قرآنیاتمقالات قرآنی

رحمت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بزبان قرآن

رحمت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بزبان قرآن
رحمت ایک ایسا عاطفہ اور جذبہ ہے جس کے وجود سے بندہ میں احسان ، خیرو بھلائی اور عفو و درگزر جیسی اوصاف حمیدہ سے مزین ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جو اللہ تعالیٰ کی نمایان صفات جمالیہ میں سے ہے، چنانچہ قران مجید میں ہر سورہ کی ابتدا میں "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم” کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت وعطوفت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اور اپنی لاریب کتاب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھی بڑے اہتمام کے ساتھ اس صفت رحمت سے مزین ومنور ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔ چنانچہ سورہ مبارکہ انبیاء میں ارشاد الہی ہے۔
"وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ” ( انبیاء-107)
اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں صاحب تفسیر الکوثر لکھتے ہیں کہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود، آپؐ کی ذات، آپؐ کا پیغام، آپؐ کی نبوت، تمام عالمین کے لیے رحمت ہے۔ آپؐ کے رحمت ہونے کی اساس آپؐ کی دعوت الی التوحید ہے جو حق و حقیقت تک رسائی کے لیے بہت بڑی نعمت اور رحمت ہے ورنہ جاہلیت میں لوگ حقیقت اور حق سے دور موہومات میں گم تھے۔
i۔ آپؐ نے حق و باطل میں تمیز کرنے کا سلیقہ دیا۔
ii۔ انسان کو احترام آدمیت کا شعور ملا۔
iii۔ انسان کو انسانی حقوق میسر آئے۔
iv۔ عدل و انصاف اور ناانصافی کی میزان عنایت فرمائی۔
v۔ ایک جامع نظام حیات عنایت فرمایا۔
vi۔ خواب غفلت اور جہالت میں پڑی انسانیت کو جگایا۔
vii۔ دنیا میں باعزت زندہ رہنے کے لیے آداب زیست سکھائے۔
viii۔ زندگی کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا جس کے لیے آداب اور قانون عطا نہ کیا ہو۔
ix۔ آپؐ کے مبعوث ہونے کے بعد ہی انسانیت نے تہذیب و تمدن کی طرف ایک جست لگائی۔
x۔ تاریخ انسانیت میں پہلی مرتبہ آپ ؐنے غیر طبقاتی معاشرہ متعارف کرایا۔
ذیل میں ہم آپ ؐکے رحمۃ للعالمین ہونے سے متعلق احادیث کے چند نمونے پیش کریں گے:
لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (۹ توبہ: ۱۲۸)
بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔
ii۔ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ۔۔۔ (۷ اعراف:۱۵۷)
اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں۔
۱۔ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
انما انا رحمۃ مہداۃ ۔۔۔۔ (بحار الانوار۔ ۱۶:۱۱۵)
میں (اللہ کی طرف سے) ہدیہ شدہ رحمت ہوں۔
۲۔ روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے جبرئیل سے فرمایا: کیا اس رحمت کا کچھ حصہ آپ تک بھی پہنچا ہے تو جبرئیل نے کہا: ہاں میں اپنی عاقبت کے بارے میں فکر مند تھا۔ آپؐ کی وجہ سے مجھے اطمینان ملا۔ جب اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں فرمایا:
ذِیۡ قُوَّۃٍ عِنۡدَ ذِی الۡعَرۡشِ مَکِیۡنٍ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیۡنٍ ( ۸۱ تکویر:۲۰،۲۱، بحار الانوار۱۶:۳۰۶)
جو قوت کا مالک ہے، صاحب عرش کے ہاں بلند مقام رکھتاہے۔ وہاں ان کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ امین ہیں۔
روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
حِیَاتِی خَیْرٌ لَکُمْ وَ مَمَاتِی خَیْرٌ لَکُمْ قَالُوا یَا رَسُولَ اللہِ وَکَیْفَ ذَلِک فَقَالَ ص اَمَّا حِیَاتِی فَاِنَّ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ وَ اَمَّا مُفَارَقَتِی اِیَّاکُمْ فَاِنَّ اَعْمَالَکُمْ تُعْرَضُ عَلَیَّ کُلَّ یُوْمٍ فَمَا کَانَ مِنْ حَسَنٍ اسْتَزَدْتُ اللہَ لَکُمْ وَمَا کَانَ مِنْ قَبِیْحٍ اسْتَغْفَرْتُ اللہَ لَکُمْ ۔۔۔۔ ( الفقیہ ۱:۱۹۱)
میری زندگی تمہارے لیے خیر ہے اور میری جدائی بھی۔ عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا: میری زندگی اس لیے خیر ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ ان کو عذاب نہیں دے گا جب تک آپؐ ان میں موجود ہیں۔ میری جدائی اس لیے خیر ہے کہ تمہارے اعمال روزانہ میرے سامنے پیش ہوتے ہیں اگر نیکی ہے تو اللہ سے مزید مانگتا ہوں اور برائی ہے تو مغفرت طلب کرتا ہوں۔
۴۔ حدیث ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
مَا مِنْ شَیْئٍ یُقَرِّبُکُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ وَ یُبَعِدُکُمْ مِنَ النَّارِ اِلَّا وَ قَدْ اَمَرْتُکُمْ بِہِ وَ مَا مِنْ شَیْئٍ یُقَرِّبُکُمْ مَنَ النَّارِ وَ یُبَعِدُکُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ اِلَّا وَ قَدْ نَھَیْتُکُمْ عَنْہُ ۔۔۔۔ (الکافی۲: ۷۴)
کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جو تمہیں جنت سے نزدیک اور آتش سے دور کر دے میں نے تمہیں اس کے بجا لانے کا حکم دیا اور کوئی ایسی چیز بھی میں نے نہیں چھوڑی جو تمہیں آتش جہنم کے نزدیک اور جنت سے دور کر دے میں نے تمہیں اسے ترک کرنے کا حکم دیا۔
جس جگہ سے رحمت کا یہ چشمہ پھوٹا ہے اس جگہ کے بارے میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
اِنَّ اللہَ بَعَثَ مُحَمَّداً صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نَذِیراً لِلْعَالَمِینَ وَ اَمِیناً عَلَی التَّنْزِیلِ وَاَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَی شَرِّ دِینٍ وَ فِی شَرِّ دَارٍ مُنِیخُونَ بِیْنَ حِجَارَۃٍ خُشْنٍ وَ حَیَّاتٍ صُمٌّ تَشْرَبُونَ الْکَدِرَ وَ تَأکُلُونَ الْجَشِبَ ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ خطبہ: ۲۶)
اللہ تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالمین کے لیے تنبیہ کرنے والا اور تنزیل کا امین بنا کر اس وقت مبعوث فرمایا جب تم عرب بدترین دین پر اور بدترین علاقے میں رہنے والے تھے۔ ناہموار پتھروں اور زہریلے سانپوں کے درمیان بود و باش رکھتے تھے۔ گندا تعفن کا پانی پیتے تھے اور غلیظ ترین غذا کھاتے تھے۔
روز قیامت کی شفاعت: روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَخْبَرَنِی الرُّوحُ الْاَمِینُ۔۔۔ فَمَا خَلَقَ اللّٰہُ عَبْداً مِنْ عِبَادِہِ مَلَکٍ وَ لَا نَبِیِّ اِلَّا وَ یُنادِِی یَا رَبِّ نَفْسِی نَفْسِی وَ اَنْتَ تَقُولُ یَا رَبِّ اُمَّتِی اُمَّتِی ۔۔۔۔ (الکافی ۸: ۳۱۲)
جبرائیل نے مجھ سے کہا:۔۔۔ (روز قیامت) تمام مخلوق خدا، خواہ وہ فرشتہ ہو یا نبی، نفسی نفسی پکاریں گے اور آپؐ امتی امتی پکاریں گے۔
رہا یہ سوال کہ آپؐ عالمین کے لیے رحمت ہیں تو کافروں کے لیے بھی رحمت ہونا چاہیے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ جنگوں میں ان کو قتل کیا جاتا ہے۔ آخرت میں جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ رسول ؐکے رحمۃ للعالمین ہونے سے بالاتر اللہ ارحم الراحمین ہے۔ اگر کوئی شخص اس رحمت کو قبول کرنے کے لیے ظرفیت اور اہلیت نہیں رکھتا اور اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے تو رحمت کے دشمن ناسور کو کاٹ کر پھینک دینا چاہیے اور اسے سزا بھی ملنی چاہیے ورنہ رحمت الٰہی میں سب کے لیے گنجائش موجود ہے: وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۵۶) (الکوثر فی تفسیر القرآن۔ج۔5، ص؛286)
دوسری آیت جس میں آپ ؐ کی رحمت و عطوفت کا تذکرہ آیا ہے وہ سورہ مبارکہ توبہ کی یہ آیت ہے۔
"لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ’ (توبہ-128)
اس آیت کی تفسیر شیخ محسن علی نجفی نے کچھ اسطرح سے کی ہے۔
سورۂ براءت میں آیات کا ایک سلسلہ منافقین اور کافرین کے خلاف جاری رہا۔ ان کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے اور ان کی ہر سازش کو ناکام بنانے کی بڑی تاکید فرمائی۔ اس کے بعد اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رحمۃ للعالمین ہونے کا پہلو اجاگر کرنا مناسب تھا کہ منافقین کے خلاف یہ رویہ اس لیے ہے کہ وہ رحمت حق اور رحمت رسولؐ کے لیے اہل نہیں ہیں۔ خدا ارحم الراحمین ہے اور رسول رحمۃ للعالمین ہیں لیکن یہ منافقین اس رحمت میں شامل حال ہونے کی اہلیت اورظرفیت نہیں رکھتے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا اخلاق یہ ہے:
i۔ تم کو تکلیف اور ضرر میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے۔ ان کا وجود مبارک رحمت و رأفت کے اس مقام پر فائز ہے کہ ایک شخص رسولؐ کی دشمنی اور ضد میں اپنے آپ کو گمراہ کرتا اور ہلاکت میں ڈالتا ہے تو بشری تقاضائے انتقام تو یہ ہے کہ دشمن کے ہلاک اور ذلیل ہونے پر خوش اور مطمئن ہونا چاہیے لیکن رسول نہ خوش ہوتے ہیں نہ مطمئن بلکہ ان پر شاق گزرتا ہے۔
ii۔ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ: یہ رسولؐ تمہاری بھلائی کے نہایت حریص ہیں۔ حریص و آرزو مند رہتے ہیں کہ تم مؤمن بن جاؤ، اللہ کی خوشنودی تمہیں حاصل رہے، جنت میں تمہاری جگہ بنے اور دنیا میں ہمیشہ سر بلند رہو۔ جاہل انسان اس سے دور بھاگتا ہے اور رسولؐ اسے نزدیک لانا چاہتے ہیں۔ گویا کہ رسولؐ کو اس سے کام ہے حالانکہ اس کو رسولؐ سے بہت کچھ مل سکتا تھا۔
iii۔ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ: مؤمنین کے لیے نہایت شفیق و مہربان ہیں۔ یہ خیال نہ گزرے کہ رسولؐ مؤمنین کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں ، ان پر مہربان نہیں ہیں کیونکہ مشکلات میں انسان کے کمالات نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ مصائب سے انسان چٹان کی طرح مضبوط ہو جاتا ہے اور اس کے ایمان کی پختگی کی رسولؐ سے سند اور سعادت ابدی کی راہداری مل جاتی ہے۔
اہم نکات
۱۔ اس امت پر اغیار کی بالادستی ہوتی ہے تو یقینا رسولؐ پر شاق گزرتا ہے۔
۲۔ دنیا کا کوئی سربراہ ایسا نہیں گزرا جس میں اپنی قوم و امت کے لیے اتنی مہر و شفقت موجود ہو۔
اسی طرح سورہ مبارکہ انفال میں آپ ؐ کے وجود مبارک کو مجرموں کے عذاب سے محفوظ رہنے کی وجہ قرار دیا۔ ارشاد الٰہی ہےَ ( الکوثر فی تفسیر القرآن۔ج:3، ص۔565)
وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ۔ انفال-33
اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں اور نہ ہی اللہ انہیں عذاب دینے والا ہے جب وہ استغفار کر رہے ہوں۔
آیت کی تفسیر میں صاحب تفسیر الکوثر لکھتے ہیں کہ
": رسول رحمتؐ کا وجود امان ہے ان لوگوں کے لیے جو مستحق عذاب ہیں اور دوسری امان استغفار و توبہ ہے۔ اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ کوئی بھی نبی کسی امت کے درمیان دعوت الی الحق میں مصروف ہو تو اس امت کو مہلت دی جاتی ہے۔ ان کے جرائم کی پاداش میں فوری عذاب نازل نہیں فرماتا۔ اسی طرح اگر اس امت میں کچھ لوگ اپنے سابقہ جرائم پر نادم ہوں اور توبہ و استغفار کی حالت میں ہوں تو بھی اللہ ان پر عذاب نازل نہیں فرماتا۔” ( الکوثر فی تفسیر القرآن۔ج۔3، ص،383)

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button