سلائیڈرمقالات قرآنی

ایمان اور عمل کا گہرا ربط

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡہَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا ؕ وَ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ ٭ۙ وَّ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿بقرہ:۲۵﴾
اور ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال انجام دیے کہ ان کے لیے(بہشت کے) باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اس میں سے جب بھی کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیں گے: یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے بھی مل چکا ہے، حالانکہ انہیں ملتا جلتا دیا گیا ہے اور ان کے لیے جنت میں پاک بیویاں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
تشریح کلمات
بَشِّرِ:( ب ش ر ) بشارت ۔ وہ خبر جو سننے والے کے لیے خوشی کی باعث ہو۔ اصل میں بشر جلد کو کہتے ہیں۔ چونکہ خوشی کے عالم میں انسانی چہرے کی جلد میں انبساط آ جاتا ہے، اس لیے خوشی کی خبر کو ’’ بشارت‘‘ کہا جاتا ہے۔
جَنّٰتٍ🙁 ج ن ن ) جنت کی جمع ہے۔ وہ جگہ جو درختوں سے ڈھکی ہوئی ہو۔ چنانچہ انسانی نظروں سے پوشیدہ رہنے والی مخلوق کو جن کہتے ہیں۔ ڈھال کو جنۃ کہتے ہیں۔ حدیث میں ہے:
اَلصَّومُ جُنَّۃٌ مِنَ النَّارِ ۔ {من لا یحضرہ الفقیہ ۲ : ۷۴ باب فضل الصیام}
روزہ آتش جہنم (سے بچنے) کی ڈھال ہے۔کیونکہ ڈھال اپنے مالک کو نقصان دہ چیزوں سے محفوظ اور پوشیدہ رکھتی ہے۔
تفسیر آیات
قرآن مجید کی بے شمار آیات میں ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر ہے۔ نجات و فلاح کے لیے اگر ایمان ضروری ہے تو عمل صالح بھی شرط ہے۔ ایمان و عمل کی تین صورتیں سامنے آتی ہیں۔
۱۔ ایمان بلا عمل۔ ۲۔ عمل بلاایمان۔ ۳۔ ایمان باعمل۔
۱۔ پہلی صورت یعنی ایمان بلا عمل، قرآن مجید کی رو سے نجات کا ذریعہ نہیں ہے۔ قرآن نے جہاں بھی نعیم جنت اور فلاح آخرت کی نوید سنائی ہے، وہاں ایمان کو عمل صالح سے مشروط کر دیا ہے۔کیونکہ ایمان و ایقان انسان کے ضمیر اور شعور پر ضرور اثرانداز ہوتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ اعمال کی صورت میں ظاہر ہوتاہے۔ مثلاً اگر مریض کا ایمان ہو کہ فلاں دوا میرے لیے بہتر ہے تو اس ایمان و یقین کا اثر اس کے شعور پر مرتب ہو گا، جس کے نتیجے میں وہ عمل کرے گا (یعنی دوا استعمال کرے گا)۔ کوئی عاقل ایسا نہیں جو اپنے اس ایمان کا اثر مرتب نہ ہونے دے۔
۲۔ دوسری صورت (عمل بلا ایمان ) معقول ہی نہیں کہ کسی چیز پر ایمان نہ ہو لیکن اس کے باوجود وہ انسان کے ضمیراور شعورپر اثرانداز ہو اور پھر اس کا نتیجہ عمل کی صورت میں ظاہر ہو۔ جس مریض کا علاج پر ایمان ہی نہیں، اس کے ضمیر و شعور پر وہ علاج کبھی اثر انداز نہیں ہو گا کہ اسے عملی صورت انجام دینے کی ضرورت پڑے۔ بنابریں جن لوگوں کا اللہ پر ایمان نہ ہو وہ اس کی اطاعت نہیں کریں گے اور اس صورت میں عمل صالح بجا لانا ممکن ہی نہ ہو گا۔ واضح رہے کہ جو لوگ رفاہی کام تو سرانجام دیتے ہیں لیکن اللہ کی خوشنودی کے لیے نہیں، ان کے اعمال کسی اور ایمان و عقیدے کے اثرات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کا ثواب اللہ کے ذمے نہیں بلکہ اسی کے ذمے ہے، جس کے لیے انہوں نے یہ ا عمال انجام دیے ہیں۔
۳۔ تیسری صورت (ایمان باعمل) ذریعہ نجات ہے اور اسی کے لیے قرآن نے بھی جنت کی ابدی نعمتوں کی بشارت دی ہے: وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۔ ایمان کے ساتھ عمل صالح بجا لانے والوں کے لیے بہشت کے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ کُلَّمَا رُزِقُوۡا انہیں جب بھی کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیں گے : یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے بھی ہمیں مل چکا ہے۔ قرآن فرماتا ہے: وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا ۔ ’’حالانکہ انہیں ملتا جلتا دیا گیا ہو گا۔‘‘ بعض محقق مفسرین فرماتے ہیں کہ جنت کی نعمتوں میں تکرار یعنی یکسانیت نہیں۔ دنیا میں اگر ہم ایک چیز کئی بار کھائیں تو ہر مرتبہ وہی لذت ملے گی جو پہلی بار کھانے سے ملی تھی۔ لیکن جنت میں ہر مرتبہ ایک نئی لذت ملے گی اور نیا ذائقہ محسوس ہو گا۔ ہر چند کہ پھل ملتے جلتے دیے جائیں گے۔
عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے :
ما فی القرآن ایۃ ’’ الذین امنوا و عملوا الصالحت‘‘ الا و علی امیرھا و شریفھا ۔ } بحار الانوار ۳۶ : ۱۰۷ ، باب ۳۹۔ شواہد التنزیل ۱ : ۳۰}
قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس کا عنوان الذین امنوا و عملوا الصالحات ہو مگر یہ کہ علی (ع) اس کے سب سے اولی و شریف ترین مصداق نہ ہوں۔
اہم نکات
۱۔ ایمان اور عمل صالح دونوں کا مجموعی نتیجہ نجات ہے ۔
۲۔ غیر اسلامی نظریات کی حامل رفاہی سرگرمیوں کا صلہ اللہ کے ذمے نہیں۔
۳۔ ایمان کی صداقت کو پرکھنے کی واحد کسوٹی عمل صالح ہے۔
تحقیق مزید: الفقیہ۱ : ۸۹ ۔ الوسائل ۱۶ : ۲۲۱
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 247)
ایمان یعنی عمل صالح
مَنۡ کَفَرَ فَعَلَیۡہِ کُفۡرُہٗ ۚ وَ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنۡفُسِہِمۡ یَمۡہَدُوۡنَ ﴿روم:۴۴﴾
جس نے کفر کیا اس کے کفر کا ضرر اسی کے لیے ہے اور جنہوں نے نیک عمل کیا وہ اپنے لیے ہی راہ سدھارتے ہیں،
تفسیر آیات
اس آیت میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہاں کفر و ایمان کا مقابلہ نہیں ہے بلکہ کفر اور عمل صالح کا مقابلہ ہے۔ اس سے یہ بات نہایت واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان عمل صالح سے عبارت ہے۔
سورہ بقرہ آیت ۱۴۳ میں قبلہ اول کی طرف پڑھی گئی نمازوں کے درست ہونے کی صراحت کرتے ہوئے فرمایا:
وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیۡعَ اِیۡمَانَکُمۡ ۔۔۔۔
اور اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا۔۔۔۔
یہاں نماز کو ایمان کہا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
الایمان عمل کلہ ۔ (الکافی ۲: ۳۳)
ایمان مکمل طور عمل ہی سے عبارت ہے۔
فَلِاَنۡفُسِہِمۡ یَمۡہَدُوۡنَ: عمل صالح کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
عمل صالح اس کے بجا لانے والے سے پہلے جنت پہنچ جائے گا اور اس کے لیے آمادہ کرے گا جس طرح تمہارا خادم تمہارے لیے بستر آمادہ کرتا ہے۔ ( زبدۃ التفاسیر )
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 6 صفحہ 367)
ایمان بغیر ازمائش و عمل کے مکمل نہیں
اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ﴿بقرہ:۲۱۴﴾
کیا تم خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے؟ انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟(انہیں بشارت دے دی گئی کہ) دیکھو اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے۔
تفسیر آیات
یہاں خطاب مسلمانوں سے ہے۔ خدا اپنے برگزیدہ بندوں کو جن تربیتی مراحل سے گزارتاہے، ان کی نشاندہی فرما رہا ہے نیز یہاں ایک غلط تصور کا ازالہ بھی مقصود ہے۔
غلط تصور: عام تصور یہ ہے کہ لوگ صرف ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے کو ہر چیز کے لیے کافی سمجھتے ہیں حتیٰ کہ طبیعی علل و اسباب کے لیے بھی اپنے ایمان و اسلام سے توقع رکھتے ہیں کہ بغیر کوشش کیے مفت میں کامیابی مل جائے گی۔
الٰہی سنت یہ رہی ہے کہ مفت میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی، کیونکہ اگر مفت میں ملے توسب کو ملنی چاہیے اور سب کو ملے تو بغیر استحقاق اور اہلیت کے بھی ملنی چاہیے اور یہ ایک عبث کام بن جاتا ہے۔ اس لیے حکمت الٰہی کے تحت ضروری ہوا کہ کامیابی کے راستوں کو دشوار بنا دیا جائے اور تمام کامیابیوں کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہو۔ پھرجنت اور ابدی زندگی کے حصول کے لیے آزمائش اور امتحان کے کٹھن مراحل سے گزرنا اور ایسی مشکلات اور تکالیف کا مقابلہ ضروری ہو جہاں کھرے اور کھوٹے کی تمیز ہو جاتی ہے اور سچے اہل ایمان دوسروں سے جدا ہوجاتے ہیں اور صرف صبر و تحمل کرنے والے ہی اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔ البتہ وہ بھی اتنی تکلیف دہ اور طاقت فرسا مشکلات کے بعد کہ رسول جیسی ہستی اور مؤمنین اللہ کی نصرت کے لیے چیخنے پر مجبور ہوجاتے ہیں : ’’ اللہ کی نصرت کب آئے گی؟‘‘ تاکہ استحقاق اور اہلیت کے حامل افراد ہی مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ سے آگے کامیابی کی حقیقی منزل کو پا سکیں۔ آیت سے ان مصائب اور مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے جن سے مؤمنین کو آزمایا جاتا ہے۔ فلسفہ امتحان پر ہم اس سے پہلے تحریر کر چکے ہیں۔
اہم نکات
۱۔ راہ خدا میں مشکلات اور کٹھن آزمائش سے گزرے بغیرجنت کی خواہش خام خیالی ہے: اَمۡ حَسِبۡتُمۡ ۔۔۔۔
۲۔ آزمائش خدا کا ایک دائمی قانون ہے جس سے ہرشخص کو گزرنا ہو گا۔
۳۔ نصرت خداوندی، آزمائش میں آخر دم تک ثابت قدمی کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے: مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ ۔
تحقیق مزید: غیبۃ الطوسی ص ۴۵۸، مکارم الاخلاق ۴۴۶، منتخب الانوار ص ۳۲۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 544)
ایمان یعنی کردار کی سچائی
الٓـمّٓ ۚ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ﴿العنکبوت۲،۱ ﴾
الف، لام ، میم۔کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟
تفسیر آیات
اَحَسِبَ النَّاسُ: ناس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو مکہ میں مشرکین کے نرغے میں ہیں اور مشرکین کی طرف سے اس حد تک اذیت برداشت کر رہے ہیں کہ اسلام سے برگشتہ ہونے کے خطرے میں ہیں۔ ان مسلمانوں کو سامنے رکھ کر ایک کلی حکم بیان ہو رہا ہے: ایمان صرف ایک لفظ اٰمَنَّا کے تلفظ سے عبارت نہیں ہے بلکہ ایمان ایک نظام اور دستور حیات کو اپنانے اور اسے اپنانے کی راہ میں پیش آنے والی تمام مشکلات و مصائب کا مجاہدانہ مقابلہ کرنے نیز کردار و امانت کا نام ہے۔ ایسے ایمان کی کوئی قیمت نہیں جس کا انسان کے کردار پر کوئی اثر نہ ہو۔
اگر ایمان کا رتبہ اتنا ارزاں ہوتا کہ لب ہلانے سے حاصل ہو جائے تو صادق و کاذب میں تمیز نہ ہوتی۔ مجاہد اور فراری میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ ایمان کے لیے قربانی دینے اور ایمان کے نام پر مفاد حاصل کرنے والوں میں کوئی امتیاز نہ ہوتا۔
فلسفہ امتحان کے بارے میں ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۱۲۴ و آیت ۲۱۴۔
۲۔ وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ: آزمائش اور امتحان اللہ تعالیٰ کا دائمی قانون ہے جو تمام امتوں میں جاری رہا ہے۔
۳۔ فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ: اللہ کو قدیم سے علم ہے کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے لیکن امتحان کے ذریعے اللہ کا علم ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اللہ کا قدیم علم منصہ شہود میں آتا ہے۔ علم کے مرحلے سے عمل کے مرحلے میں آتا ہے اور عمل سے استحقاق کا مرحلہ آتا ہے۔ نیک عمل سے ثواب اور بد عمل سے عذاب کا مستحق ہونے کا مرحلہ آتا ہے چونکہ امتحان و آزمائش کے ذریعے عملی شکل میں استحقاق کا مرحلہ آنے سے پہلے بلا استحقاق ثواب دے تو سب کو دے۔ نیک کردار اور بدکردار دونوں کو دے۔ یہ ایک عبث کام بن جاتا ہے۔ اس لیے حکمت الٰہی کا یہ تقاضا ہوا کہ کامیابی کے راستوں کو دشوار بنایا جائے۔
فضائل: حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے بابا حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:
جب آیۂ اَحَسِبَ النَّاسُ ۔۔۔۔ نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یہ آزمائش کیا ہے فرمایا: یا علی انک تبلی و تبلی بک ۔ یا علی یہ آزمائش آپ کی بھی ہو گی اور آپ کے ذریعے بھی۔ یعنی اس آزمائش سے آپ بھی دوچار ہوں گے اور آپ کے سلسلے میں بھی لوگ آزمائش سے دو چار ہوں گے۔
ملاحظہ ہو: کشف الغمۃ ۱: ۶۱۳ ط بیروت۔ شرح ابن ابی الحدید ۴: ۱۰۸۔
اہم نکات
۱۔ ایمان کی منزل پر کڑی آزمائشوں سے گزر کر فائز ہوا جا سکتا ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 6 صفحہ 289)
ایمان عمل کا نام ہے نہ کہ آرزؤں کا
لَیۡسَ بِاَمَانِیِّکُمۡ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ ؕ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا یُّجۡزَ بِہٖ ۙ وَ لَا یَجِدۡ لَہٗ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا﴿النساء:۱۲۳﴾
نہ تمہاری آرزوؤں سے (بات بنتی ہے) اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں سے، جو برائی کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا اور اللہ کے سوا نہ اسے کوئی کارساز میسر ہو گا اور نہ کوئی مددگار۔
تفسیر آیات
۱۔ لَیۡسَ بِاَمَانِیِّکُمۡ: اس آیت میں نہایت اہمیت کے حامل نکتے کی وضاحت فرمائی گئی ہے کہ مذہب صرف آرزوؤں کا نام نہیں ہے، جیساکہ دین کے تاجروں، جاہلوں اور دین دشمنوں نے خیال کر رکھا ہے۔
۲۔ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا: اس آیت میں مسلمانوں سے خطاب کر کے فرمایا: تمام ادیان کا دار و مدار عمل پر ہے۔ اگر کوئی برائی کرتا ہے تو اس کی سزا بھگتنا ہو گی، خواہ مسلم ہو یا اہل کتاب۔
احادیث
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
اَلْاَمَانِیُّ شِیْمَۃُ الَحْمقیٰ ۔ (مستدرک الوسائل ۱۳:۴۷)
صرف آرزوؤں پر بھروسہ کرنا احمقوں کی عادت ہے۔
اَلْاَمَانِیُّ ھِمَّۃُ اْلجُھَّالِ (مستدرک الوسائل ۱۳:۴۷)
جاہلوں کا عزم و ہمت یہ ہے کہ آرزؤں پر تکیہ کریں۔
اہم نکات
۱۔علم و عقل سے عاری لوگ عمل کی جگہ صرف آرزوں پر تکیہ کرتے ہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 409)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button