کے رجس اور نجاست کو دور کر دیا گیا ہے، خواہ شرک جیسی اعلیٰ درجے کی نجاست ہو یا خطا و لغزش جیسی ادنیٰ درجے کی __اور اسی بنا پر اہلِ بیت علیہم السلام اطہار ہیں اور انہیں دوسرے تمام انسانوں پر فضیلت اور برتری حاصل ہے۔
عصمت و طہارت اہلِ بیت علیہم السلام کے ساتھ خداوندِ عالم کے تکوینی ارادے کا بھی تعلق ہے اور تشریعی ارادے کا بھی، خدا وندِ عالم کے تکوینی ارادے سے یہ خاندان از خود خداوندِ عالم کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہیں دیتے اور اس کے ارادہ تشریعی کے مطابق دوسرے لوگوں کی ہدایت کے لئے روشنی کا مینار ہیں، خالق سے ہدایت کے احکام لے کر اس کی مخلوق تک پہنچاتے ہیں، لہٰذا چادر یمانی میں انہی کے بارے میں آیت تطہیر نازل ہوئی اور انہیں اہلِ بیت عصمت و طہارت قرار دیا اور انسان کی اجتماعی زندگی کے امور کا محور انہیں قرار دیا ہے، اور عالم انسانیت کو ان کے دامان سے وابستہ رہنے کا حکم دیا ہے۔
تفسیر مجمع البیان،تفسیر شوکانی، صواعق محرقہ جیسی عامہ اور خاصہ کتابوں کے علاوہ جس نے بھی کوئی تفسیر لکھی ہے یا حدیثِ کساء کو نقل کیا ہے اس نے اس حقیقت کا اعتراف ضرور کیا ہے کہ اس آیت کا شان نزول، کساء یمانی میں اہلِ بیت (ع) کا جمع ہونا ہے، اخبار و روایات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ بیت ؑ صرف فاطمہ زہرا ؑ ان کے والدمحمد مصطفی (ص) ان کے شوہر علی مرتضیٰ (ع) اور ان کے دو بیٹے حسن ؑ اور حسین ؑ علیہم السلام ہیں اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے نو معصوم امام زین العابدین ؑ سے لیکر امام مہدی علیہم السلام ہیں، جن کے اسماء، کنیت، لقب، خصوصیات ولایت اور عرصہ زندگانی پہلے سے حضرت رسول اکرم ؐ نے بیان فرمادیا تھا، اسی لئے کسی اور کے اہلِ بیت میں شامل ہونے کی نفی کر دی گئی ہے۔
اس فضیلت اور منقبت میں خاندانِ عصمت و طہارت کی زندگی کا محور و مرکز مخدومہ کونین صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو قرار دیا گیا ہے، اور چرخِ نبوت، ولایت کی گردش کا مرکزی نقطہ اسی ملکہ اسلام کی شخصیت ہے، حتیٰ کہ جب اصحاب کساء کا تعارف کرایا گیا تو خالق نے ارشاد فرمایا:
’’ہُمْ فَاطِمَۃُ وَاَبُوْہَا وَبَعْلُہَا وَبَنُوْہَا ‘‘ یہ فاطمہ ہیں، ان کے والد ہیں، ان کے شوہر ہیں اور ان کی اولاد ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (ع) کے جلالت شان اور مقام مرتبہ اور عظمت کے پیشِ نظر ان کا نام تین مرتبہ لیا گیا جبکہ دوسرے حضرات کا صرف ایک ایک مرتبہ، اسی سے ہی جناب رسالت مآب ؐ کے فرمانِ ذیشان کی عظمت کا پتہ چلتا ہے کہ فرماتے ہیں ’’فَاطِمَۃُ اُمُّ اَبِیْھَا ‘‘ فاطمہ ؑ اپنے باپ کی ماں ہے، یعنی فاطمہ زہرا ؑ عصمت و طہارت منقبت و فضیلت میں گویا رسول اسلام ؐ کی ماں ہیں، خاندانِ اہلِ بیت ؑ کے سلسلہ جلیلہ سادات کی بنیاد آپ ہی سے رکھی گئی ہے، اور یہی چیز ’’کوثر‘‘ کی معنوی حقیقت کو نمایاں کر رہی ہے، بتولِ عذرا کی نو فسالہ ازدواجی زندگی نے سعادت بشر کیلئے وہ نقوش چھوڑے ہیں کہ حکیم الامت کو بھی ان الفاظ میں بتولِ پاک کی بارگاہ میں خراجِ عقیدت پیش کرنا پڑا: ؎
مادران را اسوہ کامل بتول ؑ
دنیا جہان کی نسلیں اور قومیں آپ کی مرہون منت ہیں اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا،
آخر میں ہم بھی مخدومہ کونین کی بارگاہ عظمت میں ان الفاظ کے ساتھ ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں :
ای دُخترِ نبی (ص)، زوجِ علی گوهرِ یکتا
ای بدر دُجی شمس هُدی ام ابیها
روی تو ضُحی باشد و گیسوی تو واللیل
کوثر لب تو قامت تو شاخه طوبی
تو جهانی و جهانی بتو بسته
تو راز نهانی و نهان د ر تو هویدا
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ اَجْمَعِیْنَ

اسماء اور القاب کی تشریح

ناسخ التواریخ، مراۃ الاصول شرح اصول کافی، البدایہ والنہایہ، کشف الغمہ اور سیرۃ ابن ہشام کے مطابق آفتاب وجود فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ملکہ عرب حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے دامانِ مشرق سے مکہ مکرمہ کے ایک مقدس مقام میں 20 جمادی الثانی ۵ بعثت کو طلوع ہوا، جس نے اپنی روشنی سے غلامی و بردگی اور جہالت و ضلالت کے تاریک ماحول کو روشن کر دیا، اور بوقت ولادت آپ کے نور نے شہرِ مکہ کے تمام گھروں کو اپنے نور سے منور کر دیا، اور حضورِ سرورِ کائناتؐ کے مبارک لبوں سے شکرِ خدا ادا ہونے لگا، اور قرآنِ پاک کی شہادت کے مطابق آپ پاک و پاکیزہ، طیبہ و طاہرہ اور ہر پلیدی اور عادات نسوانیہ سے منزہ و مبرا اس دنیا میں تشریف لائیں، کتاب الخصال، امالی اور علل الشرائع کے مطابق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمۃ الزہرا (س) کے نو (۹) آسمانی نام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہی رکھے ہیں :
فاطمہ ؑ، صدیقہ ؑ، مبارکہؑ، طاہرہ ؑ، زکیہ ؑ، راضیہ ؑ، مرضیہ ؑ، محدثہ ؑ اور زہرا ؑ۔
ابن شہر آشوب نے مناقب میں اور علامہ مجلسی نے بحار میں سیدہ کونین کے اور بھی اسمائے گرمی کا تذکرہ کیا ہے، اور ہر ایک نام کی خصوصی وجہ تسمیہ بھی بیان کی ہے۔
اس معظمہ کے القاب ہیں سَیِّدَۃُ نِسَآء الْعَالَمِیْنَ، سَیِّدَۃُ نِسَآء اَہْلِ الْجَنَّۃِ، خَیْرُالنِّسَآء اور بتولِ عذرا، رسول پاک ؐ سے جب ’’بتول ؑ‘‘ کا معنی پوچھا گیا تو دوائر العلوم موسوی روضاتی اور مسند احمد بن حنبل کے مطابق آپ نے فرمایا :
’’بتول وہ ہوتی ہے جس نے نہ تو کبھی اپنی طرف سے نجاست دیکھی ہو اور نہ ہی کسی دور میں نماز سے جدائی اختیار کی ہو ‘‘جو اس بات کا کنایہ ہے کہ وہ ہر قسم کی نجاست اور زنانہ عادت سے پاک ہوتی ہو، اور یہ خصوصیت صرف حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو حاصل ہے یا پھر حضرت مریم علیہا السلام کو۔
علامہ مجلسی ؒنے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بعض اسماء کی اس طرح تشریح کی ہے :
۱۔ صِدِّیْقَہ : بہت سچی، جس نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، جس سے آپ کی عصمت کا ثبوت ملتا ہے لہٰذا اس وجہ سے آپ کو معصومہ بھی کہ سکتے ہیں، اسی لئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے زہرا ؑ سے بڑھ کر کسی کو سچا نہیں دیکھا۔
۲۔ مُبَارَکَہ: جس کے علم و فضل اور کمالات و معجزات اور اولاد و ذریت میں اللہ تعالیٰ نے برکت عطا کی ہے۔
۳۔ طَاہِرَہ: یعنی ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک و پاکیزہ، اور زندگی کے کسی دن نماز پڑھنے سے محروم نہ ہوئی ہو۔
۴۔ زَکِیَّہ: یعنی کمالات اور نیکی کے کاموں کو پروان چڑھانے والی، اور مذموم اخلاق سے پاک و پاکیزہ۔
۵۔ رَاضِیَہ: یعنی قضائے الٰہی پر راضی رہنے والی، رسول اللہ اور ولی خدا سے ہمیشہ راضی، یہ بھی کہ آخرت میں خدا آپ کی اس قدر شفاعت قبول کرے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گی۔
۶۔ مَرْضِیَّہ: یعنی جس سے خدا، رسول خدا ؐ اور ولی خدا اور اس کے عقیدت مند راضی ہوں۔
۷۔ مُحَدِّثَہ: یعنی جس سے ملائکہ باتیں کریں اور وہ غیب کی خبروں کو بیان کرے۔
۸۔ زَہْرَا ؑ: یعنی ظاہر اور باطن کے نور کی حامل۔
۹۔ فَاطِمَہ ؑ: یعنی ہر قسم کی برائی سے دور ہٹی ہوئی اور طبعی آلود گیوں سے جدا کی ہوئی۔
اسی طرح سے آپ کی ذریت کو جہنم کی آگ سے دور رکھا گیا۔

کچھ اور کنیتیں اور القاب
حضرت مخدومہ کونین سلام اللہ علیہا اپنے والد گرامی اور شوہر نامدار کی مانند گوناگوں صفات کا مظہر اور مختلف و بے شمار اسماء و القاب اور کنیتوں کی حامل تھیں۔
چنانچہ آپ کی مشہور کنیتیں ہیں :
اُمُّ الْحَسَن، اُمُّ الْحُسَیْن، اُمُّ الْمُحْسِن، اُمُّ الْاَئمہ، اُمُّ السِّبْطَیْن، اُمُّ اَبِیْھَا
اور آپ کے یہ القاب ہیں :
اَلْبَتُوْل، اَلْحِصَان، اَلْحُرَّہ، اَلسَّیِّدَۃُ الْعَذْرَآ ء، اَلْحَوْرَآء الْمُبَارَکَہ، اَلطَّاہِرَہ، الزَّکِیَّہ، اَلرَّاضِیَہ، اَلْمَرْضِیَّہ، اَلْمُحَدَّثَہ، مَرْیَمُ کُبْریٰ، صِدِّیْقَۃُ کُبْریٰ، نُوْرِیَّۃُ سَمَاوِیَّہ، اَلصِّدِّیْقَۃُ بِالْاَقْوَالِ، اَلْمُبَارَکَۃُ بِالْاَحْوَالِ، اَلطَّاھِرَۃُ بِالْاَفْعَال، اَلزَّکِیَّۃُ بِالْعَدْاَلَۃِ، اَلرَّضِیَّۃُ بِالْمَقَالَہ، اَلْمَرْضِیَّۃُ بِالدَّلَالَہ، اَلْمُحَدِّثَۃُ بِالشَّفْقَہ، اَلْحُرَّۃُ بِالنَّفْقَہ، اَلسَّیِّدَۃُ بِالصَّدَقَہ، اَلْحَنَّانُ بِالْمَنَّانِ، اَلْبَتُوْلُ فِی الزَّمَانِ، اَلزَّہْرَآء بِالْاِحْصَانِ، مَرْیَمُ الْکُبْریٰ بِالسِّتْر، فَاطِمَۃ ُبِالْبِرّ، اَلنُّورِیَّۃُ بِالشَّہَادَۃِ، اَلسَّمَاوِیَّۃ بِالْعِبَادَہ، اَلْحَانِیَّۃُ بِالزَّہَادِہ، اَلْعَذْرَآء بِالْوِلَادَہ، اَلزَّاہِدَۃُ الصَّفِیَّۃُ، اَلْعَابِدَۃُ الرَّضِیَّہ، اَلْمَرْضِیَّۃُ الْمُتَہَجِّدَہْ، اَلشَّرِیْفَۃُ الْقَانِتَۃُ الْعَفِیْفَہْ، سَیِّدَۃُ النِّسْوَانْ، حَبِیْبَۃُ حَبِیْبِ الرَّحْمَان، صَفِیَّۃ ُالرَّحْمَان، اِبْنَۃُ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ، قُرَّۃُ عَیْنِ جَمِیْعِ الْخَلٓائق اَجْمَعِیْن، المتظلمۃ بَیْنَ یَدَیِ الْعَرْشِ یَوْمَ الدِّیْن، ثَمْرَۃُ النُّبُوَّۃِ، اُمُّ الْاَئمہ، زُہْرَۃُ فُوَاد ِ شَفِیْعِ الْاُمَّہ، اَلزَّہْرَاء، اَلْمُحْتَرَمَہ، اَلْغُرَّۃُ الْمُحْتَشِمَۃُ، اَلْمُکَرَّمَۃُ تَحْتَ الْقُبَّۃِ الْخَضْرَآء، اَلْاِنْسِیَّۃُ الْحُوْرَآء، اَلْبَتُوْلُ الْعَذْرَاء، سَیِّدَۃُ النِّسَآء، وَارِثَۃُ سَیِّدِالْاَنْبِیَآء، قَرِیْنَۃُ سَیِّدِ الْاَوْصِیَآء، فَاطِمَۃُ الزَّہْرَآء، رَاحَۃُ رُوْحِ الْمُصْطَفیٰ، صَاحِبَۃُ شَجْرَۃِ الطُّوبیٰ، من اُنْزِل فِیْ شَأْنِھَا وَشَأْنِ زَوْجِھَا وَالْاَوْلَادِہَا سُوْرَۃُ ہَلْ اَتی ٰ، اِبْنَۃُ النَّبِیِّ وَصَاحِبَۃُ الْوَصِیّ،اُمُ السِّبْطَیْن، جَدَّۃُ الْاَئمہ، سَیِّدَۃُ نِسَآء الدُّنْیَاوَالْآخِرَہ، زَ وْجَۃُ الْمُرْتَضیٰ، وَالِدَۃُ الْمُجْتَبیٰ، اِبْنَۃُ الْمُصْطَفیٰ، اَلسِّیِّدَۃُ الْمَعْصُوْمَۃُ الْکَرِیْمَہ، اَلْمَظْلُوْمَۃُ الشَّہِیْدَہ، اَلسَّیِّدَۃُ الرَّشِیْدَہ، شَقِیْقَۃُ مَرْیَم، اِبْنَۃُ مُحَمَّدِنِِ الْاَکْرَم، اَلْمُعَظَّمَۃُ مِنْ کُلِّ شَرّ، اَلْمَظْلُوْمَۃُ بِکُلِّ خَیْرٍ، اَلْمُعَنْوَنَۃُ فِی الْاِنْجِیْل، اَلْمَوْصُوْفَۃُ بِالْبِرِّ وَالتَّبْجِیْل، درَّۃُ صَاحِبِ الْوَحْیِ وَ التَّنْزِیْلِ، جَدُّھَا الْخَلِیْلُ وَمَادِحُھَا الْجَلِیْل۔

قرآن کی رو سے آپ کا مقام ومرتبہ

علامہ سید عبد الحسین شرف الدین موسوی اپنی کتاب ’’الکلمۃ الغراء فی تفضیل فاطمۃ الزہراء ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں :
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں جن آیات کو پیش کیا جاتا ہے وہ آیت مباہلہ، آیت تطہیر اور سورہ دہر کی’’ آیات ابرار‘‘ ہیں، جو آپ کی عظمت اور مقام و منزلت پر شاہد ناطق ہیں، اور ناقابلِ تردید کی حیثیت رکھتی ہیں۔
بطور مثال اسی آیت مباہلہ (آل عمران /۶۱) کو لے لیجئے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :
’’فَمَنْ حَاجَّکَ فِیْہِ مِن بَّعْدِ مَاجَآئک مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئنا وَاَبْنَآئکمْ وَنِسَآئنا وَنِسَآء کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن ‘‘
آپ کے پاس علم آ جانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ عیسیٰ ؑکے بارے میں آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہ دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ،ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
اس آیت کے بارے میں واقدی نے اسباب النزول میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے دارِ قطنی نے اپنی کتاب میں اور ابن حجر نے اپنی کتاب الصواعق المحرقہ اور مکتب خلفاء کے دوسرے بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ :
___’’ اَبْنَآئنا ‘‘سے مراد حسن ؑ اور حسین ؑ ہیں، ’’نِسَآئنا‘‘ سے مراد حضرت فاطمہ زہرا ؑ ہیں اور ’’اَنْفُسَنَا‘‘سے مراد علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں ___
بلکہ ابن حجر نے تو یہاں تک بھی لکھ دیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے بروز شوریٰ اپنے مخالفین کے سامنے احتجاج کے طور پر فرمایا:
’’تمہیں خدا کی قسم آیا تمہیں یاد ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا تھا کہ میرے بیٹے حسن ؑ اور حسین ؑ ہیں، میری بیٹی فاطمہ زہرا ؑ ہیں اور میرا نفس علی بن ابی طالب ہیں ؟‘‘تو سب نے کہا کہ : ’’ہاں ! ضرور فرمایا تھا ‘‘
تو اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر خدا، علی مرتضیٰ، فاطمہ زہرا اور حسن و حسین علیہم السلام کائنات کے تمام انسانوں سے افضل ہیں۔
بیروت کے محکمہ قانون کے رئیس جناب نبہانی اپنی کتاب ’’اَلْمُؤَبَّدُ لِآلِ مُحَمَّدؐ‘‘ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کو ترمذی شریف سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ رسول خدا ؐ نے فرمایا:
’’اَحَبُّ اَھْلِیْ اِلَیَّ فَاطِمَۃ‘‘ میرے اہلِ بیت ؑ میں سے مجھے سب سے زیادہ فاطمہ زہرا ؑ محبوب ہیں، اسی کتاب میں ہے کہ طبرانی نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی ؑ نے پیغمبر خدا ؐ سے پوچھا ’’یارسول اللہ!اَیُّنَا اَحَبُّ اِلَیْکَ اَنَا اَمْ فَاطِمَۃ؟‘‘ اللہ کے رسول ؐ! ہم میں سے سب سے زیادہ آپ کو کون محبوب ہے، میں یا فاطمہ زہرا ؑ ؟ تو سرکار رسالت مآب ؐ نے فرمایا: ’’فَاطِمَۃُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْکَ وَاَنْت اَعَزُّ عَلَیَّ مِنْہَا‘‘ فاطمہ ؑ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور آپ مجھے فاطمہ ؑ سے زیادہ عزیز ہیں۔
اسی کتاب ہی کے صفحہ نمبر ۵۸ میں ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے فاطمہ ؑ سے بڑھ کر نہ تو گفتار میں رسول ؐ کے مشابہ کسی کو دیکھا اور نہ ہی رفتار میں، اور جب بھی فاطمہ ؑ اپنے والد کے پاس تشریف لاتیـں تو رسول گرامی سرتاپا کھڑے ہو جاتے ان کا استقبال کرتے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی مسند پر اپنے پہلو میں بٹھاتے ‘‘
طبرانی روایت کرتے ہیں کہ رسول اسلام ؐ نے فاطمہ ؑ سے فرمایا: ’’اِنَّ اللّٰہَ یَغْضِبُ لِغَضَبِکِ وَیَرْضیٰ لِرِضَاکِ ‘‘خدا وندعالم آپ کی ناراضی کی وجہ سے ناراض ہوتا ہے اور آپ کی رضا مندی سے راضی ہوتا ہے،
بعینہٖ اسی روایت کو جامع صغیر اور بخاری نے بھی بیان کیا ہے، اور ابن حیان نے بیان کیا ہے کہ رسول پاک ؐ نے فرمایا: ’’فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَآء الْعَالَمِیْنَ، فَاطِمَۃُ سَیِِّدَۃُ نِسَآء اُمَّتِیْ ‘‘ فاطمہ ؑ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں، فاطمہ ؑ میری امت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
ابن عبد البر کا کہنا ہے کہ سرکار رسالت مآب ؐ کا فرمان ہے کہ :’’فاطمہ ؑ! آیا آپ اس بات پر راضی نہیں کہ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہوں ؟‘‘ تو انہوں نے عرض کیا : ’’بابا! وہ حضرت مریم نہیں ہیں ؟‘‘فرمایا: ’’وہ اپنے دور کی عورتوں کی سردار ہیں ‘‘
آقا مقریزی ابن ابی داؤد سے نقل کرتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا:
’’ فَاطِمَۃُ بَضْعَۃٌ مِّنِّیْ وَلَااَعدل بِبَضْعَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ اَحَدًا‘‘ فاطمہ میرا ٹکڑا ہیں اور میں کسی اور کو رسول کے ٹکڑے کے برابر نہیں جانتا۔
سنن نسائی میں ہے کہ رسول پاک ؐ نے فرمایا:
’’اَنَّ ابْنَتِیْ فَاطِمَۃَ حَورآءُ آدمِیّۃ لَمْ تَحِضْ وَلَمْ تَطْمِثْ‘‘ میری بیٹی فاطمہ زہرا ؑ انسانی حور ہیں جو کبھی بھی کسی نسوانی نجاست سے آلودہ نہیں ہوئیں۔
حافظ سیوطی خصائص میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسالت مآب ؐ نے فرمایا:
’’اِبْنَتِیْ فَاطِمَۃُ اَنَّھَا کَانَتْ لَاتَحِیْضُ وَکَانَتْ اِذَاوَلَدَتْ طَھُرَتْ مِنْ نَّفْسِھَا بَعْدَ سَاعَۃٍ حَتّٰی لَاتَفُوتَہَا الصَّلوٰۃ وَلِذَالِکَ سَمَّیْت الزَّہْرَآء‘‘
میری بیٹی فاطمہ ؑ کبھی زنانہ عادت سے دو چار نہیں ہوتیں، اور اس کی کوئی بھی نماز کبھی نہیں چھوٹی، چاہے عادت ماہانہ ہو یا ولادت اولاد ہو۔
ابوصالح روایت کرتے ہیں کہ :
’’قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ص) اَوَّلُ شَخْصٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ فَاطِمَہ ‘‘پیغمبر خدا ؐ نے فرمایا: سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والی شخصیت فاطمہ زہرا ؑ کی ہو گی۔
ناسخ التواریخ ص۲۸۴ میں ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام جناب سلمان فارسی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا (ص) نے کسی کام کی غرض سے حضرت سلمان کو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دروازے پر بھیجا، سلمان کہتے ہیں کہ جب میں حجرے کے دروازے پر پہنچا تو دیکھا حضرت زہرا (س) ’’آسیا گردن و قرآن لب سرا ‘‘ چکی بھی پیس رہی ہیں اور قرآن کی تلاوت بھی کر رہی ہیں، جب میں حضور پاک ؐکے پاس واپس گیا اور سارا واقعہ بیان کیا تو سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’یَاسَلْمَانُ! اِنّ َابْنَتِیْ فَاطِمَۃَ مَلَأ اللّٰہُ قَلْبَھَا وَجَوَارِحَھَا اِیْمَانًا اِلٰی مَشَاشِھَا لِطَاعَۃِ اللّٰہِ ‘‘
سلمان ! اللہ تعالیٰ نے میری بیٹی فاطمہ ؑ کے گوشت و پوست اور ہڈیوں تک کو ایمان سے مخلوط کر دیا ہے، لہٰذا وہ ہر وقت اطاعت الٰہی میں ہوتی ہے اور کبھی خدا کے ذکر و فکر سے غافل نہیں ہوئی۔
مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ ’’فاطمہ ؑ کی رفتار اور گفتار پیغمبر خدا ؐ کی رفتار اور گفتار جیسی تھی ‘‘حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا ارشاد فرمایا:
’’فَاطِمَہُ بَضْعَۃٌ مّنِّیْ وَہِیَ قَلْبِیْ وَرُوْحِیْ الَّتِیْ بَیْنَ جَنْبِیْ،فَمَنْ آذَاہَا فَقَدْ آذَانِیْ، وَمَنْ آذَانِیْ فَقَد اَذَی اللّٰہ ‘‘
فاطمہ میرا ٹکڑا ہے اور میرے پہلو میں موجود میرا دل و جان ہے، جو اسے ستائے گا وہ مجھے ستائے گا اور جو مجھے ستائے گا وہ خدا کو اذیت پہنچائے گا۔

حضرت علی علیہ السلام اورحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مفاخرہ

کتاب مجمع النورین تالیف حاج ابوالحسن مرندی ص۴۵ تا ۴۸ میں ہے :
جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب زہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایا:
’’یَافَاطِمَۃُ اِنَّ النَّبِیَّ یُحِبُّنِیْ اَکْثَرَمِنْکِ‘‘ زہرا ؑ! پیغمبر خدا (ص) مجھے آپ سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
فَقَالَتْ فَاطِمَۃُ :’’وَاعَجَبَاہُ یُحِبُّکَ اَکْثَرَمِنِّیْ وَاَنَا ثَمْرَۃُ فُؤَادِہٖ وَعُضْوٌ مِّنْ اَعْضَآئہٖ وَلَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ غَیْرِیْ‘‘
عجیب بات ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ آپ سے محبت کرتے ہیں حالانکہ میں ان کے دل کا میوہ اور جسم کا حصہ ہوں میرے علاوہ ان کی اور کوئی اولاد بھی نہیں۔
فَقَالَ لَہَا عَلِیٌّ (ع) ’’اِن لَّمْ تُصَدِّقْنِیْ فَامْضی بِنَااِلٰی اَبِیْکِ مُحَمَّد ٍ(ص) ‘‘
تو حضرت علی ؑ نے فرمایا:اگر آپ میری بات نہیں مانتیں تو چلو خود انہیں کے پاس چلتے ہیں۔
قَالَ فَمَضِیْنَا اِلٰی حَضْرَتِہٖ فَتَقَدَّمَتْ فَاطِمَۃُ فَقَالَتْ ‘‘ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ! اَیُّنَا اَحَبُّ اِلَیْکَ، اَنَا اَمْ عَلِیٌّ ؟‘‘
راوی کہتے ہیں کہ دونوں معصوم ؑ رسول خدا ؐ کی خدمت میں روانہ ہو گئے، حضرت زہرا ؑ نے آگے بڑھ کر کہا : ’’اے اللہ کے رسول ؐ ! ہم میں سے آپ کو کون زیادہ محبوب ہے؟‘‘
قَالَ النَّبِیُّ (ص) ’’أَنْتِ اَحِبُّ اِلَیَّ مِنْہُ وَعَلِیٌّ اَعَزُّ مِنْکِ اِلَیّ‘‘ تم مجھے اس سے زیادہ محبوب ہو اور وہ مجھے تم سے زیادہ عزیز ہیں۔
یہ سن کر امام علی علیہ السلام نے حضرت زہرا ؑ سے فرمایا کہ میں نے نہیں کہا تھا کہ :
اِنِّیْ وَلَدُ فَاطِمَۃَذَاتِ التُّقیٰ :میں صاحب تقویٰ خاتون فاطمہ بنت اسد کا فرزند ہوں
زہرا ؑ نے فرمایا:اَنَا ابْنَۃُ خَدِیْجَۃِ الْکُبْریٰ : میں خدیجۃ الکبریٰ کی صاحبزادی ہوں۔
علی ؑ نے کہا :اَنَا ابْنُ الصَّفَا : میں صفا کا بیٹاہوں۔
زہرا ؑ نے کہا :اَنَا بِنْتُ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھیٰ: میں سدرۃ المنتھیٰ کی صاحبزادی ہوں۔
علی ؑ نے کہا :اَنَا فَخْرُ الوَریٰ :میں کائنات کا فخر ہوں،
زہرا ؑ نے کہا : اَنَا بِنْتُ مَنْ دَنیٰ فَتَدَلّٰی وَکَانَ مِن رَّبِّہٖ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنیٰ : میں اس کی بیٹی ہوں جو قاب قوسین کی منزل تک گیا۔
علی ؑ نے کہا : اَنَاوَلَدُ الْمُحْصَنَاتِ: میں پاکدامن ماؤں کا فرزند ہوں۔
زہرا ؑ نے کہا :اَنَا بِنْتُ الصَّالِحَاتِ المؤمِنَاتِ : میں نیک اور مؤمن ماؤں کی آغوش پروردہ ہوں۔
علی ؑ نے کہا:اَنَا خَادِمِیْ جِبْرَائیل : میں وہ ہوں کہ جبرائیل جس کا خدمتگار ہے
زہرا ؑ نے کہا : اَنَا خَادِمی مِنَ السَّمَآءِ رَاحِیْلُ وَخَدَّمْتَنِی الْمَلَائکۃُ جِیْلًا بَّعْدَ جِیْل: میں وہ ہوں کہ آسمان سے راحیل فرشتہ جس کا خادم ہے اور ملائکہ گروہ در گروہ میری خدمت کرتے ہیں
علی ؑنے کہ : وُلِدتُّ فِی الْمَحَلِّ الْبَعِیْدِ المُرْتَقیٰ : میں خدا کے ایسے گھر میں پیدا ہوا ہوں جس کی شان بہت بلند ہے۔
زہرا ؑ نے کہا :اَنَا زُوِّجْتُ فِی الرَّفِیْعِ الْاَعْلیٰ وَکَانَ مَلَاکِیْ فِی السَّمَآء : میں وہ ہوں کہ جس کے عقد ازدواج کے مراسم آسمانوں کی بلندیوں میں ادا ہوئے۔
علی ؑ نے کہا :اَنَا حَامِلُ اللِّوَآء : میرے ہاتھ میں لواء الحمد ہو گا۔
زہرا ؑ نے کہا :اَنَا بِنْتُ مَنْ عُرِجَ بِہِ اِلَی السَّمَآء : میں اس کی بیٹی ہوں جسے معراج کی سعادت حاصل ہوئی،
علی ؑ : اَنَا صَالِحُ الْمُؤمِنِیْنَ :میں خدا کے مومن بندوں سے صالح بندہ مومن ہوں۔
زہرا ؑ : اَنَا بِنْتُ خَاتَمِ النَّبِیِّیْن : میں خاتم الانبیاء کی بیٹی ہوں۔
علی ؑ :اَنَا الضَّارِبُ عَلَی التَّنْزِیْلِ: میں تنزیل قرآن کے سلسلے میں دشمنوں سے جنگ کر رہاہوں۔
زہرا ؑ : اَنَا جُنَّۃُ التَّأْوِیْل: میں تاویل کی ڈھال ہوں۔
علی ؑ : اَنَاالشَّجَرَۃُ مِنْ طُوْرِسَیْنِیْن : میں طور سیناء کا درخت ہوں۔
زہرا ؑ:اَنَا الشَّجَرَۃُ الَّتِیْ تُؤْتِی اُکُلَہَا کُلَّ حِیْن : میں وہ درخت ہوں جس کا پھل ہر وقت سدا بہار ہے۔یعنی حسنؑ اور حسینؑ۔
علی ؑ ! اَنَا الْمَثانِیَ وَالْقُرآنُ الْحَکِیْم : میں سورہ حمد اور قرآن حکیم ہوں۔
زہرا ؑ: اَنَا ابْنَۃُ النَّبِیِّ الْکَرِیْم : میں نبی اکرم ؐ کی صاحبزادی ہوں۔
علی ؑ : اَنَا النَّبَاء الْعَظِیْم : میں قرآن کی بتائی ہوئی بہت بڑی خبر ہوں۔
زہرا ؑ: اَنَاابْنَۃُ الصَّادِقِ الْاَمِیْن : میں صادق اور امین کی بیٹی ہوں۔
علی ؑ: اَنَا حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْن: میں خدا کی مضبوط اور محفوظ رسی ہوں۔
زہرا ؑ: اَنَا ابْنَۃُ خَیْر ٍمِّنَ الْخَلْقِ اَجْمَعِیْن: میں تمام کائنات کی مخلوقِ خدا سے افضل ذات کی بیٹی ہوں۔
علی ؑ:اَنَا لَیْثٌ لِّلْحُرُوْب: میں جنگ کا غضبناک شیر ہوں۔
زہراؑ: اَنَابِنْتُ مَن یَّغْفِرُ اللّٰہَ بِہِ الذُّنُوْب : میں اس کی بیٹی ہوں جس کی بدولت خدا لوگوں کے گناہوں کو معاف کرتا ہوں۔
علی ؑ : اَنَا الْمُتَصَدِّقٌ بِّالْخَاتَم : میں نے حالت رکوع میں انگوٹھی زکوٰۃ میں دی۔
زہرا ؑ:اَنَا بِنْتُ سَیِّدِ الْعَالَم : میں دنیا جہان کے سردار کی بیٹی ہوں۔
علی ؑ : اَنَاسَیِّدُ بَنِیْ ہَاشِم : میں بنی ہاشم کا سردار ہوں۔
زہرا ؑ : اَنَا بِنْتُ مُحَمَّدِ نِِ الْمُصْطَفیٰ : میں محمد مصطفی کی دختر ہوں۔
علی ؑ: اَنَاسَیِّدُ الْوَصِیِّیْن : میں تمام اوصیاء کا سردار ہوں۔
زہرا ؑ : اَنَا بِنْتُ النَّبِیِّ الْعَرَبِیّ : میں رسول عربی ؑ کی بیٹی ہوں۔
علی ؑ: اَنَاالشُّجَاعُ الْکَمِّی: میں بہادر انسانوں کا قاتل ہوں۔
زہرا ؑ: اَنَا بِنْتُ اَحْمَدِ النَّبِیّ : میں احمد مجتبیٰ پیغمبر کی بیٹی ہوں۔
علی ؑ: اَنَاالبَطْلُ الْاَوْرَع: میں بہادر پارسا ہوں۔
زہرا ؑ : اَنَا ابْنَۃُ الشَّفِیْعِ الْمُشفع: میں اس کی بیٹی ہوں جس کی شفاعت ہرگز رد نہیں کی جائے گی۔
علی ؑ: اَنَاقَسِیْمُ الْجَنَّۃِ وَالنَّار: میں جنت اور جہنم کا تقسیم کرنے والا ہوں۔
فاطمہ ؑ: اَنَاابَنَۃُ مُحَمَّدِ نِِ الْمُخْتَار: میں محمد مختار کی صاحبزادی ہوں۔
علی ؑ: اَنَاقَاتِلُ الْجَآنّ: میں جنات کا قاتل ہوں۔
فاطمہؑ : اَنَا ابْنَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ الْمَلِکِ الدَّیَّان: میں قادر مطلق خدا کے رسول کی بیٹی ہوں۔
علیؑ:اَنَا الْاِمَامُ الْمُرْتَضیٰ:میں امام مرتضیٰ ہوں۔
زہراؑ:اَنَا ابْنَۃُ سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْن:میں سید المرسلین کی صاحبزادی ہوں۔
علی ؑ:اَنَا خِیَرَۃُ الرَّحْمٰن : میں خدا وند رحمان کا برگزیدہ ہوں۔
زہرا ؑ: اَنَا خِیَرَۃُ النِّسْوَانِ : میں تمام خواتین میں سے برگزیدہ ہوں۔
علی ؑ : اَنَامُتَکَلِّمُ اَصْحَابِ الرَّقِیْم : میں اصحاب کہف و رقیم سے ہم کلام ہوا ہوں۔
فاطمہ ؑ: اَنَاابْنَۃُ مَنْ اُرْسِلَ رَحْمَۃً لِّلْمُؤْمِنِینَ وَبِھِم رَؤُفُ رَّحِیْم : میں اس نبی مرسل کی بیٹی ہوں جو مومنین کے لئے رحمت اور ان کے ساتھ رحم و مہربانی کرنے والے بنا کر بھیجا گیا۔
علی ؑ: اَنَا الَّذِی جَعَلَ اللّٰہُ نَفْسِیْ نَفْسَ مُحَمدٍ حَیْثُ یَّقُوْل ُفِی کِتَابِہٖ الْعَزِیز اَنْفُسَنا وَاَنفُسَکُمْ :میں مباہلہ کے دن قرآنی نص کے مطابق نفس رسول ہوں۔
زہرا ؑ: اَنَا الَّذِیْ یَقُوْلُ فِیْ کِتَابِہِ الْعَزِیْزِ نِسَآئنا وَنِسَآئکمْ : میں وہ ہوں جسے مباہلہ کے دن پیغمبر ؐ کی صدیقہ بیٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
علیؑ:اَنَا عَلَّمْتُ شِیْعَتِی الْقُرآنَ:میں نے اپنے شیعوں کو قرآن کی تعلیم دی۔
زہراؑ:اَنَا یَعْتِقُ اللہُ مَنْ اَحَبَّنِی من النِّیْرَانِ:میں وہ ہوں کہ جس سے محبت کرنے والے کو خدا جہنم سے آزاد کر دے گا۔
علی ؑ : اَنَا مَنْ شِیْعَتِیْ مِنْ عِلْمِیْ یَسْطُرُوْنَ: میں وہ ہوں کہ جس کے شیعہ اس کے علم سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔
فاطمہ ؑ:اَنَا بَحْرٌ مِنْ عِلْمِیْ یَغْتَرِفُوْن: میں وہ دریائے علم ہوں کہ جس سے دنیا فیضیاب ہوتی ہے۔
علی ؑ؛ اَنَاالَّذِی اشْتَقَّ اللّٰہُ اسْمِیْ مِنِ اسْمِہٖ فَھُوَ الْعَالِیْ وَاَنَاعَلِیّ :میں وہ ہوں جس کا نام خدا نے اپنے نام عالی سے مشتق کر کے علی ؑ رکھا۔
زہرا ؑ : اَنَا کَذَالِکَ فَہُوَالْفَاطِرُ وَاَنَا فَاطِمَہ : اسی طرح میرا نام بھی اپنے نام فاطر سے مشتق کر کے فاطمہ ؑ رکھا۔
علی ؑ: اَنَاحَیوٰۃُ الْعَارِفِیْن : میں صاحبان معرفت کی زندگی ہوں۔
زہرا ؑ: اَنَافَلَکُ نَجَاۃِ الرَّاغِبِیْن : میں رغبت رکھنے والوں کے چرخ نجات کی گردش کا محور ہوں۔
علی ؑ: اَنَاالْحَوَامِیْم : میں قرآن میں ذکر ہونے والے تمام حٰمٓ کا مجموعہ ہوں۔
زہرا ؑ: اَنَا ابْنَۃُ طَوَاسِیْن : میں بھی اس کی بیٹی ہوں جو قرآن میں ذکر ہونے والے تمام طاسین کا مجموعہ ہوں۔
علی ؑ: اَنَاکَنْزُ الْغِنیٰ : میں بے نیازی کا خزانہ ہوں۔
زہرا ؑ: اَنَا کَلِمَۃُ اللّٰہِ الْحُسْنیٰ :میں خدا کا کلمہ حسنیٰ ہوں۔
علی ؑ: اَنَا بِیْ تَابَ اللّٰہُ عَلیٰ آدَمَ فِیْ خَطِیٓئتہٖ: میں وہ ہوں جس کی وجہ سے اللہ نے آدم ؑ کی خطائیں معاف کر دیں۔
فاطمہؑ: اَنَا بِیْ قَبِلَ اللّٰہُ تَوْبَتَہٗ: میں وہ ہوں جس کی وجہ سے اللہ نے آدم کی توبہ قبول کی۔
علی ؑ: اَنَا کَسَفِیْنَۃِ نُوْحٍ مَّنْ رَّکِبَھَا نَجیٰ: میری مثال سفینہ نوح ؑ کی سی ہے جو سوار ہوا وہ پار ہوا۔
فاطمہ ؑ: اَنَااُ شَارِقُکَ فِی الدَّعویٰ:میں بھی آپؑ کے اس دعویٰ میں شریک ہوں۔
علی ؑ: اَنَا طُوْفَانُہٗ : میرے دریائے علم کی موجیں طوفانی ہوں :
زہراؑ: اَنَامِسْوَرَتُہ : میں کشتی نجات کا مرکز ثقل ہوں۔
علی ؑ: اَنَاالنَّسِیْمُ الْمُرْسَلُ اِلیٰ حِفْظِہٖ: میں اس کشتی کی محافظ باد نسیم ہوں۔
فاطمہ ؑ : اَنَامِنِّیْ اَنْھَارُ الْمَآء وَالْخَمْرِ وَالْعَسَلِ فِی الْجِنَانِ : میری وجہ سے بہشت کی شراباً طہوراً اور شہد کی نہریں جاری ہیں۔
علیؑ:وَاَنَاالطُّورُ:میں خداوند عالم کا حقیقی کوہ طور ہوں۔
زہراؑ:وَاَنَاالْکِتَابُ الْمَسْطُوْرُ:اور میں خدا کی لکھی ہوئی کتاب ہوں۔
علیؑ:اَنَا الرِّقُّ الْمَنْشُوْرُ:میں کھلا ہوا ورق ہوں۔
زہراؑ:وَاَنَابَیْتُ الْمَعْمُوْرُ:اور میں بیت المعمور اللہ کا آباد گھر ہوں۔
علیؑ:اَنَا السَّقْفُ الْمَرْفُوعُ:میں اس کی بلند چھت ہوں۔
زہرا:اَنَا الْبَحْرُ الْمَسْجُوْرُ:میں موجزن سمندرہوں
علی ؑ: اَنَاعَلٰی عِلْمِ النَّبِیّٖنَ: میرا علم، انبیاء کا علم ہے۔
زہرا ؑ : اَنَا بِنْتُ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْن : میں بھی اولین و آخرین انبیاء کے سردار کی بیٹی ہوں۔
علی ؑ: اَنَا بَعْدَ النَّبِیِّ خَیْرُ الْبَرِیَّہ ؛ میں پیغمبر اکرم ؐ کے بعد تمام دنیا سے بہتر و برتر ہوں۔
فاطمہؑ : اَنَا الْبَرَّۃُ الزَّکِیَّہ : میں نیکو کار پاکیزہ خاتون ہوں۔
اس موقع پر سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ زہرا ؑ سے مخاطب ہو کر نے فرمایا: ’’ لَاتُکَلِّمِیْ عَلِیٍّافَاِنَّہٗ ذُوالْبُرْہَان : علی ؑ سے اب بحث نہ کرو کیونکہ اس کے پاس بڑے دلائل اور برہان ہیں۔
زہرا ؑ: اَنَا ابْنَۃُ مَنْ اُنْزِلَ اِلَیْہِ الْقُرْآن : میں بھی اس کی نور چشم ہوں جس پر قرآن نازل ہوا ہے۔
علی ؑ: اَنَا الْاَمِیْنُ الْاَصْلَع : میں کشادہ پیشانی والا صاحب علم ہوں۔
زہرا ؑ : اَنَا الْکََوْکَبُ الَّذِیْ یَلْمَع: میں خدا کا درخشندہ ستارہ ہوں۔
رسول خدا ؐ نے فرمایا: فَہُوَ صَاحِبُ الشَّفَاعَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَہ : علی ؑ بروز قیامت گناہگاروں کی شفاعت کریں گے۔
زہرا ؑ: اَنَا خَاتُوْنُ یَوْمِ الْقِیَامَہ : میں عرصہ محشر کی شہزادی ہوں۔
اس موقع پر حضرت زہرا ؑ نے خدمت رسولؐ میں عرض کیا :’’ لَاتُحَامیٰ لِابْنِ عَمِّکَ وََ دَعْنِی وَاِیَّاہ‘‘ آپ اپنے چچا زاد بھائی کی حمایت نہ کریں انہیں اور مجھے اپنے حال پر رہنے دیں۔
علی ؑ نے فرمایا: اَنَا مِن مُّحَمَّدٍ عَصُبَتُہٗ وَنَجِیْبُہ: میں محمد مصطفیٰ ؑ کا نفس اور جان ہوں۔
زہرا ؑ: اَنَا لَحْمُہٗ وَدَمُہٗ: میں آنحضور ؐ کا گوشت اور خون ہوں۔
علی ؑ: اَنَا الصَّحْفُ: میں بولتا قرآن ہوں۔
زہرا ؑ :اَنَا الشَّرفُ : میں اس قرآن کا شرف ہوں۔
علی ؑ: اَنَا وَلِیُّ الزُّلْفیٰ : مجھے رسول گرامی کا قرب حاصل ہے۔
زہرا ؑ: اَنَاالْخَامِسَۃُ الْحُسْنیٰ : میں پنجتن پاک میں پانچواں نور ہوں۔
علی ؑ: اَنَا نُوْرُ الْوَریٰ : میں کائنات عالم کا نور ہوں۔
فاطمہ ؑ: اَنَا فَاطِمَۃُ الزَّہْرَآء : میں بھی تو فاطمہ زہرا ؑ ہوں۔
اس موقع پر سرکار رسالت مآب ﷺ نے حضرت مخدومہ کونین فاطمہ زہرا علیہا السلام سے فرمایا:’’یَافَاطِمَۃُ قُوْمِیْ وَقَبِّلِیْ رَأْسَ ابْنَ عَمِّکِ، وَہٰذَا جِبْرَآئیلُ وَمِیْکَآئیلُ وَاِسْرَافِیْلُ وَعِزْرَآئیلُ مَعَ اَرْبَعَۃِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَآئکۃِ یُحَامُوْنَ مَعَ عَلِیٍّ ؑ ‘‘
زہرا جانؑ ! اٹھو اور اپنے ابن عم علی ؑ کے سر کے بوسے لو، کیونکہ اس وقت چار ملائکہ مقرب چار ہزار فرشتوں کے ساتھ علی ؑ کی حمایت کر رہے ہیں۔
وَہٰذَا اَخِیْ رَاحِیْلُ وَدَرْدَائیلُ مَعَ اَرْبَعَۃِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَآئکۃِ یَنْظُرُوْن:
اور راحیل و دردائیل فرشتے چار ہزار ملائکہ کے ساتھ سارا منظر دیکھ رہے ہیں۔
قَالَ: فَقَامَتْ فَاطِمَۃُ الزَّہْرَآء وَقَبَّلَتْ رَأْسَ الْاِمَامَ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ بَّیْنَ یَدَیِ النَّبِیّ (ص)
وَقَالَتْ: ’’یَااَبَالْحَسَنِ بِحَقِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ، مَعْذِرَۃً اِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اِلَیْکَ وَاِلَی ابْنِ عَمِّک‘‘
مخدومہ کونین اٹھیں اور پیغمبر ؐ کے سامنے علی علیہ السلام کے سر کو بوسے دئیے اور عرض کی ابوالحسن ؑ! رسول خدا کے حق کا واسطہ دے کر خدا سے بھی، آپ سے بھی اور آپ کے ابن عم اور اللہ کے رسول ؐ سے بھی معذرت خواہ ہوں۔
تو اس وقت حضرت امیر ؑ نے جناب زہرا ؑ کے ہاتھوں کے بوسے لئے، اور سب معاف کر دیا۔
اس طرح سے مفاخرت کی یہ نورانی محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔

مخدومہ کونینؑ کے پر درد واقعات

دربار میں رونما ہونے والے حالات نے حضرت زہرا مرضیہ سلام اللہ علیہا کے دل کو سخت مجروح کیا ہی تھا کہ سیدہ کونین کو اپنے بابا کی قبر پر حاضری دینے سے بھی روک دیا گیا اور ایک ہفتہ تک یہ پابندی برقرار رہی تاکہ کہیں سیدہ ؑ دوبارہ مسجد نبوی ؐ میں آکر خطبہ ارشاد نہ فرمائیں جس سے کچھ لوگوں کی رسوائی ہو گی، ایک ہفتہ کے بعد سیدہ عالم ؑ اپنے بابا کی تربتِ پاک کی زیارت کے لئے قبرِ رسول ؐ پر تشریف لے گئیں بنی ہاشم کی خواتین نے آپ کو اپنے حلقہ میں لیا ہوا تھا، جونہی آپ کی نگاہ مزارِ پیغمبر ؐ پر پڑی آپ ؑ نے بے ساختہ ایک دردناک چیخ ماری اور بابا کی قبر پر بے ہوش ہو کر گر پڑیں اور کافی دیر تک غشی طاری رہی، جب غشی سے افاقہ ہوا اشکوں کا سیلاب آنکھوں سے جاری تھا، خون ِ دل آنسو بن بن کر ٹپک رہا تھا، اور سیدہ زبانِ حال سے کہ رہی تھیں :
از بسکہ غم بر روی غم و درد روی درد
راہ برون شدن زدلم نیست آہ را
مخدومہ کونین ؑ رو رو کر اپنے بابا کو دردِ دل کہ رہی تھیں :
میرے عظیم بابا! اب آپ کی جدائی پر میری طاقت جواب دے گئی ہے، آپ کی جدائی کا صدمہ مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتا، اعضاء و جوارح مضمحل ہو چکے ہیں، میری یتیمی پر دشمن خوشیاں منارے ہیں اور میرے دکھی دل پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔
بابا! آپ کے بغیر اب میں تنہا رہ گئی ہوں، سرگردان، حیران و پریشان !!زندگی کی شیرینی تلخی میں بدل چکی ہے اور روشن دن تاریک راتوں میں تبدیل ہو چکے ہیں،
بابا جان ! آپ مجھے اکیلا چھوڑ گئے ہیں اب میں کس سے اپنے دل کے حالات بیان کروں گی ؟ اب میرے پاس آہ و فغاں اور نالہ و فریاد کے سوا اور رہ کیا گیا ہے؟ بابا اب آپ موجود نہیں ہیں کہ میری اشک شوئی کرتے اور آپ کو نہ دیکھ کر میرے دل کا آرام و سکون ختم ہو چکا ہے، آپ کے بغیر اکیلی رہ گئی ہوں اور ہمیشہ آپ کو یاد کر کے روتی اور آہیں بھرتی ہوں !
میرے محبوب و مہربان بابا! آپ کہاں ہیں ؟ کہ ایک مرتبہ پھر آپ کی وجہ سے زمین پر آسمانوں کی رحمتوں کے دروازے کھول دئیے جائیں اور اللہ کے فرشتے اوجِ افلاک سے عالم ِخاک پر اپنے پر و بال بچھائیں !!
بابا جان ! جب سے آپ نے دنیا سے منہ پھیرا ہے اسی وقت سے سعادت کے چہرہ زیبا نے مجھ سے منہ موڑ لیا ہے، اور کامیابی و کامرانی کی تمام راہیں بند ہو گئیں ہیں، میں ہوں آپ کی اکلوتی بیٹی جو آپ کے بغیر دنیا سے سیر ہو چکی ہوں اب مجھے دنیا کی کوئی ضرورت نہیں …‘‘
کتاب مجمع النورین، فصول المہمہ اور اللمعۃ البیضاء فی شرح خطبۃ الزہرا(س) میں ہے کہ :
اب سیدہ عالم ؑکے غم کے جذبات میں شدت آ گئی اور غم کے اظہار کا ذریعہ نثر کی بجائے اشعار بننے لگے، مخدومہ کونین نے ایک طویل مرثیہ کہا، جس میں یہ بھی تھا:
صُبَّتْ عَلَیَّ مَصَآئب لَّوْ اَنَّھَا
صُبَّتْ عَلَی الْاَیَّامِ صِرْنَ لَیَا لِیَا
مجھ پر مصیبتوں کے وہ پہاڑ ٹوٹے کہ اگر دنوں پر پڑتے تو وہ سیاہ راتیں ہو جاتیں۔
اے مہربان بابا: اب آپ اپنے پیارے بیٹوں حسن ؑ و حسین ؑ کا حال نہ پوچھیں کہ ان پر کیا گزررہی ہے؟ اور علی ؑ کے بارے میں سوال نہ کریں کہ ان پر کیا بیتی؟ زینب ؑو ام کلثوم ؑکے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں ؟ اس بارے میں مجھ سے نہ پوچھیں ! بس اتنا کچھ سن لیں کہ آپ کے بعد ہم سب عزادار اور ماتم دار ہو چکے ہیں، اور جب تک زندہ رہیں گے آنسو بہاتے رہیں گے !!
یہ کہا اور آپ کی سانسیں رک گئیں، آواز خاموش ہو گئی، قریب تھا کہ اپنی جان، جان آفرین کے حوالے کر دیتیں کہ اطراف میں موجود خواتین ِ بنی ہاشم جو آپ کے گریہ اور بین سے مسلسل رو رہی تھیں اور حضور رسالت مآب ؐ کی قبر پر اپنے اشک نچھاور کر رہی تھی، انہوں نے دیکھا کہ اگر زہراء ِمظلومہ ؑ کی یہی حالت رہی تو ہم پاک بی بی کے وجود سے محروم ہو جائیں گے، انہوں نے آپ کے چہرہ اقدس پر پانی چھڑکا جس سے آپ کو غشی سے افاقہ ہوا تو آپ نے پھر خود کو قبرِ رسول ؐ پر یہ کہتے ہوئے گرا دیا :
’’وَا اَبَتَاہُ ! وَا صْفِیَّاہُ ! وَامُحَمَّدَاہُ ! وَا اَبُوالْقَاسِمَاہُ ! وَارَبِیْعَ الْاَرَامِلِ وَالْیَتَامیٰ!! مَن لِّلْقِبْلَۃِ وَالْمُصَلّٰی وَمَن لِا بْنَتِکَ الْوَالِھَۃِ الثُّکْلیٰ؟‘‘
ہائے بابا! ہائے محمد مصطفی ؐ! ہائے ابوالقاسم ؐ! ہائے بیواؤں اور یتیموں کی بہار! اب قبلہ اور نماز کے مقام کا محافظ کون ہو گا ؟ اب آپ کی پریشان حال، غمزدہ بیٹی کا پرسان حال کون ہو گا ؟‘‘
غرض آپ ؑ نے کافی دیر تک اپنے والدِ گرامی ؐ کی قبرِ مطہر کو سینے سے لگا کر وہ دردناک بین کئے اور مرثیے پڑھے جنہیں سن کر ہر درد مند دل شخص کا جگر پھٹ جاتا تھا اور کلیجہ منہ کو آتا تھا۔
اب کافی دیر گزر چکی تھی، خواتینِ بنی ہاشم نے مخدومہ کونین کو صبر کی تلقین کی اور تعزیت و تسلیت کے بعد گھر چلنے پر راضی کر لیا تھا، راوی کہتا ہے کہ :
’’رَجَعَتْ اِلیٰ مَنْزِلِہَا وَاَخَذَتْ بِالْبُکَآء وَالْعَوِیْلِ لَیْلَہَا وَنَھَارَہَا‘‘
مخدومہ عالم اپنے گھر واپس تشریف لے آئیں، لیکن شب و روز گریہ و بکاء اور نالہ و شیون میں مصروف رہتیں، اپنے بابا کی ان فرمائشات کو یاد کر کے روتی تھیں جوانہوں نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمائی تھیں کہ :
’’اِذَاکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ نَادیٰ مُنَادٍ مِن بُّطْنَانِ الْعَرْشِ یَامَعْشَرَ الْخَلَآئق غُضُّوٓا اَبْصَارَکُمْ حَتّٰی تَجُوْزَ فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ (ص)‘‘بروزِ قیامت عرشِ الٰہی کی جانب سے ایک منادی نددا دے گا اے اہلِ محشر ! اپنی آنکھیں بند کر لو تاکہ دخترِ محمد مصطفی ؐ حضرت فاطمۃ الزہرا (ع) یہاں سے گزر جائیں، کبھی یاد آتا :
’’اِنَّ فَاطِمَۃَ أَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَحَرَّمَہَا اللّٰہُ وَذُرِّیَّتَہَا النَّارَ ‘‘
فاطمہ ؑ عفت مآب ہیں، اللہ نے ان پر اور اُن کی اولاد پر آگ کو حرام کر دیا ہے۔
کبھی حضورِ گرامی ؐ کا یہ فرمان اقدس یاد کرکے رو دیتیں کہ
’’فَاطِمَۃُ اُمُّ اَبِیْھَا‘‘ فاطمہ اپنے باپ کی ماں ہے
کبھی وہ منظر سامنے لاتیں جب کائنات کی رحمت کی زندگی کے آخری ایام تھے اور فاطمہ زہرا (ع) حضور کے بستر کے پاس آئیں تو آپ کو دیکھ کر سرکارِ رسالت مآب ؐ نے سخت گریہ شروع کر دیا، بی بی نے عرض کیا بابا: آپ کو کیا چیز رلا رہی ہے ؟ تو فرمایا :
’’أَبْکِیْ ٰلِذُرِّیَّتِیْ وَمَا تَصْنَعُ بِھِمْ شِرَارُ اُمَّتِیْ مِن بَّعْدِیْ کَأَنِّیْ فَاطِمَۃَ بِنْتِیْ وَقَدْ ظُلِمَتْ بَعْدِیْ، وَہِیَ تُنَادِیْ یَا اَبَتَاہُ یَااَبَتَاہُ فَلَایُعِیْنُہَا اَحَدٌ مِّنْ اُمَّتِیْ ‘‘ فرمایا میں اپنی اولاد کے غم میں رو رہا ہوں کہ میری امت کے شریر لوگ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے، فاطمہ زہرا ؑ! میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ میرے بعد تم پر ظلم و ستم کیا جائے گا تم بابا، بابا کہ کر فریاد کر رہی ہو گی اور تمہاری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔
بی بی نے یہ خبر سن کر رونا شروع کر دیا، حضور ؐ نے پوچھا بیٹی! کیوں رو رہی ہو ؟ عرض کیا بابا ! اس لئے نہیں رو رہی کہ آپ کے بعد مجھ پر کیا مصیبتیں پڑیں گی بلکہ اس سوچ میں پڑ گئی ہوں کہ آپ کی جدائی کا صدمہ کیونکر برداشت کر سکوں گی؟ تو حضور ؐ نے فرمایا:
’’تمہیں ایک خوشخبری نہ سناؤں ؟‘‘
عرض کیا فرمائیے : فرمایا:
’’فَاِنَّکِ اَوَّلُ مَن یَّلْحَقُ بِیْ مِنْ اَہْلِ بَیْتِیْ ‘‘
میرے اہلِ بیت ؑ میں سے سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔
یہ سن کر آپ اس وقت مسکرا دیں۔
بہر حال فدک کو سرکاری تحویل میں لئے جانے، علی ؑ اور حسنین ؑ کی گواہی کو مسترد کئے جانے، علی بن ابی طالب ؑ کو خلافت سے محروم کئے جانے، دروازے کو آگ لگائے جانے، پہلو کے زخمی کئے جانے، بازؤں پر تازیانوں کے لگائے جانے، محسن کو شکم مادر میں شہید کئے جانے، علی بن ابی طالب ؑ کو زبردستی گھسیٹ کر دربار میں لے جائے جانے اور اس طرح کے دوسرے مصائب نے زہرائے اطہر کو اٹھارہ سال کی عمر میں بوڑھا کر دیا، چنانچہ کتاب مناقب ابن شہر آشوب میں ہے کہ :
’’ اِنَّھَا مَا زَالَتْ بَعْدَ أَبِیْھَا مُعْصَبَۃَ الرَّأْسِ، نَاحِلَۃَ الْجِسْمِ، مُنْھَدَّہ الرُّکْنِ، بَاکِیَۃَ الْعَیْنِ، مُحْتَرَقَۃَ الْقَلْبِ، یُغْشٰی عَلَیْہَا سَاعَۃً بَّعْدَ سَاعَۃٍ‘‘
وفات رسالت مآب ؐ کے بعد حضرت زہرا ؑ کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ ہمیشہ سر پر پٹی باندھے رہتی تھیں، جسم نحیف ہو گیا تھا کمر جھک گئی تھی، ہمیشہ آنکھوں سے آنسو جاری رہتے تھے، جگر دکھوں سے کباب ہو چکا تھا، ہر ایک گھڑی کے بعد غش کر جاتی تھیں۔
’’وَتَقُوْلُ لِوَلَدَیْہَا ’اَیْنَ اَبُوْکُمَا الَّذِیْ یُکْرِمُکُمَا وَیَحْمِلُکُمَا مَرَّۃً بَّعْدَ مَرَّۃٍ؟‘ اَیْنَ اَبُوْکُمَا الَّذِی اَشَدَّ النَّاسِ شَفْقَۃً عَلَیْکُمَا فَلَا یَدْ عُکُمَا تَمْشِیَانِ عَلَی اْلَارْضِ ؟ وَلَا اَرَاہُ یُفْتَحُ ہٰذَا الْبَابُ اَبَدًا، وَلَا یَحْمِلُکُمَا عَلٰی عَاتِقِہٖ کَمَا لم یزل یفعل بکما‘‘ اور اپنے دونوں شہزادوں __حسن اور حسین ؑ __سے کہتی تھیں، ’’کہاں ہیں تمہارے نانا جان جو تمہاری شان بیان کرتے تھے اور تمہیں بار بار اپنے کندھوں پر سوار کیا کرتے تھے ؟ کہاں ہیں تمہارے نانا جو سب لوگوں سے بڑھ کر تمہارے ساتھ محبت کیا کرتے تھے اور تمہیں کبھی زمین پر پیدل چلنا گوارا نہیں کرتے تھے ؟ اب وہ دروازہ بند ہو چکا ہے جو کبھی نہیں کھلے گا، اور اب تمہیں وہ اپنے کندھوں پر کبھی سوار نہیں کریں گے ‘‘
اللمعۃ البیضاء فی شرح خطبۃ فاطمۃ الزہرا ص ۴۵۷ میں ہے کہ :
ہشام بن سالم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ امام ؑ نے فرمایا:
حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ اپنے والد گرامی کی رحلت کے ۷۵دن بعد تک زندہ رہیں، اس عرصہ میں کسی نے بھی آپ کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، آپ ہر جمعہ کے دن شہداء احد کی زیارت کو اور سوموار اور جمعرات کے دن قبرستانِ بقیع تشریف لے جاتی تھیں، اور جاکر گریہ و بکا کے ذریعہ اپنا غم غلط کرتی تھیں، اور مرتے دم تک آپ کی یہی کیفیت رہی ‘‘
جوں جوں دن گزرتے جا رہے تھے صحت جواب دیتی جا رہی تھی، آخر ایک دن وہ بھی آ گیا کہ آپ کو اس دنیا سے رخصت ہونے کی تیاری کرنا پڑی، چنانچہ علامہ مجلسی بحارالانوار جلد ۱۰ ص ۶۱ میں لکھتے ہیں کہ سیدہ طاہرہ سلام اللہ علیہا نے ان الفاظ کے ساتھ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کو وصیت کی :
’’ھٰذَا مَا اَوْصَتْ بِہٖ فَاطِمَۃُ بِنْتُ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَہِیَ تَشْھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَ اَنَّ الْجَنَّۃَ حَقٌّ وَّالنَّارَ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَۃَ آتِیَۃٌ لَّارَیْبَ فِیْہَا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ ‘‘
یہ وہ وصیت ہے جو دخترِ رسولؐ فاطمہ زہرا ؑ کر رہی ہے، اور وہ گواہی دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں اور حضرت محمد (ص) اللہ کے رسول ؐ ہیں اور جنت حق ہے، جہنم حق ہے، اور یقینا قیامت آکر رہے گی اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ اس دن مُردوں کو قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔
’’یَاعَلِیُّ ! اَنَا فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ زَوَّجَنِیَ اللّٰہُ مِنْکَ لِاَکُوْنَ لَکَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَاَنْتَ اَوْلٰی بِیْ مِنْ غَیْرِیْ حَنِّطْنِیْ وَغَسِّلْنِیْ وَکَفِّنِیْ بِاللَّیْلِ، وَلَا تُعْلِمْ اَحَدًا، وَاسْتَوْدِعُکَ اللّٰہَ وَاقْرَأْ عَلٰی وُلْدِیْ السَّلَامَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃ ‘‘
یا علی ! میں فاطمہ زہرا ؑ ہوں رسول خدا کی بیٹی، اللہ نے میرا ازدواج آپ سے کیا تھا تاکہ میں دنیا و آخرت میں آپ کی زوجہ رہوں، اور آپ دوسرے لوگوں کی نسبت مجھ سے زیادہ قرب رکھتے ہیں لہٰذا آپ ہی مجھے غسل و حنوط و کفن دیں اور رات کے وقت یہ امور انجام دیں اور رات کو ہی مجھے دفن کریں اور اس بارے میں کسی کو نہ بتائیں، اب میں آپ کو خدا کے سپرد کرتی ہوں، قیامت تک آنے والے میرے بچوں کو آپ سلام کہ دینا۔
مورخ سپہر اپنی کتاب ناسخ التواریخ جلد ۴ میں لکھتے ہیں کہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا نے جنابِ ام ایمن اور اسماء بنت عمیس کو طلب فرمایا اور کہا: علی ؑ کو جاکر کہو کہ وہ میرے پاس تشریف لائیں، جب آپ تشریف لے آئے تو سیدہ طاہرہ مذکورہ خواتین کی موجودگی میں یوں فرمانے لگیں :
یَاابْنَ عَمٍّ ! اِنَّہٗ قَدْ نُعِیْتُ اِلٰی نَفْسِیْ، وَاِنَّنِیْ لَااَرَیٰ بِاَبِیْ اِلَّااِنَّنِیْ لَاحِقَۃٌ بِّاَبِیْ، سَاعَۃٍ م بَّعْدَ سَاعَۃً، وَاَنَا اُوْصِیْکَ بِاَشْیَآء فِیْ قَلْبِیْ ۔
یا علی ؑ! مجھے اپنے موت کی سنانی مل چکی ہے، اور میں اپنے آپ کو دیکھ رہی ہوں کہ اپنے بابا سے ملنے کے لئے لمحہ بہ لمحہ قریب تر ہوتی جا رہی ہوں، اور کچھ باتیں میرے دل میں ایسی ہیں جن کے بارے میں، میں آپ کو وصیت کرنا مناسب سمجھتی ہوں۔
’’فَقَالَ لَہَا عَلِیٌّ (علیہ السلام ) اَوْصِیْنِیْ بِمَا اَحْبَبْتِ یَا بِنْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ !‘‘
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: دخترِ رسول ؐ ! جو آپ کا جی چاہے وصیت ارشاد فرمائیں۔
’’فَجَلَسَ عِنْدَ رَأْسِہَا‘‘
پھر امام علیہ السلام سیدہ ؑ کے سرہانے بیٹھ گئے، اور گھر کو دوسرے افراد سے خالی کرا دیا۔
’’ثُمَّ قَالَتْ یَاابْنَ عَمّ ! مَاعَہَدتَّنِی کَاذِبَۃً وَّلَا خَآئنۃً وَّلَا خَالَفْتُکَ مُنْذُ عَاشَرْتَنِیْ ‘‘
پھر سیدہ ؑ نے فرمایا : اے میرے چچا کے بیٹے! آپ نے یقینا مجھے نہ تو غلط بیانی کرتا ہوا پایا ہو گا اور نہ ہی مجھے کسی قسم کی خیانت کا مرتکب ! جب سے میں آپ کے گھر میں آئی ہوں اس وقت سے لے کر آج تک میں نے کبھی آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔
فقال ’’مَعَاذَ اللّٰہ ! ‘‘ علی ؑ نے فرمایا: ’’معاذ اللہ ایسی کوئی بات ہوئی ہو‘‘
زہرا ؑ آپ کو خدا وندِ عالم نے بہت سا علم عطا کیا ہے، تقویٰ، پرہیز گاری اور شرافت میں آپ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، خوف ِ خدا ہمیشہ آپ کے دل میں رہا ہے۔
زہرا ؑ ! یقین جانئے آپ کی جدائی میرے لئے سخت ناگوار ہے، مگر تقدیر کے آگے کسی کا چارہ نہیں، خدا گواہ ہے کہ آج میرے لئے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی کی مصیبت تازہ ہو گئی ہے، آپ کی جدائی کا صدمہ میرے لئے ناقابلِ برداشت ہے، مگر کیا کیا جائے ؟ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، کس قدر عظیم، دردناک اور پریشان کن مصیبت ہے آپ کی جدائی، ہمارے لئے، واللہ یہ ایک ایسی مصیبت ہے جس کی برداشت طاقت سے باہر ہے، زہراؑ! آپ ہمیں نا قابلِ برداشت صدمہ سے دو چار کر کے جا رہی ہیں، یہ کہا اور پھر دونوں ہستیوں نے گریہ کرنا شروع کر دیا اور ایک گھنٹے تک روتے رہے۔
پھر علی ؑ نے حضرت زہرا ؑ کے سر کو اپنے سینے سے لگایا لیا، اور فرمایا :
’’ام الحسنین ؑ !آپ جو وصیت کرنا چاہیں کریں ان پر عمل ہو گا ‘‘
حضرت زہرا ؑ نے فرمایا: میرے سرتاج ! اب جینے سے جی بھر گیا، دل کو موت کی تمنا ہے شاید آپ کے پاس ایک دو گھنٹوں کی مہمان ہوں، کچھ وصیتیں ہیں جو آپ کو کرنا چاہتی ہوں، اتنے میں حضرت زہرا ؑ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہو گیا، اور نحیف آواز میں عرض کرنے لگیں :
جَزَاکَ اللّٰہُ عَنِّیْ خَیْرَ الْجَزَآء یَاابْنَ عَمِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ! اُوْصِیْکَ اَوَّلاً اَنْ تَتَزَوَّجَ بَعْدِیْ، اَمَامَۃَ فَاِنَّھَا تَکُوْنُ بِوَلَدِیْ مِثْلِیْ، فان الرجال لابدلھم من النساء
اے ابن عم رسول ! اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، میں پہلے تو آپ کو یہ وصیت کرتی ہوں کہ میرے بعد امامہ کے ساتھ ازدواج کرنا کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ وہ میرے بچوں کے ساتھ مجھ جیسا برتاؤ کرے گی، اور مرد کو ویسے بھی جیون ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے، ’’ثُمَّ قَالَتْ اُوْصِیْکَ بَاابْنَ عَمِّ اَنْ تَتَّخِذَلِیْ نَعْشًا فَقَدْ رَأَیْتُ الْمَلٓائکۃَ صَوَّرُوْا صُوْرَتَہٗ ‘‘
پھر عرض کیا میری دوسری وصیت یہ ہے کہ آپ میری میت کے لئے ایک تابوت تیار کرنا جس کی تصویر مجھے ملائکہ نے دکھائی ہے۔
فَقَالَ لَہَا صِفِیْہِ، فَوَصَفَتْہُ فَاتَّخَذَہٗ لَہَا، جناب زہرا ؑ سے فرمایا بتائیے وہ تابوت کیسا ہونا چاہئے، تو بی بی نے اس کے بارے میں بتایا اور آپ نے اسے تیار کرایا ’’فَاَوَّلُ نَعْشٍ عُمِلَ عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضِ ذَاکَ وَمَا رَأیٰ اَحَدٌ قَبْلَہٗ وَمَا عَمَلَ اَحَدٌ، تو روئے زمین پر یہ پہلا تابوت بنایا گیا جب کہ اس سے پہلے نہ تو کسی نے اسے دیکھا تھا اور نہ ہی بنایا تھا۔
ثُمَّ قَالَتْ اُوْصِیْکَ اَن لَّایَشْھَدَ جِنَازَتِیْ مِنْ ہٰؤُلَآء الَّذِیْنَ اَخَذُوْا حَقِّیْ فَاِنَّھُمْ عَدُوِّیْ وَعَدُوُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ، وَلَا تَتْرُکْ اَن یُّصَلِّیَ عَلَی َّ اَحَدٌ مِّنْھُمْ وَلَا مِنْ اَتْبَاعِہِمْ
پھر فرمایا :
میں آپ کو یہ وصیت بھی کرتی ہوں کہ میرے جنازے میں وہ لوگ شریک نہ ہوں جنہوں نے میرا حق غصب کیا ہے، کیونکہ یہ میرے اور رسول خدا ؐ کے دشمن ہیں۔
’’وَادْفَنِّی فِی اللَّیْلِ اِذَا اَوْھَنَتِ الْعُیُوْنُ وَنَامَتِ الْاَبْصْارُ ‘‘
اور مجھے رات کی تاریکی میں دفن کرنا جبکہ سارے لوگ سو چکے ہوں اور میرے دفن سے بے خبر ہوں۔

مخدومہ کونین کی درد ناک شہادت

اس بارے میں روایات مختلف ہیں کہ مخدومہ کونین کی شہادت کب واقع ہوئی ؟ چنانچہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ :
۱۔ عمدہ ابن بطریق ص ۲۰۳ میں ہے کہ آپ کی شہادت اپنے والد گرامی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے ساٹھ(۶۰) دن بعد ہوئی۔
۲۔ مؤرخ واقدی کی نقل کے مطابق پچھتر دن بعد ہوئی۔
۳۔ صحیح بخاری جلد۵ ص ۳ میں علمائے عامہ کے مطابق پانچ ماہ بعد ہوئی۔
۴۔ عمدہ ابن بطریق ص ۱۰۴ کے مطابق مکتبِ خلفاء کے بعض علماء نے چھ ماہ بعد بتائی ہے۔
۵۔ علامہ مجلسی اور دیگر علماء خاصہ کہتے ہیں کہ ۷۵ دن بعد ہوئی، جبکہ حضورِ پاک ؐ کی رحلت ۲۸ / صفر ۱۱ ہجری کو ہوئی، لیکن سب سے زیادہ شہرت جس تاریخ کو حاصل ہے وہ یہ کہ آپ کی شہادت تین(۳) جمادی الثانیہ ۱۱ ھجری فریضہ ظہر ادا کرنے کے بعد ہوئی۔
کتاب معانی الاخبار میں حضرت سیدہ طاہرہ مخدومہ کونین سلام اللہ علیہا کی خادمہ جناب فضہ روایت کرتی ہیں کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی تشریف لے گئے تھے، جب واپس آئے تو دیکھا کہ بنی ہاشم کی خواتین اور حضرت فضہ آشفتہ خاطر اور سخت پریشان حال ہیں، سب نے روتے ہوئے مولا علی علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ ذرا دخترِ رسول ؐ کی احوال پرسی تو کریں، ہمارا گمان تو یہی ہے کہ شاید ان کو زندہ حالت میں نہ دیکھیں!
یہ سن کر مولا علی ؑ جلد ہی حضرت زہرا ؑ کے بالین ِ سر تشریف لے آئے، تو دیکھا کہ سخت مضطرب حالت میں ہیں، گویا آپ آخری سانسیں لے رہی ہیں، یہ دیکھ کر حضرت امام علی علیہ السلام نے اپنا عمامہ سر سے اتار کر زمین پر پھینک دیا، عبا کو دوش سے اتار اور قبا کے بٹن کھول دئیے اور مظلومہ بی بی ؑ کے پاس تشریف لے آئے اور پکار کر کہا :’’یازھراء ‘‘ مگر کوئی جواب نہ ملا، کہا ’’یَابِنْتَ الْمُصْطَفیٰ ؐ ‘‘اے دخترِ رسول !! مگر خاموشی !،پھر کہا: ’’اے اس کریم کی بیٹی ! جو عبا میں زکواۃ کو اٹھا کر غریبوں میں تقسیم کیا کرتے تھے ! مگر کوئی جواب نہیں، پھر کہا : ’’یَا ابْنَۃَ مَنْ صَلیّٰ بِالْمَلَآئکۃِ مَثْنیٰ مَثْنیٰ ‘‘ اے اس رسولِ امام کی بیٹی ! جس نے ملائکہ سماء کو نماز پڑھائی ‘‘پھر بھی چُپ، پھر کہا :’’اے زھرا ؑ! مجھ سے بات کرو کہ میں آپ کا پسر عم ہوں !‘‘ اب جنابِ زہرا ؑ نے ضعف و ناتوانی کے عالم میں آنکھ کھولی اور علی ؑ کے چہرے پر نگاہ ڈالی مختصر سا تبسم فرمایا پھر رودیں یہ دیکھ کر علی ؑ سے ضبط نہ ہو سکا آپ ؑ بھی رو دئیے۔
علی ؑ مولا نے پوچھا :’’بنت رسول ؐ! آپ کی یہ حالت کیا ہو گئی؟‘‘بی بی نے عرض کیا :
’’ یاعلی اس وقت میں جان کنی کے عالم میں ہوں، موت سے کسی کو چارہ نہیں، میرے سرتاج ! میری وصیتوں کا خاص خیال رکھنا، میرے بچوں کا خاص دھیان رکھنا، مبادا کوئی انہیں ستائے یا ان کا دل دکھائے، یہ میرے بچے دل شکستہ یتیم ہیں کل تک ان کی ماں زندہ تھی آج ماں کے بغیر ہو جائیں گے، نہ بھلا ہو اس قوم کا جو انہیں قتل کرے گی‘‘
اس موقعہ پر سیدہ کونین ؑ نے حسین علیہ السلام کی خبرِ شہادت کو یاد کرکے گریہ کرنا شروع کر دیا اور اپنی موت کی خبر بھی دی۔
مولا علی ؑ نے پوچھا :
’’زہرا ؑ ! اس وقت آپ کو یہ خبر کس نے دی ہے ؟‘‘ عرض کیا : ’’یا ابالحسن ؑ ! اس وقت میں نے بابا کو خواب میں دیکھا ہے جو سفید محل میں تشریف فرما تھے، اور مجھے دیکھتے ہی فرمایا :’’میری پیاری بچی جلدی آؤ کہ ہم بڑے شوق سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں، آج رات تم ہماری مہمان ہو گی ‘‘علی ؑ! مجھے یقین ہے کہ میرے بابا کا وعدہ کبھی غلط نہیں ہوتا یاعلی ؑ! آج رات آپ میرے ساتھ رہیں جس قدر ہو سکے سورہ یاسین کی تلاوت کرتے رہیں، اور آپ ہی مجھے غسل دینا، کسی کو بھی اس کی خبر نہیں کرنی، جب رات کو مجھ پر نماز جنازہ پڑھ لیں تو راتوں رات مجھے دفن کر دینا اور میری قبر کا نشان کسی کو بھی نہیں بتانا‘‘
ابھی یہ کہا ہی تھا کہ چہرے کا رنگ متغیر ہونے لگا، اور سلام کا جواب دیا، مولا علی ؑ نے پوچھا : کسے سلام کا جواب دے رہی تھیں؟ عرض کیا : جبرائیل امین تھے !
پھر بی بی نے دو مرتبہ اپنی آنکھوں کو کھولا اور سلام کا جواب دیا، حضرت امیر ؑ نے پوچھا :
’’کون ہیں ؟‘‘عرض کیا :
’’میرے سردار ! خدا کی قسم یہ ملک الموت ہیں جن کے پَر مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے ہیں ‘‘ پھر کہا :
’’وَعَلَیْکَ السَّلَامُ یَا قَابِضَ الْاَرْوَاحِ ‘‘اے روحوں کے قبض کرنے والے، آپ پر بھی میرا سلام ہو۔
اس کے بعد آپ کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں، ہاتھ اور پاؤں دراز ہو گئے اور جان، جان آفرین کے سپرد کر دی،
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب دلائل طبری، ناسخ التواریخ سپہر ص۱۸۶)
کتاب مجمع النورین ص۱۵۶میں ہے کہ : وہب بن منبہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اسماء بنت عُمیس کہتی ہیں جب جناب فاطمہ ؑ کا وقتِ رحلت نزدیک ہوا تو آپ خود بخود رو بقبلہ سو گئیں اور آپ کے لب مبارک ذکرِ خدا میں مشغول تھے، اتنے میں حسنین شریفین ؑ اندر تشریف لے آئے اور آتے ہی کہا :
’’اَیْنَ اُمُّنَا‘‘ ہماری امی کہاں ہیں ؟ تو اسماء خاموش رہیں، تھوڑی دیر کے بعد کہا :سوئی ہوئی ہیں !شہزادوں نے کہا:’’ہماری امی اس وقت کبھی نہیں سوتیں ‘‘
یہ کہا اور سیدہ ؑ کے حجرے کی طرف چلے گئے، دیکھا کہ سفید چادر سیدہ طاہرہ کے چہرہ مبارک پر پڑی ہوئی ہے، سمجھ گئے کہ امی اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں، دھاڑیں مار مار کر رونے لگے، بابا جان کو اس غمناک واقعہ کی خبر دی، امیرالمومنین ؑ نے پریشان حالت میں اپنے معصوم بچوں کا ہاتھ پکڑا اور سیدہ کے حجرے میں تشریف لے آئے، بی بی کے چہرہ سے کپڑا ہٹایا تو دیکھا روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی، اور پہلو میں وصیت نامہ لکھا ہوا رکھا تھا، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔

تجہیز و تکفین

جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ سیدہ عالم مخدومہ کونین نے اپنے بابا کی وفات کے بعد بہت دکھ دیکھے ظلم و ستم کا نشانہ بنیں، آخر کار مختلف روایات کے مطابق چند دن زندہ رہنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
جب آپ کی رحلت کی خبر اہلِ مدینہ کو ملی تو شہر میں کہرام برپا ہو گیا، بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کی خواتین جنابِ زھرا ؑ کے گھر میں جمع ہو گئیں اور ایسا کہرام برپا تھا کہ شہر کے در و دیوار رو رہے تھے، اور ایسا کیوں نہ ہو؟ اٹھارہ سال کی عمر کسی خاتون کی عنفوان شباب کی عمر ہوتی ہے۔ یہ کسی خاتون کے اپنی زندگی اور والدین کی شفقت سے بھر پور استفادہ کے دن ہوتے ہیں، مگر فاطمہ زہرا ؑ کی کیفیت یہ ہو چکی تھی کہ کمر جھک چکی تھی، ہاتھ میں عصا تھا، سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی، سوائے رونے اور غم کے اظہار کے کوئی کام نہیں تھا، اور اسی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں، حسنین شریفین ؑاور زینب ؑ و ام کلثوم ؑاب یتیم ہو چکے تھے، جب ماں کی رحلت کا علم ہوا تو دوڑ کر ماں کے جنازے سے لپٹ گئے اب ایک ایسا منظر وجود میں آچکا تھا جس کے دیکھنے کی کسی میں طاقت نہیں تھی، ہر طرف سے گریہ و زاری اور چیخ و پکار کی آوازیں آرہی تھیں، فاطمہ زہرا ؑ کا گھر ایک عزا خانہ بن چکا تھا، اتنے میں زینب ؑ و ام کلثوم ؑنے بھی اپنے آپ کو ماں کے جنازے پر گرادیا۔
عزا کا ماحول کیا صورت حال اختیار کر گیا کسی میں اس کے بیان کرنے کی جرأت نہیں ہے، حضرت علی ؑ گھر میں آئے سیدہ ؑ کے سر سے چادر ہٹائی وصیت نامے کو اٹھایا، اور سیدہ کے حضور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا، اسماء بنت عمیس سرہانے بیٹھ کر گریہ کرتی رہی۔
مدینہ کے لوگ حضرت امیر المومنین ؑ کے گھر کے اطراف میں جمع ہو گئے، اور دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے، اور اس انتظار میں تھے کہ مخدومہ کونین کے جنازے کی مشایعت کریں گے، مگر کچھ دیر کے بعد حضرت ابوذر غفاری ؓنے باہر آکر اعلان کیا کہ سب لوگ واپس چلے جائیں کیونکہ جنازے میں تاخیر کی وجہ سے اسے دیر سے اٹھایا جائے گا۔
حسبِ وصیت سرکار امیرالمومنین علیہ السلام نے اکیلے ہی مخدومہ کونین کی تجہیز، تغسیل اور تکفین کا بندوبست کیا، اس بارے میں خود حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
میں نے فاطمہ ؑ کو ان کے پیراہن ہی میں غسل دیا، چونکہ فاطمہ طاہرہ اور مطہرہ تھیں لہٰذا ان کے بدن پر لباس رہنے دیا، اور لباس کے اندر سے غسل دیا اور اس کافور سے حنوط کیا جو سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حنوط سے بچ رہا تھا، اور سات کپڑوں کا کفن دیا۔
تجہیز و تکفین سے فراغت کے بعد مولا ؑ نے پکار کر کہا :
حسن ؑ و حسین ؑ اور زینب ؑ و ام کلثوم ؑ آؤ اور اپنی امی کا آخری دیدار کر لو، فضہ تم بھی آجاؤ
یہ سننا تھا کہ سب بچے دوڑ کر ماں کے جنازہ سے لپٹ گئے اور رو رو کر کہنے لگے :
’’پیاری امی ! بہت جلد آپ نے ہم سے منہ پھیر لیا، اماں ! نانا جان کو ہمارا سلام کہنا اور ساتھ ہی یہ بھی کہنا کہ آپ ہمیں یتیم چھوڑ کر چلے گئے، اور یہ بھی بتانا کہ ان کی امت نے ان کے بعد ہم سے کیا سلوک کیا ہے ؟اس موقع پر ایک عجیب اور دلدوز منظر دیکھنے میں آیا جسے حضرت علی علیہ السلام نے حلفیہ طور پر بیان کیا ہے :
روایت کے الفاظ ہیں :
’’فَقَالَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِِنِیْنَ عَلَیْہِ السَّلَامُ : اِنِّیْ اُشْہِدُ اللّٰہَ اَنَّھَا قَدْ حَنَّتْ وَاَنَّتْ وَمَدَّتْ یَدَیْہَا وَضَمَّتْہُمَا اِلٰی صَدْرِہَا مَلِیًّا وَاِذًا بِّھَاتِفٍ مِّنَ السَّمَآءِ یُنَادِی یَا اَبَاالْحَسَنِ اِرْفَعْہَا عَنْہُمَا فَلَقَدْ اَبْکِیَا وَاللّٰہِ مَلَآئکۃَ السَّمٰوَاتِ فَقَدِ اشْتَاقَتِ الْحَبِیْبُ اِلَی الْمَحْبُوْبِ ‘‘
حضرت امیر علیہ السلام فرماتے ہیں :
میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ابھی بچے اپنی ماں کے ساتھ لپٹے ہوئے تھے کہ اچانک زہراؑ کے کفن کے بند کھل گئے اور فاطمہ زہرا ؑ نے روکر اور ہاتھوں کو بلند کرکے حسن ؑ و حسین ؑ کو اپنے سینے سے لگایا اور کافی دیر تک سینے سے لگائے رکھا، کہ اس دوران ہاتفِ غیبی کی آسمان سے آواز آئی یا علی ؑ ! بچوں کو ماں سے علیحدہ کر لو کیونکہ آسمان کے فرشتے اس منظر کو دیکھ کر رو رہے ہیں، اور زہرا ؑ کی اپنے رب سے ملاقات کا وقت قریب پہنچ گیا ہے، یہ سن کر مولا نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر اور آہوں و سسکیوں کے ساتھ بچوں کو ماں سے علیحدہ کیا۔

تدفین

اب تدفین کے مراحل قریب ہوتے آ رہے تھے، جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ علی علیہ السلام کے گھر کے اطراف میں اکٹھا ہونے والے افراد سے ابوذر غفاری ؓنے کہا کہ :
’’جنازہ اٹھانے اور اور تدفین میں ابھی کافی دیر ہے لہٰذا آپ لوگ واپس چلے جائیں ‘‘
چنانچہ وہ سب واپس چلے گئے اور امیرالمومنین نے جنابِ زہرا ؑ کی وصیت کے مطابق لکڑی کا تابوت تیار کیا جس میں ان کی میت کو رکھا گیا، اور اس پر نماز کی ادائیگی اور تدفین کے لئے لے جایا جا رہا تھا، تو امیرالمومنین علیہ السلام نے حضرت رسالت مآب ؐ سے مخاطب ہو کر عرض کیا :
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَانُوْرَ اللّٰہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا صِفْوَۃَ اللّٰہِ مِنِّی، … وَمِنِ ابْنَتِکَ النَّازِلَۃِ عَلَیْکَ…)
سلام ہو آپ پر اے اللہ کے رسول ؐ ! سلام ہو آپ ؐ پر اے اللہ کے نور، سلام ہو آپ پر اے اللہ کے برگزیدہ انسان، میری اور آپ کی دختر کی طرف سے آپ کو ڈھیروں سلام ہوں، جو ابھی آپ کے پاس پہنچنے والی ہے، یارسول اللہ ؐ! یہ وہی امانت ہے جو آپ نے میرے سپرد کی تھی، اور میرے سپرد کرتے وقت آپ ؐ نے فرمایا تھا کہ :’’یہ ایک الٰہی امانت ہے جو میں تمہارے سپرد کر رہا ہوں ‘‘ اب وہی امانت میں آپ کو لوٹا رہا ہوں، واحزناہ، وامصیبتاہ، آپ کا غم اور پھر آپ کی بیٹی فاطمہ بتول ؑ کا غم میرے لئے ناقابلِ برداشت ہے، دنیا میرے سامنے تاریک ہو چکی ہے، آسمان کا رنگ بدل چکا ہے، ہائے افسوس کہ آپ کے بعد اب زہرا ؑ بھی مجھے داغِ مفارقت دے کر جا رہی ہے ‘‘
اس کے بعد آپ روضہ رسولؐ کی طرف جنازے کو لے گئے اور نمازِ جنازہ قبرِ رسول ؐ کے پاس پڑھی اور روایات کے مطابق :
’’فَصَلّٰی عَلَیْہَا فِیْ اَہْلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَمَوَالِیْہِ وَاَحِبَّآئہٖ وَطَآئفۃٍ مِّنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ‘‘
نمازِ جنازہ میں آپ کے اہلِ بیت ؑ، اصحاب دوستدار، رشتہ دار اور مہاجرین وانصار میں سے کچھ لوگ شریک ہوئے، چنانچہ تاریخ نے جن بعض افراد کی نشاندہی کی ہے ان میں حسنین شریفین، عمار یاسر، مقداد بن اسود عقیل بن ابی طالب ؑ، ابوذر غفاری، سلمان فارسی، عباس بن عبد المطلب اور کچھ افراد بنی ہاشم شامل ہیں۔
حضرت امیرالمومنین ؑ، عباس بن عبد المطلب اور فضل بن عباس نے مل کر میت کو قبر میں اتارا، اور تدفین کے مراسم سے فارغ ہونے کے بعد حضرت امیر ؑ نے اُس قبر کے اطراف میں قبر کے سات یا بروایتے چالیس ایک جیسے نشانات بنائے تاکہ اصل قبر کا کسی کو پتہ نہ چل سکے اور کافی میں حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں جب والدِ گرامی نے میری ماں کو دفن کیا تو قبر پر کوئی علامت نہیں لگائی، اسے زمین کی سطح کے برابر کر دیا اور اس کے سرہانے بیٹھ کر رسول خدا ؐ سے یوں مخاطب ہوئے :
’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ عَنِّیْ، وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ عَنِ ابْنَتِکَ وَزَآئرتِکَ الْبَآئتۃِ فِی الثَّریٰ بِبُقْعَتِکَ، الْمُخْتَارُ اِلَیْہِ لَہَا سُرْعَۃَ اللِّحَاقِ بِکَ …
سلام ہو آپ پر اے اللہ کے رسول ؐ ! اب آپ کی بیٹی آپ کی زیارت اور آپ کے سلام کے لئے آرہی ہے، اور اب آپ کے حضور پہنچ چکی ہے، آپ کی دختر کے غم میں میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، اس کے فراق کا درد میرے لئے سخت ناگوار ہے، آپ کی جدائی کے بعد یہ دوسرا موقعہ ہے کہ مجھے ہجر و فراق کا صدمہ برداشت کرنا پڑرہا ہے، جس طرح آپ کی وفات کے بعد آپ کو لحد میں اتارتے وقت میرا حوصلہ جواب دے گیا تھا اور یہ منظر مجھ سے دیکھا نہیں جا سکتا تھا، اسی طرح زہرا ؑ کی مصیبت کا صدمہ بھی مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتا مگر کیا کیا جائے تقدیر کے آگے کسی کا چارہ نہیں امر پروردگار ہے، اس کے سوا اور کیا کہ سکتے ہیں ؟ ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘
اے اللہ کے رسول ! جو امانت آپ نے میرے سپرد فرمائی تھی وہ میں آپ کو پلٹا رہا ہوں اسے قبول فرمائیے امانت کو کس حالت میں پلٹا رہا ہوں ؟ اس پر کیا گزرتی رہی اور آپ کی امت نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ یہ خود ہی بتائیں گی جو ابھی آپ کے پاس آرہی ہیں، جب وہ آپ کو حقیقتِ حال سے مطلع کریں گی، تو یقینا آپ ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔
یارسول اللہ ؐ! میں نے دشمنوں کے خوف سے آپ کی نورِ نظر کو رات کی تاریکی میں سپرد خاک کیا ہے، زہراؑ تو آپ کو بتائے گی ہی میں بھی عرض کئے دیتا ہوں کہ ظلم کے ساتھ اس کے حق کو غصب کیا گیا، اس کی وراثت کو زبردستی چھین لیا گیا، حالانکہ آپ کی رحلت کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے، فَصَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہَا وَ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔

حضرت مخدومہ کونین ؑکا مدفن

اس بات میں اختلاف ہے کہ جناب مخدومہ کونین کو کہاں دفن کیا گیا ؟ کچھ مورخین کہتے ہیں کہ آپ کو حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اور منبر کے درمیان دفن کیا گیا، کچھ کہتے ہیں حضرت امیر ؑ نے آپ ؑ کو جنت البقیع میں سپرد خاک کیا، جبکہ ایک اور گروہ اس بات کا قائل ہے کہ سیدہ عالم ؑ کو ان کے اپنے ہی گھر میں دفن کیا گیا۔
چنانچہ علامہ مجلسی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ جب امیر المومنین علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نمازِ جنازہ قبرِ رسول ؐ کے پاس ادا کی، بعد از نماز اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرکے بارگاہِ رب العزت میں عرض کیا :
’’خداوندا! یہ فاطمہ زہرا ؑ ہے آپ ؑ کے پیغمبر کی بیٹی، جسے میں دنیا کی ظلمتوں سے اٹھا کر آخرت کی نورانیت کی طرف لے آیا ہوں‘‘
تو اس وقت ہاتف کی آواز آئی کہ
’’بقیع کی سرزمین ان کیلئے مقام دفن ہے لہٰذا انہیں ’’بقیع غِرقِد‘‘ کی طرف لے جائیے!!‘‘
چنانچہ جنابِ امیر ؑ، سیدہ ؑ کے جنازے کو ادھر لے گئے تو وہاں پر دیکھا کہ ایک قبر تیار ہے جس میں لحد بھی بنی ہوئی ہے، مولا ؑ نے مخدومہ کونین سیدہ نساء العالمین ؑ کو اسی لحد میں سپرد خاک کیا اور تدفین کے مراسم کے بعد زمینِ قبر سے یوں مخاطب ہوئے :
اے زمین ! یہ دخترِ رسول ہیں، ان کی امانت جو اب تک میرے پاس رہی، اب میں اسے تیرے سپرد کرتا ہوں ‘‘تو اس وقت امام علیہ السلام نے ایک آواز سنی کہ ’’یاعلی ؑ!مجھے یہ امانت قبول ہے ‘‘
عیون المعجزات، مناقب ابن شہر آشوب، ناسخ التواریخ نے بھی اسی قول کو معتبر جانا ہے، جبکہ بعض مورخین کہتے ہیں کہ سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ
’’مَابَیْنَ قَبْرِیْ وَمِنْبَرِیْ رَوْضَۃٌ مِّن رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ ‘‘ میری قبر اور منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔ لہٰذا سیدہ کونین ؑ کو وہیں پر دفن کیا گیا ہے۔
ابن بابویہ نے کہا ہے کہ سیدہ مظلومہ ؑ کو ان کے اپنے مکان ہی میں دفن کیا گیا ہے جو مسجدِ نبوی کی توسیع کی وجہ سے مسجد کے اندر ہی واقع ہے، اور اس کے جنوبی حصے میں ’’قبرِ فاطمہ ؑ ‘‘کے نام سے موسوم ہے، اور ذخائر العقبیٰ ص۵۴، کے مطابق جنابِ زہرا ؑ کی قبر ان کے اپنے گھر میں تھی، بعد میں عمر بن عبد العزیز نے اس جگہ کو مسجد میں شامل کر لیا۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ حافظ ابن عمر بن عبد البر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوئے تو انہیں جنت البقیع میں ان کی والدہ کے پہلو میں دفن کیا گیا، جو حضرت عباس بن عبد المطلب کے ساتھ ہی ہے، اور جب حضرت عباس کے فرزند اپنے والد کی زیارت کو جاتے تو پہلے جنابِ فاطمہ ؑ کو سلام کرتے پھر اپنے والد کی قبر کی زیارت کرتے۔
غرض جنت البقیع میں آپ کی قبر مبارک پر روضہ اور گنبد تعمیر کئے گئے تھے مگر سعودی حکمرانوں نے برسرِ اقتدار آتے ہی سب سے پہلا وار جنت البقیع کے گنبدوں اور روضوں پر کیا اور دخترِ رسول ؐ کا روضہ بھی اسی ظلم کی بھینٹ چڑھ گیا، البتہ اس وقت صرف قبر کا نشان باقی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی جگہ پر دخترِ رسول ؐ کا روضہ تھا۔
تاریخ میں غور و فکر اور تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ مخدومہ کونین حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کو جناب ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر اور قبر کے درمیان دفن کیا گیا، جبکہ ائمہ اطہار علیہم السلام خصوصاً حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :ہماری جدہ محترمہ اپنے گھر ہی میں مدفون ہیں اور اب وہ گھر مسجدمیں شامل ہو کر روضہ رسول ؐ کا حصہ بن چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے گھر میں پڑھی جانے والی نماز کی بہت فضیلت ہے، اور اسی مقام پر ۳/ جمادی الثانی کو سیدہ ؑ کی وہ زیارت پڑھنا بہتر ہے جو سید رضی ؒنے تحریر کی ہے کہ :
’’اَلسَّلَام عَلَیْکِ یَا سَیِّدَۃَ نِسَآء الْعَالَمِیْنَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَا وَالِدَۃَ الْحُجَجِ عَلَی النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ اَیَّتُہَا الْمَظْلُوْمَۃُ الْمَمْنُوْعَۃُ حَقَّہَا۔ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی اَمَتِکَ وَابْنَۃِ نَبِیِّکَ وَزَوْجَۃِ وَصِیِّ نَبِیِّکَ صَلوٰاۃ ً یُزْلُفُہَا فَوْقَ زُلْفیٰ عِبَادِکَ الْمُکْرَمِیْنَ مِنْ اَہْلِ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِیْن ‘‘
سلام ہو آپ پر اے عالمین کی عورتوں کی سردار، سلام ہو آپ ؑ پر اے تمام لوگوں پر قائم خدا وند عالم کی حجتوں __ائمہ معصومین ؑ __ کی والدہ گرامی ! سلام ہو آپ پر اے مظلوم بی بی کہ جس کو اپنے حق سے محروم کر دیا گیا تھا۔
خداوندا تو رحمت نازل فرما اپنی کنیز اور اپنے نبی کی صاحبزادی اور اپنے ولی کی زوجہ پر ایسی رحمت جس کو تیرے آسمان و زمین کے رہنے والے، مکرم بندوں پر فوقیت حاصل ہو۔ آمین
قارئین !تو یہ تھا مخدومۂ کونین کی زندگی، مقام ومنزلت اور سیرت و کردار کا تفصیلی تذکرہ۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button