قرآنیاتمقالات قرآنی

خلافت الٰہیہ کے اصول

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ﴿۵۵﴾
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔
تفسیر آیات
قرآن مجید میں خلافت اور استخلاف کو مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے:
۱۔ ایک قوم کی نابودی کے بعد دوسری قوم کو اس کی جگہ آباد کرنا۔ چنانچہ قوم عاد کے بارے میں فرمایا:
وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ قَوۡمِ نُوۡحٍ ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۶۹)
اور یاد کرو جب قوم نوح کے بعد اس نے تمہیں جانشین بنایا۔
قَالَ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ (۷ اعراف: ۱۲۹)
موسیٰ نے کہا: تمہارا رب عنقریب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور زمین میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔
اس کے علاوہ ملاحظہ ہو الانعام : ۱۳۳، ھود :۵۷، الاعراف:۷۴۔
۲۔ نسل انسانی کو زمین پر آباد کرنا۔
اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ۔۔۔۔ (۲ بقرہ:۳۰)
میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں۔
وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَکُمۡ خَلٰٓئِفَ الۡاَرۡضِ ۔۔۔ (۶ انعام:۱۶۵)
اور وہ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا
۳۔ ایمان و عمل صالح کی بنیاد پر اقتدار دیناجیسے:
یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ ۔۔ (۳۸ ص:۲۶)
اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔۔۔
قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ (۲ بقرہ: ۱۲۴)
ارشاد ہوا: میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا ۔
وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ (۲۱ انبیاء:۱۰۵)
اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
زیر بحث آیت بھی اسی خلافت کے بارے میں ہے جس میں ایمان و عمل صالح کا مالک، ظالم نہ ہونا اور صالح بندوں میں سے ہونا شرط ہے۔ اسی لیے اس استخلاف کے یہ ثمرات ہوں گے:
i۔ تمکن در دین۔ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ ۔ اس سے واضح ہوا کہ اس استخلاف سے مراد مطلق اقتدار نہیں بلکہ دینی اقتدار ہے جس میں دینی تعلیمات کو بالا دستی حاصل ہو گی۔ دینی قوانین اور دستور حیات کا نفاذ ہو گا۔
ii۔ خوف کے بعد امن ہو گا۔ یہ ذکر نہیں کہ یہ خوف کن سے ہو گا۔ داخلی، خارجی، ہر صورت میں خوف امن میں بدل جائے گا۔ نہ بیرونی دشمن سے خوف ہو گا، نہ داخلی حکمرانوں کے ظلم و زیادتی کا خوف ہو گا
iii۔ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا: کہ وہ اس امن کی فضا میں اللہ کی بندگی کریں گے۔ اس سے اس خوف کی نوعیت کا علم ہوتا ہے کہ یہ خوف مذہبی تعلیمات پر عمل اور اللہ کی بندگی کرنے سے متعلق ہے۔ شرک و بدعت سے پاک ایک خالص دینی تعلیمات کا رواج ہو گا۔
ان اوصاف کی حامل خلافت کے مصداق کی تلاش میں مفسرین کو مشکل پیش آگئی ہے:
i۔ بعض لوگ خلافت کو غلبہ اور اقتدار کے معنی میں لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اقتدار اور طاقت پر آنا ہی صلاح و ایمان کا معیار ہے۔ مولانا مودودی اس جگہ لکھتے ہیں:
بعض لوگ خلافت کو محض حکومت اور فرمانروائی اور غلبہ و تمکن کے معنی میں لیتے ہیں۔ پھر اس آیت سے نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس کو بھی دنیا میں یہ چیز حاصل ہے وہ مؤمن اور صالح اور اللہ کے پسندیدہ دین کا پیرو اور بندگی حق پر عامل اور شرک سے مجتنب ہے اور اس پر مزید یہ ستم ڈھاتے ہیں کہ اپنے اس غلط نتیجے کو بٹھانے کے لیے ایمان، صلاح، دین حق، عبادت الٰہی اور شرک ہر چیز کا مفہوم بدل کر وہ کچھ بنا ڈالتے ہیں جو ان کے اس نظریے کے مطابق ہو۔ یہ قرآن کی بدترین معنوی تحریف ہے جو یہود و نصاری کی تحریفات سے بھی بازی لے گئی۔ (تفہیم القرآن۔ سورہ نور حاشیہ نمبر ۸۳)
تقریباً اسی نظریے کے مطابق بنتا ہے وہ نظریہ جو اس استخلاف سے مراد پوری امت محمدی لیتے ہیں چونکہ اس میں بنی امیہ، بنی عباس اور آج تک کے تمام مسلمان حکمراں شامل ہوتے ہیں خواہ ان کا کردار اور ان کا خود اسلام کے بارے میں نظریہ کچھ بھی ہو۔کہتے ہیں:
واستخلافہم ھو ان یملکہم البلاد۔۔ ویجعلہم اھلہا کالذی جری فی الشام والعراق و خراسان والمغرب ۔ (تفسیر قرطبی ۱۳: ۲۹۸)
استخلاف کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر ان کی حکومت قائم ہوئی اور ان کو اس کا اہل بنا دیا۔ جیسے شام، عراق، خراسان اور مغرب میں ان کی حکمرانی قائم ہوئی۔
ii۔ دوسرا موقف یہ ہے:
وعدہ استخلاف عہد حضرت ابوبکر و حضرت عمر و حضرت عثمان میں پورا ہوا۔ وہ اس وعدہ الٰہی کا مصداق صرف خلفائے ثلاثہ کے پچیس سالہ دور کو لیتے ہیں۔ اس میں وہ حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت کو شامل نہیں کرتے چونکہ ان کے دور میں فتوحات نہیں ہوئیں۔ کہتے ہیں:
اگر آیہ استخلاف سے خلفائے راشدین مراد نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ خلافی لازم آتی ہے۔ یہ وعدہ اور جن کے ساتھ یہ وعدہ ہے وہ صرف خلفائے ثلاثہ کے زمانے میں پورا ہوا۔ (تفسیر مظہری ۶: ۵۵۲)
تعجب کا مقام یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے موقف پر لفظ مِنۡکُمۡ سے استدلال کرتے ہیں کہ یہ وعدہ صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاصرین سے مربوط ہے لہٰذا بعد میں آنے والے مثلاً حضرت مہدی عجل اللہ اس میں شامل نہیں ہو سکتے۔
گویا یہ لوگ قرآن کریم کے اجتماعی خطابات (جیسے یاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کے عنوان سے ہے) کو صرف زمانِ نزولِ قرآن کے مخاطبین تک محدود کرتے ہیں۔ ما اجھلہم ۔
iii۔ تیسرا موقف یہ ہے: وعدہ استخلاف خلفائے اربعہ سے پورا ہوا تاہم ان میں منحصر نہیں بلکہ بارہ خلفاء بھی اس کے مصداق میں شامل ہیں۔
ابن کثیر اپنی تفسیر ۶: ۷۲ میں صحیح بخاری و صحیح مسلم کی اس حدیث کا یہاں ذکر کرتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
لا یزال امر الناس ماضیاً ما ولیہم اثنا عشر رجالاً ۔
لوگوں کے معاملات اس وقت تک درست رہیں گے جب تک ان پر بارہ افراد حاکم (سرپرست) ہوں گے۔
اس کے بعد لکھتے ہیں:
اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ بارہ خلفاء کا وجود ضروری ہے۔ یہ شیعوں کے بارہ امام نہیں ہو سکتے کیونکہ ان میں سے اکثر کو حکومت نہیں ملی۔ البتہ یہ بارہ قریش سے ہوں گے اور حکومت کریں گے۔ عدل و انصاف قائم کریں گے جن کی بشارت قدیم کتابوں میں بھی ہے۔ پھر یہ ضروری نہیں کہ یہ بارہ امام بلا فاصلہ آئیں۔ بلا فاصلہ بھی ہو سکتے ہیں اور وقفے سے بھی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ ان بارہ میں سے چار بلا فاصلہ آئے ہیں۔ وہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی ہیں۔ پھر ایک وقفہ آیا۔ پھر ان میں سے کچھ وجود میں آگئے، باقی کس وقت وجود میں آئیں گے؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ان میں المہدی بھی ہیں جس کا نام رسول اللہ کے نام سے اور کنیت رسول اللہ کی کنیت سے ملتی ہو گی۔ جو زمین کو عدل و انصاف سے پرُ کرے گا جیسے ظلم و جور سے پرُ تھی۔ (ملاحظہ ہو جلد ششم صفحہ ۷۲)
iv۔ چوتھا موقف شیعہ امامیہ کا ہے کہ چونکہ اس استخلاف میں دین کا اقتدار اور دینی تعلیمات کا نفاذ ہو گا تو ظلم و جور کی جگہ زمین عدل و انصاف سے پرُ ہو گی۔ ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کب ہو گا؟ خود رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں ایساظہور مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے بعد تاقیام قیامت کے لیے ہو گا۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اہل البیت ہاہنا واشار بیدہ الی القبلہ ۔ (روح المعانی ۹: ۳۹۶)
قبلہ کی طرف اپنے دست مبارک سے اشارہ کرکے فرمایا اہل البیت علیہم السلام یہاں ہیں۔
دوسری حدیث بارہ خلفاء کے بارے میں ہے۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں جابر بن سمرۃ راوی ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا:
ان ھذا الامر لا ینقضی حتی یمضی فیہم اثنا عشر خلیفۃ ۔
یہ دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک بارہ خلیفہ نہ گزریں۔
جابر کہتے ہیں:
پھر رسول اللہؐ نے کچھ فرمایا میں نہیں سن سکا۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا: کیا فرمایا؟ کہا: فرمایا: کلھم من قریش ۔ یہ سب قریش سے ہوں گے۔
صحیح ابی داود میں وہ وجہ بھی مذکور ہے کہ رسولؐ کی آواز کیوں سنائی نہیں دی۔
جابر کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:
لا یزال ھذا الدین عزیزاً الی اثنا عشر خلیفۃ ۔
یہ دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک بارہ خلیفہ آئیں گے۔
راوی کہتا ہے:
فکبر الناس وضجوا
لوگوں نے تکبیر کہی اور شور مچایا۔
پھر حضورؐ نے کچھ فرمایا جو میں نہیں سن سکا۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا فرمایا؟ کہا:
کلھم من قریش
یہ سب قریش سے ہوں گے۔
جب کہ عبدالملک بن عمیر خود جابر بن سمرۃ سے روایت کرتے ہیں:
رسول اللہ نے کلھم من بنی ہاشم فرمایا ۔
ملاحظہ ہو: امامۃ بقیۃ الائمۃ از السید علی المیلانی ۔
سماک بن حرب نے بھی جابر بن سمرۃ سے اپنی روایت میں کہا ہے کہ رسول اللہؐ نے کلھم من بنی ہاشم فرمایا ہے۔ ( امامۃ بقیۃ الائمۃ )
واضح رہے عبدالملک بن عمیر صحیح بخاری کے رجال میں سے ہیں اور سماک بن حرب صحیح مسلم کے رجال ہیں۔
کلھم من بنی ہاشم بہت سے لوگوں کے لیے سنگین جملہ تھا۔ بعض اصحاب کا یہ نعرہ بھی تاریخ میں ثبت ہے کہ نبوت اور خلافت دونوں ایک ہی خاندان میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ عبد اللّٰہ بن زبیر کی جب مکہ میں حکومت قائم ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے سے یہ کہ کر احتراز کرتے تھے کہ اس سے بنی ہاشم کی ناک اونچی ہو جاتی ہے۔
غیر شیعہ کے لیے بارہ خلفاء ایک ناقابل حل، ناقابل فہم معمہ بنا ہوا ہے اور بنا رہے گا۔
حافظ ابن العربی کہتے ہیں:
لم اعلم للحدیث معنی (روح المعانی ۹:۳۹۶)
مجھے اس حدیث کے معنی کا علم نہ ہو سکا۔
المھلب نے کہا:
میں نے کسی شخص کو اس حدیث کے کسی معنی پر یقین کرتے نہیں دیکھا۔
ابن الجوزی فرماتے ہیں:
میں نے اس حدیث پر طویل بحث کی۔ ان سب مقامات کو چھان مارا جہاں سے کچھ ملنے کی امید تھی اور سوال اٹھایا مگر کوئی مقصد حاصل نہ کر سکا۔
وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ: دین کو کامل اقتدار و تمکن حاصل ہونے کا یہ مطلب نہیں لیا جاتا ہے کہ منحرف کا وجود ختم ہو جائے گا بلکہ منحرف ہمیشہ کی طرح اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
صاحب سر رسول حضرت حذیفہؓ اس جگہ فرماتے ہیں:
ذھب النفاق وانما کان النفاق علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم وانما ھو الکفر بعد الایمان قال قضحک عبد اللّٰہ فقال لم تقول ذلک؟ قال علمت ذلک وقال: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۔۔۔وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ ۔
نفاق ختم ہو گیا، نفاق تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا۔ یہاں ایمان کے بعد کفر کی بات ہے۔ کہتے ہیں یہ سن کر عبد اللہ بن مسعود ہنس پڑے اور کہا ایسا کیوں کہتے ہو؟ کہا: یہ بات مجھے اس آیت سے معلوم ہوتی ہے: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۔۔۔۔ آخر میں فرمایا: جو اس کے بعد کفر اختیار کریں تو یہ لوگ فاسق ہیں۔
ملاحظہ ہو روح المعانی ذیل آیت۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 481

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button