سلائیڈرقرآنیاتمقالات قرآنی

یادِ خدا، اطمینان قلب و ضمیر کا واحد ذریعہ

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس

1۔ اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَطۡمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ بِذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ﴿الرعد:۲۸﴾

( یہ لوگ ہیں) جو ایمان لائے ہیں اور  اور ان کے دل یادِ خدا سے مطمئن ہو جاتے ہیں یاد رکھو! یاد خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔

تفسیر آیات

آیت وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ اَنَابَ کی تفصیل ہے۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو ایمان لے آتے اور ذکر خدا سے اطمینان قلب حاصل کرتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ذکر خدا سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے اور وہ ہر بات پر معجزے کامطالبہ نہیں کرتے۔

انسان کے ظاہری وجود میں ایک اور انسان ہے جسے ضمیر، فطرت، قلب، وجدان اور جبلت کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ جس طرح ظاہری انسان کے تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنے سے اسے سکون و اطمینان ملتا ہے، اسی طرح داخلی انسان کے بھی تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنے سے اسے سکون ملتا ہے۔ جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتا ہے چونکہ پانی اس کے فطری تقاضوں کے عین مطابق ہے۔

کبھی ظاہری انسان اپنے باطنی انسان، ضمیر کے تقاضوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرتا ہے تو باطنی انسان، ضمیر، وجدان اس ظاہری انسان کی سرزنش کرتا ہے اور ضمیر و وجدان کی عدالت میں پیش کر کے اس کا محاسبہ کرتا ہے جسے ہم ضمیر کی ملامت کہتے ہیں۔ اس صورت میں ان انسانوں میں داخلی جنگ چھڑ جاتی ہے اور انسان اضطراب و بے سکونی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر یہ ظاہری انسان اپنے داخلی انسان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے، مثلاً ذکر و عبادت الٰہی میں مصروف ہو جاتا ہے تو اس سے ظاہری و باطنی انسان میں ہم آہنگی اور باہمی امن و آشتی برقرار رہتی ہے۔ اسے سکون و اطمینان کہتے ہیں۔

اس لیے ہر وہ رابطہ جو غیر اللہ کے ساتھ قائم ہوتا ہے، انسان کو امن و سکون نہیں دے سکتا بلکہ اس کی بے سکونی میں اضافہ کرتا ہے۔ مثلاً انسان مال دولت کی فراوانی میں اپنا سکون تلاش کرتا ہے لیکن مال و دولت میں جس قدر اضافہ ہوتا ہے، انسان کی بے سکونی میں بھی اسی قدر اضافہ ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان کو کسی محدود سے سکون نہیں ملتا جب تک اللہ کی لامحدود ذات سے رابطہ نہ کرے۔

ذکر کی تفسیر محبت سے ہوئی ہے۔ اللہ کا ذکر اس وقت ہو گا جب اللہ سے محبت ہو گی۔ چنانچہ الدرالمنثور ۴: ۵۸ میں آیا ہے: ابن مردویہ نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ؐنے فرمایا:

ذاک من احب اللّٰہ تعالیٰ و رسولہ و احب صاہل بیتی صادقاً غیر کاذب و احب المؤمنین شاھداً الا بذکر اللّٰہ یتحابون ۔

اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول اور میرے اہل بیت سے سچی محبت کریں اور غیبت و حضور میں تمام مؤمنین سے بھی محبت کریں۔ دیکھو اللہ ہی کے ذکر کے ذریعے یہ ایک دوسرے سے محبت کریں گے۔

اس حدیث میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جو ہستیاں اللہ کے ذکر کے لیے وسیلہ ہیں وہ بھی ذکر اللہ میں شامل ہیں۔

اعتراض: اس آیت میں فرمایا کہ ذکر خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا: ذکر خدا سے مؤمنین کے دل خوف زدہ ہو جاتے ہیں:

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ۔۔۔۔ (۸ انفال: ۲)

مؤمن تو صرف وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں۔۔۔۔

تو کیا ان آیات میں تضاد نہیں ہے؟

جواب: جی ہاں ذکر خدا کے وقت مؤمن کو اپنی لغزشیں اور کوتاہیاں نظر آتی ہیں تو دل کانپ جاتے ہیں۔ یہ خوف انسان میں اس وقت آتا ہے جب اس کا ضمیر اور وجدان بیدار ہو اور یہ تعمیری خوف ہے۔ اس خوف کی وجہ سے دوسرے تمام خوف سے نجات مل جاتی ہے اور تعمیری خوف پروان چڑھتا ہے۔ اس خوف کی دوسری وجہ عظمت الٰہی کا تصور ہے۔ اللہ کی معرفت سے سرشار لوگ جب اللہ کی بارگاہ میں برائے عبادت حاضر ہوتے ہیں تو عظمت الٰہی کی وجہ سے لرزہ براندام ہوتے ہیں۔ اس خوف سے سکون ملتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خوف خدا نہ رکھنے والے بے سکون ہوتے ہیں، ہر جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اورمضطرب رہتے ہیں۔ جب کہ خوف خدا سے گریہ کرنے والے سکون کی نیند سوتے ہیں۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے:

و من اعظم النعم علینا جریان ذکرک علی السنتنا ۔۔۔۔ ( بحار ۹۱: ۱۵۱۔ مناجاۃ الذاکرین۔ صحیفہ سجادیہ)

تیری عظیم نعمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ تیرا ذکر ہماری زبانوں پر جاری ہے۔

وَ اَنَا مَعْ عَبْدِی اِذَا ذَکَرَنِی فَمَنْ ذَکَرَنِی فِی نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہُ فِی نَفْسِی وَ مَنْ ذَکَرَنِی فِی مَلَائٍ ذَکَرْتُہُ فِی مَلَائٍ خَیْرٍ مِنْہُ ۔۔۔۔ ( مستدرک الوسائل ۵: ۲۹۸)

جب میرا بندہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں۔ پس جس نے اپنے نفس میں مجھے یاد کیا تو میں اسے اپنے نفس میں یاد کروں گا اور جس نے برملا مجھے یاد کیا تو میں اس سے بہتر اسے برملا یاد کروں گا۔

اہم نکات

۱۔ قلب و ضمیر کو صرف ذکر خدا سے سکون و اطمینان ملتا ہے۔

(الکوثر فی تفسیر القران جلد 4 صفحہ 293)

پرسکون زندگی کا راز ذکر خدا

2۔ وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی ( طہ:124)

ترجمہ: اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔

تفسیر:

وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ: جو قلب ذکر خدا سے معطر نہ ہو اسے زندگی کا لطف نہیں آتا۔ یہ قلب اپنے خالق سے بہت مانوس ہوتا ہے۔ انسان اپنے وجود کے تمام زاویوں کے ماوراء ایک شعور رکھتا ہے۔ یہ شعور اپنے خالق سے مانوس ہونا ہے۔ جس ہستی نے اس کے وجود کے تاروں کو جوڑا ہے، اس ہستی کا جس قدر قرب حاصل ہو اس قدر شعور کو سکون و سرور مل جاتا ہے اور اس سے جدائی اور دوری کی صورت میں یہ بے سکون ہو جاتا ہے خواہ دنیا کی ساری دولت اور حکومت اس کو میسر آ جائے۔

اس سے یہ نکتہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ انسان صرف اس دنیا کی زندگی کے لیے پیدا نہیں ہوا کیونکہ اس دنیا کی ریل پیل سے اس کا جی نہیں بھرتا بلکہ وہ مزید بے سکون ہو جاتا ہے۔اگر انسان صرف اسی دنیاوی زندگی کے لیے پیدا ہوا ہوتا تو اس دنیا کی چیزوں سے اسے اس طرح سکون ملنا چاہیے تھا جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتا ہے۔

لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی: دنیا کی زیب و زینت میں انہماک کی وجہ سے اس دنیا دار کی چشم ضمیر نابینا ہو جاتی ہے اور قیامت کے دن انسان اسی حالت میں محشور ہو جاتا ہے جس حالت میں اس نے دنیا کی زندگی گزاری ہے۔ لہٰذا دنیا میں اس کی حسی بصارت سالم تھی لیکن قیامت کے روز دنیا میں اس کے ضمیر اور وجدان کی کیفیت کے مطابق معاملہ ہو گا۔

(الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 208)

3۔ الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(آل عمران:191)

جو اٹھتے بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں، (اور کہتے ہیں:) ہمارے رب! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا، تیری ذات (ہر عبث سے) پاک ہے، پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے۔

الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ: دوسری آیت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ صاحبان عقل پر جب اللہ کی نشانیاں واضح ہو جاتی ہیں تو درج ذیل نتائج مترتب ہوتے ہیں:

i۔ ان کے قلب و ضمیر میں ذکر خدا رچ بس جاتاہے جو ایمان و ایقان کالازمہ ہے۔ ہر حال میں ان کے ذہن و شعور میں یاد خدا حاوی رہتی ہے۔ ان میں تین حالتوں کا ذکر ہے، جن سے انسان خالی نہیں ہوتا۔

الف: قِیٰمًا: چل رہا ہو یا ویسے کھڑا ہو یا کام کاج کر رہا ہو۔

ب: قُعُوۡدًا: بیٹھا ہوا ہو، جس کام میں مشغول ہو، کوئی معاملہ کررہا ہو، اللہ کو نہ بھولے۔ یعنی حکم خدا کے خلاف قدم نہ اٹھائے۔

ج: وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ: اگر لیٹا ہوا ہو تو کروٹوں پر بھی یاد خدا کرے۔ کروٹ بدلتے ہوئے یا رحمن، یا رحیم کہدے۔

(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 224)

4۔ فَاِذَا قَضَیۡتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِکُمۡ ۚ فَاِذَا اطۡمَاۡنَنۡتُمۡ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ ۚ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتۡ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا﴿النساء:۱۰۳﴾

پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرو، پھر جب اطمینان حاصل ہو جائے تو (معمول کی) نماز قائم کرو، بے شک وقت کی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنا مومنین پر فرض ہے۔

تشریح کلمات

کِتٰبًا🙁 ک ت ب )کتاب کے متعدد معانی میں سے ایک معنی حتمی اور اٹل فیصلہ ہے:

قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ۔۔۔ (۹ توبہ : ۵۱)

کہدیجیے: اللہ نے ہمارے لیے جو مقدر فرمایا ہے اس کے سوا ہمیں کوئی حادثہ پیش نہیں آتا۔

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ۔۔ (۵۸ مجادلہ : ۲۱)

اللہ نے لکھ دیا ہے: میں اور میرے رسول ہی غالب آ کر رہیں گے۔

تفسیر آیات

فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ: یعنی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی ہر حالت میں مومن کو یاد خدا میں رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں تین حالتوں کا ذکر ہے۔ جن سے انسان خالی نہیں ہوتا یا حالت قیام میں ہوتا ہے یا بیٹھے ہوئے ہوتا ہے یا لیٹے ہوئے۔ ہر حالت میں ذکر خدا ممکن ہے۔ اگر راستہ چل رہا ہے، ساتھ ذکر بھی ہو سکتا ہے۔ اگر بیٹھا ہوا ہے یا لیٹا ہوا ہے تو بھی ذکر خدا ہو سکتا ہے۔ ذکر خدا کے ساتھ کسی کام کا ٹکراؤ نہیں ہوتا۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ سالم شخص کھڑا، مریض بیٹھ کر، یہ بھی ممکن نہ ہوا تو لیٹ کر نماز پڑھے۔ (الوسائل ۵: ۴۸۷)

بظاہر مَّوۡقُوۡتًا سے مراد وقت کی پابندی ہے کہ ہر نماز کے لیے ایک خاص وقت معین ہے۔ اس لیے وقت سے پہلے اور بعد میں نہیں پڑھی جا سکتی اور کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑی جا سکتی۔ یہاں دو چیزیں واجب ہیں: ایک تو نماز پڑھنا اور دوسری وقت پر پڑھنا۔ اگر کسی وجہ سے وقت پر نہیں پڑھی جا سکی تو نماز بطور قضا بہرحال پڑھنا واجب ہے۔

حضرت محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

اِنَّ لِلصَّلَاۃِ وَقْتاً وَ الْأَمْرُ فِیْہِ وَاسِعٌ یُقَدَّمُ مَرَّۃً وَیُؤَخَّرُ مَرَّۃً اِلَّا الْجُمُعَۃَ فَاِنَّمَا ھُوَ وَقْتٌ وَاحِدٌ ۔ (مستدرک الوسائل ۳ : ۱۰۸)

نماز کے لیے وقت مقرر ہے، تاہم اس حکم میں گنجائش ہے۔ کبھی پہلے وقت میں، کبھی کچھ دیر سے نماز ہو سکتی ہے، سوائے جمعہ کے۔ اس کے لیے ایک ہی وقت مقرر ہے۔

(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 391)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button