رسالاتقرآنیاتمقالات قرآنی

حسین علیہ السلام پیکر نفس مطمئنہ

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
اس تحریر میں ہم الکوثر فی تفسیر القرآن کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام سے متعلق قرآنی آیات کا جائزہ لیں گے۔ کچھ آیات ایسی ہیں جن میں امام حسین ؑ پنجتن پاک کے ضمن میں شامل ہیں اور کچھ آیات ایسی ہیں جن کا مصداق کامل خود حسین ؑ کی ذات گرامی ہے۔ ہم عمومی آیات کا صرف حوالہ دینے پر اکتفاء کرینگے اورخصوصی آیات کو تفصیل کے ساتھ یہاں بیان کرینگے۔ ویسے تو اہل ایمان کی جتنی خصوصیات بیان ہوئی ہیں ان کا کامل ترین مصداق ائمہ اہل بیت علیھم السلام ہیں۔ تاہم چند آیات بطور خاص انہی ہستیوں کی مدح سرائی اور مناقب کو بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہیں۔ وہ چند عمومی آیات جن میں پنجتن پاک سمیت امام حسین علیہ السلام شامل ہیں درج ذیل ہیں۔
1۔ آیہ تطہیر
اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا (احزاب:33)
"اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔”
آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں:( الکوثر فی تفسیر القرآن؛ جلد؛7 ص؛46)
2۔ آیہ ِ مباہلہ
"فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ” (آل عمران:61)
"آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔”
آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں:( الکوثر فی تفسیر القرآن؛ جلد؛2 ص؛87)
3۔ آیہ قربیٰ
قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی مَنۡ یَّقۡتَرِفۡ حَسَنَۃً نَّزِدۡ لَہٗ فِیۡہَا حُسۡنًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ ( شوری:23)
"کہدیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے اور جو کوئی نیکی کمائے ہم اس کے لیے اس نیکی میں اچھا اضافہ کرتے ہیں، اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، قدردان ہے”
تفسیر ملاحظہ فرمائیں؛( الکوثر فی تفسیر القرآن؛ جلد؛8 ص؛71)
4۔ سورہ دھر معراج سخاوت اہل بیت کا قصیدہ
"اِنَّ الۡاَبۡرَارَ یَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ کَاۡسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوۡرًا ۚ۔۔۔۔۔وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا” ( سورہ دھر؛05 تا 08)
"نیکی کے مرتبے پر فائز لوگ ایسا مشروب پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہو گی۔۔ اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔”
تفسیر کے لئے ملاحظہ کیجیے ۔( الکوثر فی تفسیر القرآن؛ جلد؛9 ص؛412)
5۔ کلمات سے مراد اہل البیت
فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ (بقرہ؛37)
"پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے تو اللہ نے آدم کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔”
آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں:( الکوثر فی تفسیر القرآن؛ جلد؛1 ص؛277)
6۔ عظیم المرتبت گھرانہ
"فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَ یُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ۙ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیۡہَا بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ” ( النور:36)
(ہدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کی تعظیم کا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے کا بھی، وہ ان گھروں میں صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔
تفسیر ملاحظہ کیجیے۔( الکوثر فی تفسیر القرآن؛ جلد؛5 ص؛465)
وہ آیات جن کا مصداق کامل حسین علیہ السلام ہیں۔
1۔ حسین علیہ السلام پیکر نفس مطمئنہ
یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ۔ ( الفجر 27 تا 30)
” اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو۔ پھر میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔”
تفسیر آیات
۱۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا ہے اس نفس کے لیے جو ایمان و ایقان کی اس منزل پر فائز ہے جہاں دنیا میں شک کے اضطراب سے محفوظ اور مطمئن اور آخرت میں خوف و حزن سے محفوظ اور مطمئن ہے۔ جس نے عبودیت کا راز سمجھ لیا اور نفس کی معرفت حاصل کی تو اسے رب کی معرفت حاصل ہوئی۔ پھر نفس مطمئن ہو گیا۔ جس نے راز خلقت سمجھ لیا، پھر خالق کی رضا جوئی کے لیے تڑپ گیا، اسے رضائے رب ملنے پر اطمینان حاصل ہو گیا:
اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ (۱۳ رعد: ۲۸)
"اور یاد رکھو! یاد خداسے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔”
۲۔ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ: یہاں حکم ہے رب کی طرف رجوع کرنے کا۔ یعنی دنیا کی زندگی ترک کر کے اللہ کی بارگاہ کی طرف رجوع کرنے اور اللہ کی ضیافت میں آنے کا۔ رجوع کی دو قسمیں ہیں: رجوع اضطراری اور رجوع اختیاری۔ رجوع اضطراری کے تحت کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ۔ (۲۱ انبیاء: ۳۵) ہر شخص کو قہراً اللہ کی بارگاہ میں جانا ہے۔
رجوع اختیاری شہداء کی موت ہے جو اپنے اختیار سے جان، جان آفرین کے سپرد کرتے ہیں۔
آیت میں ارۡجِعِیۡۤ پلٹ آ کا حکم تکوینی ہے۔ یہ حکم موت کے وقت سے لے کر جنت میں داخل ہونے تک پر محیط ہے۔ چونکہ اِلٰی رَبِّکِ سے مراد الی رحمۃ ربک ہے اور ہر مرحلے میں رحمت الٰہی اس کے شامل ہو گی۔
۳۔ رَاضِیَۃً: وہ دنیا میں اللہ کے ہر فیصلے پر راضی تھا۔ اس کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع تھی۔ عندالموت اللہ کی طرف جانے پر راضی ہے۔ بعد الموت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں پر راضی ہے۔
۴۔ مَّرۡضِیَّۃً: اللہ اس سے راضی ہے۔ اللہ کی رضایت کا حصول اس کا بنیادی سرمایہ ہو گا۔ چنانچہ فرمایا: وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۷۲) اللہ کی خوشنودی ایسی نعمت ہے جو وصف و بیان سے بڑھ کر ہے۔
۵۔ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ: جن لوگوں نے بندگی کا حق ادا کیا ہے اور عبودیت کی معراج پر فائز ہوئے ہیں ان میں شامل ہو جا۔ سیاق آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہاں عِبٰدِيْسے مراد عباد صالحین ہیں۔
۶۔ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ: ’’میری جنت‘‘ فرما کر اس جنت کی شان واضح فرمائی جس میں داخل ہونے کا حکم ہے۔
مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا:کیا مومن قبض روح کو ناپسند کرتا ہے؟
فرمایا: قسم بخدا! نہیں۔ جب ملک الموت قبض روح کے لیے آتا ہے تو مومن پریشان ہو جاتا ہے۔ ملک الموت اس سے کہیں گا: اے ولی خدا! گھبراؤ نہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا ہے میں تجھ پر احسان اور شفقت میں مہربان باپ سے زیادہ ہوں۔ اپنی آنکھیں کھول کر دیکھ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امیرالمومنین فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام اور ان کی اولاد میں سے ائمہ علیہم السلام کو حاضر دیکھے گا۔ اس سے کہا جائے گا: یہ پاکیزہ ہستیاں تیری رفیق ہوں گی۔ جب آنکھیں کھول کر ان کو دیکھ لیتا ہے تو اس وقت منادی اس کی روح کو پکارے گا: یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ اے محمد و علی پر اطمینان حاصل کرنے والے ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً ولایت پر راضی ہو کر اور مَّرۡضِیَّۃً ثواب سے پسندیدہ ہو کر فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ میرے بندوں محمد و اہل بیتؑ میں شامل ہو جا وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ تو اس وقت اس کے لیے قبض روح سے زیادہ پسندیدہ چیز نہ ہو گی۔
( الکافی۳: ۱۲۷)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ اس آیت سے حضرت امام حسین علیہ السلام کو مراد لیا ہے۔ (بحار الانوار ۲۴: ۳۵۰)
واضح رہے اس قسم کی روایات کا مطلب اس آیت کے مصادیق میں سے صریح ترین مصداق کا تعین ہے۔ چنانچہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اس آیت کے صریح ترین مصداق ہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 10 صفحہ 165)
2۔ حسین علیہ السلام ذبح عظیم کا کامل مصداق
"وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ” ” اور ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا۔” (الصافات:107)
تفسیر آیات
ہم نے ایک عظیم ذبیحہ سے ابراہیم کے فرزند کا فدیہ دیا۔ بظاہر عظیم تو وہ فرزند تھے جن کا فدیہ دیا گیاہے۔لیکن قرآن اس ذبیحہ کو عظیم قرار دے رہا ہے۔
خصال صدوق میں روایت ہے کہ قیامت تک ہونے والی منیٰ کی قربانیاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ ہیں۔
بحارالانوار اور عیون اخبار الرضا میں آیا ہے: حج کے علاوہ ہر قربانی بھی اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ ہے۔ حضرت سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کا ذبح عظیم کے مصداق ہونے پر متعدد روایات موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو تاویل الایات الظاھرۃ صفحہ ۴۸۷ کہ ان تمام قربانیوں سے سبط رسولؐ کی قربانی عظیم ہونے میں کسے تأمل ہو سکتا ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 329)
3۔ حضرت یحییٰ سے امام حسین علیہ السلام کی مشابہت
"یٰیَحۡیٰی خُذِ الۡکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ ؕ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحُکۡمَ صَبِیًّا” ( مریم:12)
” اے یحییٰ!کتاب (خدا)کو محکم تھام لو اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت عطا کی تھی۔”
تفسیر آیت: بچپن میں ان کو حکمت عنایت ہوئی سے مراد عقل و فہم بھی ہو سکتے ہیں اور نبوت بھی۔ یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے منتخب بندوں کو ابتدائے طفولیت ہی میں الہی منصب سے نوازے۔ اس کے دیگر شواہد اور نظیریں بھی موجود ہیں۔

٭حضرت یحییٰ کے(ع) کے عہد کا بادشاہ ہیرود اپنے بھائی کی بیوی پر فریفتہ ہو گیا تھا۔ حضرت یحیٰ اس بات پر ہیرود کی ملامت کرتے تھے۔ اس پر ہیرود نے ان کو گرفتار کیا۔ بعد میں اس فاحشہ عورت کی خواہش پر حضرت یحییٰ (ع) کا سرقلم کر کے ایک تھال میں رکھ کر اس کو نذر کیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک بھی تھال میں رکھ کر یزید کو پیش کیا جانا تھا۔ اس شباہت کی بنا پر امام حسین علیہ السلام حضرت یحییٰ کو یاد کرکے گریہ فرمایا کرتے تھے۔(بلاغ القرآن ؛ ذیل آیت)
4۔ امامت نسل امام حسین علیہ السلام میں
"وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ” (سوره زخرف ، آيه٢٨)
"اور اللہ نے اس (توحید پرستی) کو ابراہیم کی نسل میں کلمہ باقیہ قرارد یا تاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کریں۔”
تفسیر آیت:
۱۔ وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً: اللہ تعالیٰ نے کلمۂ توحید کو دوام بخشا۔ جعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کے فاعل حقیقی نہیں ہیں۔ کلمۃ سے مراد کلمہ لا الٰہ الا اللہ ہے۔ اسے اللہ نے دوام بخشا۔
دوسری تفسیر یہ ہے جَعَلَہَا میں ضمیر برائت کی طرف جاتی ہے جو اِنَّنِیۡ بَرَآءٌ میں ضمناً مذکور ہے۔ یہ تفسیر پہلی تفسیر سے مختلف نہیں ہے چونکہ کلمہ لا الٰہ الا اللہ میں پہلے برائت ہے اور اس کا بھی نتیجہ توحید ہے چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعبیر میں ایک برائت ہے لا الٰہ اور اِلَّا الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ میں الا اللہ ہے۔
۲۔ فِیۡ عَقِبِہٖ: ان کی اولاد میں کلمۂ توحید یا برائت از مشرکین کو دوام بخشا۔ عَقِبِہٖ سے مراد تقریباً سب کے نزدیک اولاد ابراہیم ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا تھی: وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ۔ (۲ بقرہ: ۱۲۸)
چنانچہ برائت از مشرکین اور کلمۂ توحید کے روئے زمین پر دوام حاصل کرنے میں آلِ ابراہیم ہی کا کردار ہے۔ ان میں سے تین اولوالعزم ہیں: موسیٰ، عیسیٰ علیہما السلام اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ آج روئے زمین پر اہم ادیان کی بانی، آپ اور انہیں دوام دینے والی آپ علیہ السلام کی آل ہے: جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ۔ (۲۹ عنکبوت: ۲۷) اور دعائے ابراہیم بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی: وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ۔ (۲۶ شعراء: ۸۴) چنانچہ ہر امت ان کی آل کی تعظیم و توقیر کرتی ہے۔
عَقِبِہٖ کے مصداق اس امت میں آل محمد علیہم السلام ہیں۔
۱۔ حضرت حذیفہ بن یمان راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان اللّٰہ تبارک و تعالیٰ جعل الامامۃ فی عقب الحسین و ذلک قولہ تعالیٰ وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ۔۔۔۔ (ملاحظہ ہو کفایۃ الاثر صفحہ ۱۳۶ تالیف علی بن محمد الخزار کان حیا فی القرن الرابع )
اللہ تعالیٰ نے امامت کو حسین ؑ کی نسل میں رکھا ہے۔ چنانچہ اللہ کا فرمان ہے: وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ۔
۲۔ ابو ھریرہ: الاعرج ، ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:
جعل الامامۃ فی عقب الحسین ع یخرج من صلبہ تسعۃ من الائمۃ منہم مہدی ھذہ الامۃ۔۔۔۔ ( کفایۃ الاثر ص۸۶)
اللہ نے امامت حسین علیہ السلام کی اولاد میں رکھی ہے۔ آپؑ کی پشت سے نو اماموں کی ولادت ہو گی۔ ان میں ایک اس امت کے مہدی ہیں۔
۳۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے آیۂ وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ کی تلاوت فرما کر فرمایا:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عقب ابراہیم و نحن اہل البیت عقب ابراہیم و عقب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ( تاویل الایات ص ۵۴۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابراہیم کی نسل اور ہم اہل بیت ابراہیم کی نسل اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل ہیں۔
۴۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ عَقِبِہٖ حضرت امام حسین کی اولاد کے بارے میں ہے۔ ( بحار الانوار ۲۴: ۱۷۹۔ کمال الدین ۲: ۴۱۵)
۵۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ سے مراد امامت ہے جو قیامت تک اولاد حسین علیہ السلام میں رکھی گئی ہے۔ ( مجمع البیان )
۶۔ امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے:
وفینا نزلت وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ۔ ( بحار الانوار ۵۱: ۱۳۴)
فرمایا: یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
اہم نکات
۱۔ قیامت تک توحید کے علمبردار ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم ہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 126)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button