رمضان المبارکسلائیڈرمقالہ جات و اقتباسات

ماہ رمضان،بابرکت مہمان

تحریر: عامر حسین شہانی
برکتوں, رحمتوں اور مغفرت سے بھر پور خدا کا مہینہ ہماری طرف بڑھ رہا ہے اور ہم اس کی برکات سے فیض یاب ہونے کے قریب ہیں. اگرچہ ہمیں اس مبارک مہینے کی تمام برکات کا صحیح اور مکمل ادراک نہیں ہے لیکن معرفت کی بلندیوں پہ فائز اللہ کی بر گزیدہ ہستیوں کے قول و فعل پہ غور کرکے ہم اس مہینہ کی برکات کا کسی حد تک اندازہ لگا سکتے ہیں.
رسولِ رحمت, نبی خدا حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی ماہ رمضان کی آمد سے کچھ دن قبل اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم کے سامنے ایک خطبہ پیش فرمایا جو اب “خطبۂ شعبانیہ”کے نام سے جانا جاتا ہے. اس خطبے کی ابتدا اس جملے سے ہوتی ہے کہ:
“اے لوگو! تمہاری طرف اللہ کا مہینہ رحمت, برکت اور مغفرت کے ساتھ آرہا ہے”
اس ایک جملے میں غور کریں تو چار چیزیں سامنے آتی ہیں.
ایک یہ کہ یہ مہینہ “تمہاری طرف آرہا ہے” اور پھر یہ مہینہ ،رحمت،برکت،اور ،مغفرت” جیسے موتیوں سے مزین بھی ہے.
اگرچہ ہر مہینہ اسی طرح آتا ہے مگر ماہ رمضان کے بارے بطور خاص یوں کہنا کہ یہ مہینہ تمہاری طرف آ رہا ہے, اس کی عظمت, بزرگی اور بے پناہ اہمیت کی طرف اشارہ کر کے اس کے ہر ہر لمحے میں موجود ،رحمت،برکت،مغفرت،سے استفادہ کرنے کے لیے مکمل تیار کیا جا رہا ہے.پھر اس مہینہ کو ،رحمت،شاید اس لیے کہا گیا ہو کہ ایک اور مقام پہ اس مہینے کے پہلے عشرے کو “عشرۂ رحمت”کہا گیا ہے. لیکن میں نے اس مہینے کے بارے میں ایک اور حوالے سے کافی سوچا کہ آخر اس ایک مہینے میں ایسے ایسے سنہری مواقع کیوں رکھے گئے کہ کہیں اس مہینے کے پہلے عشرے کو “رحمت’ دوسرے عشرے کو”مغفرت”اور تیسرے عشرے کو “جہنم سے نجات” کا عشرہ کہا گیا ہے تو کہیں اس مہینے میں “لیلۃ القدر”جیسی ایک رات رکھ کر اس میں انجام دیا جانے والا عمل ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل قرار دیا گیا ہے. کہیں اس مہینے میں روزہ دار کی نیند کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے تو کہیں بے اختیار چلنے والی سانس کو تسبیحِ خدا قرار دیا گیا ہے. کہیں قرآن کے ایک “حرف” کی تلاوت پہ کثیر نیکیاں دی گئیں ہیں تو کہیں ایک آیتِ قرآنی کی تلاوت پہ ختمِ قرآن کے ثواب سے نواز جاتا ہے.
آخر یہ اور اس طرح کے کثیر فوائد اس ایک مہینے میں کیوں رکھے گئے.
میرے خیال میں شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ میرے وہ بندے جو میرا قرب اور میری رضا کے طلب گار ہیں وہ اپنی پوری کوشش کے باوجود بھی شیطان کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں. کوتاہیاں کر بیٹھتے ہیں اور زندگی کی مصروفیات میں مگن رہ کر سفرِ آخرت کے لیے زادِ راہ تیار نہیں کر پاتے. ماہِ رمضان ایسے لوگوں کے لیے رحمتِ الٰہی سے جھولیاں بھرلینے کا بہترین موقع ہے. گناہ گاروں کے لیے گناہوں سے نیکیوں کی طرف ہجرت کا نادر وقت ہے. جب ربِ کائنات جانتا ہے کہ یہ لوگ معصیتوں میں گِھر کر خود کو ناراضگی الٰہی کا سزاوار بنائے جا رہے ہیں تو رحمتِ الہی اپنے بندوں کی خاطر جوش میں آتی ہے اور ماہ رمضان کی مبارک ساعتوں میں لوگوں کو رحمت الہی سے جھولیاں بھر لینے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے.
پھر شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ گزشتہ امتوں میں لوگوں کی عمریں کئی سالوں پہ محیط ہوتی تھیں جبکہ اس امت کی اوسط عمر ساٹھ سال ہے لہذا انہیں ایک مہینہ ایسا با برکت بنا کے عطا کیا کہ جس میں چھوٹے سے چھوٹے عمل پر بڑی سے بڑی نیکی عطا کی جاتی ہے. گویا اس مہینے میں رحمت الہی اس قدر جوش میں میں ہے کہ اگر کوئی خدا کی طرف ایک قدم بڑھائے تو رحمت الہی خود اگے بڑھ کر اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے.
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ روزے مشکل ہیں یا باالعموم کہتے ہیں کہ دین پر عمل کرنا مشکل کام ہے جبکہ دوسری طرف یہی لوگ مرنے کے بعد کامیابی, نجات اور جنت میں خدا کی ابدی نعمتوں سے فیض یاب ہونے کے خواہاں بھی ہیں. ان کی خدمت میں عرض ہے کہ احادیث میں جنت کو “آزمائش کا گھر” کہا گیا ہے. یعنی جنت آزمائشوں و امتحانوں میں گھری ہوئی ہے جہاں ابتلاء و آزمائش کے بغیر پہنچنے کا کوئی ڈائریکٹ راستہ نہیں ہے.
اس کے لیے ایک چھوٹی سی مثال پیش کروں گا کہ “عید”مسلمانوں کے لیے اللہ کی طرف سے خوشی کا ایک دن ہے جسے جوش و عقیدت سے منانے کے لیے خصوصی تیاریاں کی جاتی ہیں.جب اللہ کی طرف سے ایک دن پر مشتمل اس چھوٹی سی دنیوی نعمت تک پہنچنے کے لیے ہمیں ماہ رمضان جیسی تیس دنوں پر مشتمل آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے تو پھر آخرت میں جنت جسی ابدی اور نا ختم ہونے والی نعمتوں تک پہنچنے کے لیے بھی دنیا میں آزمائشوں اور امتحانون سے گزرنا بھی ضروری ہے. لہذا ماہ رمضان کی ساعتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا کر توشۂ آخرت تیار کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی جانی چاہیے.
خطبۂ شعبانیہ کے پہلے جملے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہ رمضان کی دوسری صفت ;”برکت”بیان فرمائی ہے.
ماہ مبارک ہمارے اعمال میں برکت لاتا ہے. برکت یہ ہے کہ عمل وہی ہوگا جو عام دنوں میں کرتے ہیں مگر اس کا اجر کئی گنا بڑھ جائے گا. سانس لینا ہمارا غیر اختیاری عمل ہے مگر ماہ رمضان کی برکت یہ ہے کہ یہ سانس تسبیح شمار ہوتا ہے. اسی طرح اس ماہ میں نیند کا عبادت قرار پانا, ایک آیۃ قرآنی کی تلاوت پہ ختمِ قرآن کا ثواب ملنا, اس ماہ کے دن رات کا عمل عام دنوں کے اعمال سے بہتر قرار پانا, اس ماہ کی ایک رات لیلۃ القدر کا عمل ہزار مہینوں کے عمل سے افضل ہونا, جنت کے دروازے کھول دیے جانا, جہنم کے دروازے بند ہوجانا, ایک روزہ دار کی افطاری کرانے پر پورے روزے کا ثواب مل جانا (یاد رہے کہ افطاری کرانے سے ایک روزے کاثواب ضرور ملتا ہے لیکن اس سے اپنے زمے واجب الادا روزہ ساقط نہیں ہوتا چاہے پوری دنیا کی افطاری کا بندو بست بھی کیوں نہ کر لیا جائے), دعاؤں کی قبولیت کی ضمانت دیا جانا, اپنے اخلاق درست کرنے پر پل صراط سے بآسانی گزارے جانے کی نوید اور اسی طرح ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل پر ثوابِ کثیر اور رضاء پروردگار کا حصول اس ماہ کی برکات ہیں.(یہ فضائل بھی خطبۂ شعبانیہ ہی میں بیان ہوئے ہیں).
ماہ مبارک کی تیسری صفت “مغفرت”بیان ہوئی ہے. ماہ مبارک کے دوسرے عشرہ کو “عشرۂ مغفرت” کہہ کر ان دنوں میں طلبِ مغفرت پر خصوصی طور پر متوجہ کیا گیا ہے. پھر آخری عشرہ “جہنم سے نجات”کا عشرہ ہے کہہ جو مغفرت کا ایک اعلی نمونہ ہے. روایات میں ہے کہ جتنے لوگ پورے مہینے میں جہنم سے آزاد ہوتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ افراد ماہ رمضان کے آخری ایام میں جہنم سے آزادی کا پروانہ حاصل کرتے ہیں. یہی وجہ ہے اس ماہ میں رحمتِ خداوندی اس قدر جوش میں ہوتی ہے کہ حدیث میں اس شخص کو سب سے بڑا بدبخت کہا گیا ہے جو اس ماہ میں خدا کی مغفرت سے محروم رہے اور گناہوں کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل نہ کر پائے.
ماہ رمضان جہاں بہت سے روحانی و معنوی فوائد سے بھر پور ہے وہاں بہت سے جسمانی فوائد بھی عطا کرتا ہے. پیغمبر اسلام فرمایا کرتے تھے کہ روزہ رکھو اور تندرست ہوجاؤ.(بحار الانوار ج 93 ص255)
روزہ جسمانی صحت و تندرستی کا ضامن ہے. گیارہ مہینے لگاتار کام کرنے والا انسانی جسم کا اندرونی نظام اس ماہ میں قدرے وقفہ کرکے نئے سرے سے کام کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے. کنزالعمال میں موجود روایت میں ہے کہ روزہ خراب خون کو ختم کرتا ہے.
(کنزالعمال حدیث 23610)اسی طرح میزان الحکمۃ میں یہ حدیث بھی موجود ہے کہ روزہ خون کی نالیوں کو صاف کرتا ہے, گوشت میں اضافہ کرتا ہے اور جہنم کی گرمی کو دور کرتا ہے.(میزان الحکمۃ حدیث:10919)
پس ہمیں چاہیے کہ اس”بابرکت مہمان” کا بھر پور استقبال کریں اور ابھی سے اس ماہ کی برکات سے جھولیاں بھرنے کا پلان تشکیل دیں. کوشش کرنی چاہیے کہ اس ماہ میں روزہ سے جان چھڑانے کے لیے مختلف قسم کی بہانہ جوئیوں سے اجتناب کرکے اس ماہ کی برکات زیادہ سے زیادہ سمیٹنی چاہیں اور خالق کے ساتھ ساتھ اس کی مخلوق کو بھی راضی و خوشنود کیا جانا چاہیے. کیونکہ روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ ہر قسم کے حرام سے اجتناب کا نام ہے. اگر ہم روزہ کے ساتھ بھی مخلوق خدا کے ساتھ برا سلوک کرتے رہیں اور غیبت, جھوٹ, حسد اور لالچ جیسی برائیوں میں مبتلا رہیں تو ہمارا روزہ صرف بھوک پیاس تک محدود رہ جائے گا. آج کل کی گرمی میں روزہ رکھنے سے ہی انسان کے ایمان اور خلوص کا اندازہ ہوتا ہے. اسی لیے روایت میں گرمی کے روزے کو سب سے بڑا جہاد قرار دیا گیا ہے. یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جو شخص ایک ماہ ہر قسم کی برائیوں سے اجتناب کرنے کی مشق کرلے وہ اپنی پوری زندگی پاکیزہ بنا سکتا ہے.
مضمون کا حسنِ اختتام اس جملے پہ کروں گا کہ ماہ رمضان میں اللہ کی طرف سے ہم سب کے لیے یہ پیغام بھی چھپا ہے کہ
اگر تم روزہ رکھ کر سارا دن میری “حلال”کی ہوئی چیزوں سے اجتناب کر سکتے ہو تو پھر اپنی پوری زندگی میری “حرام” کردہ چیزوں سے پرہیز کیوں نہیں کر سکتے ؟
خداودند متعال سے دعا ہے کہ ہمیں اس بابرکت مہینے کی برکات سے مکمل استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین یا رب العالمین

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button