سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

زندگی کے تین میدانوں میں امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد

آیت اللہ سید علی خامنہ ای
امام حسین علیہ السلام کی زندگی کے تین دور
سب سے پہلے مرحلے پر یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ واقعہ کتنا عظیم ہے تاکہ اِس کہ علل و اسباب کو تلاش کیا جائے۔ کوئی یہ نہ کہے کہ واقعہ کربلا میں صرف قتل ہوا ہے اور چند افراد قتل کردیے گئے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب زیارت عاشورا میں پڑھتے ہیں کہ
’’لَقَد عَظُمَتِ الرَّزِيَّةُ وَ جَلَّت وَ عَظُمَتِ المُصِیبَةُ ‘‘
یہ مصائب و مشکلات بہت بڑی تھیں۔ ’’رزیۃ‘‘ یعنی بہت عظیم حادثہ؛ یہ حادثہ اور واقعہ بہت عظیم اور کمر توڑ دینے والا اور اپنی نوعیت کا بے نظیر واقعہ ہے ۔ لہٰذا اِس واقعہ کی عظمت و بزرگی کا اندازہ لگانے کیلئے میں سید الشہدا کی حیات طیبہ سے تین ادوار کو اجمالی طور پر آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔ آپ ملاحظہ فرمائیے کہ سید الشہدا کی حیات کے اِن تین ادوار کا مطالعہ کرنے والا شخص اِن تینوں زمانوں میں ایک ایسی شخصیت کو سامنے پاتا ہے کہ جس کیلئے یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ نوبت یہاں تک جا پہنچے گی کہ اِس شخصیت کے جدّ کی امت کے کچھ افراد روز عاشورا اُس کا محاصرہ کرلیں اور اُسے اور اُس کے اصحاب و اہل بیت کا نہایت سفاکانہ اور دردناک طریقے سے قتل عام کریں اور خواتین کو اسیر و قیدی بنالیں!
اِن تینوں زمانوں میں سے ایک دور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کا زمانہ ہے ، دوسرا زمانہ آپ کی جوانی یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد پچیس سال اور امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت تک کا زمانہ ہے جبکہ تیسرا زمانہ امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد بیس سال کے عرصے پر محیط ہے۔
دورِ طفولیت
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے اِس نورانی دور میں امام حسین علیہ السلام حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور چشم تھے۔ پیغمبر اکرم ۰ کی ایک صاحبزادی تھیں بنام فاطمؑہ کہ اُس زمانے کے تمام مسلمان جانتے تھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے بارے میں فرمایا کہ
’’اِنَّ اللّٰهَ لِيَغضِبَ لِغَضَبِ فَاطِمَة وَ يَرضی لِرِضَاهَا ‘‘
(بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۴۴)
’’اگر کسی نے فاطمؑہ کو غضبناک کیا تو اُس نے غضب خدا کو دعوت دی ہے اور اگر کسی نے فاطمؑہ کو خوش کیا تو اُس نے خدا کو خوشنود کیا‘‘۔ توجہ فرمائیے کہ یہ صاحبزادی کتنی عظیم المرتبت ہے کہ حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجمع عام میں اور کثیر تعداد کے سامنے اپنی بیٹی کے بارے میں اِس طرح گفتگو فرماتے ہیں یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔
پیغمبر اکرم ؐنے اپنی اِس بیٹی کا ہاتھ اسلامی معاشرے کے اُس فرد کے ہاتھ میں دیا کہ جو عظمت و بلندی اور اپنی شجاعت و کارناموں کی وجہ سے بہت بلند درجے پر فائز تھا، یعنی علی ابن ابی طالب علیہ السلام۔ یہ جوان، شجاع ، شریف، سب سے زیادہ با ایمان، مسلمانوں میں سب سے زیادہ شاندار ماضی کاحامل، سب سے زیادہ شجاع اور تمام نبرد و میدان عمل میں آگے آگے تھا ۔ یہ وہ ہستی ہے کہ اسلام جس کی شمشیر کا مرہونِ منت ہے، یہ جوان ہر اُس جگہ آگے آگے نظر آتا ہے کہ جہاں سب (بڑے بڑے سورما اور دلیر)پیچھے رہ جاتے ہیں، اپنے مضبوط ہاتھوں سے گھتّیوں کو سلجھاتا ہے اور راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کوتہس نہس کردیتا ہے؛ یہ وہ عزیز ترین اور محبوب ترین داماد ہے کہ جسے خدا کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی دی ہے ۔ اُس کی یہ محبوبیت رشتہ داری اور اقربا پروری اور اِسی جیسے دیگر امور کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اُس شخصیت کی عظمت کی وجہ سے ہے۔ اِس عظیم جوان اور اِس عظیم المرتبت بیٹی سے ایک ایسا بچہ جنم لیتا ہے کہ جو حسین ابن علی علیھما السلام کہلاتاہے۔
البتہ یہی تمام باتیں اور عظمتیں امام حسن علیہ السلام کے بارے میں بھی ہیں لیکن ابھی ہماری بحث صرف سید الشہدا علیہ السلام کے بارے میں ہے۔ حسین ابن علی علیھما السلام،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ عزیزہیں۔ حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو دنیائے اسلام کے سربراہ ، اسلامی معاشرے کے حاکم اور تمام مسلمانوں کے محبوب رسول اور قائد ہیں، اِس بچے کو اپنی آغوش میں لیتے ہیں اور اُسے اپنے ساتھ مسجد میں لےجاتے ہیں۔ سب ہی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ بچہ ، تمام مسلمانوں کی محبوب ترین ہستی کے دل کا چین، آنکھوں کا نور اور اُس کا محبوب ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، منبر پر خطبہ دینے میں مصروف ہیں، اِس بچے کا پیر کسی چیز سے الجھتا ہے اور زمین پر گر جاتا ہے ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لاتے ہیں، اُسے اپنی گود میں اٹھا کر پیار اور نوازش کرتے ہیں؛ یہ ہے اِس بچے کی اہمیت و حقیقت!
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھ سات سال کے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ
’’سَيِّدی شَبَابِ اَهلِ الجَنَّةِ ‘‘
’’یہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں ‘‘۔
(بحار الانوار ، ج۱۰، ص ۳۵۳)
(یا رسول اللہ!) یہ تو ابھی بچے ہیں، ابھی تو سن بلوغ کوبھی نہیں پہنچے اور انہوں نے جوانی کی دہلیزمیں ابھی تک قدم نہیں رکھا ہے؛ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ جوانان جنت کے سردار ہیں یعنی یہ بچے چھ سات سال میں بھی ایک جوان کی مانند ہیں، یہ سمجھتے ہیں، ادراک رکھتے ہیں ،عملی اقدام کرتے ہیں اور شرافت و عظمت اِن کے وجود میں موجزن ہے۔ اگر اُسی زمانے میں کوئی یہ کہتا کہ یہ بچہ، اِسی پیغمبر کی اُمت کے ہاتھوں بغیر کسی جرم و خطا کے قتل کردیا جائے گا تو اُس معاشرے کا کوئی بھی شخص اِس بات کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا۔ جیسا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا اور گریہ کیا تو سب افراد نے تعجب کیا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟!
امام حسین علیہ السلام کا دورانِ جوانی
دوسرا دور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد سے امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت تک کا پچیس سالہ دور ہے۔ اِس میں یہ شخصیت، جوان، رشید، عالم اورشجاع ہے ، جنگوں میں آگے آگے ہے، عالم اسلام کے بڑے بڑے کاموں میں حصہ لیتا ہے اور اسلامی معاشرے کے تمام مسلمان اِس کی عظمت وبزرگی سے واقف ہیں۔ جب بھی کسی جواد و سخی کا نام آتا ہے تو سب کی نگاہیں اِسی پر متمرکز ہوتی ہیں، مکہ ومدینے کے مسلمانوں میں، ہر فضیلت میں اور جہاں جہاں اسلام کا نور پہنچا، یہ ہستی خورشید کی مانند جگمگا رہی ہے، سب ہی اُس کا احترام کرتے ہیں، خلفائے راشدین ۱ بھی امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں ، اِن دونوں کی عظمت و بزرگی کے قولاً و عملاً قائل ہیں، ان دونوں کے نام نہایت احترام اور عظمت سے لیے جاتے ہیں ، اپنے زمانے کے بے مثل و نظیر جوان اور سب کے نزدیک قابل احترام۔ اگر اُنہی ایام میں کوئی یہ کہتا کہ یہی جوان (کہ جس کی آج تم اتنی تعظیم کررہے ہو) کل اِسی امت کے ہاتھوں قتل کیا جائے گا تو شاید کوئی یقین نہ کرتا۔
امام حسین علیہ السلام کا دور غربت
سید الشہدا کی حیات کا تیسرا دور، امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد کا دور ہے، یعنی اہل بیت کی غربت و تنہائی کا دور۔ امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام مدینے تشریف لے آئے۔حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام بیس سال تک تمام مسلمانوں کے معنوی امام(۱) رہے
اور آپ تمام مسلمانوں میں ایک بزرگ مفتی کی حیثیت سے سب کیلئے قابل احترام تھے۔ آپ عالم اسلام میں داخل ہو نے والوںکی توجہ کا مرکز، اُن کی تعلیم وتر بیت کا محور اوراہل بیت سے اظہا رعقیدت و محبت رکھنے والے افراد کے توسل و تمسک کے نقطہ ارتکاز کی حیثیت سے مدینے میں زندگی بسر کرتے رہے ۔ آپ ، محبوب، بزرگ، شریف، نجیب اور عالم وآگاہ شخصیت کے مالک تھے۔
آپ نے معاویہ کو خط لکھا، امام حسین علیہ السلام اگر کسی بھی حاکم کو تنبیہ کی غرض سے خط تحریر فرماتے تو عالم اسلام کے نزدیک اُس کی سزا موت تھی، معاویہ پو رے احترام کے ساتھ یہ خط وصول کرتاہے، اُسے پڑھتا ہے ، تحمل کرتا ہے اور کچھ نہیں کہتا۔ اگر اُسی زمانے میں کوئی یہ کہتا کہ آئندہ چند سالوں میں یہ محترم ، شریف اور نجیب و عزیز شخصیت کو کہ جو تمام مسلمانوں کی نگاہوں میں اسلام وقرآن کی جیتی جاگتی تصویر ہے، اسلام و قرآن کے اِنہی ماننے والوں کے ہاتھوں قتل کردیا جائے گا اور وہ بھی اُس دردناک طریقے سے کہ جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا تو کوئی بھی اِس بات پر یقین نہیں کرتا۔ لیکن اپنی نوعیت کا عجیب و غریب ، حیرت انگیز اور یہی ناقابل یقین واقعہ رونما ہوا اور کن افراد کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوا؟ وہی لوگ جو اُس کی خدمت میں دوڑ دوڑ کر آتے تھے، سلام کرتے تھے اور اپنے خلوص کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اِن (متضاد) باتوں کا کیا مطلب ہے؟ اِ س کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ اِن پچاس سالوں میں معنویت اور اسلام کی حقیقت سے بالکل خالی ہوگیاتھا، یہ معاشرہ صرف نام کا اسلامی تھا لیکن باطن بالکل خالی اور پوچ اور یہی خطرے کی سب سے بڑی بات ہے۔ نمازیں ہورہی ہیں، نماز باجماعت میں لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے، لوگوں نے اپنے اوپرمسلمانی کا لیبل لگایا ہوا ہے اور کچھ لوگ تو اہل بیت کے طرفدار اور حمایتی بھی بنے ہوئے ہیں !!
کتاب "امام حسین علیہ السلام دلربائے قلوب” سے اقتباس

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button