عدلعقائدمقالات قرآنی

نظام عدل الہٰی اور انسان

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس

نظام عدل الہٰی اور انسان
الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ؕ وَ اِنۡ تَدۡعُ مُثۡقَلَۃٌ اِلٰی حِمۡلِہَا لَا یُحۡمَلۡ مِنۡہُ شَیۡءٌ وَّ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی ؕ اِنَّمَا تُنۡذِرُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَیۡبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ؕ وَ مَنۡ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفۡسِہٖ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ﴿الفاطر:۱۸﴾
اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر کوئی (گناہوں کے) بھاری بوجھ والا اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے کسی کو پکارے گا تو اس سے کچھ بھی نہیں اٹھایا جائے گا خواہ وہ قرابتدار ہی کیوں نہ ہو، آپ تو صرف انہیں ڈرا سکتے ہیں جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو پاکیزگی اختیار کرتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے ہی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی: یہ نظام عدل الٰہی کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور اپنے کیے کا خود جواب دہ ہے:
مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفۡسِہٖ وَ مَنۡ اَسَآءَ فَعَلَیۡہَا ؕ وَ مَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ﴿۴۶﴾ (۴۱ حٓمٓ سجدہ : ۴۶)
جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لیے ہی کرتا ہے اور جو برا کام کرتا ہے خود اپنے ہی خلاف کرتا ہے اور آپ کا پروردگار تو بندوں پر قطعاً ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
لہٰذا جرم کوئی کرے، سزا کسی اور کو نہیں دی جائے گی۔ آج کل کی مہذب حکومتوں کا شیوہ ہے کہ ایک فرد کے جرم پر پورے ملک کو سزا دی جاتی ہے۔ مجرم نہ ملنے پر اس کے ہمسایوں، رشتہ داروں پر زیادتی کی جاتی ہے۔
۲۔ وَ اِنۡ تَدۡعُ مُثۡقَلَۃٌ: اگر کسی گناہ کے بھاری بوجھ والا کسی اور کو اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے تو وہ اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا بلکہ اگر وہ اٹھانا بھی چاہے تو کسی کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھا پائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسے غلط دعویٰ کو جھوٹ کہا ہے:
وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِیۡلَنَا وَ لۡنَحۡمِلۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِحٰمِلِیۡنَ مِنۡ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ﴿۱۲﴾ (عنکبوت: ۱۲)
اور کفار اہل ایمان سے کہتے ہیں: ہمارے طریقے پر چلو تو تمہارے گناہ ہم اٹھا لیں گے حالانکہ وہ ان گناہوں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں ہیں یہ لوگ جھوٹے ہیں۔
۳۔ وَّ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی: خواہ قریب ترین رشتہ دار کیوں نہ ہو۔ کوئی بھی اپنے قریبی رشتے دار کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ نہ باپ بیٹے کا، نہ بیٹا باپ کے گناہوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔
۴۔ اِنَّمَا تُنۡذِرُ: آپ کی تنبیہ سے استفادہ کرنے والے وہی لوگ ہوں گے جن کے دلوں میں اس خدا کا خوف ہے جو ان کے مشاہدے سے غائب ہے یا اس کا عذاب ابھی غائب ہے یا وہ یوم حساب جو ابھی نظروں سے غائب ہے۔
۵۔ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ: وہ لوگ آپ کی ملکوتی آواز پہچانیں گے جو اللہ کی بارگاہ میں عبادت کے لیے حاضر ہوتے ہیں اور اللہ کی بندگی کر کے گوش شنوا حاصل کرتے ہیں۔
۶۔ وَ مَنۡ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفۡسِہٖ: جو اللہ کی اطاعت کر کے اپنے نفس کو گناہ کی پلیدی سے پاک کر دیتا ہے، اس کا فائدہ خود اسی کو پہنچتا ہے۔ اگر کوئی ہستی انسان کو پاکیزگی کی دعوت دیتی ہے تو یہ دعوت اس انسان کے حق میں ہوتی ہے۔
اہم نکات
۱۔ ہر شخص اپنا بوجھ خود اٹھائے گا: وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی۔۔۔۔
۲۔ قیامت کے دن عمل کام آتا ہے رشتہ دار نہیں: وَّ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی۔۔۔۔
۳۔ خوف خدا اور نماز انسان کو ہدایت کا اہل بنا دیتے ہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 205)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button