مقالات قرآنی

غریب و نادار افراد سے حسن سلوک اور ان کے حقوق

الکوثر فی تفسیر القران سے اقتباس
سائل کو نہ جھڑکو
وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ ﴿ؕالضحیٰ:۱۰﴾
اور سائل کو جھڑکی نہ دیں،
تشریح کلمات
نہر: ( ن ھ ر ) النھر سختی کے ساتھ جھڑکی دینا۔
تفسیر آیات
دست سوال دراز کرنے والا کوئی بھی ہو اس نے اپنی آبرو ہتھیلی پر رکھ کر آپ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہے تو آیت میں یہ حکم آیا کہ جھڑکی دے کر اس کی عزت نفس کو مزید مجروح نہ کرو۔ اگر آپ سائل کی حاجت پوری نہیں کر سکتے ہیں تو نرم گفتاری سے اس سے معذرت کر لیں۔
قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ وَّ مَغۡفِرَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ صَدَقَۃٍ یَّتۡبَعُہَاۤ اَذًی۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۶۳)
نرم کلامی اور درگزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد (خیرات لینے والے کو) ایذا دی جائے۔
حدیث رسول ہے:
اَعْطُوا السَّائِلَ وَ لَوْ جَائَ عَلَی فَرَسٍ۔ (مستدرک الوسائل: ۷: ۲۰۳۔ موطا مالک حدیث ۱۵۸۳)
سائل کو دے دو خواہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔
ہمارے زمانے میں کہا جائے گا: خواہ وہ گاڑی پر آئے۔ چونکہ عصر رسول میں متمول لوگ گھوڑے پر آتے تھے، آج گاڑی پر آتے ہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 10 صفحہ 204)
نیک لوگوں کے اموال میں ناداروں کا حصہ
وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ﴿الذاریات: ۱۹﴾
اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کے لیے حق ہوتا تھا
متقین کی تیسری صفت تھی وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ: وہ شب زندہ داری کے ساتھ ساتھ سائل نواز اور محروم نواز بھی ہوتے ہیں کہ ان کے مال میں سوال کرنے والے اور محروم کا ایک حق اور حصہ ہوتا ہے۔ یہ حق خمس اور زکوٰۃ کے علاوہ ہے۔
مروی ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال ہوا: حق معلوم کیا ہے جو ہمارے ذمے ہے؟ فرمایا:
ھُوَ الشَّیْئُ یَعْمَلُہُ الرَّجُلُ فِی مَالِہِ یُعْطِیہِ فِی الْیَوْمِ اَوْ فِی الْجُمْعَۃِ اَوْ فِی الشَّھْرِ قَلَّ اَوْکَثُرَ غَیْرَ اَنَّہُ یَدُومُ عَلَیْہِ۔۔۔۔ (الکافی۳: ۴۹۹)
یہ وہ چیز ہے جو انسان اپنے مال کے سلسلے میں انجام دیتا ہے روزانہ یا ہر جمعہ یا ہر ماہ اپنے مال میں سے غریبوں کو دیتا ہے کم ہو یا زیادہ مگر یہ ہے ہمیشہ رہے۔
اہم نکات
۱۔ جنت آرزوؤں سے نہیں ملتی بلکہ تقویٰ، رات کی عبادت، استغفار اور غریب پروری سے ملتی ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 381)
جہنم میں جانے کی ایک وجہ مسکینوں کا خیال نہ رکھنا
اِنَّہٗ کَانَ لَا یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ الۡعَظِیۡمِ وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ﴿ؕالحاقۃ: 33، 34﴾
یقینا یہ خدائے عظیم پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔
تفسیر آیات
لوگ جہنم میں اس لیے جا رہے ہیں کہ یہ لوگ دو صفات کے حامل تھے: کفر اور بخل۔ کفر کے ذریعے یہ لوگ اللہ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے تھے اور بخل کی وجہ سے وہ مخلوق سے لاتعلق تھے اور یہ فقرہ ’’نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا‘‘ قابل توجہ ہے کیونکہ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کو نہ صرف مسکینوں کا خیال رکھنا چاہیے بلکہ دوسروں کو بھی اس امر کی ترغیب دینی چاہیے۔
یہ موقف دراصل کافر کا ہے جسے وہ مال اور مسکین کے بارے میں اپناتا ہے۔ کافر کہتے ہیں:
قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ یَشَآءُ اللّٰہُ۔۔۔۔ (۳۶ یٰسٓ : ۴۷)
کفار مومنین سے کہتے ہیں: کیا ہم اسے کھلائیں جسے اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا؟
اسی طرح جب کافروں سے جہنم کی طرف جاتے ہوئے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس چیز نے جہنم میں داخل کر دیا تو وہ جواب دیں گے:
وَ لَمۡ نَکُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡکِیۡنَ ﴿۴۴﴾ (۷۴ مدثر: ۴۴)
اور ہم مسکین کو کھلاتے نہیں تھے۔
یہاں ایک سوال آتا ہے کہ یہ سورہ مکی ہے اور مکہ میں ابھی زکوۃ کا حکم نہیں آیا تھا تو مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینے پر عذاب کیسے؟
جواب: مسکین کے بارے میں یہ موقف کافر کا ہے جب کہ ایمان کا لازمہ غریب پروری ہے۔ چنانچہ سورۃ الذاریات آیت ۱۹ میں متقین کے اوصاف بیان فرماتے ہوئے فرمایا:
وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ﴿۱۹﴾
اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کے لیے حق ہوتا تھا۔
اور سورۃ المعارج آیات ۱۹ تا ۲۵ میں فرمایا:
اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ دَآئِمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ ﴿۲۵﴾
انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے سوائے نمازگزاروں کے جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں اور جن کے اموال میں معین حق ہے سائل اور محروم کے لیے۔
چنانچہ اسی آیت میں فرمایا: خدائے عظیم پر ایمان نہ لانے کا لازمہ یہ تھا کہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا۔ ایک جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل جہنم، نماز اور غریب پروری کی وجہ سے ملنے والے اہل جنت کے درجات دیکھیں گے تو بڑی حسرت سے کہیں گے: ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور غریب پروری نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا مسکین پر رحم نہ کرنا، عدم ایمان کی علامت کے طور پر موجب عذاب ہے۔ ولم ار احداً تصدی لھذہ الاثارۃ و الاجابۃ۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 292)
وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ؕ﴿الماعون؛3﴾
اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔
تفسیر آیات
معاد کا منکر مساکین سے ہمدردی نہیں رکھتا۔ چنانچہ وہ مسکینوں کو کھانے کی چیزیں فراہم کرنے میں نہ خود دلچسپی لیتا ہے، نہ دوسروں کو اس کی ترغیب دیتا ہے۔
آیت میں طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ فرمایا، اطعام المسکین نہیں فرمایا۔ اطعام سے طعام کا مفہوم وسیع تر ہے۔ اطعام کھلانا، ایک وقت کا کھانا کھلایا، اطعام ہو گیا جب کہ طعام کی ترغیب کا مطلب یہ ہے کہ کھانے کی چیزیں فراہم کرنا۔ خواہ اپنے ہاتھ سے کھلائے یا نہ کھلائے۔
دوسرا نکتہ بعض مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ کہنے سے یہ عندہ ملتا ہے کہ طعام مسکینوں کا حق ہے۔ جیسے فرمایا:
وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ۔۔۔ (۵۱ ذاریات: ۱۹)
اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کے لیے حق ہوتا تھا۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 10 صفحہ 304 )
مسکینوں پر احسان جتلانے کی مذمت
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی ۙ کَالَّذِیۡ یُنۡفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِؕ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفۡوَانٍ عَلَیۡہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلۡدًا ؕ لَا یَقۡدِرُوۡنَ عَلٰی شَیۡءٍ مِّمَّا کَسَبُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿البقرہ:۲۶۴﴾
اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کرو جو اپنا مال صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا، پس اس کے خرچ کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سے مٹی ہو، پھر اس پر زور کا مینہ برسے اور اسے صاف کر ڈالے، (اس طرح) یہ لوگ اپنے اعمال سے کچھ بھی اجر حاصل نہ کر سکیں گے اور اللہ کافروں کی راہنمائی نہیں کرتا۔
تشریح کلمات
صَفۡوَانٍ:( ص ف و ) صاف اور چکنا پتھر یا چٹان۔
وَابِلٌ:( و ب ل ) زور کی بارش۔
صَلۡدًا:( ص ل د ) وہ چکنا پتھر یا چٹان جس پر کچھ پیدا نہ ہو سکے۔
تفسیر آیات
۱۔ احسان جتانا، بدخصلت، گھٹیا اورکم ظرف ہونے کی علامت ہے۔ احسان جتانے والے کی نیکی درحقیقت احسان نہیں، بلکہ ایک سودے بازی ہے تاکہ کوئی مفاد حاصل کیا جا سکے۔ کم ازکم یہی کہ اپنی بڑائی منوائی جائے۔ اللہ کے ہاں ایسے صدقات کا برباد اور باطل ہونا ایک طبیعی امر ہے۔
۲۔ اسی طرح دکھاوے کے طورپر خرچ کرنا بھی ایک قسم کی سودے بازی ہے، جس کے عوض شہرت کا حصول مطلوب ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقی انفاق نہیں ہے۔ لہٰذا ریاکار کے انفاق کا باطل اور اکارت ہونا بھی ایک طبیعی امر ہے۔
۳۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ انفاق جذبۂ ایثار اور انسانی اقدار پر مبنی ایک انسانی عمل ہو، جس میں فعلی حسن کے ساتھ ساتھ فاعلی حسن بھی موجود ہو۔ یعنی اس نیک عمل کے پیچھے پاک جذبات کا رفرما ہوں، ورنہ اگر اس عمل کے پیچھے ناپاک عزائم کارفرما ہوں تو ایسے عمل کا باطل ہونا ایک لازمی امر ہے۔
۴۔ گزشتہ تینوں آیات میں ایک مشترکہ بات یہ سامنے آئی کہ خیرات و صدقات کے بعد ایذا رسانی اور دل آزاری نہیں ہونی چاہیے۔ پہلی آیت میں انفاق کے موجب اجر و ثواب ہونے کے لیے مذکورہ برے عمل کو چھوڑ نا ضروری قرار دیا گیا۔ دوسری آیت میں فقط خوش کلامی کو اس انفاق سے بہتر قرار دیا گیا ہے جس کے بعد احسان جتایا جائے یا تکلیف پہنچائی جائے۔ تیسری آیت میں اسے ریاکاری اور عدم ایمان کے مترادف قرار دیاگیاہے۔
معلوم ہوا کہ اسلام احترام آدمیت اور انسانی اقدار کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ کسی انسان کا وقار مجروح کرنا اورا س کی شخصیت اور انسانی حیثیت کو ٹھیس پہنچانا اللہ کے نزدیک کتنا مذموم عمل ہے۔
۵۔ اس آیت میں مذکورہ افراد کے غلط اور غیر اخلاقی انفاق کو ایک ایسی سخت چٹان کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس پرمٹی کی ایک معمولی سی تہ ہو اور اس میں کسی فصل کی جڑوں کے لیے جائے استقرار نہ ہو اور بارش، رحمت کی جگہ اس کے حقیقی چہرے سے نقاب اٹھانے کا باعث بن جائے۔ بالکل اسی طرح یہ انفاق بھی بظاہر اچھا عمل لگتا ہے لیکن منت جتانے اور ایذا پہنچانے سے معلوم ہوتاہے کہ اس عمل کے پیچھے ایک بدخصلت، ناملائم اور پتھر جیسا انسان چھپا ہوا ہے۔
اہم نکات
۱۔ احسان جتانا، دکھاوا اور مبداء و معاد پر عدم ایمان، انفاق کے اجر و ثواب کو مٹا دیتے ہیں: لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ ۔۔۔۔
۲۔ ایذا رسانی، احسان جتانا اور ریاکاری قساوت قلب کے اسباب ہیں جو کفر کا پیش خیمہ ہے۔ فَمَثَلُہٗ ۔۔۔ الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ ۔
۳۔ برے مقاصد کے تحت انجام دیے گئے ظاہری اعمال پر اخروی ثواب نہیں ملتا۔ لَا یَقۡدِرُوۡنَ عَلٰی شَیۡءٍ مِّمَّا کَسَبُوۡا ۔۔۔۔
تحقیق مزید:
مستدرک الوسائل ۷: ۲۳۴ باب عدم جواز المن ۔ بحار الانوار ۵ : ۳۳۳ باب وعد الوعید ۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 618)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button