قرآنیاتمقالات قرآنی

امت واحدہ کا قرآنی تصور

امت واحدہ کا قرآنی تصور
The Quranic Concept of “Ummat-E-Wahida”
مولانا محمد اصغر عسکری
maaskari110@gmail۔com
مقدمہ:
اس مقالے میں یہ امر اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن نے امتِ واحدہ کے متعلق کیا تصور دیا ہے اور اس سے کیا مراد ہے؟ دراصل، امتِ واحدہ کے متعلق تعبیرات اور تشریحات میں اختلاف ہے۔ بعض نے اس سے انسان کی وحدت مراد لی ہے۔ بعض نے اس سے امتِ مسلمہ مراد لیا ہے اور بعض نے امت واحدہ سے ایک دین مراد لیا ہے۔ اس مقالہ میں امتِ واحدہ کے بارے میں مختلف مفسرین کا نکتہ نظر پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ قرآن نے "امت واحدہ” اور "امتِ وسط” کی جو تعبیرات استعمال کی ہیں آیا ان سے مراد کوئی ایک حقیقت ہے اور یہ تعبیرات مختلف ہیں؟ یا یہ تعبیریں مختلف حقائق کی نشاندہی کرتی ہیں؟ مقالہ نگار نے اپنے مقالے میں یہ واضح کیا ہے کہ قرآن میں جو امت کی مختلف تعبیریں بیان ہوئی ہیں وہ اصل میں ایک ہی حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ مقالہ کے آخر میں یہ امر زیر بحث لایا گیا ہے کہ اتحاد وحدت کے ممکنہ عملی راستے کون سے ہیں؟ اس حوالے سے مقالہ نگار کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ اگر ریاستی ادارے اور دینی قیادت اتحاد و وحدت ایجاد کرنے میں سنجیدہ ہوں تو اس کا حصول انتہائی آسان ہے۔اسی طرح ایسے تعلیمی اداروں کا قیام بھی امت کی وحدت کے تحقق کا موجب بن سکتا ہے جہاں تمام مسالک کے طلبہ ایک فضا میں تعلیم حاصل کریں۔

کلیدی کلمات: قرآن، امت واحدہ، مشترکات، عملی وحدت، امت وسط

پس منظر
قرآن نے انسان کو زندگی گذارنے کے جو اصول بتائے ہیں اس پر عمل پیرا ہوکر جہاں انسان اپنی آخرت سنوار سکتا ہے وہاں اپنی دنیا کو بھی جنت نظیر بنا سکتا ہے۔ قرآن کے اعجاز کےجہاں دیگر مختلف پہلو ہیں، وہاں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ قیامت تک آنے والے انسان اس الہِٰی کتاب میں غور وفکر کرتے ہوئے نت نئے مطالب اخذ کرتے رہیں گے اور یوں قرآن قیامت تک بشریت کی ہدایت کا عمل جاری رکھے گا۔ قرآن نے امت واحدہ کا جو تصور دیا ہے کچھ سال قبل شاید ہم اس کی اہمیت کا ادراک نہیں کر پارہے تھے مگر جیسے دنیا سمٹتی چلی جا رہی ہے، فاصلے کم ہوتے جا رہے ہیں اور دنیا ایک گلوبل ولج (Global Village) کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، قرآن کے امت واحدہ کے تصور کی ضرورت کھل کر سامنے آتی جا رہی ہے۔ آج مختلف ادیان ومذاہب کے پیروکار یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر تمام ادیان ومذاہب کا سرچشمہ خدا اور وحی الہٰی ہے تو پھر ادیان و مذاہب کے درمیان اتنا اختلاف کیوں ہے اور اتنی نفرت اور دوریاں کیوں ہیں؟ جبکہ نہ آسمانی کتابوں میں اختلاف ہونا چاہئے اور نہ خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کے پیغام میں اختلاف کوئی معنی رکھتا ہے۔ ان سب کا سرچشمہ اور منبع ایک ہی ذات ہے جس میں کسی قسم کا نقص و عیب نہیں ہے۔ جو کمالات کا مجموعہ ہے۔ پس اس کی نازل کردہ کتابوں اور اس بھیجے گئے پیغمبروں میں بھی کہیں کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔
پس ادیان ومذاہب کی یہ تصویر جو آج دنیا کا انسان پیش کر رہا ہے جس میں تعصب ہے، تکفیر ہے، نفرت ہے، اپنے کو حق اور دوسرے کو باطل سمجھنا ہے تو کیا دین و مذہب کی حقیقت یہی ہے؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ یہ تو ادیان و مذاہب کی ایسی تشریحات ہیں جو حقیقی دین سے مطابقت نہیں رکھتی جوکہ امن و سلامتی کا دین ہے ۔یہ وہ سوالات ہیں جس کی وجہ سے ہم نے قرآن سے راہنمائی لینے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کا ان ادیان ومذہب کے بارے میں کیا نکتہ نظر ہے اور قرآن نے امت واحدہ کی جو بات کی ہے، اس سے کیا مراد ہے؟
ہمارے ہاں عام طور پر بحث کی جاتی ہے کہ قرآن نے جس امت واحدہ کی بات کی ہے کیا اس سے مراد صرف امت مسلمہ ہے یا نہیں بلکہ پوری بشریت جو کسی بھی آسمانی کتاب اور دین کی دعویدار ہے وہ مراد ہے لہٰذا ضرورت پیش آئی ہے کہ امت واحدۃکے قرآنی مفہوم کو واضح کیا جائے دوسری وجہ خود عصر حاضر کے تقاضے ہیں کہ جب انسان ایک دوسرے کے اتنا قریب آچکا ہے اور سوشل میڈیا نے یہ فاصلے سمیٹ دے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے؟ دین کا کوئی ایسا ایک نظام نہیں ہے جو تمام مذاہب و ادیان کے پیرو کاروں کے لئے قابل قبول ہو اور ہم انسانوں کو مذہب اور فرقے کی تقسیم سے باہر نکالے تاکہ تمام انسان مثبت سوچیں اور اس کے نتیجے میں انسانی معاشرے کو بہتر سے بہترین بنایا جاسکے اور پھر تیسری وجہ خود وحدت و یکجہتی کی اہمیت اور ضرورت ہے جو ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس بکھری ہوئی انسانی قوتوں کو یکجا کیا جائے اور آپس کی تقسیم اور فرقہ وارانہ سوچ اور روّیوں سے امت کو نجات دلا کر ایک امت بننے کی طرف قدم بڑھایا جائے یہ وہ بنیادی اسباب وجوہات تھیں جس کے تحت ہم نے اس موضوع کا انتخاب کیا ہے۔تو آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن نے جو امتِ واحدہ کا تصور دیا ہے اس سے کیا مراد ہے؟ اور مختلف مذاہب نے اس کی کیا تفسیر کی ہے؟
امّت کا مفہوم
لغت میں امت کے کئی معانی ذکر کیے گئے ہیں: ۱۔درمیان ۲۔لوگوں کی ایسی جماعت جن میں سے اکثر ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہوں اور ان میں خاندانی صفات جمع ہوں۔ ۳۔قوم۔ ۴۔تمام عمدہ خوبیوں کا جامع انسان جیسے قرآن میں حضرت ابراہیمعلیہ السلام کے بارے ارشاد ہوا:اِنَّ اِبْرٰہِيْمَ كَانَ اُمَّۃً یعنی: "ابراہیم ایک امّت تھے۔” ۵۔روش اور طریقہ جیسے کہ ارشاد ہوا ہے: اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاءَنَا عَلٰٓي اُمَّۃٍ ۷۔مدّت ؛ جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَى أُمَّةٍ مَّعْدُودَةٍ ۸۔قد وقامت۔ ۹۔چہرے کے حسن کا ظہور۔ ۱۰۔کنبہ اور فیملی۔ جبکہ مجلس الامۃ قومی اسملی کو کہا جاتا ہے۔
راغب نے مفردات میں اس آیت میں امت سے مراد یہ لیا ہے کہ:“ہر اس گروہ اور جمعیت کے معنیٰ میں ہے کہ جس کی کوئی مشترک جھت اس کے افرادکو آپس میں جوڑے رکھے۔ ایک دین، ایک زمانہ یا ایک معین مکان کا اشتراک چاہے یہ وحدت اختیاری ہو یا غیر اختیاری۔ مجمع البیان میں علامہ طبرسی نے بھی کم و بیش یہی معنی ٰمراد لیا ہے۔ ایسی جماعت جس کا مقصد اور ہدف ایک ہو۔ قانون الہٰی اور شریعت کو ایک امت کہا گیا ہے کیونکہ اس میں پوری جماعت ایک مقصد پر اکٹھی ہوتی ہے اور ان کا ہدف ایک ہوتا ہے۔ پس امت سے مراد یا دین ہے: إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً یعنی تمہارا دین ایک ہے۔ یا جیسےمفردات راغب میں بتایا گیا ہے کہ ایسی جماعت جن کا ہدف و مقصد ایک ہو۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ امت سے مراد تمام زمانوں اور فرقوں کے تمام انسان ہیں یعنی اے تمام انسانو تم سب کے سب ایک ہی امت ہو تمہارا پروردگار بھی ایک ہے تمہارا ہدف بھی ایک ہے۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں امت کی وحدت سے انسانیت کی وحدت مراد لی گئی ہے۔ لیکن یہ معنی اس آیت سے پہلے والی آیات سے مناسبت نہیں رکھتا کیونکہ گذشتہ آیات میں حضرت مریم ؑ اور دیگر چند انبیاء کا تذکرہ ہوا ہے۔
قرآنی آیات میں امۃ واحدۃ کا استعمال
قرآن حکیم میں اگرچہ بہت ساری آیات میں امت واحدہ، یکجہتی، اتحاد و وحدت، انسان کی تکریم اور انتشار و اختلاف کے برے انجام اور نقصانات کے بارے گفتگو ہوئی ہے مگر پہلے ان آیات کا جائزہ لیتے ہیں جن میں امت واحدۃ کا کلمہ استعمال ہوا ہے۔ اس مختصر مقالے میں تمام آیات کا احاطہ مشکل ہے مگر چند آیات جواس مطلب پر خصوصی طور پر ناظر ہیں ان کا ذکر کرتے ہیں۔إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً
صاحب تفسیر نمونہ نے اس آیت کے ذیل میں فرمایا ہے: گزشتہ آیات میں خدا کے بعض پیغمبروں کے نام آئے ہیں اور اسی طرح حضرت مریمؑ جیسی مثالی خاتون کا نام آیا ہے۔ ان کے حالات زندگی بیان ہوئے ہیں۔
زیر بحث آیات میں مجموعی طور پر نتیجہ نکالتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یہ عظیم پیغمبر کو جن کی طرف اشارہ ہوا ہے سب کے سب ایک ہی امت تھے ۔ ان سب کا پروگرام ایک تھا ان کا ہدف ومقصد ایک تھا اگرچہ زما نہ اور ماحول کے اختلاف کے لحاظ سے مختلف خصوصیات اور ان کا انداز کار کچھ مختلف تھا۔ یعنی ان کی ٹیکنیک مختلف تھی۔ لیکن سب کے سب آخر الامر ایک ہی مسلک اور راہ پر گامزن تھے ۔وہ سب کے سب توحید کی راہ میں شرک کے خلاف جدوجہد کرتے تھے اور لوگوں کو یکجہتی، حق اور عدالت کی دعوت دیتے تھے۔ پروگراموں اور ہدف و مقصد کی وحدت و یگانگت اس بناء پر تھی کہ وہ سب کے سب ایک ہی مبداءسے فیض حاصل کرتے تھے کہ جو خدائے واحد ویکتا کا ارادہ تھا۔لہٰذا ساتھ ہی فرمایا گیا ہے: وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ یعنی: ” اور میں تم سب کا پروردگار ہوں؛ پس تم صرف میری عبادت کرو ۔”
صاحب تفسیر نمونہ کی اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ امت واحدہ سے مراد تمام انبیاء کے پیروکاروں کی امت ہے اور چونکہ تمام انبیاء کے پیغام کا سرچشمہ وحی الہٰی تھی لہذا ان کے پیغام میں کوئی اختلاف اور تضاد نہیں ہے اگر اختلاف نظر آتا ہے تو وہ فقط بشریعت کے قوانین کا اختلاف ہے جس کی وجہ زمانے کے تقاضے اور شرائط ہیں چونکہ مختلف ادوار میں ہر زمانے کے اپنے تقاضے تھے لہٰذا ان تقاضوں اور شرائط کو مدّنظر رکھتے ہوئے احکام بھی مختلف ہیں ورنہ روح دین ایک ہے۔ دین میں وحدت ہے دین میں تعدّد نہیں ہے۔ شریعتیں مختلف رہی ہیں مگر دین جس میں خدائے واحد کی عبادت، شرک سے دوری اور عدل وانصاف کا قیام شامل ہے وہ ایک ہے۔
سورہ انبیاء کی آیت نمبر۹۳بھی اسی نکتہ نظر کی تائید کرتی ہے کہ جس میں ارشاد ہوا: وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ یعنی: ” اور انہوں نے آپس میں تفرقہ ڈال دیا لیکن آخر کار سب کے سب ہماری طرف پلٹ کر آئیں گے۔” اس آیت میں لوگوں کی اکثریت کے اس توحیدی بنیاد سے انحراف کی طرف اشارہ کیا گیا ہےکہ وہ اپنے معاملے میں اختلاف کا شکار ہوگئے اور اختلاف اس حد تک پہنچ گیا کہ وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور ہر گروہ دوسرے گروہ کو لعن و نفرین کرنے لگا اور اس سے بیزار ہوگیا۔ انہوں نے اس پر قناعت نہ کی بلکہ ایک دوسرے کے مقابلے میں ہتھیار نکال لیے اور بہت زیادہ خونریزی کی اور یہ توحید اور دین واحد سے انحراف کا نتیجہ تھا۔
صاحب تفسیر نمونہ فرماتے ہیں: تقطعوا "قطع” کے مادہ سے ہے یعنی باہم ملی ہوئی چیز کو ٹکڑے کردینا۔ باب تفعیل سے آیا ہے جو قبول کرنے کے معنیؑ میں آتا ہے اس لحاظ سے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ تفرقہ اور نفاق کے عوامل کے سامنے جھک گئے اور انہوں نے ایک دوسرے سے علیحدگی اور بیگانگی کو قبول کرکے اپنی فطری اور توحیدی وحدت کو ختم کردیا اور اس کے نتیجے میں ہر قسم کی شکست، ناکامی اور بدبختی میں گرفتار ہوگئے۔
علامہ سید علی نقوی تفسیر فصل الخطاب میں اسی آیت کے ذیل میں یوں گویا ہیں: امت سے مراد یہاں ملت ہے جبکہ بعض مفسرین نے امت کا معنیٰ دین کیا ہے اس طرح اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صحیح دین خلق خدا کا ایک ہے اور افتراق واختلاف بعد والوں کی ذہنی جدت طرازیوں سے پیدا ہوا ہے جنہیں قرآنی اصطلاح میں اھواء کہا جاتا ہے اور معیار حق نہیں ہوسکتے۔ (وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْأَرْضُ)
علامہ طبرسی نے قدیم مفسرین کے حوالہ سے اس کی تفسیر یوں بیان کی ہے کہ ان ھذہ دینکم دین واحد عن ابن عباس والحسن والمجاھد واصل الامۃ الجماعۃ اللتی علیٰ مقصد واحد فجعلت الشریفہ امۃ واحدۃ لاجتماعھم بھا علیٰ مقصد واحد۔صاحب مجمع البیان نے امت سے مراد دین لیا ہے یعنی تمہارا دین ایک ہے اور امت کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ امت اس جماعت کو کہتے ہیں جس کا ہدف نگاہ ایک ہو پس قانون الہٰی کو ایک امت کہا گیا ہے کیونکہ اس میں پوری جماعت ایک مقصد پر اکٹھی ہوتی ہے اور سب کا ہدف ایک ہوتا ہے۔
علامہ سید ابو الاعلیٰ مودودی نے بھی اسی آیت کے ذیل میں امت سے مراد دین واحد لیا ہے اور اصل دین یہ تھا کہ صرف اللہ ہی انسان کا رب ہے اور اکیلے اللہ کی بندگی کی جانی چاہیئے۔
صاحب تفہیم القرآن نے اس مطلب کو یوں بیان کیا ہے (اس آیت میں تم کا خطاب تمام انسانوں کے لئے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے انسانوتم سب حقیقیت میں ایک ہی امت اور ایک ہی ملت تھے دنیا میں جتنے بھی نبی آئے وہ سب ایک ہی دین لے کر آئے تھے اور وہ اصل دین یہ تھا کہ صرف اللہ ہی انسان کا رب ہے اور اکیلے اللہ ہی کی پرستش وبندگی کی جانی چاہئے بعد میں جتنے مذاہب پیدا ہوئے وہ اسی دین کو بگاڑ کر بنا لئے گئے۔ اس کی کوئی چیز کسی نے لے لی اورکوئی دوسری چیز کسی اور نے اور پھر یہ ایک نے اس کا ایک ایک جز لے کر بہت ساری چیزیں اپنی طرف سے اس کے ساتھ ملالیں اس طرح یہ بے شمار ملتیں وجود میں آئیں۔ اب یہ خیال کرنا کہ فلاں بن فلاں مذہب کا بانی تھا اور فلان بن فلاں نے مذہب کی بنیاد ڈالی اور انسانیت میں پر ملتوں اور مذہبوں کا تفرقہ ابنیاء کا ڈالا ہوا ہے۔ محض ایک غلط خیال ہے۔ محض یہ کہ یہ ملت مختلف ملتیں اپنے آپ کو مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں کے انبیاء کی طرف منسوب کررہی ہیں۔ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ملتوں اور مذہبوں کا یہ اختلاف انبیاء کا ڈالا ہوا ہے۔ خدا کے بھیجے ہوئے انبیاءعلیہم السلام مختلف مذہب نہیں بناسکتے۔ اور نہ ایک خدا کے سوا کسی اور کی بندگی سکھا سکتے تھے۔
صاحب تفسیر نور نے ان آیات سے یہ نکات اخذ کیے ہیں:
• تمام ادیان الہٰی کا ہدف اور مقصد ایک ہے۔ إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً
• توحید اور وحدت کلمہ تمام ادیان الہٰی کی بنیاد اور اساس ہے۔ أُمَّةً وَاحِدَةً
• ربوبیت کا لازمہ خدا کی بندگی ہے۔ وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ
• خدا کے دین میں اختلاف کا سرچشمہ خود لوگ ہیں۔ وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم
شیخ محسن قرائتی نے بھی امت واحدہ سے ہدف ومقصد میں ایک ہونا مراد لیا ہے یعنی تمام ادیان و تمام انبیاء کا ہدف ومقصد چونکہ ایک ہے اور وہ خدا کی وحدانیت وعبادت ہے لہٰذا تمام انسان ایک امت ہیں۔ عصر حاضر کے معتبر مفسر قرآن علامہ سید محمد حسین طباطبائی جن کی منفرد روش تفسیر یعنی قرآن کی قرآنی آیات سے تفسیر نے اس کتاب کو شہرہ آفاق بنا دیا ہے انہوں نے المیزان فی تفسیر القرآن میں اسی آیت کے ذیل میں یوں فرمایا ہے: قولہ تعالیٰ ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون الامۃ جماعۃ یجمع علیٰ مقصد واحد والخطاب فی الآیۃ علیٰ مایقھابہ سیاق اآلایات خطاب عام یشمل جمیع الافراد المکلفین من الانسان والمراد باالامۃ النوع الانسانی الذی ھونوع واحد۔۔۔۔
علامہ طباطبائی نے بھی امت سے مراد ایسی جماعت لی ہے کہ جو ایک مقصد کے تحت جمع ہوں اور فرمایا کہ آیات میں خطاب (امتکم) عام ہے گذشتہ آیات کے سیاق کو دیکھتے ہوئے عام خطاب ہے جو انسان کے تمام مکلف افراد کو شامل ہے اور امت سے مراد تمام نوع انسانی ہے جو کہ ایک نوع ہے۔
یعنی اے انسانو تمہاری یہ نوع انسانی ایک امت ہے اور میں چونکہ تمہارا مالک اور رب ہوں پس میری عبادت کرو۔ علامہ فرماتے ہیں کہ امت واحدہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ چونکہ تم امت واحدہ ہو لہٰذا اپنے رب کی عبادت کرو جب نوع انسانی ایک نوع ہے اور ایک مقصد کے تحت چلنے والی امت ہے اور وہ مقصد انسانی زندگی کی سعادت ہے تو پھر ان کا رب بھی ایک ہونا چاہئے کیونکہ ربویت اور الوھیت کوئی تشریعی منصب نہیں ہے کہ انسان اسے انتخاب کرنے میں اختیار رکھتا ہو بلکہ ربویت ایک تکوینی منصب ہے اور انسان کے امور کی تدبیر خدا کے ہاتھ میں ہے پس اسے عبادت بھی حقیقی رب کی کرنی چائیے نہ یہ کہ وہ اپنے لئے رب اختیار کرے اور ایک قوم اپنے لئے ایک معبود کو اختیار کرے دوسری قوم دوسرے معبود کو ایسا نہیں ہوسکتا چونکہ انسان ایک نوع ہے لہٰذا اس کا حقیقی اور تکوینی معبود بھی ایک ہے۔ صاحب المیزان فرماتے ہیں کہ یہاں امت سے مراد دین اسلام نہیں ہے۔ کیونکہ اگر امت کا استعمال دین کے معنی میں درست ہوتا کوئی قرینہ صارفہ ہوتا جو اس کو حقیقی معنیٰ سے انصراف دیتا۔ جبکہ سورہ یونس آیت 19میں ارشاد ہوا ہے:
وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلاَّ أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُواْ وَلَوْلاَ كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
ترجمہ: “ابتداء سارے انسان ایک ہی امت تھے بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے اور اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کرلی گئی ہوتی تو جس چیز میں وہ باہم اختلاف کررہے ہیں اس کا فیصلہ کردیا جاتا۔”
اس آیت میں واضح ہے کہ امت سے مراد تمام انسان اور نوع انسانی ہے۔ٍ

امت مسلمہ یا امت واحدہ
قرآن حکیم نے جہاں بہت ساری آیات میں امت واحدہ کی بات کی ہے وہاں امت مسلمہ اور امت وسط کی بھی اصطلاح استعمال کی ہے۔ قرآن کا یہ خوبصورت اسلوب یقیناً کچھ نئے مطالب اور رموز کو واضح کرتا ہے: حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیلعلیہا السلام نے جب خانہ کعبہ کو تعمیر کیا تو خدا سے کچھ دعائیں کی ہیں ان میں سے ایک دعا سورہ بقرہ آیت 128 میں بیان ہوئی:
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ پروردگار ہمیں اپنے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والا قرار دے اور ہماری اولاد میں سے ایسی امت بنا جو تیرے حضور سرتسلیم خم کرنے والی ہو پس امت مسلمہ سے مراد مسلمان امت نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کو کہا گیا کہ ابراہیمؑ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا تو ابراہیمؑ کو ن سے مسلمان تھے اس وقت یہ اصطلاحی اسلام ومسلمان تو نہیں تھا قرآن کی اصطلاح میں مسلم فقط پیغمبرﷺ کے پیروکاروں کے لئے خاص نہیں ہے بلکہ خدا کے سامنے تسلیم مطلق اور توحید کامل مرد ہے۔ یعنی کسی بھی مذہب اور دین کا پیروکار جو خدا کے قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرے وہ مسلمان ہے۔
اسی طرح قرآن حکیم نے ایک اور مقام پر امت وسط کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے ارشاد ہوا:
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۔ ترجمہ: “اور اسی طرح (جیسے تمہارا قبلہ درمیانی ہے)ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت بنایا ہے۔(جو ہر لحاظ سے افراط و تفریط کے درمیان حداعتدال ہے) تاکہ لوگوں کے لئے تم ایک نمونے کی امت بن سکو۔ یعنی امت مسلمہ ایک درمیانی امت ہے۔ لغت میں وسط کا معنیٰ دو چیزوں کے درمیان حدوسط اور اس کا ایک اور معنیٰ جاذب نظر اور خوبصورت بھی ہے ان دونوں معانی کی حقیقت ایک ہی ہے۔ کیونکہ خوبصورتی ہمیشہ اس چیز میں ہوتی ہے جو افراط و تفریط سے دور ہو اور مقام اعتدال پر ہو۔
امت وسط یعنی معتدل امت عقیدے کے لحاظ سے نہ غلو کو اپناتی ہے نہ تقصیر کو اور اسی طرح نہ جبر کو اپناتی ہے۔ نہ تفویض کو اور روحانیت کو بھول جائے اور نہ عالم عضویت میں ایسی ڈوبی ہوئی ہے کہ عیسائی راہبوں کی طرح بن جائے امت معتدل یعنی علم و دانش کے لحاظ سے بھی اعتدال ہو یعنی ایسا بھی نہ ہو کہ اپنی معلومات پر جمود کا شکار ہوجائے اور دوسرے کے علوم کی قدر دانی نہ کرے اور نہ احساس کمتری میں مبتلا ہوکر ہر آواز کے پیچھے لگ جائے۔
بعض روایات میں بھی اہل بیت علیہم السلام نے فرمایا: نحن الامۃ الوسطیٰ ونحن شہداء اللہ علیٰ خلقہ وحجہ علیٰ ارضہ۔۔۔۔ہم امت وسط ہیں ہم مخلوق پر شاہد ہیں اور زمین پر اس کی حجت ہیں ہم لوگوں پر گواہ غلو کرنے والوں کو ہماری طرف پلٹنا ہے اور تقصیر کرنے والوں کو چاہنے کہ یہ راہ چھوڑ کر ہم سے ملیں۔
قرآن نے ایک اور مقام پر امت واحدۃ کا ذکر یوں کیا ہے: كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ (ابتداء) میں لوگوں کا ایک ہی گروہ تھا اور ان کے درمیان کوئی تضاد نہیں تھا) رفتہ رفتہ گروہ اور طبقات پیدا ہوتے گئے) پھر خدا نے انبیاءعلیہم السلام کو بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو بشارت دیں اور ڈرائیں نیز ان پر آسمانی کتاب بھی نازل کی۔ اس آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امت واحدہ سے مراد پوری نوع انسان ہےنہ کوئی خاص مذہبی طبقہ۔
پس قرآنی اصطلاح میں امت مسلمہ۔ امت وسط اور امت واحدہ میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ ایک ہی حقیقت کی مختلف تفسیریں ہیں۔ اور سب قابل جمع ہیں۔

مشترکات کی بنیاد پر وحدت
قرآن حکیم کسی ایک مسلک اور فرقے کی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ پوری انسانیت کا آئین اور منشور ہے نصاب کی کتاب ہے مگر کسی سکول و کالج کا نہیں بلکہ انسانیت کے نصاب کی کتاب ہے لہٰذا اسی تناظر میں قرآن کے جو مخاطین ہیں اس میں بھی وسعت اور عمومیت پائی جاتی ہے۔ اس آیت میں قرآن نے تمام اہل کتاب کو دعوت دی ہے۔ قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْهَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ۔ ۔۔۔ ترجمہ: “کہیے اے اہل کتاب آؤ ایسی بات کی طرف جوہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم سوائے خدا واحد کے کسی کی عبادت نہ کریں کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دیں۔ اور ہم میں سے بعض خدا کو چھوڑ کر بعض دوسروں کو خدا کے طور پر قبول نہ کریں۔ اس آیت میں قرآن حکیم نے اہل کتاب کو اسلام اور اہل کتاب کے مشترک نقاط کی طرف دعوت دی ہے۔ اور اس اسلوب دعوت میں بہت وسعت ہے۔ حقیقیت میں اس طرز استدلال سے قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر کچھ لوگ تمہارے تمام مقدس اہداف و مقاصد میں تمہارا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں تو پھر کوشش کرو کم از کم جس قدر تمہارے ساتھ چل سکتے ہیں مشترکات کی بنیاد پران کو ساتھ لے کر چلو۔ لہٰذا قرآن کا یہ انداز دعوت بھی امت واحدہ کی تشکیل کی طرف اشارہ ہے کہ اتحاد وحدت صرف مسلمانوں کے اندر ہی نہیں بلکہ اہل کتاب سے مشترکہ نکات کی بنیاد پر اتحاد ہونا چاہیئے اور اسی طرف شاید حضرت علیعلیہ السلام نے اپنے اس خط میں جو مالک اشتر کو لکھا ہے اشارہ کیا ہے کہ اے مالک تیری رعیت میں دو قسم کے افراد ہیں یا تیرا دینی اور ایمانی بھائی یا تیرا انسانی بھائی ہے۔ پھر اس آیت میں غور و فکر کریں تو خدا نے خطاب میں یا اہل الکتب نہیں کہا بلکہ فرمایا یا اہل الکتاب اس میں ایک لطیف اشارہ ہے کہ آسمانی کتاب کوئی بھی ہو اس کا پیغام اس کی روح ایک ہے اور انبیاءعلیہم السلام کی تعلیمات میں کبھی تضاد نہیں ہے کسی نبی نے اپنے سے پہلے والے نبی کی نفی نہیں کی بلکہ ہمیشہ بعد والے نے قبل والے کی تائید اور تصدیق کی ہے۔
لہٰذا قرآن کا ایک اسلوب دعوت مشترکات کی بنیاد پر وحدت قائم کرنا ان مشترکات میں آسمانی کتابیں، انبیاء علیہم السلام کی بعثت خالق کی وحدت اور حقیقی معبود ورب کی وحدت اور قیامت کا تصور پھر اس کے ساتھ ساتھ تمام الہٰی ادیان نے انسانی اقدار(Human Values)کو زندہ کرنے کی بات کی ہے۔ اخلاقیات کی ترویج کی بات کی ہے یہ وہ مشترکہ نکات ہیں جن کی بنیاد پر آج بھی امت واحدہ تشکیل دی جاسکتی ہے اور انسانی معاشرے کو پرامن اور پیار ومحبت کے رنگ سے خوبصورت بنایا جاسکتا ہے۔
امت واحدہ کی تشکیل کے مراحل
جب یہ واضح ہوگیا کہ قرآن نے امت واحدہ کی تشکیل کو ضروری قرار دیا ہے تو پھر اگلے مرحلے میں اس بحث کو سمجھنا لازم ہے کہ امت واحدہ کی تشکیل کے کیا مراحل ہیں اور کہاں سے اس کا آغاز ہونا چاہئے۔ اتحاد ووحدت پر قرآن کی مختلف آیات میں بہت تاکید کی گئی ہے اور تفرقے اور اختلاف کے عواقب ونقصانات سے بھی قرآن نے خبردار کیا ہے۔ تفرقے سے بچنا کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ حضرت ہارونؑ کے کردار سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تشریف لے گئے اور اپنی موحد قوم کو حضرت ہارونؑ کے سپرد کیا اور کہا کہ میرے آنے تک قوم کی حفاظت کرنا۔ مگر قوم سامری کے دھوکے میں آگئی اور بچھڑے کی پرستش شروع کردی تو حضرت ہارون پر یشان ضرور ہوئے مگر قوم کو کچھ نہ کہا۔ اس ساری گمراہی و بدعملی کو برداشت کیا جب حضرت موسیٰعلیہ السلام واپس آئے قوم کی حالت دیکھی تو ردّعمل بڑا شدید تھا ہارونؑ کی داڑھی سے پکڑا اور کہا تم نے میری قوم کی حفاظت کیوں نہیں کی قرآن نے اس کی کو یوں بیان کیا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا۔ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا ترجمہ: “جب آپ نے ان کو گمراہی میں دیکھا تو ان کو منع کیوں نہیں کیا۔”
جواب میں حضرت ہارونؑ نے کہا قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے میرے اور میری قوم کے درمیان تفرقہ کیوں ڈالا یعنی حضرت ہارونؑ نے یہ ساری گمراہی اور انحراف کو برداشت کیا کس لئے تاکہ نبی اور اس کی بت پرست قوم کے درمیان تفرقہ پیدا نہ ہو۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تفرقہ سے بچنے کے لئے بت پرستی اور شرک جیسے برائی کے سامنے بھی خاموش ہونا پڑتا ہے۔
قرآن حکیم نے مختلف آیات میں مختلف انداز سے تفرقے کے نقصانات سے آگاہ بھی کیا ہے اور اس کے خطرناک نتائج کی نشاندہی بھی فرمائی ہے۔ سورہ آل عمران105میں ارشاد ہوا: وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ترجمہ: “تم ان کی طرح نہ بنو جنہوں نے تفرقہ کیا ہے اور روشن دلیلیں آنے کے بعد بھی بٹ گئے ہیں اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔”
اس آیت میں تفرقہ بازی سے اجتناب کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے یہ آیت مسلمانوں کو گذشتہ اقوام یہہودیوں اور عیسائیوں کی طرح تفرقہ او راختلاف کی راہ اختیار کرنے اور اپنے لئے عظیم عذاب مول لینے سے ڈراتی ہے اس آیت میں تفرقہ اور اختلاف سے اجتناب کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمہارے معاشرے میں بھی ایسا ہونے والا ہے کیونکہ جہاں کہیں کس چیز سے ڈرانے میں اصرار کیا جاتا ہے وہ اس کے وقوع کی طرف اشارہ ہے پیغمبر اسلامﷺ نے پشین گوئی کی تھی اور صداقت سے مسلمانوں کو خبر دی تھی کہ یہودی قوم حضرت موسیٰعلیہ السلام کے بعد عیسائی قوم 71اور 72فرقوں میں بٹ گئی تھی اور میری امت میرے بعد 73 فرقوں میں بٹ جانے گی۔
پس ایک چیز واضح ہے کہ اختلاف وانتشار سے کسی بھی قوم کا وقار اور طاقت کھو جاتی ہے اور دوسرے اس کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں وہ سوسائٹی بے برکت بن جاتی ہے جس میں اختلاف پیدا ہوجائے لہٰذا امت واحدہ بنانے کا پہلا عمل لوگوں میں یہ آگاہی (Awareness)پیدا کرنا ہے کہ اختلاف و انتشار کے کتنے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور گذشتہ اقوام جن میں تفرقہ پیدا ہوا انہوں نے ذلت ورسوائی کا سامنا کیا۔ اتحاد کی برکات اور انتشار کے مضر نقصانات کے حوالے بھر پور آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے لوگؤں کو تنگ نظری ، منفی رویوں اور شدّت پسندی سے نکالنا ہوگا اور مثبت سوچ، رواداری اور تحمل و برداشت کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا ۔ اسلام تو غیر مسلموں کے عبادت خانوں کو محترم جانتا ہے اور ان کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اسلام تو امن وسلامتی کے ساتھ رہنے والا غیر مسلمانوں کو ذمی کہتا ہے یعنی ان کی جان مال آبرو کی حفاظت ہمارے ذمے آجاتی ہے۔
اتحاد وحدت کے عملی راستے اور امکانات
اگرچہ امت واحدہ کا موضوع اوراتحاد و وحدت کے حوالے سے قرآن کی متعدد آیات نے ہماری راہنمائی کی ہے مگر اختصار کے پیش نظر ان تمام آیات کا احاطہ ناممکن ہے لہٰذا موضوع کو سمیٹتے ہوئے عملی تجاویز اور ممکنہ عملی راستے بیان کرتے ہیں کہ اس مقدس ہدف کا حصول کیسے ممکن ہے اور اس کے عملی راستے کون سے ہیں؟ ظاہر ہے ہمارے پیش نظر وطن عزیز پاکستان میں بسنے والے تمام ادیان مذاہب کے پیروکاروں کی وحدت و ہم آہنگی اور بالخصوص امتِ مسلمہ کی ہم آہنگی ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اتحاد وحدت کی اہمت، ضرورت والی مباحث سے آگے بڑھنا ہوگا اور معمول کے سمینارز کانفرنسز بہت ہوچکی ہیں ان سے نکل کر زمینی حقائق کیا ہیں اور عملی وحدت کیسے ممکن ہے اس پر گفتگو کی ضرورت ہے۔ امت واحدہ کی تشکیل میں مختلف طبقات کی ذمہ داری ہے اور اس کے کئی ستون ہیں ان میں سے اہم ستون خود ریاست ہے دوسرے درجے میں مذہبی قیادت ہے جنہوں نے قوموں کی رہنمائی کرنی ہے تیسرے مقام پر سول سوسائٹی اور پھر چوتھے مرحلے میں میڈیا ہے میڈیا سے ہماری مراد پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ہے۔ اگر یہ تمام طبقات اپنی اپنی ذمہ داری کو ادا کریں تو میرے خیال میں پاکستان میں بسنے والے تمام پاکستانیوں کو پیار، محبت وامن واخوت کے رشتے میں جوڑا جاسکتا ہے اور ایک پر امن معاشرے کی تشکیل کا خواب عملی کیا جاسکتا ہے۔
1) تمام مذاہب کے جیدّ علماء کرام اور مفتیان عظام پر مشتمل ایک کمیشن بنایا جائے جو فتویٰ دینے کا مجاز ہو انفرادی طور پر فتاویٰ پر پابندی لگائی جائے۔
2) ایک ایسے تعلیمی ادارے یونیورسٹی یا مدرسہ کے قیام کی ضرورت ہے جہاں تمام مسالک کے طلبہ بلا خوف و خطر مکالمہ کرسکیں اور جہاں تمام مسالک کی تعبیر و تفسیرات بڑھائی جائیں۔
3) آئمہ جمعہ کو پابند کیا جائے کہ وہ مذہبی منافرت والی گفتگو سے پرہیز کریں۔
4) فرقہ وارت اورشدت پسندی کو ریاستی سطح پر سختی سے روکا جائے اور حوصلہ شکنی کی جائے۔
5) بین المسالک و بین المذاہب ہم آہنگی کو سکولوں، کالجز اور یونیورسٹیز کے نصاب میں شامل کیا جائے اور جمعہ کے خطبات میں اس کو فروغ دیا جائے۔
6) کسی بھی مسلک یا مذہب کے عقیدے یا رائے کو اس مذہب کے معتبر علماء اور معتبر کتابوں سے معلوم کیا جائے۔ کسی ایک فرد کی رائےکو عملاً کسی فرقے یا مسلک کی رائے نہ سمجھا جائے۔
7) منبر و محراب سے راواداری انسانیت کی تکریم، قانون کا احترام انسانی و شہری حقوق اور عمومی اخلاقیات کو لازمی بیان کیا جائے۔
8) بین المدارس نعت خوائی قرائت، تقریری مقابلے اور کھیلوں کے مقابلے کرائے جائیں۔
9) مختلف مذاہب کے علماء دوسرے مذہب کے تعلیمی اداروں مدارس، مساجد اور ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کے مواقع پیدا کریں۔
10) حکومتی سطح پر کچھ ماہانہ جرائد ورسائل شائع کئے جائیں جن میں ہم آہنگی اور امن کے موضوعات شامل ہوں۔
11) الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر منافرت پر مبنی خطابات اور شدت پسندی کے حامل افراد کو نمائندگی دینے کی بجائے تمام مسالک کے ایسے علماء ومفتیان کو لایا جائے جو ہم آہنگی بین المذاہب کا جذبہ رکھتے ہوں اور اس فکر و سوچ کا پرچار کریں۔

*****
حوالہ جات

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button