سلائیڈرمصائب شھداء بنو ہاشم در کربلامکتوب مصائب

شہزادہ قاسم بن امام حسن علیہ السلام کی شہادت

شہادت اولاد عبد اللہ بن جعفر طیار کے بعد اولاد امام حسن علیہ السلام نے میدان جنگ کا رخ کیا۔ اور سب سے پہلے شہزادہ قاسم بن امام حسن علیہ السلام میدان جنگ کے لیے خیام سے نکلے ۔ روایان اخبار کا بیان ہے ان کی تیاری دیکھ کر سرکار سید الشہداء نے اپنی بانہیں ان کے گلے میں ڈال دیں اور دونوں چچا بھتیجا اس قدر روئے کہ ان پر غشی کی کیفیت طاری ہوگئی جب افاقہ ہوا تو شہزادہ قاسم بن حسن علیہ السلام نے اذن جہاد طلب کیا اور امامؑ نے بھائی کی نشانی کو اجازت دینے میں پس و پیش کیا شہزادہ نے بڑی الحاح و زاری کے ساتھ اپنے عم بزرگوار کے ہاتھ پاوں چوم چوم کر اجازت حاصل کی اور شہزادہ اس حالت میں میدان کی طرف نکلا کہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔

منتخب طریحی میں ہے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:

یا ولدی اتمشی برجلک الی الموت؟

بیٹا قاسم! کیاتم اپنے قدموں سے چل کر موت کی طرف جاتے ہو؟

شہزادہ نے جواب میں عرض کیا:

کیف لا یاعم! و انت بین الاعداء صرت وحیدا فریدا لم تجفد مخامیا ولا صدیقا روحی لروحک القداء و نفسی لنفسک الوقاء

چچا بزرگوار! بھلا میں کیوں کر ایسا نہ کروں جبکہ آپ نرغہ اعداء میں گھرے ہوئے ہیں اور آپ کو بے یارو مددگار یکا و تنہا کھڑا دیکھ رہا ہوں میری جان آپ پر نثار ہو۔ نیز اسی کتاب میں مرقوم ہے

ثم ان الحسین علیہ السلام شق ازیاق القاسم و قطع عمامتہ نصفین ثم اولاھا علی وجھہ ثمہ البسہ ثیابہ بصررۃالکفن و شد سیفہ بوسط القاسم و ارسلہ الی المعرکہ

پھر امام حسین علیہ السلام نے قاسم کے گریبان کو چاک کیا اور عمامہ کے دو حصے کرکے چہرہ پر لٹکا دیے ۔ اور کفن کی طرح لباس پہنا کر اپنی تلوار ان کی کمر کے ساتھ لٹکا ئی۔ پھر معرکہ جنگ کی طرف روانہ کیا ۔

شہزادہ یہ رجز پڑھتے پوئے ہنگامہ حرب و ضرب میں کود پڑا۔

ان تنکوونی فانا ابن الحسین سبط النبی المصطفی الموتمن

ھذا حسین کالا سیر المرتھن بین الناس سقر اصوب المزن

حمید بن مسلم کہتا ہے : میں پسر سعد کے لشکر میں موجود تھا کہ

خرج الینا غلام کان وجھہ شقۃ قمر و فی یدہ السیف و علیہ قمیص و ازارو نعلان قد انقطع شسع احدھما ما انسی انھا الیسری

خیام حسینیؑ سے ہماری طرف ایک نو خیز لڑکا نکلا جس کا چہرہ شدت حسن و جمال سے چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا تھا ۔ ہاتھ میں تلوار تھی قمیص پہنے اوپر چادر اوڑھے ہوئے تھا پاوں میں جوتے تھے اور ایک جوتے کا تسمہ ٹوٹا ہوا تھا اگر میں بھولتا نہیں تو وہ بایاں پاوں تھا

پھر شجاعت علویہ کے اس وارث نے بڑھ بڑھ کے لشکر اعداء پہ حملہ شروع کیا شدت پیاس اور صغر سنی کے باوجود پینتیس یا ستر ملاعین کو فی النار کیا ۔ حمید بن مسلم کہتا ہے جب شہزادہ جنگ کررہا تھا تو عمر بن سعد بن نفیل ازدی جو میرے پاس کھڑا تھا کہنے لگا:

میں ضرور اس پر حملہ کروں گا اس اثنا میں جب شہزادہ اس کے قریب پہنچا تو اس نے آگے بڑھ کر شہزادے کے سر مبارک پر تلوار کا ایسا وار کیا جس سے شہزادے کا سر شگافتہ ہوگیا اور شہزادہ تیورا کر زین اسپ سے زمیں پر منہ کے بل گر پڑا اور گرتے ہوئے اپنے چچا کو پکارا:

یا عماہ! امام عالی مقام علیہ السلام شہزادہ کی آواز استغاثہ سن کر اس طرح جھپٹ کر شہزادے کے پاس پہنچے جیسے شکار کے اوپر باز گرتا ہے۔

دیکھا کہ ہنوز قاتل وہیں کھڑا ہے امام نے غضبناک شیر کی طرح اس پر حملہ کیا اس نے ہاتھ سے وار روکنا چاہا جس سے اس کا بازو کٹ کر زمین پر جا گرا۔ اور اس ملعون نے شدت سے آوازیں دینا شروع کیں اس کی فریاد بلند ہوتے ہی ابن سعد کے کئی گھڑ سوار اس کو بچانے کے دوڑے اسی اثنا میں وہ شقی گھوڑوں کی ٹاپوں تلے آکر کچلا گیا اور واصل جہنم ہوا۔

جب غبار پھٹا تو لوگوں نے دیکھا کہ امام علیہ السلام شہزادہ کے سرہانے کھڑے ہیں اور شہزادہ زمین پر ایڑیاں رگڑ رہا ہے اور امام علیہ السلام نہایت غم و اندوہ کے لہجے میں فرما رہے ہیں :

بعد ا لقوم قتلوک و من خصمھم یوم القیامۃ فیک جدک

ہلاکت ہو اس قوم کے لیے جس نے تمہیں قتل کیا ہے اور ان کے لیے جن کے تمہارے جد نامدار اور قیامت کے دن، دشمن ہوں گے۔

پھر فرمایا:

عز واللہ علی عمک ان تدعوہ فلا یجیبک او یجیبک فلا ینفعک صوتہ ھذا یوم واللہ کثر و اٰقرہ وقل ناصرہ

بخدا تمہارے چچا پر یہ چیز بہت شاق ہے کہ تم انہیں پکارو اور وہ جواب نہ دے سکیں۔ جواب تو دیں ان کا جواب تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے بخدا آج انتقام لینے والے زیادہ اور یارو و مددگار کم ہیں۔

پھر شہزادہ کی لاش مقدس کو خیام کی طرف اٹھا لائے جس کا منظر یہ تھا کہ آپ نے قاسم کو اٹھا یا اور سینہ سے لگایا راوی کہتا ہے

کانی انظر الی رجلی الغلام تخطان علی الارض

گویا میں ابھی دیکھ رہا ہوں کہ شہزادہ کے دونوں پاوں زمین پر خط دیتے ہوئے آرہے ہیں پھر لا کر شہزادہ کو اس خیمے کے سامنے لٹا دیا جو مرکز سپاہ تھا جہاں شہداء کے لاشے رکھے جارہے تھے۔

پس علی اکبر کی لاش کے ساتھ شہزادہ قاسم کی لاش اقدس کو رکھا اور فرمایا:

اللھم احصھم عددا واقتلھم بددا و لا تغادر منھم احدا ولا تغفر لھم ابدا۔

انا للہ وانا الیہ راجعون۔

(ماخوذ از: سعادت الدارین، شہید انسانت)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button