قرآنیاتمقالات قرآنی

محمد و آل محمد علیھم السلام پر صلوات کی بابت حکم قرآنی

(الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس)
مقدمہ:
عموما دیکھنے میں آیا ہے کہ امت مسلمہ کے مابین صلوات پڑھنے کے الفاظ و عبارات میں فرق پایا جاتا ہے۔شیعیان اہل بیت کے ہاں صلوات کیلئے مشہور ترین الفاظ "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ وَ آلِ مُحمّد” ہیں۔البتہ اسلامی مذاہب کے ہاں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ” صلوات کی عبارت کا اصلی حصہ ہے؛ اختلاف ان عبارات میں ہے جو اس جملے کے بعد لائی جاتی ہیں۔ شیعہ حضرات اس عبارت کے بعد "وَآلِ مُحمّد” کی عبارت لاتے ہیں اور اس سلسلے میں کثیر شیعہ اور سنی مآخذ سے استناد کرتے ہیں، جن کی رو سے صلوات کاملہ یہ ہے کہ اس میں مذکورہ عبارت بھی شامل ہو۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہؐ نے صلوات کے بارے میں پوچھنے والے شخص کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: کہو:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
بعض روایات سے ثابت ہے کہ صلوات "وَآلِ مُحمّد” کے بغیر مکمل نہیں ہے۔ بعض روایات میں اہل بیتؑ نے بھی صلوات کی کیفیت بیان کی ہے۔ ان روایات میں تاکید ہوئی ہے کہ رسول اللہؐ پر درود و صلوات کے ساتھ آپؐ کی آل [خاندان] پر بھی صلوات بھیجنا لازم ہے۔
امام صادقؑ نے صلوات کی کیفیت یوں بیان کی ہے:
صَلَواتُ اللهِ وَصَلَواتُ مَلائِكتِهِ وَأنْبِيائِهِ وَرُسُلِهِ وَجَمِيعِ خَلْقِهِ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَالسَّلامُ عَلَيهِ وَعَلَيهِمْ وَرَحَمةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ۔
شیعیان اہل بیت کے نزدیک آخر میں "وَعَجِّل فَرَجَهُم"بھی پڑھا جاتا ہے؛ ترجمہ: اور ان کی فَرَج میں تعجیل فرما؛ جو اہل بیتؑ سے منقولہ روایات کے مطابق ہے۔ذیل میں آنے والی آیات اور انکی تفسیر میں موجود روایات کی روشنی میں ہم تفصیل سے آنحضرتؐ کی زبان مبارک سے صلوات کا طریقہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا﴿۵۶﴾
"اللہ اور اس کے فرشتے یقینا نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو جیسے سلام بھیجنے کا حق ہے۔”
تفسیر آیت:
۱۔ سابقہ آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے مربوط احکام بیان فرمائے۔ امت کو وہ آداب بھی بیان کیے جو آپؐ کے ساتھ بجا لانا چاہئیں اور ان باتوں کی بھی نشاندہی فرمائی جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت ہوتی ہے۔
اس کے بعد امت اسلام کو اس بات کی تعلیم دی جا رہی ہے کہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجا کرو۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ امت کو درود کا حکم دینے سے پہلے فرمایا: اللہ اور فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا بیان ہے کہ اللہ کے ہاں ان کا کیا مقام ہے اور ساتھ اس میں درود کی اہمیت کا بھی بیان ہے کہ یہ وہ اہم کام ہے جسے خود اللہ تعالیٰ اور فرشتے انجام دیتے ہیں۔ یہ وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ ﴿﴾ (۹۴ الشرح: ۴) ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا، کا عملی مظاہرہ ہے۔
۲۔ صلوۃ: حضرت امام جعفر صادق اور حضرت امام موسی کاظم علیہما السلام سے صلوۃ کے بارے سوال ہوا تو فرمایا:
الصلوۃ من اللہ عز و جل رحمۃ و من الملائکۃ تزکیۃ و من الناس الدعاء۔ (تفسیر الصافی)
صلوۃ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور فرشتوں کی طرف سے پاکیزگی کا اظہار اور لوگوں کی طرف سے دعا ہے۔
مومن جب اللہ کی بارگاہ میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کے حق میں کی گئی دعا کو زیادہ پسند فرماتا ہے۔ حدیث نبوی ہے:
مَنْ صَلَّی عَلَیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ مَلَائِکَتُہُ وَ مَنْ شَائَ فَلْیُقِلَّ وَ مَنْ شَائَ فَلْیُکْثِرْ۔ (الکافی: ۲: ۴۹۲)
جو مجھ پر درود بھیجتا ہے اس پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں۔ پس جو چاہے کم درود بھیجے جو چاہے زیادہ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں اس حدیث نبوی کی تشریح موجود ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
اِذَا ذُکِرَ النَّبِیُّ فَاَکْثِرُوا الصَّلَاۃَ عَلَیْہِ فَاِنَّہُ مَنْ صَلَّی عَلَی النَّبِّی ص صلاۃً وَاحِدَۃً صَلَّی اللہُ عَلَیہِ اَلْفَ صَلَاۃٍ فِی اَلْفِ صَفٍّ مِنَ المَلاَئِکَۃِ وَ لَمْ یَبْقَ شَیْئٌ مِمَّا خَلَقَہُ اللہُ اَلَّا صَلَّی عَلَی الْعَبْدِ لِصَلَاۃِ اللہِ عَلَیْہِ وَ صِلَاۃِ مَلَائِکَتِہِ۔۔۔۔ (الکافی ۲: ۴۹۲)
جب نبی کا ذکر ہو تو کثرت سے ان پر درود بھیجو چونکہ جو شخص نبی پر ایک بار درود بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کی ایک ہزار صفوں میں اس پر ایک ہزار درود بھیجتا ہے اور اللہ اور اس کے فرشتوں کے درود بھیجنے پر تمام مخلوقات بھی درود بھیجیں گی۔
۳۔ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا: اپنے نبی پر درود کے ساتھ سلام بھی بھیجو۔ سلام کے دو معنی بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ سلام بمعنی تسلیم و اطاعت ہے۔ یعنی ان پر درود بھیجو اور ہر حکم کو تسلیم کرو۔ دوسرا یہ کہ سلام بمعنی سلامتی ہو۔ یعنی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو اور ہر نقص سے سلامتی کا اظہار کرو۔ اس میں شان رسالت کی عظمت و بلندی کا اظہار ہے۔ ان دونوں معنوںمیں کوئی تصادم نہیں ہے بلکہ قابل جمع ہیں۔
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میں اپنی ایک تہائی صلوات، بلکہ آدھی بلکہ پوری آپ کے لیے مختص کرتا ہوں تو مجھے کیا اجر ملے گا؟ فرمایا:
اِذاً تَکْفَی مَؤنَۃَ الدُّنْیَا وَ الآخِرَۃِ۔ (الکافی ۲: ۴۹۱)
پھر تیری دنیا و آخرت کی تمام ضرورتوں کے لیے یہی کافی ہے۔
یہی حدیث کچھ فرق کے ساتھ مسند احمد ۵: ۱۳۶ میں بھی مذکور ہے۔
دوسری حدیث میں آیا ہے۔
مَا فِی الْمِیْزَانِ شَیْئٌ اَثْقَلَ مِنَ الصَّلاَۃِ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ۔ (الکافی ۲: ۴۹۴)
(قیامت کے دن اعمال کے) ترازو میں محمد و آل محمد پر درود سے زیادہ کسی عمل کا وزن نہ ہو گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
الصَّلَاۃُ عَلَیَّ وَ عَلَی اَھْلِ بَیْتِی تَذْھَبُ بِالنِّفَاقِ۔ (الکافی ۲: ۴۹۲)
مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نفاق کو دور کر دیتا ہے۔
۴۔ درود کے الفاظ: جب اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی حکم صادر ہوتا ہے تو اس پر عمل کرنے کا طریقہ بھی خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان ہوتا ہے۔ نماز، زکوٰۃ، حج کا حکم آیا تو ان کا طریقہ بھی بیان ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
صلّوا کما رأیتمونی أصلی۔ (بحار الانوار ۸۲: ۲۷۹)
نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے حبیب پر درود بھیجنے کا حکم آیا تو یہ سوال ذہنوں میں پیدا ہونا قدرتی امر تھا کہ درود بھیجنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ ہمیشہ کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاصر اصحاب نے سوال کیا۔ اس غرض سے سوال کیا جاتا رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے سوالوں کا جو جواب ارشاد فرمائیں، اس پر مخاطبین اولین بھی عمل کریں اور قیامت تک آنے امت کے والے افراد بھی عمل کریں۔ آیندہ صفحات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جواب اور امت کا عمل آپ کے سامنے آئے گا۔
i۔ کعب بن عجرۃ کی صحیح السند روایت: یہ حدیث تین طرق سے روایت ہے:
الف۔ حدثنا قیس بن حفص و موسیٰ بن اسماعیل قالا حدثنا عبد الواحد بن زیاد حدثنا ابو فروۃ مسلم بن سالم الھمدانی قال حدثنی عبداللہ بن عیسی سمع عبد الرحمن بن ابی لیلی قال لقینی کعب بن عجرۃ۔۔۔الخ۔ ( صحیح بخاری ۴: ۱۱۸ حدیث ۳۳۷۰)
کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہؐ سے پوچھا کہ ہم آپ کے اہل البیت پر کیسے درود بھیجیں؟ اللہ نے ہمیں یہ تعلیم تو دی ہے کہ ہم آپ پر کیسے سلام کریں۔ تو آپؐ نے فرمایا: کہو:
اللّٰھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید، اللّٰھم بارک علی محمد و آل محمد کما بارکت علی ابراہیم و آل ابراہیم انک حمید مجید۔
ب: اس حدیث کو دوسرے طریق سے بخاری نے ابن ابی لیلیٰ سے روایت کیا ہے۔ ( صحیح بخاری ۶:۲۷)
ج: تیسرے طریق میں انہی الفاظ کے ساتھ روایت ہے۔ ملاحظہ ہو صحیح بخاری ۷: ۱۵۶۔ اس طریق سے مسلم نے اپنی صحیح ۲:۱۶ میں اور ابو داؤد نے اپنی سنن ۱: ۲۲۱ میں روایت کی ہے۔
اس حدیث کو نسائی نے اپنی سنن ۳: ۴۷۔ ۴۸ میں تین طرق سے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
اللّٰھم صل علی محمد وآل محمد کما صلیت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید۔ اللّٰھم بارک علی محمد و آل محمد کما بارکت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید۔ ( سنن نسائی ۳:۴۸)
ii۔ ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری کی صحیح روایت۔ یہ حدیث بھی تین طرق سے روایت کی گئی ہے:
ابو مسعود کہتے ہیں:
ہم سعد بن عبادہ کی مجلس میں بیٹھے تھے تو رسول اللہؐ تشریف لے آئے تو بشیر بن سعد نے پوچھا: یا رسول اللہؐ! آپؐ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپؐ پر درود بھیجیں تو ہم آپؐ پر کیسے درود بھیجیں؟ رسول اللہؐ نے سکوت اختیار فرمایا یہاں تک کہ ہم نے سوچا کاش یہ سوال نہ کیا ہو تا۔ پھر رسول اللہؐ نے فرمایا: کہو:
اللّٰھم صل علیٰ محمد و علی آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و آل ابراہیم و بارک علیٰ محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم و آل ابراہیم فی العالمین انک حمید مجید و السلام کما علمتم۔
اس کی سند صحیح ہے۔ اس حدیث کو ابو داؤد نے اپنی سنن نمبر۹۸۰ میں عبد اللہ بن مسلمۃ القعنبی سے روایت کیا ہے یہ روایت م ؤطا امام مالک روایۃ یحی ۱: ۱۶۵،۱۶۶ میں موجود ہے۔ اس کی سند یہ ہے:
قرأت علی عبد الرحمن مالک وحدثنا اسحاق اخبرنی مالک عن نعیم بن عبد اللہ المجمر ان محمد بن عبداللہ بن زید الانصاری فی حدیث عبد الرحمن و عبد اللہ بن زید ھو الذی کان أوی الفداء بالصلاۃ اخبرہ عن ابی مسعود الانصاری انہ قال۔۔۔۔ الخ ( مسند احمد۔ صحیح علی شرط مسلم ۔)
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے تین طرق سے روایت کیا ہے۔ ملاحظ ہو مسند احمد بن حنبل ۴: ۱۱۸۔ ۱۱۹، ۵: ۲۷۳۔ اس کے علاوہ صحیح مسلم ۲: ۱۶، سنن دارمی ۱: ۳۰۹، سنن الترمذی۵: ۳۷، مستدرک حاکم ۱:۲۶۸، سنن دار قطنی ۱: ۳۵۵ ۔
حاکم اپنے مستدرک ۱: ۲۶۸ میں اس حدیث کو ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں:
ابو مسعود ( عقبہ بن عمرو ) کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور رسول اللہؐ کے سامنے بیٹھ گیا۔ ہم بھی آپؐ کے پاس بیٹھے تھے۔ اس نے پوچھا: یا رسول اللہؐ! ہم کو معلوم ہو گیا کہ آپؐ پر سلام کس طرح کرنا چاہیے لیکن یہ فرمائیے کہ جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟ تو رسول اللہؐ خاموش ہوگئے حتیٰ کہ ہم نے یہ خواہش کی کہ سوال کرنے والے نے سوال ہی نہ کیا ہوتا۔ پھر آپؐ نے فرمایا:
جب تم مجھ پر درود پـڑھو تو کہو:
اللّٰھم صل علی محمد النبی الامی و علی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم و بارک علی محمد النبی الامی و علی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
اس حدیث مبارکہ کو حاکم نیشاپوری نے ۱: ۲۶۸، ابوداؤد نے سنن حدیث ۹۸۱ میں محمد بن اسحاق بن یسار کی سند سے بیان کیا ہے۔ حاکم اور ذہبی نے اس حدیث کو صحیح علیٰ شرط مسلم قرار دیا ہے۔
iii۔ ابو سعید الخدریؓ کی صحیح روایت:
حدثنا عبداللہ بن یوسف حدثنا اللیث قال حدثنی ابن الھاد عن عبد اللہ بن خباب عن ابی سعید الخدری قال۔۔۔۔ الخ۔
کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہؐ سے عرض کیا کہ آپؐ پر سلام کرنے کا طریقہ تو معلوم ہوا لیکن آپؐ پر ہم درود کیسے بھیجیں؟ آپؐ نے فرمایا: کہو:
اللّٰھم صل علیٰ محمد عبدک و رسولک کما صلیت علی ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم و بارک علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما بارکت علی علی ابراہیم و آل ابراہیم۔
اس حدیث کو صحیح بخاری ۴: ۱۱۸ حدیث ۴۷۹۸میں، مسند احمد ۳: ۴۷، سنن نسائی ۳:۴۹ میں ذکر کیا ہے۔
اس روایت کے پہلے جملے میں دیگر روایتوں کے برخلاف آل کا ذکر نہیں ہے۔ چونکہ دوسرے جملے میں آل کا ذکر ہے لہٰذا قرین واقع یہ معلوم ہوتا ہے کہ لفظ آل راوی سے ساقط ہو گیا ہے۔ جیسا کہ ابن حجر نے فتح الباری ۱۱: ۱۳۲ میں یہی مؤقف اختیار کیا ہے۔
iv۔ ابوھریرہ کی صحیح روایت:
کہتے ہیں کہ ہم نے کہا یا رسول اللہ ؐ! ہم آپؐ پر کیسے درود بھیجیں؟ تو فرمایا: تم اس طرح کہو:
اللّٰھم صل علی محمد و بارک علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما صلیت و بارکت علیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید۔ ( مجمع الزوائد ۱: ۱۴۴)
مجمع الزوائد میں ہیثمی نے کہا ہے: اس حدیث کو البزار نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں۔ ملاحظہ ہو مجمع الزوائد ۲: ۱۴۴ باب الصلاۃ علیٰ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
ابن القیم الجوزیۃ اس حدیث کو ابوہریرہ سے اس طرح روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ ہم آپؐ پر کیسے درود بھیجیں؟ تو فرمایا کہو:
اللّٰھم صل علی محمد و علی آل محمد و بارک علی محمد و علی آل محمد کما صلیت و بارکت علی ابراھیم فی العالمین انک حمید مجید و السلام کما قد علمتم۔
ابن القیم نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے:
یہ سند بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔
ملاحظہ ہو جلاء الافھام : ۱۳۔ طبع قاہرہ۔
v۔ طلحۃ بن عبید اللّٰہ کی صحیح روایت:
حدثنا محمد بن بشر حدثنا مجمع بن یحی الانصاری حدثنا عثمان بن موھب عن موسی بن طلحۃ عن ابیہ۔۔۔۔ الخ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال ہوا کہ آپؐ پر درود بھیجنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہو:
اللّٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم انک حمید مجید و بارک علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔ ( مسند احمد بن حنبل ۱: ۱۶۳)
اسنادہ قوی علیٰ شرط مسلم ۔ اس حدیث کی سند میں مجمع بن یحی صرف مسلم کا راوی ہے جو صدوق ہے۔ باقی تمام بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔ البتہ حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر ۱: ۲۶۸ میں اسے حسن کہا ہے۔ یہی حدیث المصنف لابن ابی شیبہ ۲: ۵۰۷، مسند ابی یعلی الموصلی حدیث ۶۵۲۔۶۵۳ میں بھی موجود ہے۔
اس طریق سے روایت سنن نسائی ۳: ۴۸ میں ان الفاظ میں ہے:
اللّٰھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و آل ابراہیم انک حمید مجید و بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم و آل ابراہیم انک حمید مجید۔
نیز کتاب عمل الیوم واللیلۃ للنسائی حدیث ۵۲ پر موجود ہے۔
vi۔ زید بن خارجہ کی صحیح روایت:
حدثنا علی بن بحر حدثنا عیسی بن یونس حدثنا عثمان بن حکیم حدثنا خالد بن سلمۃ ان عبد الحمید بن عبدالرحمن۔۔۔۔الخ
اس کی سند بالکل صحیح ہے۔
حضرت زید بن خارجہ بن زید انصاری کہتے ہیں:
میں نے خود رسول اللہؐ سے پوچھا: آپؐ پر درود کیسے بھیجا جائے؟ تو فرمایا:
صلوا و اجتھدوا ثم قولوا: اللّٰھم بارک علی محمد و علیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید۔ ( مسند احمد ۱:۱۹۹۔ التاریخ الکبیر للبخاری ۳:۳۸۳۔ المعرفۃ والتاریخ للفسوی ۱: ۳۰۱ )
حدثنا علی بن عبد اللہ قال حدثنا مروان بن معاویۃ قال حدثنا عثمان بن حکیم عن خالد بن سلمۃ عن موسیٰ بن طلحۃ قال اخبرنی زید بن خارجۃ اخو بنی الحارث بن الخزرج قال قلت۔۔۔۔ الخ
حضرت زید بن خارجہ کہتے ہیں:
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپؐ پر سلام کا طریقہ جان لیا ہے۔ لہٰذا درود کس طرح پڑھیں؟ آپؐ نے فرمایا: مجھ پر درود پڑھو اور کہو:
اللّٰھم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم و آل ابراھیم انک حمید مجید۔ ( فضل الصلوۃ علی النبیؐ للحافظ اسماعیل بن اسحاق القاضی حدیث ۴۹ )
اس حدیث کی سند حسن ہے۔
اسے نسائی نے اپنی سنن ۳: ۴۹ حدیث ۱۲۹۳، احمد نے مسند ۱: ۱۹۹ میں عثمان بن حکیم کی سند سے اور طبرانی نے المعجم الکبیر ۵: ۲۱۸ حدیث ۵۱۴۳ میں ابو خلیفہ حدثنا علی بن المدینی ۔۔۔ کی سند سے روایت کیا ہے۔
سنن نسائی ۳: ۴۸ میں یہ حدیث ان لفظوں میں آئی ہے:
صلوا علی واجتھدوا فی الدعاء و قولوا: اللّٰہم صل علی محمد و آل محمد۔
سنن النسائی الکبری ۶: ۱۹ میں یہ حدیث ان الفاظ میں ہے:
صلوا و اجتھدوا فی الدعاء و قولوا: اللّٰھم صل علی محمد وآل محمد۔
vii۔ بریدۃ الخزاعی کی معتبر روایت
کہتے ہیں: ہم نے کہا: یا رسول اللہؐ! ہمیں یہ تو معلوم ہو گیا آپؐ پر سلام کس طرح کرنا ہے۔ ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں؟ توفرمایا:
قولوا: اللّٰھم اجعل صلواتک و رحمتک و برکاتک علی محمد و آل محمد کما جعلتھا علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید۔ ( مسند احمد ۵: ۳۵۳)
اس کی سند یہ ہے: حدثنا یزید بن ھارون اخبرنا اسماعیل عن ابی داؤد الاعمی عن بریدۃ الخزاعی قال۔۔۔ الخ۔
viii۔ عبدالرحمن بن بشر انصاری کی صحیح روایت:
حدثنا سلیمان بن حرب قال حدثنا حماد بن زید عن ایوب عن محمد عن عبد الرحمن بن بشر بن مسعود قال۔۔۔۔ الخ
عبد الرحمٰن بن بشر بن مسعود انـصاری نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ پر سلام کہیں اور آپ پر درود پڑھیں۔ ہم نے آپؐ پر سلام کہنا تو جان لیا ہے۔ پس درود کس طرح پڑھیں؟ آپؐ نے فرمایا:
کہو اللّٰھم صلی علیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ آل ابراھیم اللّٰھم بارک علیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم۔ ( فضل الصلاۃ علیٰ النبیؐ حدیث ۷۱)
اس کی سند بالکل صحیح ہے۔
اسے حافظ ابن جریر طبری نے اپنی جامع البیان فی تفسیر القرآن ۲۲: ۳۲ میں صحیح سند کے ساتھ، ایوب السجستانی سے نسائی نے عمل الیوم و اللیلۃ صفحہ ۵۱ اور السنن الکبریٰ حدیث ۹۸۷۹ میں صحیح سند سے روایت کیا ہے۔
ix۔ عبد اللہ بن جعفر کی صحیح روایت
حدثنی ابوالحسن اسماعیل بن محمد بن الفضل بن محمد الشعرانی حدثنا جدی حدثنا ابوبکر بن ابی شیبۃ الحزامی، حدثنا محمد بن اسماعیل بن ابی فدیک حدثنی عبد الرحمن بن ابی بکر الملیکی عن اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب عن ابیہ قال عن ابیہ۔۔۔۔ الخ
عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب کہتے ہیں:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت کا نزول ہوتے دیکھا تو فرمایا:
ادعوا لی ادعوا لی۔
میرے پاس بلاؤ میرے پاس بلاؤ۔
جناب صفیہؓ نے کہا: یا رسول اللہ! کس کو بلائیں؟ فرمایا:
اھل بیتی علیا و فاطمۃ و الحسن و الحسین۔ فجیئی بہم فالقی علیہم النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسائہ ثم رفع یدیہ ثم قال: اللّٰھم ھؤلاء آلی فصل علی محمد و علی آل محمد و انزل اللہ عزوجل : اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ﴿﴾۔
میرے اہل بیت علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلائیں۔ جب ان کو بلا لایا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر ایک چادر ڈال دی۔ پھر دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر فرمایا: بار الٰہا! یہ میری آل ہیں۔ پس محمد و آل محمد پر درود بھیج اور اللّہ عَزَّ و جَلَّ نے یہ آیت نازل فرمائی: اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ﴿﴾.
حاکم نیشاپوری اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
ھذا حدیث صحیح الاسناد و لم یخرجاہ۔ ( مستدرک حاکم ۳: ۱۴۷۔ ۱۴۸)
یہ حدیث صحیح السند ہے اگرچہ بخاری اور مسلم نے ذکر نہیں کیا ہے۔
ذہبی نے بھی موافقت کی ہے۔ بعد ازاں حاکم نے لکھا ہے:
وقد صحت الروایۃ علیٰ شرط الشیخین انہ علمھم الصلاۃ علیٰ اھل بیتہ کما علمھم الصلاۃ علیٰ آلہ۔
رہی ابو حمید الساعدی کی روایت جو صحیح بخاری ۶: ۲۷میں منقول ہے:
کہتے ہیں: کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا ہم آپؐ پر کیسے درود بھیجیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہو:
اللّٰھم صل علی محمد و ازواجہ و ذریتہ کما صلیت علی آل ابراہیم و بارک علی محمد و ازواجہ و ذریتہ کما بارکت علی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
بعض لوگوں نے اس ایک حدیث سے استدلال کیا ہے کہ آل سے مراد زوجات اور ذریت دونوں ہیں لیکن امام شوکانی نے اس کا جواب نیل الاوطار ۲: ۳۲۷ باب ما یستدل بہ علیٰ تفسیر آلہ المصلی علیہم میں دیا ہے:
ولکنہ یشکل علی ھذا امتناعہ من ادخال ام سلمہ تحت الکساء بعد سؤالھا ذلک و قولہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عند نزول ھذہ الآیۃ مشیرا الی علی و فاطمۃ و الحسن و الحسین اللہم ان ھو لاء اھل بیتی بعد ان جللھم بالکساء۔
اس حدیث پر اشکال یہ آتا ہے کہ آنحضرت نے ام سلمہؓ کے مطالبے پر بھی کساء کے نیچے داخل کرنے سے انکار فرمایا نیز آیہ تطہیر کے نزول کے موقع پر علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام پر کساء ڈالنے کے بعد ان کی طر ف اشارہ کر کے فرمایا: اے اللہ یہ ہیں میرے اہل بیت۔
دیگر قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ روایت دیگر تمام روایات کے برخلاف ہے۔ اس کی ابتدا اور آخر میں ربط کلام نہیں بنتا۔ اے اللہ! محمد پر درود بھیج اور اس کی ازواج و اولاد پر جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر درود بھیجا ہے۔ ربط کلام اس طرح ہونا چاہیے: جیسے تو نے ابراہیم کی ازواج پر درود بھیجا ہے۔ ظاہر ہے ابراہیم علیہ السلام کی ازواج کا انبیاء کی مائیں ہونے کے باوجود ذکر نہیں آیا۔ ہم آئندہ بتائیں گے کہ آل ابراہیم سے مراد قرآن کی صراحت کی روشنی میں کون ہیں؟
پھر اس روایت کے طریق میں امام مالک بن انس ہیں۔ جن کا حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں منفی موقف واضح ہے۔
ابو بکر بیہقی کہتے ہیں:
امام مالک سے عثمان اور علی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا: میں خون ریزی میں ملوث ہونے والے کو ملوث نہ ہونے والے کی طرح نہیں سمجھتا۔ ملاحظہ ہو: مناقب الشافعی ۱:۵۲۰۔
یعنی امام مالک کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام (معاذ اللہ) ایک سفاک شخص ہیں جو حضرت عثمان کے برابر نہیں ہو سکتے۔
ناقص درود
آپ نے ملاحظہ فرمایا ان احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کامل درود کی تعلیم فرمائی اور پوری وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا نیز دیگر روایات سے اس کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
لا تصلوا علی الصلوۃ البتراء
مجھ پر ناقص درود نہ بھیجو۔
تو لوگوں نے پوچھا: ناقص درود کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا
تقولون: اللّٰھم صل علی محمد و تمسکون۔ بل قولوا اللّٰھم صل علی محمد و علی آل محمد۔ ( الصواعق المحرقۃ : ۲۳۴، کشف الغمۃ ۱:۲۱۹)
ناقص درود یہ ہے کہ اللّٰہم صل علی محمد کہ کر رک جاؤ بلکہ یوں کہو: اللّٰہم صل علی محمد و علی آل محمد۔
نواب صدیق حسن خان ھدایۃ السائل الی ادلۃ المسائل صفحہ ۶۳ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
اخرجہ ابن سعد فی شرف المصطفی۔ بلاشبہ یہ حدیث کتاب شرف المصطفیٰ للحافظ ابی سعید عبد الملک بن ابی عثمان الخرکوشی المتوفیٰ ۴۰۶ھ جلد ۵: ۱۰۷ حدیث ۲۰۴۷ طبع مکۃ المکرمہ میں موجود ہے۔
۵۔ آل محمد علیہم السلام کون ہیں؟:
صحرائے عرب کی تاریکی میں جب اسلام کی روشنی پھوٹی تو نہ صرف معاشرے کا حسن و قبیح بدلا، اقدار و پیمانے بدلے بلکہ اصطلاحیں بھی بدلیں، الفاظ کے معانی و مطالب بدلے۔ چنانچہ لغت میں الصلوۃ دعا کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ اسلام نے اس لفظ کو استعمال کیا پھر اس کے شرعی معنی کا تعین کیا کہ اب کے بعد اس لفظ سے رکوع اور سجود پر مشتمل عبادت مراد لی جائے گی۔ الصوم ہر قسم کے امساک کو کہتے تھے۔ اسلام نے اس کے معنی کا تعین فرمایا۔ اب کے بعد اس لفظ سے مراد فجر سے لے کر مغرب تک چند چیزوں سے پرہیز کرنے کا عمل لیا جائے گا۔ حج قصد کو کہتے تھے۔ اسلام آنے کے بعد اس لفظ سے بیت اللہ کا قصد مراد لیا جانے لگا۔ ان معانی کے تعین کے لیے ہم عربی زبان کی ڈکشنری کی طرف رجوع نہیں کریں گے۔
اب اسلامی انقلاب کے بعد ظاہر ہونے والی چند اہم اصطلاحات کا مطالعہ فرمائیں۔ مثلاً:
مہاجر کسے کہتے ہیں؟ اس اسلامی اصطلاح کے حدود اربعہ کے تعین کے لیے ہم لغت کے مادہ ( ھ ج ر ) کی طرف رجوع کر کے ڈکشنری سے اس کے معنی و مراد کا تعین نہیں کر سکیں گے۔
انصار کسے کہتے ہیں؟ اس سے مراد کون ہیں؟ اس کے تعین کے لیے ہم مادہ ( ن ص ر ) کی طرف رجوع نہیں کریں گے کہ لغت سے اس آیت سے مراد معلوم کر لیا جائے: وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۱۰۰) مہاجر و انصار سے مراد کون ہیں؟ ایک شخص فتح مکہ کے بعد کسی علاقے سے ہجرت کر کے آیا ہے اور دوسرے شخص نے مدینہ آ کر کچھ دن اسلام کی مدد کی ہو تو لغت کے اعتبار سے ان پر مہاجر و انصار صادق آئے گا لیکن آیت کے اطلاق میں کون لوگ شامل ہوں گے؟ اس کے لیے ہمیں جدید اسلامی اصطلاح کی طرف رجوع کرنا ہو گا، نہ لغت کی طرف۔
اسی طرح اسلامی اصطلاح میں آل اور اہل البیت سے کون لوگ مراد ہیں؟ اس کے تعین کے لیے لغت کی طرف رجوع کرنا درست نہ ہو گا بلکہ اسلامی مصادر کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ آل کے تعین کے لیے تین اہم اسلامی مصادر کی طرف رجوع کرنا کافی ہے:
پہلا مصدر آیۂ تطہیر کی تفسیر میں وارد احادیث ہیں جن میں اہل البیت علیہم السلام کا تعین ہوا ہے۔ اس کی تفصیل اسی سورہ کی آیت ۳۳ آیۂ تطہیر کے ذیل میں گزر چکی ہے۔
ii۔ دوسرا مصدر حدیث ثقلین ہے۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
انی تارک فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی احدھما اعظم من الآخر کتاب اللہ حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اھل بیتی لن یفترقا حتی یردا علی الحوض فانظروا کیف تخلفونی فیھما۔
یہ حدیث تیس سے زائد اصحاب رسولؐ نے روایت کی ہے۔ اس متواتر حدیث میں اہل بیتی کے ساتھ عترتی کے لفظ سے آل کی مکمل وضاحت ہو جاتی ہے۔
iii۔ تیسرا مصدر: صلوۃ بھیجنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آل محمد کو آل ابراہیم کے ساتھ تشبیہ دے کر فرمایا: اے اللہ محمد و آل محمد پر صلوۃ بھیج جس طرح تو نے ابراہیم اورآل ابراہیم پر صلوۃ بھیجی ہے۔
تحقیق اس بات پر ہونی چاہیے آل ابراہیم سے مراد کون ہیں۔ جو لوگ آل محمد سے مراد ہر مومن کو لیتے ہیں وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ قرآن میں آل فرعون اس کے ماننے والوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ نہیں معلوم ان کوآل فرعون کیوں یاد آتے ہیں کہ آل کو سمجھنے کے لیے انبیاء علیہم السلام کی طرف رجوع کرنے کی جگہ طاغوتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جب کہ ان احادیث میں آل محمد کو آل ابراہیم کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ آئیے ہم قرآن سے پوچھتے ہیں کہ کیا آل ابراہیم میں ان کی اولاد کے علاوہ کوئی اور شامل ہے یا نہیں ہے۔ سورۃ النساء آیت ۵۴ میں فرمایا:
اَمۡ یَحۡسُدُوۡنَ النَّاسَ عَلٰی مَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۚ فَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ مُّلۡکًا عَظِیۡمًا﴿﴾
کیا یہ ( دوسرے) لوگوں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے؟ (اگر ایسا ہے) تو ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انہیں عظیم سلطنت عنایت کی۔
چنانچہ یہ بات اپنی جگہ ہر ایک کے لیے مسلم ہے کہ کتاب، حکمت اور ملک عظیم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کو دی گئی ہے اور آل ابراہیم، اولاد ابراہیم سے خارج نہیں ہے اگرچہ بعض اولاد، آل سے خارج ہے۔ یعنی آل ، سب اولاد ابراہیم سے ہے لیکن سب اولاد، آل ابراہیم نہیں ہے۔
درود کے الفاظ میں یہ کہا گیا ہے:
اے اللہ محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے افضل ہیں اور ان پر رحمتیں بھی زیادہ نازل ہوتی ہیں تاہم حضرت ابراہیم علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد میں شمار ہوتے ہیں۔ آل ابراہیم کے ساتھ تشبیہ کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ آل ابراہیم کا تعین متنازعہ نہیں ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے کہ آل محمد کا تعین متنازعہ نہ رہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں یہ بات یقینا تھی کہ لوگ آل محمد کی شان گھٹانے کے لیے آل کا تعین متنازعہ بنا دیں گے اور آل محمد کے حسد میں لوگ بہت آگے نکل جائیں گے:
اَمۡ یَحۡسُدُوۡنَ النَّاسَ عَلٰی مَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ۔۔۔۔ (۴ نسآء: ۵۴)
وہ حسد اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے نوازا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ابوالانبیاء ہیں۔ افضل ہونا اپنی جگہ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات پر فخر تھا کہ آپؐ اولاد ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ فرماتے تھے:
انا دعوۃ ابراہیم۔۔۔۔ (بحار الانوار ۳۸: ۶۲)
میں دعائے ابراہیم ہوں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اللہ کی رحمت یہ رہی ہے کہ ان کے اولاد کے ذریعے رشد و ہدایت کا ایک سلسلہ جاری ہوا اور وہ ابوالانبیاء ٹھہرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو سلسلہ ہدایت جاری ہوا ہے وہ ان کی اولاد کے ذریعے قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ ہدایت چونکہ قیامت تک جاری رہنا ہے لہٰذا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ ہدایت ابدی ہے۔
درود کا دوسرا حصہ یہ ہے: آل محمد پر رحمت کا نزول فرما، جیسے تو نے آل ابراہیم پر رحمتوں کا نزول فرمایا ہے۔
ہمارا واضح اور کھلا موقف یہ ہے کہ جس طرح خود خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے افضل ہیں اسی طرح آل محمد، آل ابراہیم سے افضل ہیں۔ چنانچہ جب آل ابراہیم، آل محمد دونوں ایک جگہ جمع ہو جائیں گے تو آل محمد کے مہدی آخر الزمان عج امامت کر رہے ہوں گے اور آل ابراہیم کے عیسیٰ علیہ السلام مقتدی ہوں گے۔
آل ابراہیم میں نہ ازواج ابراہیم ہیں، اگرچہ ازواج ابراہیم میں انبیاء علیہم السلام کی مائیں بھی ہیں، نہ ہر وہ آل ابراہیم ہیں جو ان پر ایمان لے آئے ہیں۔
آل محمد کی شان گھٹانے کی ایک کوشش روایات کا گھڑنا ہے۔ اس بارے ایک روایت مشہور ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا: آل محمد کون ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا:
کل تقی۔ ہر پرہیزگار۔
اس روایت کی سند کو سند واہٍ ،بے حقیقت سند کہا گیا ہے۔
دوسری روایت میں آیا ہے کہ فرمایا:
آل کل مومن تقی۔
میری آل ہر وہ شخص ہے جو مومن اور پرہیزگار ہو۔
اس روایت کی سند بھی قابل اعتبار نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو ہدایۃ السائل صفحہ۵۴۔ القول البدیع صفحہ ۶۳۔
آل ابراہیم میں آپ کی ذریت (اولاد) شامل ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿﴾ (۲ بقرہ: ۱۲۴)
ارشاد ہوا : میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔
اس آیت کے تحت امامت آل ابراہیم یعنی ذریت و اولاد ابراہیم میں رہی ہے۔
ظاہر ہے آل محمد پر بھی اس قسم کی رحمتیں نازل فرمانے کی دعا ہے اور چونکہ سلسلہ نبوت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہو گیا ہے لہٰذا یہ رحمتیں ان کی آل پر امامت و رہبری کی صورت میں نازل ہوں گی اور قرآن میں آل ابراہیم کے لیے کتاب، حکمت اور ملک عظیم کی صورت میں ان رحمتوں کاذکر ہے۔ آل محمد کے لیے بھی یہ رحمت علم، کتاب، حکمت اور ملک عظیم کی صورت میں ہو گی۔ واضح رہے ملک عظیم سے مراد اطاعت و پیروی ہے۔ ایک معتدبہ مخلوق اگر ہر زمانے میںا ن کی پیروی کرے تو یہ ملک عظیم ہو گا اور اس بات کے لیے کہ آل محمد کتاب و حکمت کے وارث ہیں۔ یہ امر کافی ہے کہ علم کے سلسلے میں سب لوگ آل محمد کی طرف رجوع کرتے تھے اور آل محمد نے بعد از رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کی طرف رجوع نہیں کیا۔
اگر کسی کو اس بات پر اصرار ہے کہ ملک عظیم سے مراد داود و سلیمان علیہما السلام کی سلطنت ہے، وہ آل محمد میں دکھائی نہیں دیتی تو انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے ظہور حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے بعد یہ ساری بات کھل کر سامنے آئے گی کہ سلسلہ ہدایت، علم، کتاب و حکمت اور ملک عظیم آل محمد کے ساتھ مختص ہو گا۔
اس لیے ابن حجر نے شرح ھمزیہ میں لکھا ہے:
اہل البیت وہی ہستیاں ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور اہل البیت، آل اور ذوی القربی کی فضیلت میں جو کچھ بھی وارد ہوا ہے سب میں مراد یہی ہستیاں ہیں اور مشہور یہی ہے کہ اللّٰہم صل علی محمد و علی آل محمد سے مراد بھی یہی ہستیاں ہیں۔
ملاحظہ ہو علامہ نواب صدیق حسن خان ھدایۃ السائل صفحہ ۵۵۔
اسی کتاب کے صفحہ ۵۴ پر آل کے بارے میں لکھا ہے:
ایک قول یہ ہے کہ آل صرف اولاد فاطمہ اور ان کی نسل الی الابد ہے۔ اس قول کو نووی نے شرح مہذب میں ذکر کیا ہے۔ یہی شیعہ امامیہ کا موقف ہے۔
تفہیم القرآن کے مؤلف اس جگہ لکھتے ہیں:
ہر درود جو حضورؐ نے سکھایا ہے اس میں یہ بات ضرور شامل ہے کہ آپؐ پر ایسی ہی مہربانی فرمائی جائے جیسی ابراہیم اور آل ابراہیم پر فرمائی گئی ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے میں لوگوں کو بڑی مشکل پیش آئی ہے۔ اس کی مختلف تاویلیں علماء نے کی ہیں مگر کوئی تاویل دل کو نہیں لگتی۔ ( تفہیم القرآن ۴: ۱۲۶)
اس کے بعد خود ایک تاویل پیش کرتے ہیں کہ اس میں آل محمد کا ذکر ہی نہیں ہے۔ ما عشت اراک الدھر عجباً ۔
آل پر درود ۔ نظریاتی موقف: مسلمانوں میں تو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آل پر درود بھیجنا حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ لہٰذا اس حکم پر عمل کرنا اقلاً مسنون اور محبوب عمل ہے۔
ابن القیم کہتے ہیں:
آل النبی یصلی علیہم بلاخلاف بین الامۃ۔ ( جلاء الافہام )
امت میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ آل نبی علیہم السلام پر درود بھیجا جاتا ہے۔
ابن القیم لکھتے ہیں:
جو لوگ نبی پر درود بھیجنا واجب سمجھتے ہیں، آل پر درود بھیجنے کے بارے میں دو مشہور قول ہیں۔
امام احمد کے اصحاب میں اس بات پر اختلاف ہے کہ آل پر درود بھیجنا واجب ہے یا نہیں۔ بہرحال آل پر درود بھیجنا سنت اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب عمل ہونے میں کسی مسلمان کو نظریاتی طور پر اختلاف نہیں ہے۔ ( جلاء الافہام )
بیہقی و دار قطنی نے ابو مسعود انصاری سے رفعاً و وقفاً روایت کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من صلی صلوۃ لم یصل فیہا علی اھل بیتی لم تقبل منہ۔ ( ھدایۃ السائل : ۶۳)
جو کوئی درود بھیجے جس میں میرے اہل بیت پر درود نہ ہو اس کا درود قبول نہ ہو گا۔
مفتاح حصن حصین میں آیا ہے:
الاقتصار علی الصلوۃ علیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا اعلم وردفی حدیث مرفوع الا فی سنن النسائی فی آخر دعاء القنوت قال فیہ: فصلی اللہ علی النبی۔ ولم یقل فیہ: والہ، وفی سائر صفۃ الصلوۃ علیہ العطف بالآل۔ (نواب صدیق حسن خان ھدایۃ السائل الی اداۃ المسائل صفحہ ۶۳ ط ھند)
میں ایسی مرفوع حدیث کو نہیں جانتا جس میں صرف حضورؐ پر درود کا ذکر ہو سوائے سنن نسائی کی ایک حدیث کے جو دعائے قنوت کے آخر میں ہے صلی اللّٰہ علی النبی صرف اس میں وآلہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام درود کی کیفیت میں آل کا لفظ موجود ہے۔
ابن حجر نے کہا ہے جس روایت میں آل کا ذکر نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ راوی سے یہ لفظ رہ گیا ہے۔ ملاحظہ ہو ھدایۃ السائ ل صفحہ ۶۳۔
آل پر درود۔ عملی موقف
قابل توجہ بات یہ ہے کہ جب درود ابراہیمی پر مشتمل احادیث کا ذکر کرنے کا موقع آتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت اور درود ابراہیم سے مشہور ہے، بادل ناخواستہ آل کا ذکر کرنا پڑتا ہے۔
لیکن خود جب درود بھیجتے ہیں تو آل کا ذکر ان کے لیے سنگین ہوتا ہے۔اور صلی اللہ علیہ وسلم کہتے اور لکھتے ہیں۔
اسی سنگینی کی بنا پر شربینی اپنی کتاب مغنی المحتاج صفحہ ۳۴۲ میں لکھتے ہیں:
والصحیح ان الصلوۃ علی الآل لا تجب فی الصلوۃ لبنائھا علی التخفیف۔
صحیح یہ ہے کہ آل پر درود بھیجنا نماز میں واجب نہیں ہے چونکہ نماز میں تخفیف ہوتی ہے۔
آل پر درود شعار رافضہ
و ان تعجب فعجب قولہم کہ درود ابراہیمی میں آل پر درود صحاح میں ثابت اورمستحب ہونے پر امت کا اجماع ہونے کے باوجودآل پر مستقل طور پر درود بھیجنا مکروہ سمجھتے ہیں۔
چنانچہ فتح الباری نے ۱۱: ۱۴۶ میں اور زمخشری نے الکشاف ۳: ۵۵۸ میں لکھا ہے کہ آل پر مستقل طور درود بھیجنا یعنی علیہ الصلوۃ ، علیہ السلام کہنا درست نہیں چونکہ اس سے رافضہ کے ساتھ تشبیہ لازم آتی ہے۔
فخر الدین رازی اپنی تفسیر رازی ۱: ۲۰۶ میں لکھتے ہیں:
حضرت علی (علیہ السلام ) بسم اللہ بڑے اہتمام کے ساتھ بلند آواز میں پڑھتے تھے۔ جب بنی امیہ کی حکومت قائم ہوئی تو بڑے اہتمام کے ساتھ بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا ممنوع کر دیا۔
اسی طرح بردسوی نے روح البیان ۴: ۱۴۲ میں لکھا ہے:
اصل تو یہ ہے انگوٹھی سیدھے ہاتھ میں پہنی جائے۔ جب یہ کام ظالموں کا شعار ہو گیا تو بائیں ہاتھ میں پہننی چاہیے۔
یہ ساری باتیں کور، کورانہ تعصب کی بنا پر ہیں۔ اس سلسلے میں اصل بات تو وہ تھی جو صاحب روح المعانی نے کہی ہے:
لا یخفی ان کراھۃ التشبہ باھل البدع مقررۃ عندنا ایضا لا مطلقا بل فی المذموم و فیما قصد بہ التشبہ بہم۔ ( روح المعانی ۱۱: ۱۶۱)
اہل بدعت کے ساتھ شباہت کا کام کرنا ہر صورت میں نہیں بلکہ اس صورت میں درست نہیں ہے کہ عمل خود قابل مذمت ہو اور قصد بھی شباہت قائم کرنے کا ہو۔
اس جگہ ایک عبادت اس بہانے ترک کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے اہل بدعت کے ساتھ شباہت ہوتی ہے۔ یہ نظریہ خود ایک کھلی بدعت ہے چونکہ اس میں ایک مسلمہ عبادت کو اہل بدعت کا عمل قرر دیا جا رہا ہے۔
جب کہ سنت متواترہ کے ساتھ قرآنی آیت کی بھی صراحت موجود ہے کہ بطور استقلال غیر نبی پر صلوات بھیجنا سنت الٰہیہ ہے۔ ارشاد ہے:
وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ﴿﴾ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ﴿﴾ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ﴿﴾ (۲ بقرہ: ۱۵۵ تا ۱۵۷)
اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔ جو مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں: ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پران کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
ایک ہمہ گیر آزمائش کے بعد جو لوگ مقام صبر و رضا پر فائز ہوتے ہیں ان پر ان کے رب کی طرف سے درود ہے۔ یہ لوگ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ کے مصداق ہیں، ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو کئی آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا۔ اس بارے میں امام شافعی کی تعبیر نہایت جامع ہے۔ وہ کہتے ہیں:
تزلزلت الدنیا لآل محمد وکادتلہم صم الجبال تذوب۔
آل محمد کے مصائب سے دنیا ہل کر رہ گئی ہے۔ جنہیں دیکھ کر سخت چٹانیں بھی پگھل جائیں۔
اس لیے یہ ہستیاں عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ کی اولین مصداق ہیں۔ اسی لیے ہم ان کے نام کے ساتھ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ کہتے ہیں۔ رغما لانف المعاندین ۔
سخاوی، القول البدیع صفحہ ۴۳ طبع ہند میں لکھتے ہیں:
علماء نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ غیر نبی کے لیے علیہ السلام کہنا درست ہے یا نہیں۔ بعض نے کہا ہے یہ عمل مکروہ ہے اور بعض علیہ السلام اور علیہ الصلوۃ میں فرق کے قائل ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: السلام کہنا ہر مومن زندہ اور مردہ، حاضر اور غائب کے لیے شرعاً درست ہے اور یہ اسلامی تحیت ہے۔ چنانچہ نمازی بھی کہتا ہے: السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین اور الصلوۃ نہیں کہتے۔ اس سے فرق واضح ہو گیا۔
جب آیہ خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا وَ صَلِّ عَلَیۡہِمۡ۔۔۔۔ (۹ توبہ: ۱۰۳) اور ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ۔۔۔۔ (۳۳ احزاب: ۴۳) و دیگر آیات سے استقلالاً غیر نبی پر صلواۃ بھیجنا مستحسن عمل ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں:
جب سوال پیدا ہوتا ہے جو کام خود اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انجام دیا ہے وہ ہمارے لیے کس دلیل کی بنیاد پر درست نہیں ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل سنت نہیں ہے اور اللہ کا عمل حجت نہیں ہے؟ تو کہتے ہیں:
اب اہل اسلام کا شعار بن چکا ہے کہ وہ صلوۃ و سلام کو انبیاء علیہم السلام کے لیے خاص کرتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً سنت رسول کے ترک کو اہل اسلام شعار نہیں بنا سکتے۔
ثانیاً یہ اہل اسلام کا شعار نہیں ہے بلکہ یہ بنی امیہ اور نبی عباس کا اپنایا ہوا شعار ہے۔ چنانچہ ہم ذیل میں اہل اسلام کے صف اول کے اہل عمل کا عمل دکھائیں گے جو غیر انبیاء کے لیے کثرت سے علیہ السلام کا لفظ استعمال کرتے تھے اور کرتے ہیں۔
ہم یہاں صحیح بخاری کے ان مقامات کا ذکر کرتے ہیں جن میں امام بخاری نے ائمہ اہل بیت کے لیے علیہ السلام، علیہما السلام، علیہا السلام کے الفاظ کثرت سے استعمال کیے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
۱۔ علی بن ابی طالب علیہ السلام۔ کتاب الجمعۃ باب یقصر اذا خرج من موضعہ۔
۲۔ فاطمہ و علی علیہما السلام۔ کتاب الجمعۃ بابتحریض النبی۔
۳۔ ان علیا علیہ السلام : کتاب البیوع باب ما قیل فی الصواع۔
۴۔ و وھب الحسن بن علی علیہما السلام۔ کتاب الھبۃ باب اذا وھب دینا۔
۵۔ لفاطمۃعلیہاالسلام۔ کتاب الصلح باب کیف یکتب ھذا۔
۶۔ ابنتی بفاطمۃ سلام اللّٰہ علیہا۔ کتاب البیوع۔
۷۔ وکانت فاطمۃ علیہا السلام۔ تغسل الدم کتاب الجہاد باب لبس البیضۃ۔
۸۔ ان فاطمۃ علیہا السلام اشتکت من الرحی۔ باب الدلیل علی ان الخمس۔
اسی طرح صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۰۱۴، ۳۵۰۲، ۳۶۴۱، ۳۷۸۱، ۳۸۱۰، ۳۸۴۷، ۳۹۹۸، ۴۰۰۵، ۴۱۷۰، ۴۱۹۳، ۴۹۵۰، ۵۰۴۶، ۵۳۹۰، ۵۹۲۴ ملاحظہ ہوں۔
اس طرح ملاحظہ ہو: صحیح بخاری کتاب فرض الخمس میں یہ عبارت:
ان حسین بن علی علیہما السلام۔
کتاب المناقب باب صفۃ النبی میں یہ حدیث:
الحسن بن علی علیہما السلام۔
کتاب المناقب باب مناقب الحسن و الحسین میں یہ عبارت:
اُتَیِ عبید اللہ بن زیاد براس الحسین علیہ السلام۔
اور دیگر بہت سے مقامات پر یہ لفظ ملاحظہ کر سکتے ہیں:
مسند احمد بن حنبل میں ملاحظہ فرمائیں:
جاء العباس و علی علیہما السلام ۱۵: ۲۳۹۔
دعا علیا علیہ السلام۔ حدیث خیبر۔
و علی علیہ السلام یمشی بجانبہ۔ مسند احمد بن حنبل ۲: ۱۱۵۔
سنن ابی داؤد میں یہ عبارت ملاحظہ ہو:
و فاطمۃ علیہا السلام حینئذ تطلب صدقۃ رسول اللہ۔ باب صفا یا رسول اللہ۔
امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں سورۃ الانسان آیت ۸ وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ۔۔۔۔ کے ذیل میں متعدد مقامات میں لکھتے ہیں:
ان ھذہ الایۃ نزلت فی حق علی علیہ السلام۔
نیز اسی آیت کے ذیل میں ہے:
ان الحسن و الحسین علیہما السلام مرضا
نیز یہ عبارت ملاحظہ ہو:
اخذ علی علیہ السلام بید الحسن و الحسین۔
آگے لکھتے ہیں:
ولا ینکر دخول علی علیہ السلام فیہ۔
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ ۱: ۴۰۵ میں لکھتے ہیں:
در متقدمین تسلیم بود بر اہل بیت رسول از ذریت و ازواج مطہرات و در کتب قدیمہ از مشائخ اہل سنت و جماعت کتابت آن یافتہ میشود۔ و در متاخرین ترک آن متعارف شدہ۔
اہل البیت کے لیے علیہ السلام لکھنا ہی شعار اہل اسلام تھا۔ چنانچہ علماء خود اپنی تصانیف میں آل محمد کے ساتھ بالاستقلال علیہ السلام لکھتے ہیں۔ چنانچہ امام اہل سنت حضرت سید سعید کاظمی اپنے ایک رسالہ میں حوالہ دیتے ہیں۔ جذب القلوب صفحہ ۷۸:
در سنہ سابعہ غزوۃ خیبر بود کہ امیر المومنین علی علیہ السلام چون سپر از دست مبارک او افتاد۔
اسی جذب القلوب کے صفحہ ۹۴ پر ہے:
درِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا۔
نیز اسی صفحہ پر ہے:
بعلی و فاطمہ و حسن و حسین سلام اللہ علیہم خطاب میکرد۔
درود بر اصحاب: قابل توجہ یہ ہے کہ سید محمد بن اسماعیل امیر اپنی کتاب جمع التشتیت میں لکھتے ہیں:
فان قلت: الصلوۃ علی الاصحاب ھل وردت فی احادیث التعلیم فی الروایۃ کما ثبتت فی الآل؟ قلت لا اعلم ذلک۔ ( ان حکومتوں کی کوشش تھی کہ خود کو بھی آل ثابت کریں۔ ناکامی کی وجہ سے آل کے ذکر پر پابندی لگا دی۔)
اگر یہ سوال ہو: کیا آل کی طرح اصحاب پر درود بھیجنے کی کوئی روایت احادیث تعلیم میں وارد ہوئی ہے؟ تو جواب یہ ہو گا مجھے کسی ایسی روایت کا علم نہیں ہے۔
آل پر درود کیوں ترک کیا گیا؟
صدر اسلام میں سب کے لیے اس بات میں کوئی ابہام موجود نہ تھا کہ آل سے مراد کون ہیں۔ سب کے ذہنوں میں یہ بات تھی کہ آل رسول کن کو کہتے ہیں۔ بعد میں بنی امیہ کے دور میں آل کا ذکر متروک کرنے کی وجہ وہ عناد اور دشمنی ہے جو لفظ آل کے ساتھ روا رکھی گئی۔ یعنی جنہیں اولاد فاطمہ و علی علیہم السلام سے دشمنی تھی، انہیں لفظ آل سے بھی دشمنی تھی۔
اس جگہ ہم سید محمد بن اسماعیل امیر کی پوری عبارت لکھ دیتے ہیں جو انہوں نے جمع التثتیت میں لکھی ہے۔ جسے علامہ نواب صدیق حسن خان نے اپنی کتاب ھدایۃ السائل الی ادلۃ المسائل صفحہ ۶۳ طبع ہند میں نقل کیا ہے۔ وہ عبارت یہ ہے:
مجھے تعجب ہے ان لوگوں پر جو تشہد میں حضورؐ پر درود کو واجب سمجھتے ہیں اورآل پر درود کو مستحب قرار دیتے ہیں۔
پھر لکھتے ہیں:
ائمہ حدیث قدیم زمانے سے لے کر آج تک اپنی کتابوں میں جب خاتم الانبیاءؐ پر درود لکھتے ہیں تو آل کا ذکر حذف کرنا اپنا شیوہ بنا رکھا ہے جب کہ انہیں علماء نے اپنی ان صحاح کتب میں ان احادیث کو بیان کیا جن میں درود کی تعلیم ہے۔ جن کتب کا احترام ہم پر واجب ہے۔ میں نے اس بارے میں سوال اٹھایا تو مجھے جو جواب دیا گیا اس کا خلاصہ یہ ہے:
ائمہ حدیث کے بارے میں جو چیز معلوم ہے وہ یہ ہے کہ جو روایت ان کے نزدیک صحیح ہے اس پر وہ اس وقت تک عمل کرتے ہیں جب تک ان کو علم نہ ہو جائے کہ اس حکم کو کسی اور حدیث یا آیت کے ذریعہ منسوخ کیا گیا ہے لیکن ائمہ حدیث کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آل پر درود بھیجنے کا جو حکم ثابت ہے، منسوخ نہیں ہوا۔ لہٰذا آل پردرود نہ بھیجنے میں ان کا عذر یہ ہے کہ وہ ان اہل جفا و ضلال سے بچنا چاہتے ہیں جنہوں نے آل محمد سے دشمنی کی، ان کو خوفزدہ کیا اور انہیں جلا وطن کیا جیسا کہ بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومتوں کے دور میں پیش آیا، باوجودیکہ یہ لوگ خود کو بھی آل میں شامل سمجھتے تھے۔ (تاریخ یعقوبی ۳: ۷۸۔ شرح نہج الباغۃ ابن حدید ۴: ۴۸۰) ان کے بارے میں یہ شعری زباں حال صادق آتی ہے:
اقتلونی ومالکا واقتلوا مالکا معی
مجھے اور مالک کو قتل کرو مالک کو میرے ساتھ قتل کرو
یعنی مالک کے قتل کی خاطر مجھے بھی قتل کرو۔ لہٰذا ان زمانوں کے ائمہ حدیث کو اپنی بڑی چھوٹی تالیفات اور مجالس روایت کی املاء ات اور علوم درایہ میں گفتگو کے وقت آل پر درود کو حذف کرنا پڑا اور تقیہ کے طور پر ایسا عمل درست ہے۔
پھر لکھتے ہیں:
پھر تقیہ ختم ہو گیا اور اس گمراہ فرقہ کی حکومت بھی ختم ہو گئی لیکن جس شیوہ پربڑے بوڑھے ہو گئے اور چھوٹے بڑے ہو گئے اس پر لوگ چلتے رہے۔ نادانی کی وجہ سے اپنے قول و تحریر میں اس بات کو جاری رکھا جب کہ وہ ان احادیث پر ایمان رکھتے تھے جن میں درود کی تعلیم دی گئی ہے۔
آگے لکھتے ہیں:
میں نے اس بات کو حواشی العمدۃ میں تفصیل سے بیان کیا ہے اور اپنے سے پہلے کسی کو نہیں دیکھا جس نے اس موضوع پرکچھ لکھا ہو۔
میں نے سوال اٹھایا کہ ائمہ حدیث نے مذکورہ عذر کی وجہ سے آل کا ذکر نہیں کیا لیکن اگر ہم ان کتابوں میں سے کسی کتاب کی املاء کریں مثلاً صحیح بخاری کی تو کیا ہم بھی آل کا ذکر کریں یا نہ کریں۔
جواب میں فقیہانہ مباحث کے بعد لکھا ہے:
بہتر یہ ہے کہ پہلے جیسے اس کتاب میں ہے لکھا دیا جائے پھر اپنی طرف سے مکمل درود بھیج دیا جائے تاکہ املاء میں کمی بیشی نہ ہو اور ساتھ یہ بات بھی ہو جائے کہ اس نے اسی طرح درود بھیجا ہے جیسا کہ رسول اللہؐ نے درود کی تعلیم دی ہے۔
ملا محمد برخوردار اپنی کتاب شرح نبراس علی العقائد النسفیۃ صفحہ۱۰ کے حاشیہ پر لکھتے ہیں:
بعض اہل تحقیق نے کہا ہے کہ خاتم المرسلین پر درود بھیجتے ہوئے لفظ آل کو بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومت کے دوران محدثین نے ترک کر دیا چونکہ وہ ان پر درود بھیجنے سے منع کرتے تھے بلکہ وہ تو ان پر سَب کرتے تھے۔
مکہ میں جب عبد اللہ بن زبیر کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے چالیس جمعوں تک جمعہ نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ کہہ کر درود بھیجنا ممنوع قرار دیا کہ اس سے بنی ہاشم کی ناک اونچی ہو جاتی ہے۔ (تاریخ یعقوبی ۲: ۷۸۔ شرح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید۴: ۴۸۰)
بعض نے آل پر درود واجب نہ ہونے پر ایسی دلیل کا سہارا لیا ہے جسے تسلیم کرنا تو دور کی بات ہے اصلاً شائستہ تحریر نہیں ہے۔ کہتے ہیں:
آل پر درود واجب نہ ہونا بہتر موقف ہے چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود بھیجنے کا حکم از خود بیان نہیں فرمایا بلکہ لوگوں کے سوال کے جواب میں یہ حکم صادر فرمایا ہے۔ ( المغنی لابن قدامۃ ۱: ۵۸۱ )
اس نامعقول دلیل کی رو سے قرآن میں جو احکام لوگوں کے سوال کرنے پر صادر ہوئے ہیں ان کا واجب العمل نہ ہونا لازم آتا ہے:
وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۲۲)
اور وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۱۷)
لوگ آپ سے ماہ حرام میں لڑائی کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۱۹)
لوگ آپ سے شراب کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
کیا حیض، حرمت کے مہینوں کے احکام واجب العمل نہیں ہیں کیونکہ یہ لوگوں کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمائے ہیں؟ کیا وہ تمام احکام واجب العمل نہیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے سوال پر بیان فرمائے؟ کیا کوئی اس بات کا قائل ہے کہ احکام صرف وہ واجب ہیں جنہیں رسول اللہؐ نے از خود بیان کیا ہو۔ فَمَا لَكُمْ۝۰ۣ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ۔
اس جگہ شیخ عبدالمحسن صوری لبنانی کے اشعار کا ذکر مناسب ہو گا۔ وہ آل محمدؐ سے خطاب کر کے کہتے ہیں:
و عجیب ان حقابکم
قام فی الناس و فیکم لم یقم
یہ بات عجیب ہے جو حقوق لوگوں کو
تمہاری وجہ سے ملے وہ خود تمہیں نہیں ملے
رکبوا بحر ضلال سلموا
فیہ والاسلام فیہ ما سلم
وہ گمراہی کے سمندرمیں سوار ہوئے تو خود بچ گئے
مگر اسلام نہیں بچا
ثم صارت سنۃ جاریۃ
کل من امکنہ الظلم ظلم
اس کے بعد یہ بات لوگوں میں رائج ہو گئی
جس سے بھی ظلم ممکن ہوا اس نے ظلم کیا
چنانچہ اس ظلم میں اہل اقتدار سے اہل قلم کم نہیں ہیں۔
تشہد میں درود واجب ہے
فقہ جعفریہ کے مطابق نماز کے دونوں تشہد میں محمد و آل پر صلوات بھیجنا واجب ہے۔ فقہ جعفریہ کے ساتھ امام شافعی نماز کے دوسرے تشہد میں صلوۃ پڑھنا واجب قرار دیتے ہیں۔
نووی شافعی اپنی کتاب المجموع ۳: ۴۶۷ میں لکھتے ہیں:
ہمارے مذہب میں یہ ہے کہ صلواۃ پڑھنا تشہد میں واجب ہے۔ ہمارے علماء نے یہ بات حضرت عمر بن خطاب اور ان کے بیٹے سے نقل کی ہے اور اس بات کو الشیخ ابو حامد نے ابن مسعود اور ابو مسعود بدری سے نقل کیا ہے اور بیہقی وغیرہ نے شعبی سے روایت کیا ہے۔ یہی بات امام احمد سے دو روایات میں سے ایک ہے۔ امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک صلوات پڑھنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔۔۔۔ اسحاق نے کہا ہے کہ اگر صلوات کو جان بوجھ کر ترک کر دیا نماز صحیح نہیں ہے اور اگر بھول جانے کی وجہ سے ترک ہو گئی تو امید ہے نماز کافی ہو۔ ہمارے شافعی علماء نے وجوب پر آیۂ صَلُّوْا عَلَيْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا سے استدلال کیا ہے۔ شافعی نے کہا: اللہ نے اس آیت میں صلوات کو واجب کر دیا ہے اور حالات میں بہتر حالت نماز کی ہے۔ ہمارے علماء کا موقف یہ ہے کہ اس آیت سے صلوۃ کا واجب ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔
علامہ دمیاطی اپنی کتاب اعانۃ الطالبین ۱: ۲۰۰ میں لکھتے ہیں:
بعض کا یہ موقف ہے آل پر درود بھیجنا تشہد میں واجب ہے اور یہی امام شافعی کا قدیم قول ہے، اس بات پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے قولوا اللّٰہم صلی علی محمد و آل محمد اور یہ امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔
امام شافعی کے یہ اشعار بھی معروف ہیں:
یا اھل بیت رسول اللّٰہ حبکم
فرض من اللّٰہ فی القرآن انزلہ
کفاکم من عظیم القدر انکم
من لم یصل علیکم لا صلوۃ لہ
اے اہل بیت رسول! تمہاری محبت اللہ کی طرف سے فرض ہے جسے قرآن میں نازل کیا ہے۔ تمہاری منزلت کی عظمت کے لیے اتنا کافی ہے کہ جس نے تم پر درود نہ بھیجا اس کی نماز نہیں ہوتی ہے۔
شوکانی نیل الاوطار ۲: ۳۲۴ میں لکھتے ہیں:
نماز میں رسول اللہؐ پر درود بھیجنا واجب ہے لیکن آل پر بھی نماز میں درود بھیجنا واجب ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔ چنانچہ ہادی، قاسم ، مؤید باللّٰہ، احمد بن حنبل بعض شافعی علماء واجب ہونے کے قائل ہیں۔ ان حضرات نے اس حدیث سے وجوب پر استدلال کیا ہے جس میں آل کے ساتھ درود بھیجنے کا حکم ہے۔
تفہیم القرآن میں لکھا ہے:
تشہد میں درود پڑھنا واجب ہونے کے قائل اصحاب میں سے ابن مسعود، ابو سعود انصاری، ابن عمر اور جابر بن عبد اللّٰہ، تابعین میںسے شعبی، امام محمد باقر، محمد بن کعب قرظی اور مقاتل بن حیان اور فقہاء میں سے اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مسلک تھا اور آخر میں امام احمد بن حنبل نے بھی اسی کو اختیار کر لیا تھا۔
الجامع لاحکام القرآن ۱۴: ۲۳۷ میں آیا ہے:
مالک اور سفیان سے منقول ہے کہ آخری تشہد میں درود پڑھنا مستحب ہے لیکن اس کا ترک کرنے والا گنہگار ہے اور اسحاق اس بات کے قائل ہیں کہ اگر جان بوجھ کر درود کو ترک کرے تو نماز دوبارہ پڑھے، بھولنے کی صورت میں نہیں۔
قرطبی کہتے ہیں:
ہمارے علماء میں سے محمد بن المواز وجوب کے قائل ہیں اور ابن العربی حدیث کے صحیح ہونے کی وجہ سے وجوب کے قائل ہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 101)
سورہ احزاب میں ایک اور جگہ آیا ہے۔
ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ کَانَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَحِیۡمًا﴿۴۳﴾
"وہی تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی (دعا کرتے ہیں) تاکہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال لائے اور وہ مومنوں کے بارے میں بڑا مہربان ہے۔”
تفسیر آیات
۱۔ ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ: جس ذات کا ذکر کثیر کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمہارا خالق، رازق اور محافظ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ تم پر رحمت بھیجتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا ہے:
رَبِّ لَا تَکِلْنی اِلٰی نَفْسِی طَرْفَۃَ عَیْنٍ اَبَداً۔ (الکافی ۲:۵۸۱)
میرے مالک مجھے چشم زدن کے لیے بھی میرے حال پر نہ چھوڑ۔
۲۔ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ: اپنی رحمتوں کے علاوہ اس کے فرشتے بھی تمہارے لیے رحمتوں کے نزول اور مغفرت کے لیے دعا کر رہے ہیں:
وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ۔۔۔۔ (۴۲ شوری: ۵)
اور فرشتے اپنے پروردگار کی ثناء کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اہل زمین کے لیے استغفار کرتے ہیں
اَلَّذِیۡنَ یَحۡمِلُوۡنَ الۡعَرۡشَ وَ مَنۡ حَوۡلَہٗ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ وَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا۔۔۔۔ (۴۰ غافر: ۷)
جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو (فرشتے) اس کے اردگرد ہیں سب اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور اس پر ایمان لائے ہیں اور ایمان والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔
۳۔ لِیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ: ان رحمتوں کا نزول اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ تمہیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکال لائے۔ اس سے معلوم ہوا تمام رحمتوں کا سرچشمہ، ہدایت ہے۔ ظلمت سے نور کی طرف ہدایت، کفر سے ایمان کی طرف ہدایت، غفلت و ناآگاہی سے ذکر و عبادت کی طرف ہدایت۔
۴۔ وَ کَانَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَحِیۡمًا: اہل ایمان پر اللہ کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے کہ وہ رحمتوں کا نزول فرماتا ہے۔ فرشتوں کو دعائے مغفرت کا حکم دیتا ہے۔ ظلمت سے نور کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔
اہم نکات
۱۔ اللہ کی طرف سے ہر آن رحمتوں کا نزول ہوتا ہے: یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ۔۔۔۔
۲۔ اللہ کے فرشتے بھی مومنوں کے لیے دعا کرتے ہیں۔ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ۔۔۔۔
۳۔ ظلمت سے نور کی طرف ہدایت، سب رحمتوں کا سرچشمہ ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 84)

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button