سلائیڈرمقالات قرآنی

مولائے کائنات علی علیہ السلام، آیہِ ولایت کی عملی تفسیر

شیخ محسن علی نجفی
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ﴿المائدہ:۵۵﴾
تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
وَ مَنۡ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ﴿٪ المائدہ:۵۶﴾
اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا ولی بنائے گا تو(وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہو جائے گا اور) اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔
تشریح کلمات
حِزۡب:وہ جماعت جس میں سختی اور تشدد پایا جائے۔ (مفردات) یعنی اپنے مؤقف میں سودے بازی کرنے والے نہ ہوں۔
شان نزول
یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی، جب مسجد نبوی میں آپؑ نے حالت رکوع میں ایک سائل کو اپنی انگوٹھی عطا فرمائی۔ اس روایت کو اکثر محدثین، مؤرخین اور مفسرین نے ذکر کیا ہے اور اس حدیث کے راویان درج ذیل ہیں:
۱۔ حضرت ابن عباس۔ ۲۔ عمار بن یاسر۔ ۳۔ عبد اللہ بن مسلم ۔ ۴۔ سلمہ بن کہیل۔ ۵۔ انس بن مالک۔ ۶۔ عتبہ بن حکیم۔ ۷۔ عبد اللہ بن ابی۔ ۸۔ ابوذر غفاری۔ ۹۔ جابر بن عبد اللہ انصاری۔ ۱۰۔ عبد اللہ بن غالب۔ ۱۱۔ عمرو بن العاص۔ ۱۲۔ ابو رافع ۱۳۔ خود حضرت امام علی علیہ السلام۔ ۱۴۔ حضرت امام حسن علیہ السلام ۱۵۔ حضرت علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام ۔۱۶۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام۔
اصحاب رسول ؐ و ائمہ کی یہ روایت درج ذیل مصادر میں مطالعہ کر سکتے ہیں۔
تفسیر طبری ۶: ۱۸۶، اسباب نزول واحدی، شواہد التنزیل میں حضرت ابن عباس سے پانچ روایات موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو جلد اول ص ۱۶۱۔ ۱۶۶ اور ص ۱۶۷۔ ۱۶۹ میں چھ اور روایات موجود ہیں۔ انساب الاشراف بلاذری، غرائب القرآن نیشاپوری، تفسیر در منثور سیوطی، لباب النقول فی اسباب النزول (از معالم المدرستین)، تفسیر سمرقندی ۱: ۴۴۵، البحر المحیط ۴: ۳۰۰۔
شاعر رسول جناب حسان بن ثابت نے اس آیت کی شان نزول کے بارے میں یہ اشعار کہے:
فانت الذی اعطیت اذ کنت راکعاً
زکاۃ فدتک النفس یا خیر راکع
فانزل فیک اللّٰہ خیر ولایۃ
و بینھا فی محکمات الشرائع
(تفسیر روح المعانی ۵: ۲۹ باب ۵۵ ۔ الصراط المستقیم ۱:۲۶۵)
آپ ہی وہ ذات ہیں جس نے حالت رکوع میں زکوٰۃ دی۔ اے رکوع کرنے والوں میں سب سے افضل، آپ پر جان قربان۔
چنانچہ اللہ نے آپ کے لیے بہترین ولایت نازل فرمائی اور اسے اپنی محکم شریعتوں میں بیان فرمایا۔
قاضی یحییٰ نے اپنے معروف کتاب المواقف صفحہ ۴۰۵، شریف جرجانی نے شرح مواقف ۸: ۳۶۰، سعد الدین تفتازانی نے شرح مواقف ۵: ۱۷ اور علاء الدین قوشجی نے شرح تجرید میں کہا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
ان تمام محدیثن مفسرین، مورخین اور متکلمین کے مقابلے میں ابن تیمیہ کا یہ قول نہایت قابل توجہ ہے۔ اس شخص کی نص عبارت یہ ہے:
قد وضع بعض الکذابین حدیثاً مفتری ان ھذہ الآیۃ نزلت فی علی لما تصدق بخاتمہ فی الصلوۃ، وھذا کذب باجماع اہل العلم بالنقل وکذبہ بین۔۔ و ان علیا لم یتصدق بخاتمہ فی الصلوۃ و اجمع اہل العلم بالحدیث علی ان القصۃ المرویۃ فی ذلک من الکذب الموضوع و ان جمہور الامۃ لم تسمع بھذا الخبر ۔ ( منہاج السنۃ ۲: ۳۰)
بعض کذاب لوگوں نے ایک من گھڑت حدیث بنائی ہے کہ یہ آیت علی (علیہ السلام) کی شان میں نازل ہوئی، جب انہوں نے نماز میں اپنی انگوٹھی صدقہ میں دے دی۔ نقل (احادیث) کے اہل علم کا اجماع ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور اس کا جھوٹ واضح ہے۔ علی نے اپنی انگوٹھی کا کوئی صدقہ نہیں دیا۔ حدیث کے اہل علم کا اجماع ہے کہ یہ کہانی من گھڑت، جھوٹ ہے اور جمہور امت نے ایسی کوئی روایت سنی ہی نہیں۔
یہ ہے دیانت اور امانت فی النقل ۔ گویا کہ ایک درجن سے زائد اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تقریباً تمام مفسرین اور متکلمین اس امت میں شمار نہیں ہوتے یا اس امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی اور جمہور امت ہے جس نے اس قسم کی روایت سنی ہی نہیں۔
ولی کے معنی: وَلِیْ کے متعدد معانی بیان کیے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اقتدار و سرپرستی اور تصرف میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بعد ناصر اور محب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ہم ذیل میں لسان العرب مادہ و ل ی سے ان مقامات کا ایک اجمالی ذکر کرتے ہیں۔ وَلِیْ اقتدار و سرپرستی اور تصرف در امور کے معنوں میں استعمال ہوا کرتا ہے۔
وَلِیْ:
اسماء اللّٰہ میں سے ہے، جس کے معنی المتولی لامور العالم ۔ امور کائنات چلانے والے کے معنوں میں۔ بعض نے کہا ہے، یہاں الناصر بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔
اَلوَالِیْ:
یہ لفظ و ل ی سے مشتق ہے۔ اس کے معنی ہیں: مالک الاشیاء جمیعھا و المتصرف فیھا ۔ تمام اشیاء کا مالک اور ان میں تصرف کرنے والا۔
اَلوِلَایَۃ:
یہ والی کا مصدر ہے ( بکسر واو )۔ سلطنت و امارت کے معنوں میں ہے۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں: الولایۃ ( بالکسر ) سلطنت و امارت کے معنوں میں آتا ہے۔ الولایۃ ( بالفتح ) نصرت کے معنوں میں ہے۔
اَوْلیٰ:
یہ و ل ی سے مشتق ہے ۔اس کا معنی ہے: احق ۔ زیادہ حقدار۔
اِسْتَوْلیٰ:
یہ بھی و ل ی سے مشتق ہے۔ غلبہ اور بالادستی کے معنوں میں ہے۔
اَلمُتِوَلِّی:
یہ بھی و ل ی سے مشتق ہے۔ کسی امر کے اختیارات جس کے ہاتھ میں ہوں، اس کو متولی کہتے ہیں۔
وَلَّیْتُ:
کے معنی ہیں قلدتہ ولایتہ ۔ میں نے اس کے اختیارات میں دے دیا۔
اَلوَلِیّ:
کل من ولی امر احد فہو ولیہ ۔ جو کسی کے امور کی انجام دہی ہاتھ میں لے، وہ اس کا ولی ہے۔
اَلوَلِیّ:
الذی یدبر الامر ۔ ولی وہ ہے جو امور کی تدبیر کرتا ہے۔ مولیٰ اور ولی دونوں کے ایک معنی ہیں۔ جو مولیٰ کی طرف منسوب ہے اس کو مولوی کہتے ہیں۔ جیسے حضرت علی علیہ السلام کی طرف منسوب کو علوی کہتے ہیں۔
وَلِیُّ الیتیم:
وہ ہے الذی یلی امرہ ۔ جو اس کے امور کو چلائے۔
وَلِیُّ المرء ۃ:
وہ ہے الذی یلی عقد النکاح ۔ جس کے ہاتھ میں اس کے عقد نکاح کا اختیار ہو۔
وَلَّاہ العمل:
کسی کام پر لگانا۔
تَوَلّی العمل:
کسی کام کو اپنے ذمے لینا۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا: مادہ و ل ی سے تقریباً تمام مشتقات، اقتدار و اختیار اور تصرف کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ البتہ یہ مادہ نصرت اور محبت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، مگر ان معنوں کے اس قدر مشتقات نہیں ہیں۔
اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہو سکتے ہیں کہ ولی ان متعدد معنوں میں مشترک معنوی ہے اور دوسرے معانی میں کسی حد تک تصرف و اختیار موجود ہونے کی وجہ سے استعمال ہوا ہے۔ مثلاً ناصر کسی کے امور پر تصرف کرنے سے عبارت ہے۔ محب وہ ہے جو اپنے محبوب کے ساتھ قلبی لگاؤ رکھتا ہو۔ یہ ایک رشتہ اور تعلق ہے، جس سے وہ اپنے محبوب کے امور کو آسانی سے انجام دیتا ہے۔
لہٰذا جو ولی اللّٰہ کے مقام پر فائز ہوتا ہے، وہ اللہ کی بندگی دوسروں سے زیادہ آسانی کے ساتھ کرتا ہے۔
اگر یہ لفظ متعدد معانی میں مشترک لفظی ہے تو یہاں چند ایک قرآئن موجود ہیں، جن سے معنی مراد کے تعین میں مدد ملتی ہے۔
پہلا قرینہ: اس آیت کا پہلا قرینہ اِنَّمَا ہے۔ بالاجماع یہ لفظ حصر کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آیت کا مطلب یہ بنتا ہے: تمہارا ولی صرف اور صرف اللہ، اس کا رسول اور رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینے والا ہے۔ یعنی تمہارا ولی صرف ان تینوں میں منحصرہے۔ ظاہر ہے ناصر، حامی اور دوست ان تینوں میں منحصر نہیں ہے، بلکہ تمام مؤمنین پر لازم ہے کہ وہ آپس میں محبت رکھیں اور ایک دوسرے کی مدد و نصرت کریں۔
دوسرا قرینہ: جب یہ لفظ اللہ کی طرف منسوب ہو گا تو ولایت کا معنی حاکمیت ہو گا: ہُنَالِکَ الۡوَلَایَۃُ لِلّٰہِ الۡحَقِّ ۔۔۔(۱۸کہف ۴۴) اقتدار خدائے برحق کے لیے مختص ہے۔ چنانچہ قرآنی اصطلاح میں یہ لفظ جب بھی اللہ کی طرف منسوب ہوا، تصرف و اقتدار کے معنوں میں آیا ہے: اللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۔ (۲ بقرہ: ۲۵۷) یہ ﷲ کا تصرف و اقتدار ہے جس کے تحت وہ مؤمنوں کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے: اَنۡتَ وَلِیُّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ۔۔۔ (۷ اعراف ۱۵۵)
پس یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ اس کائنات میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے: لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۔۔۔ (۲ بقرہ : ۱۰۷)
اللہ کے بعد یہ حاکمیت اللہ کی طرف سے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے: اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ ۔ (۳۳ احزاب: ۶) یعنی نبی مؤمنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھتے ہیں۔
ولیکم میں اللّٰہ، رسول اور الذین آمنوا سب کے لیے ایک ہی لفظ ولیکم استعمال ہوا ہے۔
اس سے معلوم ہوا، تینوں میں وَلی ایک ہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جس معنی میں اللہ اور اس کا رسول ولی ہیں، رکوع میں زکوٰۃ دینے والے بھی اسی معنی میں ولی ہیں۔ چونکہ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ لفظ ایک مرتبہ استعمال کر کے ایک ہی معنی مراد لیا جا سکتا ہے۔ مثلا اگر کوئی کسی سے یہ کہدے: احمد، حسن اور قاسم تمہارے ولی ہیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ احمد کو سرپرست، حسن کو دوست اور قاسم کو حامی و ناصر مراد لیا جائے۔ پس معلوم ہوا جس معنی میں اللہ اور اس کا رسول ولی ہیں، رکوع میں زکوۃ دینے والے بھی اس معنی میں ولی ہیں۔
تیسرا قرینہ: یہ کہ وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ کا خطاب تمام مؤمنین سے ہے۔ پھر اگر وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا بھی تمام مؤمنین ہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ تمام مؤمنین تمام مؤمنین کے ولی ہیں۔ یعنی ہر ایک اپنے آپ کا ولی ہے۔ اس سے معلوم ہوا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ کے مخاطب تمام مؤمنین ہیں۔ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا سے مراد تمام مؤمنین نہیں ہیں۔
چوتھا قرینہ: وہ حدیث ہے جو حضرت ابوذر غفاری ؓنے روایت کی ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
اللھم ان اخی موسیٰ سالک قال (رب اشرح لی صدری ویسرلی امری و احلل عقدۃ من لسانی یفقہوا قولی و اجعل لی وزیراً من اہلی ھارون اخی اشدد بہ ازری و اشرکہ فی امری کی نسبحک کثیراً انک کنت بنا بصیراً فاوحیت الیہ قد اوتیت سؤلک یا موسی۔ اللھم انی عبدک و نبیک فاشرح لی صدری ویسرلی امری و اجعل لی وزیراً من اہلی علیا اخی اشددبہ ظہری ۔ (تفسیر کبیر فخر رازی ۱۱: ۲۵۔ ۶۵:۸۸ باب ۵۵ ذیل آیہ انما ولیکم ۔۔۔۔)
اے اللہ! میرے بھائی موسیٰ نے تجھ سے سوال کیا: میرے پروردگار میرا سینہ کشادہ کر دے اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری باتیں سمجھ جائیں اور میرے کنبے میں سے میرا ایک وزیر بنا دے میرے بھائی ہارون کو۔ اسے میرا پشت پناہ بنا دے اور اسے میرے امر میں شریک بنا دے تاکہ ہم تیری خوب تسبیح کریں اور تجھے کثرت سے یاد کریں اور تو ہمارے حال پر خوب نظر رکھتا ہے۔ تو نے موسیٰ کی طرف وحی فرمائی کہ اے موسیٰ! تجھے تیری مراد دے دی گئی۔ پروردگار! میں تیرا عبد اور نبی ہوں۔ میرا بھی سینہ کشادہ کر دے اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اور میرے کنبے میں سے ایک وزیر بنا دے میرے بھائی علی کو، اسے میرا پشت پناہ بنا دے۔
رکوع: جن لوگوں کو علی علیہ السلام کی ولایت شاق گزرتی ہے وہ لفظ رکوع کے ساتھ اپنی امیدیں وابستہ کرتے ہیں اور وہ اس لفظ کو نماز کے رکوع نہیں، خضوع کے معنوں میں لیتے ہیں اور آیت کے یہ معنی کرتے ہیں: ’’اور وہ جو خضوع کے ساتھ زکوٰۃ دیتے ہیں۔‘‘ حالانکہ زکوٰۃ کے ساتھ خضوع کا کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ خضوع نماز کے ساتھ ہوتا ہے اور زکوٰۃ کے ساتھ خلوص ہوتا ہے۔ جیسا کہ نماز میں خضوع و خشوع کے بارے میں فرمایا:
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴿﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ﴿﴾ (۲۳ مومنون: ۱,۲)
وہ ایمان والے یقینا فلاح پا گئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔
اور زکوٰۃ میں خلوص کے بارے میں فرمایا:
وَ مَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ زَکٰوۃٍ تُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ﴿﴾ (۳۰ روم: ۳۹)
اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیتے ہو پس ایسے لوگ ہی (اپنا مال) دوچند کرنے والے ہیں۔
چنانچہ قرآنی استعمالات میں زکوٰۃ کے ساتھ خشوع و خضوع کا لفظ کبھی استعمال نہیں ہوا۔
اور کہا: جمع کا صیغہ مفرد کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ یہاں وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ جمع کا صیغہ ہے۔ پھر یہی لوگ کہتے ہیں: وَہُمْ يَنْہَوْنَ عَنْہُ وَيَنْــــَٔـوْنَ عَنْہُ ۔۔۔۔ (۶ انعام ۲۶۔ ترجمہ: اور یہ (لوگوں کو) اس سے روکتے ہیں اور (خود بھی) ان سے دور رہتے ہیں۔۔۔۔) (جمع کا صیغہ) حضرت ابو طالب کے عدم ایمان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ گویا کہ جمع کا صیغہ مفرد میں باپ کی قدح کے لیے استعمال ہو سکتا ہے، بیٹے کی مدح کے لیے نہیں ہو سکتا۔
استعمالات قرآن میں متعدد آیات ہیں، جہاں جمع کا صیغہ مفرد کے لیے استعمال ہوا: اَلَّذِیۡنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ ۔۔۔(۳ آل عمران: ۱۷۳) النَّاسُ سے مراد نعیم بن مسعود ہے۔ یَقُوۡلُوۡنَ نَخۡشٰۤی اَنۡ تُصِیۡبَنَا دَآئِرَۃٌ ۔۔۔ (۵ مائدہ: ۵۲۔ ترجمہ: اور کہتے ہیں: ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں ہم پر کوئی گردش نہ آ پڑے۔) میں جمع کا صیغہ عبد اللہ بن ابی کے لیے استعمال ہوا وغیرہ وغیرہ۔
پھر کہا: رکوع میں زکوٰۃ دینا، نماز میں خشوع و خضوع کے منافی ہے۔ جواب یہ ہے کہ مساکین کی فریاد رسی بہترین عبادت ہے۔ حدیث میں آیا ہے: و القربۃ الی اﷲ حب المساکین ۔ (کنز العمال حدیث ۴۳۴۷۹) مساکین سے محبت قرب الٰہی کا باعث ہے۔ مسکین کو مسجد نبویؐ میں کسی نے کچھ نہ دیا تو اس نے اللہ کو پکارا۔ اللہ کی طرف جانے والی آواز اگر علی علیہ السلام نے سن لی تو یہ عبادت بالائے عبادت ہے۔ شیعہ مصادر میں یہ حدیث ہے: أن عمدۃ عبادۃ الاغنیاء اعانۃ الفقراء ۔ (بحار الانوار ۱۹: ۲۶) مالداروں کی بہترین عبادت فقراء کی کمک ہے۔
کہتے ہیں علی کے پاس اتنا مال کہاں تھا کہ زکوٰۃ واجب ہو جائے۔ یہ اعتراض استعمالات قرآن سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے کرتے ہیں۔ قرآنی اصطلاحات میں راہ خدا میں ہونے والے ہر انفاق اور خرچ کو زکوٰۃ کہتے ہیں اور صدقہ بھی کہتے ہیں: خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً ۔۔۔ (۹ توبہ ۱۰۳) ان کے اموال سے صدقہ لیا کرو۔ اور اِنْفاق بھی کہتے ہیں: وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۔ (۲ بقرۃ : ۳) پھر اگر نصاب پورا ہے تو جو زکوٰۃ دی جاتی ہے، وہ صدقہ واجبہ ہے۔ نصاب پورا نہ ہونے کی صورت میں انفاق ہوتا ہے اور وہ زکوٰۃ یا صدقہ مستحبہ ہے:
وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۱۹) لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں؟ کہدیجیے جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ ضرورت سے زیادہ (بچت) پر خمس دینا ہوتا ہے۔ خمس بھی انفاق ہے۔
وَ مَنۡ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ: پس جو لوگ اللہ کی ولایت اور رسول ؐکی ولایت اور
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: کی ولایت میں آتے ہیں، وہ اس حزب کے رکن بنتے ہیں جو غالب آنے والا ہے۔
واضح رہے۔ التولی کے معنی ہیں الاخذ ولیاً ولایت قبول کرنا۔
اہم نکات
۱۔ولایت و حاکمیت، اللہ، رسول ؐاور رکوع میں زکوٰۃ دینے والوں میں منحصر ہے۔ دوستی، محبت اور نصرت کی خاصیت تو تمام مومنین میں موجود ہے۔
۲۔ نماز و زکوٰۃ پر بیک وقت عمل صرف یہاں ہوا ہے۔
۳۔مقام ولایت پر فائز ان ذوات کی ولایت کو قبول کرنے والی ایک خاص جماعت ہو گی جو غالب رہے گی۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 543)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button