قرآنیاتمقالات قرآنی

آیہ مودت، متقاضی اجر رسالت

شیخ محسن علی نجفی
"ذٰلِکَ الَّذِیۡ یُبَشِّرُ اللّٰہُ عِبَادَہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ؕ قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی ؕ وَ مَنۡ یَّقۡتَرِفۡ حَسَنَۃً نَّزِدۡ لَہٗ فِیۡہَا حُسۡنًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ” (الشوری:23)
ترجمہ: ” یہ وہ بات ہے جس کی اللہ اپنے ان بندوں کو خوشخبری دیتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور اعمال صالح بجا لاتے ہیں، کہدیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے اور جو کوئی نیکی کمائے ہم اس کے لیے اس نیکی میں اچھا اضافہ کرتے ہیں، اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، قدردان ہے۔”
تفسیر آیت:
۱۔ ذٰلِکَ الَّذِیۡ یُبَشِّرُ اللّٰہُ: یہ وہ فضل کبیر ہے جس کی اللہ تعالیٰ نیک بندوں کو بشارت دیتا ہے تاکہ یہ بشارت مومنین کے دلوں پر ایسا ثر چھوڑے جس کی وجہ سے رضائے رب کی راہ میں پیش آنے والی ہر مصیبت آسان ہو جائے۔
۲۔ قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی: فضل کبیر تک رسائی کی راہنمائی ایک عظیم احسان ہے۔ خالق کے احسان کے بعد اس سے بالاتر احسان قابل تصور نہیں ہے۔
اس مہربان رسول کی مہربانی کی خود اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے:
لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (۹ توبہ: ۱۲۸)
بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔
لوگوں کے ایمان و نجات کی طرف نہ آنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہربانی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس حد تک افسوس ہوتا تھا اس کا اندازہ اس آیت سے ہوتا ہے:
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ (۲۶ شعراء: ۳)
شاید اس رنج سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے آپ اپنی جان کھو دیں گے۔
قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی: اس آیت میں لفظ الۡقُرۡبٰی کی تین تفسیریں ہیں:
پہلی تفسیر یہ کی گئی ہے: الۡقُرۡبٰی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قریش کے ساتھ رشتہ داری ہے۔ اس تفسیر کے مطابق آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے: میں تم سے اس کام پر (یعنی تبلیغ رسالت پر) کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ اس رشتہ داری کا لحاظ کرو جو میری تمہارے ساتھ ہے۔ اس تفسیر کو زیادہ پذیرائی ملی ہے۔ اس کی تائید میں کئی ایک روایات بخاری، مسلم، ترمذی اور بیہقی وغیرہ نے نقل کی ہیں چونکہ یہ ان راویوں اور ناقلوں کی ترجیحات کے مطابق ہے۔
دوسری تفسیر میں الۡقُرۡبٰی سے تقریب مراد لیا گیا، اس تفسیر کے مطابق آیت کا یہ مطلب بنتا ہے: میں تم سے تبلیغ رسالت پر کوئی اجر نہیں مانگتا ہوں سوائے اس کے کہ تم اللہ کا قرب حاصل کرو۔
تیسری تفسیر یہ ہے: میں تبلیغ رسالت پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ہوں سوائے اپنے قریبی رشتے داروں کی محبت کے۔
ہم ان تفاسیر میں سے کسی ایک تفسیر کو اختیار کرنے سے پہلے آیت کے کلمات کا مفہوم واضح کرتے ہیں۔ اس کے بعد آیت کا مطلب از خود واضح ہو جائے گا۔
۱۔ عَلَیۡہِ: اس پر۔ آیت میں فرمایا: لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا۔ اس میں عَلَیۡہِ کا مطلب کیا ہے؟ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس چیز پر اجر نہیں مانگتے تھے۔ سب نے اتفاق کیا ہے عَلَیۡہِ کا مطلب تبلیغ رسالت اور حق کا راستہ دکھانا ہے۔ ذیل میں عَلَیۡہِ کے بارے میں مفسرین کی تشریحات اس طرح ہیں:
عَلَیۡہِ: ان علی ما اتعاطاہ لکم من التبلیغ و البشارۃ وغیرھا۔ ملاحظہ ہو روح المعانی بیضاوی، تفسیر مظہری۔
عَلَیۡہِ: ای قل یا محمد لا اسئلکم علی تبلیغ الرسالۃ جعلاً۔ تفسیر قرطبی ذیل آیت
عَلَیۡہِ: علی تبلیغ الرسالۃ۔ تفسیر جلالین ذیل آیت
عَلَیۡہِ: وضمیر علیہ عائد الی القرآن المفہوم من المقام۔ التحریر و التنویر ذیل آیت
۲۔ اَجۡرًا: اجر کے معنی کے بارے میں راغب لکھتے ہیں:
الاجر ما یعود من ثواب العمل دنیویا او اخرویا۔ نحو قولہ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ۔۔۔ (۱۰ یونس: ۷۲) وَ اٰتَیۡنٰہُ اَجۡرَہٗ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ (۲۹ عنکبوت:۲۷) وَ لَاَجۡرُ الۡاٰخِرَۃِ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا۔۔۔ (۱۲ یوسف: ۵۷)
آگے لکھتے ہیں:
ولا یقال الا فی النفع دون الضر۔۔۔ والجزاء یقال فی النافع والضار جیسے فرمایا: اِنَّا لَا نُضِیۡعُ اَجۡرَ مَنۡ اَحۡسَنَ عَمَلًا (۱۸ کہف:۳۰)
خلاصہ یہ کہ اجر اس بہتر معاوضے کو کہتے ہیں جو اچھے کام پر دیا جاتا ہے۔ اجر یعنی صلہ اور ثواب اور جزا۔ نفع اور ضرر دونوں کے لیے بولاجاتا ہے۔
۳۔ الۡقُرۡبٰی: قرآنی استعمالات میں یہ لفظ قریبی ترین رشتہ دار کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ یَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اُولِیۡ قُرۡبٰی۔۔۔۔۔۔ (۹ توبہ: ۱۱۳)
نبی اور ایمان والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
وَّ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی۔۔۔ (۳۵ فاطر: ۱۸)
خواہ وہ قربتدار ہی کیوں نہ ہو۔
وَ اِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ اُولُوا الۡقُرۡبٰی۔۔۔ (۴ نساء:۸)
اور جب (میراث کی) تقسیم کے وقت قریب ترین رشتہ دار ۔۔۔
اگر غیر رشتہ دار قریبی کے لیے یہ لفظ استعمال ہو جائے تو قرینہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:
وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی۔۔۔۔ (۴ نساء:۳۶)
قریب ترین رشتہ دار پڑوسی۔۔۔۔
یہاں جار (ہمسایہ) قرینہ ہے کہ مراد ہمسایہ ہے۔ ورنہ مطلق ذکر ہونے کی صورت میں اس سے قریبی رشتہ دار مراد ہوا کرتا ہے۔
پہلی تفسیر کے مطابق آیت کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کہدیجیے عَلَیۡہِ اس تبلیغ رسالت پر یعنی تمہارے معبودوں کو باطل ثابت کرنے پر میں تم سے کوئی صلہ انعام نہیں مانگتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ قریش کی نظر میں بڑا جرم ہے اور جرم کا صلہ اور اجر نہیں مانگا جاتا۔ اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ۔ استثنی خواہ متصل ہو یا منفصل، دونوں صورتوں میں صرف یہ تعبیر کہ میں تم مشرکین سے تمہارے معبودوں کو باطل قرار دینے پر صلہ انعام، اجر و ثواب نہیں مانگتا، نہایت غیر مربوط ترکیب ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا (۴۷ محمد۔ ۲۴)
کیا لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟
یہ بات اہل ایمان سے کی جا سکتی ہے جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احسان ہے۔
دوسری تفسیر چنداں قابل بحث نہیں ہے چونکہ الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی کی ترکیب سے قرب الٰہی مراد لینا نہایت نا مربوط ہے۔
تیسری تفسیر یہ ہے کہ اس آیت کے مخاطب اہل ایمان ہیں اور یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی ترین رشتہ داروں کی محبت کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے قریبی ترین رشتہ دار کون لوگ ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے فرمایا:
علی و فاطمۃ و ابناھما۔
علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے ہیں۔
اس روایت کو طبرانی، ابن ابی حاتم اور حاکم نے مناقب شافعی، زمخشری نے کشاف میں ابن عباس سے نقل کیا ہے نیز حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے بھی منقول ہے جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
اس حدیث کے راوی حسب ذیل ہیں۔
i۔ حضرت ابن عباس: ان کی روایت کا ذکر اوپر ہو گیا۔
ii۔ جابر بن عبد اللّٰہ راوی ہیں:
ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میرے لیے اسلام پیش کیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تشھد ان لا الٰہ الا اللہ و ان محمد عبدہ و رسولہ ’’تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے عبد اور رسول ہیں۔‘‘ اس اعرابی نے کہا: کیا اس پر آپ کوئی اجر (صلہ) مانگتے ہیں؟ فرمایا: لا. اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی۔ نہیں۔ صرف قریبی ترین رشتہ داروں کی محبت کے سوا کوئی اجر نہیں مانگتا۔ اس نے کہا: میرے قریبی یا آپ کے قریبی؟ فرمایا: قرابتی ، میرے قریبی۔ اس نے کہا: آئیے میں آپ کی بیعت کرتا ہوں اور جو آپ اور آپ کے رشتہ داروں سے محبت نہ کرے اس پر لعنت ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آمین۔
ملاحظہ ہو حلیۃ الاولیا ذکر حالات امام جعفر صادق علیہ السلام جلد ۳ صفحہ ۲۰۱۔ کفایۃ الطالب باب۱۱۔
iii۔ ابو اماما باھلی کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان اللہ خلق الانبیاء من اشجار شتی و خلقت انا و علی من شجرۃ واحدۃ، فانا اصلھا و علی فرعھا و الحسن و الحسین ثمارھا و اشیاعنا اوراقھا، فمن تعلق بغصن من اغصانھا نجا ومن زاغ ھوی، و لو ان عبداً عبد اللہ بین الصفا و المروۃ الف عام حتی یصیر کالشن البالی ثم لم یدرک محبتنا اکبہ اللہ علی منخریہ فی النار۔ ثم تلا:قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی۔
اللہ نے انبیاء کو مختلف اشجار سے خلق فرمایا اور مجھے اور علی کو ایک ہی شجر سے خلق کیا گیا۔ پس میں اس درخت کی جڑ ہوں۔ علی (علیہ السلام) اس کی شاخ ہیں اور حسن و حسین (علیہما السلام) اس کے ثمر ہیں اور ہمارے شیعہ اس کے اوراق ہیں۔ پس جو اس شجر کی ٹہنیوں میں سے کسی ٹہنی کے ساتھ متمسک ہو جائے تو اسے نجات مل گئی اور جو منحرف ہو جائے تو وہ ہلاک ہو گیا۔ اگر کوئی بندہ صفا اور مروہ کے درمیان ایک ہزار سال اللہ کی عبادت کرے کہ وہ بوسیدہ مشکیزہ کی طرح ہو جائے پھر اسے ہماری محبت حاصل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی ناک کے بل آتش میں گرا دے گا پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔
ملاحظہ ہو الحسکانی شواہد التنزیل ذیل آیت۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ۱: ۱۴۸ طبع سوم۔
ابن عساکر نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: اس روایت کو علی بن الحسن الصوفی نے دوسری بارایک اور اِسناد سے نقل کیا ہے۔
iv۔ علی بن ابی طالب: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
فینا فی ال حم ایۃ انہ لا یحفظ مودتنا الا مؤمن ثم قرأ:قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی۔
(سورۃ ) حم میں ہماری شان میں ایک آیت ہے (جس کے تحت) ہماری محبت کی حفاظت صرف مؤمن کرے گا۔ پھر آیہ مودت کی تلاوت فرمائی۔
ملاحظہ ہو حسکانی، شواہد التنزیل ذیل آیت۔ ابن مردویہ نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے جسے سیوطی نے جمع الجوامع جلد دوم صفحہ ۱۹۴ پر حدیث نمبر ۲۴۶۵ کے تحت ذکر کیا ہے۔ اس قسم کی روایت کو ابو نعیم نے تاریخ اصفہانی ۲: ۱۵۵ میں نقل کیا ہے۔ صواعق محرقہ صفحہ۱۷۰، طبع مصر ۱۳۸۵ھ اور کنز العمال میں اس حدیث کا ذکر ہے۔
v۔ حضرت امام حسن علیہ السلام: امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن علیہ السلام نے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا:
وانا من اہل البیت الذین افترض اللّٰہ عزوجل مودتہم و ولایتہم فقال فیما انزل علی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی۔
میں اس اہل بیت کا فرد ہوں جن کی محبت اور ولایت کو اللہ عزوجل واجب قرار دیا ہے۔ جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب میں فرمایا: قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی۔
ملاحظ ہو مستدرک حاکم ، جلد ۳، صفحہ ۱۷۲۔ مجمع الزوائد ، صفحہ ۱۴۶ میں ہیثمی نے اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھا ہے: واسناد احمد و بعض طرق البزار و الطبرانی فی الکبیر حسان۔ صواعق محرقہ صفحہ ۱۷۰۔
vi۔ امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام: جب حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کو اسیر بنا کر شام لایا گیا تو ایک شامی شخص نے کہا:
الحمد اللہ قتلکم واستا صلکم و قطع قرن الفتنۃ۔ حمد ہو اس ذات کے لیے جس نے تمہیں قتل کیا اور تباہ کر دیا اور فتنہ کا سلسلہ کاٹ دیا۔ اس پر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے اس سے پوچھا: کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟ اس نے کہا: ہاں! فرمایا: کیا تم ال حم پڑھا ہے؟ کہا: میں نے قرآن پڑھا ہے ال حم نہیں پڑھی۔ فرمایا: کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی: قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی؟ اس شامی نے کہا: کیا آپ لوگ وہی ہیں (جن کی محبت فرض ہے)؟ فرمایا: ہاں۔
ملاحظہ ہو تفسیر طبری ، ذیل آیت۔ الصواعق المحرقہ صفحہ ۱۷۰۔ تفسیر ابن کثیر ذیل آیت۔
تابعین میں سے درج ذیل راویوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے:
i۔ عمرو بن شعیب سے آیت مودت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: قربی النبیؐ ، نبیؐ کے قریبی رشتہ دار مراد ہیں۔ حسکانی، شواہد التنزیل ، ذیل آیت۔ تفسیر ابن کثیر ذیل آیت۔
ii۔ سعید بن جبیر: ان کا موقف سب کے لیے عیاں ہے کہ الۡقُرۡبٰی سے مراد نبی کے قرابت دار ہیں۔ ملاحظہ ہو احیاء المیت سیوطی۔ شواہد التنزیل ۔
iii۔ مجاہد: جلال الدین سیوطی نے الدرالمنثور میں اس آیت کے ذیل میں مجاہد کا اس بارے میں موقف بیان کیا ہے۔
حافظین حدیث و مفسرین قرآن میں درج ذیل شخصیتوں نے حدیث مودت کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ صاحب الغدیر نے جلد سوم صفحہ ۱۷۲ میں ان کا ذکر کیا ہے:
امام احمد ابن المنذر الطبری الطبرانی، ابن مرددیہ ابو عبد اللّٰہ الملا ابو الشیخ النسائی، الواحدی البغوی البزار ابن المغازلی، الحسکانی الزمخشری ابن عساکر ابو الفرج، الحموینی ابن طلحۃ الرازی ابوالسعود، ابوحیان البیضاوی النسفی الہیثمی، ابن الصباغ المناوی القسطلانی الزرندی، الحازن ابن حجر السہودی السیوطی، الصفوری الشبلنجی ابو حیان اندلسی النبھانی، الحضرمی
امام شافعی کے یہ اشعار مشہور ہے:
یا اہل بیت رسول اللہ حبکم
فرض من اللہ فی القرآن انزلہ
کفاکم من عظیم القدر انکم
من لم یصل علیکم لاصلوۃ لہ
اے رسول اللہؐ کے اہل بیت تمہاری محبت اللہ کی طرف سے فرض ہے جسے قرآن میں نازل کیا ہے
تمہاری عظیم القدری کے لیے اتنا کافی ہے کہ جو تم پر درود نہیں بھیجتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔
ابن کثیر کی خیانت: ابن ابی حیان نے اپنی تفسیر جلد دہم صفحہ ۳۳۷۶ اس آیت کے ذیل میں یہ حدیث اس طرح ثبت فرمائی:
عن ابن عباس قال: لما نزلت ھذہ الآیۃ قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی قالوا یا رسول اللہ ؐمن قرابتک ھؤلاء الذین وجبت مودتہم؟ قال علی و فاطمۃ وولداھا۔
ابن عباس کہتے ہیں: جب یہ آیت قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی نازل ہوئی تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کے یہ قریبی رشتہ دار کون ہیں جن کی محبت واجب ہو گئی ہے؟ فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے۔
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو تفسیر ابی حیان سے نقل کرتے ہوئے اس حدیث میں اس طرح تحریف کی:
من قرابتک ھؤلاء الذین وجبت مودتہم؟ قال: فاطمہ و ولداھا رضی اللہ عنہما۔
اس نے حضرت علی علیہ السلام کا نام حذف کر دیا۔ ہم نے دوسرے مقامات پر بھی ان کی طرف سے اس قسم کی بہت سی تحریفات دیکھی ہیں۔ کبھی نام حذف کرتے ہیں اور کبھی نام کی جگہ کذا و کذا رکھ لیتے ہیں۔
اعتراضات
اس آیت سے اہل بیت علیہم السلام کی مودت واجب ہونا جنہیں گراں گزرتا ہے انہوں نے اپنی ذاتی تشفی کے لیے چند ایک اعتراضات اٹھائے ہیں:
پہلا اعتراض: پہلا اعتراض یہ ہے کہ سورہ شوری مکی ہے۔ یہ سورہ اس وقت نازل ہوئی کہ ابھی حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی تو کیسے ممکن ہے یہ آیت حسنین کی شان میں نازل ہو۔
جواب: قرآن مجید میں ایسی مثالیں بہت ہیں کہ ایک سورہ مکی ہے لیکن اس کی بعض آیات مدینہ میں نازل ہوئیں۔ اسی طرح بعض سورتیں مدنی ہیں مگر ان کی بعض آیات مکہ میں نازل ہوئیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: الاتقان فی علوم القرآن، جلد اول، صفحہ ۸۔ لغات الحدیث علامہ وحید الزمان مادہ ضرّ، و ما یضرک ، صفحہ ۲۹، طبع کراچی۔
کوئی ذمہ دار شخص اس بات کا قائل نہیں ہے کہ آیت مودت مکی ہے بلکہ سورہ شوری کے بارے میں کہتے ہیں یہ مکی سورہ ہے۔ یہ بات سب کے لیے واضح ہے کہ سورہ کے مکی ہونے سے آیت کا مکی ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس آیت کے مدنی ہونے کی صراحت موجود ہے۔ چنانچہ قرطبی نے اپنی تفسیر ۱۶: ۱ میں، نیشاپوری نے اپنی تفسیر میں، خازن نے اپنی تفسیر ۴: ۴۹ میں، شوکانی نے فتح القدیر ۴: ۵۱۰ میں وغیرہم نے ابن عباس اور قتادہ سے روایت کی ہے کہ سورہ شوری مکی ہے۔ سوائے چار آیات کے جو قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی سے شروع ہوتی ہیں۔ یہ چار آیات مدنی ہیں۔ ملاحظہ ہو الغدیر ، جلد سوم، صفحہ۱۷۲۔
یہ اعتراض تفہیم القرآن کے مؤلف کو زیادہ پسند ہے اور اس اعتراض کو وہ سب سے زیادہ اہم قرار دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو ان کے اپنے الفاظ میں۔ تفہیم القرآن کی جلد ۴ صفحہ ۵۰۱ پر رقمطراز ہیں: وہ یہ ہے کہ ایک نبی جس بلند مقام پر کھڑا ہو کر دعوت الی اللہ کی پکار بلند کرتا ہے۔ اس مقام سے اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو، اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اللہ نے اپنے نبی کو یہ بات سکھائی ہو گی اور نبی نے قریش میں کھڑے ہو کر یہ بات کہی ہو گی۔
جواب: ہم نے ثابت کیا ہے کہ آیت مدنی ہے اور مخاطب مومنین ہیں۔ بنی قریش نہیں ہیں۔ تفہیم القرآن کے مؤلف کا یہ جملہ:
’’ اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور نہیں کر سکتا ‘‘
انتہائی گستاخی اور جسارت ہے نبی اور اولاد نبی کی شان میں کہ کسی نبی کا اپنی اولاد کے بارے میں اس قسم کا موقف اختیار کرتا ’’اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔‘‘ ہم ذیل میں اس کا تصور اور ذوق سلیم بیان کریں گے جو انبیاء علیہم السلام میں موجود تھا:
i۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذوق سلیم: حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں کو میری اولاد کا مشتاق بنا۔ جب اللہ سے مانگتے ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ لوگوں سے بھی توقع رکھ رہے ہیں کہ وہ ان کی اولاد سے محبت کریں۔ ملاحظہ ہو سورہ ابراہیم کی آیت ۳۷:
اے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایا، ہمارے پروردگار! تاکہ یہ نماز قائم کریں لہٰذا تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ یہ شکرگزار بنیں۔
من فمک ادینک کے طور پر ہم اس آیت کا تفہیم القرآن کا ترجمہ پیش کرتے ہیں:
پروردگار میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں۔ لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کے پھل دے شاید یہ شکرگزاربنیں۔
فَاجۡعَلۡ میں فَا تفریعی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اس عمل کے صلے میں اپنی اولاد کے لیے لوگوں کی محبت مانگ رہے ہیں۔ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ میں اِلَیۡہِمۡ کی ضمیر ذُرِّیَّتِیۡ کی طرف راجع ہے۔
ii۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذوق سلیم:
۱لف۔ حدیث ثقلین جو تواتر سے ثابت ہے۔ اس میں کتاب خدا اور اپنی عترت سے متمسک رہنے کا حکم دیا۔ یہ آپ کو گری ہوئی بات لگتی ہو گی کہ اپنی اولاد سے متمسک رہنے کا حکم دیں۔
ب: درود ابراہیمی میں آل درود بھیجنے کی تعلیم دی ہے۔ یہ بھی آپ کے لیے قابل تصور نہ ہو گا کہ اپنے ساتھ اپنی اولاد پر درود بھیجنے کا حکم دیں۔ اسی وجہ سے آپ آل سے مراد پیروکار لیتے ہیں اور اس پرآل فرعون سے استدلال کرتے ہیں کہ فرعون کے ماننے والوں کو آل فرعون کہا ہے۔ نہ معلوم انہیں آل فرعون کیوں یاد آتے ہیں جب کہ اس درود میں آل ابراہیم کا ذکر ہے تو دیکھنا یہ چاہیے تھا کہ آل ابراہیم کون ہیں؟ قرآن نے اس بات کو واضح کر دیا کہ آل ابراہیم کون ہیں: فَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۵۴) ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی۔
ج: آیۂ تطہیر کے نزول کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا بھی آپ کو غیر مناسب لگے گی۔ جو روایت آپ نے خود تفہیم القرآن ۴: ۹۳ پر آیت تطہیر کے ذیل میں حضرات عائشہ سے نقل کی ہے کہ حضورؐ نے حضرت علی اور فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کو بلایا اور ان پر ایک کپڑا ڈال دیا اور دعا کی: اللّٰھم ھؤلاء اھل بیتی و اذھب عنہم الرجس و طھرھم تطھیراً۔ پھر آپ اہل بیت علیہم السلام میں ان کے علاوہ ان لوگوں کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں جو اس چادر میں نہیں تھے۔ اگر ایسا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھر کی چاردیواری کے احاطے میں کپڑے کا احاطہ کیوں بنایا؟
د: تواتر معنوی سے ثابت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اولاد کے ساتھ محبت کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور اس مطلب کو مختلف مواقع پر مختلف لفظوں میں بیان فرمایا: حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین علیہم السلام کے بارے میں صحاح میں موجود احادیث آپ کی نظر سے گزری ہیں۔ ان تمام احادیث میں امت کو ان سے محبت کرنے کی تاکید کی گئی ہے جو آپ کو گری ہوئی بات لگتی ہے حالانکہ آپ منکرین حدیث کا شد و مد سے مقابلہ کرتے رہے ہیں۔
تفہیم القرآن اپنے اعتراض کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
پھر یہ بات اور بھی زیادہ بے موقع نظر آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس تقریر کے مخاطب اہل ایمان نہیں بلکہ کفار ہیں۔ اوپر سے ساری تقریر انہی سے خطاب کرتے ہوئے چلی آ رہی ہے اور آگے بھی روئے سخن انہی کی طرف ہے۔ اس سلسلۂ کلام میں مخالفین سے کسی نوعیت کا اجر طلب کرنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اجر تو ان لوگوں سے مانگا جاتا ہے جن کی نگاہ میں اس کام کی کوئی قدر ہو۔ (یہ بھی آپ کی نظر میں اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ واضح رہے یہ آیت مدنی ہے اور اس کے مخاطب اہل ایمان ہیں۔) جو کسی شخص نے اس کے لیے انجام دیا ہو۔ کفار حضورؐ کے اس کام کی کون سی قدر کر رہے تھے کہ آپ ان سے یہ بات فرماتے کہ یہ خدمت جو میں نے تمہاری انجام دی اس پر تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرنا۔ وہ تو الٹا اسے جرم سمجھ رہے تھے اور اس بنا پر آپ کی جان کے درپے تھے۔
جواب: عجب اتفاق ہے کہ آپ کا یہ اعتراض خود آپ کی اختیار کردہ پہلی تفسیر پر وارد ہوتا ہے۔ جس میں آپ نے آیت کا مخاطب کفار قریش کو قرار دیا ہے۔ اسے اب آپ نے خود مسترد کر دیا۔ رہا آپ کا یہ کہنا کہ اوپر سے ساری تقریر انہی یعنی کفار سے خطاب کرتے ہوئے چلی آ رہی ہے، نہایت غیر ذمہ دارانہ بات ہے جب کہ سلسلہ کلام وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیۡ رَوۡضٰتِ الۡجَنّٰتِ سے لے کر وَ مَنۡ یَّقۡتَرِفۡ حَسَنَۃً نَّزِدۡ لَہٗ فِیۡہَا حُسۡنًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ تک اہل ایمان کے بارے میں ہے اور آیۂ مودت اہل ایمان سے خطاب کے سلسلہ کلام کے درمیان ہے۔
دنیا کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اولاد خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حد تک نظر انداز کیا گیا کہ ان لوگوں کے ذہن کے گوشے میں بھی نہیں آتا کہ یہ اولاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ان کا دیگرلوگوں کی اولاد کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں کہ اپنی اولاد، اپنے رشتہ داروں کے بارے میں اس قسم کی بات کرنا ذوق سلیم کے خلاف ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۱۲۴)
میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟
نیز فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿﴾ذُرِّیَّۃًۢ بَعۡضُہَا مِنۡۢ بَعۡضٍ۔۔۔۔ (۳ آل عمران:۳۳۔۴ ۳)
اللہ نے آدم اور نوح اور آل عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر منتخب کر دیا۔ یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے۔۔۔۔ (ترجمہ تفہیم القرآن )
سورہ الانعام میں ابراہیم، اسحاق، نوح، داود، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، اسماعیل، الیسع، یونس اور لوط علیہم السلام کے ذکر کے بعد فرمایا:
وَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ وَ اِخۡوَانِہِمۡ ۚ وَ اجۡتَبَیۡنٰہُمۡ وَ ہَدَیۡنٰہُمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ (۶ انعام: ۸۷)
اور اسی طرح ان کے آبا اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں کو بھی (ہدایت دی) اور ہم نے انہیں منتخب کر لیا اور ہم نے راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کی۔
قرآن کی دیگر آیات سے آیت مودت کی ہماری تفسیر و تشریح کی تائید ہوتی ہے۔
قُلۡ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اَنۡ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا (۲۵ فرقان:۵۷)
کہدیجیے: اس کام پر میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر یہ (چاہتا ہوں) کہ جو شخص چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔
رب کا راستہ اختیار کرنا اجر رسالت ہے۔ سبیل رب کے اختیار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسرت حاصل ہوتی ہے چونکہ رب کا راستہ دکھانے کے لیے جو مشقتیں اٹھائی ہیں، وہ رائگاں نہیں جاتیں۔
قُلۡ مَا سَاَلۡتُکُمۡ مِّنۡ اَجۡرٍ فَہُوَ لَکُمۡ۔۔۔۔ (۳۴ سباء:۴۷)
کہدیجیے: جو اجر (رسالت) میں نے تم سے مانگا ہے وہ خود تمہارے ہی لیے ہے۔۔۔۔
ایسا معلوم ہوتا ہے یہ دونوں آیتیں آیت مودت کے لیے تمہیدی آیات ہیں۔ اہل بیت کی مودت سے راہ رب اختیار کرنا عمل میں آتا ہے اور یہ خود مومنین کے مفاد میں ہے۔
تفسیر مظہری میں اس آیت کی بڑی صائب تفسیر کی گئی ہے۔ عبارت ملاحظہ ہو:
وقیل معناہ: مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ بقولی: مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اَنۡ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا۔
بعض کہتے ہیں: آیت کے معنی یہ ہیں: جو میں نے (ان دو آتیوں میں) تم سے اجر مانگا ہے یہ کہہ کر:
قولہ قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی فھو لکم، ای لفائدتکم لان اتخاذ السبیل الی اللہ ینفعکم و قربائی قرباکم قلت: بل قربی النبی صلی اللہ علیہ وسلم علماء الظاہر والباطن من اہل بیتہ و غیرھم، و مودتہم یورث التقرب الی اللہ سبحانہ۔
’’ کہدیجیے: اس کام پر میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر یہ (چاہتا ہوں) کہ جو شخص چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے ‘‘ اور یہ کہکر: ’’ میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔ ‘‘ وہ اجر خود تمہارے لیے ہے یعنی تمہارے فائدے میں ہے چونکہ سبیل رب کا اختیار کرنا تمہارے لیے فائدہ مند ہے اور میرے قریبی تمہارے قریبی ہے۔ میں (مؤلف تفسیر مظہری) کہتا ہوں: بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت سے جو قریبی ہیں وہ ظاہر و باطن کے علماء ہیں ان کی محبت اللہ سبحانہ کی قربت کا وسیلہ ہے۔
چنانچہ امت اگر اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور ان کی اقتدا کرتی اور اسلامی دستور حیات کو سمجھنے کے لیے ان کی طرف رجوع کرتی تو اہل بیت علیہم السلام اس امت کی سبیل رب (راہ خدا) کی طرف راہنمائی کرتے۔ امت میں اختلاف تفرقہ کی صورت میں، مودت اہل بیت راہ حق اور سبیل رب کی طرف لے جاتی۔
تاریخ شاہد ہے کہ بعض فروعی مسائل میں مشکل پیش آنے پر اہل بیت علیہم السلام کی طرف رجوع کرنے سے وہ مشکل حل ہو گئی لیکن امت کی قیادت کے مسئلے میں اہل بیت علیہم السلام کو دور رکھنے کی وجہ سے رفتہ رفتہ یہ امت نہ ختم ہونے والے اختلافات سے دوچار ہے۔
گزشتہ مباحث سے واضح ہو گیا کہ مودت اہل بیت علیہم السلام اجر رسالت ہے اور یہ بھی واضح ہو گیا مودت اہل بیت کس طرح اجر رسالت قرار پائی؟ اور یہ بات سمجھنے میں آسانی ہو گئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو نماز قائم کرنے کے لیے مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں آباد کرنے کے صلہ اور اجر کے طور پر اس بات کا مطالبہ کیسے فرمایا: اے اللہ تو لوگوں کے دلوں کو میری ذریت کا مشتاق بنا دے؟
قابل توجہ بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومنین کے ساتھ نہایت مہربان مشفق ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (۹ توبۃ: ۱۲۸)
بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔
اس شفقت و مہربانی کی وجہ سے وہ اس امت کے لیے بھلائی چاہتے ہیں۔ وہ بھلائی، سبیل رب اختیار کرنا ہے۔ اس کا بہترین وسیلہ محبت و اتباع اہل بیت علیہم السلام ہے۔ اس سے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کو تسکین ہوتی ہے نیز لوگوں کے راہ راست پر نہ آنے سے آپ کو نہایت تکلیف ہوتی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ اِنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنُوۡا بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَسَفًا (۱۸ کہف: ۶)
پس اگر یہ لوگ اس (قرآنی) مضمون پر ایمان نہ لائے توان کی وجہ سے شاید آپ اس رنج میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور ان کی اتباع سے لوگ راہ رب پر آتے ہیں تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رنج میں کمی آ جاتی ہے لہٰذا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مومنین کے ساتھ شفقت اور لوگوں کی گمراہی پر ہونے والے رنج کا تقاضا یہ ہے کہ اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبلیغ رسالت پر کوئی اجر اور صلہ دینا ہے تو وہ ان کی رسالت پر عمل ہے ، اس عمل کی ضمانت مودت و اتباع اہل بیت علیہم السلام ہے اور ساتھ یہ اجر ہمارے اپنے فائدے میں ہے۔
وَ مَنۡ یَّقۡتَرِفۡ حَسَنَۃً نَّزِدۡ لَہٗ فِیۡہَا حُسۡنًا: اورجو کوئی نیکی کمائے ہم اس کے لیے اس نیکی میں اچھا اضافہ کریں گے۔ آیت کا یہ حصہ بھی بہترین دلیل ہے کہ خطاب مومنین سے ہے اور مودت قربیٰ ایسا حسنہ ہے جس پر حسنات کا بہتر اضافہ ہو گا۔
چنانچہ ابن عباس راوی ہیں:
وَ مَنۡ یَّقۡتَرِفۡ حَسَنَۃً میں حَسَنَۃً سے مراد آل محمد ہیں۔
ملاحظ ہو: تفسیر ثعلبی ذیل آیت و شواہد التنزیل ۔ تفسیر الکشاف عن سدی تفسیر قرطبی ۔
آلوسی روح المعانی میں اس جگہ لکھتے ہیں:
و حب آل الرسول علیہ الصلوۃ و السلام من اعظم الحسنات و تدخل فی الحسنۃ ھنا دخولا اولیا نَّزِدْ لَہٗ فِيْہَا نزد لہ فیھا ای فی الحسنۃ حسنا بمضاعفۃ الثواب علیھا یزاد بھا حسن الحسنۃ۔
آل رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت عظیم حسنات میں سے ہے اور یہ محبت حسنہ میں اولیٰ اور بنیادی طور پر داخل ہو گی پھر نَّزِدۡ لَہٗ فِیۡہَا اللہ اس حسنہ میں کئی گنا ثواب کا اضافہ فرمائے گا جس سے حسنہ کا حسن بڑھ جائے گا۔
ابن ابی حاتم کی روایت ہے:
ابن عباس نے کہا: وَ مَنۡ یَّقۡتَرِفۡ حَسَنَۃً سے مراد ہے المودۃ لآل محمد۔ ( الدرالمنثور ذیل آیت)
زمخشری نے آیت کے اس جملے کے ذیل لکھا ہے:
وَ مَنۡ یَّقۡتَرِفۡ حَسَنَۃً میں بظاہر سب حسنۃ اس میں شامل ہیں لیکن چونکہ ذی القربیٰ کی محبت کے ذکر کے بعد اس حسنۃ کا ذکر ہوا ہے تو ذوالقربٰی کی محبت اس میں اولیٰ اور بنیادی طور پر شامل ہے اور باقی حسنات اس کے تابع اور ثانوی حیثیت میں ہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 71)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button